الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جامع الازہر الشریف، حال اور ماضی کے آئینے میں

 

بہت سے مسلمان،  بالخصوص مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان، یہ سمجھتے ہیں کہ مصر کا موجودہ جامعۃ الازہر ہی قدیمی " جامع الازہر الشریف "ہے، لیکن بات ایسی  نہیں۔ بلکہ قدیم "جامع  الازہر" کوایک جدید یونیورسٹی میں تبدیل کیا گیا ہے، جو مختلف ایجوکیشنل شعبہ جات پر مشتمل ہے اور شرعی علوم کی تدریس بھی انہی شعبہ جات میں  کی جاتی ہے۔  لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ آج کا جامعۃ الازہر شرعی علوم کی تدریس کے لیے ہی مخصوص ہے، بلکہ  عالم اسلام کی دوسری یونیورسٹیوں کی مانند یہ بھی ایک یونیورسٹی ہے، جہاں ایک شعبہ کلیۃ الشریعۃ و علوم الدین کے نام سے موجود ہے۔   "جامع الازہر الشریف" کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا کام اس وقت شروع ہوا جب مسلم ممالک پر استعماری ممالک نے یلغار کرکے اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا تھا۔ ان استعماری ممالک نے مصر پر قبضہ کر کے  اپنے ایجنٹ حکمرانوں کو مقرر کیا،جن کا اصل کام اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ تھا۔اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی "جامع الازہر" کی تبدیلی کا کام شروع ہوا، جس کا مقصد "الازہر الشریف" کو ایک ایسے تعلیمی ڈھانچے کے حامل ادارے میں بدل دینا تھا جہاں جدید نظاموں کو پنپنے دیا جائے۔ تبدیلی کے اس عمل کی سربراہی کئی علماء نے کی ۔ ان علماءکا پیشرو محمد عبدہٗ تھا ، وہ جمال الدین الافغانی کا شاگرد  اور میسونک  لاج  کا  ممبر تھا۔ انہوں نے ہی 6رجب  1312 ھ میں اس ادارے  کا بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا تھا۔ اس کے بعد 1911ء میں قانون نمبر 10 کا اجرا ہوا، محمد عبدہٗ نے یہاں تعلیم کو منظم کیا اور اس کے لیے پیریڈز متعین کیے۔ تبدیلی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے1930ء میں قانون نمبر 49 کااجرا کیا گیا۔ اسی قانون کے تقاضے کے پیش نظر الازہر کے تین شعبہ جات قائم کیے گئے؛کلیۃ اصول الدین، کلیۃ الشریعۃ اور کلیۃ اللغۃالعربیۃ۔  یہ قانون دیگر شعبہ جات کے قیام میں توسیع کے امکانات کی بات کرتا ہے،چنانچہ الازہر  کی اکیڈیمیز  میں ریاضیات،سائنس،اور معاشرتی علوم جیسے  دوسرے علوم داخل کیے گئے۔ اس کے بعد 1936ء میں قانون نمبر 26 نافذ کیا گیا،اور ہائیر ایجوکیشنز  کادورانیہ بڑھادیا گیا، بالکل جیسے عصری یونیورسٹیو ں میں ہوتا ہے ،جو تینوں مرحلوں کے اکیڈیمک سرٹیفیکٹ جاری کرتی ہیں۔ تبدیلی کےاس دور میں  ڈیویلپمنٹ لاء کے نام سے ایک قانون متعارف کرایا گیا، یہ جولائی1961 میں قانون نمبر103 کے تحت نافذ کیا گیا،اس کا تعلق بھی الازہر کی تنظیم نو کے ساتھ تھا۔ اس قانون کے مطابق " الازہر الشریف" جامع یا اسلامی یونیورسٹی سے مکمل طور پر ایک تعلیمی یونیورسٹی میں بدل گئی، جہاں  پہلی بار کئی تعلیمی کالجز ؛ تجارت، میڈیکل، انجنئیرنگ، اور ایگریکلچر کالج قائم کیے گئے۔ یوں الازہر یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لیے بھی ایک شعبہ قائم کیا گیا،اس میں میڈیکل، تجارت، سائنس ،عربی و اسلامی اور انسانی علوم و معارف کو شامل کیا گیا ۔

 

جہاں تک "الازہر الشریف "  کی بات ہے، تویہ کئی صدیوں تک امت کو فقہا اور علماء سےنوازتا رہا۔ ابتدا میں اس کے  قیام کی غرض شیعہ مذہب کی طرف دعوت تھی لیکن تھوڑے عرصے بعد یہ تمام اسلامی  مسالک کے مطابق کلی اسلام کی تعلیمی یونیورسٹی بن گئی۔ پہلے پہل المعز الدین اللہ الفاطمی کے آخری ادوار میں جامع الازہر میں عملی طور پر درس و تدریس کا آغاز کیا گیا۔ 365ھ میں قاضی القضاۃ ابو الحسن بن النعمان المغربی نے پہلا علمی و تعلیمی حلقہ قائم کیا۔ ان کے بعد علمی حلقات کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ عنہا کی نسبت سے اس کا نام الجامع الازہر رکھا گیا ، اسی کی طرف فاطمیوں کی نسبت کی جاتی ہے۔ الازہر کے ساتھ جن مشہور ترین علماء کی نسبت ہے ، ان میں سے ابن خلدونؒ، ابن حجرؒ عسقلانی، سخاویؒ، ابن تغری بردیؒ ، موسیٰ بن میمونؒ، الحسن بن الہیثمؒ،محمد بن یونس المصریؒ اور قلقشندی ؒوغیر ہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

الازہر کا  ھدف حقیقی علماء کی تیاری سے ہٹ کر ایسے علماء تیار کرنے میں بدل گیا جو دین کی فقاہت رکھنے والے اور اس کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے علما ءکی بنسبت  رجال دین کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ایسے علماء جو رسول اللہﷺ کے اس قول مبارک کے مصداق نہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا:

 

(( وَإِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ))

" اور بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں، بے شک  انبیاء نے میراث میں دینار و درہم نہیں چھوڑے، انہوں نے تو علم ہی چھوڑا، سو جس نے علم حاصل کیا اس نے بہت بڑا حصہ پایا"۔

 

الازہر کے صفحے پر الازہر کے پیغام کی پہچان کچھ اس طرح کرائی گئی ہے"۔۔۔۔ دورِ جدید میں  محمد علی کی شروع کردہ تشکیل نو کو دیکھتے ہوئے،صرف طلباء اور اس جامعہ کے سند یافتہ اشخاص تیار کیے جاتے ہیں،جو ایسے مختلف تعلیمی اداروں کے لیے   سنگ بنیاد ثابت ہوں ،جو جدید مغربی طرز کی تعلیمی درسگاہوں کے طور پر قائم کیا گیا ہے، یہی اشخاص جدید علوم نقل کرکے لانے کے لیے یورپی تعلیمی وفود کے لیے  بیج بن سکیں گے۔۔۔۔"۔ یونیورسٹی میں تعلیمی نظاموں میں وسعت آئی ،یہ وسعت زمان و مکان کی قید سے آزاد تھی،یہ نظام جدید عصری نقطہ نظر کی طرف  منتقل ہوئے، اب اس کا پیغام وعظ و ارشاد اور تعلیم پر منحصر نہیں رہا، بلکہ  اس کا اُفق وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا تاکہ علمی تحقیق ، اُمت مسلمہ کی خدمت ، اس کے مسائل کے دفاع  اور دنیا کے مختلف گوشوں  میں تشدد اور انتہاء پسندی  کے رجحانات کا راستہ روکنے کے لیے اعتدال پسند اسلام کی ترویج و اشاعت میں اسے (الازہرکو) قیادت حاصل ہو۔"

 

اس بنا پر الازہر کا پیغام اسلام مخالف جنگ میں عالمی  رجحانات سے ہم آہنگ ہے،نیز عالم اسلام میں موجود سیکولر نظاموں کی پالیسیوں سے بھی ہم آہنگ ہےجن کی جنگ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام اور اس کے لیے کام کرنے والوں سے ہے۔

جہاں تک طرز تعلیم کی بات ہے تو یہ بھی بدل گیا ہے۔ اس سے پہلے جبکہ  تعلیم و تدریس میں  فکری تعلیم کا درست طریقہ اپنا یا جاتا تھا، جس کے ذریعے مفکرین و مجتہدین پیدا کیے جاتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ پڑھائی  سیکھے ہوئے علم پر عمل کرنے کے لیے ہوتی تھی، یہ طرز تعلیم اکیڈیمک طرز میں بدل گیا،  جس میں امتحانات میں پاس ہونے کے لیے فقط نصاب پڑھانے اور اسے یاد کرنے پر توجہ دی جاتی ہے، الازہر  ہی کے صفحے پر موجود ہے: "الازہر  میں پڑھائی کی بنیاد اور طریقۂ کار تدریسی حلقے ہوا کرتے تھے، جہاں ایک استاداپنے شاگردوں اور سامعین کے درمیان  بیٹھ کر ان کو  درس دیتا تھا، اسی طرح فقہاء  "الازہر "کی گیلریوں میں مخصوص جگہ  بیٹھتے تھے،کسی استاد کو درس و تدریس کی ذمہ داری صرف اس وقت ہی سپرد کی جاتی تھی، جب الازہر کے اساتذہ کی طرف سے اجازت ملتی، اور اس کے لیے گیارہ علوم میں باقاعدہ زبانی امتحان کے نظام پر عمل کیا جاتا تھا ،پھر خلیفہ کی جانب سے پڑھانے حکم جاری کیا جاتا تھا۔

 

الازہر کا طریقہ کار جو فقہاء پیدا کرتا تھا، وہ بھی بدل گیا، حتیٰ کہ اب وہ صرف مساجد کے لیے امام تیار کرنے لگا، ان کا بڑا کام  نمازوں میں لوگوں کی امامت کرانا یا تقریبات میں قرآن خوانی ہوتا ہے، باوجودیکہ نماز میں چھوٹے بچے کی امامت بھی جائز ہے! یہ آئمہ  اسلام کے بارے میں اتنا کچھ ہی جانتے ہیں جتنا  ایک سکول کی ابتدائی کلاسوں کے طلباء جانتے ہیں۔ ان کی فقہ اور اس کے متعلقہ علوم کی تعلیم پاکی و ناپاکی ،نماز اور ازدواجی تعلقات اور وراثت کے چند احکامات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہاں اب مکمل اسلامی نظام کی تدریس نہیں کی جاتی،جس میں نظامِ حکومت، نظام ِمعیشت و اقتصاد،فوجداری نظام اور معاشرتی نظام پڑھائے جائیں۔۔۔۔الخ، بلکہ معاملہ اس وقت مزید ابتر ہوا جب الازہر کو اپنے منہجِ تعلیم  کی تجدید کرنی پڑی تاکہ وہ یورپ کی پسند کے مطابق ہوجائے۔ یورپ کو ایسا دین پسند ہے جس کا زندگی میں کوئی عمل دخل نہ ہو، ایسا دین جس کے احکامات سرمایہ دارانہ نظام سے نہ ٹکراتے ہوں، نتیجتاً  الازہر کو "معاصر"مغربی پیمانے کے مطابق اسلام کی تعلیم دینی پڑرہی ہے۔ اس بات کی تائید الازہر کے صفحے پر ان الفاظ سے ہوتی ہے۔"۔۔۔۔ شریعت کے شعبہ جات میں  طلباء کو جو جدید منہج پڑھایا جاتا ہے، وہ ہے: " موجودہ مسائل" جس میں تمام نئے مسائل شامل ہیں، اور جامعہ میں ریکارڈ کیے جانے والے تعلیمی میگزین ان مسائل پر بات کرتے ہیں……….الازہر میں ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ فقہ ہر زمانے میں لکھی گئی ، یہ ضروری ہے کہ ہر زمانے میں ایسی فقہ لکھی جائے جو اس سے ہم آہنگ ہو،  جامعہ اس پر بھی یقین رکھتا ہے کہ نصوص محدود اور واقعات اور حالات لا محدود ہیں، یعنی یہ ضروری نہیں کہ نصوص تمام واقعات اور تمام جدید مسائل  کا احاطہ کیے ہوئے ہوں۔"

 

تعلیمی پالیسی ،اس کا مقصد، طرز تعلیم اور طریقۂ تدریس میں تبدیلی  سے "الازہر الشریف "کے لیے سانحوں نے جنم لیا۔ ان میں سے واضح ترین سانحہ یہ تھا کہ الازہر کا بحیثیت ایک علمی مینار ہونے کے ستارہ ڈوبنے لگا۔الازہر الشریف جو اسلام کے ساتھ اُمت کی قیادت کرتا تھا، اور ایک عالمی پیغام کی حیثیت سے اسلام کو  پیش کرتا تھا، ایک اکیڈیمک ادارے میں تبدیل ہوگیا جس کا کام مغرب اور اس کے ایجنٹوں کے کارناموں کو جواز فراہم کرنا رہ گیا، جنہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ الازہر کے مشہور فتوے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ  ایک ایسا ادارہ ہے جو خائن حکمرانوں  کے ہاتھوں میں گروی رہ گیا ہے۔ اس کے مشہور فتویٰ پر  مصر کے صدر انور السادات نے دستخط کیے، یہ فتویٰ "کیمپ ڈیوڈ " امن معاہدے سے متعلق تھا ۔ یہ معاہدہ یہودیوں کے ساتھ تھا جنہوں نے فلسطین کی مبارک سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کا مشہور فتویٰ بینکاری نظام اور سودی معاملات کو جائز قرار دیتا ہے۔  اس کے علاوہ ان حکمرانوں کے خلاف جو اللہ کے نازل کردہ نظام کے مطابق حکومت نہیں کرتے ، خروج کی حرمت کی بات کرتا ہے،  الازہر نے  ان تمام اسلامی جماعتوں کے خلاف فتویٰ صادر کیا جو ان ایجنٹ  حکمرانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ عراق پر قبضے کے لیے امریکی قیادت تلے صلیبی حملے میں مصری حکومت کی شمولیت  کا فتویٰ صادر کیا، مکالمہ بین المذاہب کی مہم میں  الازہر کا انہماک  ، جس  کا مقصد تحریف شدہ  یہودی و عیسائی ادیان اور دین اسلام کے درمیان مساوات  ہے، اس کی تازہ ترین بدعت  شیخ الازہر احمد الطیب کا  مصر کے فوجی  حکمران " السیسی " سے اپنے ہر مخالف کے قتل کا مطالبہ  ہے، اس کے ساتھ یہ دعویٰ کہ سیسی اس دور کا نبی ہے،العیاذ باللہ! اس کے علاوہ اس کے متعدد فتاویٰ کی وجہ سے علماء اور طلباء کے درمیان بحث و مناظرے پھوٹ پڑے۔ اگر الازہر والوں کو اللہ تعالیٰ کا  یہ قول:

 

(إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ)

"اللہ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے۔"(فاطر : 28)

 

یاد ہوتا تو شریعت کے قطعی اور دین کے معلوم بالضرورۃ احکامات کی مخالفت پر یوں جرأت نہ دکھاتے ۔

بے شک علمی ادارے اسلام کے حوالے سے عظیم کردار  رکھتے ہیں، یہی واحد ذریعہ ہیں جہاں  اسلامی شخصیات ،سٹیٹسمین اور حاملین دعوت کی تربیت و تیاری کا کام کیا جاتا ہے،ان اداروں کے سند یافتہ اشخاص ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو امت کی درست فکری قیادت کرتے ہیں، ان کی اولین  ذمہ داری یہی ہے، وہی امت کے حقیقی قائد ہیں وہ امت جس کی نشاۃِ ثانیہ اور تشکیل جدید کا سہارا شرعی فکر  و عقیدہ ہے، احکام شرع اورعلوم شریعت کو یہی لوگ سب سے بہتر جاننے والے ہوتے ہیں۔

 

(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)

"کہہ دیجیے کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں، بے شک عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں"۔(الزمر: 9)

 

اس لیے  اسلام کے ذریعے حکومت کرنے والی ریاست کا ان اداروں پر توجہ دینا لازمی ہے۔ اس کے برعکس وہ ریاستیں جو اسلام کے ذریعے حکمرانی نہیں کرتیں، تو ایسی ریاستیں تعلیمی اداروں کو مغربیت اور سیکولر افکار پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہیں، عالم اسلام میں موجود اکثر ریاستوں کی یہی صورتحال ہے۔ نیز درباری علماء اور وہ ادارے جو دین کا لبادہ اُوڑھے ہوئے ہوتے ہیں، ان کا استعمال اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ حکمران کو  اس کے برے اعمال کا سرٹیفکیٹ فراہم کریں، اور لوگوں کو ان کے دینی امور میں شک و شبہ میں ڈال دیں۔ یہ سب کچھ سابق امریکی صدر جارج بش  کے " عظیم مشرق وسطیٰ" پلان کے مطابق انجام دیا جاتاہے، جس نے عالم اسلام کی سیکولرائزیشن اور مسجد و مدرسہ کی بربادی سے شروعات کرنے کی ضرورت کی بات کی تھا۔ایسا ہی ہوا ، اب ہر وقت مساجد اور وہاں کی جانے والی  باتوں کی نگرانی کی جاتی ہے، اور ان کو ایجنٹ حکومتوں کی طرف سے بھیجی جانےوالی تقریروں  کو نشر کرنے  کا پابند بنا دیا گیا ہے، جن کا اصل کام اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنا اور مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کرنا اور اس سے جاہل بنا کر رکھناہے۔ جہاں تک اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی بات ہے، اب ان کے پاس وہ تعلیمی طریقہ   کار ناپید ہوچکے ہیں، جو سائنسدان ، مفکرین اور تخلیق کار پیدا کرتے ہیں، ان کے طریقہ ہائے تعلیم بانجھ ہیں، ان کی تعلیمی پالیسیاں  ایسی ناکام نسلوں کی تیاری  پر کام کرتی ہیں جو دنیا میں بھی ناکام اور آخرت میں  بھی ناکام ہوں گی۔ مزید یہ کہ یونیورسٹیوں اور سکولوں کو   جمناسٹک کلبوں یا نائٹ کلبوں جیسے بنادیا گیا ہے، جہاں شرمناک طریقے سے نوجوان لڑکے لڑکیاں گھل مل کر رہتے ہیں۔

 

الازہر الشریف کے بچاؤ کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اس پر سے گھٹیا حکمرانوں اور درباری علماء کے ہاتھ اُکھاڑ دیے جائیں،اور اس کی گزشتہ حیثیت بحال کردی جائے، جوفقہا و مجتہدین پیدا کرنے والے طرزہائے تعلیم  پر توجہ دینے اور ایسے قابل علماء کو مقرر کرنے سے ہوگا جو اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت پر کان نہیں دھرتے،اس کے لیے  درکار بجٹ کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ اس میں داخل ہونے والے طلبہ کو ٹیوشن فیس اورمہنگے اخراجات کے بغیر ، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے، مفت تعلیم دی جاسکے۔ یقینا ًان سب کا تصور صرف اس وقت ہی کیا جاسکتا ہے جب اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنے والی اسلامی ریاست قائم ہوجائے،جس کی پالیسی ایسے علماء و فقہاکو تیارکرنا ہوگی جو لوگوں کے اندر  دینی امور کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا کرتے ہیں، اور اس کی  خارجہ پالیسی پوری دنیا تک پیغامِ اسلام پہنچانے کی پالیسی پر مبنی ہوگی،اس ریاست کو اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے علماء کی ضرورت ہوگی۔ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، امام غزالیؒ نے فرمایا: دین اور سلطان جڑواں ہیں،اس لیے کہتے ہیں کہ دین معاشرتی عمارت کی بنیاد ہے اورسلطان اس کا چوکیدار ہے ، جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گرجاتی ہے اور جس کا چوکیدار نہ ہو وہ ضائع ہوجاتی ہے۔"

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے لیے

بلال المہاجر پاکستا نی کا مراسلہ

Last modified onبدھ, 07 اگست 2019 02:05

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک