الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

عورت کا عالمی دن 2015 نسوانیت کے نام پر خواتین کو حقوق فراہم کرنے میں ناکامی کے سو سال

اقوام متحدہ اس سال  8 مارچ کے خواتین کے عالمی دن کو زیادہ اجاگر کرے گا تاکہ بیجنگ اعلامیہ اور  اس کے ایکشن پلان  پر روشنی ڈالی جا سکے جس پر 189 حکومتوں نے 20 سال پہلے خواتین کے حقوق ،ان کی زندگی بہتر بنانے  اور اقوام عالم میں دونوں جنسوں کے درمیان مساوات  کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کی حمایت  میں  دستخط کیے تھے ۔ اس معاہدے میں خواتین سے متعلق 12 باتوں پر زور دیا گیا تھا  جس میں غربت، تشدد،تعلیم کے حقوق، عسکری تنازعے،اختیار اور فیصلہ سازی شامل ہیں۔اقوام متحدہ نے اس کو تاریخی اعلان قرار دیا تھا  جس میں "خواتین کو  با اختیار بنانے کا   ایک واضح لائحہ عمل موجود ہے"  اور یہ  " سب سے جامع  عالمی پالیسی ڈھانچہ اور اس پر عمل کے لئے واضح  لائحہ عمل۔۔۔۔تا کہ دونوں جنسوں کے مابین مساوات اور خواتین  اور لڑکیوں کےلئے ہر جگہ  انسانی حقوق کو حقیقت بنادیا جائے "۔ لیکن  اس معاہدے کے بعد  دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ،   خواتین کا پہلا عالمی دن منانے کے 104 سال بعد  اور  عورت اور مرد کے درمیان مساوات  کی نسوانی جدوجہد کے سو سال گزرنے جانے باوجود   دنیا کے  طول و عرض میں  کروڑوں عورتوں کی زندگی انتہائی المناک ہے۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی  رپورٹ کے مطابق  دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں  مار پیٹ یا زنا بالجبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،1.2ارب غریبوں میں  70فیصد عورتیں اور بچے ہیں، 700 ملین عورتیں  ایسی زندگی گزار رہی ہیں کہ ان کو خوراک ،پینے کے صاف پانی، طبی سہولیات   کی کمی یا تعلیم کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، 85 ملین لڑکیاں ا سکول  جانے سے قاصر ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 1.2 ملین بچوں کی  بطور غلام سالانہ خرید وفروخت ہو تی ہےجن میں سے 80 فیصدلڑکیا ں ہیں۔ یہ سب کچھ حقوق نسواں کی بدترین ناکامی کا ظاہر کرتا ہے اور اس کی بنیادی فکر یعنی جنسوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر خواتین سے کیے جانے والے وعدوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ  حقوق اور اختیارات کے بارے میں "مساوات" کے خالی خولی دعوے ،عائلی زندگی  اور معاشرے  میں مرد اور عورت کے کردار  ، دونوں جنسوں کے درمیان مساوات   ہر گز خواتین کے احترام اور ان کی بہتر زندگی کا ضامن نہیں  بلکہ  نسوانیت  کا یہ جھوٹا نعرہ   عورت  کی اس درد ناک صورت حال سے توجہ ہٹا نے کے لیے استعمال کیا گیاجس  کا سبب ہی سکیولر سرمایہ دارانہ نظام ہے   جو گزشتہ صدی سے دنیا کی سیاست اور معیشت پر حاوی ہے۔ یہی نظام ہے جو   دولت مند اور غریب کے مابین زبردست تفاوت  اور معیشت کو تباہ کرنے کا سبب ہے؛ جس سے کروڑوں خواتین غربت کا شکار ہو گئیں اور تعلیم تباہ ہو گئی ،طبی سہولیات کا فقدان پیدا ہوا ، ان کے ملکوں میں دوسری خدمات بھی ناپائدار ہوگئیں۔  اس کے ساتھ ساتھ  سرمایہ دارنہ مادی نقطہ نظر نے  ایسی سوچ کو پروان چڑھا یا کہ   منافع کے لیے عورت  کے جسم کو استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں ، جس نے انسانی تجارت  کے لیے ماحول فراہم کیا ۔ اس کے علاوہ سکیولر سرمایہ داریت جو  ذاتی خواہشات کے حصول کو مقدس گردانتا ہے اور  عورت کو جنسیت کی نظر سے دیکھتا ہے، جس کے نتیجے میں میں عورت کی حالت ابتر ہو گئی  ،جنسی جرائم  کی وبا پھیل گئی، اسی وجہ سے آج وہ پامالی کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ نسوانیت  کا نقطہ نظر جو مساوات کی تنگ نظری پر مبنی ہے  جس کے ذریعے  سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی  تبدیلی کی کوشش کے ذریعے اس کے عیوب کو چھپایا جارہا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  بنیادی تبدیلی کی بات کی جاتی ، یہ نظام ہمیشہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ لہذا بیجنگ اعلامیہ  اور خواتین کے بارے میں بین الاقوامی معاہدات جیسے  Cedaw  اور مساوات  کے  لیے مشرق سے مغرب تک لگائے جانے والے نعرے اور بینر سب ناکام ہو ئے  اور دنیا کی خواتین کو  عزت کی زندگی گزارنے کی ضمانت نہیں دے سکے۔ یہ اس بات کی واضح دالیل ہے کہ نسوانی تنظیمیں ،حکومتیں اور وہ ادارے  جو ان افکار کی ترویج کرتے ہیں  ان میں سے کسی کے پاس خواتین کے مسائل کا قابل اعتماد حل ،لائحہ عمل یا وژن نہیں ۔

اس کے مقابلے میں اسلام جس پر سکیولر حضرات  اس کے معاشرتی قوانین  کے سبب خواتین پر ظلم کرنے کا الزام لگاتے ہیں  کیونکہ یہ قوانین مغرب کے مساوات کے نظرئیے کے بر عکس ہیں، اس کے پاس  خواتین کے احترام کو بحا ل کرنے  کا ایک جامع ، قابل اعتماد اور مجرب   پروگرام ہے ،جوان کے مسائل کو حل اور ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔وہ پروگرام جس نے صدیوں تک  خلافت کے نظامِ حکومت کے سائے میں خواتین کو باعزت زندگی گزارنے کی ضمانت دی ۔ اسلام کے معاشرتی نظام کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس   کا شعبہ خواتین بڑے پیمانے پر جاری عالمی مہم میں واضح کر رہا ہے  جس کا عنوان ہے : "عورت اور شریعت  :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" ۔ اس مہم کا اختتام  28 مارچ 2015 کو  ایک عالمی خواتین کانفرنس پر ہو گا۔ہم ہر اس شخص کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے   ناکام معاہدات، فضول تجاویز اور جھوٹے وعدوں سے تھک چکا ہے کہ وہ اس اہم مہم اور کانفرنس کی پیروی کے لئے درج ذیل فیس بک صفحےسے رجوع کریں:

https://www.facebook.com/womenandshariahA

 

ڈاکٹر نسرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

Read more...

16-15 فروری 2015  کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (One India )  میں شائع ہونے والے مضمون  "حزب التحریر الدولۃ الاسلامیۃ  العراق و شام  سے زیادہ خطرناک ثا بت ہو سکتی ہے" کا جواب

15 ،16 فروری 2015 کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حزب التحریر  ایک دہشت گرد جماعت ہے۔  اس مضمون میں کئی سنگین غلطیاں اور گمراہ کن  دعوے کیے گئے۔

حزب التحریر ایک  عالمی اسلامی سیاسی جماعت ہے  جو نبوت کے طرز پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے اسلامی سرزمین میں  پُر امن فکری اور سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔  حزب التحریر ایک مشہور و معروف اسلامی پارٹی ہے  اوراس کی بنیا 1953 میں  بیت المقدس میں رکھی گئی ۔ آج شرق اوسط، افریقا اور ایشیاء  سمیت مشرق سے لے مغرب تک کام کر رہی ہے ۔  حزب کے خلاف تمام تر   سوچے سمجھے اشتعال انگیز  اقدامات،نگرانی،گرفتاریوں،تشدد اور  انصاف کا خون کرنے کے باوجود  یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ  حزب   نے اپنے پرامن سیاسی طریقے سے کبھی بھی بال برابر بھی انحراف نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی ایسے کسی  واقع میں ملوث ثابت کیا جاسکا ہے۔

مذکورہ مضمون میں حزب کو " کالعدم" جماعت کہا گیا ہے ؛جس کا مقصد  قاری کو گمراہ کرنا اور اس کے ذہن میں یہ تشویش پیدا کرنا ہے کہ حزب  شاید کوئی "مسلح"  اقدامات بھی کرتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے   کہ جن ممالک نے  بھی حزب پر پابندی لگائی تو اس کے  سیاسی مقاصد تھے اور اس کا مقصد حزب کو اپنی صاف شفاف فکر کو امت تک پہنچانے کی راہ میں روکاوٹ ڈالنا  ہے تاکہ امت اس فکر کا علمبردار نہ بنے اور حزب کے ساتھ مل کر کار زار حیات میں اس فکر کو  وجود بخشنے کے لیے جدو جہد نہ کرے۔ ان ممالک کی حکومتیں اس غلط فہمی میں رہیں کہ  وہ پابندی لگا کر امت کو حزب کی جدوجہد میں شامل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن  یہ ناکام اور نامراد ہوئے۔  یہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے کہ امت مشرق سے لے کر مغرب تک  اللہ کی شریعت کے نفاذ اور نبوت کے نقش قدم پر اسلام کی ریاست،  خلافت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے۔

رہی  حزب التحریر اور ہندوستان میں  انڈین مجاہدین کے درمیان تعلقات  کی بات  تو حزب کے تمام اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعلقات  نصیحت اور راہنمائی کی حد تک ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«الدين النصيحة»

" دین نصیحت ہے" ،اس کو مسلم نے روایت کیا ہے ۔

ہم اخبار  ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)کے ادارتی  انتظامیہ کو ان کے پیشہ ورانہ  اور آزادانہ  صحافت کے بارے میں یاد دہانی کر نا چاہتے ہیں ۔  صحافت ایک محنت طلب کام ہے اور  یہ تقاضا کر تا ہے کہ تمام رپورٹیں  باریک بینی اور ذمہ داری  سے تیار کی جائیں۔   ہمیں امید ہے کہ یہ اخبارات آئندہ اس امر کا خیال رکھیں گےتا کہ  مستقبل میں ہمیں عدالتی چارہ جوئی  پر مجبور نہ ہونا پڑے۔

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس

 

Read more...

پریس ریلیز حکومت کی جانب سے میڈیا کو حزب التحریر کے خلاف مہم شروع کر نے کے احکامات حکومت کی ناکامی اور دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے

بنگلہ دیشی حکومت نے ہفتہ 22 فروری 2015  کو  حزب التحریر اور اس کے سرگرمیوں کے خلاف  پرو پیگنڈہ مہم   شروع کرنے  سے متعلق ذرائع ابلاغ کے لیے ایک بیان جاری کیا ۔

ہم حزب التحریر ولایہ بنگلہ دیش  حکومت کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ : حکومت نے 2009 میں حزب التحریر پر پابندی لگانے کا حکم نامہ جاری کیا  اور پھر اس کے بعد ایسے کئی حکم نامے جاری کیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خلاف جابرانہ اور ظالمانہ اقدامات اٹھائےلیکن  اس سب کے باوجود  وہ حزب کا راستہ  روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اب  حکومت ہمارا راستہ روکنے کے لئے  میڈیا کی مدد لینے کی کوشش کر رہی ہے جس میں وہ خود ناکام ہو چکی ہے۔  یہ بھی حکومت اور اس کے آقاوں کی ایک بزدلانہ کوشش ہے  کیونکہ وہ حزب التحریر اور اس کی دعوت سے لرزہ بر اندام ہیں۔  حزب نے   آج کل جو مہم شروع کر رکھی ہے  اور جس کو زندگی کے ہر طبقے میں سراہا گیا ہے  ، حکومت اور اس کے مغربی آقاوں  کے لئے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے احمقانہ قدم اٹھا رہی ہے۔ اس مہم کا موضوع ہے: "اے لوگو ! شیخ حسینہ اور موجودہ حکومت کو فوراً برطرف کر نے  اور نبوت کے طرز پر ریاستِ خلافت کو قائم کرنے کے لیے  فوج کے مخلص افسران سے رابطہ کر و  کہ وہ اس کام میں شریک ہوں اور  حزب التحریر کو نصرہ فراہم کریں"۔

ہم  میڈیا  میں موجود مخلص لوگوں  سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ حزب التحریر کی کامیابیوں کو دیکھ کر پاگل پن  میں مبتلا   ہونے والی حکومت  کے جھوٹے  پرو پیگنڈے کا شکار نہ ہوں ۔  اس حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے آپ کو بھی مایوسی کے دلدل میں نہ گھسیٹیں جو   عوام مقبولیت کھو چکی ہے۔  اس حکومت کی طرف اپنا ہاتھ مت بڑھائیں   جس کو اب لوگ  زمین بوس ہو تا دیکھنا   چاہتے  ہیں اور ان شاء اللہ عنقریب ایسا ہو نے والا ہے ۔ لہٰذا تاریخ کے اہم موڑ پر غلط کشتی کے سوار مت بنو۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان نبوت کے طرز پر خلا فت کی ریاست کی جدو جہد آپ  پر فرض ہے  نہ کہ اس اسلام دشمن حکومت کی طرفداری کرنا۔ اگر آپ  اسلام اور مسلمانوں کے بنیادی مسئلے  کی خاطر  جدو جہد کرنے کے لیے حزب التحریر میں شامل ہونے کی ہمت نہیں رکھتے  تو کم از کم  حکومت کے ہاں میں ہاں ملا کر جھوٹ بولنے سے اجتناب کریں۔

اور بہادر اور مخلص فوجی افسران سے ہم کہتے ہیں : حکومت یہ بات جانتی ہے کہ تم اسلام  کی فوج ہو اور اسلام ہی  تمہارے خون میں دوڑ تا ہے  اور تمام مسلمانوں کی طرح خلافت تمہارے بھی دل کی آواز ہے  جس کی وجہ سے  حزب التحریر آپ  میں بھی پھیل رہی ہے اور اللہ کے حکم سے جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے گی  یعنی موجودہ حکومت کا خاتمہ اور خلافت کا قیام انشاء اللہ ۔  اس لیے حزب التحریر کو اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرہ فراہم کر نے میں جلدی کرو  ، دنیا کا خیر حاصل کرنے کے لئے جلدی کرو، خلافت کو قائم کرنے والے انصار  کا مننصب  پانے کی جلدی کرو  اور آخرت کا اجر حاصل کرنے کی جلدی کرو کہ خلافت کو قائم کرنے والے انصار کا اجر جنت ہے،  انشاء اللہ۔۔

 

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کامیڈیا آفس

https://www.facebook.com/PeoplesDemandBD2

Read more...

سوال کا جواب مینسک معاہدہ اور یو کرائن میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال

سوال :

مارکل اور ہولاندی  کی پوٹین کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے اور پھر مینسک کا دورہ اور  اس  دوران یوکرائن کے صدر  کی ملاقات میں موجودگی ، یہ  سب کچھ قابل دید تیزی ہوتا نظر آتا ہے ۔۔۔ملاقات کے بعد  وہ مینسک میں ایک معاہدے پر بھی پہنچ گئے  جس کی رو سے  مشرقی یوکرائن میں15 فروری 2015 سے  فائر بندی کی جائے گی  اور  غیر مسلح زون قائم کیا جائے گا۔۔۔ مینسک معاہدے  میں کہا گیا کہ یوکرائنی قوتوں اور مشرقی علاقوں کے    انقلابیوں کو فائر بندی  کے بعد  دو دن کے اندر اگلے مورچوں   سے بھاری اسلحہ ہٹانا پڑے گا، تاکہ بفر زون قائم کیا جاسکے گا  جس کو  لائن کے دونوں جانب 70 کلو میٹر تک  وسعت دی جائے گی ۔۔۔آخر کس چیز نے یورپ "فرانس اور جرمنی " کو  اس جلد بازی بلکہ بھاگ دوڑ کر  روس سے  سیاسی معاہدہ کرنے کے لیے رابطہ کرنے پر مجبور کیا  جبکہ  اس میں یو کرائن کے علاقے  کریمیا  کا کوئی تذکرہ کیا ہی نہیں گیا، حالانکہ یہی   مملک حتمی معاہدہ کرنے کے لیے ٹال مٹول کر رہے  تھے تا کہ کریمیا کا موضوع بھی اس میں شامل ہو جائے؟پھر برطانوی وزیر اعظم  ان کے ساتھ کیوں نہیں تھے؟امریکہ نے ایسا کیوں ظاہر کیا کہ  وہ اس  کا حامی نہیں ہے؟ اس معاہدےکو نافذ کرنے کے بارے میں کیا توقعات ہیں ؟ سوال کی طوالت پر معذرت چاہتا ہوں اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے ۔

 

جواب :

صحیح جواب تک پہنچنے  کے لیے صورت حال کو واضح کرنے کی خاطر   ہم مندجہ ذیل امور کی وضاحت کریں گے:

 

1 ۔ امریکہ  کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ  یوکرائن اسی طرح سلگتا   اور گرم رہے تاکہ یہ روس کے لیے گلے کی ہڈی بنے  اور امریکہ اس کو روس  پر دباو ڈالنے اور کئی بین الاقوامی مسائل  جیسے شام  اور ایرانی ایٹمی پروگرام  وغیرہ میں روس کو اپنے فرنٹ لائن کے  طور پر استعمال کر سکے۔ یورپ بھی اس عمومی پالیسی کی مخالفت نہیں کر تا تھا  کیونکہ وہ اس کو  یورپ اور روس کو جنگ کے دہانے پر پہنچانے والا یا جنگی صورت  حال تک پہنچانے والا نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔یوکرائن کے واقعات اسی نہج پر آگے بڑھتے رہے : علیحدگی  پسندوں اور یوکرائنی فوج  کے مابین  نوک جھونک  اور کریمیا کے باری میں خاموشی جاری رہی ۔۔۔معاملات میں اتار چڑھاؤ  جاری رہا  جس کو یورپ  اس نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں  جلد یا بدیر   کوئی بڑا سانحہ واقع پزیر نہیں ہوگا ۔۔

 

2 ۔ لیکن حال ہی میں معاملات  نے ہنگامی صورت حال اختیار کی  کیونکہ  یوکرائن میں معمولی جھڑپوں  کے ساتھ  کسی حد تک حالات کا پر سکون ہونا   امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا،خاص کر  جبکہ کچھ عالمی مسائل  میں شدت پیدا ہو گئی ۔  روس پر دباؤ  ڈالنااور اس کو مشتعل کرنا ممکن نہ ہوتا اگر اس کے گلے سے ہڈی اتر جائے،   اس لیے امریکہ نے  یو کرائن میں  معاملہ گرم کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔اسی مقصد سے یہ بیان دیا  کہ وہ  یوکرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر ے گا  اور یہ بھی کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے روس کے لیے کچھ اہم علاقوں کے قریب جنگی مشقیں  کیں ۔  اس امر نے روس کے اندر اشتعال پیدا کیا اور اس نے  یوکرائن  کے قریب اپنی جنگی  حرکات میں اضافہ کر دیا  بلکہ غیر اعلانیہ طور پر  علیحدگی پسندوں   میں مداخلت کرنے لگا  اور اس کے ساتھ  ساتھ گرما گرم بیان بھی داغ دیا ۔۔۔

بعض ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بھی نشر کی کہ   امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے  اس وقت کیف کا دورہ کیا جب  پوٹین  مارکل اور ہولاندی  سے سیاسی معاہدے کے موضوع پر  بات چیت کرنے کے لیے  ملاقات کر رہا تھا۔ کیری  اپنے دورے میں  واشنگٹن کی جانب سے کیف کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کر نے پر تبادلہ خیال کیاکیونکہ وہ یہ جانتا تھا مینسک میں  اکھٹے ہو نے والے اس کی مخالفت کریں گے۔ "الحیاۃ " اخبار نے  اپنے ویب سائٹ پر  جمعہ 6 فروری 2015 کو  یہ خبر نقل کی کہ  واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 118 ملین ڈالر کے  امداد بھی فورا کیف کو دے گا ،جو یوکرائنی فورسز کی تربیت کے لیے ہیں اورآلات  وغیرہ بھی فراہم کرے گا جن میں حفاظتی وردیاں،فوجی گاڑیاں،رات کو دیکھنے کے آلات بھی شامل ہیں ۔۔۔"  روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایلکزنڈر یوکا شاویچ نے  اس  پر رد عمل کا  اظہار کیا اور کہا کہ "امریکہ کی جانب سے کیف کو جدید اسلحے کی فراہمی  سے نہ صرف تنازعے کو ہوا ملے گی  بلکہ  یہ روس کی سلامتی کے لیے بھی  خطرنا ک ہے  کیونکہ یوکرائنی فوج پہلے ہی کئی بار اس کے علاقوں پر بمباری کر چکی ہے"۔ اس نے تنبیہ کی کہ "اس قسم کے فیصلوں سے روس امریکہ تعلقات  کو ناقبل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے" ۔۔۔

اس سے بڑھ کر  امریکی عہدیداروں نے بھی  کریمیا کے موضوع پر بیانات دیے کہ روس نے اس کا اپنے ساتھ الحاق  کروا کر جارحیت کی ہے۔۔۔ امریکی صدر باراک اوباما نے  پیر 9 فروری 2015 کو اپنے بیان  میں  یوکرائن کے تنازعے کے بارے میں روس کو تنبیہ کی ۔ اس نے کہا کہ ماسکو کو یہ حق حاصل نہیں  کہ"وہ قوت کے زور پر یورپی سرحدوں کی حد بندی کرے"۔   یہ  مینسک میں ہو نے والے معاہدے میں نظر انداز کیے جانے والے  جزیرہ نما کریمیا کے موضوع کی طرٖ ف واضح اشارہ تھا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے  اس بیان نے روس  کے اندر آگ لگا دی کیونکہ وہ کریمیا  کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔  اگرزیادہ نہیں تو کم ازکم  اس   بیان نے یہ واضح کردیا کہ امریکہ  یوکرائنی فوج کو مسلح کررہا ہے ۔۔۔

 

3 ۔ یورپ اور خاص کر فرانس اور جرمنی نے  امریکی بیانات کو سنجیدہ لیا  اور دونوں ملکوں نے  یہ بیان دینے میں جلد بازی کی کہ دونوں  یوکرائن کو مسلح کر نے کے حق میں نہیں  کیونکہ  یہ یورپ کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔۔۔

6 فروری 2015سے 9 فروری 2015 تک میو نخ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی امن  کانفرنس  سے خطاب کرتے ہو ئے  انجیلا مارکل نے امریکہ کی جانب سے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے  سے تنازعے کے حل ہونے  کی رائے کو مسترد کیا اور کہا  کہ "یوکرائنی فوج کو  بہترین اسلحہ سے لیس کرنے سے  صدر پوٹین  کو یہ یقین نہیں دلایا جاسکتا کہ  وہ عسکری طور پر  شکست کھاجائے گا ، جبکہ یورپ چاہتا ہے کہ  روس کے ساتھ تعاون کے ذریعے اپنی سلامتی کو  یقینی بنا ئے نہ کہ روس کے مکالفت  مول لے کر "۔  اسی طرح جرمن وزیر خارجہ  اُرسولا  نے   میونخ میں سالانہ بین الاقوامی امن کانفرنس  کے افتتاح کے موقعے پر اپنے بیان میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا   کہ  مغرب کی جانب سے یو کرائن کو اسلحہ کی فراہمی  "یوکرائن کے تنازعے ہوا  دے سکتا ہے  کیونکہ یہ آگ میں تیل چھڑکنے جیسا  ہو گا  اور مطلوبہ حل سے ہمیں دور کردے گا "۔

فرانس نے بھی یہی کیا ، چنانچہ القدس العربی اخبار  نے7 فروری 2015کو   ذکر کیا کہ "فرانس کے صدر فرانسو ہولاند  نے  اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ   یہ قدم اٹھانا ہی آخری موقع ہے "۔  ہولاند نے مزید کہا کہ مصالحت  یا امن  کے قیام کے لیے کسی پائیدار  معاہدے کے بغیر جو صورتحال ہے "اس کا نام تو جنگ ہے "۔  ہولاند نے  کہا کہ یہ بات ان کو اچھی طرح  معلوم تھی کہ  جرمن چانسلر  انجیلا مارکل کے ساتھ کیف اور ماسکو  کا دورہ  مشکل اور مہم جوئی تھی "لیکن یہ ضروری تھا"۔  ہولاند نے  واضح کیا کہ وہ اور مارکل سمجھتے ہیں کہ " جنگ کا بھوت  یورپ  کے دروازے پر دستک دے رہا ہے " ۔اسی طرح فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فابیوس نے    جس  کا ملک  مذاکرات میں کردار ادا کررہا ہے، کہا کہ " کوئی  بھی  بڑی جنگ کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا ہے اور نہ ہی یہ کسی کے مفاد میں ہے اور یہ کہ یہی وقت ہے کہ تمام ممکنات کو اختیار کیا جائے"۔ اس نے  اس بات کی بھی تاکید کی کہ فرانس اور جرمنی یو کرائن میں جو چاہتے ہیں وہ "صرف کاغذی امن نہیں بلکہ حقیقی امن ہے " ۔

 

4 ۔  یورپ ( فرانس اور جرمنی )ڈر گئے  کہ کہیں امریکی موقف میں  اس بڑھتی ہوئی گرمی سے  یوکرائن  کے خلاف روسی جارحیت  میں  اضا فہ نہ ہو جائے  اور اس سے  یورپ  پر بھی  برا اثر پڑے گا ، اور اگر  یورپ یوکرائن  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ ہوا تو یہ اس کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہو گا اور  اس سے یورپ میں جنگی صورت  پیدا ہوجائے گی  مگر اس جنگ سے امریکہ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ یہی  اہم سبب  ہے کہ جس کی وجہ سے یورپ  نے  یوکرائن میں  امریکی پالیسی  کی حمایت کی پالیسی میں تبدیلی کی  اوراسی لیے روسی صدر  سے سیاسی حل نکالنے کے لیے  رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا  تا کہ یورپ اور روس کے درمیان کسی تناؤ کو پیدا ہونے سے روک دیا جائےاورپھر یہی ہوا ۔  یورپی" فرانسیسی اور جرمن " راہنماوں نے6 فروری 2015 کو اس بات پر اتفاق کیا۔  اس کے بعد مارکل 8 فروری 2015 کو واشنگٹن گئی  تاکہ اوباما کو  یورپ کی پالیسی کے بارے میں بتا دے  نہ کہ اس سے اجازت لینے ۔۔۔یہ واضح ہے کہ یورپ نے  پہلی بار امریکہ کی طرف سے گرین سگنل  ملنے سے  پہلے کوئی فیصلہ کیا۔  اس کے ساتھ    تینوں قائدین ولادی میر پوٹین، انجیلا مارکل اور فرانس کے صدر  فرانسوا ہولاند کے مابین جمعہ 6 فوری 2015 کو  اس لائحہ عمل پر اتفاق ہو گیا تھا اور کاغذی کاروائی مکمل ہو گئی تھی  اور جو چیز باقی رہ گئی تھی وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ یوکرائنی فریقوں " صدر اور انقلابیوں" کو  اس پر دستخط کی عوت دینے کے  لئے بلایا جائے  اور پھر  اس کے بعد مارکل اوباما کو بتا نے کے لیے  واشنگٹن  گئی !

 

5 ۔ فرانس اور جرمنی کے موقف نے  اوباما اور  اس کے انتظامیہ  پر بڑا اثر ڈالا  اور اس کے نتیجے میں   میونخ کانفرنس میں بھی  کیری اور مارکل کے درمیان سخت الفاظ کے تبادلہ ہواخاص کر امریکہ کی جانب سے یوکرائن   کو اسلحہ سپلائی کرنے کے بیان پر جس کو یورپ  نے مسترد کردیا۔  الحیاۃ اخبار نے  8 فروری 2015 کو  اپنے ویب سائٹ پر یہ خبر نشر کی کہ "میونخ میں بین الاقوامی  امن کانفرنس میں امریکیوں اور جرمنز کے درمیان   امریکہ کی جانب سے مشرقی یو کرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے کے ارادے پر "سخت کلامی " دیکھنے کو ملی ۔ اس کی عکاسی اس سے ہو تی ہے کہ  اٹلانٹک کے دونوں جانب کے فریقین  میں  پوٹین  کا سامنا کر نے کے حوالے سے  اتفاق رائے نا پاید تھا۔ میونخ کانفرنس  کی ایک اور تقریر میں  امریکی سینیٹر لینزی گراہم نے مارکل کی جانب سے  یو کرائن کے بحران کو اہمیت دینے کی تعریف کی  لیکن اس نے کہا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ  چانسلر  روسی جارحیت کی حقیقت کے بارے میں  آنکھیں کھول لیں"۔اس نے مزید کہا کہ "ہمارے یورپی دوست بڑی خوشی سے ماسکو جائیں  اور دلبرداشتہ ہونے تک جائیں مگر اس میں کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ،جھوٹ اور خطرے  کا مقابلہ کیا جانا چاہیے"۔

 

6 ۔  اس سب کے باوجود یورپ اب بھی امریکہ کا اہم اتحادی ہے لیکن جب اس دوست نے  دیکھا کہ آگ  اس کے قریب آرہی ہے تو  اس کو بجھا نے کے لیے اپنے دوست سے پوچھے بغیر ہی اس کی طرف دوڑا کیونکہ  وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عذر کو قبول کیا جائے گا !ایسا لگتا ہے کہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے  کیونکہ اوباما نے 9 فروری 2015 کو  مارکل کے ساتھ  دوگھنٹے کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں  کہا کہ "یوکرائن میں روسی جارحیت نے  ہمارے اتحاد کو مضبوط کیا اور ہم ہر گز  غیر جانبدار نہیں رہیں گے"۔  اوباما نے  کہا کہ "اس ہفتے  سفارت کاری کے نا کام ہونے کی صورت میں نے اپنی ٹیم کو دوسرے آپشنز اختیار کرنے کا کہا ہے   جس میں اسلحہ کی فراہمی بھی ہے  "۔ اوباما نے مزید کہا " کوئی عسکری حل نہیں مگر  ہدف روس کے  منصوبوں کی تبدیلی ہے ، یاد رہے کہ ابھی تک میں نے فیصلہ نہیں کیا "۔ مارکل نے  سفارتکاری کو   دوسرے آپشنز سے پہلے "ایک اور کوشش" قرارد یا۔  انہوں نے امریکی یورپی اتحاد کے بارے میں کہا کہ "یہ  مضبوط ہی رہے گا ، یہ برقرار رہے گا خواہ ہمارا اگلا فیصلہ  جو بھی ہو "۔ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ ان کے درمیان رسّی  ابھی کٹی نہیں ہے  مگر مضبوطی سے  باندھی ہوئی بھی نہیں بلکہ بعض امریکی عہدیداروں  کے بیانات میں بے رخی  کا اظہار ہے ! جیسا کہ پہلے امریکی سینیٹر کا ذکر ہو گیا ہے ۔

 

7 ۔ سابقہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  یورپ کی جانب سے روس کے حوالے سے  یوکرائن  کے مسئلےپر پالیسی میں اچانک تبدیلی  مذکورہ بالا   وجوہات کی بنا  سے ہے اگر چہ یورپ نے  خطرے  کو  بڑھا چڑھاکر پیش کیا اور معاہدے کے لیے  دوڑ کر گیا حالانکہ  معاہدے کی شرائط  روس کے حق میں تھیں  کیونکہ اس میں کریمیا کے موضوع کا ذکر بھی نہیں تھا۔ اور یہ بات  مارکل سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھی واضح تھا کیونکہ اس نے  جواب دیا کہ کریمیا کا موضوع اس کے لیے اہم نہیں  بلکہ معاہدے تک پہنچنا اس کے لیے اہم ہے! اُس کا پورا جواب یہ تھا کہ "میں  زمین سے متعلق  مسائل میں الجھنا  نہیں چاہتی۔  ہر ریاست کو  ایسے مذاکرات خود کرنا چاہیے ، میں  فرانس کے صدر کے ساتھ ماسکو  غیر جانبدار ثالث بن کر نہیں گئی تھی، مسئلے کا تعلق فرانس اور جرمنی سے ہے  اور یورپی یونین کا  مفاد ہی ہر چیز پر مقدم ہے " ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ  کریمیا کا ذکر کرے یا نہ کرے  جرمنی اور فرانس اس کا ذکر کریں یا نہ کریں  مگر ان میں سے کسی کو  بھی کریمیا سے کوئی ہمدردی نہیں سوائے اس کے کہ اس   کو  سرمایہ دارانہ تصور کے تحت استعماری مفاد میں استعمال کیا جائے۔۔۔

 

8 ۔  رہی یہ بات کہ برطانوی وزیر اعظم کیوں فرانس اور جرمنی کے  سربراہان کے ساتھ نہیں تھا ، تو  اس کی وجہ برطانیہ کا وہی پرانا طریقہ کار ہے یعنی  ایک قدم یہاں اور دوسرا قدم وہاں ! ایک طرف برطانوی وزیر خارجہ  فیلیپ ہا مونڈ نے  روس کے صدر کو یوکرائن کے بارے میں  "سرکشی کرنے والا" کہا  جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کیف  میدان جنگ میں   روسی فوج کو شکست  نہیں دے سکتی  اس لیے  خون خرابہ سے بچنے کے لیے سیاسی حل ہی واحد آپشن ہے۔  اسی طرح ہامونڈ نے یہ بھی کہا کہ "ان کا ملک کیف کی قوتوں کو مسلح کر نے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔۔۔"اس بیان سے وہ یورپ کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔۔۔

بار حال ایک اور بیان میں  اس نے کہا کہ  برطانیہ  اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لے سکتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا  کہ برطانیہ یوکرائنی فوج کو علیحدگی پسندوں سے لڑنے کے لیے مسلح نہیں کر رہا ، اور ایسا اس لئے کہا کیونکہ  امریکہ یہ چاہتا ہے ۔  الحیاۃ اخبار نے 11 فروری 2015 کو برطانوی وزیر خارجہ فیلیپ ہامونڈ کا  پارلیمنٹ کے سامنے یہ بیان  نشر کیا کہ "یوکرائنی فوج کو   اس طرح گرنے نہیں دیا جائے گا" مزید کہا کہ " یوکرائن کو جدید اسلحہ دینے  کا فیصلہ نیٹو میں موجود ہر ملک کا اپنا قومی  فیصلہ ہو گا، ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے  لیکن  ہم اپنے موقف سے رجوع کا حق محفوظ رکھتے ہیں"۔  یوں برطانیہ  ہر دروازہ کھلا چھوڑ تا ہے  اور اس طرح وہ  امریکہ سے ٹکر لیے بغیر  اس  کو  خوش رکھتا ہے۔  حالیہ برسوں میں برطانیہ کا یہی موقف رہا ہے  اوراسی موقف کی وجہ سے اس کا وزیر اعظم  مارکل اور ہولاند کا ہم رکاب نہیں بنا۔

 

9 ۔ جہاں تک  توقعات کا تعلق ہے  تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ   امریکہ اس معاہدےپر عمل دارآمد کی راہ میں روکاوٹ بنے گا  کیونکہ اس کے کارندے یو کرائن میں موجود ہیں ، اگر چہ جمہوریہ کا صدر پوریشنکو  یورپ سے  زیادہ قریب ہے مگر امریکہ کا بھی ساجھے دار ہے۔۔۔اس لیے امریکہ  مندرجہ ذیل تین میں سے کسی ایک امر یا سب کے ذریعے  حالات کو بگاڑ سکتا ہے :

۔ یو کرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر کے

۔ یا نیٹو میں شامل کر نےکے لیے اس کے ساتھ مذاکرات کر کے

۔ یا  یو کرائن میں اپنے بعض کارندوں کو متحرک کر کے

یوں یہ معاہدہ ناکام ہو سکتا ہے ، کیونکہ ان تین امور میں سے کوئی بھی امر   روس کو مشتعل کر کے صورت حال کو بگاڑ سکتا ہے جس سے یہ معاہدہ ناکام ہوسکتا  ہے۔۔۔

روس  بھی  اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ مذاکر ات کی کوشش کر سکتا ہے ، کیونکہ اس کو اس موضوع میں امریکہ کے وزن کا علم ہے۔  اسی لیے پہلے یہ خبریں تھیں کہ روس   یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دیتا ہے ،لیکن روس کے ساتھ رابطہ کرنے میں جلد بازی یورپ نے کی  یہ روس کی طرف سے نہیں تھا۔

 

10 ۔ یہ تو توقعات ہیں ۔۔۔ مگر ہمارے لیے اس موضوع کی اہمیت کریمیا کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ یہ اسلامی علاقہ ہے۔   صدیوں تک یہ ہمارے ساتھ اور ہم اس کے ساتھ تھے۔ اگر کریمیا کا مسئلہ یوکرین کے مسئلے کی بنیاد نہ ہوتا  تو ہم  امریکہ اور روس کے درمیان اس تنازعے کو زیادہ  اہمیت نہ دیتے۔۔۔ کریمیا صدیوں تک خلافت کا حصہ رہا   یہاں تک کہ روس نے اس پر حملہ کر دیا  اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر سازش کر کے  اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس پر قبضہ کر لیا ۔ 1430 عیسوی تک کریمیا اسلامی امارت تھا ،پھر 1521 عیسوی میں خلافت کے عروج کے زمانے میں خلافت عثمانیہ  کا ایک ولایہ(صوبہ) بن گیا ۔  اس کے بعد 1783 میں روس اور مغربی ممالک نے سازشیں کر کے اس کو عثمانی خلافت سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ساتھ ہی یہاں وحشیانہ خون خرابہ کیا ۔  پھر اس کو روس میں ضم کر دیا  جس نے اس کے دار الحکومت "اق مسجد"  یعنی سفید مسجد  کا نام بدل کر موجودہ نام " سیمفرو پول" رکھ دیا ۔   یاد رہے کہ قرم (کریمیا)  کا معنی  تاتاری مسلمانوں کی زبان میں قلعہ ہے،  یوں روس کی جانب سے قبضے سے ساڑھے تین سو سال پہلے سے ہی کریمیا  اسلامی سرزمین ہے   !اس لیے اس میں  حقیقی امن صرف اسی صورت میں ہی آسکتا ہے جب اس کو  اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا جا ئے اور اللہ کے اذن سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت کا صوبہ بنا یا جائےگا ۔

 

چاہے  جس قدر بھی وقت گزر  جائے ہم کریمیا یا استعماری کفار کی جانب سے  قبضہ کیے گئے کسی بھی اسلامی سرزمین کو نہیں بھولیں گے۔

﴿وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾

"یہ ایام تو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں" (آل عمران:140)

﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾

"عنقریب تمہیں اس کی خبر ملے"(ص:88)

Read more...

پریس ریلیز حزب التحریر کا با ضابطہ (آفیشل)رسالہ "الرایہ" کی دوبارہ  اشاعت

حزب التحریر کا مر کزی میڈیا   آفس مسرت کے ساتھ    الرایہ رسالے  کی دوبارہ اشاعت  کا اعلان کر تا  ہے ۔  یہ ایک سیاسی رسالہ ہے  جس کو حزب التحریر ہر ہفتے شائع کر تی ہے۔  اس میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔  اس رسالے کا پہلا شمارہ ذی القعدۃ 1373 ہجری بمطابق جولائی 1954 عیسوی میں شائع ہوا تھا۔ یہ رسالہ ہفتہ وار بدھ کی صبح  شائع ہو تا رہا  ۔ اس کے چودہ (14) شمارے ہی شائع ہو ئے تھے  جن میں  حق و سچائی کی آواز بلند ،سیاسی موضوعات پر بحث  اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا حل دیا اور حق بات ہی اس کا ہتھیار تھی مگر پھر بھی  ظالم اس کے وار برداشت نہ کر سکے  اور یہ اُن کے لیے راکٹ اور میزائل ثابت ہوا ۔  اردن کی حکومت  کلمہ حق کا   زخم  برداشت نہ کر سکی،خاص کر جب  حزب اور اس کے میگزین نے  اردنی وزیر داخلہ کی  جانب سے اس وقت کے اردنی آرمی چیف گلوب پاشا کے حکم سے  وعظ و ارشاد کے قانون کے اجرا کو چیلنج کیا ۔ اُس قانون کا ہدف  حزب کے شباب اور مخلص لوگوں کو  مساجد میں   درس دینےسے روکناتھا، اس لیے ظالموں نے چودہ شمارے نکلنے کے بعد ہی اس  رسالے کی اشاعت پر  پابندی لگا دی۔

اب الرایہ ایک نئی صبح کے ساتھ  دوبارہ آگیا ہے ۔ اس کا پندہرواں شمارہ بدھ 13 جمادی الاول 1436 ہجری  بمطابق4 مارچ 2015 عیسوی کو  اللہ کے اذن سے کامیابی کے ساتھ نور بن  کر  روشن کرنے لیے اور نار (آگ) بن  کر فساد کو جلا کر راکھ کر نے کے لیے حاضر ہے۔ اللہ  کی مشیت  سے یہ خلافت کے قیام  کے قریب ہونے اور رایۃ العقاب   کے بلند ہو نے کی خوشخبری بھی   لیے طلوع ہو رہا ہے، جو کہ حق اور عدل کا جھنڈا ہے  اور نبوت کے طرز پر ریاست خلافت راشدہ  مسلمانوں پر سایہ فگن ہو نے والا ہے اور ممکن ہے یہ دن قریب ہے۔

جلیل القدر عالم دین اور حزب التحریر کے امیر  عطاء بن خلیل ابو الرشتہ  حفظہ اللہ  نے  اس کی دوبارہ اشاعت کی مناسبت سے  : "الر ایہ   کو خوش آمدید ۔۔۔ یاد دہانی اور بشارت" کے عنوان سے  گفتگو کی  جس میں رسالے  کی پہلی اشاعت  کے واقعات کا ذکر کیا اور اس کے گزشتہ بعض  شماروں  کا حوالہ دیا ۔ آپ نے اللہ سبحانہ  و تعالٰی سے دعا کی  کہ  رسالے کی دوبارہ اشاعت  ایک یاد گار اور پر مسرت لمحہ ہو  اور یہ خلافت کے قیام کے قریب ہونے کی وجہ سے مسحور کن  بشارت  ہو  یقیناً  ایسا لگ رہا ہے کہ خلافت تو عملاً قائم ہو چکی ہے"۔

رسالے نے اپنے اس نئے شمارے میں  حزب کے امیر حفظہ اللہ  کا 3 مارچ کو استنبول  منعقد ہو نے والی  " جمہوری صدارتی ماڈل یا خلافت راشدہ ماڈل" کے موضوع پر کانفرنس سے افتتاحی خطاب  کو بھی من و عن شائع کیا ہے۔

اسی طرح  "عورت اور شریعت  : حق اور باطل کے درمیان"  کے موضوع  پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس  کے حوالے سے بیان جس کا انعقاد حزب التحریر کے میڈیا آفس کا شعبہ خواتین 28 مارچ کو   کر رہا ہے ،جس سے  پہلے عورت سے متعلق  حق اور باطل کی تمیز  کے بارے  ایک مہم بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ بھی اہم تر ین خبریں  اور سیاسی موضوعات اس شمارے میں شا مل ہیں، مندرجہ ذیل الیکٹرانک  صفحات کے ذریعے آپ الرایہ کو پڑھ سکتے ہیں:

الرایہ میگزین www.alraiah.net

فیس بک https://www.facebook.com/rayahnewspaper

گوگل پلس http://goo.gl/KaiT8r

ٹویٹر https://twitter.com/ht_alrayah

ای میل This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

حزب التحریر کے خلاف جبر کا خاتمہ کرو ‫عدلیہ‬ کو جابروں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلام اور ‫‏خلافت‬ کے داعیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے

‫‏راحیل_نواز‬ حکومت خلافت کے مخلص داعیوں ، حزب التحریر کے شباب کے خلاف مسلسل جبر کررہی ہے اورافسوس کا مقام یہ ہے کہ عدلیہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت میں سچائی اور انصاف کی سربلندی کےاپنے فرض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ 5 دسمبر 2014 کو حکومت نے لاہور میں حزب التحریر کے ایک درس پر چھاپہ مارا اور اس میں شریک مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ ملک میں اسلام کے نفاذ اور امریکی راج کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ گرفتارشدگان آج کے دن تک جیل میں قید ہیں جبکہ عدلیہ حکومت کے انتہائی دباؤ پر ان کی ضمانت کو مسترد کررہی ہے یا ایک عدالت سے کسی دوسری عدالت میں ضمانت کے معاملے کو بھجوا دیا جاتا ہے یا ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دینے کے بجائے لمبی لمبی تاریخیں دی جاہی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں حزب التحریر کے کئی شباب کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت کے غنڈے مسلسل انہیں ہراساں کررہے ہیں جنہیں نا تو خواتین کی عزت اور نا ہی گھر کی چار دیواری کے تقدس کا خیال ہے۔ اور ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان ، نوید بٹ ، کو 11 مئی 2012 کے دن حکومتی غنڈوں نے اغوا کیا تھا اور آج بھی وہ اُن کی قید میں ہیں۔


یہ تمام جرائم اس وقت کیے جارہے ہیں جب حکومت نے امریکہ کی انٹیلی جنس اور نجی سیکوریٹی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی جاسوسوں کو مکمل چھوٹ فراہم کررکھی ہے جو افواج پاکستان اور شہریوں کے خلاف خوفناک حملوں کی منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ان حملوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں جس میں 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اور پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ حزب التحریر کے لاہور میں ہونے والے درس پر چھاپےکے ٹھیک دس دن بعد ہوتا ہے۔ حکومت نے دشمن کو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے لیکن اسلام اور خلافت کے داعیوں کے خلاف پوری حکومتی مشینری کو متحرک رکھا ہوا ہےجبکہ ریاست پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی دشمن کے شر سے حفاظت کرے۔ یہ وہ فرض ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دشمن امریکہ اور بھارت کی ہماری سرزمین پر حملے کرنے کی استعداد کا خاتمہ کیا جائے اور اس کام کو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند اور ان کے جاسوسوں کو گرفتار کیا جائے۔ لیکن اپنے فرض سے روگردانی کرنے کے باوجود سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار عدلیہ سے بے خوف مزید غداریاں کرنے کے لئے کھلے پھر رہے ہیں۔
ہم عدلیہ کو رسول اللہ ﷺ کی یہ ارشاد یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا،


الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ، فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ
"تین قسم کے قاضی ہیں : ایک وہ جو جنت میں جائے گا اور دوسرا وہ جو جہنم میں جائے گا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے جو جنت میں جائے گا یہ وہ شخص ہے جو حقکو جانتا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، اور وہ جو حق کو جانتا ہےلیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کرتا وہ جہنم میں جائے گا ۔ اور وہ شخص جو لوگوں کے لیےجہالت پر مبنی فیصلہ جاری کرتا ہے وہ بھی جہنم میں ہوگا"(ابو داؤد)۔


اللہ کے سامنے اس بات کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ حکومت کے دباؤ پر سچ کو جاننے کے باوجود اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے۔ عدلیہ کو لازمی اسلام کی بنیاد پر ہی فیصلہ دینا ہے اور اسلام خلافت کے قیام کو فرض قرار دیتا ہے اور اسلام کے داعیوں پر ظلم و ستم کو حرام قرار دیتا ہے۔
ہم عدلیہ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر خبردار کیا کہ،


إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا "
تم سے پہلے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کہ جب ان میں سےکوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے لیکن اگر کوئی کمزورآدمی چوری کرتا تو وہ اس پر سزا کو نافذ کرتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دوں"(بخاری)۔


اور رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے حکمران ہونے کے ناطے انہیں حکمرانوں کا احتساب کرنے کو کہا اور فرمایا،


کہ فمَنْ كنتُ جلدتُ لهُ ظهراً فهذا ظهري فليَسْتَقِدْ منه، ومَنْ كنتُ شتمتُ لهُ عِرضاً فهذا عِرضي فليَسْتَقِدْ منه، ومن كنتُ أخذتُ لهُ مالاً، فهذا مالي فلْيَسْتَقِدْ منه"
اگر میں نے کسی کی پیٹھ پہ کوڑے مارے ہوں تو یہ ہے میری پیٹھ اپنا بدلہ لے لے، اگر میں نے کسی کو گالی دے کر بے عزتی کی ہو تو آئے اور اپنا بدلہ لے، اگر میں نے کسی کا مال لیا ہو تو یہ میرا مال ہے اس میں سے اپنا مال لےلے"۔


عدلیہ طاقتور کی گرفت کر کے اور مظلوم و کمزور کا ہاتھ پکڑ کر معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے جابر حکمرانوں کی حمایت کی جاتی ہے اور جو جابروں کے جبر کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہیں انہی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ کیا ہمیں برطانوی راج کے زمانے کی طرح زندگی گزارنی پڑے گی؟ کیا یہ برطانوی راج کے خلاف کی جانے والی 190 سال کی جدوجہد سے غداری نہیں اور کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟ تو کیا عدلیہ آج اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رضا اور ایمان والوں کی دعاوں کے حصول کے لئے امریکی راج کے خلاف سینہ تان کر کھڑی نہیں ہو گی؟


ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

جمہوریت کا خاتمہ کرو خلافت کو قائم کرو جمہوریت طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے

آج ‫‏پاکستان‬ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات نے اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے کہ جمہوریت طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس نظام میں شریک تمام ہی جماعتوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ محض ایک سینٹ کی نشست حاصل کرنے کے لئے امیدوار کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ تبدیلی کے گھوڑے پر سوار سیاسی جماعت کے سربراہ نے تو یہاں تک کہاں کہ "ایک اچھے آدمی نے انہیں پندرہ کروڑ دینے کی پیشکش کی"۔ سینیٹ کے انتخابات نے جمہوری نظام کی گندگی کو اس حد تک بے نقاب کر دیا ہے کہ اس نظام کے حمایتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر ایسے پچاس انتخابات بھی کرادیے جائیں تو اس کے بعد بھی پاکستان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔
پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اب تو مغربی ممالک کے عوام بھی یہ حقیقت جان گئے ہیں کہ جمہوری نظام عوام کے نام کو استعمال کرکے صرف اور صرف امراء کے طبقے کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتا ہے اور ان کا تحفظ کرتا ہے۔ اسی لیے مغرب میں لوگوں نے "میں 99 فیصد ہوں" اور " وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" کی تحریکیں چلائیں۔ ایک ایک نشست کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنا اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ پیسے لگانے والے کو جیتنے اور پھر جمہوری نظام کے ذریعے اس سے کئی گنا زیادہ روپے بنانے کا یقین ِ کامل ہوتا ہے جمہوری سیاست میں پیسے کی طاقت اور اثرورسوخ کا حالیہ مشاہدہ 2014 میں ہونے والے امریکی سینیٹ اور کانگریس کے انتخابات میں کرنے کو ملا جہاں امیدواروں نے ریکارڈ پانچ ارب ڈالر انتخابی مہم پر خرچ کیے۔ یہی حقیقت حال ہی میں برطانیہ میں سامنے آنے والے "کیش فار ایکسز" یعنی رسائی کے بدلے میں پیسے کے نام سے سامنے آنے والے سکینڈل نے بے نقاب کی۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ و داخلہ اور لیبر پارٹی کے رکن جیک سٹرا نے بھیس بدل کر آنے والے صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لئے یورپی قوانین میں تبدیلی کےلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور اس کے بدلے انہوں نے ساٹھ ہزار پونڈ لیے۔ اسی سیکنڈل میں ملوث کنزرویٹو پارٹی کے رکن اسمبلی سر میلکم ریفکینڈ نے کہا کہ "میں اپنا روزگار خود پیدا کرتا ہوں لہٰذا کوئی مجھے تنخواہ نہیں دیتا"۔
جمہوریت ایک بدبودار نظام ہے جس پر جتنی بھی خوشبو چھڑک دی جائے پھر بھی اس کی بدبو کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا بائیسویں آئینی ترمیم کردی جائے یا اس جیسی سینکڑوں ترامیم آجائیں یہ نظام ہمیشہ طاقتوروں کے مفادات کی ہی نگہبانی کرے گا۔ اگر مغرب میں تقریباً دوسو سال کی نام نہاد عوامی جمہوریت کے بعد بھی طاقتور ہی اصل حکمران ہیں اور جمہوریت انہیں اپنی طاقت میں مزید اضافہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے تو پاکستان اور مسلم دنیا میں جمہوریت کس طرح حقیقی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے؟ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو بھی جمہوریت سے ہر قسم کی امید توڑ کر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ نظام خلافت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جانب سے ہے اور یہ قانون سازی کے اُس اختیار کا ہی خاتمہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے طاقتور طبقہ ایسے قوانین بناتا ہے جس سے صرف انہی کے مفادات کی نگہبانی ہوتی ہے۔


إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ
"حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے" (یوسف:67)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے

راحیل-نواز حکومت امریکی خواہش پر افغانستان میں جاری امریکی صلیبی افواج کے خلاف جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے۔ اس حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نےلندن میں ایک بیان میں امریکی صدر اوبامہ کی واشنگٹن کانفرنس  کی تقریر کو بہادرانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہمیں دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے لئے صدر اوبامہ کے پیغام کے پیچھے اکٹھے ہونا چاہیے" اور اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہہ دیا کہ "11/9 سے قبل دہشت گردی اور خودکش حملے نہیں ہوتے تھے"۔

درحقیقت 11/9 کے واقع کو بہانہ بنا کرامریکہ نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ برپا کردی  کیونکہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد اسلام ہی وہ واحد نظریہ حیات ہے جو سرمایہ داریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سابق امریکی صدر بش جونئیر کا اس جنگ کو صلیبی جنگ قرار دینا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں اسی لئے اس جنگ کا شکار صرف مسلم ممالک ہی ہورہے ہیں۔ لیکن صلیبی جنگ کی اصطلاح کے خلاف ہونے والے شدید ردعمل نے امریکہ کو دہشت گردی کی اصطلاح کے استعمال پر مجبور کردیا۔

امریکہ یہ جانتا ہے کہ اس جنگ کولڑنے کے لئے اس کے پاس کوئی جواز نہیں اسی لئے اُس کے حملوں کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ مسلمانوں کا امریکی صلیبی افواج سے لڑنا اسلام کی رو سے  جہاد ہے ۔  اس حقیقت کو جانتے ہوئے امریکہ نے مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے اور انہیں اسلام اور جہاد سے دستبردار کرانے کے لئے سیاسی محاذ پر عالمی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی ابتداء 19فروری کو واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس سے کیا جس میں ساٹھ ممالک نے شرکت کی۔ اپنے اس مقصد میں کامیابی کے لئے غدار مسلم حکمرانوں کو بھی اس نے ایسی کانفرسوں کو منعقد کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کانفرنس 22 فروری کو مکہ میں"اسلام اور دہشت گردی کو روکنا "کے نام سے منعقد کی جاچکی ہے۔

راحیل-نواز حکومت بھی اپنے آقا امریکہ کے حکم پر جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔  اسی لئے حکمرانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان کی کوئی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان ،جو یقیناً امریکی ایکشن پلان ہے ،  کے تحت ملک بھر سے صرف پچھلے دو مہینوں میں تقریباً بیس ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ  خود حکومت نے مطلوب دہشت گردوں کی جو فہرست جارہی کی ہے وہ صرف تقریبا چھ سو افراد پر مبنی ہے۔

حزب التحریران غدار حکمرانوں کی یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ امت جہاد کرنے والوں اور  معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے مجرموں میں فرق کو بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے  اور جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کی اُن کی کوئی بھی کوشش ان کے لئے اس دنیا  اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث بنےگی۔ انشاءاللہ  کفر کی طاقتوں کےخلاف جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور یہ امت اسلام اور اس کی عظمت جہاد سے کبھی دستبراد نہیں ہوگی۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ للَّهِ

"اور اُن سے لڑو جب تک فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ کا دین غالب نہ آجائے" (البقرۃ:193)

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

Read more...

سوال کا جواب نائیجیریا میں انتخابات  موخر  کرنے کے حوالے سے

سوال :

نائیجیریا میں الیکشن کمیشن  نے 8 فروری 2015 کو  صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو اندرونی امن و امان  کی صورت حال کی خرابی کے بہانے  28 مارچ تک موخر کر دیا گیا  جو 14 فروری کو ہونے والے تھے۔ کیا بات ایسی ہی ہے ؟ یا اس تاخیر کے بین الاقوامی اسباب ہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو  اس تاخیر پر اثر انداز ہونے  والے ممالک کون ہیں؟ ان انتخابات کے بارے میں اب کیا توقع ہے ؟

میرا یہ مشاہدہ ہے کہ  حزب  کے مطبوعات  تقریباً  نئیجیریا  کے مسائل سے خالی ہیں حالانکہ  یہ آبادی کے لحاظ سے افریقہ میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ، جو سمندر  تک پھیلا ہوا ہے،یہ تیل سے بھی مالا مال ہے، اس کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے ؟ میں معذرت چاہتا ہوں کہ  سوال کرنا اگرچہ میرا حق ہے مگر شاید  نوٹ لکھنے کا حق نہیں تھا  ۔۔۔اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔

 

جواب :

پہلے : میں ملاحظہ سے شروع کر تا ہوں اور  یہ کہتا ہوں :

اللہ آپ کے اس ادب میں اضافہ فرمائے ، آپ  ایک ایسے امر پر بھی معذرت کر رہے ہو جو تمہارا حق ہے  اور یہی ادب کا حسن ہے۔۔۔

رہی بات نئیجیریا کو اہمیت دینے کی  تو یہ اللہ کے اذن  ہونے والا ہے اطمینان رکھئیے ، آپ نے جو کچھ کہا ہمیں اس کا ادراک ہے ،اس کے علاوہ بھی ہمیں  کئی امور کا  ادراک ہے اور ہم اس پر احسن انداز سے گامزن ہیں، اللہ سبحانہ وتعالٰی ہی توفیق دینے والا ہے۔۔۔

 

جہاں تک مطبوعات کا تعلق ہے  تو اس میں ہم بعض پہلوں اور ترجیحات  کی رعایت رکھتے ہیں۔۔۔اس کے باوجود ہم نے ایک سے زیادہ بار  نئیجیریا کے بارے میں مواد شائع کیا ہے،مثال کے طور :

۔پر13 مارچ 2009 ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا جو یہ تھا   کہ" کیا نئیجیریا میں اسلام کے آنے کے بارے میں  کچھ تاریخی معلومات ہیں   اور اس کے بعد  وہاں کیسے حکمرانی کی گئی ؟ پھر یہ بھی کہ نئیجیریا میں سیاسی صورت حال کیسی ہے ؟"۔

۔20 جنوری 2012 کو ہم نے  شباب کے لیے معلومات  "بوکو حرام" گروپ اور نئیجیریا میں اسلام کے خلاف  وحشیانہ جنگ " شائع کیا ۔

۔21 اگست 2012 کو  ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا "  گزشتہ دنوں  میں نئیجیریا اور کینیا   کی صورت حال،کچھ واقعات اور کشمکش نے ان کے متعلق مشاہدہ کرنے والوں کو چونکا دیا ۔۔۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ یا برطانیہ یا کوئی اور طاقت  افریقہ کے طول و عرض میں  خانہ جنگی کو ہوا دینے  کی نئی پالیسی پر گامزن ہے  خصوصاً نئیجیریا میں  اور 2007 کے  عام انتخابات کے بعدکینیا میں  یا یہ  کہ ان واقعات  کا تعلق اندرونی عوامل سے ہیں؟"۔

۔یہ ایک تفصیلی جواب تھا جس میں ہم نے جو ناتھن اور ان کو 2011 صدر منتخب کرنے کا ذکر ہے ،اس جواب میں تھا کہ ، "اوبا سانجو ملک میں سب سے بڑا امریکی ایجنٹ ہے۔یہ نئیجیریا میں امریکی بالادستی   کے تسلسل کی ضمانت دینے اور برطانوی اثر ورسوخ کو  زائل کرنے کے بارے میں ذمہ دار ہے۔  اوباسانجو  ہی نے  جو ناتھن کو  2007 کے صدارتی انتخابات میں  صدر عمر کے نائب کے طور پر منتخب کیا۔  گڈلک جوناتھن  کے شخصی فائل میں  ہے جس کا ذکر بی بی سی ریڈیو نے کیا  کہ "جناب جو ناتھن  گورنر بن گئے اور اس کے دو سال بعد  ہی او سیجو اوبا سانجو ان کو  2007 کے صدارتی انتخابات  میں نئیجیریا   کا  نائب صدر نامزد کیا " ( گڈلک  جو ناتھن کا شخصی فائل : بی بی سی نیوز آن لائن  18 اپریل 2011)۔اس کے کچھ عرصہ بعد  اوبا سانجو نے  نے جو ناتھن کو صدر کے منصب  تک پہنچانے کا بندو بست کیا جیسا کہ الطلیعہ (ڈان) اخبار نے کہا  ہے کہ  جو ناتھن کو صدارتی منصب تک پہنچانے میں اوباسانجو  کا بنیادی کردار ہے ،اخبار نے کہا کہ  "جب  یارادوا     صدارتی مدت  میں جو کہ چار سال ہے کے  تقریبا دوسال میں ہی  بیمار  ہو گیا  اور اپنی صحتیابی سے نا امید ہو گیا  تو اوباسانجو نے  پہلی بار سعودی ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گیا اور واپس آتے ہی گڈ لک جو ناتھن کے نائب صدر کے طور پر حلف برداری  کی مہم میں منہمک ہو گیا  تاکہ وہ نائب صدر کے طور پر صدر کا قائم مقام بن جائے  کیونکہ صدر یارادوا نے ملک سے باہر جاتے وقت  کسی کو اپنا نائب  مقرر نہیں کیا تھا  (کلیفور : اوباسانجو کا استعفی  : جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بعد کیا ہو گا ؟" اخبار الطلیعہ آن لائن 4 اپریل 2012 )۔

 

اس طرح  امریکہ  2011 کے صدرتی انتخابات میں  جو ناتھن  کے لیے وسیع مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ، کیونکہ جوناتھن  نئیجیریا کی عوام تک پہنچنے  کے لیے سوشل میڈیا کے ذرائع کو استعمال کیا  اور77.7فیصد ووٹ حاصل  کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔  یہ نتائج عمر یارادوا  کے ووٹ کے مقابلے  میں زیادہ تھے ۔۔۔") ختم شد

 

یوں ہم نے نئیجیریا کے بارے  مختلف مواقع پر مطبوعات شائع کیں ۔۔۔اگر چہ یہ اشاعت دوسرے بعض علاقوں کے بارے میں کی جانے والی  اشاعت سے کم ہیں  لیکن جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ  ہم "بعض  پہلووں اور ترجیحات  کی رعایت کر تے ہیں۔۔۔" ۔

بہر حال اللہ آپ کے اہتمام اور جستجو پر آپ کو بہترین جزا دے آپ کو توفیق دے اور مدد کرے ۔

 

دوسرا : انتخابات کی تاخیر کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب :

جواب کی وضاحت کے لیے میں مندجہ ذیل امور کا ذکر کروں گا :

1 ۔ حال ہی میں امریکہ نے نئیجیریا میں  اپنی بالادستی  کو مضبوط کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ؛ جیسا کہ  نیو یارک ٹائمز نے 7 جون 2014 کو خبر دی کہ "امریکہ  نے  نئیجیریا کے شمال میں ایک ٹی وی چینل کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کو امریکہ براہ راست فنڈز دے گا اور یہ چینل 24 گھنٹے  نشریات نشر کرے گا ،اس کا مقصد  بوکو حرام  اور دوسری سخت گیر اسلامی  جماعتوں  کا مقابلہ کر نا ہے"۔ اسی اخبار نے ایک امریکی عہدیدار  کا یہ بیان بھی نشر کیا کہ "یہ منصوبہ 2012 میں بوکو حرام کے خلاف تعاون کے لیے  نئیجیریا  کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ہے ،اس چینل کو نئیجیریا کے لوگ  چلائیں گے"۔ اخبار نے کہا کہ  "امریکی وزارت خارجہ میں اینٹی ٹیررازم آفس  اس چینل کے لیے فنڈز فراہم کرے گا  جو 6 ملین ڈالرز ہوں گے"۔

 

2 ۔ برطانیہ نے 1960 تک نئیجیریا کو  کالونی بنا کر رکھا اور  تب تک اسی کی وہاں  مکمل بالادستی تھی۔  اب بھی  اس کا کچھ نہ کچھ اثر ورسوخ وہاں باقی ہے  اگر چہ اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ امریکہ نے بالادستی حاصل کرنے میں اس کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس لیے انہی دونوں کا وہاں اثرو رسوخ ہے  اور انہی کے مابین مقابلہ ہے۔ برطانیہ اور اس کے ساتھ فرانس بھی حرکت میں آگیا  کیونکہ اس کو نئیجیریا کے  پڑوس  میں اپنی بالادستی  کی فکر دامنگیر تھی، چنانچہ  کیمرون کی سرحدھحدکے ساتھ موجود  چاڈ کے فوجی دستے  منگل3 فروری 2015 کو نئیجیریا میں داخل ہوئے۔  یہ فوج بوکو حرام کے اسلام پسندوں کے  ساتھ زبردست لڑائی کے بعد  نئیجیریا  کے شہر غامبور میں داخل ہوئی "(اے ایف پی 3/2/2015 )۔

یہ کہا گیا ہے  کہ اس جماعت نے ایک مہینہ قبل اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔ چاڈ کی فوج   گزشتہ مہینے جنوری میں کیمرون میں داخل ہوئی تھی ۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے3 فروری 2015 کو خبردی کہ "فرانس کی فضائیہ بوکو حرام کے انتہا پسندوں کے خلاف  نئیجیریا  کی سرحد کے ساتھ واقع ممالک  کی مدد کے لیے  جاسوسی  کی ذمہ داری ادا کر رہی ہے ۔۔۔ جبکہ برطانیہ کی موجودہ پالیسی یہ ہے  وہ امریکہ کی اعلانیہ مخالفت نہیں کر تی  بلکہ  وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی مسائل میں اس کی شریک کار ہے  اور یوں وہ اپنے آپ کو امریکہ کے شر سے محفوظ رکھتی ہے۔  برطانیہ کھل کر امریکہ کی مخالفت نہیں کر تا کیونکہ  وہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچنے سے ڈرتا ہے  اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں  اپنی پرانی کالونیوں  میں رہے سہے اثرو رسوخ  سے بھی ہاتھ دھونا نہ پڑے،مگر ساتھ ساتھ اب بھی  فرانس کو اسی طرح حرکت میں لاتا رہتا ہے جیسا کہ زمانہ قدیم سے  اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فرانس کے ساتھ کرتا آرہا ہے۔ فرانس کھل کر  سامنے آنے کو پسند کر تا ہے  کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑا اورنمایاں نظر آئے،اسی لیے برطانیہ  اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ فرانس سیاسی داؤ پیچ میں اتنا ماہر نہیں۔۔۔لے دے کر عملی رسہ کشی امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہی ہے۔

 

3 ۔ رہی بات نئیجیریا کے اندر کی تو   نئیجیریا کی حکومت  مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے  جبکہ مسلمان اکثریت ہیں،   چنانچہ فروری 2014   سرکاری سکولوں میں  حجاب پر پابندی لگا دی گئی ۔ حکومت  ،جس کی قیادت نصاری ٰکے ہاتھ میں ہے،  نے جانبداری کا مظاہر کیا  اور اس حکومت کو مغرب  اور اس کے سر غنہ امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے۔حکومت واضح طور پر نصاریٰ کی  طرفدار ہے ، مسلمانوں پر مغربی طرز تعلیم کو مسلط کر رکھا ہے اور  ریاست  مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہی ہے۔۔۔جب نئیجیریا کی فوج کے سپاہیوں نے  ان وحشیانہ کاموں سے انکار کیا جن کا ارتکاب  حکومت  مسلمان  شہریوں کے خلاف  کر تی ہے تو ان سپاہیوں کو سزائے موت دی گئی۔  سکائی نیوز نے 18 دسمبر 2014 کو خبر دی کہ " نئیجیریا کی ملٹری کورٹس نے   18 دسمبر 2014 کو اسپشل فورس کےان  54 عناصر کو سزائے موت دے دی جنہوں نے  بوکو حرام گرپ کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔  گزشتہ  ستمبر  میں 12 نئیجیرن فوجیوں کو ایک افسر پر فائرنگ کر کے الزام میں ملک کے مشرقی علاقے مایدوغوری میں  سزائے موت دی گئی ۔۔۔یہ سب عوام اور فوج کی جو ناتھن حکومت  سے  ناراضگی کو ظاہر کرتے ہیں اور اگر  انتخابات  اپنے مقررہ وقت پر ہوں تو یہ صورتحال ووٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

 

4 ۔ یہ تو ایک پہلو سے تھا جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابات میں  جو ناتھن  کا موجودہ مد مقابل  سابق صدر محمد بخاری ہے  جن کا تعلق  ھوسا قبیلے سے ہے  جو کہ سب سے بڑا قبیلہ ہے  اور ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے ،اس قبیلے  کے لوگوں کی بھاری اکثریت  مسلمان ہے اور شمالی نئیجیریا میں ان کو مقبولیت بھی حاصل ہے ۔  2011 کے انتخابات میں بھی اس نے  جوناتھن سے مقابلہ کیا تھا ۔ یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ محمد بخاری 32 فیصد سے جیت چکے ہیں ، انہوں نے انتخابات کی شفافیت پر شک کیا اور کہا کہ " نئیجیرین الیکشن کمیشن کے کمپیوٹر پروگرام  کے ذریعے  انتخابی نتائج سے کھیلا گیا  اور ان کو نقصان پہنچایا گیا "۔  یہ کہہ کر انہوں نے بلواسطہ طور پر امریکہ پر الزام عائد کیا  کیونکہ امریکہ نے ہی  اس الیکشن کمیشن  کو تکنیکی مہارت اور سرمایہ فراہم کیا   تھا اور وہی اس کی نگرانی  کر رہا تھا۔  امریکی وزیر خارجہ کے معاون جونی کارسون نے اس وقت اس الیکشن کمیشن کی تعریف کی تھی اور نئیجیرین عہدیداروں نے 9 دسمبر 2010 میں  واشنگٹن میں امریکی عہدیداروں کے ساتھ  اپریل 2011 میں ہونے والے انتخابات  ،اس کے لیے درکار تیکنیکی معاونت ، سرمایہ اور نگرانی کے حوالے سے  اعلیٰ سطحی بات چیت کی تھی۔

 

محمد بخاری برطانوی  ایجنٹوں میں سے ہے اور یہ سابق عسکری حکمران ہے ۔  انہوں نے 1983  میں شیخو شارجاری  کا تختہ الٹ دیا تھا جو 1979 سے سول حکمران تھا ۔۔۔محمد بخاری نے 1999 اور2003  کے انتخابات میں  ریٹائرڈ جنرل اولو سیگن اوبا سانجو  کے ساتھ مقابلہ کیا  جبکہ 2007 کے انتخابات میں اوباسانجو نے  اپنی پارٹی کی طرف سے عمر یارادوا کو امیدوار نامزد کیا  جو کہ ایک مسلمان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے  اور اس کا مقصد  محمد بخاری سے مقابلہ کرنا تھا اور یہی ہوا آخر الذکر وہ انتخابات ہار گیااور اسی وجہ سے  اس حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا یا جس کی قیادت اوباسانجو کے پاس ہے۔  جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ محمد بخاری کو کسی حد تک مقبولیت حاصل ہے خاص کر  شمالی نئیجیریا میں ، اس لیے وہ اور اس کی جماعت پروگریسیو کانگریس پارٹی  کے پاس جو ناتھن اور اس کی پارٹی عوامی جمہوری پار ٹی کو  اقتدار سے  ہٹانے کا  اچھا خاص موقع ہے۔

 

5 ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھانپ لیا کہ انتخابات اس کے مفاد میں نہیں  اس لیے امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے موخر کرنے کے لیے معاملات کو ترتیب دینا شروع کیا :

۔ اس نے برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہامونڈ سے 23 جنوری 2015 کو ملاقات کی  جیسا کہ فرانس پریس نیوز ایجنسی نے ذکر کیا ہے ، یہ ملاقات انتخابات کو موخر کرنے سے تقریباً دو ہفتے پہلے ہوئی تھی۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے درمیان سب سے بڑا موضوع انتخابات ہی تھے۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ نئیجیریا میں  برطانیہ کے  کارندے موجود ہیں۔۔۔

۔ اس کے بعد کیری نے  حزب اختلاف کی پروگریسیو کانگریس پارٹی کی قیادت اور ان کے نامزد امید وار محمد بخاری سے ملاقات کی۔  ملاقات کے بعد کیری نے کہا  کہ "صدر باراک اوباما  نے مجھ سے کہا  ہے کہ میں نئیجیریا  کی سیاسی شخصیات  کو یہ بتادوں کہ امریکہ  شریک ہونے اور نئیجیریا کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن جمہوری عمل تسلی بخش ہو نا چاہیے " (اے ایف پی 25 جنوری2015 )۔

۔ اس کے بعد کیری نے نئیجیریا کے صدر جو ناتھن  سےملاقات کی جس نے "آزادانہ ،شفاف اور تسلی بخش انتخابات کے اجراء کی حامی بھری" (اے ایف پی25 جنوری2015)۔

یوں یہ تمام ملاقاتیں  صدارتی انتخابات  کے حوالے سے تھیں ۔  فرانس پریس نے کیری کے نئیجیریا کے دورے کی خبر دیتے ہوئے 25 جنوری2015 کو کہا  کہ  " کیری  صدارتی اور قانون ساز اسمبلی  کے لیے  14 فروری کو ہو نے والے انتخابات  کے بارے میں بات چیت کرے گا" ۔

 

6۔ ایسا لگ رہا ہے کہ  کیری ان اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ملاقاتوں کے ذریعے  انتخابات کو کچھ عرصے کے لیے موخر کرنے  کے مسئلے کو حل کرنے  پر اتفاق کے لیے طرفین کو منانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن  وہ اس حل تک نہ پہنچ سکے  اسی لیے جو ناتھن  نے طرفین  کی رضامندی کا انتظار کیے بغیر ہی   انتخابات کو ڈیڑھ مہینے کے لیے موخر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے اور یو ں  نئیجیرین الیکشن کمیشن نے8 فروری2015 کو  14 فروری کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو 28 مارچ تک امن و آمان کی صورت حال کا بہانہ بنا کر موخر کر دیا۔ امریکہ نے حسب عادت اپنے آپ کو اس سے لاتعلق ظاہر کیا،گویا کہ یہ خود جوناتھن حکومت کا فیصلہ تھا،جس پر کیری نے یہ بیان جاری کیا کہ  " نئیجیریا کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے کے فیصلے پر واشنگٹن  کو مایوسی ہوئی" (رائٹر 8/2/2015 )۔  کیری نے تو یہ کہا مگر معاملہ ہر اس شخص کے سامنے واضح ہے جس کے پاس دو آنکھیں ہیں۔  اس کی ملاقاتوں میں بھی توجہ انتخابات کے موضوع پر مرکوز تھی جیسا کہ فرانس پریس  نیوز ایجنسی نے کہا ہے ۔ لازمی بات ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ امریکہ کا ہے کیونکہ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو ناتھن امریکہ کی مخالفت کر ے  وہی امریکہ کا تابع فرمان  اور امریکی حمایت پر بھروسہ کرنے والا ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے 8 فروری2015 کو خبر دی کہ  نئیجیرین الیکشن کمشن نے " حکمران  پیپلز پارٹی  کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے" ۔

 

7 ۔  حکومت نے انتخابات کو موخر کرنے  کا سبب امن وآمان کو قرار دیا  لیکن یہ عذر لنگ ہے ۔ جا ناتھن حکومت  کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے  کے بہانے  میں تضاد اور تردد نمایا ں ہے۔  چنانچہ    آزاد قومی الیکشن کمیشن کے سربراہ  اتا ھیرو جیجا نے وضا حتی بیان میں کہا  کہ "ملک کے سیکیورٹی قیادت کے مشوروں کو اتنے آسانی سے  نظر انداز کر نا ممکن نہیں ، ایسے حالات میں  نوجوانوں اور خواتین کو اپنا جمہوری حق  ادا کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکالنا ممکن نہیں  جہاں امن آمان کی کوئی ضمانت نہ ہو اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، اس کے نتیجے میں کمیشن نے انتخابات کے لیے نئی تاریخ مقرر کردی ہے ، عام انتخابات ،صدارتی انتخابات اور قومی اسمبلی کے انتخابات 28 مارچ 2015 کو ہوں گے جبکہ گورنروں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات   11 اپریل کو ہوں گے"۔ جیجا نے کہا  کہ "قومی سلامتی کے مشیر نے  پچھلے ہفتے  الیکشن کمیشن کو ایک خط بھیجا جس میں  وضاحت کی کہ  انتخابات کا  مقررہ  اصل تاریخ   پر منعقد ہو نے کی صورت میں امن و  آمان کی ضمانت دینا ممکن نہیں ۔۔۔" انہوں نے مزید کہا  کہ "اس فیصلے پر ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا"۔  انہوں نے یہ ایسے انداز سے کہا  جیسا کہ ایک "مشکوک شخص کہے کہ مجھے پکڑو" ۔  انہوں نے مجبوری  کو چھپاتے چھپاتے مجبوری کو ثابت کیا  !صرف یہی نہیں بلکہ  اس سے قبل  گزشتہ مہینے قومی سلامتی کے مشیر  سامبو داسو کی نے کہا کہ  "انتخابات میں تاخیر کا سبب شناختی کارڈز بروقت فراہم نہ ہو نا ہے جو کہ ووٹنگ کے لیے لازمی ہے " ( رائٹرز 8/2/2015 )۔۔۔ یوں ایک مہینے پہلے قومی سلامتی کا مشیر  انتخابات میں تاخیر کا سبب  شناختی کارڈز کی عدم فراہمی کو قرار دے رہا ہے  جبکہ الیکشن کمیشن اس کا سبب امن آمان کے مسئلے کو گردانتا ہے ؟! دونوں بیانات میں واضح تضاد ہے !

یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر ان اسباب کے بنا پر نہیں کی گئی جو جوناتھن حکومت نے بتا ئی ہے بلکہ یہ امریکی فیصلے کی بنا پر ہے کیونکہ  اس کے ایجنٹ  موجودہ صدر جوناتھن  کی پوزیشن خراب  اور اس کے ناکام ہونے کا خوف ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ  تجزیہ نگار اور مشاہدہ کرنے والے  اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ  محمد بخاری  اور اس کی پارٹی پروگریسیو کانگریس  کے پاس جو ناتھن اور ان کی پارٹی پیپلز  ڈیموکریٹک پارٹی کو  اقتدار سے ہٹا  نے  کا حقیقی موقع ہے۔

 

8 ۔  اب مندرجہ ذیل تین احتمالات کا امکان ہے:

ا ۔ جو ناتھن انتخابات کو موخر کرنے کی مدت کے دوران  امریکہ کی مدد سے کچھ کامیابیاں حاصل کر لے  اور امن و آمان کو بحال کرنے کچھ اقدامات کریں ،جس سے  پرتشدد کاروائیوں میں کمی آئے، اگر وہ  یر غمال بنائے گئے  سکول کی بچیوں  کے مسئلے کو امریکہ کی پشت پناہی   اوربین الاقوامی  تدابیر سے حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔۔۔

ب ۔ یا امریکہ  برطانیہ کے ساتھ کسی مصالحت تک پہنچے گا اور جوناتھن اور محمد بخاری کے درمیان شراکت ہو گی، ایک صدر بن جائے دوسر ا اس کا نائب مقرر ہو ، یعنی وہی فارمولہ آزمایا جائے  جس کو جو ناتھن نے ختم کر دیا تھا، جو یہ تھا کہ ایک نصرانی ہو اور دوسرا مسلمان۔  اس صورت حال کا دارومدار  نئیجیریا میں  رسہ کشی کرنے والے فریقین کی قوت پر ہو گا یعنی امریکہ اور برطانیہ ۔

ج ۔ انتخابات  کو موخر کرنے کو دہرایا جائے ، یا  نئے مقرر ہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہو  مگر گزشتہ انتخابات کی طرح کمپیوٹر پروگرام کے ساتھ کھیل کر امریکی  امید وار کا پلڑا بھاری کیا جائے گا، دونوں صورتوں میں  پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہو گا اور لوگ خاص کر مسلمان اس آگ  میں جلیں گے ۔۔۔

د ۔ یا پھر اللہ  اس امت پر اپنا فضل کر ے گا اور کسی مضبوط  اسلامی ملک میں  خلافت راشدہ قائم ہو جائے گی  ، جس سے استعماری کفار کے دلوں میں  رعب داخل ہو گا  اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کی جرات نہیں کریں گے، بلکہ نئیجیریا اور دوسرے علاقوں میں  مسلمان غالب آئیں گے:

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

"جو اللہ کی مدد کرتے ہیں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے  بے شک اللہ ہی  قوی اور غالب ہے"(الحج:40)۔

 

Read more...

خلافت کا قیام امریکی راج کا اختتام راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے مجاہدین پر بھرپور دباؤڈال رہی ہے

راحیل-نواز حکومت افغانستان میں امریکی قبضے اور خطے میں امریکی راج کو مستحکم کرنے کے لئے امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پر بھر پور دباؤ ڈال رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ عالمی اقتصادی بحران اور عراق و افغانستان کی دو انتہائی طویل جنگوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے  اور یہ صاف نظر آرہا ہے کہ افغان حکومت  کسی صورت  امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی، تو  راحیل-نواز حکومت نے خطے میں امریکی راج کو گرنے سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا کیونکہ  حقانی نیٹ ورک سمیت امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے اہم ٹھکانے اسی علاقے میں موجود تھے اور پھر پشاور اسکول حملے کو جواز بنا کر نیشنل ایکشن پلان کے نام پر اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔حکومت  فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی مفادات کو یقینی بنانے کے لئے مجاہدین کے بعض گروہوں  پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے شدید دباؤ ڈال رہی ہے  اور پچھلے چند مہینوں میں راحیل-نواز حکومت کے سیاسی و فوجی اہلکاروں کی تواتر سے کابل یاترا اسی مقصد کے تحت ہے۔

راحیل-نواز حکومت کا یہ عمل پاکستان اور  افغانستان  کے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔ اس وقت جب خطے کے مسلمان اپنی عظیم ترین قربانیوں کی بدولت اس علاقے میں امریکی عزائم کو ناکام کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں تو ایک بار پھر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے  مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائےکافر صلیبیوں  کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں صورتحال کمزور ہے  جس کی وجہ سے افغان حکام اور امریکی قانون ساز امریکی صدر سے محدودانخلاء کی تاریخوں میں ردوبدل کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لہٰذا نئے امریکی سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے  اپنے حالیہ  کابل کے دورے کے دوران یہ کہا ہے کہ امریکہ اس بات کے لئے تیار ہے کہ کچھ اڈوں کو بند کرنے میں تاخیر کردی جائے اور مزید فوج کو افغانستان میں  تعینات رکھا جائے۔

حالیہ دونوں میں امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری اور افغان صدر غنی کے جانب سے افغانستان میں نام نہاد امن کے قیام کے لئے راحیل -نواز حکومت کی کوششوں کی انتہائی تعریف و توصیف کرنااس بات کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کے سیاسی و فوجی وسائل مخلص مجاہدین کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے اور امریکی شرائط کو قبول کرنے  پر مجبور کرنے کے لئے لگا دیے ہیں۔ حزب التحریر پاکستان ا ور افغانستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے کہ اگر امریکہ کا مجاہدین کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوجائے تو اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا، ایسی سوچ رکھنے والوں کو عراق کی صورتحال کو سامنے رکھنا چاہیے جہاں آج کے دن تک مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ خطے میں امن امریکہ کی موجودگی کو ختم کرنے سے ہی قائم ہو گا اور ایسا صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

 

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک