الخميس، 08 شوال 1445| 2024/04/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان  نیوز  ہیڈ لائنز 14 جولائی 2017

 

۔ غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے 1.8ارب ڈالر کا نفع بیرون ملک بھیجنا وسیع غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے نقصانات کو ظاہر کرتا ہے

- نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام اقتدار میں رہنے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کے سلسلے کا خاتمہ کردے گا

- امریکی استعماریت کے ساتھ ساتھ چینی استعماریت کے قیام کی باجوہ حمایت کرتا ہے

تفصیلات:

 

غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے 1.8 ارب ڈالر کا نفع بیرون ملک بھیجنا وسیع غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے نقصانات کو ظاہر کرتا ہے

 

4 جولائی 2017 کو اسٹیٹ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق غیر ملکی کمپنیوں نے پچھلے گیارہ ماہ میں اپنا 1.88 ارب ڈالر منافع پاکستان سے باہر اپنے ممالک میں بھیجوایا ہے۔ پچھلے مالی سال کے پہلے دس ماہ یعنی جولائی سے اپریل تک 1.5ارب ڈالر منافع بیرون ملک بھیجوایا گیا تھا اس طرح ایک سال میں کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک بھیجوائے جانے والے نفع میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سال کے اختتام تک غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے بھجوایا جانے والا نفع 2 ارب ڈالرتک پہنچ سکتا ہےجو کہ ایک ایسے ملک کے لیے بہت بڑی رقم ہے جبکہ بیرون ملک رہنے والے شہریوں کی جانب سے بھیجوائے جانے والے زرمبادلہ اور برآمدات میں کمی ہورہی ہے ور درآمدات پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔

 

غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے کی جانی والی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا مقصد مہمان ملک کے وسائل ، سستے مزدور اور مقامی مارکیٹ سے اپنے مفاد میں فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ شروع میں کچھ عرصے کے لیے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پیداواری صلاحیت کو بہتر اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے مہمان ملک کی طلب میں اضافہ کرتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی ایک وجہ پیٹنٹ قوانین کا اطلاق بھی ہے۔ لیکن جیسے جیسے ابتدائی سرمائے سے منافع آنا شروع ہوجاتا ہے تو سرمایہ مہمان ملک سے اس ملک منتقل ہونا شروع ہوجاتا ہے جہاں سے آیا ہوتا ہے۔ اس سے بھی برا یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں مقامی مارکیٹ میں چھا جاتی ہیں کیونکہ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے انہیں ٹیکس کی چھوٹ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں مسابقت کے حوالے سے ایک برتری یہ بھی حاصل ہوتی ہے کہ ان کے پاس زیادہ وسیع وسائل ہوتے ہیں اور صنعتی اور زرعی اشیاءکی بڑھتی پیداواری لاگت کو وہ آسانی سے برداشت کرسکتے ہیں۔

 

براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی حقیقت یہ ہے جس کے متعلق اکثر حکومتی بجٹ پیش کیے جانے کے وقت بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مشرف کے دور میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں ایک تہائی اضافہ ہوا تھا ۔ 02-2001 میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کُل ملکی پیداوار کا17.2 فیصد تھی جو 07-2006 میں بڑھ کر کُل ملکی پیداوار کا 23 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ ملکی صنعت مسلسل زوال کا شکار ہے اور کئی صنعت کاروں نے پیداواری شعبے کو چھوڑ کر غیر ملکی اشیاء کی تجارت کرنی شروع کردی ہے۔ پاکستانی معیشت کا غیر ملکی اشیاء پر انحصار بڑھتا چلا گیا ہے اور یہ رجحان کیانی-زرداری، راحیل-نواز اور باجوہ-نواز حکومتوں کے دور میں بھی جاری رہا اور جاری ہے۔ ہر آنے والے حکمران نے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں اپنا کاروبار قائم کرنے کے لیے سہولیات فراہم کیں جس میں ٹیرف ریٹس میں 20 فیصد تک کمی جو 1986 میں 225 فیصد تھی، مشینری کی درآمد اور دیگر اشیاء پر ایکسائز ڈیوٹی میں کمی جو پیداوار میں استعمال ہوتی ہیں اور نفع پر ٹیکس معاف کیا گیا جو بعد میں ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے اور اس طرح غیر ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج ہزاروں صنعتی یونٹس کو بیمار قرار دیا جاچکا ہے اور مجموعی طور پر صنعتی پیداوار زوال کا شکار ہے جبکہ غیر ملکی کمپنیاں صنعتی مشینری سے لے کر مشروبات تک کے شعبے میں ملکی مارکیٹ میں چھائیں ہوئیں ہیں۔

 

صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ عوامی اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دیا جائے ، اہم صنعتیں ریاست خود قائم کرے اور انہیں اپنی ملکیت میں رکھے اور اس کے ساتھ ساتھ محاصل کے حوالے سے اسلامی قوانین کو نافذ کرے، اس طرح سے ریاست بیرونی اقوام اور ان کی شرائط پر انحصار کیے بغیر صنعتی شعبے میں، چاہے وہ نجی ملکیت میں ہوں یا ریاستی ملکیت میں، سرمایہ کاری کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس طرح سے ریاست اس قابل ہو گی کہ وہ فوجی ٹیکنالوجی، گارمنٹس، اسٹیٹ، تعلیم اور صحت کے شعبے میں خود کفالت حاصل کرسکے۔ بیرونی تجارت ان ممالک سے کی جائے گی جن کی اسلامی ریاست کے ساتھ کھلی دشمنی نہیں ہوگی اور وہ بھی اس طرح کی جائے گی کہ اس کے نتیجے میں وہ اسلامی دعوت میں رکاوٹ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں کیونکہ بلا آخر اسلام کو پوری دنیا پرنافذ کرنا ہی ہے۔ جب درآمدات کی قیمت بیرونی کرنسی میں ادا کی جارہی ہو تو اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ اس کے نتیجے میں ریاست کی کرنسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے حزب التحریر نے آنے والی ریاست خلافت کے مجوزہ آئین کی دفعہ 165میں لکھا ہے:"غیر ملکی سرمائے کا استعمال اور ملک کے اندر اس کی سرمایہ کاری کرنا ممنوع ہوگا، اور نہ کسی غیر ملکی شخص کو کوئی امتیازی رعایت دی جائے گی"۔

 

نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام اقتدار میں رہنے کے لیے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کے سلسلے کا خاتمہ کردے گا

 

11 جولائی 2017 کو پاکستان مسلم لیگ – ن کے وفاقی وزیروں نے ایک پریس منعقد کی جس کا مقصد پانامہ پیپرز لیکس کے تناظر میں حکمران جماعت کے بڑوں کے خلاف بڑھتے سیاسی دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ-ن کے پیغام کا خلاصہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے بنائی جانے والی جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے کاروباری معاملات کے حوالے سے جو تحقیقاتی رپورٹ جمع کرائی ہے وہ ناقص ہے جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ ایک وزیر تو اس حد تک گئے کہ انہوں نے اس رپورٹ کو ایک وسیع سازش کا حصہ قرار دیا اورنام لیے بغیر کچھ کرداروں کو ڈوریاں ہلانے کا ذمہ دار قرار دیا جن میں سےکچھ بیرون ملک مقیم ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کی ابتدااس پیغام کے ساتھ کی کہ تمام متعلقہ جماعتوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

 

پانامہ پیپرز لیکس نے پوری دنیا مین پاکستان سے لے کر آئس لینڈ تک اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جمہوریت وہ آلہ ہے جس کو استعمال کرکے ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جاتا ہے۔یہ صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اُن کا ہوتا ہے جو حکومت میں ہوتے ہیں اور وہ ایسے قوانین بناسکتے ہیں جس کے ذریعے دولت جمع کریں اور پھر اسے چھپابھی سکیں۔ اور یقیناً نواز شریف کہا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کرپشن تو ہمیشہ سے موجود ہے کیونکہ پوری مسلم دنیا میں حکمران انسانوں کے بنائے قوانین کے ذریعے حکمرانی کررہے ہیں۔ مالیاتی کرپشن سے بھی بڑھ کر جمہوریت حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنےکےفساد کو یقینی بناتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے ہمارے معاشی استحصال اور خارجہ پالیسی کے میدان میں ذلت و رسوائی کی۔ یہی جمہوریت ہے جو اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ زبردست وسائل کی موجودگی کے باوجود ہم مشکلات کی دلدل میں گرتے چلے جارہے ہیں اور ہمارے دشمن ہماری ہی زمینوں سے نکلنے والی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ حکمران امت سے غداری اور اسے دھوکہ دینے کے لیے رضامند رہتے ہیں تا کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے ہمارے دشمنوں کی حمایت سے مستفید ہوتے رہیں۔

 

کرپشن جمہوریت کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی کو نظر انداز کر کے انسانوں کو اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہے۔ ایسا کرنے سے جمہوریت امریکی گھوڑا بن جاتی ہے اور ہمارے معاملات کو استعماری طاقتیں اپنی مرضی سے چلاتی ہیں اس بات سے قطع نظر کہ اس گھوڑےپر سواری نواز شریف، آصف علی زرداری یا عمران خان کرے۔ استعماری طاقتوں کا حکمرانوں اور قانون سازی کرنے والوں سے مضبوط تعلق ہوتا ہے اور وہ ان کے ذریعے مسلسل جمہوریت کو ایسے قوانین بنانے کے لیےاستعمال کرتی ہیں جو اسلام سے براہ راست متصادم اور مسلمانوں کے لیے شدید نقصان کا باعث ہوتے ہیں ۔ ہماری اہم معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف بناتی ہے جس پر امریکہ کا غلبہ ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے اہم اثاثوں کی نجکاری کی جاتی ہے، سود کی وجہ سے قرضے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور کمر توڑ ٹیکس لاگو کیے جاتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کا تعین امریکی دفتر خارجہ، پینٹاگون اور سینٹکوم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہماری افواج کو افغانستان میں امریکی موجودگی کو مستحکم کرنے کی جنگ میں ایک ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے دشمن بھارت کی کھلی جارحیت کے خلاف ہماری افواج کو "تحمل" کی پالیسی کی زنجیریں پہنا دیں جاتی ہیں۔ جمہوریت وہ کھلا دروازہ ہے جس کے ذریعے استعماری پالیسیاں ہمیں تباہ و برباد کرتی ہیں۔ جمہوریت صرف اس بات کی مستحق ہے کہ اس کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ یہ ایسی اسمبلیاں بننے کا باعث بنتی ہے جن میں بیٹھے مرد و خواتین اقتدار اعلیٰ کے مالک ہوتے ہیں اوراس بنا پر وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق قوانین بناتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ

"آپ ﷺ ان کے معاملات میں اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق ہی حکم کیجئے، ان کی خواہشوں کی تابعداری نہ کیجئے اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ  اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات) کے بارے میں آپ ﷺ کو فتنے میں نہ ڈال دیں (المائدہ:49)

 

امریکی استعماریت کے ساتھ ساتھ چینی استعماریت کے قیام کی باجوہ حمایت کرتا ہے

 

12 جولائی 2017 کو نیشنل لاجسٹک سیل کے زیر اہتمام پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے موضوع پر ہونے واے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا کہ لوگوں کو سی پیک سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور"  سی پیک کو کامیاب بنانے کے لیے تمام قومی اداروں کو بھر پور کوشش کرنی ہو گی"۔

 

خارجہ یا معاشی پالیسی بناتے وقت کسی بھی قیادت کے لیے یہ حقیقت سامنے رکھنا  لازمی ہے کہ چین مسلمانوں اور پاکستان  کے لوگوں کے لیے  دوست ملک  کی حیثیت سے کوسوں دور ہے۔ چین ایک لالچی سرمایہ دار ریاست ہے اور اندرون ملک اور بیرون  ملک  مسلمانوں پر شدید مظالم کرتی ہے۔اس کے شدید مظالم کی مثال  مشرقی ترکستان (سنکیانگ)میں مسلمانوں کے خلاف اس کا وحشیانہ طرز عمل ہے جہاں مسلمانوں کو رمضان کے روزے رکھنے، نوجوانوں کو مساجد میں   جانے ، لمبی داڑھیاں رکھنے، خواتین کو اسلامی لباس پہننے یہاں تک کہ اب مسلمانوں کو اپنے بچوں کا نام ہمارے پیارے نبی ﷺ کے نام "محمد" رکھنے سے روکا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ  چین مسلم دنیا میں  دوسری بڑی طاقتوں کےاستعماری منصوبوں کی  سیاسی حمایت کرتا ہے۔ چین بھی  روس، امریکہ  اور برطانیہ کی  طرح ایک استعماری سرمایہ دار ریاست  ہے جو صرف اپنے مفادات کو ہی سامنے رکھتی ہے اور ان کے حصول کے لیے کام کرتی ہے ۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو یہ یکطرفہ  منصوبہ ہے جس کے ذریعے چین اپنی صنعتی مصنوعات کے لیے پاکستان کے وسائل  اور ان کی کھپت کے لیے  پاکستان کی مارکیٹ کو استعمال کرسکے گا۔

 

  ایک اور استعماری ریاست کے ساتھ معاملات طے کر پاکستان کو خطرے سے دوچار کردیا گیا ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین  پاکستان کے اہم وسائل  کا مالک بن گیا ہے ، لہٰذا سی پیک کھیل کی تبدیلی(گیم چینجر)  نہیں بلکہ کھیل ہارجانے( گیم لُوزر)  کا معاہدہ ہے۔ سی پیک نے پاکستان کو مزید خارجی سودی قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے لہٰذا پاکستان جو پہلے ہی استعماری طاقتوں اور ان کے اداروں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اب اس میں چینی قرضوں کے بوجھ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔  اس کے علاوہ سی پیک کے ذریعے حکومت نے چینی درآمدات اور  مزدوروں (لیبر) پر انحصار   اختیار کرلیا ہے جس کے نتیجے میں پہلے سے ہی تباہ حال پاکستان کی زراعت اور صنعت مزید زبوں حالی کا شکار ہو جائے گی۔  لیکن اگر اس  کےبعد بھی کسی کو یہ توقع ہے کہ پاکستان کو اس منصوبے سے کچھ حاصل ہوگا تو وہ  خوراک کے اُن چند ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہوگا جو کھانے کے دوران زمین پر گر جاتے ہیں اور یہ چند ٹکڑے بھی پورے پاکستان کے حصے میں  نہیں بلکہ صرف باجوہ-نواز حکومت اور اس کے ساتھیوں اور حامیوں کے حصے میں آئیں گے ۔

 

لہٰذا اس بات کے باوجود کہ پاکستان عظیم صلاحیت کا حامل ملک ہے،  بصیرت سے عاری باجوہ-نواز حکومت نے خارجی طاقتوں کے سامنے پاکستان کو مال غنیمت کے طرح پیش کردیا ہے کہ جس کا جتنا جی چاہے اس میں سے لے جائے۔ یہی وقت ہے کہ مسلمان اِس ناکام قیادت کو مسترد کردیں اور خلافت کے منصوبے کے لیے کام کریں جو خارجی ممالک پر انحصار کے اِس تباہ کن دور کا خاتمہ کردے گی۔ صرف خلافت کے قیام کے بعد ہی مسلمانوں کے پاس ایسی قیادت ہو گی جو مسلمانوں کو طاقتور بنانے کے لیے کام کرے گی، موجودہ مسلم ممالک کو خلافت کے جھنڈے تلے  ایک ریاست کی صورت  میں وحدت بخشے گی اور مسلم علاقوں کو،  جو بے پناہ وسائل سے مالا مال ہیں، سڑکوں، مواصلات اور توانائی کے منصوبوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑ دے گی۔  اس کے علاوہ  دوسرے ممالک کی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری پر انحصار کی جگہ  خلافت خود بھاری صنعتوں، جیسا کہ انجن سازی، ہتھیار، بھاری مشینری، میں بھر پور سرمایہ کاری کرے گی تا کہ معیشت مضبوط بنیادوں پر تعمیر ہو اور اس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ ریاست خلافت کودنیا کی بڑی طاقت بنا دے۔

 

مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
"وہ جو کافر ہیں ، اہل کتاب یا مشرک، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کی طرف سے، اور اللہ اپنی رحمت خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے"(البقرۃ:105)

Last modified onجمعہ, 14 جولائی 2017 22:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک