الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 25 اگست 2017

- امریکہ کے ساتھ کام کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں

- باجوہ کی امریکی سفیر سے ملاقات ایک ڈانٹ کھائے ہوئے غلام کی اپنے آقا کے ساتھ ملاقات تھی

-ٹرمپ کو اس کی زبان میں جواب دو: امریکی سفارت خانہ، قونصل خانے اور اڈے بند کرو!

 

تفصیلات:

 

امریکہ کے ساتھ کام کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں

 

پاکستان کے دفتر خارجہ نے 22 اگست 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان الزامات کو مسترد کیا کہ پاکستان "افراتفری پھیلانے والے عناصر" کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ الزام  افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کے اعلان کے موقع پر لگایا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا، "پالیسی کے تحت پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ محفوظ پناگاہوں کے جھوٹے  الزامات پر انحصار کرنے کی جگہ امریکہ کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے"۔

کیا کوئی عاقل شخص اب  بھی یہ چاہے گا کہ پاکستان  امریکہ کے ساتھ مل کر  کام کرے؟ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ برتاؤ ایسا ہے جیسا کہ ایک غلام کے ساتھ ہوتا ہے کہ اگر اس کا شکریہ بھی ادا کرنا ہو تو اس کو مار پیٹ کر شکریہ ادا کیا جائے۔ یہ صورتحال اس لیے ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر "دہشت گردی" کے خاتمے کے لیے کام کرتا ہے۔ امریکہ نے مشرف کے ساتھ کام کیا تا کہ وہ افغانستان پر قبضہ کرسکے جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ مشرف کی مدد کے بغیر امریکہ افغانستان پر حملہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے مشرف کے ساتھ کام کیا تا کہ پاکستان میں اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک پھیلاسکے اور اس نیٹ ورک کو قبائلی مزاحمت کے خلاف  اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں موجود اسلامی عناصر کی نگرانی کے لیے استعمال کرسکے۔  ان تمام اقدامات کا مقصد امریکی قبضے کو اس خوفناک  نتیجے سے بچانا تھا جس کا شکار اس سے پہلے سوویت یونین اور برطانوی راج  ہوا تھا۔

 

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے مشرف کے ساتھ کام کیا تا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندو افواج کے خلاف ہونے والے جہاد کو "دہشت گردی" قرار دیا جائے اور اس طرح بھارت مسلمانوں پر اپنے مظالم میں مزید اضافہ کرسکے۔ اس کے بعد امریکہ نے کیانی کے ساتھ کام کیا  تا کہ پاکستان میں اپنی غیر سرکاری فوجی موجودگی کو بڑھایا جائے جس نے ہماری افواج پر" فالس فلیگ" حملے کیے تا کہ ہماری افواج کو قبائلی مزاحمت کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا جائے۔ امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا نتیجہ، قتل و غارت، بم دھماکوں اور افراتفری کی صورت میں نکلا اور ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے کیانی اور راحیل کے ساتھ کام کیا تا کہ قبائلی مزاحمت پر دباؤ کو مزید بڑھایا جاسکے، اور فوجی آپریشنز کا دائرہ بڑھاتے بڑھاتے وزیرستان اور پھر شمالی وزیرستان تک بڑھادیا گیا۔ اگر کیانی اور راحیل امریکہ  کی مدد نہ کرتے تو امریکہ کب کا شکست کھا کر بھاگ چکا ہوتا۔

 

اوراب باجوہ امریکہ کے ساتھ کام کررہا ہے اور قبائلی مزاحمت کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارت مظالم  اور آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت جارحیت کے خلاف "تحمل" کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

واضح طور پر اب وہ وقت آچکا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کام کرنا ختم کیا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اُس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں"(الممتحنہ:1)

 

 اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُواْ لَكُمْ أَعْدَآءً وَيَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ

"اگر وہ تم پر کہیں قابو پالیں تو وہ تمہارے کھلے دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور (دل) سے چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ"(الممتحنہ:2)

 

باجوہ کی امریکی سفیر سے ملاقات ایک ڈانٹ کھائے ہوئے

غلام کی اپنے آقا کے ساتھ ملاقات تھی

 

 امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے اپنے ملک کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی پالیسی کی وضاحت کے لیے 23 اگست 2017 کو جنرل باجوہ سے ملاقات کی۔  آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز (PR-432/2017-ISPR)کے مطابق جنرل باجوہ نے امریکی سفیر سے کہا کہ، "ہمیں امریکہ سے کسی بھی مالی یا مادی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اعتماد اور اپنی خدمات کا اعتراف چاہتے ہیں"۔

 

باجوہ کس سے اعتماد،خدمات کا اعتراف اور عزت کرنے کو کہہ رہا ہے؟! یہ امریکہ کو ن ہے جس سے جنرل باجوہ اب بھی اتحاد برقرار رکھے ہوئے ہے؟ امریکہ وہ ناقابل اعتبار استعماری ریاست ہے جو دنیا کی سب سے بڑی اور وسائل سے بھر پور دہشت گرد تنظیم ، سی آئی اے، کو پال پوس رہی ہے۔ یہی دہشت گرد تنظیم سی آئی اے، پوری دنیا میں ،جنوبی امریکہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک امریکی خارجہ پالیسی کے نفاذ کے لئے  false flag operations ، بم دھماکے اور قتل کروانے کی ذمہ دار ہے۔ امریکہ ایک بد لحاظ سرمایہ دار ریاست ہے جس نے اقوام کو اُن کے قدرتی و صنعتی وسائل سے محروم کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے ادارے بنائے، اور ان ممالک کو ایسےسودی قرضوں میں جکڑ دیا جو غریبوں پر لگائے جانے والے کمر توڑ ٹیکسوں کے باوجود بھی ادا نہیں کیے جاسکتے۔ امریکہ ایک متکبر، سیکولر ریاست ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس زمین میں قیادت کی حقدار نہیں کیونکہ اُس نے واضح طور پر یہ اعلان کررکھا ہے کہ اُسے امریکی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے باقی تمام دنیا کی کوئی پرواہ نہیں۔ اپنے سرمایہ داروں کی لالچ اور ہوس کو پورا کرنے کے لئے امریکہ نے عورتوں،بچوں اور بوڑھوں پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کیے اور اپنےبے غیرت اور بزدل فوجیوں کو دوسری اقوام کے لوگوں کی زندگیوں، عزتوں اور اموال کو پامال کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔

 

 اس قسم کے جارح دشمن سے اتحاد کر کے ہم کیسے عزت اور اعتماد کی امید رکھ سکتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ،

 

الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا

 "جن کی حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں، تو کیا اُن کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟ (تو یاد رکھیں کہ) عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے"(النساء:139)۔

 

 تو اے مسلمانو ہمیں امریکہ سے کیسے عزت مل سکتی ہے؟! صلیبی امریکی کبھی ہمیں عزت نہیں دیں گے چاہے ہمارےمزیددسیوں ہزاروں شہری اس فتنے کی آگ میں جلا دیے جائیں اور چاہے اُتنے ہی مزید فوجی افسران اور جوان اس امریکی صلیبی جنگ کا ایندھن بنا دیے جائیں۔ تو ہم کب تک باجوہ جیسے حکمرانوں کو برداشت کرتے رہیں گے جواپنی عزتِ نفس کی پرواہ کیے بغیر ایک ناشکرے اور ظالم آقا کی غلامی کو قبول کرتے ہیں ؟

 

ٹرمپ کو اس کی زبان میں جواب دو: امریکی سفارت خانہ، قونصل خانے اور اڈے بند کرو!

 

24 اگست 2017 کو وزیراعظم ہاوس میں وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی اعلیٰ  ترین فوجی و سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد امریکی صدر ٹرمپ کے اُس الزام کا "تفصیلی جواب "دینا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ وزیر داخلہ احسان اقبال، وزیر خارجہ خواجہ آصف ، چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل سہیل امان اور پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمیرل محمد ذکاءاللہ نے اس اجلاس میں شرکت کی۔

 

جس وقت زبردست عملی اقدامات کی ضرورت ہے تو صرف بیانات اور تردیدیں  جاری کی جارہی ہیں۔ اس قسم کی اجلاس ان حکمرانوں کوامت سے منہ چھپانے کا موقع فراہم نہیں کرسکتے کیونکہ امت حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے  اور یہ بھی جانتی ہے کہ اس صورتحال میں کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ٹرمپ کےمنصوبے کا جواب دینے کی کیا ضرورت ہے جب ہم دنیا کے بدمعاش کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کرسکتے ہیں؟! پاکستان کی قیادت پر لازم ہے کہ فوراً امریکی صلیبی جنگ سے علیحدگی، امریکی سفیر کی ملک بدری اور  امریکی  سی آئی اے، ایف بی آئی اور نجی امریکی فوجیوں کی پورے ملک سے گرفتاری کا اعلان کرے جو ملک بھر میں بم دھماکوں اور قتل وغارت گری کرواتے ہیں تا کہ ہماری باصلاحیت افواج کوقبائلی علاقوں میں امریکی جنگ لڑنے پر مجبور کیا جاتا رہے۔  اور یہ صرف ابتداء ہو ۔ سفارت خانے اور قونصل خانوں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے اڈوں کو مستقل بند کیا جائے جو ہمارے شہروں بلکہ حساس فوجی علاقوں تک میں موجود ہیں۔ بلکہ یہ بھی صرف ابتداء ہو گی۔ ہماری انٹیلی جنس کو کسی بھی ایسے احکامات کو مسترد کر دینا چاہیے جس میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنے کے لیے کہا جائے تا کہ  افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی کو جائز قرار دے دیا جائے بلکہ انہیں  جہاد اور شہادت کی محبت میں اُن کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے۔ ہماری افواج کو ڈیورنڈ لائن پر تعینات کیا جائے  جو بھاگتے ہوئے امریکی فوجیوں کو  نشانہ بنائیں اور امریکی قبضے کے خاتمے کانظارہ کریں  جیسا کہ اس سے پہلے سوویت یونین اور برطانوی راج کے قبضے کا خاتمہ ہوا تھا۔  اور ایک متحرک اور قابل قیادت کے لیے یہ اقدامات بھی محض شروعات ہیں۔

 

کافر استعماریوں کے ساتھ ستر سال کے اتحاد نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ اتحاد غداری، ذلت و رسوائی اور عدم تحفظ کا راستہ ہے۔ صلیبیوں کے ساتھ پچھلے سولہ سال کے اتحاد نے آپ کو ایسی فوجی قیادت دی جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پر آسائش زندگی کو یقینی بنانے کے لیےہمارے تحفظ اور آپ کے خون کا سودا کیا ۔ صلیبیوں کے ساتھ اتحاد نے آپ کو مشرف دیا جس نے افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کے لیے ہمارے فضائی راستے، سرزمین اور انٹیلی جنس امریکہ کو فراہم کیں جبکہ امریکہ مشرف کی اس مددکے بغیر کسی صورت افغانستان پر قبضہ نہیں کرسکتا تھا۔ صلیبیوں کے ساتھ اتحاد نے آپ کو کیانی اور راحیل دیےجنہوں نے آپ کی طاقت و قوت کو قبائلی علاقوں میں استعمال کیا تا کہ افغانستان میں بزدل صلیبی افواج کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔حالانکہ اگر امریکہ کو یہ مدد فراہم نہ کی جاتی توآج سے بہت پہلے ہی امریکہ "سلطنتوں کے قبرستان " میں دفن ہو چکا ہوتا جیسا کہ اس سے پہلے برطانوی راج اور سوویت یونین کو دفنایا گیا تھا۔ اور اب اِن صلیبیوں کے ساتھ اتحاد نے آپ کو باجوہ دیا ہے جو ناقابل اعتبار اتحادی کے ساتھ اتحاد کو جاری رکھتے ہوئے افغان طالبان کو مذاکرات کے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا ہے تا کہ تھکی ماندی امریکی فوج کی ہمارے دروازے پر موجودگی کو سیاسی جواز میسر آجائے۔

 

آخر اِ ن جیسے گھٹیا اور لالچی لیڈروں کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی افواج کی قیادت کریں جبکہ ہماری افواج اپنے دلوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کویاد رکھتی ہیں،

 

يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ * إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

 "جس دن کہ مال و اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدے والا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے"(الشعراء:89-88)؟

Last modified onہفتہ, 26 اگست 2017 17:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک