الجمعة، 18 رمضان 1445| 2024/03/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان  نیوز ہیڈ لائنز 15 ستمبر 2017

 

مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کی جانب سے میانمار کے مظالم کے خلاف محض مذمت منہ توڑ جواب نہیں ہے

- ہماری خارجہ پالیسی کا تعین مادی مفادات یا استعماری طاقتوں سے وفاداری کے بنیاد پرنہیں بلکہ اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے

ویسٹ فیلیا کے تصور پر مبنی قومی ریاستوں کی سرحدوں کو مسترد کردو اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے مسلم علاقوں کو بغیر کسی  سرحد کے یکجا کردو

تفصیلات:

 

مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کی جانب سے

میانمار کے مظالم کے خلاف محض مذمت منہ توڑ جواب نہیں ہے

 

قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین نے 11 ستمبر 2017 کو حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کے مظالم پر مذمت میں اپنی آواز بلند کرے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں اٹھائے۔

 

جمہوریت کا پرچار کرنے والوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بہرے ہیں کیونکہ اُن کے کان مظلوموں کی چیخیں  نہیں سنتے۔  جب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آنی شرو ع ہوئیں  پاکستان کے مسلمان اُن  کے قتل عام کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کو خواب غفلت سے جاگنے میں دو ہفتے لگ گئے جب 11 ستمبر 2017 کو بلاآخر وہ جمع ہوئے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اِس ظلم کے خلاف مذمت میں اپنی آواز بلند کرے۔ مذمت؟؟؟ مذمت تو اُس کی جانب سے قابل قبول ہوتی جو کمزور اور غیر مسلح ہوتا۔مذمت؟؟؟ مذمت کے الفاظ اس ملکِ خداداد ِ پاکستان کی جانب سے جو کہ  دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت ہےاور جس کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی فوج اور چھٹی بڑی آرمی ہے۔ مذمت کے الفاظ اس ملکِ خداداد ِ پاکستان کی جانب سے جس کے مسلمان اور ان کی قابل ترین افواج، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ، اس کے رسول ﷺ اور ایمان والوں کے لیے بخوشی اپنی جان اور مال تک لٹا دینے کے لیے تیار ہیں۔ یقیناً اِس قسم کی مذمت کی مذمت کی جانی چاہیے اور اسے سرزنش کے ساتھ یکسر مسترد کردیا جانا چاہیے۔

 

یہ ہے جمہوریت کے حامیوں کی صورتحال جو پاکستان کی موجودہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود ہیں۔ اور باقی جگہوں پر بھی جمہوریت کا دم بھرنے والوں کی یہی صورتحال ہے چاہے وہ اسلامی تعاون تنظیم او۔ آئی ۔سی ہو یا اسلامی فوجی اتحاد ہو۔ جمہوریت کے یہ دعویدار مسلمانوں کے قتل عام پر تو خود کو صرف مذمتی بیانات تک محدود کرلیتے ہیں لیکن اگر واشنگٹن میں بیٹھے ان کے آقا انہیں حکم دیں تو بجلی کی سی سرعت سے حرکت میں آتے ہیں۔ اس غلامی میں  وہ ہماری زبردست افواج کو اقوام متحدہ کی منحوس  نیلی ٹوپیاں پہنا کر ،استعماری طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے، دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچنےکا حکم دے دیتے ہیں۔ لیکن جب مظلوم مسلمان مدد کے لیے پکارتے ہیں تو یہی  جمہوریت کا پرچار کرنے والے،  امت کے وفادار شیروں کو حرکت میں نہ لانے کے لیے فضول بہانوں کی فہرست پیش  کرنا شروع کر دیتے  ہیں۔

 

جب کبھی مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے  چاہے وہ برما میں ہو یا مقبوضہ کشمیر میں یا فلسطین میں، تو  جمہوریت کے یہ دعویدارایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے اِن کے ہاتھوں میں سوائے دانتوں کا خلال کرنے والے تنکوں کے اور کوئی ہتھیار نہیں۔  اوریہ اِن مذمتی بیانات کے ذریعے ایمان والوں کے زخموں پر نمک ہی چھڑکتے  ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے،

 

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا

"بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا"(النساء:75)۔

 

جمہوریت کا خاتمہ کرو اور نبوت کے طریقے پر خلافت، امت کی ڈھال ، کو قائم کرو۔

 

ہماری خارجہ پالیسی کا تعین مادی مفادات یا استعماری طاقتوں سے وفاداری کے بنیاد پر نہیں

بلکہ اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے

 

12 ستمبر 2017 کو میانمار(برما) میں بدترین روہنگیا مسلمانوں کے بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس سے قبل بین الاقوامی اختلاف اس وقت سامنے آیا جب  چین نے میانمار کے فوجی آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ امریکہ اس پر تنقید کررہا ہے اور اسے نسل کشی قرار دے رہا ہے جس کی وجہ  سےاب تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا تشدد سے بچنے کے لیے ہجرت کرچکے ہیں۔ چین کے اس موقف کی وجہ سے ایک بار پھر ایک زبردست تضاد پاکستان میں سامنے آیا ہے  کیونکہ پاکستان کے مسلمانوں نے بھر پور طریقے سے برما میں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدری اور ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ  ریاست کی پالیسیاں ان  کےجذبات کی عکاس نہیں ہیں۔  اس معاملے میں عوام اور ریاست کی جانب سے اختیار کیے جانے والے دو مختلف موقف جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں اُن کئی مثالوں میں شامل ہے جہاں عوام اور ریاست کی درمیان ایک کشمکش دیکھی جاتی ہے۔  اس معاملے میں  یہ تضاد بھر پور طریقے سے اس بحث کو کھول دیتا ہے کہ ایک ملک کی خارجہ پالیسی کیسے  اور کن بنیادوں پر بنائی جانی چاہیے۔

 

تاریخی  طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت زیادہ عدم تسلسل کا شکار رہی ہے  اور یہ نظر آنا بہت مشکل ہے کہ ریاست کس نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کی بنیاد پر قومی مفادات کا تعین کرتی ہے۔  کچھ لوگ یہ کہتے ہیں  کہ پاکستان ایک قومی سیکیورٹی ریاست ہے اور اس کی خارجہ پالیسی پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ بناتی ہے جس کا ہمیشہ ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ملک  کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کو بھارت کے جارحانہ عزائم  سے محفوظ بنایا جائے۔ لیکن یہ  دلیل  درحقیقت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے  کہ اندرون ملک سیاسی و فوجی طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لیے ایک مقابلہ ہے۔ اس دلیل سے یہ سمجھ نہیں آتی   کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیاہے جو تضادات سے بھر پور ہے۔  افغان جنگ ایک وہ واضح مثال ہے جس میں یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کوئی محور ہی نہیں ہے، کبھی وہ اس موقف پر مبنی تھی کہ وہ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف افغان جہاد کی حمایت کرتی تھی اور آج وہ ایک بالکل متضاد موقف پرمبنی ہے جو امریکہ کے خلاف جہاد کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے۔  اس کے باوجود اگر پھر بھی کوئی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نظریہ حیات کو تلاش کرنے کی کوشش کرے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی استعماری طاقتوں جیسا کہ امریکی کے تابع ہے اور حالیہ دنوں میں چین کے بھی تابع نظر آرہی ہے۔

 

میانمار کی قصائی حکومت کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ آیا نظریہ حیات یا پھر مادی مفادات خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہیں۔  کیا پاکستان کو میانمار کے حوالے سے چین کے موقف کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ  چین نے پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے زبردست سرمایہ کاری ہے لیکن اس طرح ریاست خودکو  عوامی موقف سے بالکل الگ کرلے گی یا پھر پاکستان کی حکومت عوامی جذبات  کو قبول کر لے جو اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ  اسلامی بھائی چارے  کے مظاہرے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن  اس کے نتیجے میں چین ہم سے ناراض ہوجائے گا۔

 

مغربی تہذیب یہ کہتی ہے کہ مادی مفاد ہی وہ واحد پیمانہ ہے جو قومی مفادات کا تعین کرتا ہے اور اس تہذیب میں ویسٹ فیلیا کے تصور پر مبنی قومی ریاست کو سامنے رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی بنائی جاتی ہے ۔ اس کے برخلاف اسلام یہ کہتا ہے کہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس کا مقصد اسلام کے پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچانا اور ایک امت کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح اسلام کی خارجہ پالیسی کی بنیاد مغربی قومی ریاستوں کی خارجہ پالیسی کی بنیادوں سے یکسر مختلف ہے۔  عوامی امنگوں اور پاکستان کی ریاست کے درمیان موجود تضاد کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے اگر موجودہ نظام کو ہٹا کر نبوت کے طریقے پر خلافت یعنی اسلامی ریاست قائم کی جائے۔ اس کے بعد ہی معاشرے کی تمام تر صلاحیتیں سامنے آئیں گی کیونکہ اب ریاست اور عوام کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہوگا اور معاشرے کی پوری طاقت اسلامی نظریہ حیات کے مقرر کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوگی۔ 

 

ویسٹ فیلیا کے تصور پر مبنی قومی ریاستوں کی سرحدوں کو مسترد کردو اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے مسلم علاقوں کو بغیر کسی سرحد کے یکجا کردو

 

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے مسلمان اپنے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے پاکستان کی مسلم افواج کو سرحدوں کی پروا کیے بغیر حرکت میں لانے کا مطالبہ کررہے ہیں پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود سرحد کو مستحکم کرنے  میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم نے 12 ستمبر 2017 کو کہا کہ" ہم مشترک گشت کے لیے تیار ہیں۔ہم مشترک نگرانی کی پوسٹوں کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔ ہم وہاں ایک باڑ لگائیں گے۔۔۔" یہ اعلان امریکی صدر کی بے عزت کرنے والے تقریر کے کچھ ہی عرصے بعد کیا گیا ہے جس میں پاکستان سے اُن لوگوں کے خلاف "ڈومور" کا مطالبہ کیا گیا تھا جو امریکی افواج پر حملے کررہے ہیں۔  امریکہ کا پاک افغان سرحد کی بھر پور نگرانی کرنے کے نظام کو نافذ کرنے کامطالبہ مجاہدین کی نقل و حرکت کو روکنا ہے جو افغانستان پرامریکی قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔  یہ مجاہدین امریکی افواج پر ہونے والے حملوں کی عفادیت کو بڑھانے کے لیے پاکستان و افغانستان کے درمیان قائم بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہیں  جس کی وجہ سے 16 سال کی جنگ کے بعد بھی امریکی افواج کو آرام سے بیٹھنے کا موقع نہیں مل رہا ۔ پاکستان کے حکمران امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کے تقدس  کو  استعمال کرتے ہیں جبکہ اسلام مسلمانوں  اور ان کے علاقوں کو ایک جسد واحد قرار دیتا ہے۔ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کونافذ کیا گیا ہوتا  تو مسلمانوں کے علاقے ایک ہوتے  اور وہ مل کر دشمن کا مقابلہ کرتے نا کہ موجودہ صورتحال میں ہوتے جس میں یہ سرحدیں انہیں تقسیم کرکے دشمن کے سامنے کمزور کردیتی ہیں۔

 

دیکھے کہ کس طرح مسلمانوں کے حکمران مسلمانوں کویکجا رکھنے کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کی جگہ وہ بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کو زیادہ مقدس سمجھتے ہیں جبکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور قومی سرحدوں کے تصورات عیسائی یورپ میں وجود میں لائے گئے تھے۔ اسلامی ریاست، جس نے یونان، رومانیہ، البانیہ، یوگوسلاویہ، ہنگری اور آسٹریا کے علاقے اسلام کے کے لیے کھولے تھے، کا مقابلہ کرنے کے لیے 1648 عیسوی میں ویسٹ فیلیا کا معاہدہ معرض وجودمیں لایا گیا ۔  مسلم افواج نام نہاد بین الاقوامی سرحدوں کی قطعی  تعظیم نہیں کرتی تھیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتی تھیں اور برصغیر ہند سے  یورپ تک کے مظلوموں کی پکار کا جواب دیتی تھیں۔ ظالم حکمران مسلم افواج سے اس حد تک سخت خوفزدہ تھے کہ عیسائی دنیامیں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مسلم افواج ناقابل شکست ہیں اور جب مسلمان لڑتے ہیں تو وہ موت کی قطعی پروا نہیں کرتے کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ جب وہ مارے جائیں گے تو جنت میں داخل ہوں گے اور اس لیے بھی کہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔  عیسائی ظالموں کی افواج پسپا ہو کر میدان جنگ سے بھاگ جاتی تھیں اور اس طرح  وسیع علاقے اسلامی ریاست  کا حصہ بن کر اسلام کی حکمرانی میں آجاتے تھے۔  یہ بات قابل توجہ ہے کہ استعماری اقوام مسلمانوں سے تو ان سرحدوں کے تقدس کو برقرار رکھنے کامطالبہ کرتی ہیں لیکن جب کبھی ان کے مفادات کی راہ میں انہیں کی بنائے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور سرحدیں آجائیں تو وہ ان کی پامالی میں بالکل بھی دیر نہیں کرتیں۔ لہٰذا ہم نے یہ دیکھا کہ کس طرح ان بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے امریکہ نے عراق پر ، روس نے کریمیا پر قبضہ کیا اور فرانس نے مالی پر حملہ کیا۔

 

مسلمانوں کے موجودہ حکمران ہمیشہ مغرب کی کھڑی کی ہوئی سرحدوں کے احترام کے ذریعے مسلمانوں کو کمزور اور پیچھے رکھیں گے۔  یہ مسلمانوں کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دوبارہ دنیا کی ایک بڑی طاقت بن جائیں اور پھر وہ نام نہاد بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے پوری دنیا میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے حرکت میں آجائیں۔  بلکہ وہ طابعدار غلاموں کی طرح  مستقل "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی استعماری پالیسی پر چل رہے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان کے عوام بلعموم اور افواج کے افسران بلخصوص اسلام کی حکمرانی قائم کرکے اس صورتحال کو یکسر تبدیل کردیں اور پھر خلیفہ راشد  تمام مسلم علاقوں کو نبوت کے طریقے پر قائم خلافت کے تحت یکجا کردے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

"اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اُس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اُس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے کھڑے کے کنارے پہنچ چکے تھےتو اُس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ"

(آل عمران:103)

Last modified onجمعرات, 21 ستمبر 2017 19:56

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک