الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان کا جمہوری نظام حکمرانوں کی کرپشن کے خاتمے میں ناکام کیوں ہے

عثمان عادل 

 

یہ بات ہر خاص و عام پر عیاں ہے  کہ پاکستان میں جمہوری نظام اورحکومتی  ادارے کرپٹ لوگوں کی آماجگاہ ہیں۔ 2017 کی ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 176 ممالک میں سے 116واں کرپٹ ترین ملک ہے، یعنی صرف 60 ملک ایسے ہیں جن میں ریکارڈ کی گئی کرپشن پاکستان سے زیادہ ہے۔ خبریں اخبار کی 23 مئی 2017 کی رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت کے ارکان قومی اسمبلی، وزیر و مشیر سمیت 100 سے زائد بیوروکریٹس کو اس وقت سندھ ہائیکورٹ، قومی احتساب بیورو عدالت اور اینٹی کرپشن کورٹس کا سامنا ہے۔ 2016 میں پانامہ لیکس نے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دانوں، ان کے رشتہ داروں اور اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے کالے دھن کو چھپایا ہوا ہے۔ بے شک پانامہ لیکس اور دیگر میڈیا انکشافات تو کرپشن کی دیگ کے چند دانے ہیں،اگرچہ یہ رپورٹس اُس تعفن اور بد بو کی غمازی کرتی ہیں جو پاکستان کے کرپٹ جمہوری نظام کا خاصہ ہے۔

 

پاکستان میں جمہوری نظام  کے تحت ہونے والے ہر انتخابات کا نتیجہ ایک سا ہی رہاہے کہ کرپٹ لوگ ہی چَھن کر ایوانوں میں پہنچے۔ حکومتیں  تبدیل ہوتی رہیں، چہرے بدلے، اقتدار مختلف جماعتوں کے ہاتھ رہا، مگر ہر حکومت کرپشن سکینڈلوں کی زد میں رہی ۔اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف تجربات کیے گئے، کبھی گریجویٹ اسمبلی کا تجربہ کیا گیا  ، آئین کے اندر آرٹیکل 62، 63جیسی شقیں شامل کی گئیں، قومی احتساب بیورو (نیب)قائم کیا گیا، مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔

 

جب ہم پارلیمنٹ اور سینٹ میں بیٹھے 'عوامی نمائندوں'کی کرتوتوں کو دیکھتے ہیں اور آئے روز میڈیا پر ان کی کرپشن کی نشر ہوتی خبروں کو سنتے ہیں تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید پاکستا ن میں کوئی ایک بھی مخلص سیاست دان موجود نہیں ہے۔ اس بنا پر بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے  ہیں کہ دراصل پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کرپٹ ہے ، ہر شخص اپنی جگہ  پر کرپشن کر رہا ہے، ریڑھی والے سے لے کر گریڈ 22کےافسر تک،اس لیے سیاست دانوں کا کرپٹ ہونا ایک لازمی امر ہے کیونکہ  اقتدار کے ایوان پاکستان کے عوام کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔  تاہم دوسری طرف جب ہم دنیا کے دیگرممالک پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں جہاں بھی جمہوری نظام  نے قدم جمائے ہیں اقتدار کرپٹ امیرطبقے کے ہاتھ میں ہی مرکوز ہوا ہے۔  مغرب کہ جہاں جمہوریت نے آنکھ کھولی اور پروان چڑھی اس سے مستثنیٰ نہیں، برطانیہ وامریکہ میں حکومتی عہدیداران کے کرپشن سکینڈلز کی فہرست مختصر نہیں ۔ لہٰذااصل مسئلہ جمہوری نظام بذتِ خود ہے ۔ اس نظام کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ کرپٹ لوگ اس کی طرف یوں کھچے چلے آتے ہیں کہ جیسے مکھیاں شیرے کی طرف لپکتی ہیں۔

 

آئیں اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے نظام کے کچھ پہلوؤں پر غور کرتے ہیں:

دنیا کے تمام جمہوری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی  انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیداوار الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ پاکستانی انتخابات میں یہ پیسہ پبلسٹی مہم، ووٹروں کو خریدنے، اپنے حمایتیوں کو پیسے کا لالچ دے کر متحرک کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر کوئی اپنے کروڑوں روپے کیوں لٹائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کیا جاتا ہے تو آخر یہ جذبہ انتخابات میں ہی کیوں امڈ کر سامنے آتا ہے ،انتخابات کے علاوہ عام دنوں میں ہم ان امیدواروں کوکروڑوں تو دور کی بات چند ہزار بھی عوام پر خرچ کرتا نہیں دیکھتے۔ درحقیقت انتخابات ان امیر لوگوں کے لیے سرمایہ کاری ہے جو سیاست کے ذریعے ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس جمہوری نظام میں داخل ہونے کے بعد ان کے پاس ایک کروڑ سے کئی کروڑ بنانے کے کئی مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کا نظام اس کام کو عوامی نمائندوں کے لیے کس طرح آسان بناتا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

 

پاکستان میں ہر امیدوار کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف الیکشن جیتے بلکہ اسے کسی طرح سے کوئی وزارت مل جائے خاص طور پر ایسی وزارتیں جن میں پیسہ بنانے کے وسیع مواقع موجود ہوں جیسےپانی و بجلی، زراعت، توانائی ، صحت ، ریلوے، جنگلات وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد ایک ہی جماعت کے ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی وزارتوں کے حصول کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور مقابلہ بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اس نظام میں وزارت کا عہدہ سونے کی کان ہے۔

 

پاکستان کا نظام اس جمہوری اصول پر استوار کیا گیا ہے کہ اقتداراعلیٰ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ پس عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے حکمرانی کرے گی۔چنانچہ صحت، تعلیم، پانی  ،بجلی ، ماحولیات جیسی عوامی سہولیات کے محکموں کی سربراہی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہو گی۔  ان محکموں کو مختلف وزارتوں کی شکل دی گئی ہے جس کا سربراہ وزیر یا منسٹرکہلاتا ہے اور وہ اپنے محکمے کا حکمران ہوتا ہےاور وزارت اس کے تحت کام کرتی ہے۔  مثلاً اگر بجلی وتوانائی کی بات کی جائے تو پاکستان میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے متعلق پالیسی وفاقی کابینہ طے کرتی ہے کہ  توانائی کے حصول کے لیے  کونسے ذرائع کوبروئے کار لایا جائے گا،اگر بجلی کی کمی ہے تو کون سے ذرائع سے بجلی پیدا کی جائے گی، آیا نئے ڈیم بنائے جائیں گے یا شمسی توانائی کو فروغ دیا جائے گا یا پھر تیل و گیس کو استعمال کیا جائے گا، اگر ڈیم بنانے ہیں تو کونسے ڈیم پہلے تعمیر کیے جائیں گے ۔  پھر وزارت کی سطح پر اس محکمے کا وزیر اس پالیسی کوعملی جامہ پہناتا ہے۔ اگر ملکی سطح پر یہ  فیصلہ کیا گیا ہے کہ شمسی توانائی کے یونٹ لگاکر بجلی کی کمی پوری کی جائے گی تو وزارتِ بجلی و پانی شمسی منصوبوں کی انسٹالمنٹ کے لیے ان کمپنیوں کی طرف رجوع کرتی ہے جو شمسی توانائی سے متعلقہ آلات تیار کرتی ہیں یا امپورٹ کرتی ہیں۔ پس ان کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح وزیر موصوف کو خوش کیا جائے اور اس کا منظورِ نظر بنا جائے۔کیونکہ کسی بڑے پراجیکٹ کا ٹھیکہ ملنا ایک کمپنی کی چاندی کر سکتا ہے۔چنانچہ مختلف ٹینڈروں کے حصول کے لیے وزراءکورشوتیں دینا اور کِک بیکس ایک عام سے بات ہے۔اور پھر یہ سلسلہ ہر عوامی محکمے میں وزیر اور پھر سیکرٹری سے ہوتا ہوانیچے  تک چلا جاتا ہے۔اور کرپشن کی ایک پوری فضاء تیار ہو جاتی ہے۔

 

پاکستان جیسے وسائل سے مالامال مگر ترقی کے لحاظ سے پسماندہ ملک میں اہم اور میگا پراجیکٹس بیرونی ملی نیشنل کمپنیوں کے ہی حوالے کیے جاتے ہیں۔  یہ سودے وزیر اعظم خود طے کرتا ہے ، مختلف بین الاقوامی دوروں میں اس کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ متعلقہ وزارتوں کے وزراء ان وفود کا حصہ ہوتے ہیں جو وزیراعظم کے ساتھ ان دوروں پرجاتے ہیں۔یہ وزراء  خوشی خوشی ان دوروں کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان پر تعیش دوروں کا تمام خرچ قومی خزانے سے کیا جاتا ہےاور اس کا ٹی اے ڈی اے الگ سےہوتاہےجو وزیر کی جیب میں جاتا ہے۔ محکمانہ امور سے متعلق مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے آگاہی سیمیناز اور ورک شاپس کے لیے کیے جانے والے دورے اس کے علاوہ ہیں۔

 

محکمے کا سربراہ ہونے کی بنا پر اپنے محکمے میں ملازمین کی بھرتی کا اختیاربھی وزیر کو حاصل ہوتا ہے۔تاہم یہ  نوکریاں دی نہیں جاتیں بلکہ بیچی جاتی ہیں اور وزراء نوکری کے درجے لحاظ سے اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ملازمین کی بھرتی میں منظورِ نظر لوگوں کو نوازا جاتا ہے۔ رشتے داروں کومختلف محکموں میں  ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ کام reciprocal بنیادوں پر ہوتا ہے۔ ایک وزیر کہ جس کی دوسرے وزیر کے ساتھ اچھی شناسائی ہےوہ اپنے رشتے دار کو اُس کے محکمے میں ایڈجسٹ کرواتا ہے تو دوسرا وزیر اپنے کسی دوست کے لیے پہلے وزیر سے سفارش کرتا ہے۔

 

قومی خزانے سے محکمے کے لیے مختص کی گئی رقم سے لوگوں کی ضروریات پوری ہوں یا نہ ہوں، تعمیرِ نو کے نام پراپنے دفاتر کی تزئین و آرائش کرانا، اپنی آسائش کو ضرورت قرار دے کر محکمے کے لیے گاڑیاں خریدنا ، ای سی لگواناوغیرہ عام سی بات ہے۔ ستمبر2017 میں صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں سوئمنگ پول کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کیا جس پرلاگت کا تخمینہ 18 ملین سے زیادہ تھا، تاہم پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ اس کی خبرپھیل جانے کی وجہ سے انہوں نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ یہ اس پارٹی کے وزیر اعلیٰ کا حال ہے جو ہر وقت حکمرانوں کے ہاتھوں عوامی پیسے کے ضیاع اور نظام کے ظلم کارونا روتی رہتی ہے۔

مختلف سرکاری محکموں کی ملکیت میں خاطر خواہ سرکاری زمین موجود ہوتی ہے ، اس مہنگی سرکاری زمین میں سے پلاٹ اونے پونے داموں خریدکر وزراء حضرات اپنی جائیدادمیں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کے ٹینڈروں اور مختلف ٹھیکوں میں اپنے منظور ِنظر لوگوں کو نوازاجاتا ہے ۔ 

 

کرپٹ ذہنیت رکھنے والا شخص صرف اپنی دولت و آسائش میں اضافہ ہی نہیں چاہتا بلکہ اس  کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ہر طرف چرچا اور نام ہو اور لوگ اسے پہچانتے ہوں ۔ وزرات کا حامل ہونا اسے یہ موقع فراہم کرتا ہے ۔ مختلف عوامی سہولیات کے کاموں کی میڈیا کوریج، اخباروں میں وزیر کی تصویر والے شائع کردہ بڑے بڑے اشتہارات جس کا خرچہ وزارت اٹھاتی ہے،میڈیاٹاک شوز میں مدعو کیا جاناایک وزیر کو ملکی سطح پر مشہور کر دیتا ہے۔

 

ایک کرپٹ امیر شخص یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ جہاں بھی جائے اس کی آؤ بھگت ہو، لوگ اس کے آگے پیچھے پھریں  اور اس سے جھک جھک کر ملیں اور وہ لوگوں میں ممتاز نظر آئے۔ پاکستان کے جمہوری نظام میں اس کی پوری گنجائش مہیا کی گئی ہے۔  سیکیورٹی کے نام پر ہر وزیر کو پولیس سکواڈ میسر ہے۔ اس کے 'قافلے 'آگے پیچھے سائرن بجاتی گاڑیاں، اور ہٹ جاؤ کے نعرے  اس کرپٹ شخص کی انانیت کو تسکین فراہم کرتے ہیں اور اس کے تفاخر میں اضافہ کرتے ہیں۔

 

یہ ان فوائد کی تفصیل نہیں بلکہ محض ایک جھلک ہے جو ایک وزیر کو وزارت حاصل ہونے سے ہوتے ہیں،طوالت سے بچنے کے لیے اس بات پر ہی اکتفاء کرتا ہوں کہ ایک وزیر جب تک وزیر رہتا ہے اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ اگر صورتِ حال یہ ہو تو پھر آخر کیوں نہ ایک کرپٹ شخص اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے قسمت آزمائی کرے۔

جہاں تک حکومتی پارٹی کے عام ایم این اے کا تعلق ہے ، تو علاقے میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے اور اس کے نام کا چرچا کرنے کے لیے اربوں روپے کے ڈویلپ مینٹل فنڈز ہیں، جو حکومت علاقے میں براہِ راست اپنی پارٹی کے  ایم این اے کو جاری کرتی ہے یا اس کی تائید کردہ سکیموں کی تکمیل کے لیے لوکل(سٹی) گورنمنٹ کو جاری کرتی ہے۔   ان فنڈز کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عوامی نمائندے ان فنڈز کے ذریعے اپنے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کی بہتری جیسے کام کروا ئیں جبکہ اربوں روپے کے فنڈز خرچ کرنے کے باوجود عوام کو یہ سہولیات کس حد تک دستیاب ہیں یہ سب کے سامنے ہے ، جس سے ان فنڈز میں کی جانے والی کرپشن کے لیول کا اندازہ ہوتا ہے۔ 18-2017 کے لیے حکومت نے پارلیمنٹیرینز سکیموں کے لیے .653 ارب روپے کے ڈویلپ مینٹل فنڈجاری کیے،چار سالوں کے دوران بلکتی سسکتی عوام سے غافل رہنے کے بعد حکومت کے آخری سال یک دم ان فنڈز کو جاری کرنے کا صاف مقصد یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں اپنی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو مضبوط کیا جائے۔

 

دوسری طرف گراس روٹ لیول پر صورتِ حال یہ ہے کہ انتظامی مشنری اور اداروں کو جان بوجھ کر سست اور اِن ایفیشنٹ رکھا گیا ہے کہ جہاں پر ایک عام بندے کی شنوائی نہیں ہو سکتی اور کوئی کام سفارش کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں ایک عام آدمی جسے نادرا کے دفتر میں اپنے شناختی کارڈ کا کوئی مسئلہ حل کرنا ہے یا سوئی گیس، پانی یا بجلی کا کنکشن لگوانا ہے ، یا علاقے کے تھانے دار کو کوئی درخواست دینی ہے تو اس کے لیے وہ ان ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے ٹاؤٹوں کی طرف رجوع کرتا ہے جنہیں عرفِ عام میں پارٹی ورکر کہتے ہیں۔ ان پارٹی ورکروں نے ہر محکمے میں جگہ بنائی ہوتی ہے اور ان کی پارٹی کا حکومت میں ہونا اس کام کو ان کے لیے اور آسان کر دیتا ہے۔ علاقے کے تھانے دار کو پتہ ہے کہ اگر وہ حکومتی پارٹی کے ورکرکی بات نہیں سنے گا تو علاقے کے ایم این اے کے ذریعے وہ اس پر دباؤ ڈلوا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ ورکر ان عام لوگوں کا ہاتھ تھامتے ہیں کہ جن کی اپنی کوئی سفارش یا معاشرتی حیثیت نہیں ہوتی اورتھانے کچہری میں  ان کا کام کروا کر ان پر احسان دھرتے ہیں اور اس احسان کے بدلے میں الیکشن میں ان کے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ یہ امر بھی  اس علاقے کے ایم این اے یا ایم پی اے کو اپنے حلقے میں اپنے قدم مزید مضبوط کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اور چونکہ اس 'عوامی خدمت'کا مقصد عوام کے ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ درست نیت کے ساتھ ان کے مسائل کو حل کرنا،لہٰذا اپنے حامیوں اور دوستوں کے مختلف محکموں میں پھنسے ہوئے ہر جائز وناجائز کام کو کرواناان سیاسی ورکروں کا مشن ہوتا ہے۔ یوں گراس روٹ لیول پر بھی مختلف محکموں میں کرپشن کا ایک پورا ماحول ترتیب پا جاتا ہے۔

 

پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عوامی سہولیات کے محکموں کے عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہونے اور ڈویلپمینٹل فنڈز کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار نے تمام تر سیاسی نقطہ نظر کو کرپٹ کر دیا ہے،جہاں لوگوں کو سہولیات کی فراہمی اس بنیاد پر نہیں کی جاتی کہ یہ ان کا حق ہے اور حکمران پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کوصحت، تعلیم اور تحفظ جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرےبلکہ اس لیے کی جاتی ہیں تاکہ اپنی constituency کو مضبوط کیا جائےاوراپنے ووٹ پکے کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علاقے جہاں پر وڈیرہ کلچر مضبوط ہے جیسا کہ جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ ،جہاں ایک جاگیر دار کو پتہ ہے کہ اس کے علاقے کے لوگوں میں یہ جرأت نہیں کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور کو ووٹ ڈالیں اور نہ ہی کسی شخص میں یہ طاقت ہے کہ الیکشن میں اس کا مقابلہ کر سکے ،اور انتخابات میں اس کی یا اس کے قریبی رشتے دار کی سیٹ پکی ہے، توایسے جاگیردار کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کے علاقے کے لوگ کس حال میں جی رہے ہیں اور کس حال میں مر رہے ہیں، ان کے پاس پانی، بجلی ، گیس، صحت ، تعلیم کی سہولت موجود ہے یا نہیں۔

 

ایک ممبر قومی اسمبلی کے لیے سرکاری عشائیے ، ظہرانے، افطار ڈنرز، جہازوں کے سفری ٹکٹ ، لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ، بیرونِ ملک مفت علاج کی سہولت اس کے علاوہ ہے۔ اور اگر ایک ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ  کا منظورِ نظر ہے تو اسے ان کے  صوابدیدی فنڈز سے بھی حصہ مل جاتا جاتا ہے۔

شہرت اوراپنے  علاقے میں آؤ بھگت کی خواہش میں ایک عام اسمبلی ممبربھی کسی وزیر سے کم نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ ہمیں ان عوامی نمائندوں کی رعونت کا یہ عالم نظر آتا ہے کہ ایک ایم پی اے ڈاکٹر کو اس لیے تھپڑ رسید کر دیتا ہے کہ وہ اس کے احترام میں کھڑا نہیں ہوا (ڈان،27 مئی 2014)۔

 

جہاں تک وزیر اعظم کا تعلق ہے ، تویہ مسند اسے ہی حاصل ہوتی ہے جو اپنی ذہنیت میں کرپٹ ترین ہوتا ہے اورجسے امریکہ کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔  وزیر اعظم کا عہدہ حکمرانی میں سب سے طاقت ور عہدہ ہے پس اس کے اختیارات  و مراعات بھی اسی حساب سے سب سے زیادہ ہوتی ہیں اور اسی تناسب سے کرپشن  کے مواقع بھی سب سے زیادہ حاصل ہوتے ہیں۔ وہی اپنی کابینہ کے لیے تمام وزراء کا تقرر کرتا ہے اور ان سے وزرات واپس لینے کا مجاز ہوتا ہے، چنانچہ وزارتوں  کے تمام امور اس کے مرضی کے مطابق ہی چلائے جاتے ہیں۔ جبکہ صوبائی سطح پر یہ اختیارات وزیر اعلیٰ کو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ نظام وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ کے ذاتی مفاد کو پورا کرنے میں کس حد تک ممد و معاون ہے ، اس کی تفصیل میں جائے بغیریہاں صرف یہ کہنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں کہ اس نظام میں عوام کے اربوں روپے خرچ کرکے ،عوام کویہ بتایا جاتا ہے کہ اب تک ہمارے'ہر دلعزیز' وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ ، ہمارے لئے کتنی ڈسپنسریاں، کتنے ہسپتال، کتنے اسکول ، کتنی سڑکیں اور کتنی بجلی بنا چکے ہیں، کتنے لیپ ٹاپ تقسیم کر چکے ہیں اورکتنا قرضہ بانٹ چکے ہیں۔ اس نظام میں سودی  قرضوں اور عوام کے پیسے سے  ہر قومی اخبار میں آئے روز جہازی سائز کے اشتہارات، ٹی وی چینلز پر لمبی لمبی اشتہاری داستانوں،ہر گلی کوچے،ہر محلے، ہر بازار اور ہر شہر کے ہر کھمبے پر لگے اشتہاری سٹریمر، بینرز، پینا فلیکس،جن کی تعداد کوئی گننا بھی چاہے تو نہیں گن سکتا، کے ذریعے  حکمرانوں کی شہرت کی ہوس کو تسکین فراہم کی جاتی ہے۔

 

یہ نظام کسی طرح کرپشن کو جنم دیتا ہے اس کی وضاحت قانون سازی کے اختیار کا عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہونے  کو بیان کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قانون سازی کا اختیار کرپشن کا صدر دروازہ ہے جو حکمرانون کی کرپشن کو قانونی تحفظ فراہم کردیتا ہےاوراسے عدالتی  احتساب سے بالاتر بنا دیتا ہے۔ سترہویں ترمیم،قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) اور اقتصادی اصلاحات کے تحفظ کا ایکٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کس طرح سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر مسلمانوں کا قتل عام کرنے، پانچ سو سے زائد مسلمانوں کوگوانتاناموبےبھجوانےاور اس کے ڈالر وصول کرنے اورامریکہ کواڈےفراہم کرنےجیسے قبیح جرائم کو عدالتی احتساب سے بالاتر بنایا گیا کیونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے سترہویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیاتھا،جس نے یہ طے کر دیا کہ مشرف کے پہلے تین سال کے تمام اقدامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے ذریعے سیاست دانوں سمیت ہزاروں لوگوں کی قتل سے لے کر اربوں روپے کی لوٹ مار کو محاسبے سے بالاتر بنایا گیاتاکہ ڈیل کے مطابق مشرف دوبارا صدارت کا عہدہ سنبھال سکے اور اس کے بدلے میں کرپٹ سیاست دانوں کو دوبارااقتدار حاصل کرنے کا موقع مل سکے ،اگرچہ کچھ سالوں بعد سپریم کورٹ نے بالآخراسے کلعدم قرار دے دیا۔  آئین کا آرٹیکل 62(1)(f) کہ جس کی بنیاد پرنوازشریف کو عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا اس کے متعلق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس آرٹیکل کو باقی پارٹیوں کی مشاورت سے آئین سے نکالا جا سکتا ہے(ڈان 8 اگست2017)۔ اقتصادی اصلاحات کے تحفظ کے ایکٹ کے ذریعےکرپٹ لوگوں کی سہولت کی خاطر اس نظام میں اس بات کی بھی سہولت رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے کالے دھن کے کچھ حصے کی قربانی دے کر اپنے آپ کو سزا سے بچا سکتے ہیں۔ تو پھر آخرکیوں یہ جمہوری نظام کرپشن کو پروان چڑھانے کے لیے نرسری نہ بنے۔

اسی طرح   بجٹ میں مختلف درآمدی وبرآمدی اشیاء ، صنعتی مشنری اور زرعی مصنوعات پر ٹیکسوں کے تعین کے ذریعے یہ حکمران اپنے اور اپنے منظورِ نظر افراد کے کاروبار ،فیکٹریوں اور زرعی پیداوار کو فائدہ پہنچاتے ہیں یوں ان کا کاروباری منافع کروڑوں کی ہندسوں سے نکل کر اربوں میں پہنچ جاتا ہے۔ قانون سازی کا اختیار ہی انہیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کیونکہ بجٹ درحقیقت ایک سال کے لیے نافذ کردہ قانون ہے جسے پارلیمنٹ کی منظوری سے نافذ کیا جاتا ہے۔

 

اگرچہ جمہوریت میں قانون بنانا عوامی نمائندوں کا مطلق اختیار ہے، تاہم پاکستان میں عملی صورتِ حال یہ ہے کہ آئین و قانون میں تبدیلی کا فیصلہ وزیر اعظم ہی اپنی قریبی لوگوں کے مشورے سے  کرتا ہے ، قانون کا متن قانونی ماہرین سے لکھوایا  جاتا ہے ،پھر اسے پارلیمنٹ میں بل کی شکل میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ باقی اراکینِ اسمبلی محض اس کے حق میں یا مخالفت میں ہاتھ کھڑا کرتے ہیں۔ عملی طور پر قانون سازی میں ان کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ بسا اوقات اکثر اراکین اسمبلی نے قانون کے مسودہ کو پڑھا بھی نہیں ہوتا! چنانچہ قانون سازی کے اس اختیار سے سب سے زیادہ فائدہ وزیر اعظم اور اس کے قریبی لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔

 

حاصل کلام یہ کہ پاکستان میں کرپشن کی وجہ یہ نظام بذاتِ خود ہے۔ جس میں اداروںکی شکل و ہئیت  اور  اختیارات کی تقسیم اس انداز سے کی گئی ہے کہ جو کرپشن کو جنم دے اور اسے پروان چڑھائے۔ یہ سب اس قانون سازی کے اختیار کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکاجو جمہوری نظام میں انسان کو حاصل ہے۔ قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کے آئین میں اس بات کا تعین کیا گیا کہ وزیر اعظم اور دیگر وزراء کو کیا اختیارات حاصل ہوں گے۔ قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کے آئین میں اس بات کا تعین کیا گیا کہ عوامی سہولیات کے محکموں کی سربراہی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہو گی۔  قانون سازی کے ذریعے ہی یہ طے کیا گیا ہے کہ اسمبلی ممبران کو بجٹ میں مختلف اشیاء، درآمدات و برآمدات پر ٹیکس لگانے اور چھوٹ دینے کا اختیار ہے۔  ایک مقولہ ہے کہ Power corrupts and absolute power corrupts absolutely طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مطلق طاقت لازمی طور پر کرپٹ کرتی ہے، یہ مقولہ ان بادشاہتوں کے تناظر میں بولا جاتا ہے جو کہ مغرب میں جمہوری نظام کے نفاذ کے قبل قائم تھیں اور تمام اختیارات بادشاہوں کے ہاتھ میں مرکوز تھے اور وہ عوام پر ٹیکس عائد کر کے اور دیگر طریقوں سے ظلم ڈھاتے تھے۔ اس کے ردِ عمل میں جب جمہوری نظام ترتیب دیا گیا تو اس طاقت کو وزارتوں کی شکل میں کئی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ طاقت و اختیار ایک ہاتھ میں مرکوز نہ ہو۔ لیکن یہ نظام کرپشن کے خاتمے میں ناکام رہا کیونکہ اس نظام میں قانون سازی کے تمام تر اختیار کو انسان کے ہاتھ میں ہی باقی رکھا گیا، بادشاہتوں میں یہ اختیار ایک شخص کے ہاتھ تھا، جمہوریت میں اسے بادشاہ سے لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے چند افرادکے ہاتھ میں دےدیا گیا ۔ قانون سازی کے اختیار  سے بڑھ کر طاقت و قوت کوئی نہیں ہےکہ آپ کروڑوں لوگوں کے لیے یہ طے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا جائز ہو گا کیا ناجائز، کیا حلال ہو گا کیا حرام ۔ اس نظام میں آپ جب چاہیں ٹیکس عائد کر کے اور اس کی شرح بڑھا کر عوام کے جیب پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں ، ایک سرکولر جاری کر کے ان کے فارن کرنسی اکاؤنٹ فریز کر سکتے ہیں، عوام کی اصل ضروریات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے محض اپنی اگلی باری کو پکا کرنے کی خاطر مختلف ترقیاتی  پراجیکٹ ترتیب دے کر ان پر سودی قرضے حاصل کر سکتے ہیں۔

 

پاکستان کے نظام کا کرپٹ ہونا اور اس نظام میں کرپٹ لوگوں کا راج بیرونی استعماری طاقتوں کے مفاد کے بھی عین مطابق ہے۔ جہاں تک بیرونی استعماری طاقتوں کا تعلق ہے، تو انہیں پاکستان جیسے ممالک میں ایسے لوگ ہی بر سراقتدار چاہئیں جو ذاتی مفاد کی خاطر عوام کا استحصال کرنے کے لیے تیار ہوں، اور اسی طرح ان طاقتوں کوپاکستان میں ایک ایسے نظام ہی کی ضرورت ہے جو ان کے ایجنٹ کرپٹ سیاستدانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہو۔ ایسے کرپٹ سیاست دان ہی پاکستان میں امریکہ کے مفادات کا بہتر تحفظ کر سکتے ہیں، اور امریکی مفاد کی خاطر پاکستان اور اس کے عوام کو بلا ترددقربان کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے مفاد کی خاطر بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہ کرپٹ نظام فوجی قیادت کے مفاد کے بھی عین مطابق ہے ، اگرچہ وہ بظاہراً سیاست دانوں کی کرپشن پر ناگواری کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کی  کرپشن انہیں کنٹرول کرنے کو آسان بناتی ہے ، خفیہ اداروں کے پاس سیاست دانوں کی کرپشن کے ثبوت ضرورت پڑنے پر ان کی وفاداریاں حاصل کرنے اور انہیں بلیک میل کرنے میں سہولت پیدا کرتا ہے۔نیز یہ امر فوجی آمریت کے دور میں سیاسی جوڑ توڑ میں بھی سہولت پیدا کرتا ہے، مشرف کا دورِ حکومت اس کی واضح  مثال ہے۔  

یہ سب تو پاکستان کے جمہوری نظام میں کرپشن کے عوامل کے متعلق تھا، اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر خلافت کا نظام کیونکر اس کرپٹ ماحول کو تبدیل کر سکتا ہے۔

 

اسلامی نظامِ خلافت میں اداروں کی تشکیل اس انداز سے کی گئی ہے جو کرپشن کے مواقعوں کو مسدود کرتی ہے۔ اسلامی ریاست میں خلیفہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور وہ مختلف صوبوں میں والیوں کو بطور حکمران مقرر کرتا ہے جب کہ صوبے کے شہروں پر عامل مقرر کیے جاتے ہیں۔ اور ہر شہر کو انتظامی لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔  خلافت میں عوام کے مفاد کا انتظام مختلف محکمہ جات اور اداروں کے ذمے ہوتا ہے جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مفادِ عامہ کی دیکھ بھال کےکام کوبخوبی سرانجام دیں۔ہرمفادِعامہ کےشعبےکاایک منتظم اعلیٰ(Director General) ہوتا ہے اور اس کےتحت مختلف کاموں کیلئےعلیحدہ ادارےہوتےہیں جن کاعلیحدہ علیحدہ منتظم(Director)ہوتا ہے جو اس کام کابراہِ راست ذمہ دارہوتا ہے۔  ایسےتمام منتظمین(Directors)اپنےکام کےپیشہ وارانہ پہلوکےاعتبارسےاپنےمنتظمِ اعلیٰ کوجوابدہ ہوتےہیں جبکہ قوانین اورعمومی احکامات کےنفاذ کے پہلو سے اپنے صوبےکےوالی اوراپنےشہرکےعامل کےسامنےبھی جوابدہ ہوتےہیں۔ یہ منتظمین ریاستی ملازم ہوتے ہیں اور یہ حکمران نہیں ہوتے، ان کا چناؤان کی قابلیت و پیشہ ورانہ صلاحیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

 

صوبے کے  والی کی ذمہ داری ہے وہ اپنی ولایہ کے تمام تر شہریوں کو بنیادی ضروریات یعنی پانی و روٹی ، کپڑا اور مکان اور بنیادی سہولیات جیسا کہ صحت ، تعلیم اور تحفظ فراہم کرے۔اسی طرح اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ  شہریت اور اس سے جنم لینے والے مسائل کے لیے خاطر خواہ منصوبہ بندی کرے،مواصلات فراہم کرے،زرعی سہولیات کا بندبست کرے،روزگار کے مواقع کی دستیابی اور سڑکیں و پل کی تعمیر کرے۔ والی یہ کام مفادِ عامہ کے محکموں اور اداروں کے ذریعے سر انجام دیتا ہے جبکہ صوبوں کی سطح پر موجود مجلسِ ولایہ میں عوامی  نمائندے اس کام میں اس کی معاونت کرتے ہیں ،اسے مختلف علاقے کی ضروریات کے متعلق آگاہ کرتے ہیں اور تمام تر امور میں مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ نظام کے برعکس مجلسِ ولایہ میں موجود نمائندے کسی محکمے کو نہ تو خود چلاتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی وزارت ہوتی ہے۔  جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مفادِ عامہ کے محکموں اوراداروں کےمنتظمین ریاستی ملازمین ہوتے ہیں اور یہ حکمران نہیں ہوتے لہٰذا پالیسی سازی ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ یہ خلیفہ و والی کا اختیار ہے اور اسے اسلام کی بنیاد پر طے کیاجاتا ہے۔  ان منتظمین کا کام اس پالیسی کو احسن اور تیز رفتاری سے نافذ کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ، اس کے لیے جدید طریقوں کو اختیار کرنا،نئے  اسالیب کو متعارف کرنا اورمحکماتی امور کو سرانجام دینا ہوتا ہے۔

 

  البتہ خلافت کا ریاستی ڈھانچہ ڈکٹیٹرشپ سے مختلف ہے  جس میں ایک آمر سیاست دانوں سے اقتدار چھین کر حکومت کو بیوروکریسی اور ٹیکنو کریٹس کی مدد سے چلاتا ہےتاکہ عوای نمائندوں کے محاسبے سے بچ سکے اور مطلق العنان فیصلے کرسکے۔  ریاستِ خلافت میں خلیفہ عوامی نمائندوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا کیونکہ ولایہ کی سطح پر عوامی نمائندوں پر مشتمل مجلسِ ولایہ اس کے ساتھ ہوتی ہے ، اور اگر مجلسِ ولایہ کی اکثریت والی کی کارکردگی پر عدم اطمینان کرتے ہوئے والی کی برطرفی کا مطالبہ کرے تو خلیفہ کے لیے والی کو برطرف کرنا لازم ہوتا ہے۔دوسری طرف خلافت میں مرکزی سطح پر مجلسِ امت ہوتی ہے جس کا کام حکمرانی کے امور میں خلیفہ ، والیوں اور عاملین کا محاسبہ کرنا اور ان کے اقدامات پر ہر وقت نظر رکھنا ہوتا ہے۔پس خلافت پاکستان کی آمریتوں کی مانند نہیں کہ جس میں  معین الدین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح کے ٹیکنو کریٹس کو جو کہ ورلڈ بینک اور امریکہ کے سٹی بینک کے سابقہ ملازم تھے ، بیرونی آقاؤں کے اشارے پر پاکستان میں حکومت چلانے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔  

اسلامی نظامِ خلافت میں جس طرح عوامی نمائندوں کے پاس وزارتیں نہیں ہوتیں اسی طرح ان کے مفاد کی خاطر کسی قسم کے ترقیاتی فنڈز بھی جاری نہیں کیے جاتے۔ کیونکہ علاقوں میں سڑکوں و گلیوں کی تعمیرو مرمت ،سٹریٹ لائٹس کی فراہمی، نکاسی آب وسیوریج کا نظام ،پارکوں کی تعمیروغیرہ یہ سب مفادِ عامہ کے محکموں اور اداروں کے ذریعے بخوبی سرانجام دیا جاتا ہے۔ یہ والی و عامل کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں کی ضروریات و مسائل سے آگاہ ہوں اور انہیں بلا تاخیر بروقت پورا کریں اور اس کام میں مجلس ولایہ والی کی مدد کرتی ہے۔

 

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مفادِ عامہ کے محکمےیا ادارے  کا سربراہ عوامی نمائندہ نہیں ہو گا تو جو کوئی بھی اس محکمے کا سربراہ ہو گا  کرپشن کے راستے اس کے لیے بھی کھلے ہوں گے ، کرپشن خواہ عوامی نمائندہ کرے یا کوئی اور ،لوگوں کے مسائل تو جوں کے توں رہیں گے۔ تاہم بات یوں نہیں ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ محکموں کی سربراہی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی میدا ن کرپشن سے پاک ہوجاتا ہے۔ وہی شخص الیکشن لڑنے کے لیے آگے آتا ہے جو سیاست کوامر بالمعروف اور نہی عن  المنکر کی بنیاد پر  سرانجام دینا چاہتا ہو۔ اسلام کے نظامِ خلافت میں مختلف عوامی محکموں کے سربراہ کا چناؤ اس محکماتی امور میں مہارت اور انتظامی صلاحیت کی بنا پر والی کرتا ہے۔  محکماتی امور میں مہارت کے لیے ایک تعلیمی عمل درکار ہے نہ کہ سیاسی عمل۔ایک کرپٹ اور نااہل شخص کے لیے اس چیز میں کوئی کشش نہیں کہ وہ ایک محنت طلب تعلیمی عمل کے نتیجے میں نوکری حاصل کرے اور پھر سال ہا سال کی محنت کے بعد وہ ترقی کرتا ہوا ایسے مقام پر پہنچے جہاں اسے وسیع اختیار ات حاصل ہوں۔ اورعوامی نمائندوں کے بر خلاف  اس تمام عرصے کے دوران اپنی نوکری کے ذریعے اس کے پاس نہ تو کوئی علاقائی اثرورسوخ قائم کرنے کا موقع ہوتا ہے ، نہ ہی شہرت کے ذرائع، اور نہ ہی اس کی خاطرکروڑوں کے فنڈزفراہم کیے جاتے ہیں۔  نیز تعلیمی عمل ایک خاص ذہنیت ترتیب دیتا ہے جو کہ ایک ایسے عوامی نمائندے کی ذہنیت سے یکسر مختلف ہے جس نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہی اس لیے تاکہ وہ اس سے کئی کروڑ کما سکے۔ اور پھر یہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یہ کام پانچ سال میں سرانجام دے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں اس کی پارٹی اقتدار میں آئے گی یا نہیں اور پھر اسے وزارت حاصل ہو سکے گی یا نہیں۔

 

نظامِ خلافت میں قانون سازی کا حکمران اور عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہ ہونا کرپشن کی روک تھام کا بہت بڑا سبب ہے ۔ قانون سازی صرف و صرف خالقِ کائنات کا اختیار ہےجس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلہِ”قانون بنانے اورحکم چلانے کا اختیارصرف اللہ کا ہے“(سورۃ یوسف: 40)۔ پس ریاستِ خلافت میں قانون صرف اور صرف شرعی مصادر سے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔اور حکمران کسی حرام کو حلال اور کسی حلال کو حرام نہیں بنا سکتااور نہ ہی کسی شرعی دلیل کے بغیر کسی مباح چیز سے لوگوں کو منع کر سکتاہے۔ یہ امر حکمران کے ہاتھ باندھ دیتا ہے اور اسے اپنی مرضی ومفاد کو قانونی تحفظ دینے سے روک دیتا ہے ۔پس ریاستِ خلافت میں حکمران  یہ نہیں کر سکتا کہ حربی کافر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے نام پر خلافت کے وسائل کے استحصال کرنے کے لیے  قوانین میں نرمی کرے اور اس کے بدلے میں ذاتی بینک بیلنس بنائے ۔ وہ یہ نہیں کر سکتا کہ بڑے بڑے جاگیر داروں کو خوش رکھنے کے لیے زرعی زمین پر خراج اور زرعی پیداوار پر عشر وصول نہ کرے کیونکہ اسلام نے ان محاصل کو طے کر دیا ہے۔  وہ یہ نہیں کر سکتا کہ پرائیویٹائزیشن کے ذریعے منافع بخش عوامی اداروں کی لوٹ سیل لگائے اور ہر ڈیل کے عوض کمیشن حاصل کرے، کیونکہ اسلام نے عوامی اثاثہ جات کو انفرادی ملکیت میں دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ بلوچستان کے لوگ تو قحط سالی اور پانی کی قلت سے مر رہے ہوں اور وہ اپنے علاقے میں سٹیڈیم کی تعمیر کی خاطر اربوں روپے خرچ کر دے یا اپنے دفتر کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے لگا دے کیونکہ اسلام نے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو لگژریز کی فراہمی پر ہر صورت فوقیت دی ہے۔ حکمران بغیر کسی شرعی دلیل کے بیت المال کی ایک پائی بھی خرچ نہیں کر سکتا ۔وہ نہ تو اپنی من مرضی کے ٹیکس عائد کر سکتاہے،نہ ہی فیکٹریوں کے خام مال اور دیگردرآمدی اشیاء پر ڈیوٹیاں کم یا زیادہ کر کے اپنے اور اپنے منظورِ نظر لوگوں کے کاروبار کو فائدہ پہنچا سکتاہے۔  پس قانون سازی  کے اختیار کا حکمران کے ہاتھ میں نہ ہونا اسے لوگوں کا استحصال کرنے اور اپنے لیے فائدہ سمیٹنے سے بھی روک دیتا ہے۔

خلافت میں خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ والیوں پر نظر رکھے اور ان کے اعمال کی جانچ پڑتال کرتا رہے ۔  پھر خلیفہ کے اوپر نگرانی کے لیے مجلسِ امت موجود ہوتی ہے ۔ خلافت میں مجلسِ امت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ امت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مجلسِ امت کے تمام ممبران پر فرض ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ، والی یا عامل  یا ریاست کےکسی بھی ادارےکےملازم کےکاموں پرباریکی سےنگاہ رکھیں اوراُن کامحاسبہ کریں۔ یہ محاسبہ کسی غلطی پر بھی ہوسکتا ہے اور کسی حکمِ شرعی کی خلاف ورزی پر بھی ہوسکتا ہے، یا اس بناء پر بھی ہوسکتا ہے کہ اس عمل سے مسلمانوں کو ضرر ہوا ہے،عوام پر ظلم ہوا ہے یا رعایا کے امور کی نگہداشت میں کوتاہی ہوئی ہےیا حکمران نے اپنی عہدے کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کیا ہے یا کوئی مالی کرپشن کی ہے۔  خلیفہ پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اِس محاسبہ اور اعتراضات کے جواب دے اوراِن اعمال و تصرفات پر اپنا موقف واضح کرے اور اپنی حجت کوپیش کرے تا کہ مجلسِ امت مطمئن ہوسکے۔  مجلس ِ امت کے ہر رکن کو بغیر کسی دباؤ کے اپنی بات کہنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق ہوتا ہے،ان حدود و قیود کی پابندی کرتےہوئےجوشرع نےمقررکی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالتی سطح پر حکمرانوں کے محاسبے کے لیے محکمہ مظالم کی عدالت موجود ہوتی ہے۔  محکمہ مظالم کا قاضی حکمرانی سے متعلق خلیفہ کےکسی غیر شرعی اقدام پر ازخود نوٹس لے سکتا ہے خواہ کسی نے اس کے سامنے دعویٰ نہ بھی دائر کیا ہو۔ اورنظامِ خلافت میں  حکمران قانون سازی کر کے اپنے آپ کو عدالتی محاسبے سے نہیں بچا سکتے، کیونکہ ان کے پاس قانون بنانےکا اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔

 

 اسلام نے حکمران کے محاسبے کے لیے کڑے قوانین طے کیے ہیں۔ اگر حکمران کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو اوراس کی دولت  اس کےذرائع سے زیادہ ہو تو  وہ اس سے لے کر بیت المال میں جمع کر دی جاتی ہے ۔ دولت اور ذرائع آمدن میں تفاوت اس مال کو ضبط کر لینے کے لیے بطورِ ثبوت کافی ہے۔  اس کرپشن کو ثابت کرنے کے لیے کسی اوردستاویزیا اضافی ثبوت کی ضرورت نہیں۔  جب عمر ؓکو اپنے کسی والی پربدعنوانی کا شبہ ہوتا تو یا تو وہ حساب شدہ مال سےزائد مال کوضبط کرلیتےیاپھروہ اسے والی اور باقی لوگوں کے درمیان بانٹ دیتے ۔  وہ عہدہ دئیےجانےسےقبل اورواپس لیےجانےکےبعدوالیوں کی دولت کاحساب لگاتےتھے اوراگراُن کےاصولی حساب سےزیادہ پایاجاتاتووہ یاتواُس کوضبط کرلیتےتھے اوریاوہ اُس کوتقسیم کر دیتے تھے اورضبط کیےہوئےمال کوریاستی خزانے(بیت المال)میں جمع کردیتے تھے۔ عبد الرحمٰن بن عبد الله ابو القاسم المصري نے اپنی تصنیف "مصر اور مراکش کی فتوحات" میں ذکر کیا ہے کہ امیر المومنین عمرؓ نے محمد بن مسلمہ کوعمرو بن العاص ؓ کی جانب بھیجااور لکھا کہ: "میں نے تمہاری طرف محمد بن مسلمہ الأنصاري  کو بھیجا ہےتاکہ تمہارے (اضافی) مال کو تقسیم کر دے، پس اپنا مال پیش کردو، والسلام"، پھرعمرو بن العاصؓ نے اپنا مال پیش کیا جس کو محمد بن مسلمہ نے تقسیم کیا اور واپس لوٹ گئے۔  

 

یہ پاکستان کے جمہوری نظام سے یکسر مختلف ہے جہاں قوانین اس انداز سے بنائے گئے ہیں کہ کرپشن کو ثابت کرنا نہایت مشکل ہے،پس سیاست دان دھڑلے سے کرپشن کرتے ہیں اور پھر بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے کرپشن کی ہے تو عدالت میں اسے ثابت کردیں۔

یہاں اس بات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ  اسلام نے نظام کے صاف ستھرا ہونے اورکرپشن کے خاتمے کو حکمران کے انفرادی تقوے پر ہی نہیں چھوڑا جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں۔ اور اس لیے وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آپ اسی نظام میں اچھے لوگوں کو اوپر لے آئیں تو اس نظام سے بھی ثمرات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔  یہ سوچ اسلام کے نظام سے متعلق کم فہمی پر مبنی ہے۔ اسلامی نظامِ خلافت کا اپنا ایک ڈھانچہ ہے، جو جمہوری نظام سے یکسر مختلف ہے۔ جس طرح اسلام نے نماز، حج روزہ زکوۃ ، جہادسے متعلق قوانین طے کردیے ہیں  ،اورنکاح و طلاق، تجارت ، لین دین کے متعلق احکامات دیے ہیں جنہیں قرآن و سنت سے اخذ کیا جاتا ہے اسی طرح اسلام نے ریاستی نظام کے متعلق بھی احکامات دیے ہیں جس کے ذریعے یہ طے کر دیا ہے کہ اس نظام کی شکل و ہئیت کیا ہو گی، اس کے ادارے کون کون سے ہیں، حکمران کے اختیارات کیاہیں، کس صورتِ میں اسے معزول کیا جا سکتا ہے اور کون اس کا اختیار رکھتا ہے، کون کون سے ٹیکس عائد کیے جا سکتے ہیں ،عدالتوں کی اقسام کیا ہیں وغیرہ، یہ سب بھی اسلام کے احکامات کا حصہ ہیں اور انہیں بھی قرآن و سنت سے ہی اخذ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہرگز جائز نہیں کہ وہ ریاستی ادارے کی تشکیل میں مغربی جمہوری نظام کی نقل کریں اور حکمرانی میں اسلام کے کردار کوچند آئینی دفعات کے ردوبدل اورمحض اچھے و صاف ستھرے لوگوں کے چناؤ تک محدود کر دیں۔ ایسا کرنا  اسلام اور کفر کا ملغوبہ تیار کرنا ہے۔ اسلام ہر لحاظ سے ایک مکمل دین ہے، اسلامی ریاست میں ریاستی ڈھانچے کامکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذ کردہ ہونا لازمی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے:

 

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ

”جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین (نظام ہائے حیات)کو چاہے   گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا“(اٰل عمران: 85

 

اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

((ومن احْدَثَ فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رَدّ))

''جو کوئی ہمارے حکم( دین) میں کوئی ایساحکم (قانون) داخل کرتا ہے جو اس (دین)میں سے نہیں تو وہ (قانون) مردود ہے''(مسلم)

 

البتہ اسلام اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ حکمران ہوں یاعوامی نمائندہ یا پھر مفادِ عامہ کے محکموں اور اداروں میں فائز کو ئی شخص،سب تقویٰ کی صفت سے موصوف ہوں۔اللہ کا خوف ایک شخص کو موقع ملنے کے باوجود کرپشن کرنے سے ازخود روک دیتا ہے۔  خلافت اس چیز کو معاشرے میں مضبوط اسلامی ماحول کے قیام کے ذریعے حاصل کرتی ہے۔ اور اس کے لیے نظامِ خلافت کا تعلیمی نظام اور میڈیا ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم سے قبل ابتدائی بنیادی تعلیم کا بنیادی ہدف ہی اسلامی شخصیت کی تعمیرہے۔چنانچہ خلافت کا نصاب آج کے کفریہ افکار پر مشتمل نصاب سے یکسر مختلف ہو گا اور اسلام کو بچپن سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں راسخ کرے گا۔

 

اسلامی ریاست میں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی (کیپٹلزم)، اشتراکیت (کیمونزم) قومیت پرستی اور اس طرح کے دیگر کرپٹ افکار کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے اور سیاست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر جماعت کے منشور کا اسلامی افکار و احکامات   کی بنیادوں پر استوار ہونا لازمی ہے۔  وہ حکمرانی سے متعلق اپنی رائے کو بیان کر سکتی ہیں تاہم وہ اسلام کے برخلاف کوئی رائے اختیار نہیں کر سکتیں ۔ یہ امر سیاست میں فکری کرپشن کا دروازہ بند کرتا ہے۔اورسیاسی جماعتوں میں ایسے لوگوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو اسلام کا شعور رکھتے ہوں اور اسلام کو اپنے قول و فعل کے لیے بنیاد بنانے کے عادی ہوں اور امت میں بھی اسلامی سیاسی شعور کو فروغ دیں۔

 

دوسری طرف خلافت نظامِ تعلیم ، میڈیا اور عدالتی نظام کے ذریعے امت کی بھر پور اسلامی تربیت کرتی ہےکہ وہ اپنے ہر عمل میں اسلام کو بنیاد بنائیں خواہ وہ انفرادی معاملات ہوں یا سیاست،ان کی پسند و نا پسند اسلام کے تابع ہواور وہ اپنے ذاتی مفاد پر اسلام کو ترجیح دینے والے بنیں۔ اور حکمران اور عوامی نمائندوں کے چناؤ کے وقت بھی اسی اسلامی تربیت کا اظہار ہو تاکہ مجلسِ امت اور مجالسِ ولایات کی غالب اکثریت متقی ، اسلامی لحاظ سے بیدار اور قابل سیاست دانوں پر مشتمل ہو۔   

 

اسلامی نظامِ خلافت میں حکمران یا عوامی عہدے کے حامل کسی شخص کے لیے اس بات کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے ممتاز کرے ، ان کی تذلیل کرے اور لوگ اس کے آگے پیچھے پھریں۔حضرت ابی بن کعب ؓایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ قرآن کی قرآت کے ماہر تھے اور لوگ قرآن سیکھنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ بہت سے لوگ ابی بن کعبؓ سے ملنے کے لیے گئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو  لوگ ادب اور تعظیم کے لیےان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے ۔اتفاق سے عمرؓادھر آ نکلے۔ دورِ خلافت میں عمرؓ کے ہاتھ میں ایک کوڑا ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے ایک کوڑا ابی بن کعب ؓکو رسید کیا۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے حیرت سے حضرت عمرؓ کی طرف دیکھا اور کہا کہ اے عمرؓ یہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ امر آپ کے کے لیے فتنہ ہے جبکہ لوگوں کی تذلیل کا باعث ہے(اُسد الغابہ)۔

 

مندرجہ بالا تمام امور سیاسی ماحول کو صاف ستھرا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پس خلافت میں سیاست واقعی عبادت بن جاتی ہے  کہ جس میں سیاسی جماعتوں میں بھی مخلص لوگ اوپر آتے ہیں اور مجلسِ امت اور مجلسِ ولایہ میں بھی مخلص لوگ ہی نمایاں ہوتے ہیں۔  

آج اگر ہم پاکستان سے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ چاہتے ہیں توپاکستان کے جمہوری نظامِ حکومت کو ہٹائے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سوچ رکھتا ہے کہ  جمہوریت نافذ رہے اورکرپشن کا بھی خاتمہ ہو جائے تو وہ شدید مغالطے کا شکار ہے۔  جمہوریت اور کرپشن لازم و ملزوم ہیں۔  کرپشن سے چھٹکارے کے لیےہمیں پاکستان کے جمہوری نظام کو مسترد کر کے اس کی بجائے اسلام کے عادلانہ نظامِ خلافت کو قائم کرنا ہوگا۔

 

 

Last modified onپیر, 06 نومبر 2017 04:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک