الثلاثاء، 06 شوال 1445| 2024/04/16
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز یکم دسمبر2017 

 

 -ختم نبوت کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران نے ثابت کردیا ہے کہ خلافت کا قیام وقت کی ضرورت ہے

-پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بقاء کے لیے نہیں بلکہ خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے

- اسلامی حکومت ہی لوگوں کو جدید ترین طبی سہولیات فراہم کرے گی جو  ان کا حق ہے

 

تفصیلات: 

 

ختم نبوت کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران نے ثابت کردیا ہے کہ خلافت کا قیام وقت کی ضرورت ہے

28 نومبر 2017 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج قاضی محمد امین احمد نے ختم نبوت کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران اور فیض آباد پر بیٹھے دھرنے کو ختم کرنے میں فوج کے کردار کی تعریف کی۔  یہ تعریفی بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کی جج شوکت عزیز  کے اس بیان کے ٹھیک ایک دن بعد سامنے آیا جس میں شوکت عزیز نے مظاہرین اور حکومت کے درمیان فوج کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے پر شدید تنقید کی تھی۔ انتخابی بل 2017 کے تحت انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے الفاظ کی تبدیلی نے مذہبی جماعتوں کو مشتعل کردیا جنہوں نے اس کے خلاف تحریک شروع کردی اور یہ مطالبہ کیا  کہ جنہوں نے یہ شرمناک حرکت کی ہے ان کا تعین کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔ اگرچہ حکومت نے اس تبدیلی کوواپس لے لیا اور حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں بحال   اور فوج کی مداخلت کے بعد دھرنہ ختم ہوگیا ہے لیکن مندرجہ ذیل نقات واضح ہوگئے۔

 

ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی  صرف اس وجہ سے ممکن ہوئی کیونکہ جمہوری نظام حکومت موجود ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق  قوانین بنانے اور انہیں تبدیل کرنے کا حق دیتا ہے۔ جمہوریت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قوانین کی خلاف  ورزی کا باعث بنتی ہے جبکہ تمام مسلمانوں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کے قوانین کی مکمل پیروی کرنا لازم ہے۔ لہٰذا ہمیں شیطانیت کی بنیاد، یعنی جمہوریت، کے خاتمے کے لیے پوری تندہی سے جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کو ہٹا کر اسلام کےنظام حکمرانی خلافت کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ اس بحران نے یہ بھی ثابت کردیا  کہ پاکستان میں حقیقی طاقت فوج کے پاس ہے جنہوں نے مداخلت کر کے اس معاملے کو ختم کرایا۔  لہٰذا ان پر لازم ہے کہ آئیندہ اسلامی عقائد کو حملوں سے بچانے کے لیے دوبارہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃفراہم کریں۔

 

اور اس بحران نے ایک بار پھر اس بات کو  بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے وفادار اور ان کے لیے پوری استقامت سے کھڑے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو لا زمی حقیقی تبدیلی کے لیے کام کرنا چاہیے  جو کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ہے۔ پھر وہ خلافت دین اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ  نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی عقائد کی پوری دنیا پر بالادستی ہو۔ تمیم الداری سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ عِزًّا يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ

 

"یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے اور اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑیں گے جہاں اس دین کو داخل نہ کردیں، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کرلیا جائے یا اسے مسترد کر کے ذلت قبول کرلی جائے، عزت وہ ہو گی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطاءکریں گے اور ذلت وہ ہو گی جس سے اللہ کفر کا ذلیل کرے گا "(احمد)

 

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بقاء کے لیے نہیں بلکہ خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے

16 نومبر 2017 کو منصورہ لاہور میں تین گھنٹے کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ" ہم نے اصولی طور پر  ایم ایم اے کی بحالی کافیصلہ کرلیا ہے لیکن اس کا باقاعدہ اعلان دسمبر کے وسط میں جمعیت علمائے پاکستان کے سیکریٹری جنرل شاہ اویس نورانی کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس کے بعد کیا جائے گا"۔  

 

جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد بننے اور ٹوٹنے کا موسم بھی شروع ہوگیا ہے۔ اس سیاسی ماحول میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کی بحالی کو اہمیت دی جارہی ہے۔ اسلامی سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد سب سے پہلے 2002 کے عام انتخابات سے قبل قائم ہواتھا۔ ایم ایم اے نے خیبر پختونخوا میں  صوبائی حکومت بنائی اور بلوچستان میں حکمران پاکستان مسلم لیگ-ق کی اتحادی جماعت رہی۔  اس اتحاد نے اپنی مرضی سے جمہوریت میں اقتدار حاصل کیا  جہاں لوگوں پر اس آئین و قوانین کی بنیاد پر حکمرانی کی جاتی ہے جو انسانوں کی خواہشات اور مرضی کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں اور جو  کھلم کھلا اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کے ان احکامات سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کو کرنے کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان اعمال کو گلے لگاتے ہیں جن سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ یہ فرما چکے ہیں،

 

وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاأَنْزَلَ اللَّهُ وَلَاتَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْيَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَاأَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ

 

"اور یہ کہ (آپﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات) کے بارے میں آپ ﷺ کو فتنے میں نہ ڈال دیں" (المائدہ:59)۔

 

درحقیقت مغربی استعماری طاقتوں نے ہمیشہ پوری مسلم دنیا میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کا حصہ بننے کی حوصلہ افزائی کی ہے تا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اس کو محترم قرار دیا جاسکے۔ وہ جو 2018 کے عام انتخابات سے قبل ایم ایم اے کو بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ انہیں کھلم کھلا جمہوریت کو مسترد کرنا چاہیے اور  جمہوریت کے تحت کسی بھی انتخاب کی مذمت کرنی چاہیے  اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس سےکم کوئی بھی بات حقیقی تبدیلی  کا باعث نہیں بنے گی اور پچھلی سات دہائیاں  اس حقیقت پر گواہ  ہیں۔   اس  سےکم کسی بھی بات  پر راضی ہونا درحقیقت ان مسلمانوں کی خون سے غداری ہوگی جنہوں نے اگست 1947 میں اسلام کے نام پر ملک بنانے کے لیے اپنا خون بہایا تھا۔

 

جمہوریت نافرمانی اور کرپشن کا نظام ہے ، لہٰذا ہمیں مکمل طور پر اپنی وفاداریاں اپنے دین سے منسلک کردینی چاہیے اور پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کے ساتھ جڑ جانا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ 

"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے واسطے پیدا کیے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا ، ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں"(آل عمران:110)

 

اسلامی حکومت ہی لوگوں کو جدید ترین طبی سہولیات فراہم کرے گی جو ان کا حق ہے

28 نومبر 2017 کو نئی کراچی کے ایک اسپتال میں ٹیلی میڈیسن کے منصوبے کا افتتاح کیاگیا۔  پیڈیاٹریک ایمرجنسی روم ٹیلی میڈیسن سائٹ کو چائلڈ لائف فاونڈیشن کی  مدد حاصل ہے۔ اس موقع پر سیکریٹری صحت ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو نے کہا کہ صحت کے شعبے میں ٹیلی میڈیسن  آگے بڑھنے کا رستہ ہے۔ انہوں نے کہا، "ٹیلی میڈیسن کا منصوبہ نہ صرف دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات میں  بہتری بلکہ پورے سندھ میں عمومی طور پردیکھ بحال کے معیار میں بہتری کاباعث بنے گا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحت کے شعبے میں  پبلک – پرائیوٹ  شراکت داری جدید ترین سہولیات کی فراہمی کا راستہ کھولے گی جو نازک صورتحال سے دوچار  بچوں کو طبی امداد فراہم کرے گی۔

 

صحت کے شعبے کی بڑھتی نجکاری نے صحت کی سہولیات سے استفادے کو مہنگا بنادیا ہے۔ 22 نومبر 2017 کو ڈان اخبار نے ایک خبر شائع کی کہ پاکستان میں صحت  کی سہولیات بہت  تیزی سے مہنگی ہوئیں ہیں۔  اکتوبر کے مہینے میں طبی سہولیات کے حوالے سے موجود مختلف اشیا ءمیں سب سے زیادہ اضافہ ادویات کی قیمتوں میں دیکھا گیا ہے جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں 1 5.68فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح پچھلے ایک سال میں  میڈیل ٹیسٹس کی قیمتوں میں 6.23 فیصد اور کلینک کی فیس میں 5.75فیصد اضافہ ہواہے۔  پاکستان بہت سی فارماسوٹیکل اشیاء درآمد کرتا ہے جس کی وجہ سے مقامی صنعت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے کیونکہ اسے سرمایہ دارانہ برینڈز کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے چند ماہ میں  ایسے کئی واقعات سامنے آئیں ہیں کہ جہاں حاملہ خواتین کو طبی سہولیات کی فراہمی سے انکار کیا گیا  اورانہوں نے سرکاری اسپتالوں کے باہر سڑکوں پر بچوں کو جنم دیا۔  جنہیں اسپتالوں میں جانا پڑتا ہے انہیں لازمی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہ کر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر ان کی باری آتی ہے۔ لیکن اس کے برخلاف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کو بیرون ملک بہترین اسپتالوں سے علاج معالجے کی سہولیات حاصل ہیں۔

 

سرمایہ داریت انسانی ضروریات سے زیادہ آزادی ملکیت  پر بہت زیادہ زور دیتی ہے۔  ایک طرف سرکاری اسپتال گرتے چلے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب نجی اسپتال زیادہ سے زیادہ فیس لینے میں ایک دوسرے سےمقابلہ کررہے ہیں اور فارما سوٹیکل  کمپنیاں زبردست منافع کما رہی ہیں۔  شہری تکلیف کا شکار ہیں کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں اسےمناسب صحت کی سہولیات نہیں ملتیں جبکہ نجی اسپتالوں میں اسے اپنی تما جمع پونجی سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

 

اسلام میں لوگوں کا یہ حق ہے کہ انہیں اچھی صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ حزب التحریر نے آنے والی نبوت کے طریقے پر خلافت کے دستور کی شق 164 میں لکھا ہے کہ، "ریاست عام شہریوں کو ہر قسم کی طبی سہولیات مفت فراہم کرے گی۔ تاہم ڈاکٹروں کو فیس پر بلوانے یا ادویات کی خریدو فروخت پرپابندی نہیں لگائے گی"۔ صحت کی سہولیات کا تعلق ان اشیاء سے ہے جن کے بغیر لوگوں کا گزارہ نہیں ، لہٰذا اسے ضروری اشیاءمیں شمار کیا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو طبی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا ہے:

 

»جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَتَدَاوَى؟ قَالَ: نَعَمْ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُنْزِلْ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ«

"ایک بدو آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول، کیا میں طبی امداد استعمال کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: طبی سہولیات کا استعمال کرو، اللہ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کا اس نے کوئی علاج نہ رکھا ہو، جو اسے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو اسے نہیں جانتا وہ نہیں جانتا"(اسامہ بن شریک سے احمد نے روایت کی)۔

 

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طبی سہولیات کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ طبی سہولیات کے استعمال کے ذریعے منفعت حاصل کی جاتی ہے اور نقصان سے بچا جاتا ہے، لہٰذا یہ ایک طرح کا مفاد ہے۔ اس کے علاوہ  کلینکس اور اسپتال ایسی سہولیات ہیں جنہیں مسلمان علاج  اور شفاء کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح طبی سہولیات امت کامفاد ہے اور ریاست پر فرض ہے کہ وہ ان کی فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

الإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

"امام (خلیفہ) نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے"(بخارینے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی)۔ 

لہٰذا طبی سہولیات کی فراہمی نگہبان ہونے کے ناطے ریاست پر لازم ہے۔      

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک