الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا اجتماعی فتنے کو دعوت دیتا ہے

تحریر: مصعب عمیر، پاکستان

 

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب تبدیلی کی ضرورت کئی گنا شدید ہو گئی ہے۔ مسلم دنیا پر فتنوں اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ رہےہیں۔جہاں تک خوشحالی  کا تعلق  ہے تو موجودہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے ٹیکسوں،مہنگائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے  اور زرتلافی (سبسیڈی) کے خاتمے کو یقینی بنایا ہے  جس نے لوگوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔جہاں تک تحفظ (سیکیورٹی)کا تعلق ہے تو حکمرانوں کی بے عملی نے ہمارے جارح دشمنوں  کی حوصلہ افزائی کی ہے جس کی وجہ سے روہنگیا(برما)، ایغور(چین)، فلسطین اور کشمیرکے مسلمانوں سمیت  پوری دنیا میں مسلمان غیر محفوظ ہیں۔

 

                    سب کے سب لوگ مختلف فتنوں کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ فتنہ صرف ان ظالموں تک محدود نہیں رہتا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ 

"اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے"(الانفال 8:25)۔ابنِ عباس ؓنے اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، أمر الله المؤمنين ألا يقروا المنكر بين أظهرهم فيعمهم العذاب "اللہ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے منکر کو روکیں  تا کہ اللہ ان سب کو فتنے میں مبتلا نہ کردے"۔

 

                  یہ فتنہ اس قدر سخت اور اور سب کو گھیرنے والا ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں جو سچےہوتے ہیں اور اپنے رب کے حکم کے مطابق تبدیلی لانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ امّ سلمہؓ نے فرمایا، "میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا،  إِذَا ظَهَرَتِ الْمَعَاصِي فِي أُمَّتِي عَمَّهُمُ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِه'اگر گناہ میری امت میں عام ہوجائیں تو پھر اللہ ان کو اپنے عذاب کے گھیرے میں لے لے گا'، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ، 'کیا سچے لوگ بھی ان میں شامل ہوں گے؟' آپﷺ نے فرمایا، بَلَى'کیوں نہیں'۔ میں نے پوچھا، 'ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟' آپﷺ نے فرمایا، يُصِيبُهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ ثُمَّ يَصِيرُونَ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللهِ وَرِضْوَان"وہ بھی لوگوں کے ساتھ مشکلات کا شکار ہوں گے لیکن انہیں اللہ کی مغفرت اور رضامندی حاصل ہو گی"(احمد)۔

 

                  لہٰذا  اللہ کے عذاب کا شکار صرف حکمران نہیں ہوتے جو کہ اصل مجرم ہوتے ہیں۔ بلکہ وہ لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جو پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے جرائم کو مستردکرنے کے لیے کام  کرتے ہیں۔ اللہ کے عذاب کا شکار وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو گناہوں پر غیر جانبداری اختیار کرتے ہیں  اور ظالم اور برے حکمرانوں کا احتساب نہیں کرتے۔ اس عذاب کا شکار وہ بھی ہوتے ہیں جو ظالموں کے سامنے خاموشی اختیار کرتے ہیں  اور ان کے جرائم کو قبول کرلیتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس سے دوچار ہوتے ہیں جو ظالموں کے ظلم کو چیلنج کرتے ہیں۔

 

                  ہمارے دین کے مطابق ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا اور سرجھکا لینا گناہ ہے۔ یہ طرزِعمل ایک طرح کا فالج ہے جواس  خطرے کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ کہیں ظلم کو روکنے کے نتیجے میں اپنی ذات کو نقصان نہ پہنچ جائے لیکن وہ یقینی خطرہ بالآخر آہی جاتا ہے۔ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنے سے آزمائش کا  عمل نہیں رکتا اور نہ ہی اس سے آسانی اور راحت پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں دنیا میں بھی مصائب اور فتنےاُمڈ آتے ہیں اور آخرت میں تواللہ سبحانہ و تعالیٰ کا غضب لازم ہوجاتا ہے۔ ظالم کے سامنے خاموشی  اور اطاعت اختیار کرنے کے بجائے اسلام ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم ظالم اور  ظلم کو روکنے کے لیے متحرک کردار ادا کریں۔ اسلام ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تبدیلی کا طاقتور محرک بنیں نہ کہ خاموشی سے ظلم ہوتا دیکھتے رہیں۔

                  آج امت فتنوں میں گھری ہوئی  ہے جبکہ یہ امت ظالم حکمرانوں  کے مقابلے میں بہت بڑی ہے اور اور اس بات کی طاقت رکھتی ہے کہ افواج میں موجوداپنے بیٹوں کے ذریعے انہیں ہٹا دے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي هُمْ أَعَزُّ وَأَكْثَرُ مِمَّنْ يَعْمَلُونَ ثُمَّ لَمْ يُغَيِّرُوهُ إِلَّا عَمَّهُمُ اللهُ بِعِقَاب

" جس قوم میں بھی اللہ کی نافرمانیاں کی جائیں جبکہ وہ قوم  ان نافرمانوں سے زیادہ غلبہ اور قوت والی ہو اوراس کے باوجود بھی نافرمانی کو ختم نہ کرائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو سزادیتا ہے"(احمد)۔

 

تو کیا معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم سب کو  تبدیلی لانے کے لیے لازمی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا اثرو رسوخ رکھنے والوں کو ظلم کے خلاف آواز بلندنہیں کرنی چاہیے یایہ کہ ایک فوجی افسر کو نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے لیے نُصرۃ فراہم نہیں کرنی چاہیے؟

                  ہم میں سے وہ لوگ جو ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرتے ہیں انہیں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر غور کرنا چاہیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا،

إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ

" لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں، اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے "(ابوداؤد)۔

 

اور وہ لوگ جو ظلم کے سامنے جھک جاتے اور اسے قبول کرلیتے ہیں انہیں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے تنبیہ حاصل کرنی چاہیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا،

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْ عِنْدِهِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهُ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَكُم

"اس ذات کی قسم جس کےقبضے میں میری جان ہے، تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گےورنہ خطرہ ہے کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل کردے پھر تم اسے پکارو لیکن وہ تمہاری دعا قبول نہ کرے"(احمد)۔

 

                  ہم میں سے وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکمرانوں کے جرائم کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے انہیں رسول اللہ ﷺکے اس فرمان کو پڑھنا چاہیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا،

مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا وَالْمُدَاهِنِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ رَكِبُوا سَفِينَةً فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا وَأَوْعَرَهَا وَشَرَّهَا وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوُا الْمَاءَ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوقَهُمْ فَآذُوْهُمْ فَقَالُوا: لَوْ خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا فَاسْتَقَيْنَا مِنْهُ وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا: فَإِنْ تَرَكُوهُمْ وَأَمْرَهُمْ هَلَكُوا جَمِيعًا وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا جَمِيعًا

"حدود اللہ کو قائم کرنے والے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال اس گروہ کی سی ہے جو کسی کشتی کے پاس پہنچے اور انہوں نےکشتی کے اوپر اور نیچے جگہ پانے کے لیے قرعہ اندازی کی۔ کچھ لوگوں کو اس کے نچلے حصہ میں جگہ ملی جو کہ سب سے برا اور خراب حصہ تھا جبکہ کچھ کو اوپر والے حصے میں جگہ ملی۔  جب نیچے جگہ پانے والوں کو پانی کی ضرورت ہوئی تو انہیں اوپر جانا پڑا، تونیچے والوں نے کہا کیوں نہ ہم کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرلیں تاکہ اوپر نہ جانا پڑے اور اوپر والے بھی تکلیف سے بچ جائیں گے۔ اب اگر اوپر والے انہیں ایسا کرنے سے باز نہ رکھیں  اور آزاد چھوڑ دیں تو نیچے والے اور اوپر والے دونوں ہلاک ہوجائیں گے۔ اور اگر وہ نیچے والوں کو روکیں گے تو دونوں نجات پائیں گے"(احمد)۔

 

تو کیا معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں ظالموں کے سامنے خاموشی اختیار کرنا اور گردن جھکا ناتو ایک طرف ،ہمیں ان کے تباہ کن اعمال کو روکنے کے لیے متحرک ہونا ہو گا تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم مصائب کی دلدل میں مزید ڈوب جائیں ؟

                  ہم میں سے وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری انفرادی عبادات ہمیں فتنوں سے محفوظ رکھیں گی تو انہیں حضرت زینب بنت جحشؓ کے اس فرمان پر غور کرنا چاہیے کہ آپؓ نے فرمایا،

قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ

" میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم تباہ ہو جائیں گے ایسی حالت میں جب ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! جب برائی زیادہ ہو گی "(مسلم)۔

 

                  تو یہ طرزِ عمل کیسے درست ہوسکتا ہے کہ خاموشی اختیار کر لی جائے اور بے عملی کا مظاہر ہ کیا جائے ، اس کے نتیجے میں آنےوالے مصائب اور فتنوں کو قبول کرلیا جائے ، بجائے یہ کہ کرپشن کو چیلنج کیا جائے ، جس کے نتیجے میں ظالم کے جبر کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ؟ حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو ظلم کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کرتے کس طرح  اپنی بے عملی کے دفاع میں ان لوگوں پر فتنہ پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں جو اسلام کی بنیاد پر تبدیلی لانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں؟  وہ کیسے یہ الزام لگاسکتے ہیں جبکہ قرآن نے توشرک، نفاق، نافرمانی، گمراہی اور سچ کی راہ سے موڑنے کی کوشش کو فتنہ قرار دیا ہے۔

 

                  یقیناً اسلام کی دعوت کو کیسے فتنہ قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ شرک فتنہ ہے؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ

"اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فتنہ نابود ہوجائے "(ابقرۃ 2:193)۔

 

ابنِ کثیر نے بیان کیا کہ یہاں فتنے سےمراد شرک ہے۔ اس کے علاوہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فتنے کو جنگ اور خون بہانے سے بھی زیادہ برا اور شدیدقرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْوَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ

" اور قتل کرو انہیں جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکال دو جیسا کہ انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور(دین سے گمراہ کرنے کا) فتنہ قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے" (البقرۃ 2:191)۔

 

                  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے قیام کے لیے آواز بلند کرنا کیسے فتنہ ہوسکتا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے توسچ کو روکنے کی کوشش کرنے کو فتنہ قرار دیا ہے؟  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْك

" اور ان سے بچتے رہنا کہ جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے اس کے کسی حکم کے متعلق یہ کہیں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں "(المائدہ 5:49)۔

 

قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ ، يصدوك ويردوك "وہ تمہیں پلٹا دیں اور روکیں"۔

                  خلافت کی دعوت کے علمبرداروں پر کیسے فتنے کا الزام لگایا جاسکتا ہے  جبکہ فتنہ تو نافرمانی اور منافقت ہے؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ،

وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِي

" لیکن تم نے خود اپنے آپ کوفتنے میں ڈالا اور (ہمارے حق میں حوادث کے) منتظر رہے اور (اسلام میں) شک کیا اور آرزوؤں نے تم کو دھوکہ دیا یہاں تک کہ اللہ کا حکم (عذاب) آ پہنچا "(حدید 57:14)۔

 

بغوی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ لفظ فتنہ یہاں پر نافرمانی اور منافقت کے لیے استعمال ہوا ہے۔

                  ان لوگوں پر کیسے فتنے کاالزام لگایا جاسکتا ہے جو انسانوں کے بنائے کفریہ قانون کو مسترد کرتے ہیں جبکہ فتنہ تو جھوٹ کا سہارا لے کر حق کو چھپانا ہے؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ

" اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ تو (مومنو) اگر تم یہ (کام) نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد مچے گا "(الانفال 8:73)۔

 

یہاں پر سچ کو جھوٹ کے ذریعے  چھپانے کو فتنہ بتایا گیا ہے۔   

                  یقیناً حکمرانوں کے گناہوں کے خلاف بے عملی اور خاموشی کوئی ثواب کا کام نہیں ہے  اور نہ ہی ان کی نافرمانی پر انہیں چیلنج کرنا کوئی گناہ کا کام ہے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ۔ ہمیں مل کر خاموشی کی اس چادر کو اتار پھینکنا ہے ، حالات کے سامنے سپر اندازی کو ترک کرنا ہے ۔ ہمیں ہر اس بات پر غصہ آنا چاہیے جس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو غصہ آتا ہے جیسا کہ شرک، نفاق، نافرمانی، گمراہی اور سچ کی راہ پر چلنے سے روکنا۔ ہماری تعداد بہت زیادہ ہے اور افواج کی نُصرۃ ہماری طاقت بن سکتی ہے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر جب ہم ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اپنی مدد سے نوازتے ہیں۔ جب ہم ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور ظالم کو چیلنج کرنے کی وجہ سے جن جن تکالیف سے گزرتے ہیں  اللہ کے ہاں وہ شمار کی جاتی ہیں اور روزِ آخرت  وہ  ہمارے حق میں  کام آئیں گی۔  تو اگر صبح ہماری یہ کیفیت ہے کہ ہم ظلم کے سامنے حق بات کہنے سے دستبردار ہیں تو شام تک ہماری یہ افسوسناک صورتحال برقرار نہیں رہنی چاہیے۔ ہمیں  بارش کے قطرے بننا ہے تا کہ ہم سب مل کر ایک موسلادھارطوفان بن جائیں  جو سب کچھ دھو کرصاف کردے۔ ہمیں تبدیلی کے حق میں بولے جانے والے ایک لفظ یا ایک چھوٹی سی تقریر کو بے وقوفانہ عمل ہرگزنہیں  سمجھنا چاہیے۔ ہمیں تبدیلی کے لیے کیے جانے والے عمل کی تعریف کرنی چاہیے  ، ایسا عمل تواچھی جزا کا مستحق ہے ۔  تو آئیں ہم میں سے ہرایک تبدیلی لانے میں اپنا کردار ادا کرےاور عظیم اجر اور تعریف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کرے ۔ 

Last modified onجمعہ, 14 جون 2019 03:39

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک