الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اعتماد

بلال المهاجر/ باكستان

 

اعتماد کسی فکر، نقطہ نظریا فرد پر یقین اور اطمینان کا نام ہے۔ اعتماد تب حاصل ہوتا ہے جب بار بارموازنہ کرنے سے یہ ثابت ہو جائے کہ فکر حقیقت سے مطابقت رکھتی ہے، یا پھریہ کسی نقطہ نظر یا فرد کی فکری و عملی طور پر تصدیق کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے ۔ اعتمادتب حاصل ہوتا ہے جب تکرار سے یہ ثابت ہو جائے کوئی معاملہ عقلی یا جذباتی  اعتبار سے حقیقت یافطری رجحان سے مطابقت رکھتا ہے، یعنی اس کا صحیح اور سچا ہونا بار بار ثابت ہو جائے ۔ اور ایسے معاملے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو بار بار غلط اور جھوٹا ثابت  ہوجائے۔ اعتماد کے موجود ہونےکے لئے ضروری ہے کہ ایک معاملے کے صحیح اور درست ہونے کی بنیاد دلیل کے درست ہونے سے بڑھ کر یقین کے درجے تک پہنچ جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب بار بار عقلی اور جذباتی طور پر اس کے درست اور حق ہونے کو ثابت کیا جائے۔

 

اعتماد، اطاعت اور التزام  (commitment)کے ساتھ جڑا ہوا ہے بلکہ یہ ان دونوں کی بنیاد ہے۔ اعتماد، اطاعت اور التزام دونوں کے لیے اتنا ہی اہم ہے جیسے زندگی کے لیے پانی۔  نظم و ضبط کے لئے اطاعت ضروری ہے اور اطاعت کے لئے اعتماد کا ہوناضروری ہے ۔ اسلیے اعتماد کی پختگی کسی بھی وجود کی مضبوطی اور حفاظت کی ضامن ہے۔اور کسی بھی ایسے وجود کے لئے جو کسی مقصد کے حصول میں مصروفِ عمل ہو اعتماد نہایت اہم ہےاور یہ  اُس وجود کی مسلسل بقاء کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں اعتماد پر حملہ، کسی بھی وجود کی کمزوری اور تباہی و بربادی کے لیے ایک بڑا ہتھیار ہے۔

 

اعتماد یا تو کسی فکر پر ہوتا ہے یا شخص پر۔ فکر پر اعتماد کا مطلب اس کے درست اور نتیجہ خیز ہونے کی صلاحیت پر یقین ہے۔ اعتماد تب حاصل ہوتا ہے جب تکرار سے وہ قائدہ (بنیاد)درست اورصحیح  ثابت ہوجس قائدے سے افکار اخذ  اورتبنی کئے گئے ہوں۔ افکار پر اعتماد کا تعلق ان کے عملاً لاگو ہونے، ان کی عظمت کے ادراک اور درست اور نتیجہ خیز ہونے سے ہے۔ مثلاً اسلام کے افکار پر اعتماد دو طریقوں سے ممکن ہے۔ اولاً عقلی بحث کے ذریعے، ثانیاً حقیقت پر عملی نفاذ کے ذریعے، جس کا اثروافادیت پہلے طریقے سے زیادہ ہے۔

جہاں تک لوگوں پر اعتماد کی بات ہے، تو یہ اس امر پر اطمینان ہے کہ وہ خیر(اچھائی)  کی اورمفادات و مقاصد کے حصول کے لیے قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ محض ایک جذباتی اطمینان  بھی ہو سکتا ہے جیسے ایک بیٹے کا والد پر اعتماد صرف اس لیے کہ وہ اس کا والد ہے، یا ایک شخص کا استاد پر اعتماد،صرف اس وجہ سے کہ  وہ اس کا استاد ہے۔ لوگ ایسا جذباتی اعتماد کسی ایجنٹ پر بھی کر سکتے ہیں، صرف ان اعمال کودیکھ کر جو لوگوں میں جذبات اور جھوٹے فخر کو جنم دیں، جن کا حقیقت سے تعلق بھی نہ ہو۔ جیسے لوگوں کا جمال عبدالناصر پر بھانڈا پھوٹنے سے پہلے اعتماد یا PLO پر دھوکا آشکار ہونے سے پہلے اعتماد۔ان مثالوں سے محض جذبات کی بنا پر حاصل کیے گئے اعتماد کی کمزوری اور غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ امر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں میں اعتماد افکار کی بنیاد پر ہو، اور ان کی صلاحیت اور اخلاص کی بنیاد پرجو ان کے عمل میں نظر آئے، ان کے اقوال کی صداقت کے ذریعے اور ان کے کردار اور بہادری کے ذریعے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان اس پر ہی زیادہ اعتماد کرتا ہے جس کو زیادہ قابل، زیادہ بہادر اور زیادہ علم والاسمجھتا ہے۔ لہٰذا زیادہ علم کے حامل میں اعتماد ان کے مقابلے میں مضبوط ہو گا جو صلاحیت، علم ،بہادری اور شجاعت میں کم ہیں۔اگر اطاعت کی بنیاد یہ ہے کہ سزا سے بچنا ہے اوربس کام کو پورا کر کے دکھانا ہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اعتماد کے پہلو اور معانی سے غفلت برتی گئی ہے ، نتیجتاً مستقبل بعید میں معاملات تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔

 

مکمل اطاعت  لگاؤ، اور بلند درجے کی مضبوطی اور جوش کے ساتھ کام کو بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ان پہلوؤں کا سنجیدگی اور ذمہ داری سے خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

اعتماد کا متزلزل ہونا افراد اور افکار دونوں کے لیے تباہ کن ہے ، چاہے ایسا بیرونی ضرب سے ہو یا اندرونی ناکامی سے ۔ فکری سطح پر ، تبدیلی کے لیے ہر عمل اس سمت میں ہونا چاہئے  کہ عقیدے اور فکر کی بنیاد پراُن  افکارپر سے اعتماد ختم کیا جائےجن کی بنیاد پر معاشرہ کھڑا ہے۔ اس کے لیے مضبوط اور واضح دلائل کی ضرورت ہے اورساتھ ہی ساتھ خود اعتمادی، صبر اور اقوال وبیان  میں تسلسل کی ضرورت ہے جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے۔إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرً "کچھ سحر آمیز تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے" (بخاری)اس تبدیلی کی زبردست مثال نبی ﷺ اور صحابہ کا جاہلیت کے معاشرے کو اسلامی معاشرے میں تبدیل کرنا ہے جو کہ اس وقت کے افکار اور عقائد پر سےاعتماد ختم کرنے سے ہواجن افکار اور عقائد پراُس وقت کے معاشرتی روابط  قائم تھے۔  اس تبدیلی کو حاصل کرنے کا طریقہ  واضح دلائل کا بیان کرنا تھا جیسے اللہ سبحان وتعالیٰ کا قول،

 

وْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلاَّ اللَّهُ لَفَسَدَتَا

"اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے علاوہ بھی اِلہ ہوتے تو فساد برپا ہو جاتا“۔(21-22)

 

جی ہاں!  واضح دلائل کا جواب ہی  یا تو رضامندی، سرِ تسلیم خم کرنے اور اعتماد بنانے کی صورت میں آئے گا یا  پھر غیر معقول دشمنی اور ڈھیٹ پن کی صورت میں۔ گویایہ ضروری ہے کہ پرانے  اعتماد پر ضرب لگائی جائے اور یوں نئے اعتماد کو استوار کیا جائے۔ واضح دلائل کی ایک مثال ابراھیم (علیہ سلام) اور نمرود کا واقع ہے جب انہوں نے عوام کے سامنے فوراً ایک ایسی دلیل جس میں بحث  کرنے ، بہانہ بنانے اورتنازع  کی گنجائش تھی، کو ایک قدرے مختصر اور  حتمی دلیل سے تبدیل کر دیا، جو اعتماد، تسلیم اور رضامندی حاصل کرنے کے لیے کافی تھی، یا پھر جس کی غیر معقول دشمنی ہی کی جاسکتی تھی۔ لہٰذا جب نمرود نے پہلی دلیل کے جواب میں کہا،

 

أَنَا أُحْيِـي وَأُمِيتُ

"میں زندگی اور موت دیتا ہوں"(2:258)

تو حضرت ابراھیم نے کہا،

 

فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ"

اللہ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا" (2:258)

 

وہ لوگ جو اسلام کے افکار کے حامل ہیں اور اس کے افکار میں اعتماد پیدا کرنا چاہتے ہیں اور غیر اسلامی افکار کا اعتماد ختم کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کے لیے ایک لازمی قائدہ ہے۔ جو امر اسلام پر ہمارا اعتماد مضبوط کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے افکار حق ہیں جن کی بنیاد پراطمینان بخش دلائل بنتے ہیں۔ اللہ سبحانہُ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

"بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لیے باعث خرابی ہیں" (21:18)

 

اس کے برخلاف اسلام کو سمجھے بغیر پیش کرنا اس کے افکار میں اعتماد کو کمزور کرتا ہے جو تباہی اور تنزلی کا باعث بنتا ہے۔ جب کفار نے یہ بھانپ لیا کہ مسلمانوں کی افواج کو شکست نہیں دی جا سکتی، تب عملاً یہی ہوا۔ انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ مسلمانوں کی افواج اور اس سے بڑھ کر امتِ مسلمہ کی طاقت کا راز ان کی فکری، مبدئی(Ideological) دولت میں پنہاں ہے۔ یقیناً یہ وہ دولت ہے جو امت مکمل طاقت کے ساتھ اوراس اعتماد کے ساتھ لے کر چل رہی ہے کہ اِس میں پوری انسانیت کے لیے بھلائی ہے۔ کفار اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا اسلام پر اعتماد کمزور کرنا ہی ان کو شکست دینے کا طریقہ ہے، اور انہوں نے یہی کیا۔

 

مسلمانوں کی کفار سے مزاحمت مسلسل 13 صدیوں تک چلتی رہی جہاں مسلمان ایک امت کےطور پر کفار کی مختلف اقوام اور لوگوں سے برسرِ پیکار تھے۔ اسلام بحیثیت ایک دین اور ضابطہ حیات کے کفر سے 13 صدی ہجری بطابق 19 صدی عیسویں تک جدوجہد کرتا رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام جو ایک کفر یہ نظام ہے نے نظامِ اسلام کے افکار واحساسات کو چیلنج کیا۔ اِس فکری شکست کے کچھ ہی عرصہ بعد  مسلمان ایک زبردست سیاسی شکست سے دوچار ہوئے، مگر یہ شکست اسلام کی شکست نہیں تھی کیونکہ یہ تو واحد حق ہے۔ اس شکست کی واحد وجہ مسلمانوں کی اسلام کے فہم میں کمزوری تھی جس نے ان کی جدوجہدکے فکری پہلو اور اسکے حق اور درست ہونے کے بیان میں کمزوری پیدا کردی۔ اس فہم میں کمزوری کی وجہ سے  ان افکار کودرست طور پر لاگو کرنے میں کمزوری آ گئی  جس کے باعث ان کے یہ افکار دوسرے افکار سے بدل گئے اور ان کا اِن میں اعتماد کمزور پڑ گیا، اس کے باوجود کہ اسلامی افکار حق ہیں اور دوسرے افکار باطل ہیں۔ سرمایہ دارانہ کفار نے کئی افکار پر حملہ کیا جیسے تعدادِ ازواج، جہاد، خلافت، عقیدہ کا ربط اور سزاؤں کے قوانین وغیرہ۔ مسلمانوں کا جواب مدافعانہ اور کمزور تھا جس نے اِن افکار میں اُن کا اعتماد مزید کمزور کر دیا۔ مزیدبرآں مغرب کے صنعتی انقلاب کا ماحول مسلمانوں کی حالتِ زوال سے یکسر مختلف تھا۔ یہ سب ایسے مضبوط اور قابل لوگوں کی ضرورت پر دلالت کرتا ہے جو حاملِ اسلام ہوں اور باطل پر کاری ضرب لگائیں اور حق کو قائم کر کے اِس میں دوبارہ اعتماد بحال کریں۔ اس کے لیے ایک مبدا پر مبنی جماعت کی ضرورت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرے اور اس کا ایسا سخت مقابلہ کرے جو اسلام کے نظاموں کی سچائی اور حقانیت کو واضح کر دے اور سرمایہ دارانہ نظام کے جھوٹ اور فریب کو عیاں کر دے۔ بے شک اِس جوابی حملے کو اس سے بھی آگے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کی فکری قیادت کوبے نقاب کرنا چاہئے جو اس کرپٹ نظام کی بنیاد ہے۔ ایسا جواب ہی اسلام کے فطرت سے موافق ہونے اور عقل کے لئے قناعت بخش ہونے کو ثابت کرے گا۔ الحمد اللہ یہی وہ کوشش ہے جس سے مسلمانوں میں اسلامی افکار پر اعتماد اور امید بحال ہو رہی ہے تاکہ اسلام کے کام میں تیزی آئے اور اس کو دنیا پر غالب کرنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے عملاً نافظ کیا جا سکے۔

 

فکر پر اعتماد بار بارقائل کرنے سے قائم ہوتا ہے جو پھر یقین کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ اس اعتماد کوتسلسل اور مضبوطی سے قائم رکھا جائے۔ اس کے لیے مسلسل فکری جستجو، افکار کے دلائل کی وضاحت اور افکار کو شفاف کرنے کے ساتھ ساتھ حق اور درست ہونے کی دلیل کے طور پر ان کا حقیقیت پر لاگو کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے علاوہ بس اب اس بات پر زور دینا باقی ہے کہ یہ معاملہ اشد ضروری معاملہ ہے ۔ اور یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ  ہر شخص  اس کام کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھے۔ ہر شخص اس بات کو سمجھے کہ اس نے اسلام کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانی ہے۔ ہر شخص یہ سمجھے کہ وہ ایک دراڑ پر ذمہ دار ہے اور اس نے اسلام کو اس سے محفوظ کرنا ہے۔

 

اسلام کے افکار پر کامل اعتماد فکری دلائل سے ہی ممکن ہے، ایسے مثالوں کے ذریعے جو ماضی کا حصہ ہیں اور وہ بھی جو حال میں موجود ہیں۔ ذرا سوچیں کے کیسے لوگ اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے، بغیر جبر و زبردستی کے، کیونکہ اس دور میں اسلام پر ایک زبردست اعتمادموجود تھا۔ یہ اعتماد صرف ان لوگوں میں نہیں تھا جو مسلمان ہوچکے تھےیا جو اس کے حامل تھے، بلکہ یہ اعتماد ہر اس شخص میں پایا جاتا تھا  جس نے اسلام کے عدل اور سچائی کا مشاہدہ کیاتھا۔ لوگوں کا جوق درجوق اسلام میں داخل ہونا اس کی حیرت انگیز اور بہترین دلیل ہے۔ یہ صرف اسلام کے مبدا سے ہی ممکن ہے کیونکہ اس کے افکارقطعی حق ہیں جو عدل قائم کرتے ہیں۔ یہ اسلامی افکار عقل کو قائل اور دل کو اطمینان اور اعتمادبخشتے ہیں۔ بے شک یہ (اسلام) اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی رحمت ہے جس کی بنا پر اُن کو انسانیت کی رہنمائی کا حق دیا گیااور انہیں لوگوں کے لئے  بہترین امت بنایا گیا۔

 

یہ سب فکری سطح  کے حوالے سے تھا۔ جہاں تک لوگوں، معاشرے کے لیڈروں، تحریکات اور گروہوں اور ذمہ داران پر اعتماد کی بات ہے تو وہ بھروسے کے مقام پر ہیں۔ ان پر اعتماد کی کمی یا تو بیرونی حریف کی وجہ سے ہو سکتی ہے، یا اندرونی ناکامیوں کی وجہ سے یا ان کی کار کردگی میں  کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ۔

بیرونی حریف ذاتی کارکردگی پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور کوتاہیوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں ، خصوصاً اہداف کےحصول کے  حوالے سے ۔ یہ ان کے لیے نمونہ ہے جو حکومتیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا حکومتیں گرانا چاہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے مکہ کے حکمرانوں اور محکوم کے درمیان اعتماد پر ضرب لگائی ۔ ایک آئیڈیالوجی پر کھڑی جماعت کو سیاسی جدوجہد میں یہی کرنا ہے جس کا تبدیلی کی راہ میں بہت اثر ہے۔ یہ اس لیے کہ حکمران اور عوام کے درمیان تعلق اِس اعتماد پر قائم ہوتا ہےکہ حکمران کتنا مخلص ہے اورانہیں ایک محفوظ اور اطمینان بخش زندگی دینے کی کتنی  قابلیت رکھتا ہے ۔ اس تعلق پر ضرب لگانے سے صورت ِحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔

 

 جہاں تک لیڈروں اورگروہوں کے ذمہ داران کا تعلق ہے،تو ان پر اعتماد کو متزلزل کرنے کے لیے ان کی پرفارمنس پر تنقید کی جاتی ہے اور ذمہ داریوں میں کمزوری عیاں کی جاتی ہے، خصوصاً اہداف کے حصول  اور افکار کی پابندی  کے حوالے سے۔اس ضرب کے کارگر ہونے کا تعلق اس تحریک کی فطرت، اس کے اختیار کردہ پیمانوں،ارتقا کے مراحل ، اہداف اور وعدوں کی نوعیت سے ہے۔ ایسی تحریک کو ایک یا ایک سے زیادہ ریاستوں سے چیلنج کا سامنا ہو گا جواس تحریک پر امت کے اعتماد کو کمزور کرنے کے لئے  مختلف حربے اختیار کریں گی جیسا کہ  اس کو ایک طرف تو نا قابلِ اعتبار اور رجعت پسند کہنا اور دوسری طرف اس پر اور اس کے لیڈران پر جھوٹے الزامات لگانا اور مقدمے بنا نا۔

اندرونی طور پرعوام یا جماعت کا ان کے لیڈروں اور ذمہ داروں پر اعتماد کو متزلزل کر دینا غداری اور دھوکہ دینےکی علامت ہے۔ نفوس پر اس غداری کا اثر تیز دھاری تلوار سے بھی زیادہ ہے۔ عام طور پر  اس غداری کے عوامل لالچ، حرص اور روح کی بیماری ہی ہوتی ہے ،تب نتائج کا مطالعہ اور اس حوالے سے سوال پوچھنے کا مقصدمحض ذاتی انا کی تسکین ہوتی ہے اور ایسا حبِ سیادت کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ اعتماد اور فیصلوں کے مرکز  پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ اس طرح سے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے سے بچنا چاہیے۔ اسے غدراری اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہی دیکھنا چاہیے۔ اس کا علاج بیمار عضو کو کاٹنا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگ روشنی میں نہیں رہتے، بلکہ ایسے لوگ  اندھیرے، تباہی اور بربادی کے لوگ ہیں۔ ایسے لوگ صرف فیصلہ کرنے والوں کو ہی دھوکہ نہیں دیتے بلکہ اپنے بھائیوں اور امت کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔

 

جہاں تک اندرونی تیاری اور صلاحیت کا تعلق ہے، یہ معاملہ باصلاحیت شخص کی بجائے کسی اور کو ذمہ داری سونپنے کا معاملہ ہے۔ یہ ایک بڑی آفت ہے جس کی پوری ذمہ داری کمزور کو چننے والے پر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں ہمارے لیے ایک قاعدہ اور  معیار ہے جو ہمارے لیے رہنمائی ہے۔

 

وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْىٌ وَنَدَامَةٌ إِلاَّ مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا"یہ (اقتدار) ایک امانت ہے اور روز قیامت یہ شرمندگی اور ندامت کا باعث ہو گا سوائے اس کے جس نے اس کا حق ادا کیا اور ذمہ داریاں پوری کیں" (مسلم)یہ اس کے بعد کہا گیا  جب آپ ﷺ نے ابو ذر سے کہا،إِنَّكَ ضَعِيفٌ"تم کمزور ہو"یعنی امارت کے حوالے سے۔ یہ اندرونی کمزوریوں کے حوالے سے تھا۔ کمزوریاں جیسی بھی ہوں اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اور کام کوکمزور کرتی ہیں۔ جو امر یہاں فائدہ مند ہے وہ تبدیلی کے عمل کے ذمہ دار لوگ میں لیڈرانہ  شخصیت کی موجودگی ہے۔ اعتماد کا تسلسل سے قائم رہنے  اوراس کےمضبوط ترہونے کا انحصاراس امر پر ہے کہ  لیڈروں میں کس حد تک اپنے اور اپنے بیٹوں ( یعنی مقتدیوں) اور امت کےبیٹوں کے ساتھ رشتہ استوار  کرنے کی صلاحیت موجودہے۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ لیڈروں میں زبردست موٹیویشن موجود ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فکری، جسمانی اور تنظیمی قابلیت کے حامل ہوں کیونکہ انھوں نے اپنے پیچھے سپاہیوں کی ایک فوج اکٹھی کرنی ہے۔ اور یہ کہ بہترین ڈسپلن قائم کیا جائے نہ کہ محض گوشمالی  کی بنیاد پر اطاعت کروائی جائے۔ جس تبدیلی کی ہم بات کر رہے ہیں وہ اپنے قائدین اور ذمہ داران سے ایسی محنت اور لگن کا مطالبہ کرتی ہےجو تاریخ کا رخ موڑ دے۔ نبی ﷺ کی حنین کی جنگ میں موجودگی اس کی بہترین مثال ہے جب آپ ﷺ براہِ راست آگ اور خطرات میں گھرے جنگ میں آ کودے اور اپنے چچا عباس کو یہ پکار لگانے کے لیے کہا،أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب"میں نبی ہوں جو جھوٹ نہیں بولتا، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں"یہ امر ہم سے ایسے قائدین اور ذمہ داران کا تقاضا کرتا ہے جو اپنےمنطق الاحساس میں چوکس  ہوں اور اپنی پوری طاقت سے موجودہ تسلسل(Status Quo) کوتوڑ دیں، اور انکی تخلیقی صلاحیتوں سے ،وژن اور نمایاں موجودگی سے انکے پیچھے چلنے والوں کا اعتماد مزید مضبوط ہو۔ یہ اور دیگر امور ایسے قائدین کا تقاضا کرتے ہیں جو مضبوط، طاقتور اور قوی ارادے کے حامل ہوں جس کے لیے اللہ الخالق الجبار سے مضبوط تعلق کی ضرورت ہے۔ یہ سب کے لیے فرض ہے مگر قائدین کے لیے یہ سب بڑھ کر فرض ہے۔ اس کے لیے اللہ پر اعتماد کی ضرورت ہے، ایسا اعتماد جس کی کوئی حد نہ ہو۔ اللہ پر  اور اس کی قدرت پر اور اس کی نصرپر  اور اس کے غلبےپر  اور اس کی توفیق پر لامحدود اعتمادکیونکہ وہ وعدوں کا سمندر ہے اور خیر ِمعین ہے۔ اس لیے حق کے لیے جینا اور اللہ پر اعتماد کرنا لازمی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی نجات اور پناہ نہیں۔ یقیناً یہ وہ عظیم رحمت ہے کہ جس سے پوری دنیا انسان کے لیے مکمل طور پرکھل جاتی ہے۔

Last modified onبدھ, 18 جولائی 2018 19:31

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک