السبت، 10 شوال 1445| 2024/04/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز14ستمبر 2018 

۔ مزید سرمایہ داریت کا نفاذ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے تبدیلی نہیں ہے

-عاطف میاں تنازعہ: مقدسات کا تعین زندگی کے متعلق نقطہ نظر سے ہوتا ہے

- پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن اس کےباوجود لوگ شدید غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں

- امریکی حکمناموں  اور مطالبات کے حوالے سے نئے پاکستان میں کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے

 

تفصیلات:

 

مزید سرمایہ داریت کا نفاذ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے تبدیلی نہیں ہے 

وزیر اطلاعات فوادچوہدری نے 10 ستمبر 2018 کو ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرتی ہوئی معاشی صورتحال  کی وجہ سے سخت فیصلوں کے حوالے سے ابھی تک سرکاری طور پر کچھ کہا نہیں گیا لیکن بجلی و گیس کی قیمتوں میں مزیداضافے کا شارہ دے دیا۔ پی ٹی آئی کی نئی حکومت، جو تبدیلی کے نعرے اور وعدے پر اقتدار میں آئی ہے، معاشی صورتحال میں تیزی سے بہتری لانا چاہ رہی ہے۔ لیکن معاشی بدحالی کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام پر توجہ مرکوز کرنےکی بجائے حکومت نے اندرون ملک اور بیرون ملک سے بڑے بڑے سرمایہ دارانہ معیشت  دان جمع کرنے پر توجہ مرکوزکر لی ہے جن کی تعداد تقریباً کابینہ کے برابر ہے۔

 

اسلامی ریاست خلافت کے خاتمے کے بعد سے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں مادی سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظریات کی بنیاد دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کے حصول پر رکھی گئی ہے۔ ذاتی مفاد اور  غیر قانونی طور پر دولت جمع کرنے کی ہوس آج کی دنیا میں ایک عام حقیقت بن گئی ہے جس کی وجہ سے  بہت زیادہ دولت چھوٹی سے حکمران اشرافیہ میں مقید ہوتی جارہی ہے اور پی ٹی آئی کوبھی اس حوالے سے کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ مادی ترقی فرد اور معاشرے کی ترجیح بن چکی ہے۔ معاشی کامیابی ہی کامیابی کا پیمانہ بن چکی ہے۔ اقوام دوسری اقوام پر اپنی مادی اور معاشی ترقی کا رعب ڈالتی ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قوم کی ترقی کا اصل پیمانہ اس کی معاشی ترقی ہے۔ آج کی جمہوری -سرمایہ دارانہ ریاستوں کی سیاسی حکومتوں کی زیادہ توجہ معاشی ترقی پر ہوتی ہے۔

 

اسلامی طرز زندگی میں مادی ترقی یا یہ کہیں کہ معاشی ترقی کا تصور سرمایہ دارایت سے زیادہ موزوں اور زبردست ہے خصوصی طور پر ان کی ترجیحات کے حوالے سے۔  اسلام نے فرد پرلازم کیا ہے کہ وہ کمائے اور اپنی دولت سے حلال طریقوں سے لطف اندوز ہو جو وہ حلال ذرائع سے حاصل کرتا ہے تا کہ ملک معاشی طور پر ترقی کرسکے۔ معاشی بہتری کامطلب ہے کہ ہر ایک فرد اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے اور کسی حد تک آسائشوں سے بھی لطف اندوز ہوسکے۔  شرعی احکامات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر فرد بغیر کسی رکاوٹ کے رزق حلال حاصل کرسکے۔ اسلام نہ صرف اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ ہر فرد کام کرے اور رزق حاصل کرے بلکہ ریاست کے خزانے کو بھی اس قابل بنانا چاہتا ہے کہ وہ تمام شہریوں کی معاونت کرسکے۔  لہٰذا  اسلام نے ضرورت مند اور غریبوں کی مدد ومعاونت ریاست پر لازم کی ہے۔اس کے علاوہ  اسلام نے امت کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ریاست پر فرض کی ہے کیونکہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرنا ریاست  کا کام ہے۔ 

 

جہاں قرآن نے انسانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی اجازت دہی ہے وہی قرآن واضح طور پر مسلم امت  کے ہدف کو بھی بیان کرتا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنْ الْمُنْكَرِ

"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے "(الحج:41)۔

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ

"یہ تو جہان کے لوگوں کے لئےمحض نصیحت ہے"(الانعام:90)۔

 

یہ آیات اور دوسری کئی آیات مسلمانوں کو ایک عالمی زاویہ دیتے ہیں کہ وہ اسلام کو نافذ کریں اور اس کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائیں۔  رسول اللہ ﷺ پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ دین کی ترویج کریں اور یہ کام اس طرح کیا گیا کہ انہوں نے ایک ریاست قائم کی جس نے جہاد کیا۔ بجائے اس کی کہ معاشی ترقی کو ہدف بنایا جائے اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری یہ رکھی گئی کہ وہ دعوت و جہادکے ذریعے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچائے۔  آج کی جمہوری –سرمایہ دارانہ ریاست کی برخلاف اسلامی ریاست خلافت نے معاشی مفادات کی جگہ دعوت و جہاد کو اپنی پہلی ترجیح رکھی۔ اسلامی ریاست خلافت کے ذریعے امت نے اسلامی طرز زندگی کو اس کے حقیقی معنوں کے مطابق اختیار کیا اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کی راہ پر چل پڑی۔ انسانی تاریخ  اس بات کی شاہد اور گواہ ہے کہ اسلامی ریاست خلافت نے کئی صدیوں تک زندگی کے مختلف شعبوں میں دنیا کی رہبری کی۔ یہی وقت ہے امت کے لیے کہ وہ جمہوری – سرمایہ دارانہ ریاست سے نجات حاصل کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اسلامی طرز زندگی اختیار کرے۔

 

عاطف میاں تنازعہ: مقدسات کا تعین زندگی کے متعلق نقطہ نظر سے ہوتا ہے

8 دسمبر 2018 کو لندن میں مقیم پاکستانی معیشت دان ڈاکٹر عمران رسول حکومت کی معاشی مشاورتی کونسل (اکنامک ایڈوائزری کونسل) سے استعفیٰ دینے والے دوسرے رکن بن گئے۔انہوں نے یہ استعفیٰ امریکہ میں مقیم معیشت دان ڈاکٹر عاطف میاں کو معاشی مشاورتی کونسل سے نکالنے کے بعد دیا ہے۔  ڈاکٹر میاں عاطف کو اس کونسل سے دستبردار ہونے کو کہا گیا ہے جب ان کے قادیانی ہونے کے حوالے سے زبردست عوامی ردعمل سامنے آیا۔  جب سے حکومت نے شدید عوامی ردعمل کی وجہ سے قادیانی عاطف میاں  کو معاشی مشاورتی کونسل سے ہٹایا  ہےتو  پاکستان میں  سیکولر جمہوریت کے علم بردار یہ دلیل دے رہے ہیں، کہ یہ ریاست  قابلیت اور میرٹ کے بجائے لوگوں کے عقیدوں کی بنیاد پر   فیصلے کررہی ہے، جس کے باعث ہم قابل افراد کی قابلیت  سے محروم ہو رہے ہیں۔

 

لیکن مقدسات (sanctities)کا تصور صرف مذہبی دنیا میں نہیں ہے بلکہ یہ  تصورسیکولر دنیا میں بھی  موجود ہے۔۔۔ پس حضرت عیسی ؑ مغرب کے لیے مذاق کے موضوع کے طور پرقابل قبول ہو چکے ہیں اور ان کے لئے یہ اب مقدس نہیں رہے۔۔۔تاہم ریاست ان کے لیے اب بھی مقدس ہے۔ اس لیے اگر کوئی ملک کا جھنڈا جلائے، ملک و قوم کو گالیاں دے،تو یہ ایک مغربی لبرل کو  قابل قبول نہیں ہوتا۔ یہ اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہےاور ایسے شخص کو وہ ملک کے صدر کےمشیر کے طور پر  قبول نہیں کرے گا۔ وہ شخص جو لبرل ازم کا انکار کرے اور اس کا مذاق اڑائے، ایسے شخص کو مغرب اپنے میڈیا اداروں کا انچارج نہیں بنائے گا ۔ پس سیکولرازم درحقیقت مقدسات کو ختم نہیں کرتا بلکہ اسے مذہب سے ریاست،ملک اور قوم کی  جانب موڑ دیتا ہے۔ اس لئے جس طرح سے سیکولر شخص ایک ملک دشمن شخص کو اپنے ملک کا سربراہ یا مشیر کے طور پر قبول نہیں کرسکتا، ویسے ہی مسلمانوں کی مقدسات دین سے جڑے ہیں، اور وہ ایک ایسے شخص کو قبول نہیں کر سکتے جو ان کے دین کو کرپٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، اور اپنے من مانے عقیدے کو اسلام پر تھونپنا چاہتا ہوں۔ بحرحال مسلمانوں کیلئے اسلام سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔


 معیشت، کیمسٹری ،فزکس یا بائیالوجی کی طرح سائنس نہیں ہے جو کہ آفاقی ہیں اور بحثیت مجموعی آئیڈیالوجی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ پس مغرب کی ٹیوب لائٹ، گھڑی، ایل ای ڈی، موبائل، آرکیٹکچر، اناٹومی، کیمیکل سائنسز، میٹلرجی بنیادی طور پر آفاقی علوم ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کےصحابہؓ نے سائنسی علوم کفار سے لیے، کفار نے بعد میں ہم سے لیے، اور اب ہم ان سے لے سکتے ہیں کیونکہ یہ سب علوم  سائنسی ہیں اور آفاقی ہیں۔ لیکن معیشت، سیاسی نظریات، سائیکالوجی، سوشیالوجی اور دوسرے عمرانی علوم مجموعی طور پر تہذیب اور آئیڈیالوجی سے نکلتے ہیں۔ یہ سائنسز نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے یہ علوم  روم و فارس سے نہیں لیے، نہ بعد میں انھوں نے ہم سے لیے، نہ اب ہم ان سے لے سکتے ہیں۔ ہم کسی بھی مغربی ماہرکی رائے کو قابلیت کے نام پر قبول نہیں کر سکتے۔ دولت کہاں سے جمع کرنی چاہیے اور کہاں خرچ کرنی چاہیے، اس پر سرمایہ دارانہ معیشت کا اپنا فلسفہ ہے سوشلسٹ کا اپنا اور مسلمانوں کا اپنا نظریہ ہے۔ معاشی مسئلہ کیا ہے اور یہ کیسے حل ہوگا، سب کی الگ رائے ہے۔آزادی ملکیت اور سود پر سب کی اپنی رائے ہے۔۔کرنسی ہو، یا درآمدات و برآمدات، کمپنی سٹرکچر ہو یا ٹیکسیشن، اللہ اس کے اوپر وحی نازل کر چکا ہے۔ یہ سب اللہ سبحان تعالیٰ کے احکامات ہیں جن کو نافذ کرنا ہم پر فرض ہے ۔ تو جب ایک امر کے بارے میں اللہ کی وحی موجود ہے، تواس پر ہم نام نہاد ماہرین کی رائے کیسے قبول کر سکتے ہیں جو  ان احکامات کو نافذ کرنے  پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں ؟ کیا عیسائی چرچ ایک اچھی تلاوت کرنے والے مسلمان قاری کو اپنا پوپ بنانے پر تیار ہوں گے؟ اس لیے ہم  باقی مشیروں کے حوالے سے بھی مکمل اختلاف کرتے ہیں۔ 


اس کے علاوہ جب یہ سیکولر لبرل اعتراض کرتے ہیں کہ ہم قابل لوگوں کو عقیدے کے باعث قبول نہیں کر رہے، تو وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ عاطف میاں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تھی، جس سے وہ پاکستان کے مسائل حل کرنے جارہا تھا جو کہ اب ممکن نہیں ہو گا۔ عاطف میاں معیشت کے مسائل کے جو حل تجویز کر رہا ہے وہی حل  یہ باقی مشیر بھی پیش کرتے ہیں۔۔۔اوریہ پروفیشنل حلقوں کے اندر پہلے سے جانے مانے ہیں۔ ان ماہرین کا خیال یہ ہے کہ جب ہم 7فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کریں گے تو آٹھ سے دس سالوں میں ٹرکل ڈاون کے اثر سے غربت کم ہونا شروع ہوجائے گی۔لیکن  جہاں جہاں سرمایہ داریت کو نافذ کیا گیا  یہ  فارمولا عملاً ان  ملکوں میں ناکام ہوچکا ہےکیونکہ نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ د ولت چند ہاتھوں میں مقید ہو اور اس مقصدکے حصول کے لیے وہ سود رائج کرتے ہیں  اور ان اثاثوں کی نجکاری کرتے ہیں جو اصل میں ریاستی ملکیت میں ہونے چاہیے یا عوامی ملکیت ہونی چاہیے۔  تو اس پورے ماڈل کی کیا اوقات ہے؟  عاطف میاں کے پاس کوئی جادوئی حل  نہیں ہے۔۔ عاطف میاں جیسے درجنوں ماہرین آئی ایم ایف کے پاس ہیں اور وہ اپنے مفاد کے لیےکئی ممالک کی معیشتوں کو برباد کر چکے ہیں۔

 

پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن اس کے باوجود

لوگ شدید غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں 

10ستمبر 2018 کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں دو مختلف واقعات میں دو خواتین نے خودکشی کرلی۔ 22 سال کی ریشمہ کولہی، جو نگرپارکر قصبے کے گاؤں سابوسن میں رہتی ہے،نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئےگلے میں رسی کا  پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ ریشمہ کے شوہر واگہو کولہی نے بتایا کہ شدید غربت کی وجہ سے وہ پیروں میں پہننے کے لیے ضروری چپل خرید نہیں سکی تھی۔ ڈاہل قصبے کے قریب ناپیلو گاوں میں 27 سال کی خاتون ثمینہ رہیمون نے اسی طریقہ کار کو استعمال کر کے خودکشی کی۔ اس کے رشتہ داروں نے بتایا کہ وہ بھوک کا شکار تھی کیونکہ اس کے گھر والوں کے پاس کئی دنوں سے کھانے کوکچھ نہیں تھا۔ کسی بھی معاشرے کے لیے یہ بات ناقابل قبول ہوتی ہے کہ لوگ زندگی گزارنے کے لیے درکار ضروری بنیادی  اشیاء خرید نہ سکیں اور اس   وجہ سے خودکشی کرلیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،   

 

وَأَيُّمَا أَهْلُ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمْ امْرُؤٌ جَائِعٌ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ تَعَالَى

"کسی بستی میں کوئی آدمی بھوکا سوئے تو اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کی ذمہ داری سے بری ہے"(احمد)۔

 

پاکستان قدرتی وسائل جیسے معدنیات، تیل وگیس اور زرعی اجناس سے مالا مال ملک ہے لیکن اس کے باوجود شدید غربت موجود ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے ۔ پاکستان گندم اور چاول کی زائد پیداوار برآمد کر کے دنیا میں گندم اور چاول کی برآمد کے حوالے سے صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں تقریباً چالیس قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں دنیا کا ساتواں بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے جو کہ تقریباً 186 ارب ٹن ہے۔  کھیوڑہ کی نمک کی کان کا شمار دنیا کی چند بڑی نمک کی کانوں  میں ہوتا ہے جہاں ایک تخمینے کے مطابق 220 ملین ٹن نمک کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان کےعلاقے ریکوڈک میں دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان موجود ہے جہاں 54 ملین ٹن سے زیادہ سونا موجود ہے جس کی مالیت 2 کھرب ڈالر بنتی ہے۔  اسی ریکوڈک سے سالانہ تین لاکھ پچاس ہزارٹن تانبہ نکالا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر چنیوٹ کے قریب 500 ملین ٹن لوہے کے ذخائر ملے ہیں جو کہ اسٹیل بنانے کا بنیادی جزو ہے۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق پاکستان میں 9 ارب بیرل تیل اور 105 کھرب کیوبک فٹ شیل اور قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ 

 

پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام ان وسائل کو تقسیم کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کرتا کہ جس کے نتیجے میں ہر ایک فرد اپنی بنیادی ضروریات  کو پورا اور کسی حد تک آسائشوں کو حاصل کرسکے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام پیداوار پر توجہ دیتا ہے جبکہ اسلام کا معاشی نظام معاشرے میں دولت کی تقسیم پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے موجوزہ دستور کی شق 124 میں یہ استنباط کیا ہے کہ، "اقتصادی مسئلہ اموال اور منافع کو رعایا کے تمام افراد کے درمیان تقسیم کرنا ہے، اسی طرح مال سے نفع اٹھانے یعنی دولت کو اکٹھا کرنے اور اس کی کوشش کرنے کو ان کے لیے آسان بنانا ہے"۔  اگر کوئی شخص خود سے اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتا   اور  اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی اس کی معاونت نہیں کرسکتا تو پھر اسلام نے ریاست پر لازم کیا ہے کہ وہ اس کی ضروریات کو پورا کرے۔ ابو ہریرہؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ تَرَكَ كَلاًّ فَإِلَيْنَا»

"جس نے مال چھوڑا تو اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جس نے لاوارث چھوڑا ہو(جو اپنا بوجھ خود نہ اٹھا سکتے ہوں) تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے"(بخاری و مسلم)۔ 

 

رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا،

 

«الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»

"امام(خلیفہ) چرواہا ہے اور وہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے"(بخاری)۔ 

 

لہٰذا ریاست کی اہم ذمہ داریوں میں سے سب سے اہم ذمہ داری تمام افراد کو فرداً فرداً بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے اور آنے والی نبوت کے طریقے پر قائم خلافت غریبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کو یقینی بنائے گی اور اس کے لیے بیت المال سے رقم خرچ کرے گی۔ 

 

امریکی حکمناموں اور مطالبات کے حوالے سے نئے پاکستان میںکچھ تبدیل نہیں ہوا ہے

ڈان اخبار نے سینئر امریکی سفارت کار ایلس جی ویلز کا بیان شائع کیا جس میں وہ کہتی ہیں کہ امریکہ بھر پور حمایت کرے گا اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان مثبت بات چیت کے لئے ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ مسز ویلز،جو امریکی دفتر خارجہ میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے بیورو کی سربراہی کرتی ہیں، نے 10 ستمبر 2018 کو ایک نیوز بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو دو حوالوں سے پیغام دیا ہے: ایک یہ کہ وہ تعمیری کام کرے اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے تمام "دہشت گرد" گروہوں کے خلاف لڑنے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر عمل کرے۔  لہٰذا امریکہ کے ساتھ تعلقات  کے حوالے سے شرائط میں کوئی "ری سیٹ کا بٹن نہیں دبا یاگیا ہے" بلکہ  ڈومور کی جگہ ایک نئی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس پر پچھلی حکومتیں  دل و جان سے عمل کرتی رہی ہیں۔  ویلز نے مزید اصرار کیا کہ پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی دہلی میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھائے اور کہا کہ،"ہم سمجھتے ہیں اور بھارتی شراکتداروں کے ساتھ کئی بار بات چیت کرچکے ہیں کہ سرحد پار دہشت گردی میں قابل ذکر کمی آنی چاہیے جو بات چیت کےلیے مضبوط اعتماد پیدا کرے گا"۔ 

 

ہاکستان کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی دو جہتوں پر مبنی ہے۔ پہلی یہ کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے جیسا کہ ویلز نے کہا "ہماری پریشانی یہ ہے کہ جب سے صد(ڈونلڈ ٹرمپ ) نے جنوبی ایشیا کے حوالے سے حکمت عملی  کا اعلان کیا ہے ہم نے اس  ایسے فیصلہ کن اور   تسلسل کے ساتھ اقدامات نہیں دیکھے جو ہم سمجھتے ہیں کہ ضروری ہیں تا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے قائل کیا جاسکے"۔ دوسری چیز یہ کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرکے چین کے خلاف بھارت کو مضبوط کیا جائے اور بھارتی جارحیت کے خلاف مقبوضہ کشمیر کی مزاحمت کو کمزور کیا جائے۔ نئے پاکستان میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے اور باجوہ-عمران حکومت بھی اسی راہ پر چل رہی ہے جس پر مشرف-عزیز، کیانی-زرداری اور راحیل-نواز حکومت چلتی رہی ہیں۔   

 

اگر کوئی مخلص حکمران ہوتا تو پاکستان کی سمت بدلنے کے لیے وہ مستقل بنیادوں پر پاکستان سے گزرنے والی امریکی سپلائی لائن کو بند کردیتا، امریکہ کی غیر سرکاری فوج اور انٹیلی جنس کو ملک بدر کردیتا  جو ہماری افواج پر حملے کرواتی ہیں تا کہ ان کی جنگ کوہماری جنگ سمجھا جائے اور امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کو بند کردیتا جو امریکہ دفتر خارجہ اور پینٹاگون کے لیے جاسوسی کے اڈوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔  وہ مخلص حکمران کھلے عام امریکیوں کے ساتھ کسی بھی ایسی بات چیت کے مخالفت کرتا  جس کے ذریعے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی دہلیز پراسے مستقل اڈے میسر آجائیں۔ صرف نبوت کے طریقے پرخلافت ہی اس   کمزور رسی کو کاٹ ڈالے گی جس کے ذریعے امریکہ نے اپنی موجودگی ہمارے علاقے میں برقرار رکھی ہوئی ہے۔  وہ مخلص حکمران خطے اور دنیا  کے تمام مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے کام کرے گا تا کہ انہیں دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کی شکل میں ڈھال دے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا

"جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے"(النساء:139)۔    

Last modified onاتوار, 16 ستمبر 2018 03:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک