Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

بھارت مسلمانوں کے مقام و مرتبہ اور حیثیت کو تبدیل کررہا ہے

 

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اسلامی یونیورسٹی کے طلباء نے شہریت ایکٹ میں ترمیم کے خلاف مظاہرے شروع کیے جسے پارلیمنٹ نے دسمبر 2019 میں منظور کیا تھا۔ یہ ایکٹ اُن افغانیوں،  پاکستانیوں اور بنگالیوں کو بھارتی شہریت کے حصول کو اس شرط پر ممکن  بناتا ہے کہ وہ بھارت میں پانچ سال سے مقیم ہو اور ساتھ ہی غیر مسلم بھی ہوں۔ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور ہونے والے اس نئے ایکٹ نے مسلمانوں کے علاوہ  پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش  سے تعلق رکھنے والی عیسائی ، ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر بھارت شہریت کے دروازے کھول دیے ہیں جو بھارت میں 2015 سے پہلے سے (غیر قانونی) مقیم ہیں   اگر وہ صرف اتنا کہہ دیں  کہ  ان ممالک میں وہ مظالم کا سامنا کررہے تھے۔

 

                  1947 میں ہندوستان کو آزادی اور برطانوی ایجنٹ حکمرانوں کو اقتدار دینے کے بعد سے، جنہوں نے بھارت پر برطانیہ کے بنائے آئین اور قانون کی بنیاد پر حکمرانی کی، برطانیہ بھارت کی وفاداری اور تابعداری سے مطمئن تھا کیونکہ پورا کا پورا سیاسی میدان اس ہی کے حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں اور افراد سے بھرا پڑا تھا۔ آزادی کے بعد سے بھارت بڑی مشکل سے اس اسلامی وراثت  سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا جس میں وہ صدیوں سے زندگی گزارتا  رہا ہے۔ جس کی وجہ بھارت کی وہ تاریخ ہے جہاں ایک طویل عرصے تک مسلمانوں نے اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی تھی۔ بھارت میں بنیادی طور پر حکمران جماعت کانگریس رہی ہے جس نے ایک طویل عرصے تک بھارت پر حکمرانی کی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حزب اختلاف کی کئی دوسری چھوٹی جماعتوں میں سے  ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔ اس جماعت کو انگریزوں  نے ہی اسی سیاسی میڈیم سے تشکیل دیا جو اس کا وفادار تھا،یوں جمہوری عمل کو جمہوری نظام حکمرانی کے ذریعے مکمل کیا گیا۔

                  لیکن جیسے جیسے برطانیہ کی بین الاقوامی معاملات  پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کمزور   ہوتی چلی گئی، اس کی اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی طاقت بھی کمزور ہوتی چلی گئی۔ ساتھ ہی امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے  بعد بین الاقوامی معاملات سے دوری ختم کی اور بین الاقوامی صورتحال پر اپنا تسلط بڑھاتا چلا گیا۔ یوں امریکا نے بھارت کے سیاسی میڈیم میں موجود کئی کھلاڑیوں کو اپنا حمایتی بنا لیا جس میں خصوصی طور پر بی جے پی کے کئی کرتا دھرتا شامل تھے جو اپنے آپ کو ہندو قوم پرست کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں  الیکڑونک اور آئی ٹی کمپنیوں کے ذریعے پیدا ہوئی جو عالمی مارکیٹوں میں اس وقت چھا گئے تھے۔ بنگلور کا شہر ایک الیکٹرونک آئی ٹی شہر بن گیا جسے "انڈین سیلیکون ویلی" کہا جانے لگا۔ جب   1996 میں بی جے پی زبردست امریکی حمایت سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تو بھارت میں امریکی اور برطانوی مفادات کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا۔ امریکا نے خطے میں اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بھارت کو استعمال کرنا شروع کیا۔اس خطے میں امریکا کے دو اہم منصوبے ہیں: چین کو اس کی سرحدوں میں محدود کرنا اور خطے کے مسلم ممالک جیسے پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان میں اسلام کے ظہور کو روکنا ۔

 

                  ان دو اہداف کو حاصل کرنے کے لیے  امریکا نے بھارت کو کئی طریقوں سے طاقت بخشی تا کہ وہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کرسکے۔ لہٰذا بھارت نے کئی سیاسی، معاشی اور دفاعی معاہدے بنگلادیش کے ساتھ کیے یہاں تک کہ تجزیہ نگار یہ سمجھنے لگے کہ بنگلادیش بھارت کی ایک طفیلی ریاست بن گیا ہے جبکہ وہ اندر سے اب بھی مکمل طور پر برطانوی مدار میں ہی ہے۔ امریکا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو نارملائز کرنے کے لیے پاکستان میں امریکی ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے کام کیا  یہاں تک کہ پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کشمیر سے دستبرداری اختیار کرلی۔ امریکا نے یہ اس وجہ سے کیا تا کہ بھارت کو خطے میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے اور وہ ایک ایسی طاقتور قوم نظر آئے جو اپنےبدترین دشمن، پاکستان، کے خوف کے بغیر  اپنے مفاد کے حصول کے لیے آگے بڑھ سکتی ہے اگرچہ پاکستان کو کئی لحاظ سے بھارت پر فوجی برتری بھی حاصل ہے۔

 

                  امریکا نے افغانستان پر اپنے قبضے کے بعد بھارت کو وہاں پر اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ اس سال مودی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ، جبکہ  وائٹ ہاوس میں ٹرمپ  موجودہے اور اس نے اسلام کے خلاف ایک عالمی صلیبی جنگ بھی جاری رکھی ہوئی ہے، بھارت کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ خطے میں اپنے اور امریکا کے مفاد کے لیے مسلمانوں کے خلاف اقدامات اٹھائے۔ اس پس منظر کو اگر سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے خلاف امتیازی قانون کے نفاذ اور مقبوضہ کشمیر کے انضمام کے پیچھے چھپے مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔

                  بھارت کے وسیع رقبے اور آبادی کے باوجود، جو کہ ایک ارب سے بھی زائد ہے، بھارت ایک ٹکڑوں میں بٹی ہوئی اور ایک کمزور ریاست ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لسانی اور مذہبی گروہ آباد ہیں۔ اس وجہ سے بھارت کے معاشرے کی ساخت میں تقسیم اور تنازعات ایک جزو لاینک ہے ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجوداس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ  ریاست کی جانب سے سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کی وجہ سے غربت میں زندگی گزار رہا ہے اور کرپشن ایک ناسور کی صورت میں ریاست کے ہر شعبے میں موجود  ہے کیونکہ برطانوی استعمار جہاں بھی گیا اور جہاں سے بھی گیا وہاں اس "تحفے" کو چھوڑ کر ہی گیا۔ ان کمزوریوں کے باوجود امریکا اور برطانیہ یہ چاہتے تھے کہ بھارت خطے میں ایک بالادست قوت کا کردار ادا کرے اور اسی لیے انھوں نے اسے وہ وسائل اور ذرائع فراہم کیے جس کے ذریعے بھارت کو مصنوعی طور پر طاقت مہیا کی جا سکے ۔ اگر یہ عرب اور مسلم دنیا کے بزدل اور غدار حکمران نہ ہوتے جنہوں نے بھارت کے "گریٹر انڈیا"بننے کی راہ ہموار کی، تو بھارت کسی صورت مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کے خلاف ایسے ا قدامات کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔

 

                  پاکستان تنہا ہی بھارتی آرزوں کو ختم کرنےکی اہلیت رکھتا ہے بشرطیکہ پاکستان کی قیادت اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور امت سے مخلص اور وفادار ہو۔ خلیج کی ریاستوں  نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لاکھوں بھارتی مزدور اور کاروباری حضرات وہاں کام کرتے ہیں۔ خلیج کی ریاستیں باآسانی بھارت کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھنے سے روک سکتی ہیں۔ ہندو ریاست بہت حد تک یہودی وجود سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہ دونوں قومیں مصنوعی ہیں۔ یہودی وجود کو کینسر کی مانند مسلم دنیا کےقلب میں پیوست کیا گیا جبکہ ہندو ریاست کے کینسر کو مسلم وجود کی ایک پہلو میں پیوست کیا گیا ۔ ہندو ریاست اور یہودی وجود دونوں ہی  کی کوئی سماجی اور ثقافتی جڑیں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی عظیم تاریخ ہے۔ موجودہ بھارتی ریاست ہندو اقلیت  پر قائم کی گئی جسے برطانیہ نے بھارت میں سیاسی تحریک کےذریعے قائم کیا، بالکل ویسے ہی جیسے برطانیہ نے دنیا میں صہونیت پیدا کی۔ ہندو مذہب اپنی اصل میں ایک غیر اہم مذہب تھا جس کا زندگی یا سیاست  پر کوئی اثر نہیں تھا۔ لیکن انگریز نے  اپنی شرارت  سے اس گروہ کو سیاسی تحریک دی تا کہ برصغیر میں اسے  مسلمانوں اور اسلام  کے مدمقابل کھڑا کیا جا سکے۔ اس تحریک کی قیادت اب بھارتیہ جنتا پارٹی کررہی ہے۔ بی جے پی  کی ریاست بہت کمزور ہے اور اس قابل نہیں کہ وہ ایک آزاد اور خطے کی مرکزی   ریاست بن سکے۔

 

                  یہ حقیقت ہے کہ  یہ امتیازی قانون مسلمانوں کو متاثر نہیں کرسکے گا، لیکن بہرحال  اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ یہ ریاست ایک نسل پرست ریاست ہے۔ لیکن اس کی ایک سیاسی اہمیت ہے کیونکہ اس کی منظوری ریاست کو یہ حوصلہ فراہم کرے گی کہ وہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف مزید اقدامات اٹھائے۔ اسلام اور مسلمان بنیادی طور پر ہند میں ہندوریاست کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ ہند کو مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور اس پر صدیوں تک حکمرانی کی ہے۔ تو مسلمان کس طرح اس نسل پرست ریاست کی صرف قوم پرستی پرافسوس  اور غم و غصے کا اظہار کرسکتے ہیں؟ اگر اس امت کے حکمران کافروں کے تابع فرمان اور 'روبیضہ' نہ ہوتے اور خلافت موجود ہوتی جو امت کی نمائندگی کرتی اور اس کا تحفط کرتی، تو بھلا گائے کی پوجا کرنے والے اس بہترین امت کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی جرات بھی کرتے جو انسانیت کی فلاح کے لیے اٹھائی گئی ہے۔ یہ صورتحال  برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک اور محرک ہے کہ وہ اس علاقے میں خلافت کے قیام کے لیے زبردست جدوجہد کریں  تا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کے مطابق اسلام کے انصاف کا مشاہدہ کریں اور اس سے رہنمائی لیں،

إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ

"امام (خلیفہ) ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر وہ لڑتے ہیں اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل کرتے ہیں"۔

 

الرایہ میگزین کے شمارہ 266 کے لیے یہ مضمون تحریر کیا گیا

مصنف: بلال المہاجر، پاکستان 

Last modified onپیر, 20 جنوری 2020 22:13

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.