Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

بھارت میں بابری مسجد- مقدمہ اور اسلامی نقطہ نظر

ریاض بن ابراہیم

 

9 نومبر 2019 کو بھارت کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے مقدمے یا ایودھیا کے مسئلے پر اپنا آخری فیصلہ سنا دیا۔ یہ مقدمہ، جو کئی دہائیوں تک چلا، 2.77ایکڑ پر پھیلی اس زمین پر قبضے سے متعلق تھا جس پر 450 سال پرانی مسجد قائم تھی۔ ہندوؤں نے یہ دعویٰ کر کے تنازعہ پیدا کردیا تھا کہ بابری مسجد ایودھیا(جوتاریخ میں ادھ کے نام سے جانا جاتا ہے) میں اس مقام پر تعمیر کی گئی تھی جہاں ہندو  ں کا خدا "رام" تقریباً نولاکھ سال قبل پیدا ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں یہ فیصلہ دیا کہ ہندوؤں کو 2.77ایکڑ پر پھیلی اس زمین کی مکمل ملکیت دی جائے تاکہ وہ وہاں پر رام مندر تعمیر کرسکیں اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل جگہ پر 5 ایکڑ زمین دی جائے۔

 

یہ بات مشہور ہے کہ بابری مسجد سلطان محمود بابر کےحکم پر کمانڈر میر باقی نے 1528 عیسوی میں تعمیر کی تھی۔ تعمیر کے 350 سال بعد مہانت راغبیر داس نے فیض آباد کی عدالت سے 1885 میں بابری مسجد کے ساتھ  ہی مندر تعمیر کرنے کی اجازت مانگی، جو اسے نہیں دی گئی۔ یہ وہ پہلا مقدمہ تھا جو اس تنازعہ کے حوالے سے دائر کیا گیا تھا اور جو ایک صدی سے زائد عرصے تک چلا ۔ اس مقدمے کے دوران  مزید کئی مقدمے قائم کیے گئے اور کئی سیاسی تبدیلیاں  رونما ہوئیں۔ ان اقدامات نے رام مندر کے قیام کے حوالے سے آہستہ آہستہ صورتحال کو ہموار کیا ، بالآخر بابری مسجد کو گرا دیا گیا اور نتیجتاً فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔

 

1934 میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو مسجد کے 1500 مربع گز کے احاطے سے نکال دیا گیا تھا۔ 22 اور 23 دسمبر 1949 کی رات مسجد کی بے حرمتی کی گئی  اور بالا آخر 6 دسمبر 1992 میں 'کار سیواکوں' کے ہاتھوں مسجد کو منہدم کردیا گیا جس کے بعد کچھ سال تک فرقہ وارانہ فسادات ملک بھر میں ہوتے رہے جس میں دو ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 

   یہ بات مشہور ہے کہ مسلمان 1949 سے کچھ عرصہ قبل مسجد کے احاطے میں بنے ایک ڈھانچے ،جسے رام چبوترا کہتے ہیں، میں ہندوؤں کو رام کے بتوں کی پوجا سے یا تو روک نہیں سکے یا اس پر اعتراض ہی نہیں کیا تھا۔ لیکن دسمبر 1949کی ایک رات کچھ لوگوں نے مسجد میں داخل ہوکر ان بتوں کو ہٹا دیا جس کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑے۔ بھارتی ریاست اترپردیش کی حکومت نے مداخلت کی اور دونوں گروہوں کو روکا اور پھر 1950 میں عدالت نے ایک فیصلہ دیا جس میں بتوں کو مسجد سے ہٹانے سے روک دیا گیا۔ صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں گروہوں کے مسجد میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ 1959 میں ایک  درخواست  نرموہی اکاہرہ(رام کے پجاریوں کے رکھوالے) نامی تنظیم نے عدالت میں جمع کرائی اور متنازعہ جگہ کی ملکیت کا دعوی کیا۔ اس درخواست نے اس معاملے کی نوعیت کو تبدیل کردیا۔ پہلے یہ معاملہ امن و امان کے قیام اور کس کو یہاں عبادت کرنے کا حق ہے ،کے حوالے سے تھا لیکن اب یہ اس جگہ کی ملکیت کا معاملہ بن گیا۔ دسمبر 1961 میں اترپردیش کی مرکزی سنی وقف بورڈ نے مسجد کا قبضہ لینے اور وہاں سے بتوں کو ہٹانے کے لیے عدالت میں درخواست جمع کرائی، ایک طرح سے یہ ہندو تنظیم کے دعوی کا جواب تھا۔ فروری 1986 میں فیض آباد کی عدالت نے حکم دیا کہ مسجد کو کھول دیا جائے  اور ہندو ؤں کو مسجد میں لگے ایک جنگلے کے پیچھے عبادت کی اجازت دے دی۔ جولائی 1989 میں تریلوکی ناتھ پانڈے  نامی ہندو تنظیم کی جانب سے ایک اور قانونی درخواست جمع کرائی گئی جس میں یہ دعوی کیا گیا  کہ یہاں پر رام پیدا ہوئے تھے۔

 

2014 سے بھارت پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  کی حکومت ہے جسے آج  270 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت کے ساتھ پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل ہے جبکہ 1980 میں اس کی صرف دو نشستیں تھیں ۔ اس جماعت کا ہمیشہ سے ہی یہ عزم رہا ہے کہ وہ اس جگہ رام مندر بنائے گی اور بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرے گی۔ ستمبر 1990 میں بی جے پی نے اپنے رہنما ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں ایودھیا کی جانب  رام یاترا(لانگ مارچ)   شروع کیا جس نے پورے بھارت میں ہندوؤں کو بنیاد پرست اور انتہا پرست بنا دیا۔یہاں تک کہ 1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ کےحوالے سے منظور کیے جانے والے ایکٹ میں ایودھیا کی بابری مسجد کو اس سے استثنا دیا گیا یعنی یہ ایکٹ بابری مسجد  پر لاگو نہیں کیا گیا۔ 1991 میں بی جے پی نے اتر پوردیش کی ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد مسجد کے آس پاس ہزاروں کی تعداد میں ہندو، رتھ یاترا کے استقبال کے لیے جمع ہو گئے۔عدالتوں اور   مرکزی حکومت(نرسہما راؤ کی قیادت میں کانگریس پارٹی) کو اترپردیش کی ریاستی حکومت(بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیا سنگھ) کی جانب سے یقین دہانیاں کرانےکے باوجود ہندو انتہا پسند رضاکاروں "کارسیواکس" نے 450 سو سال پرانی مسجد تباہ کردی۔ یہ ایک مجرمانہ عمل تھا اور اس کے خلاف آج بھی بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر التواء ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی ریاستی حکومت کو ختم کرنے کے بعد جنوری 1993 میں ایک قانون "سینٹرل ایریا اَیٹ ایودھیا ایکٹ"(ACAA) منظور ہوا جس کے بعد 2.77ایکٹر زمین ،جس پر کبھی بابری مسجد موجود تھی، اور اس کے آس پاس موجود تقریباً 65 ایکڑ زمین کو مرکزی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس قانون کو ڈاکٹر اسماعیل فاروقی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن 1994 میں عدالت نے مرکزی حکومت کی جانب سے 65 ایکٹر زمین تحویل میں لینے کے فیصلے کو احتیاطی تدبیر کے طور پر جائز قرار دیا۔

 

نومبر 2019 کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے پوری کی پوری 67.73ایکڑ زمین جس میں 2.77ایکٹر مسجد کی زمین بھی شامل تھی ہندوؤں کو دے دی اور حکومت کو یہ حکم دیا کہ وہ ایک ٹرسٹ بنائے جو رام مندر تعمیر کرائے گی اور مسلمانوں (اترپردیش سنی وقف) کوقریب ہی  5 ایکٹر خالی زمین دی جائے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کچھ ان بنیادوں پر دیا گیا:

 

1۔ ہندوں کی جانب سے ایودھیا میں رام مندر کی  اسی جگہ پر  موجودگی کے زبانی اور تحریری حوالے دیے گئے جہاں پر بابری مسجد موجود تھی۔

 

2۔ 1885  سےمسلسل  ہندو اس 2.77 ایکٹر پر محیط جگہ پر رام کے بت کی بوجا کا دعوی کرتے چلے آرہے ہیں۔

 

3۔ مسلمان یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ  اس متنازعہ جگہ  کے غیر متنازعہ اور واحد مالک ہیں۔

 

4۔ بھارت کے آثار قدیمہ کے ادارے(اے ایس آئی) کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ بابری مسجد کی بنیادوں میں ایک ڈھانچے کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں لیکن یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ یہ ڈھانچہ مندر کا ہے۔

 

تو اب جب حقائق سامنے رکھ دیے گئے ہیں تو ہم مسلمانوں کوبتانا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح اس تمام معاملے کو اسلام نقطہ نظر سے دیکھیں۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ گذارشات اس صورت میں بھی درست رہیں گی اگر اس مقدمے کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں بھی ہوجاتا۔

1۔ عدالت کا حکم قانون بن جاتا ہے جس پر عمل لازمی ہوجاتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ لوگوں کے درمیان تنازعات کو طے کرتا ہے اور اس بات کو روکتا ہے جس سے معاشرے  کے حقوق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ، یا یہ کہ عدالت کا فیصلہ لوگوں  اور نظام حکمرانی (حکمران اور انتظامیہ)کے درمیان تنازعات کو ختم کرتا ہے ۔ عدالت کی بنیاد اور اس کی قانونی حیثیت قرآن و سنت  کی بنا پرہے۔ جہاں تک قرآن کی بات ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، "(اے محمد)جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرنا"(المائدہ 5:48)۔

 

2۔ اسلامی عدالتی نظام کے تحت کسی عدالتی مقدمے  میں دعوؤں اور شہادتوں کو قبول کرنے کا ایک مخصوص پیمانہ دیا گیا ہے۔ فیصلہ اس فریق کی حق میں کیا جاتا ہے جو اپنے دعوے کے حق میں ثبوت پیش کرسکے۔ آثار قدیمہ کے ثبوت اور عوامی جذبات کسی مقدمے کے حق میں استعمال نہیں ہوسکتے۔ بابری مسجد کے مقدمے میں وقف کی مکمل عمارت کو کہانیوں (پُرانوں)میں موجود ایک کردار(یعنی رام )کے لیے دے دیا گیا۔ اور ہم یہ بات مندرجہ ذیل دلائل کی بنیاد پر کررہے ہیں۔"رسول اللہﷺ نے ایک مقدمے کے دو فریقوں کو جج کے سامنے بیٹھنے کا حکم دیا"(احمد  اور ابو داؤد نے یہ  حدیث روایت کی)۔ اور فرمایا:"ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری حق دعویٰ کرنے والے(استغاثہ) پر ہے"(بیہقی نے یہ حدیث روایت کی اورابنِ حجر کے مطابق اس کی اسناد معتبرہے)۔ اور اس ثبوت کو صرف عدالت میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔

 

3۔ اسلام کے عدالتی نظام میں فیصلہ صرف ایک جج دیتا ہے نہ کہ کئی ججوں پر مشتمل بینچ یا کئی لوگوں پر مشتمل جیوری دیتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہےکہ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی مقدمے میں دو جج نہیں بٹھائے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی ایک مقدمے میں ایک زیادہ جج نہیں ہوسکتا۔ جج کو ایک یا اس سے زائد لوگ اس کے ساتھ بیٹھ کر مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان کے مشورے جج کوپابند نہیں کرتے کہ وہ ان کے مشورے کے خلاف نہیں جاسکتا۔

 

4۔ اسلام کا عدالتی نظام کسی غیر انسانی شخصیت ،جیسا کہ رام، کو کسی مقدمے کا فریق تسلیم ہی نہیں کرتا۔  بابری مسجد کے مقدمے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غیر انسانی شخصیت رام کا مقدمہ ایک انسانی تنظیم لڑتی ہے۔ اسلامی احکامات لوگوں کے اعمال کے مطلق احکامات اور ان  کی حدود کا تعین کرتے ہیں۔ یہ احکامات کسی  شخص کو مدعی کی اجازت کے بغیر  اس کا قائم مقام بن کر مقدمہ لڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔ تنازعات میں قائم مقام کا مسئلہ اجماع صحابہ سے ثابت ہے۔ علیؓ نے ابو بکر ؓ کے سامنے ایک شخص کو عقیل کے قائم مقام کے طور پر پیش کیا اور کہا، "جو اس کے لیے حکم ہوگا وہ میرے لیے بھی ہوگا اور جو حکم اس پر لاگو ہوگا وہ مجھ پر بھی لاگو ہوگا"۔

 

5۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کئی سو سال سےکھڑی مسجد کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاسکتا ہے اور  سپریم کورٹ اس عمل کو  قانونی بھی قرار دے سکتی ہے۔ جو بھی عقل رکھتے ہیں وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جانتے بوجھتے عدالتی عمل کو اس قدر طوالت دی گئی تا کہ سیاسی و قانونی ہیرا پھیری کے ذریعے اس معاملے کو اُس مقام تک پہنچا دیا جائے جہاں من چاہا فیصلہ دیا جاسکے۔ 2015 کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ ہے۔ ماتحت عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک مقدمہ پہنچنے اور ان کا فیصلہ ہونے میں اوسطاً چھ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، ہاں اگر مقدمہ کسی بہت امیر یا طاقتورشخصیت کا ہو تو یہ عمل بہت تیز ہوجاتا ہے۔ اسلام کے نظام حکمرانی خلافت میں ضروری  عدالتی کارروائی کو بغیر کسی تاخیر کے چلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام کے عدالتی نظام میں ایک دوسرے کے اوپرعدالتیں نہیں ہوتیں اور اس کا ثبوت اجماع صحابہ ہے۔ نجران کے لوگ علیؓ کے پاس آئے اور کہا، "اے امیر المؤمنین، فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے اور آپ کی معافی وہ ہے جو آپ خود دیں "۔ آپؓ نے فرمایا، "تم پر افسوس ہے، عمر سیدھے راستے پر تھے، اور میں عمر کی جانب سے سنائے گئے کسی فیصلے کو تبدیل نہیں کروں گا"۔

 

6۔ اسلام کا عدالتی نظام  اکثریت یا اقلیت کی رائے سے قطع نظر،شریعت کی حدود میں لوگوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔ کسی بھی ایسے اقدام کی اجازت نہیں جس کا مقصد کسی ایک گروہ کی حمایت کرنا ہو۔ بابری مسجد کے معاملے میں یہ بات واضح ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے سیاسی فوائد سمیٹنے کے لیے پچھلی کئی دہائیوں میں کئی بار قوانین اور ایکٹ  میں تبدیلیاں کیں۔ ہم نام نہاد جمہوریتوں میں یہ صورتحال دیکھتے ہیں کہ وہاں جذبات سے کھیلا جاتا ہے اور انقلابات انجینئرڈ (خود ساختہ) ہوتے ہیں تا کہ اپنی جماعتوں کو انتخابات میں کامیاب  کرایا جائے اور اس دوران لوگوں کو شدید مشکلات اور مصائب کا شکار کردیا جاتا ہے۔ خلافت کا نظام حکمرانی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حدود میں رہتے ہوئے انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرتا ہے اور اس کام کو کرنے کے لیے خلافت کو اکثریت کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسلامی نظامِ خلافت مختلف سیاسی گروہوں کی جانب سے مانگی جانے والی مراعتوں کو مسترد کردینے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوتا جیسا کہ ہم جمہوریتوں میں دیکھتے ہیں کہ جہاں اگر ایک سیاسی گروہ کی بات تسلیم نہ کی جائے تو وہ حکمران کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اسے مسند اقتدار سے اتار دیتے ہیں۔ ہم آج یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکا سے یورپ اور ایشیا تک سیاسی رہنما ووٹ کے حصول کے لیے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم یورپ کے کئی حصوں  میں انتہا پسند قوم پرستوں کا ظہور دیکھ رہے ہیں جو مہاجرین کے خلاف بہت سخت موقف رکھتے ہیں اور  اسی طرح بھارت میں بھی مذہبی انتہا پسندی اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آرہی ہے۔

 

خلاصہ:

                  مسجد کی حیثیت ایسی ہے جیسا کہ وہ زمین جس پر اسلام نافذ ہو اور اس کی  یہ حیثیت کبھی تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ بابری مسجد کے معاملے پرمسلم دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔      مسلمانوں کو لازمی اس بات کا احساس کرنا چاہیے  کہ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی بھی آئین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان احکامات کو کبھی نافذ نہیں کرتا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عدلیہ کے لیے بنائے ہوئے ہیں۔ اب مسلمانوں پر یہ لازم  ہےکہ وہ صورتحال کو تبدیل کریں اور نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لائیں اور دنیا کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کا نفاذ مسلم اور غیر مسلم لوگوں پر کر کے دکھائیں۔

 

حوالے:

https://www.bbc.com/news/world-asia-india-50355775

https://www.rt.com/news/473015-ayodhya-dispute-supreme-court/

https://en.wikipedia.org/wiki/2019_Supreme_Court_verdict_on_Ayodhya_dispute

https://indiankanoon.org/doc/37494799/

https://frontline.thehindu.com/static/html/fl1904/19040180.htm

Last modified onجمعرات, 06 فروری 2020 00:09

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.