الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سانحہ پشاور اور پاکستان میں امریکہ کی خفیہ جنگ

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان کے شہر پشاور میں  واقع آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے وحشیانہ حملے کو ہوئے چند دن گزر چکے ہیں۔ اس حملے میں سرکاری اعلامیہ کے مطابق مرنے والوں  کی تعداد ایک سو اکتالیس ہے جس میں بہت بڑی تعداد اسکول کےمعصوم بچوں کی ہے۔ اس اندوہناک واقع نے پورے پاکستان کو غم و غصے میں مبتلا کردیا اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس وحشیانہ عمل کی شدید مذمت کی جس میں قبائلی علاقوں کی گروہ اورافغانستان کے طالبان کے ملا عمر بھی شامل ہیں۔

 

جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے اور  مقتولین دفنا دیے جاتے ہیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا  کردی جاتی ہے تو ہم  ان  وجوہات اور اس سے جوڑے واقعات کے جانب متوجہ ہوتے ہیں جو   اس سانحہ پر منتج ہوئے اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ پھر دوبارہ ویسا ہی سانحہ کبھی واقع نہ ہو۔ ہمسائیہ ملک افغانستان میں امریکہ کی ایک دہائی سے جاری جنگ اور پاکستان کے یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی وفوجی قیادت کا اس امریکی جنگ میں شمولیت کے فیصلے کو جاری و ساری رکھنا اس سانحہ کا پس منظر ہے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے امریکہ سے تعلقات کا تجزیہ کرنے سے یہ  واضح ہوتا ہے کہ  خطے میں امریکہ کی موجودگی پاکستان کے ہزاروں لوگوں کی  جانیں گنوادینے کی اہم ترین وجہ ہے۔

 

خطے میں امریکہ کی پہلی  سب سے اہم مداخلت افغانستان پر سوویت روس کے حملے کے دوران  آپریشن سائیکلون کے نام سے ہوئی تھی جو کہ مجاہدین کو سی۔آئی۔اے کی جانب سے مسلح کرنے کی مہم کا خفیہ  نام تھا۔ امریکہ نے جہادی گروپوں کے لئے کئی تربیتی پروگرام شروع کیے جن میں کار بم دھماکے، اہم شخصیات کو قتل کرنے اور سرحد کے پار سوویت روس میں داخل ہو کر اس کی تنصیبات پر حملے شامل تھے۔ امریکی سی۔آئی۔اے نے ان مقاصد کے لئے رقم اور دیگر وسائل فراہم کیے اور پاکستان کی آئی۔ایس۔آئی نےان وسائل کو  افغانستان میں سوویت روس کے خلاف گوریلہ جنگ کے لئے استعمال کیا۔ 1989 میں سوویت روس کے چلے جانے کے بعد امریکہ بھی اس خطے سے چلا گیا اور بعد کے معاملات کو سنبھالنے کے لئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ امریکہ نے جہادی نیٹ ورکس کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا لیکن پھر 9/11 کے بعد پاکستان کو حکم دیا کہ اب وہ انہیں ختم کردے۔

 

جنرل مشرف کی قیادت میں پاکستان نے امریکہ کو افغانستان میں جنگ کے لئے فوجی،  فضائی اڈے  اور رسد کی نقل حمل کے لئے زمینی راستے فراہم کیے۔ مشرف نے اپنی سوانح حیات، ان دی لائن آف فائر ، میں لکھا ہے کہ "ہم نے 689 لوگ پکڑے اور 369 کو امریکہ کے حوالے کیا۔ ہم نے اس سے کئی ملین ڈالر کمائے"۔ کابل سے طالبان کو نکال باہر کرنے کے بعد اور عراق میں کھڑی ہونے والی مزاحمت نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی فوجی، سیاسی اور سیکورٹی قوت مشرق وسطیٰ کے جانب مبزول کردے۔ طالبان کو اگرچہ کابل سے نکال دیا گیا تھا لیکن انہیں  شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ پاک افغان سرحد کی جانب چلے گئے تا کہ اپنی شیرازہ بندی کرسکیں۔ امریکہ کی توجہ عراق کی جانب مبزول ہونے کی وجہ سے طالبان کو ایک بار پھر کھڑا ہونےکا موقع ملا اور 2005 تک وہ پوری طاقت کے ساتھ  افغانستان میں واپس آچکے تھے اور بہت سے علاقوں پر دوبارہ اپنی بالادستی کو بحال کررہے تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب امریکہ نے پاکستان میں اپنے خفیہ آپریشنز کا آغاز کیا۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو شکست دینے ، افغان مزاحمت کو طاقت و مدد فراہم ہونے والی رسد اور راستوں کو ، جو کہ تمام کی تمام پاکستان سے آرہی تھیں، کو کاٹ دینے  اور خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔ افغان مزاحمت کو مدد فراہم کرنے میں وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک، فاٹا میں موجود کئی قبائل اور سوات کا علاقہ شامل تھے۔ اکثر امریکی عہدیداروں نے اپنے بیانات میں پاکستان کے فوجی اہلکاروں، آئی۔ایس۔آئی اور سیاسی حکومت کے  اہلکاروں پر حقانی نیٹ ورک اور دیگر قبائل کے سات تعلقات اور انہیں افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے مدد فراہم کرنے کے الزامات لگانے شروع کردیے۔ یہ الزامات 2010 میں ویکی لیکیز کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات میں افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس رپورٹز میں بھی  موجود تھے۔ ان دستاویزات میں افغانستان میں امریکہ اور بین الاقوامی افواج کے خلاف لڑنے والے عسکری گروہوں کے آئی۔ایس۔آئی سے تعلقات کو بیان کیا گیا تھا۔ یہ وہی عسکری گروہ تھے جنہیں امریکہ نے  80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت روس کے خلاف استعمال کیا تھا۔

 

شروع میں امریکہ نے پاکستان کی حکومت پر، جس کی قیادت فوجی آمر پرویز مشرف کررہا تھا، دباو ڈالا کہ وہ ان عسکری گروہوں سے، جو پاک افغان سرحد پر موجود ہیں، سے نمٹے اور ان کا خاتمہ کردے۔ لیکن یہ فوجی آپریشن افواج پاکستان اور عوام میں انتہائی غیر مقبول تھے۔ کئی لوگ ان آپریشنوں کو اس نظر سے دیکھتے تھے کہ یہ امریکی جنگ ہے اور کسی صورت پاکستان کی مفاد میں نہیں کہ وہ ان لوگوں سے جنگ کرے جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف ایک جائز جہاد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان آپریشنز کے نتیجے میں بننے والےمہاجرین اور ہلاک ہونے والے مسلمان عورتوں اور بچوں  کی تصاویرنے عوامی رائے عامہ تبدیل کردی اور یہ مطالبہ ہونے لگا  کہ افواج پاکستان ان آپریشنز سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ 2005 کے شروع میں پاکستان نے قبائلی علاقے میں موجود مختلف عسکری گروہوں سے فوجی  آپریشنز کی جگہ مذاکرات کرنے شروع کردیے۔ لیکن یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھا کیونکہ وہ بہت تیزی سے افغانستان کے بڑے حصوں سے اپنا کنٹرول  اس وجہ سے کھوتا جارہا تھا کہ افغان طالبان کو پاکستان و افغانستان کے درمیان موجود قبائل سے مدد فراہم ہورہی تھی۔

 

یہ مشرف تھا جس نے 2006 میں امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان میں سی۔آئی۔اے کو خفیہ آپریشن کرنے کی اجازت دی۔ اس معاہدے کے تحت سی۔آئی۔اے کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ طالبان اور القائدہ کی جاسوسی کرنے کے لئے  نجی سیکورٹی ایجنسیوں جیسے بلیک واٹر (زی ورلڈ وائڈ) اور ڈائن کورپ  کی خدمات حاصل کرسکے گی۔ ایک سینئر پاکستانی سیکورٹی عہدیدار نے 2011 میں رائٹر کو بتایا کہ "2009 کے آخر میں جناب حقانی (2011-2008تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر) کو سات ہزار ویزے جاری کرنے کا ایک خصوصی صدارتی حکم نامہ جاری ہوا اور ویسا ہی حکم نامہ وزیر اعظم کے آفس کے تحت بھی جاری ہوا"۔ پاکستانی حکومت نے چار سو امریکیوں کو بغیر آرمی کے سیکورٹی چیک کے ویزے جاری کیے تا کہ سی۔آئی۔اے کو پاکستان میں اپنی موجودگی کو بڑھانے میں مدد فراہم ہوسکے۔

 

یہی وہ دور تھا جس کے دوران جب پاکستان کے بازاروں، سکولوں، مزارات، فوجی اڈوں اور شہری علاقوں میں  یکے بعد دیگرےبم دھماکے یا کار بم دھماکے ہونے لگے۔ یہ دھماکے پاکستان میں عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے شروع ہوئے اور پھر فاٹا اور سوات میں فوجی آپریشن کے مطالبے زور پکڑنے لگے۔ بلکہ در حقیقت ہر بڑے فوجی آپریشن سے قبل کوئی بہت بڑی دہشت گردی کے کاروائی بھی لازمی ہوتی تھی۔

پاکستان میں امریکی ایجنٹوں  کی بڑہتی موجودگی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے وارداتوں نے یہ سوال اٹھا دیا کہ آخر سی۔آئی۔اے پاکستان میں کر کیا رہی ہے؟اور پھر سی۔آئی۔اے کا کردار 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے گرفتاری کے بعد بے نقاب ہوگیا۔

 

ریمنڈ ڈیوس 27 فروری 2011 کو اس وقت گرفتار ہوا جب اس نے لاہور کے ایک بس سٹاپ پر دو موٹر سائیکل سواروں کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ جلد ہی یہ بات بے نقاب ہو گئی کہ ریمنڈڈیوس پاکستان میں سی۔آئی۔اے کی جاسوسی کرنے والی ٹیموں کا ایک حصہ ہے۔ ڈیوس کو جب گرفتار کیا گیا تو اس سے 158 اشیاء برآمد ہوئیں جن میں جاسوسی کے لئےاستعمال ہونے والے آلات اور پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی تصاویر بھی شامل تھیں۔  پنجاب پولیس کے عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ "تفتیش کے دوران اس کے ٹی۔ٹی۔پی کے ساتھ قریبی تعلقات کا انکشاف ہوا، ڈیوس خونی مزاحمت کھڑی کرنے کے لئے پنجاب سے طالبان کے لئے نوجوان بھرتی کرنے میں اہم کردار ادا کررہا تھا"۔ کرائے کے گوریلوں کی ٹیٹو والی لاشیں برآمد ہونے کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے پاکستان میں بد امنی پیدا کرنے کے لئے امریکہ پاکستان کے کئی عسکری گروپوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرچکا ہے۔ڈیوس سے ہونے والی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 330 افراد پاکستان میں بے چینی و بدامنی پیدا کرنے کے لئے خفیہ طور پر کام کررہے ہیں۔

اس بات کے واضح شواہد سامنے آجانے کے بعد کہ پاکستان میں سی۔آئی۔اے اور اس کے لئے کرائے پر کام کرنے والی بلیک واٹر موجود ہے اور بم دھماکوں میں یہی ملوث ہیں ، ان بم دھماکوں کو سیاسی و فوجی قیادت نے ہمیشہ امریکی مطالبات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ان مطالبات میں شمالی  قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شامل تھا اور یہ مطالبہ پاکستان کی عوام کے خلاف سازش کو واضح کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بل آخر ڈیوس کو چھوڑ دیا ۔ ڈیوس اپنے مشن میں کامیاب ہوچکا تھا جس کے تحت وہ اس ماحول کو پیدا کرچکا تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی و فوجی قیادت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے جواز کو ثابت کرسکیں۔

 

امریکہ کی جانب سے پاکستان کی افواج پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی ایکشن کرانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ مرکزی حکومت سے بدظن ہوجائیں اور آزادی کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں۔ یہ وہ صورتحال ہو گی جس کےامکانات کے متعلق امریکہ نے بات کی اور ایک امریکی پروفیسر مائیکل چوسوڈوسکی(Michel Chossudovsky) نے پاکستان کی بالکانائیزیشن  کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ مستقل مزاجی سے پاکستان میں سماجی، لسانی اور عملی تقسیم کے لئے کام کررہا ہے جس میں پاکستان کا ٹوٹ جانا بھی شامل ہے۔ امریکہ نے یہی جنگی حکمت عملی افغانستان اور ایران کے بھی اختیار کررکھی ہے"۔

 

پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ امریکہ کو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں کچھ غدار میسر آگئے ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں افواج پاکستان میں  کئی مخلص فوجی افسران  اور عوام کی جانب سے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے بازاروں میں بم دھماکے کروائے اور سیکڑوں معصوم جانوں کو قتل کردیا۔ امریکہ کو اس خطے سے نکال باہر کرنے سے ہی پاکستان میں عدم استحکام اور بد امنی کا خاتمہ ہوگا۔

 

عدنان خان نے مرکزی میڈیا آفس  حزب التحریر کے لئے یہ مضمون  لکھا

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک