Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سیاسی سوالات کے جوابات

 

تیل کی قیمتیں، اردوان کا برطانیہ کا دورہ، ملائیشیا کے انتخابات اور آرمینیا

اول: سوال:

24 مئی 2018 کو تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھیں جہاں برنٹ (brent) خام تیل 79 ڈالر فی بیرل اور ٹیکساس خام تیل 71 ڈالر فی بیرل کی قیمتوں پرفروخت ہوئے ۔ 2014 میں قیمتوں کی گراوٹ کے بعد یہ اضافہ ہوا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ایک نئے دور میں داخل  ہو رہی ہے؟ کیا پہلے کی طرح 150 ڈالر فی بیرل تک قیمتیں پہنچ سکتیں ہیں؟ اور اس کی کیا وجوہات ہیں؟

 

 جواب:

 کسی بھی شئے کی طرح تیل بھی طلب اور رسد (supply and demand) سے متاثر ہوتا ہے۔بہرحال ، دوسری اشیاء کے برعکس، تیل کی قیمتوں میں استحکام برائے نام ہی رہتا ہے۔دوسرے الفاظ میں، طلب اور رسد میں آنے والی ہر تبدیلی کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔یہ اس لیے ہے کہ تیل کی مارکیٹ کا مزاج ہی اس طرح کا ہے۔مزید براں، قیاس آرائیوں کے اثر سے بھی ایسا ہوتا ہے خاص طور سے جب بازار سیاسی افراتفری کا شکار ہو۔ اس کو واضح کرنے کے لیے ہم ذیل  میں کچھ چیزیں بیان کرنا چاہیں گے:

1۔رسد ( سپلائی) سے متعلق:

ا۔   پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (OPEC) اور غیر اوپیک ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ بازار میں  تیل  کی رسد (سپلائی) کو  محدود کرنا چاہیے۔2017 کے آخر میں روس اور  اوپیک ممالک کے  مابین ہونے والے سمجھوتے میں اس  بات  کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ  خام تیل  کی پیداوار میں  ہر دن 1.8 ملین بیرل  کمی کرنی چاہیے جس سے بازار میں اس کی زائد رسد  کو روکا جا سکے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکے۔ اوپیک کے Standard & Poor’s Global Plats کے مطالعے نے اس بات کو ظاہر کیا  کہ  اوپیک  کے خام تیل کی پیداوار میں اپریل میں لگاتار تیسرے مہینے سال کے سب سے نچلے لیول تک گراوٹ درج دیکھی گئی، یوں پچھلے مہینے میں  32 ملین  بیرل یومیہ  پیداوار ہوئی یعنی کہ مارچ سے 140 ہزار بیرل یومیہ کم پیداوارہوئی۔اور اب یہ پیداوار 32.73 ملین بیرل یومیہ ہے یعنی کہ اوپیک کی یومیہ  حدسے  730 ہزار بیرل  یومیہ کم ہے۔اوپیک کا یہ سمجھوتہ ایک سال چلے گا۔ اگر موجودہ حالات برقرار رہتے ہیں تو  خام تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔Energy Aspects Advisory کے ہیڈ Matthew Barry نے کہا:"جو ہوتا ہم دیکھ رہے ہیں اور جومزید مستقبل میں ہوگا، وہ یہ ہوگا کہ رسد کے مسائل اور اندیشے، قیمتوں پر زیادہ سے زیادہ اثر ڈالنا شروع کریں گے۔" (https://www.marketwatch.com)

 

ب۔   وینزویلا کے سیاسی اور معاشی حالت نے اس کے اپنے پیداواری حدف کو حاصل کرنے پر خاطر خواہ اثر ڈالا ہے، جس نے اپریل 2018 میں  1.41 ملین بیرل یومیہ  پیداوار حاصل  کی  جو کہ مارچ 2018 سے 80 ہزار بیرل یومیہ کم تھی اور سال 2017 سے 540 ہزار بیرل یومیہ کم تھی۔اس کمی  کی سب سے اہم وجہ وینزویلا ملک کی پالیسی تھی ؛اس کی تیل کی کمپنی (PDVSA) کی بد انتظامی اور وینزویلا میں تیل کے دو منصوبو ں کو ضبط کرنے کی وجہ سے گذشتہ مہینے Conoco Phillips کا PDVSA کے خلاف 2 بلین ڈالر کا کیس جیتنا وجوہات میں شامل ہیں۔ اور PDVSA 2.5 بلین ڈالر کے اپنے قرضے کو ادا کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔اس سب کا اثر وینزویلا کی تیل  کی پیداوار پر پڑا ہے اور  اس لیے  رسد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ رسد میں کمی ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

 

ج۔ جب امریکی صدر ٹرمپ نے  ایران سے ایٹمی سمجھوتہ ختم کیا تھا تو اس بات کا امکان پیدا ہوا تھا کہ ایران کی تیل کی صنعت پر مزید پابندیاں عائد ہوں گی۔اسی طرح کی پابندیاں 2012 میں اوباما کے دور صدارت میں بھی  عائد  ہوئیں تھیں۔ ایران کی تیل کی پیداوار 20 فیصد یا 500،000 سے 400،000 بیرل یومیہ تک گر سکتی ہے جو کہ موجودہ قیمتوں کے حساب سے 1بلین ڈالر ماہانہ کے مساوی  ہوگا (http://foreignpolicy.com)۔ حالانکہ ، ابھی تک امریکہ نے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس طرح کی کاروائی کرے گا لیکن اس بات کا اندازہ  لگایا جا رہا ہے کہ ایرانی تیل کی صنعت کے خلاف کچھ نہ کچھ پابندیاں  تو لگائیں  ہی جائیں گی۔

ان سارے اقدامات یا وجوہات کی وجہ سے رسد میں کمی واقع ہوئی ہے اور نتیجتاً ، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا  ہے۔

 

2۔ طلب (ڈیمانڈ) کے متعلق:

ا۔  تیل کی طلب میں  اضافہ ہوتا جارہا ہے،  اور International Energy Agency اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ عالمی تیل کی طلب 2017 میں 97.8 ملین بیرل یومیہ  سے اس سال تک 99.3 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ جائے گی۔پیرس میں مقیم  اس ایجنسی نے 2018 میں تیل کی طلب کے بارے میں 1.3 سے 1.4 ملین بیرل یومیہ کے اضافے کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے  عالمی معاشی نشو ونماکے تخمینے کی شرح میں اضافے  کے اعلان کے بعد ہوا ہے۔International  Energy Agency نے اپنی ماہانہ مارکیٹ رپورٹ میں  بیان کیا کہ تیل کی طلب میں 2017 میں 1.6 بیرل یومیہ کے حساب سے اضافہ ہوا ہے (https://www.reuters.com) ۔

 

ب۔ تیل کی طلب میں اضافے کی ایک اور وجہ  چین کی طلب میں اضافہ ہے۔ اپریل 2018 میں یہ توقع تھی کہ چین  9 ملین بیرل یومیہ  کے حساب سے خام تیل استعمال کرے گاجو کہ پہلے کسی بھی وقت کی طلب سے کہیں زیادہ ہے اور یہ عالمی  استعمال (کھپت) کا 10 فی صد ہے اور ایشیاء کی طلب سے ایک تہائی سے بھی زائد ہے۔ اگر خام تیل75 ڈالر فی بیرل پہنچ گیا، تو اس کا مطلب  ہوگا کہ چین کی ماہانہ درآمد 20 ارب ڈالر سے بھی زائد ہو جائے گی۔ یہ ریکارڈ طلب   مین ٹیننس سیزن (maintenance season) کے باوجود ہے، جس میں سال کے اس وقت گراوٹ آہی  جاتی ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین  کی تیل کی ضروریات  توقع سے کہیں زیادہ  ہیں۔ Goldman Sachs Bank نے اپنے گاہکوں سے ایک نوٹ میں کہا:"چین کی تیل کی طلب بہت مضبوط نشو ونما کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ موجودہ   تخمینوں سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے"(https://www.reuters.com)

اس وجہ سے طلب میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں  اضافہ ہو رہا ہے۔

 

3) قیاس آرائی Speculation :

تیل کی رسد اور طلب میں تیزی سے ہوتی تبدیلیوں اور بازار کے رجحانات کا مشکل سے اندازہ ہونا ،قیاس آرائی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ لہٰذا، قیاس آرائی تب ختم ہوتی جاتی ہے جب تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ یا تخفیف  ہوتی ہے۔ بڑے ہیج فنڈز(hedge funds) تیل کی  خریداری کے ذریعےیا تیل کے بڑے معاہدوں کو ظاہر کرکے،تیل کی مارکیٹ میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لیےقیاس آرائی ایک دو دھاری تلوار ہے جوکہ طلب میں اضافے  پر اثرانداز ہوسکتی ہے اور اس طرح سے قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے اور  طلب میں  گراوٹ اور کم قیمتوں  پر اثر ڈال سکتی ہے۔کسی بھی صورت میں، قیمتوں  میں حالیہ اضافے میں قیاس آرائی کا اثر  زیادہ قوی نہیں رہا ہے بلکہ جیسا کہ اوپر بیا ن ہوا ہے  سب سے زیادہ  غالب اور اہم کردار رسد اورطلب کا رہا ہے ۔

 

4) تیل کی قیمتوں میں پہلے جیسا اضافہ، یعنی 150 کے ہندسے تک پہنچنا، محال ہے کیونکہ عالمی معاشی حالات اس کو برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے اس بات کی توقع ہے کہ تیل کی قیمتیں آہستہ آہستہ بڑھیں گی یہاں تک کہ 100 پر پہنچنے سے پہلے وہ رک جائیں خاص طور سے امریکہ اور چین کے مابین  ناگزیر تجارتی جنگ طلب کو گھٹائے گی  اور پھر تیل کی قیمتیں  آسانی سے نیچے آجائیں گی۔مزید براں، پیداوار کو بڑھانے کے لیے امریکہ کا  سعودی عرب کے  توسط سے اوپیک  پر  دباؤ کا بھی اس جیسا ہی اثر رہےگا اگر قیمتیں امریکہ کی پسند سے زیادہ بڑھ گئی۔

 

دوم: 

سوال:

اردوان  اتوار کے دن 13مئی 2018 کو تین دن کے دورے پر لندن پہنچا۔اس دورے میں اردوان نے ملکہ الزبتھ اور  وزیر اعظم تھیریسا مئے سے ملاقات کی۔ اردوان کا یہ دورہ 24  جون کو  وقت سے پہلے ہونے والے صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے کچھ ہفتوں پہلے ہوا ہے۔یہ معلوم ہی ہے کہ ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد سے اردوان کے برطانیہ سے رشتے تلخ ہو گئے ہیں۔ تو پھر یہ دورہ کیوں کیا گیا اور اس کا کیا مقصد ہے؟ کیا یہ اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب رہا؟

 

جواب:

اس دورے کے مقصد کو بیان کرنے کے لیے مندرجہ ذیل وضاحت ضروری ہے۔

1۔ہم یہ جانتے ہیں کہ اردوان  اپنی بالادستی کو صدارتی نظام کے ذریعے استحکام دینا چاہتا ہے جہاں ہنگامی صورتحال (ایمرجنسی) کے دوران ساری طاقتیں اور اختیارات صدر کے ہاتھوں میں رہتے ہیں۔ہنگامی صورتحال میں ہی  ترکی میں 160000 لوگوں کی گرفتاری ممکن ہوئی اور بہت سے دیگر معاملات میں اتنے ہی سرکاری ملازمین کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ جب سے ترک حکومت کے خلاف 2016 میں  ناکام بغاوت کی کوشش ہوئی ہے تب سے ہزاروں باغیوں  بشمول ملازمین، وکلا، ملازمین، پولیس اور یونیورسٹی کےاستادوں کو ہٹا دیا گیا ہے؛جن میں بہت سارے برطانیہ کے وفادار ہیں۔ بہرحال، اتوار کواستنبول سے لندن کوچ کرنے سے پہلے اردوان نے برطانیہ کو ایک " اسٹریٹجک پارٹنر اور اتحادی" بتایا اور کہا کہ وہ تھریسامے سے منگل کے دن باہمی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر مذاکرات کرے گا اور آگے بتایا کہ قبرص میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں پر ترکی اور برطانیہ ضامن ہونے کے ناطے مذاکرات کریں گے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مشرق وسطیٰ میں لیے جانے والے"مشترکہ عملی منصوبہ بندی " پر بھی  بات چیت ہوگی۔اردوان نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ وہ اپنے اس دورے سے ترکی اور برطانیہ کے مابین تجارت کو فروغ  دینے  کی بھی کوشش کرے گا۔ اس نے کہا،"برطانیہ کے یورپین یونین سے نکل جانے کے بعد بھی ہم برطانیہ سے بنا کسی رکاوٹ کے اپنے باہمی رشتوں کو پہلے کی طرح  قائم رکھنا چاہیں گے" (13/05/2018 http://www.elfagr.com

 

2) اس کے ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اس نے مے سے علاقائی، بین الاقوامی، قبرص میں ہو نے والی تازہ تبدیلیوں، مشرق وسطیٰ کے متعلق عملی منصوبوں اور ترکی اور برطانیہ کے مابین تجارت کو فروغ دینے  پر مذاکرات کیے  ہیں۔جہاں تک مشرق وسطیٰ کے عملی منصوبوں کا معاملہ ہے تو  اردگان وہ شخص نہیں ہے جس سے مے اس بین الاقوامی معاملے پر بات چیت کرے گی۔اور مذاکرت کا مرکز اگر ترکی اور برطانیہ کے مابین تجارت کو فروغ دینا ہو جیسا کہ اردوان نے   استنبول کے اتاترک  ہوائی اڈے سے نکلتے وقت ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا، تو یہ بھی بات درست نہیں ہے کیونکہ  تجارتی اور معاشی معاملات  میں فروغ کی بات چیت کے لیے دو ممالک کے مابین ایک سیاسی استحکام کا ماحول ناگزیر ہوتا ہے جو کہ خاص طور سے ناکام بغاوت  کے بعد سےابھی تک موجود نہیں ہے۔اس کی توثیق اس بات سے ہوتی ہے کہ اس نے برطانیہ کے ساتھ کسی بھی طرح کے کوئی اہم معاشی منصوبے پر دستخط  نہیں کیے ہیں۔قبرص کے معاملے پر بات چیت ممکن ہے کیونکہ دونوں ممالک اس جزیرے میں امن و حفاظت کے ضامن ہیں لیکن یہ تب ہوتا جب قبرص میں کسی طرح کا تناؤ یا ہیجان کا ماحول ہوتا جو کہ ابھی نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اردوان نے اپنے اس دورے کے مقصد کے طور پر   جو کوئی بھی معاملات بیان کئے ہیں  ان کا کوئی امکان  اور ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ اصل مقصد سے  دھیان ہٹانے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔

 

3۔اس  دورے کی اصل  غرض و غایت کا اندازہ  بغاوت کی کوشش سے اب تک کے حالات کا تجزیہ کر کے کیا جا سکتا ہے اور پھر ان واقعات کی کڑی   ترکی میں ہونے والے انتخابات سے جوڑ کر اردوان کے برطانیہ دورے کے اصل مقصد کو واضح کیا جا سکتا ہے:

- جہاں تک واقعات کی حقیقت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ معلوم ہی ہے کہ ترکی میں ناکام بغاوت کی کوشش برطانوی  ایجنٹوں  کے ذریعے کی گئی تھی۔ اردوان نے اس کے باعث برطانیہ کے ایجنٹوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے تھے، خاص طور سے  فوج میں جیسا کہ سوال میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ اس سے برطانیہ میں اردوان کے خلاف سخت  غصے کی کیفیت پیدا ہوئی۔

 

- جہاں تک اس دورے کو انتخابات سے پہلے کرنے اور ان کے آپس کے تعلق کا معاملہ ہے ، تو ہم جانتے ہیں کہ برطانیہ  نے ترکی کی حزب اختلاف میں موجود برطانیہ سے وفادار جماعتوں کے درمیان ایک غیر معمول اشتراک پیدا کروایا تاکہ ترک پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی جائے،جس میں Republican  People’s Party کا اہم کردار تھا، اور اس معاملے میں اس نے معمول کے مطابق چالیں چلیں یعنی کہ انتخابی اتحاد کی صورت میں پارلیمانی انتخابات کی دوڑ میں داخل ہونا جس کے ذریعے صدارتی انتخاب کم سے کم دوسرے راونڈ تک منتقل ہو جائے جس سے یہ ظاہر ہو جائے کہ اردوان  اکثریت پر مبنی رائے عامہ سے شکست کھا گیا ہے اور اگر وہ انتخابات میں کامیا ب بھی ہو تب بھی اس کی شبیہ کو کسی حد تک مسخ کیا جا سکے۔  اردوان کو اصل میں  اسی کا خوف ہے۔

 

اس طرح سے، یہ دورہ 24 جون کے ترک انتخابات سے پہلےبرطانیہ کی خوشنودی حاصل کرنےکے لیے کیا گیا لگتا ہے۔اسی لیے  کچھ رعایات کے تبادلے کے عوض میں اردوان نے برطانیہ کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے  جیسے  برطانوی ایجنٹوں کو جیل سے رہا کرنا، ایک اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر اس کی تعریف، اور برطانوی ایجنٹوں کے خلاف وسیع تر "صفائی" کی مہم کو روک دینا جس سے کہ انتخابی تحریک میں برطانوی ایجنٹوں سے ٹکراؤ  اور مقابلے کی شدت کو ہلکا کیا جا سکے۔ اردوان کے برطانوی دورے کی ممکنہ طور پر اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے۔

 

4۔کیا اس کو اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی؟ ایسا لگتا ہے وہ اس میں  ناکام رہا، اور اس کے اشارے ہمیں  درج ذیل باتوں سے ملتے ہیں:

"جن لوگوں نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے ان پر مقدمہ چلانا درست ہے۔" یہ بات مے نے اردوان کے ساتھ کھڑے ہو کر  اپنے ڈاؤن اسٹریٹ دفتر  سے کہی تھی"۔ اس نے مزید کہا "لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہےجمہوریت کی حفاظت کرتے ہوئے ترکی  ان اقدار کو نظر انداز نہ کر دے جن کے دفاع کی ذمہ داری اس نے لی ہے" (16/05/2018 www.alarab.co.uk)۔ اس طرح سے،مے نے نامہ نگاروں کے سامنے ہی اپنے مہمان پر تنقید کر دی!!

 

- آزادی اظہار رائے والے گروپ اردوان کے خلاف کھڑے نظر آرہے تھے:" ڈاونگ اسٹریٹ میں سرکاری ہیڈکوارٹر کے سامنے کئی آزادی رائے والے گروپوں نے مظاہرے کئے جن میں ”Pen” , “Index to Censorship“ اور "Reporters without Borders" اور کرد  نواز ایکٹیوسٹ اپنے احتجاج کو بینرز کے ذریعے ظاہر کر رہے تھے جس پر اردوان کی تصویر   لفظ " دہشت گرد" کے ساتھ بنی تھی ۔(Al Ain Al Akbariyah, 15/05/2018)

 

سوم:

  سوال:

ملائیشیا میں 9 مئی 2018 کو انتخابات ہوئے۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم نجیب معزول ہوا اور مہاتیربن محمد وزیر اعظم کے عہدے پر واپس لوٹا، اس کے باوجود بھی کہ اسکی عمر 90 سال سے زائد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات کے پیچھے  کچھ  مخصوص منصوبہ بندی  کارفرما ہے۔کیا اس کے پیچھے کچھ بیرونی محرکات ہیں یا یہ محض مقامی جمہوری کھیل ہے؟

 

جواب: 

1۔ ملائیشیا ، ملائے جزیرہ نما کے جنوبی اور بورنیو جزیرے کے  شمالی  حصّے پر مبنی ہے۔ان دونوں کو جنوبی چین کا بحر علیحدہ کرتا ہے۔اس علاقے میں تیرہویں صدی عیسوی میں مسلم تاجروں کے ذریعے اسلام  پھیلنا شروع ہوا جہاں عوام الناس  کی  بہ نسبت پہلے  اشرافیہ اور حکمرانوں نے اسلام  قبول کرنا شروع کیا۔ ملاکا سلطنت جس کا تسلط ملائے جزیرہ نما میں قائم تھا،اس نے بحری تجارت کے  فروغ کے باعث عروج حاصل کر لیا کیونکہ برّی  تجارت  منگول حملوں کی وجہ سے منقطع ہو گئی تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی میں اس سلطنت نے چینی تسلط سے آزادی حاصل کی اور اس کے بعد جلدی ہی اس سلطنت نے اسلام قبول کر لیا اور  پھر اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اسلام اس خطّے میں تیزی سے پھیلتا گیا۔بہرحال، اس علاقے پر  1511 میں خود سلطنت کے ذریعے سے ہی  پرتگالیوں نے قبضہ کر لیا، جب  پرتگالیوں نے دار الحکومت کے اندر ایک شخص کو رشوت دے کر اس کے دروازے اندر سے کھلوا لیے۔

 

پھر 1641 میں ولندیزی (ڈچ) آئے اور 1786 میں برطانیہ تجارت اور پورٹ چارٹرنگ (port chartering) اور برطانوی حکمت عملی کے ذریعے آبادی کی مختلف اقوام کا استحصال کرکے  خود وہاں کا  اصل حکمران بن گیا اور باقی کے مقامی  سلاطین کو صرف نام نہاد حکمران ہی تسلیم کیا اور اس جزیرہ نما پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ جزیرہ نما کی ملائے یونین نے سرکاری طور پر 1957 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ملائے فیڈریشن کے بورنیو جزیرہ اور سنگاپور سے الحاق کے بعد،1963 میں ملیشیا کی ریاست وجود میں آئی۔ (اس کے باوجود کہ سنگاپور نے 1965 میں  ملیشین پارلیمینٹ میں ووٹ دے کرعلیحدگی اختیار کر لی تھی)۔

 

2) مگر یہ واضح رہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ملائیشیا پر برطانیہ کا سیاسی اثر اور تسلط قائم  ہے۔ مثلاً:

 

ا۔ ملائیشیا برطانوی کامن ویلتھ اور غیروابستہ تحریک (Non Aligned Movement) کا ایک رکن رہا ہے۔ وہ  Association of South East Asian Nations اور Organisation of the Islamic Conference کا بھی بانی رکن رہا ہے، اور وزیر اعظم  ٹونکو عبدالرحمٰن اس کے پہلے سیکریٹری جنرل رہے ہیں۔

 

ب) 1971 میں برطانوی مشرقی سوئز  کی علیحدگی  کے بعد، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور سنگاپور کے مابین پانچ طاقتی  دفاعی  انتظامات پر دستخط ہوئے تھے۔ یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ 1971 میں آسٹریلیا پر لبرل پارٹی کی حکمرانی تھی جو کہ بیسویں صدی میں برطانیہ کی وفادار   رہی۔

 

ج) وزیر اعظم  مہاتیر محمد نے امریکی حمائتی تنظیم ”APEC“  کی مخالفت کی جس کی شروعات  1989 میں امریکی حمائتی  لیبر  پارٹی کے چیئرمین باب ہاک کی قیادت میں آسٹریلیا نے کی تھی۔  ہاک کے جانشین لیبر پارٹی کے لیڈر ہیں اور وزیر اعظم  پال کیٹنگ نے 1993 میں  سیاٹیل امریکہ میں APEC کی میٹنگ میں شرکت نہ کرنے کے سبب مہاتیر کو باغی  کے لفظ سے موسوم کیا تھا۔

 

د)APEC کے متبادل کے طور پر  مہاتیر محمد نے ،امریکہ اور آسٹریلیا کو خارج کرتے ہوئے 1997 میں East Asian Economic Community کی تشکیل کی تجویز رکھی  لیکن اس کو کامیابی نہ ملی اور بعد میں یہ East Asia Summit کی میٹنگ میں ہی تبدیل ہو گئی جس میں  آسٹریلیا بھی شامل تھا لیکن اس کی چیئرمین شپ برطانیہ کے وفادار  لبرل وزیر اعظم جان ہاورڈ  نے کی تھی ، بہر حال امریکہ اس سے خارج  رہا۔ (امریکہ اور روس  اس گروپ میں  2011 تک شامل نہیں ہو پائے)۔

 

3) برطانیہ کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ امریکہ سابق وزیر اعظم  نجیب رزّاق سے تعلق بنانے کی کوشش کررہا ہے اور اس لیے اس کو یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ امریکہ کی طرف مائل نہ ہو جائے، حالانکہ وہ برطانیہ کی حمائتی  ملائیشیائی حکومتوں میں وزیر  کے عہدے پر کام کر چکا ہے اور Malaysian National Movement کا ہی  ایک رکن رہا ہے جس نے آزادی کے وقت سے ملائیشیا پر حکومت کی ہے۔

 

ا۔ باراک اوباما نے اپریل 2014 میں ملائیشیا کا دورہ کیا تھا اور وہ پہلا امریکی صدر تھا جس نے تقریباً 50 سالوں بعد  ملائیشیا کا دورہ کیا تھا، جہاں اس نے  "ملائیشیا –امریکہ کے  رشتوں کو مجموعی شراکت تک بڑھانے " کا فیصلہ کیا جو کہ اوباما  کی  ایشیا ایکسس پالیسی  کا حصّہ تھا۔

 

ب۔ نجیب اور اوباما  دونوں میں اس قدر دوستانہ رویہ تھا کہ دسمبر 2014 میں دونوں نے ہوائی میں ساتھ گولف کھیلی۔اوباما نے دوبارہ 2015 میں ملائیشیا کا  دورہ کیا۔

 

ج۔ نجیب Trans Pacific Partnership ،جو کہ ایک امریکی منصوبہ ہے، کی پر زور تائید کرتا ہے اور امریکی  شراکت کا خواہاں رہا ہے، اور ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی اس سے علیحدگی کے بعد پھر جاپان کے ساتھ مل کر Trade Point Program کو تسلسل دیتا نظر آتا ہے۔ (Trans Pacific Partnership Trade Agreement میں موجود گیارہ ممالک کو بچانے میں  ویتنام اور ملائیشیا کا ایک اہم رول رہا ہے جو کہ امریکہ کے اس سمجھوتے سے نکلنے کے بعد  ختم ہونے کے قریب آگیاتھا) (https://asia.nikkei.com/Economy/Vietnam)

 

4) اب جیسے ہی 2018 کے انتخابات نزدیک آئے، ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ نے پھر اپنے پرانے  وفادار غلام مہاتیرمحمد کی طرف رجوع کیا ہے ، جس نے حزب اختلاف کو استعمال کرکے حکمرانی پر واپس آنے کی کوشش کی ، اور ایسا ہی ہوا۔ اب  یہ امید کی جا رہی ہے کہ ملائیشیا امریکی اثر سے نکل جائے گا اور برطانوی  پالیسی کے مطابق اس کے علاقے میں اس کے تسلط کو کم کرنے کی کوشش کرے گا۔

 

چہارم: 

سوال:

8 مئی 2018 کو آرمینیا کی پارلیمنٹ نے حزب اختلاف کے رہنما نکول پچینین (Nicole Pachinyan) کو وزیر اعظم کے طور پر منتخب ہونے کی توثیق کر دی ہے جس سے آرمینیا میں روسی حمائتی حکومت کے خلاف تین ہفتے سے جاری   احتجاج کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ آرمینیا میں آنے والی یہ سیاسی تبدیلی کتنی قوی اور بڑی ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آرمینیا میں روس کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا؟ کیا مغرب "یورپ اور امریکہ" کا اس میں کوئی کردار  ہے؟

 

جواب:

اس کو واضح کرنے کے لیے ہم درج ذیل نکات پر نظر ڈالیں گے:

1) آرمینیا 40 لاکھ کی آبادی والا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔1991 میں روس کے انتشار کی لہر میں ہی اس کو آزادی حاصل ہوئی تھی۔ آرمینیا میں  رپبلکن پارٹی  -جس کے لیڈر کو احتجاج کے  ذریعے معزول کر دیا گیا- کی حکومت1999 سے  چلی آرہی تھی، اور اس کے لیڈر Serzh Sargsyan نے 2008 سے دو حکومتی مدتیں مکمل کر لی ہیں۔ اس کی حکومت کو  زیادہ تر  آمرانہ اور روسی حمائتی قرار دیا جا رہا ہے باوجود اس کے کہ پارلیمنٹ میں  حزب اختلاف  کی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔اور کیونکہ ملک کا  آئین  صدارت کے لیے  دو مدّتوں (terms) سے زائدکی اجازت نہیں دیتا اور اس وجہ سے حکومت باقی رکھنے کی خاطر اس نے کچھ آئینی ترمیمات کیں ہیں جس میں صدارت کے عہدے کو صرف اعزازی (honorary) قرار دے کر اصل اختیارات  وزیر اعظم کے عہدے میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔ جیسے ہی اس کی دوسری حکومتی مدت ختم ہوتی ہے وہ وزیر اعظم  کے عہدے پر خود کو فائز کر لیتا ہے۔ (آرمینیا کی پارلیمینٹ نے سابقہ  آرمینیائ صدر Serzh Sargsyan کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا ہے جس سے کہ  حکمرانی پر اس کا تسلط قائم رہ سکے باوجود اس کے کہ ہزاروں مظاہرین Yerevan میں اس کے حکومت میں باقی  رہنے پر احتجاج  کرتے نظر آ رہے ہیں۔

 

پارلیمینٹ نے 63 سالہ Sargsyan کی  تقرّری  کی توثیق کر دی ہے۔ اپنے دوسرے اور آخری صدارتی مدت کے پچھلے ہفتے کے خاتمے کے بعد ، اس کا انتخاب 17 ووٹوں کےمقابلے میں 77 ووٹوں سے ہوا۔۔۔Al Nahar, April 17, 2018)۔ اس کی اس تقرری کے بعد مقبول عام احتجاج و مظاہرے  شروع ہو گئے۔ اس کی پچھلی حکمرانی کی مدتوں میں آرمینیا کی عوام کو سخت معاشی بدحالی اور سہولیات کی کمی  کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی اہم وجہ حکومتی کرپشن تھی اور اس پر مزید یہ کہ ملک میں  قدرتی وسائل  جیسے تیل، گیس اور خام مال کا  بڑا فقدان ہے۔حزب اختلاف کی جماعت  "یلک" نے ان سارے معاملات پر  زور دیا اور آرمینیا میں احتجاجات کی چنگاری کو ہوا  دی، جس کی وجہ سے  جلد ہی ایک' مقبول ' قیادت ظہور پزیر ہوئی جس کی نمائندگی  حزب اختلاف کے رہنما Nicole Pachinyan  کے ہاتھوں میں تھی۔

 

2) آرمینیا کے احتجاج بنیادی طور پر صدر سارگسیان کے دور صدارت میں خراب ہوتے معاشی حالات کی وجہ سے ظاہر ہوئے۔ سوویت نظام کے زیر اثر دوسرے ممالک کی طرح  آرمینیا کی حکومت میں بھی  انتظامی اور  مالیاتی کرپشن سرائیت  کی ہوئی ہے۔ حکومت میں رشوت خوری  عام ہے اور عوام اس سے بے حال ہے۔تنگ ہوتی اپنی زندگیوں کی وجہ سے لوگ  حکومت سے ناخوش اور بے زار ہیں۔ انہیں سرگسیان  کی حکومت کی مدت  کے ختم ہونے کا انتظار تھا  مگر وہ تو وزیراعظم کی حیثیت سے  دوبارہ  واپس آ گیا ہے! اس لیے لوگوں نے اس کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اوریہ معاملہ اس کے استعفیٰ اور  پشنیان  کی وزیر اعظم کے  عہدے پر تقرّری  سے ختم ہوا۔اب جبکہ معاشی  معاملات بہت سنگین ہیں  اور اس کے ساتھ ہی  مقامی جہموری مسائل بھی درپیش ہیں، تو نئے وزیر اعظم  پشنیان نے اپنی حکومت کی تشکیل کے دوران  انتخابات کی اہمیت پرزور دیا ۔اور  اپنی حکومت  کی طرف سے "مختلف شعبوں میں وسیع تر  اصلاحات " کی اہمیت پر زور دیا۔اس سے پہلے پشنیان نے "آرمینیا کی جمہوریت  سازی" ، قانون کی  بالادستی  کو قوی کرنے، حکومتی امور  سے معاشی مفادات  کو علیحدہ کرنے اور سرمایہ کاری  کے ماحول  میں خاطر خواہ بہتری کا عہد کیا۔(آرمینیا 14/04/2018)

اس طرح سے واضح ہے کہ آرمینیا کی سیاسی تبدیلی زیادہ تر مقامی حالات سے متاثر ہے۔

 

3۔ردّعمل: ا۔  احتجاج کے دوران،  امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ آرمینیا کے حالات کا بغور  مشاہدہ کر رہا ہے اور وہ  تمام تر ممکنہ مواقع کو سامنے رکھ رہاہے جس سے وہاں وہ  اپنے اثر کو قائم کر سکے۔ پشنیان کے وزیر اعظم  کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد، (امریکی دفتر خارجہ کے  ترجمان Heather Nauert نے منگل کے دن  دئے گئے ایک بیان میں کہا: " امریکہ  Nikol Pashinyan کو آرمینیا  کا وزیر اعظم بننے پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہے" اور اس نے آگے کہا:"امریکہ نئی حکومت اور آرمینیا کی عوام  کے ساتھ مل کر کئی سارے مشترکہ دلچسپی کے امور  جیسے تجارت میں اضافہ، جہموریت اور قانون کی بالادستی کی تائید اور علاقائی اور بین الاقوامی  تحفظ کی دفع کو ساتھ میں انجام دینے کے بارے میں پر امید اور خواہش مند ہے ) (Armenian News website 9/5/2018 ).

 

ب ) یورپ کا ردِّعمل: یورپین یونین  کے بیرونی معاملات اور سیکیورٹی  پالیسی نمائندے Federica Mugherini نے آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشنیان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔یورپی یونین کی جاری کی گئی ایک پریس رلیز میں  Mugherini نے جلد ازجلد پشنیان کوبرسلز (یورپی یونین ہیڈکواٹر) آنے کی دعوت دی۔ اس کا بیان  اس طرح سے تھا: یورپی کمیشن کے نائب صدر  Federica Mugherini نے کل شام نکول  پشنیان کو وزیر اعظم کے عہدے پر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی "۔ انہوں نے  یورپی یونین اور آرمینیا کے مابین اشتراک کی اہمیت پر رضامندی ظاہر کی  اور  بذات خود ان سے ملاقات کرنے کی امید کااظہار کیا"۔  ای یو کی بیرونی  پالیسی کے سربراہ Federica Mogherini نے جلد ازجلد پشنیان کو برسلز آنے کی دعوت دی۔(Armenpress 9/05/18)

 

ج) روس کا  ردّعمل: روسی صدر ولادمر پوٹن نے  پشنیان کو مبارک باد کا ایک کیبل بھیجا جس میں اس نے یہ امید ظاہرکی کہ نئے وزیر اعظم کے آنے سے Commonwealth of Independent States ، Eurasian Economic Community اور Collective Security  Treaty Organisation کے وسیع فریم ورک کے اندر روس اور آرمینیا کے مابین رشتوں اور دونوں ممالک کے بیچ دو طرفہ امداد میں استحکام آئے گا۔ پشنیان نے اس سے پہلے یہ یقین دلایا تھا کہ روس اور آرمینیا کے مابین اسٹریٹجک شراکت اور فوجی امداد  آرمینیا کے تحفظ کی بنیادیں ہیں۔پشنیان نے پارلیمینٹ کے ایک خصوصی اجلاس میں کہا کہ روس سے اسٹریٹجک شراکت آرمینیا کے لیے ایک ترجیحی معاملہ رہے گا۔ اس نے کہا کہ اس کا ملک نہ تو Collective Security Treaty Organisation اور نہ ہی Eurasian Economic Union سے نکلے گا جس میں روس، قازقستان، بیلاروس، آرمینیا اور کرغستان شامل ہیں۔(Russia Today 8/5/2018)

آرمینیا میں روس کے ڈر کو کم کرنے کے لیے، پشنیان نے کہا:"آرمینیا میں جو سیاسی عمل ظہور پزیر ہوا ہے اس کا  بنیادی طور پر کوئی جغرافیائی سیاسی سیاق و سباق نہیں ہے۔"اس نے کہا:"ہماری تحریک امریکہ یا یورپی یونین کے مفادات سے رہنمائی حاصل نہیں کرتی  بلکہ اس  کا محور ومرکز آرمینیا اور اس کی عوام ہے۔ اس نے مزید کہا کہ:"ہمارا احتجاج روس کے خلاف نہیں ہے نہ ہی اس میں یوکرین  کے مسئلے کے کوئی عناصر  موجود ہیں۔"( DARAJ site 01/05/2018)

 

4) اس طرح سے ظاہر ہے کہ روس کے پاس  آرمینیا میں اپنے اثرات کو قائم رکھنے کے مواقع ابھی بھی موجود ہیں اس لیے روسی صدر پوٹن نے پشنیان کو روس کےعلاقے سوچی میں ملاقات کے لیے مدعو کیا۔ اور ان کے درمیان ہوئی  پہلی ملاقات میں: وزیر اعظم نکول پشنیان نے روسی صدر پوٹن کو پیر کو بتایا  کہ وہ روس سے جنگی معاملات میں اور گہرے رشتے قائم کرنے کو ترجیح دے گا، اور دونوں ممالک  کے مابین اسٹریٹجک رشتوں کی اہمیت پر کوئی بھی سوال کھڑا نہیں کرسکتا۔(ریوٹرس  14/5/2018)

 

"میں یہ سمجھتا ہوں کہ آرمینیا میں  کسی نے آرمینیا اور روس کے مابین اسٹریٹجک رشتوں کی اہمیت  پر کبھی نہ کوئی سوال کھڑا کیا ہے  اور نہ کرے گا۔۔۔ہم سیاسی، معاشی اور تجارتی طور پر ان رشتوں کو اور تقویت پہنچانا چاہتے ہیں"، پشنیان نے کہا۔ آرمینیا کے قائد نے اس بات کو بھی درج کرایا کہ کس طرح اس کے ملک کے لوگوں نے آرمینیا میں رونماہونے والے  حالیہ سیاسی بحران  کے متعلق روس کے متوازن موقف کی تعریف کی تھی۔ (Russia Today 14/05/ 2018) 

 

آرمینیا میں روسی اثر کو قائم رکھنے کے مواقع کو جس چیز سے تقویت ملتی ہے اس کو ہم  " آرمینین مشکل" کہہ سکتے ہیں جو آرمینیا کے حزب اختلاف  کے گروہوں کو روس سے  منحرف  نہیں ہونے دے رہا؛ آرمینیا مسلم  پڑوس میں  واقع ہے، اس لیے اس کو  ہر وقت اسلامی گرد و پیش سے خطرات کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کی سرحدیں  آذربائیجان  سے لگی ہوئی ہیں جہاں نگورنو  کاراباخ  میں تصادم  ہو رہا ہے اور ایک طرف ترکی ہے  جس  پر آرمینیا   بیسویں صدی  کے ابتداء  میں قتل عام کرنے کا الزام عائد کرتا ہے، اور اس کے علاوہ  ایران سے بھی وہ  قریب ہی  واقع ہے۔حالانکہ، آرمینیا  روس سے جغرافیائی طور سے متصل نہیں ہے ،جارجیا  اس کو جنوبی روس سے علیحدہ کرتا ہے جہاں پر چیچنیا کی طرح اسلامی  علیحدگی تحریکیں چل رہیں ہیں۔لیکن سب سے قریب بین الاقوامی  طاقت  ہونے کے ناطے روس آرمینیا کو اسلامی گرد و پیش سے  تحفظ کا احساس  دیتا ہے۔                                                                                         

جب سے آرمینیا آزاد ہوا ہے، تب سے روس اس کو خاص طور سے نگورنو کاراباخ مسئلے پر آذربائیجان کے خلاف جنگی امداد دیتا آر ہا ہے۔ وہ اس کو توانائی اور رسد کے لیے قرض اور گرانٹ دیتا رہا ہے۔آرمینیا کی معیشت کمزور ہے اور وہ  باہر رہنے والے آرمینیوں کی امداد اور ترسیل کی رقم پر انحصار کرتا ہے۔آرمینیا کا روس پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ اس کو اسلامی خطرات سے تحفظ دے گا اور اسی لیے یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ آرمینیا میں روسی جنگی اڈہ اور اسٹریٹجک شراکت اس کی بیرونی  پالیسی  کے اہم اجزاء ہیں۔یہاں تک کہ  آرمینیا میں  روسی جنگی اڈہ کی مراجعت کے بارے میں احتجاج کے  دوران آئے مظاہرین کے کچھ بیانات جو رشیا  ٹوڈے میں 26/04/2018 کو شائع ہوئے تھے، ان کا مقصد صرف   کچھ غیر محتاط مظاہرین  کےحزب اختلاف کے رہنما  پشنیان  کی اصلیت  کے بارے میں  ان کے جذبات کے زور کو ختم کرنا تھا جس کا ثبوت روسی  جنگی  اثر  کی بقاء کی تائید میں اس کے  دوستانہ عملی بیانات سے  ظاہر ہوا  تھا۔

 

5) نتیجتاً، احتجاج  کی نوعیت  مقامی تھی جس سے کہ مخالفین حکومت پر قابض ہو سکیں اور حالانکہ سابقہ حکومت روس کی وفادار تھی کیونکہ سرگسیان روس کی "گردن کی ہڈی" بنا ہوا تھا ، پشنیان حزب اختلاف کے گروہ میں تھا اور سرگسیان روس سے قریب تر تھا، لیکن احتجاج  کی شدت نے دور  والے شخص کو پاس والے سے بھی زیادہ قریب کر دیا!! روس  مخالفین کی لہر کے ساتھ چلا اوراس نے ان کو تسلیم  کیا تاکہ اس کو اس بات کا  اطمینان ہو جائے  کہ روسی آرمینیائی اثر  کو  توڑنا مغرب کے لیے دشوار ہے  اور اس کی وجوہات ہم نے اوپر بیان کیں ہیں۔حالانکہ ، یہ غیر متوقع ہے کہ مغرب خاص طور سے امریکہ آرمینیا کے علاقے کو خالصتاً روس کے لیے کھلا چھوڑ  دے گا جیسا کہ بین الاقوامی استعماری تنازعات  کی روایت ہے کہ اس میں سخت بد اندیش اور خبیث ہتھکنڈے  اپنائے جاتے ہیں۔

 

10 رمضان 1439 بعد ہجری (26/05/2018)   

Last modified onجمعہ, 29 جون 2018 03:44

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.