الجمعة، 18 رمضان 1445| 2024/03/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب: شرعی علت

ایاد دانا کی جانب سے

 

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

  ہمارے معززشیخ کیا آپ درج ذیل سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ سوال شرعی علت  سے متعلق ہے،کہ اس کا اندراج  بندوں کے افعال سے متعلق شارع کے خطاب کے ضمن میں کہا ں ہوتا ہے؟ کیا اس کا اندراج  اقتضاء (پیروی) کے خطاب کے تحت ہو تا ہے یا پھر وضع (صورتحال)  یا پھر اختیار کے تحت ہوتا ہے؟  اور یہ کہ علت اور سبب میں کیا فرق ہے؟

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

حکم شرعی کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ یہ بندوں کے افعال کے متعلق شارع کا خطاب، اقتضاء یا اختیار یا وضع کے ساتھ ہے۔۔۔اقتضاء طلب ہے، اس میں فعل کو کرنے یا اسے ترک کرنے کا حکم ہوسکتا ہے،  اس میں طلب جازم (لازم)بھی شامل ہے اور غیر جازم (لازم نہ ہونا) بھی شامل ہے،اگر فعل کا طلب جازم ہو تو یہ فرض ہے  اور اگر فعل کا طلب غیر جازم ہو تو یہ مندوب ہے، فعل کو ترک کرنے کی طلب اگر جازم ہو تو حرام ہے اور فعل کو ترک کرنے کی طلب غیر جازم ہو تو یہ مکروہ ہے،  یہ چار احکام ہیں اور پانچواں تخییر(اختیار) ہے  جو کہ اباحت ہے۔ یہ پانچ احکام  ہی تکلیف کے احکام ہیں۔۔۔اس کے مقابلے میں  وضع کے احکام بھی پانچ ہیں: سبب، شرط،مانع، رخصت و عزیمت اور صحت بطلان و فساد۔

 

جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ علت حکم شرعی کی تعریف  کے ماتحت نہیں  نہ ہی تکلیف اور نہ ہی وضع کے حکم کے ماتحت ہے۔۔۔کیونکہ علت  حکم شرعی کی دلیل کی طرح ہے،  یہ ترتیب کے لحاظ سے حکم شرعی سے پہلے آتا ہے اور حکم شرعی اس پر مبنی ہو تا ہے، یعنی یہ کوئی فروعی حکم نہیں بلکہ دلیل ہے۔۔۔یوں علت حکم کا باعث ہے۔ رہی بات سبب کی تو یہ علامت  اور حکم کے وجود  کو متعارف کرنے والا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ حکم کو جو چیز واجب کرتی ہے وہ دلیل ہے  جو  امر جازم میں  آیا ہے،  جبکہ سبب کی دلیل وہ نشانی ہے جو حکم کے ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

 

مزید وضاحت کے لیے ہم کہیں گے:

 

علت  حکم کے لیے امر باعث ہے، علت حکم کا ثبوت ہے اور اس کا اشارہ  اور اس کی وضاحت کرنے والا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ   حکم کے لیے امر باعث ہے۔ پس یہی وہ امر ہے جس کی وجہ سے  حکم  بنا یا گیا ہے، اسی وجہ سے یہ  نص کا معقول ہے۔ اگر  نص  علت پر مشتمل نہ ہو  تو  اس نص کا منطوق (جملہ) ہو گا  اور مفہوم (مطلب) ہو گا لیکن اس کا   معقول نہیں ہوگا  اس لیے اس کے علاوہ  کسی اور صورتحال کو  بالکل اس حکم سے جوڑا نہیں جائے گا۔ لیکن اگر نص میں علت شامل ہو اور جو حکم سے جڑتا ہو اور واضح ہوتو اس کا منطوق،مفہوم  اور معقول ہوگا، اسی طرح  اس سے ملتے جلتے دوسرے حالات کو اس سے جوڑا جاسکے گا۔  یوں نص میں علت ہونے کی وجہ سےیہ نص مختلف حالات پر بھی لاگو ہوسکتی ہے اور ایسا اس کے منطوق اور مفہوم کی وجہ سے نہیں  بلکہ  علت میں مشترک ہونے کی وجہ سے ہوگا۔ علت  کسی حکم کی دلیل بھی ہوتی ہے، اس لیے  خطاب حکم پر دلالت کر تا ہے  اور وہ علت  اس پر دلالت کرتی ہے  جو خطاب  میں ہو جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ

" بستی والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے، وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تا کہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے "(الحشر:07)۔

 

پھر فرمایا :

 

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ...

" مہاجر فقراء کے لیے۔۔۔"(الحشر:08)

 

آیت ایک حکم پر دلالت کرتی ہے وہ یہ کہ  مال فئی کو مہاجر فقراء کو دینا چاہیے،  اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس فئی کو، جس کے بارے میں آیت نازل ہوئی تھی جو کہ بنو نضیر سے ملنے والا فئی تھا، صرف مہاجرین   اور انصار کے دو غریب افراد کے علاوہ کسی انصاری کو نہیں دیا۔

 

اسی طرح اللہ تعالی کے اس فرمان کہ :

 

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ

"تا کہ یہ صرف مالداروں میں ہی گھومتا نہ رہے"(الحشر:07)،

 

میں موجود علت،  یعنی یہ کہ دولت صرف مالداروں کے درمیان گردش کرتی نہ رہے بلکہ دوسروں کے پاس بھی پہنچے ،نے حکم پر دلالت کی اور یہ اس حکم کے وجود میں آنے کا باعث بھی ہے۔

جہاں تک سبب کا تعلق ہے :تو یہ  ہر وہ ظاہری اور منظم وصف  ہے جس پر سمعی دلیل  دلالت کرے کہ یہ حکم کے موجودہونے کی نشانی ہے نہ کہ  حکم کے وجود میں آنے کی علت ، اس کی مثال  اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے  کہ :

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ

 

"سورج کے زوال کے بعد نماز قائم کرو"(الاسراء:78)

رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا :

 

إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَلُّوا

"جب سورج زائل ہو جائے تو نماز پڑھو" اس کو البیھقی نے  روایت کیا ہے،

 

آیت اور حدیث  یہ بیان کرتی ہیں کہ  سورج کا زوال نماز کے حکم کے موجود ہونے کی نشانی ہے ،  اس کا معنی یہ ہے کہ جب یہ وقت ہو تو نماز کا وقت ہے،  یعنی اگر دوسری ساری شرائط مکمل ہیں تو اب اس کی ادائیگی جائز ہے،۔۔۔

 

سارے اسباب اسی طرح کے ہیں، مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ :

 

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

"تم میں سے جو چاند دیکھے تو روزہ رکھے"(البقرۃ:185)

 

اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان کہ :

 

صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ

"چاند دیکھ کر روزہ رکھو" اس کو بخاری نے روایت کیا ہے،

 

یہ اس بات کا بیان ہے کہ چاند کا نکل آنا  اور نظر آنا رمضان میں روزے کے حکم کے موجود ہونے  کی نشانی ہے ۔

 

یوں علت اور سبب کے درمیان فرق واضح ہو گیا کہ  سبب  حکم کے موجود ہونے کی پہچان ہے جیسے سورج کا زوال  نماز کے وجود کو پہچاننے کی نشانی ہے جبکہ علت  اس حکم کے وجود میں آنے کا باعث ہے،  یعنی وہ اس حکم  کے اجراء کا سبب ہے اس کی پہچان کا نہیں اس لیے یہ حکم کی دلائل میں سے ایک دلیل ہے اور نص کی طرح ہے،  جیسے  نماز سے غافل ہونا جو کہ اللہ کے اس فرمان سے مستنبط ہے کہ:

 

إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ

" جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہو جائے  تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور کاروبار ترک کردو"(الجمعہ"09)

 

یہاں جمعہ کی اذان کے بعد خریدو فروخت  کا حرام ہو نا  علت ہے سبب نہیں  کیونکہ اسی کے لیے حکم کا اجراء ہوا ہے بر خلاف سورج کے زوال کے  کیونکہ وہ  ظہر کی نماز کی علت نہیں  اس کی وجہ سے حکم کا اجراء نہیں ہوا بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ  ظہر کے فرض کی ادائیگی کا وقت ہے۔

 

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

13 رجب 1437 ہجری

بمطابق20 اپریل 2016

Last modified onہفتہ, 01 اکتوبر 2016 17:07

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک