الجمعة، 18 رمضان 1445| 2024/03/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال و جواب

نماز کے دوران خواتین کا پیروں کو چھپانا

منجانب: محمد   

سوال:  اسلام علیکم،

خاتون کا اپنے گھر میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنے پیروں کو بھی چھپائے کیونکہ نماز کی شرائط میں سے ایک شرط ستر  کو چھپانا ہے؟

 

جواب: وعلیکم سلام  ورحمۃ اللہ برکاتہ

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ:

پیر ستر کا حصہ ہیں لہٰذا خاتون انہیں لازمی چھپائیں  اور اس کی دلیل یہ ہے:

ا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خاتون کے  جسم کے  نچلے حصے کو کپڑے سے چھپانے کے حوالے سے فرمایا،

 

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ

"اے نبی ﷺ!  اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں  سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں  لٹکا لیا کریں(اپنے آپ کو مکمل طور پر چھپائیں  سوائے آنکھوں کے یا ایک آنکھ کے تا کہ وہ راستہ دیکھ سکیں)، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائیں نہ جائیں گی "  (الاحزاب:59)

 

یعنی کہ اپنے اوپر ایک کھلا کپڑا (جلباب) ڈال لیا کریں جو نیچھے کی جانب گرتا ہوا ہو، اور اس کھلے کپڑے کا مطلب  لفظ"لٹکا"(یعنی کھلا) سے ہے  کیونکہ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ کپڑا کم از کم پیروں تک پہنچے  اور انہیں چھپا لے۔ اگر پیروں میں موزے یا جوتے پہنے ہوئے ہیں تو کھلے کپڑے کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے جیسا کہ جلباب پیروں تک پہنچتا ہے۔ لیکن اگر پیروں میں  موزے یا جوتے نہیں پہنے ہوئے تو پھر لازم ہے کہ جلباب زمین تک پہنچے اور پیروں کو چھپا لے اور اس کا مطلب ہے کہ پیر ستر کا حصہ ہے۔

 

ب۔ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَكَيْفَ يَصْنَعْنَ النِّسَاءُ بِذُيُولِهِنَّ قَالَ يُرْخِينَ شِبْرًا فَقَالَتْ إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ قَالَ فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لاَ يَزِدْنَ عَلَيْهِ

"جو کوئی تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا زمین پر لٹکا کر چلتا ہے اسے اللہ کبھی نہ دیکھیں گے۔ ام سلمہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ خواتین اپنے لٹکے ہوئے کپڑوں کے آخری حصے کے ساتھ کیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ہاتھ کی لمبائی کے مطابق لٹکا لو۔ انہوں نے کہا: اگر اب بھی ان کے پیر نہ چھپ سکیں؟ رسول اللہ ﷺ نے کہا: بازو کی لمبائی کے مطابق  لٹکا لو مگر اس سے زیادہ نہیں" الترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

یہ حدیث بالکل واضح ہے کہ خاتون کے لیے  پیروں کو چھپانا فرض ہے اور ام سلمہ رضی اللہ عنھما اس  بات سے مکمل مطمئن نہیں  تھیں کہ خواتین صرف ہاتھ کی لمبائی کے مطابق   کپڑا لٹکا لیا کریں کیونکہ چلنے کے دوران ان کے پیر عیاں ہوسکتے ہیں خصوصا ًاگر وہ بغیر جوتوں یا موزوں کے چل رہی ہوں جو کہ اس زمانے میں عام تھا۔  لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے    خواتین کے جلباب کو ایک بازو کی لمبائی کے مطابق بڑھانے کی اجازت دی اس سے زیادہ نہیں، اور اس کی وجہ اس حدیث میں واضح ہے،

 

إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ

" اگر اب بھی ان کے پیر نہ چھپ سکیں "۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ پیر ستر کا حصہ ہیں جس کو جسم کے کسی بھی دوسرے حصے کی طرح چھپایا جانا لازم ہے۔

آپ کی معلومات کے لیے ہم یہاں یہ بتانا  چاہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ؒکی رائے کے مطابق پیروں کو چھپانا لازمی نہیں ہے کیونکہ  انہوں نے اس آیت:

وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا "اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے"(النور:31) سے یہ مطلب اخذ کیا کہ جو چیز ظاہر ہے اس میں چہرے اور ہاتھ کے ساتھ پیر بھی شامل ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی کہ یہ رائے  قرآن کی آیت اور بخاری کی حدیث کے مقابلے میں کمزور ہے  ، باقی اللہ سب سے بہتر جانتے ہیں۔

 

عوامی زندگی کے مطلق ہماری نے یہ رائے  اختیار کی ہے کہ خاتون کے لیے اپنے پیروں کو چھپائے بغیر باہر جانے کی اجازت  نہیں ہے ، جیسا کہ  اوپر بیان کیا تھا:" یعنی کہ اپنے اوپر ایک کھلا کپڑا (جلباب) ڈال لیا کریں جو نیچھے کی جانب گرتا ہوا ہو، اور اس کھلے کپڑے کا مطلب  لفظ"لٹکا"(یعنی کھلا) سے ہے  کیونکہ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ کپڑا کم از کم پیروں تک پہنچے  اور انہیں چھپا لے۔ اگر پیروں میں موزے یا جوتے پہنے ہوئے ہیں تو کھلے کپڑے کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے جیسا کہ جلباب پیروں تک پہنچتا ہے۔ لیکن اگر پیروں میں  موزے یا جوتے نہیں پہنے ہوئے  تو پھر لازم ہے کہ جلباب زمین تک پہنچے اور پیروں کو چھپا لے اور اس کا مطلب ہے کہ پیر ستر کا حصہ ہے۔"

 

اب صرف ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ نماز کے دوران پیروں کو چھپانا ہے؛ جیسا کہ درست نماز کے ادائیگی کے شرائط میں سے ایک شرط ستر کو چھپانا ہے ۔ تو میری رائے یہ ہے کہ نماز کے دوران پیروں کو چھپایا جانا لازمی ہے۔ لیکن ابو حنیفہ پیر وں کو ستر کا حصہ نہیں سمجھتے۔ احمد بن علی ابو بکر الرازی الجصاص الحنفی (انتقال:370 ہجری)کی کتاب "شرح مختصر الطحاوی" میں یہ ہے کہ:

("مسئلہ: نماز میں خاتون کا ستر "

ابو جعفر نے کہا:"نماز میں خاتون اپنا پورا جسم چھپائیں سوائے چہرے، ہاتھ اور پیر کے۔۔۔"

ابو بکر نے کہا: ایسا اس لیے ہے کہ اس کا پورا جسم ستر ہے اور  غیر مرد کے لیے  یہ جائز نہیں کہ اس کی نگاہ ان تین حصوں کے علاوہ کسی اور حصے پر پڑے۔

یہ مطلب اللہ کی اس آیت سے لیا گیا ہے:  وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا "اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے"(النور:31)۔  یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسکارہ اور انگوٹھی ہے۔ لہٰذا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہاتھ اور چہرہ ستر کا حصہ نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار"اللہ کسی ایسی عورت کی نماز قبول نہیں کرتا جو ماہواری کی حالت میں سوائے کہ جس نے خمار(سر کو چھپانے والا کپڑا) لیا ہو "۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاتون کا سر اس کے ستر کا حصہ ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ نماز کے دوران اسے چھپائے۔ لیکن ہاتھ، چہرہ اور پیر ستر کا حصہ نہیں ہیں  اور اس لیے نماز کے دوران خاتون کے لیے انہیں چھپانا لازمی نہیں ہے) ختم شد۔

 

یہ رائے کمزور ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔۔۔ لیکن اس معاملے میں ہم کوئی رائے اختیار نہیں کرتے کیونکہ اس کا تعلق عبادت سے ہے۔ وہ خاتون جو حنفی رائے کے مطابق نماز پڑھتی ہیں اس کے لیے پیروں کو چھپانا لازمی نہیں۔۔۔۔ لیکن میں جب اس کا تقابلی جائزہ لیتا ہوں تو میری رائے کے مطابق نماز میں پیروں کو چھپانا لازمی ہے کیونکہ وہ ستر کا حصہ ہیں۔

خلاصہ:

 

1۔ میں تقابلی جائزہ لینے کے بعد یہ کہتا ہوں کہ پیر ستر کا حصہ ہیں اور عوامی زندگی میں ہم اس رائے کو اختیار کرتے ہیں۔  لہٰذا خاتون کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ گھر سے ایسا جلباب  پہن کر باہر جائے جس نے اس کے پیروں کو چھپایا نہ ہو، یا تو وہ اتنا لمبا ہو کہ اگر وہ ننگے پیر چل رہی ہیں تو بھی ان کے پیر نظر نہ آئیں یا اتنا لمبا ہو کہ ان کی ایڑی تک آتا ہو اور انہوں نے جوتے یا موزے پہن رکھے ہوں تا کہ "لٹکا ہوا" ،یعنی ایسا کھلا جلباب جو پیروں تک پہنچتا ہو، کا مقصد حاصل ہوجائے جیسا کہ ہم نے معاشرتی نظام میں بیان کیا ہے۔

 

2۔  جہاں تک نماز میں پیروں کو چھپانے کی بات ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیروں کو چھپانا لازم ہے لیکن ہم اس معاملے میں کوئی رائے اختیار نہیں کرتے کیونکہ اس کا تعلق عبادت ہے۔ جو خاتون ابو حنیفہ کی رائے پر چلتی ہیں ان کے لیے نماز میں پیروں کو چھپانا لازمی نہیں ہے۔

اس معاملے میں ہماری یہ رائے ہے باقی اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

27 جمادی الثانی 1438 ہجری

26 مارچ 2017 عیسوی 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک