الجمعة، 18 رمضان 1445| 2024/03/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب

دو حدیثوں "کیا خیر کے بعد شر ہو گا"

اور"پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" کو جمع کرنے سے متعلق

 

سائل: محمد شتات ابو صباح

 

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

اُمید ہے کہ میرا خط موصول ہوتے وقت آپ کامل صحت و عافیت کے ساتھ ہوں گے۔

میری خواہش ہے کہ آپ مندرجہ ذیل احادیث  کی تشریح کردیں،کیونکہ بظاہر ان احادیث میں ٹکراؤ نظر آتا ہے ،اور ان احادیث کا مطلب سمجھے بغیر ان  کو مختلف گروہ ایک دوسرے پر اعتراض کے لیے  استعمال کرتے ہیں۔

 

پہلے فریق کی حدیث:

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: كُنَّا قُعُوداً فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَكَانَ بَشِيرٌ رَجُلاً يَكُفُّ حَدِيثَهُ فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ فَقَالَ يَا بَشِيرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الْأُمَرَاءِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ فَجَلَسَ أَبُو ثَعْلَبَةَ فَقَالَ حُذَيْفَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً عَاضّاً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» ثُمَّ سَكَتَ...

’’نعمان  بن بشیر نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے ، بشیر ایک شخص تھا جو کم بولتا تھا، اس اثنا میں ابو ثعلبہ الخشنی آئے اور کہنے لگے : اے بشیر بن سعد ! کیا آپ کو حاکموں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد ہے؟ اس پرحذیفہؓ نےکہا: مجھے آپ ﷺ کا خطبہ یا د ہے، تو ابو ثعلبہ بیٹھ گئے ، پھر حذیفہؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے اندر عہدِنبوت رہےگا جب تک اللہ چاہےگا، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو ختم کرنا چاہے گاتو اسے ختم کردے گا۔اس کے بعد نبوت کے نقش قدم پر خلافت   قائم ہوگی، جو (اس وقت تک ) رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہےگا، پھر جب اللہ تعالیٰ اسےختم کرناچاہے گا تو اسےختم کردے گا۔ پھر ان لوگوں کا دورِحکومت ہو گا جو حکمرانی کو دانتوں سے پکڑے رکھیں گے ،جو (اس وقت تک) رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ  چاہے گا،پھر جب اللہ تعالیٰ اسےختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کردے گا۔ پھر جابرانہ دور ِحکومت ہوگا،جو(اس وقت تک) رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اس کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی، اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔‘‘ (مسند احمد)

    

دوسرے فریق کی حدیث                :

((عن حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ «كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ الْخَيْرِ وَأَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ وَعَرَفْتُ أَنَّ الْخَيْرَ لَنْ يَسْبِقَنِي قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ قَالَ يَا حُذَيْفَةُ تَعَلَّمْ كِتَابَ اللَّهِ وَاتَّبِعْ مَا فِيهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَعْدَ هَذَا الشَّرِّ خَيْرٌ قَالَ هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ وَجَمَاعَةٌ عَلَى أَقْذَاءٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْهُدْنَةُ عَلَى دَخَنٍ مَا هِيَ قَالَ لَا تَرْجِعُ قُلُوبُ أَقْوَامٍ عَلَى الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ قَالَ فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ عَلَيْهَا دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ النَّارِ وَأَنْتَ أَنْ تَمُوتَ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتَّبِعَ أَحَداً مِنْهُمْ))

حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا،"  لوگ رسول اللہ ﷺ سے بھلائی کی باتیں پوچھا کرتے تھے ،جبکہ میں  شر کے بارے میں سوال کرتاتھا کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔  چنانچہ میں نے عرض کی،یارسول اللہﷺ!کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ ارشادفرمایا :  اے حذیفہ !  قرآن سیکھو اور اس کی اتباع کرو۔ یہ بات آپ ﷺنے3 مرتبہ ارشاد فرمائی۔  میں نے پھرعرض کی:یارسول اللہ ﷺ !کیا اس شر کے بعدکوئی خیر ہو گا ؟ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا :دھندلی صلح ہو گی اور داغ دار آنکھوں والے لوگ ہوں گے‘‘۔  میں نے عرض کی:دھندلی صلح کیا چیز ہے ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے دل اس طرف نہیں لوٹیں گے جس پر وہ (پہلے) تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟آپ ﷺ نے   ارشاد فرمایا: اندھے،بہرے فتنے رُونما ہوں گے، اس میں مبتلالوگ دوزخ کے دروازوں پر کھڑے اس کی طرف دعوت دے رہے ہوں گے، اور اے حذیفہؓ ،تجھے اس حال میں موت آجائے کہ تم نے کسی درخت کی ٹہنی کواپنے دانتوں  کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھا ہو،یہ ان میں سے کسی کی پیروی کرنے سے بہتر ہے"۔

 

اب پہلا فریق اس کی تشریح اس طرح کرتا ہے، کہ ان شاء اللہ امت کے پاس خیر آکررہے گا، اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی، پھر وہ اللہ کی شریعت کے مطابق حکومت کرے گی ، یہ خیر ہی خیر ہے۔  جبکہ دوسرا فریق  حذیفہؓ کی حدیث کو لے کر اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امت کے اچھے دنوں کا زمانہ بیت چکا، موجودہ وقت فتنوں کا وقت ہے، جس کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں بتایا تھا،اور یہ کہ مسلمان کے لیے لوگوں سے دوری اختیار کرنا اور  اپنے دین کو  فتنوں سے بچانے کی خاطر لوگوں سے الگ تھلگ رہنا ضروری ہے۔ دونوں حدیثوں کے بارے میں وضاحت چاہتا ہوں ،میری طرف سے احترام واکرام قبول فرمائیں۔

 

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

پہلی حدیث کو امام احمد اور طیالسی نے روایت کیا ہے،اور دوسری حدیث جو سوال میں مذکور ہے ، اس کو بھی امام احمد نے روایت کیا ، تاہم امام بخاری نے یہ دوسری حدیث ان الفاظ سے روایت کی ہے،

((حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ يَقُولُ «كاَنَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ. قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ. قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا. فَقَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا. قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسلِمِینَ وَإِمَامَهُمْ. قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ))

ہم سے  ابو اِدریس خَولانی نے حدیث بیان کی ،  اُنہوں نے حذیفہؓ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا ،"لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کی باتیں پوچھا کرتے تھے ، جبکہ میں شر سے متعلق پوچھتا رہتا تھا ،اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی شر میں مبتلا نہ ہوجاؤں،پس میں نےعرض کی ،یارسول اللہ ﷺ ! ہم جاہلیت میں تھے اور برے حالات میں جی رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر (دینِ اسلام ) دیا، تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں، میں نے پوچھا:اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگا؟ فرمایا:ہاں! اس خیر میں دھندلاہٹ ہوگی، میں نے پوچھا: دھندلاہٹ کیسے ہوگی؟ فرمایا: کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو میری سنت(طریقے) کو چھوڑ کر دیگر طریقے اپنائیں گے، ان کے کچھ کام معروف ہوں گے کچھ منکر۔میں نے عرض کی:کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والےہوں گے،جو ان کی بات مانے گا ،اس کو اس میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ان کی صفات بتادیں۔ارشاد فرمایا: وہ ہم میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے، میں نے عرض کی:اگر یہ حالات مجھے پر آئے تو آپ ﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا۔ میں نے عرض کی : اگر مسلمانو ں کا امام نہ ہو یا ان کی جماعت موجود نہ ہو (تو کیا حکم ہے؟) فرمایا:ایسی صورتحال میں ، خواہ کسی درخت کی جڑوں کو دانتوں میں پکڑنا پڑے ، تمام فرقوں سے الگ تھلگ رہنا ،یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہیں موت آجائے"۔

 

محترم بھائی! ایسا لگتا ہے کہ  آپ سے ان احادیث کو سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے ، جس کی بنا پر آپ نے یہ خیال کیا کہ پہلی حدیث کے آخری الفاظ یعنی ((ثم تكونُ خلافةً على مِنهاجِ نُبُوَّةٍ)) "پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی"، دوسری حدیث کے آخری حصے کے ساتھ موافقت میں ہیں،یعنی آپ ﷺ کے اس  قول کے ساتھ: ((فتنۃ عمیاء صماء علیھا دعاۃ علی ابواب النار)) " اندھے، بہرے فتنے رُونما ہوں گے، اس میں مبتلالوگ  دوزخ کے دروازوں پر کھڑے اس کی طرف دعوت دے رہے ہوں گے " ۔ چنانچہ آپ نے  پوچھا کہ امت کی حالت کیسے ہوگی ؟ پہلی حدیث کی رُو سے نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی،جبکہ دوسری حدیث کے مطابق  اندھے، بہرے فتنے رُونما ہوں گے، اس میں مبتلالوگ  دوزخ کے دروازوں پر کھڑے اس کی طرف دعوت دے رہے ہوں گے ؟

 

میرے بھائی ایسی بات نہیں، پہلی حدیث کا آخری حصہ  دوسری حدیث کے آخری حصے کے ساتھ (زمانے کے اعتبار سے)ہم آہنگ نہیں کیونکہ حذیفہؓ  نے دوسری حدیث کے آخری حصے(یعنی جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے ہوں گے) کے بعد آنے والے دور کے متعلق نہیں پوچھا تھا، بلکہ وہ جس بات کے لیے فکر مند تھے وہ یہ تھی کہ جب ایسے حالات ان پر آجائیں تو وہ کیا کریں، کیونکہ  ان کے لیے مسلمانوں کی یہ حالت (جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والوں کا ہونا)نا قابل برداشت تھی، تو ان کے نزدیک یہ سوال اہم تھا کہ مذکورہ حالات کے دوران  ان کو کیا کرنا چاہیے؟انھوں نے یہ نہیں پوچھا کہ ان حالات کے بعد کیا ہوگا۔

 

دوسری حدیث میں جن حالات کا ذکر ہے تو یہ وہی حالات ہیں  جو پہلی حدیث میں  مذکور ہیں: یعنی 'جبری حکومت'، یعنی  خلافت کے انہدام کے بعد والی حالت ، جس کے بعد جبری حکومت کا دور آتا ہے ، یعنی جو لوگوں  کی خواہش کے برعکس ان پر زبردستی مسلط ہوگی ،اس سے مسلمان خوش نہیں ہوں گے،اور جس میں اسلام کی حکمرانی  نہیں ہوگی، یہ مسلمانوں کی غیر طبعی حالت ہوگی، اور یہ تب سے شروع ہوئی جب سے 1924 میں خلافت کو معطل کیا گیا، اوراب تک   بدستور جاری ہے، ان  حالات میں جہنم کےدروازوں پر داعی کھڑے ہونا واضح ہے،اور یہ وہی حالت ہے جو بخاری کی روایت میں ذکر ہے،( دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا...)  "جہنم کے دروازوں  کی طرف بلانے والےہوں گے،جو ان کی بات مانے گا ،اس کو اس میں پھینک دیں گے"۔

 

رہی یہ بات  کہ  یہ کیسے معلوم ہو گا کہ جو دور  پہلی حدیث میں  مذکور ہے: (یعنی جبری حکومت)  وہ بعینہ ٖ وہی دور ہے جو دوسری حدیث ( دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا...)"جہنم کے دروازوں  کی طرف بلانے والےہوں گے،جو ان کی بات مانے گا ،اس کو اس میں پھینک دیں گے"،میں مذکور ہے؟۔۔۔  تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلی حدیث میں مذکورجبرکے دور سےپچھلےدور پر غور کیا جائے اوراسی طرح دوسری حدیث میں اندھے بہر ے فتنے والے دور سے سابقہ دورپر غور  کیا جائے۔ پہلی حدیث میں جبری حکومت سے پہلے موروثی حکومت کے دورکا ذکر ہے، یعنی خلیفہ کے گھرانے میں چلتی آرہی خلافت ،جو 1300 سال تک  اموی ، عباسی اورعثمانی خلافت کی شکل میں قائم رہی، اس کے بارے میں ہم نے اپنی کتابوں میں  کہا ہے کہ  ان ادوار میں اسلام کے نفاذ میں کوتاہی کی گئی ،بالخصوص بیعت کے حوالے سے، کیونکہ بیعت میں یہ ہوتا تھا کہ سابقہ خلیفہ    کے خاندان میں سے ہی کسی ایک کو بیعت دے دی جاتی تھی، پھر مسلمانوں کو اس کی عادت پڑگئی ، تو بجائے یہ کہ عام مسلمانوں   کی رضامندی سے  کسی ایک کو بیعت دی جاتی،  بیعت خلیفہ کے خاندان میں محصور ہو کر رہ گئی، اس کا مطلب ہے کہ وہ دور  بھی خلافت کا ہی تھا، لیکن اس دوران خلیفہ نے خلافت کو گویا دانتوں سے پکڑے رکھا  تھا (یعنی خلافت سے چمٹے ہوئے تھے) تاکہ خلافت ان کے خاندان سے باہر نہ جائے۔ دوسری حدیث میں اسی مرحلے کا ذکر کیا گیا ہےجیسے کہ اس سے پہلے گزرا (هُدْنةٌ على دَخَنٍ)"اس میں دھندلی صلح ہوگی"، اور بخاری کی روایت کے مطابق(خير فيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر)"ایسا خیر ہوگا جس میں دھندلاہٹ ہو گی، اس کی دھندلاہٹ کیا ہوگی؟  فرمایا : ایسے لوگ ہوں گے جو میری رہنمائی سے ہٹ کر چلیں گے، ان کے کچھ کام معروف ہوں گے اور کچھ کام منکر"۔

 

اس مرحلے کے بعد   پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ ہمیں خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی ،جو اس جابرانہ دور حکومت کے بعد ہوگی۔  جہاں تک دوسری حدیث کی بات ہے تو حضرت حذیفہؓ نے اندھے بہرے فتنوں  اور ان کے دوران جہنم کی طرف بلانے والوں  کے ظہور کے  بعد  کی صورتحال  کے بارے میں نہیں  پوچھا،یعنی یہ نہیں پوچھا کہ اس شر کے بعد کیا ہوگا؟ بلکہ انہیں  اس قسم کی صورتحال دشوار محسوس ہوئی اور وہ یہ سوال کرنے لگے کہ اگر اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟

 

خلاصہ یہ کہ ان دونوں حدیثوں کو مندرجہ ذیل طریقے سے جمع کیا جاسکتا ہے:

1-   پہلی حدیث نے جابرانہ حکمرانی کا ذکر کیا ہے، اور اس کے منکرات کی تفصیل نہیں بتائی،ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ جابرانہ حکمرانی کے بعد  نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی۔

اور دوسری حدیث  کی یہ بات ہے کہ حذیفہؓ نے یہ نہ پوچھا کہ ان  اندھے بہرے فتنوں  کے بعد کیا ہوگا؟ یعنی یہ نہیں پوچھا کہ اس مرحلہ کے بعد کیا ہوگا، فتنوں کا یہ دور جابرانہ حکمرانی کا ہی دور ہے، جو پہلی حدیث میں آیا ہے۔ بلکہ ا نہوں نے بس اتنا پوچھا کہ اگر فتنوں کا وہ دور ہم پر آجائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

اسی طرح دونوں حدیثوں کے اختتامی ادوار میں  ایک ہی دور کی بات نہیں بلکہ مختلف ہیں: پہلی حدیث کا اختتام نبوت کے طرز پر خلافت  پر ہوتا ہے اور یہ جابرانہ دور حکومت کے بعد واقع ہوگا، جبکہ دوسری حدیث جہنم کے دروازوں پر موجود داعیوں کے ذکر پر رک گئی ہے، یعنی جابرانہ دور حکومت ۔ حذیفہؓ نے اس حدیث میں بعد والے دور کے بارے میں نہیں پوچھا۔

 

2-   باقی رہا ایک مسئلہ کہ دوسری حدیث کے آخر ی الفاظ کے بارے میں سوال  کا(وَأَنْتَ أَنْ تَمُوتَ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتَّبِعَ أَحَداً مِنْهُمْ)،"ا ور اے حذیفہؓ !تجھے اس حال میں موت آجائے کہ کسی درخت کی ٹہنی کواپنے دانتوں  کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھا ہو،یہ ان میں  سے کسی کی پیروی کرنے سے بہترہے"۔اور بخاری کی روایت میں ہے(قُلْتُ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ)،"میں نے عرض کی : اگرمیں اس دور کو پا لوں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا:مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ جڑے رہنا۔ میں نے کہا:اگر کوئی جماعت یا امام نہ پاؤں تو؟فرمایا: ایسی صورتحال میں ، خواہ کسی درخت کی جڑوں کو دانتوں میں پکڑنا پڑے ، تمام فرقوں سے الگ تھلگ رہنا ،یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھے موت آجائے"۔ تو یہ  ان لوگوں کے بارے میں ہے جو حق کی تحقیق کیے بغیر دعوت دیتے ہوں گے،  ایسے لوگ جہنم کی طرف ہی دعوت دیں گے، اس لیے یہ لازم ہے کہ ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کیا جائے، لیکن جب  حق کا پتہ چلے اور کچھ لوگوں کودعوتِ حق دیتے ہوئے دیکھے تو ان کے ساتھ ہی چلنا چاہیے ، اس صورت میں اپنے آپ کو الگ رکھنا جائز نہیں، بلکہ فقط جہنم کی طرف دعوت دینے والو ں سے دور رہنا ضروری ہے۔

 

مذکورہ طور  پر ان دونوں حدیثوں کو سمجھ کر ان کو جمع کرنا ممکن ہے، واللہُ اعلم واحکم!

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

14 رجب 1442ھ

بمطابق26 فروری 2021ء

Last modified onجمعرات, 29 اپریل 2021 22:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک