Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ    1 من محرم 1360هـ شمارہ نمبر: 02/16
عیسوی تاریخ     جمعرات, 22 ستمبر 2016 م

مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب، سیکولر غیراسلامی نظریہ حیات اور سیاست کا نتیجہ ہے 

 

ایک اہم تحقیقی سروے کے مطابق49 فیصد آسٹریلین، مسلمانوں پر  آسٹریلیا آمد  (امیگریشن) پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں۔  اس حمایت کی بنیادی وجہ "دہشتگردی کے خدشات"   اور یہ تصور ہے  کہ مسلمان "آسٹریلوی  اقدار" کا حصّہ اور  معاشرے میں مکمّل طور پر جذب  نہیں ہوسکتے۔اس تحقیقی سروے کی درستگی سے قطع نظر ، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پورے مغرب میں مسلم مخالف جذبات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

اس  حوالے سے  حزب التحریر آسٹریلیا  درج ذیل  نقاط پر زور دیتی  ہے:

 

1- اسلام مخالف جذبات کا زور پکڑنا پریشان کن   ہےلیکن بالکل بھی حیران کن نہیں۔ اسلام کے متعلق شبہات اور نفرت سے بھرپور چلائی جانے والی پندرہ سالہ مہم  کے متوقع نتائج یہی نکلنے تھے۔ ایک مہم جس کو اہم سیاستدانوں نے بھڑکایا  اور میڈیا میں موجودتمام  نمائندوں کی جانب سے  بڑی ذمّہ داری سے چلایا ۔   دہشت گردی کی آڑ میں اس مہم کے  ذریعے لوگوں کے اذہان میں یہ تاثر نقش کیا گیا   کہ اسلامی عقائد ہی تشدد کی اصل وجہ ہیں، لہٰذا اسلام کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔مسلسل پندرہ سال سے اسلام  کو سیاستدانوں نے صرف سیاسی مقاصد کے لئے  نشانہ بنایا اور میڈیا نے اسلام کی ایک خوفناک شکل پیش کی۔اس عرصے میں اسلام اور مسلمانوں کو  قومی سلامتی اور دہشت گردی اور اسی طرح قومی اقدار اور ان کے اندر جذب  ہونے کے انداز سے  دیکھا گیا۔ان تمام  اسباب سے ممکنہ طور پراور کیا نتیجہ توقع کر سکتے ہیں؟

 

2۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی  طاقتوں کی جانب سے  پچھلی ڈیڈھ دہائی میں دو مسلمان ممالک پر حملےکیے گئے اور انہیں تباہ و برباد کیا گیا۔عرب میں اٹھی مخلص تحریکوں کو مغربی طاقتوں نے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیاجس کا تباہ کن نتیجہ شام کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مسلم دنیا میں آمروں کو سہارا اور مدد فراہم کی گئی ،ابو غریب اور گوانتانامو بے جیسی  جیلوں میں ہر طرح کے انسانیت سوز  جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ان سب کے باوجود مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھاے گئے  اور  انہی کو اصل مسئلہ سمجھا جا رہا ہے۔ یقیناً ، وہی جن کا سب  کچھ لٹ گیا، جنہیں در بدر پناہ لینے پر مجبور کیا گیا ، انہیں ہی  آج مجرم ٹھہرایا جا  رہا ہے۔ یہی اس تعصب کے پیچھے کارفرماسوچ ہے ، جس کی تنگ نظر سیاست سےحوصلہ افزائی کی گئی۔

 

3-دائیں بازو کے سیاست دان جو اس پرمتعصب رویے کا چہرہ  بنے  ہوئے ہیں، اپنی تنقید کا رخ ان کی جانب کرنا ہمیں اپنے اصل ہدف سے ہٹا دے گا۔ اس کی اصل وجہ مرکزی دھارے کی سیاست ہے جس نے ایسا سیاسی اور معاشرتی ماحول پیدا کیا جس نےاسلام مخالف شبہات اور نفرت کو ابھارا۔ اس کا فائدہ  ان سیاست دانوں نے اٹھایا جنہیں بہت کم پزیرائی ملتی تھی۔جو پر تعصب راستہ پولینن    ہنسن جیسے افراد نے اپنایا اس کو ہموار کرنے والے جون ہوورڈ ، کیون رڈ ، جولیا گللارڈ، ٹونی ایبوٹ اور ملکوم ٹرنبل کی پالیسیاں اورمقاصد ہی ہیں۔ بعد الذکر       اول الذکر کا ہی سہارا لیتا ہے۔ اس کی زندہ مثال حال ہی میں اقوام متحدہ میں صدر اوباما اور وزیراعظم ٹرن بل کے پناہ گزینوں کے بارے میں تبصروں میں دیکھی جا  سکتی ہے، حالانکہ یہ انہی کی پالیسیاں ہیں جو مسائل کی جڑ ہیں اوراسی جانب ہماری تنقید کا رخ ہونا چاہیے۔

 

4۔ہمارے سامنے اس  وقت کیا ہے، بل آخر ایک  سیکولر اور روشن خیالی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سیاست  کی حیرت انگیز ناکامی ہے۔ ایک نظریہ حیات جوخود غرضی اور انفرادیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جو روحانیت کو نکال باہر کرتا ہے، جو مادہ اور مادہ پرستی کو مقدّم رکھتا ہے،جو  دنیا کی ہر  چیز کی سوداگری کرتا ہے، جو انسانیت کو ایسی ظالمانہ قوموں میں  تقسیم  کرتا ہے جس میں  ہر قوم کا  محرک  اس  کا  تنگ نظر "قومی مفاد"   ہے۔جس کے نتیجے میں طاقت ور قومیں کمزور قوموں کا ہر ممکنہ طریقے سے استحصال کرتی ہیں اور ہر قوم میں اشرافیہ  ہر انداز سےعوام کا  استحصال کرتی ہے۔ رائج سیاسی نظام جو کہ بڑی بڑی کمپنیوں کے اثر و رسوخ سے بدعملی  کا شکار ہو گیا ہے ،اس کے پاس عوام کو درپیش حقیقی مسائل کا کوئی حل موجودہی نہیں ہے۔اس میں کیے گئے ہر عمل میں عصبیت اور وطن پرستی جیسے پست جذبات کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے،جس کے نتیجے میں کسی نہ کسی اقلیت کا استحصال ہونا  ناگزیر ہے۔

 

5۔اس تناظر میں مسلمانوں کو ایک طاقت ور چیلنج کا سامنا ہے۔ہم نے نہ صرف بڑھتے  ہوئی نفرت اور تعصب کا  سامنا کرنا ہے بلکہ  ہم نے اسی شرافت  اور جواںمردی سے کرنا ہے جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا  ہے۔یہ موقع دبنے اور ڈرنے کا نہیں کیونکہ ایسا کرنا آپ ﷺ کی تعلیمات سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ہم نے باہمّت ہو کر اسی نظریہ حیات کو اور نظام کو نشانہ بنانا ہے۔ہم نے یہ باور کروانا ہے کہ اسلام مسئلہ نہیں بلکہ آج کے وقت کی ضرورت ہے۔ہمیں اس خودپسندی اورتنگ نظری کی سیاست سے آگے نکلنا ہے اورحق کی سیاست کو اپنانا ہے جو کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اور انسانیت کی علمبردار ہے۔ 

 

آسٹریلیا میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.