السبت، 17 شوال 1445| 2024/04/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریربین الاقوامی خواتین کانفرنس کا انعقاد کررہی ہے ''خلافت:خواتین کا غربت اور بے سہارگی سے تحفظ‘‘

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس حزب التحریرانڈونیشیا کے اشتراک سے ہفتہ 22دسمبر2012کوجکارتہ ،انڈونیشیا میں ایک یاد گار خواتین کانفرنس منعقد کررہا ہے۔ اس کانفرنس کا عنوان ہے:''خلافت:خواتین کا غربت اور بے سہارگی سے تحفظ‘‘۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے پندرہ سو بااثر اور مقرر خواتین شرکت کریں گی اور مسلم دنیا میں اور عالمی سطح پر خواتین کو درپیش قابل مذمت غربت اور ان کے معاشی استحصال پر گفتگو کریں گی۔اس کے علاوہ خلافت کے نظام کو ایک ایسے حکومتی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا جو دنیا بھر کی خواتین کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔یہ کانفرنس حزب التحریرکی جانب سے پچھلے چند ہفتوں سے اس مسئلہ پر جاری عالمی مہم کا نقطہ عروج ہوگی۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کی خاتون نمائندہ ڈاکٹر نظرین نواز نے کہا کہ ''پوری مسلم دنیا میں کڑوڑوں خواتین روزانہ معاشی بقأ کی جنگ لڑتی ہیں۔بے انتہا غربت نے کئی خواتین کو بیرون ملک ملازمت کی تلاش پر مجبور کردیا ہے اور اس دوران اکثر انھیں انتہائی برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے اور سڑکوں پر بھیک مانگنے سے بچنے کے لیے اکثر خواتین کو ایسی ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں جس میں ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔دراصل یہ ایک خودساختہ غربت ہے۔یہ خواتین مسلم دنیا کی بدعنوان اورنااہل حکومتوں کے ظلم کا شکار ہیں جنھوں نے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ مسلم دنیا کے وسائل کو لوٹ کر کیا ہے۔ یہ خواتین اس خراب اور ظالم سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہیں جنھیں یہ حکمران اپنے ملکوں میں نافذ کرتے ہیں‘‘۔


انھوں نے کہا کہ ''اس زہریلے سرمایہ دارانہ نظام نے، جس کی بنیاد آزاد منڈیوں کی معیشت اور سود پر مبنی مالیاتی نظام پر ہے ،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بے تہاشا فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کی خواتین، جس میں مغربی ممالک میں رہنے والی کڑوڑوں خواتین اور زیادہ شرح پیداوار کو حاصل کرنے والے ممالک جیسے چین،بھارت،ترکی اور برازیل کی خواتین بھی شامل ہیں ،غربت اور معاشی غلامی کا شکار ہوگئیں ہیں۔مسلم دنیا میں مغربی ممالک نے گلوبلائزیشن،آزاد معیشت اور آئی۔ایم۔ایف اور عالمی بینک سے قرضوں کی سرمایہ دارانہ استعماری پالیسیاں تھوپی ہیں اور مسلم دنیا کی معیشتوں کو مغربی ممالک اور ملٹی نیشنلز کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی بے حال،مقامی منڈیاں تباہ اور لوگوں سے ان کی دولت اور وسائل کو چھینا گیا ہے‘‘۔


ڈاکٹر نظرین نواز نے کہا کہ ''اس کے ساتھ ساتھ اس تباہ کن مادی سرمایہ دارانہ نظریہ حیات نے،جو زندگی میں دولت کو تمام دوسری اقدار پر فوقیت دیتا ہے،خواتین کے ملازمت کرنے کے حق کو اس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے ماں ہونے کی ذمے داری اور مرد اور ریاست کی جانب سے عورت کی معاشی سرپرستی اورنگہبانی کا تصور ایک فرسودہ سوچ ہے۔اس طرح یہ سرمایہ دارانہ نظام خواتین کو کام کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔اس صورتحال نے خواتین پر ایک معاشرتی دباؤ کو جنم دیا ہے کہ وہ بھی ملازمت تلاش کریں تا کہ انھیں اپنی قدرو قیمت کا احساس ہو اور اس ظلم کو قبول کر لیں جس میں ایک ہی وقت میں وہ پیسہ کمانے اور گھر چلانے کی ذمہ دار ہوں اور اس کے نتیجے میں اپنے لازمی اور انتہائی ضروری ماں کے کرادر کو فراموش کردیں جس کے تحت انھوں نے مستقبل کی نسلوں کی پرورش اور کردار سازی کرنی ہوتی ہے۔اس نظام نے خواتین کو غیر انسانی کردار اپنانے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ صرف ایک معاشی ضرورت کی چیز ہیں جس کے ذریعے ریاستیں معاشی فوائد حاصل کرتی ہیں اور جو خواتین یہ نہیں کرپاتیں انھیں اور ان کے بچوں کو بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے‘‘۔


انھوں نے مزید کہا کہ ''یہ یادگار کانفرنس پوری دنیا سے خواتین کو اکٹھا کرے گی تا کہ خلافت کے حکومتی نظام کوایک ایسے نظام کے طور پر پیش کیا جائے جو اس قابل مذمت معاشی مشکلات اور استحصال کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس نظام کی اس خوبی کو واضع کیا جائے گا کہ یہ انسانوں کی ضروریات کو معاشی فوائد پر فوقیت دیتا ہے اور خواتین کو ایک قابل عزت انسان کے طور پر دیکھتا ہے جنھیں ہمیشہ ان کے مرد رشتہ داروں اور ریاست کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ نظام انھیں دولت پیدا کرنے کی مشین کے طور پر نہیں دیکھتا لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی پسند کی ملازمت اختیار کرسکتی ہیں۔اس کانفرنس میں خلافت کی زبردست اور منفرد اسلامی معاشی پالیسیاں بھی پیش کی جائیں گی جو کہ غربت کے خاتمے اور معاشی تحفظ کی فراہمی کے لحاظ سے ثابت شدہ ہیں۔یہ ایک ایسی ریاست ہوگی کہ جسے دنیا بھر کی خواتین ایک ایسے ماڈل کے طور پر دیکھ سکیں گی جہاں وہ خود کو غربت اور استحصال سے محفوظ رکھ سکیں گی۔ہم ان تمام خواتین کو اس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جوایک ایسے حقیقی حل کی تلاش میں ہیں جو موجودہ معاشی جبر اور استحصال کا خاتمہ کرسکے‘‘۔


أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
''کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو‘‘(الملک:14)

ایڈیٹرز متوجہ ہوں:
1۔ معلومات کے لیے رابطہ کریں:media_info@hizbut-tahrir,or.id
2۔ مہم سے متعلق معلومات:http://women.hizb-ut-tahrir.info

 

ڈاکٹر نظرین نواز
مرکزی میڈیا آفس کی خاتون نمائندہ

 

ٹیلی فون/فیکس:009611307594
موبائل:0096171724043

Read more...

پریس ریلیز روس نے اللہ کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکادی ہے اور حزب التحریرکے شباب کو گرفتار کر لیا ہے

روسی وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ''پیر 12نومبر2012کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اراکین برائے وزارت عمومی اختیارات نے وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر مذہبی جماعت حزب التحریر، جس کو سپریم کورٹ نے ایک دہشت گرد جماعت ہونے کی بناء پر روس میں کا لعدم قرار دیا ہے، کے ایک گروپ کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ آپریشن کیا۔تنظیم کے چھ اراکین کی گرفتاری کے بعد ان کے گھروں کی تلاشی کے دوران نو عددگرنیڈز،ہتھیار،اسلحہ اوراس کے علاوہ انتہاپسندی اور نئے لوگوں کو کس طرح تنظیم میں شامل کیا جائے پر مبنی کتابیں بھی برآمد ہوئیں‘‘۔ یہ تمام الزامات کہ اسلحہ اور بم برآمد ہوئے ہیں ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے۔روس کے حکمران یہ جانتے ہیں کہ یہ کہانی ایک جھوٹ ہے سوائے اس صورت کے کہ اگر اسلامی کتب کو ''اسلحہ کی بڑی مقدار‘‘ مان لیا جائے جس کی برآمدگی کا وہ دعوی کرتے ہیں!قاتلھم اللہ انی یوفکون ''اللہ ان سے لڑتا ہے کیونکہ وہ جھوٹ گھڑتے ہیں‘‘۔


روسی حکام نے نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ گھڑا ہے بلکہ انھوں نے اپنی شیطانی حرکات کا نشانہ ان لوگوں کو بنا لیا ہے جو اسلام کی دعوت دیتے ہیں خصوصاً حزب التحریر۔لہذا روسی حکام کے ہاتھوں اسلام سے عداوت پر مبنی واقعات کا ایک تسلسل واضع ہونا ایک لازمی امر ہے۔چیچنیا میں ہمارے بھائیوں کے قتل عام کے بعد ان لوگوں کے خلاف جواخلاص سے اسلام کی دعوت دیتے ہیں مظالم کاایک سلسلہ شروع کردیا گیا جس میں گرفتاری،قتل اور زبردستی مال لے لینا شامل ہے۔وہ ایسے ایسے قابل مذمت کام کرتے ہیں جسے کوئی ہوش مند انسان نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم شباب کی بیویوں،بہنوں اور ماؤں کا پیچھا کرتے ہیں تا کہ اسلام کے مخلص داعی اپنے کام سے رک جائیں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا!


سٹالن کے نظام کی شیطانیت بغیر کسی وقفے کے جاری و ساری ہے اور ہمیں مظالم کی وہ صورتیں بھی نظر آتی ہیں جو فرانس،بیلجیم اور دوسرے ممالک نے اختیار کر رکھی ہیں جیسے سکارف پر پابندی یا مساجد پر چھاپے۔روس کے جنوب میں واقع سٹاوروپول (Stavropol)میں اسکولوں میں سکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی اور پھر 17اکتوبر کو کازان میں واقع ایک مسجد الاخلاص پر روسی فورسز نے چھاپہ مارا۔اس کے علاوہ امام مسجد کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ حزب التحریرکے لیڈروں سے تعلق رکھتا ہے۔ان جرائم کی طویل فہرست میں تازہ اضافہ حزب التحریرسے تعلق رکھنے والے بیس افراد کی گرفتاری ہے جن میں سے چھ افراد پر اس الزام کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور ان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔ یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے یہاں تک کہ روسی حکومت بھی یہ جانتی ہے کہ حزب التحریرنبوت کے طریقے کے مطابق خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کے دوبارہ احیأ کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تشدد کا رستہ اختیار نہیں کرتی۔روس خلافت کی واپسی کو کسی صورت بھی روک نہیں سکتا۔


یہ ہے روس کے دھوکہ دہی پر مبنی نظام کی حقیقت جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور انتقام سے بھر پور ہے۔روس اسلام کے جھنڈے کو دوبارہ بلند اور مسلمانوں کو متحد ہوتا نہیں دیکھ سکتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے خلاف ان کی نفرت ان کے لبوں پر ہے لیکن ان کے دل اس سے بھی کہیں زیادہ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اسی لیے مکر و فریب اور ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے اس امید پر کہ چند لوگوں کو بے وقوف بنا کرانتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نعرے پر اپنا ہم نوا اور ہم خیال بنا لیا جائے۔ اس نعرے کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ جھوٹ کا ایک ایسا نقاب ہے جس کے پیچھے رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں۔


روس کا موجودہ نظام سابقہ سویت یونین سے قطعاً مختلف نہیں۔ اس نے اپنی مملکت میں موجود کمزور اورغیر محفوظ لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے وہی پرانا ناانصافی ،مظالم اور جبر کا طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے جو اس کو سویت یونین سے ورثے میں ملا ہے ۔لہذا یہ ایک قدرتی امر ہے کہ سویت یونین جیسا نظام تیزی سے گر جائے کیونکہ لوگ ظلم اور جبر کی وجہ سے موقع ملتے ہی اس نظام کو خیر باد کہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں تا کہ خود کو اس جبر سے آزاد کرواسکیں۔ اور اب ہم مسلم ممالک کو یہ مشورہ دیں گے جنہیں براہ راست یا بلواسطہ اس نظام کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے کہ وہ اٹھیں اور خود کو اس دہشت گرد ملک کے اثر سے باہر نکالیں،روسی زار کی باقیات کو اکھاڑ پھینکیں تاکہ اللہ کے حکم سے جلد قائم ہونے والی خلافت کا حصہ بن سکیں ۔


ان مسلمانوں کے لیے جو روس کے ظالمانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں!
روس کے نظام نے تمھارے رب اور تمھارے دین کی دشمنی مول لی ہے اور اس پر اسے کوئی شرم نہیں۔ یہ نظام ظلم ،جبر،گرفتاریوں اور ناانصافی پر مبنی قوانین سے بنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ظلم اور جبر کا سامنا مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کیا جائے۔حق کی راہ پر بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے مخلص اور باہمت حزب التحریرمیں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ چل پڑو جو مسلم ممالک میں خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور تمام بزدل آمروں کو اکھاڑ پھینکنے کے ہدف کو حاصل کر لو ۔ اسلامی ریاست خلافت لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلائی گی اور معصوم لوگوں کی عزت کو بحال کرے گی اور انصاف اورسچائی اور بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز کے حکومت کرے گی ۔


قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ إِن کُنتُمْ تَعْقِلُون
بغض ان کے منہ سے ٹپکتا ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے(آل عمران:118)۔

 

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر

 

Read more...

پیوٹن کی بنیاد پرست سیکولر روسی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم اور اسلام دشمن پالیسیوں پر اسکی مذہبی جذبات کے احترام کی دوغلی گفتگو پردہ نہیں ڈال سکتی

22اکتوبر2012،بروز پیر اخبار ماسکو ٹائمز نے حجاب پر پابندی اور 18اکتوبر2012 ،جمعرات کے روز پیوٹن کے جاری کردہ بیان کے حوالے سے تحقیق ایک شائع کی ۔رائٹرز اور دیگر خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے روس کے جنوبی علاقے سٹاورپول کے سکولوں میں حجاب پر حال ہی میں عائد کردہ پابندی کے بارے میں کہا کہ،''ہمیں ہمیشہ لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے حد احترام کرنا چاہئے۔اس کا اظہار ریاست کی تمام ظاہر اورپوشیدہ سرگرمیوں ہونا چاہئے یہاں تک کہ کوئی شے اس کے بغیر نہ ہو‘‘۔ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے اس نے البتہ یہ بھی کہا کہ،''ہماری ریاست ایک سیکولر ریاست ہے اور ہمیں اسی بنیاد سے آگے بڑھنا ہو گا‘‘۔پیوٹن نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ یورپی ریاستیں جو سکول یونیفارم سے متعلق ایسی پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں جن کے تحت مذہبی لباس پہننا ممنوع ہے، انہیں روسی سکولوں کے لیے مثال سمجھا جائے۔خصوصاً اس سے متعلق مثال کہ وہ حجاب اپنانے والی مسلمان طالبات سے کیساسلوک روا رکھتی ہیں۔چنانچہ اس کا یہ بیان روسی اور دیگر میڈیا کے اداروں نے ملک کے سکولوں میں حجاب پر پابندی کی کھلم کھلا حمایت سے تعبیرکیا۔اس کا یہ موقف دوسری انتہا پسند سیکولر ریاستوں مثلاً فرٖانس، بیلجیم،جرمنی، کینیڈا،ترکی اور ازبکستان کے موقف کی ہی نقل ہے جنہوں نے اپنے اپنے ممالک میں حجاب یا نقاب پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کی نمائندہ ڈاکٹر نسرین نواز نے مسٹر پیوٹن کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
''پیوٹن کی جانب سے روسی ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد کا احترام کی دعوت دینا کھلم کھلا جھوٹ اور منافقت پر مبنی ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ وہی ریاست ہے جو اس سے قبل اپنی مسلم اقلیت پر جابرانہ پالیسیوں کے تحت ظلم وزیادتی کا ایک طویل ماضی رکھتی ہے، جس کی تصدیق روسی ادارہ برائے انسانی حقوق بھی کر چکا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں روسی سیکورٹی ایجنسیوں نے ایسی کئی مسلمان خواتین کو جن کے رشتہ دار مرد اسلامی دعوت کی جدوجہد میں مصروف تھے،ہراساں اورگرفتار کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی ،یہاں تک کہ ان کو چھریوں کا ساتھ دھمکی دی۔تاکہ ان کے مردوں کو ان کے اسلامی فرض کی ادائیگی سے باز رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔ان میں سے بعض کے بچوں کو روسی ریاست کی ''انتہا پسندی کے خلاف‘‘ پالیسیوں یعنی ''اسلام دشمن‘‘ پالیسیوں کے تحت یتیم خانوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ ان معصوم مسلمان خواتین پر ظلم کرنے کے بعد بھی پیوٹن مطمئن نہیں ہوا چنانچہ اب اس نے روسی سکولوں سے نیک مسلمان لڑکیوں کو بے دخل کرنے کی ٹھان لی ہے۔جس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق لباس پہنتی ہیں ۔اس طریقے سے پیوٹن مسلمان روسی خواتین کی اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا اور اور ان پر زبردستی باطل سیکولر عقائد ٹھونسنا چاہتا ہے۔
''ایک طرف تو پیوٹن مذہبی عقائد کے احترام کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمان لڑکیوں کی پہنچ سے تعلیم کو دور رکھ کر انہیں دوسرے درجے کاشہری ٹھہرانا چاہتا ہے؛محض اس لیے کہ وہ اپنے اسلامی فرائض پر عمل کر رہی ہیں۔وہ فخریہ اپنی ریاست کے سیکولر ہونے کا اظہار کرتا ہے جبکہ یہ وہ نظریہ حیات ہے جس نے بار ہا مذہبی اقلیتوں اور مختلف معاشرتی طبقات کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ نیز یہ نظریہ سیکولر ریاستوں میں حجاب، نقاب اور میناروں پر پابندی عائد کر کے تمام لوگوں کے حقوق کی ضمانت دینے میں بھی ناکام رہا ہے۔
مسلمان خواتین واضح طور پر سمجھ چکی ہیں کہ سیکولر ریاستوں میں ''احترام‘‘ صرف ان کا حق ہے جو ان سیکولر عقائد پر اعتقاد رکھیں جبکہ رسوائی، بدنامی، تعصب اورزیادتی ان لوگوں کا مقدر بن چکی ہے جو اپنے مذہبی عقائد سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اس سیکولر نظام تلے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ایک طویل عرصے سے اس فکری بحث میں شکست کھا چکا ہے کہ عادلانہ، منصفانہ اور مکمل طور پر آپس میں ہم آہنگ معاشرہ کیسے تشکیل دیا جائے‘‘۔
'' مزید برآں پیوٹن کس منہ سے مسلمان خواتین کے مذہبی جذبات کے احترام کی بات کرتا ہے جب اس کی اپنی حکومت ایسی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پرعمل پیرا ہے جنہوں نے چیچنیا کی معصوم مسلمان خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور جو پالیسیاں شام میں قاتل اسد کے ہاتھوں اس امت کی بیٹیوں کے قتل عام کی حمایت پر مبنی ہیں کیونکہ وہ اسلامی نظام کے تحت عزت سے زندگی گزارنے کا مطالبہ کر رہی ہیں‘‘۔

 

''نیزوہ سیکولر نظام جسے وہ فخریہ پیش کررہا ہے اس نے روسی خواتین کو درحقیقت دیا ہی کیا ہے؟آج روسی خواتین کو ایک وبائی مرض کی مانند پھیلتے استحصال،عورتوں اور بچوں کی خریدو فروخت،تشدد اور تنخواہ کے معاملے میں تعصب کا سامنا ہے۔اسی طرح ان سیکولر لبرل اقدار نے،جن کا ڈھنڈورا روسی حکومت پیٹ رہی ہے ، معاشرے میں خواتین کی شناخت محض ایک جنسی کھلونے کی حیثیت سے متعین کردی ہے۔ جسے کسی بھی دوسری اقتصادی شے (economic commodity)کی طرح استعمال کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔چنانچہ وہ سیکولر خواتین و حضرات جو اسلام پر یہ الزام لگانا پسند کرتے ہیں کہ وہ عورتوں پر جبر کرتا ہے، انہیں پہلے اپنے گھر میں جھانک کر دیکھنا چاہئے۔ اور یہ خوب اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم اور ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے والا اسلام نہیں بلکہ بنیادپرست سیکولر نظام اور مسلمان خواتین پر زبردستی جنونی لبرل نظریہ کا نفاذ ہے‘‘۔


'' بحیثیت خواتین حزب التحریر ہم روس میں اپنی دیندار بہنوں کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ اپنے اسلامی عقائد اوردرست اسلامی لباس پر سختی سے کاربند رہیں جو حیاء اور عفت و عصمت کی اعلیٰ ترین اقدار کا مظہر ہے۔اورحجاب پر پابندی یا دیگر اسلام دشمن پالیسیوں سے ڈر کر یا دباؤ میں آکراپنے خالق حقیقی کی اطاعت ہر گز چھوڑیں کیونکہ یہ پالیسیاں اس ریاست کی جانب سے اپنائے گئے کمزور حربے ہیں ؛جو آپ کے اسلام پر عقلی ایمان کو متزلزل کرنے میں ناکام رہی ہے؛ اور آپ کے دلوں سے آپ کے دین کی خالص محبت نہیں نکال سکی۔ پس، ان باطل سیکولر عقائد کو مسترد کر دیں اور اپنے اسلامی عقائد اور فرائض پر مضبوطی سے جمی رہیں اور یہ جان لیں کہ آپ ہی ہیں جنہوں نے خالقِ کائنات، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی ہے۔ نیزاس ریاست خلافت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کریں جس کے سایے تلے آپ عزت سے اپنا اسلامی لباس پہن سکیں گی اور حقیقی احترام اور سلامتی کے ماحول میں اپنے اسلامی فرائض پورے کر سکیں گی‘‘۔


إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدُّواْ عَن سَبِیْلِ اللّہ فَسَیُنفِقُونَہَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْْہِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ یُغْلَبُونَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِلَی جَہَنَّمَ یُحْشَرُونَ
(ترجمہ معانی قرآن)''جولوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں) کو اللہ کے رستے سے روکیں سو ابھی اور خرچ کریں گے مگر آخر وہ (خرچ کرنا) اُن کیلئے (موجبِ ) افسوس ہو گااور وہ مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے ‘‘۔(سورۃ الانفال :36)

 

ڈاکٹر نسرین نواز
نمائندہ مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

عید الاضحی کے مبارک موقع پر حزب التحریر کی طرف سے عید مبارک

اللہ اکبر ،،،اللہ اکبر ،،،اللہ اکبر ،،،لا الہ الاّ اللہ ،،، اللہ اکبر ،،، اللہ اکبر ،،، وللہ الحمد

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ ،آپ ﷺ کے آل واصحاب اور متوالوں پر، ہر اس شخص پر جس نے آپ ﷺ کی پیروی کی اور آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلا اور اسلامی عقیدے کو ہی اپنی فکر کی اساس اور احکام شرعیہ کو ہی اپنے فیصلوں کے لیے معیار اور مصدر بنایا۔امّا بعد،

اے دنیا بھر کے مسلمانو! ہمیں خوشی ہے کہ ہم، حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کے امیر جلیل القدر عالم عطاء بن خلیل ابو رَشتہ کی طرف سے پوری امت مسلمہ کو عید الاضحی کی مبارک باد پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی مسرت ہے کہ ہم حزب التحریر کے شباب (جوانوں) اور شابات (بہنوں) کو بھی مبارکباد پہنچا رہے ہیں جو جابرانہ عہد کی حکومتوں کے تابوت میں آخر کیل ٹھوکنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور اس خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ کے کلمے کو بلند کر نے کے لیے جد و جہد میں مصروف ہیں جس کی بشارت اللہ کے بندے اور رسول ﷺ نے دی ہے۔

گزشتہ سال ہم اللہ الحی القیوم کے سامنے بہت گڑگڑائے کہ خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب کر دے اور اب ہم شام کے ظالم و جابرکو گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

شام کے انقلاب کو مغربی ملکوں اور خاص کر ان کے سرغنہ امریکہ کی جانب سے دن رات کی سازشوں کا سامنا ہے۔ وہ دمشق کے جابر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے دن دھاڑے قتل و غارت گری اور خونریزی میں مصروف ہیں اور بشار الاسد قتل و غارت اور تباہی پھیلانے کے لیے ہر قسم کے دستیاب و سائل کو بروئے کار لا رہا ہے۔ یہ شام کے انقلاب کے کوکھ سے ریاست خلافت کے جنم لینے کے بارے میں مغربی قائدین اور غدار مسلم حکمرانوں کے خوف کی واضح دلیل ہے۔ اگر اہل شام امریکی ڈکٹیشن اور اس کے ایجنٹوں کے سامنے جھکتے تو یہاں بھی وہ ایک اور کرزئی یا طنطاوی مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتے جو انقلاب کو امریکی مفاد میں موڑدیتا...یوں امریکی کونسل جس کو قومی کونسل کا نام دیا گیا ہے کے داعی قصرِ مہاجرین میں شام کے انقلاب کے امین کے طور پر داخل ہو نے میں کامیاب ہو جاتے، حالانکہ یہ امریکی اور ترک حکومت کے گماشتوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں...لیکن انقلابیوں کے گزشتہ جمعے کے مظاہروں میں ان کا پردہ بھی چاک کر دیا جب انہوں نے یہ نعرے بلند کیے کہ "اے امریکہ !کیا اب بھی ہمارے خون سے تمہاری پیاس نہیں بجھی" جو امریکی مکاری کی حقیقت کے بارے میں ان کی بیداری کی دلیل ہے۔

پوری امت مسلمہ کو عید الاضحی کی مبارک باد پیش کر نے کے موقعے کو غنیمت سمجھتے ہوئے ہم تمام مسلمانوں ،خاص کر قائدین اور فوجی افسران اور تبدیلی لانے پر قدرت اور طاقت رکھنے ولوں کو اس شام میں موجود ان کے بھائیوں اور اپنوں کی مدد کے حوالے سے ان کی ذمہ داری یاد دلاتے ہیں جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "شام اسلام کا مسکن ہے"...اور ہم اپنے شامی بھائیوں کو اللہ کی اس مدد کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا اللہ وعدہ فرما چکے ہیں، ان کو چاہیے کہ انتہائی خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اس کو راضی کرنے کے لیے قربانی دیتے رہیں تاکہ وہ دو کامیابیوں میں سے ایک کو حاصل کر لیں یعنی نصرت یا شہادت۔

جس وقت میں آپ کو اور پوری امت مسلمہ کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے سربراہ اور اس میں کام کرنے والوں کی طرف سے عید الاضحی کی مبارک باد پہنچا رہا ہوں وہاں میں اللہ سبحانہ وتعالی سے التجا کر رہا ہوں کہ آئندہ عید اس حال میں آئے کہ امت مسلمہ رایہ عقاب (اسلامی جھنڈے) کے سائے میں زندگی گزار رہی ہو، وحدت اور اللہ کے اذن سے کامیاب اور باعزت بن چکی ہو، اس کو اس کی قیادت دوبارہ مل چکی ہو۔ یقینا وہی کارساز اور قدرت والا ہے۔(آمین)

اے اللہ اے الحی القیوم اے رحم کرنے والے کرم کرنے والے آسمانوں کو بغیر ستون کے اٹھانے والے خلافت کے ذریعے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کر دے، اپنے دشمنوں دمشق کے جابر، اس کی مدد اور حمایت کر نے والوں کے مقابلے میں ہماری بھر پور مدد فرما، تیری راہ میں جہاد کرنے والوں کی ہر جگہ مدد فرما، ان کو تیرے کلمے کو بلند کرنے اور تیرے دین کی مدد میں کامیاب کر دے۔ (آمین)

ہم آپ کومتوجہ کرنا پسند کرتے ہیں کہ اس مبارک عید کی مناسبت سے ایک خاص براہ راست پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جو جمعے کے دن سے شروع ہو گا جو کہ عید الاضحی کا پہلا دن ہے۔

ہمیشہ خوش اور سلامت رہو اللہ تمہاری نیکیوں کو قبول کرے

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبر کاتہ

سبحانک اللہم وبحمدک نشہد ان لا الہ الاّ انت نستغفرک ونتوب الیک

عید الاضحی کی رات 1433 ہجری

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

Read more...

پریس ریلیز

اس وقت جب شام میں جاری مقدس انقلاب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور اس انقلاب کے خلاف علاقائی و بین الاقوامی سازشوں میں بھی شدت آگئی ہے،ہم آپ کو حزب التحریرولایہ شام کے تحت منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جس کا موضوع ہے،


خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام سے متعلق شام کے انقلاب پرحزب التحریرکی پالیسی دستاویز
یہ پریس کانفرنس انجینئر ہشام البابا نے طلب کی ہے
(سربراہ میڈیا آفس حزب التحریرولایہ شام)
مقام:مرکزی میڈیا آفس،تریپولی،لبنان۔ ابی سماراء

تاریخ:28رمضان1433 - ،16اگست2012
وقت:1:30 pm

عثمان بخاش

ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر


ٹیلی فون: 96171724043
فیکس: 9611307594
ای میل:This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Read more...

میانمار کے مسلمانوں کا قتل عام پوری دنیا کے سامنے بے دھڑک جاری ہے جبکہ اس کا مجرم صدر مسلمانوں کو جلا وطن کرنے کی دھمکی دے رہا ہے

رمضان کے مبارک مہینے کے پہلے چند دنوں میں اور پچھلے چھ ہفتوں سے مسلسل میانمار کے مسلمانوں کا منظم طریقے سے قتل عام پوری دنیا کے سامنے جاری ہے جبکہ نام نہاد عالمی برادری نے اس قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عرب اور عالمی میڈیا نے اس ظالمانہ اور مجرمانہ فعل پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے پوری دنیا نے ناصرف میانمار کے مسلمانوں کے خلاف سازش کی ہوئی ہے بلکہ وہ وہ ان مسلمانوں کے وجود کو مٹا نے کا منصوبہ رکھتے ہیںیہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا 19جولائی2012کو جاری ہونے والے بیان کو بھی میڈیا میں کسی قسم کی کوئی پذیرائی نہیں ملی۔

اس خونی اور انتہائی خوف ناک مجرمانہ فعل کے بعد جس میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور نوے ہزار سے زائد بے گھر ہو گئے ،میانمار کے قاتل صدر Thein Seinکو 11جولائی بروز بدھ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر Antonio Jaterresسے ملاقات کے دوران یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ میانمار میں موجود اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں منتقل کردیا جائے اور اس کے بعد انھیں ملک سے بے دخل کردیا جائے۔اس نے اس ملاقات کے دوران مزید کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ان روہنگیا لوگوں کو قبول کیا جائے جو ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہیں اور وہ ہماری نسل سے بھی نہیں ہیں اور یہ لوگ ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی ہیں۔

یہ کس قسم کے انتہائی متعصبانہ اور قابل مزاحمت خیالات ہیں کہ رنگ،نسل اور مذہب کی بنیاد پرلوگوں کی درجہ بندی کی جارہی ہے۔جبکہ اسلام اہل کتاب اور مشرکوں کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے وہی سلوک روا رکھتا ہے جس کے مسلمان مستحق ہوتے ہیں۔کتنا بڑا فرق ہے انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص اور مجرمانہ نظام میں اوراسلام کے مثالی نظام میں جو کہ انتہائی اعلی اور عمدہ صفات کے قوانین سے مزین ہے۔ان لوگوں کو صرف اس لیے قتل کیا جارہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے اور انھیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بالکل درست فرمایاکہ ''اگر تمھیں شرم نہیں تو جو چاہے کرو‘‘۔

میانمار میں تقریباًآٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان صوبے اراکان میں رہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ ان مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اور کمزور اقلیت قرار دیتی ہے جن کے خلاف انتہائی آسانی سے ظلم و جبر کا سلوک روا رکھا جاسکتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی بلکہ انھیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے جو بنگلادیش سے آئے ہوئے ہیں۔
میانمار میں ہونے والے واقعات کے متعلق کسی بھی قسم کی مصدقہ خبروں اور اطلاعات کی غیر موجودگی میں ہم روہنگیا مسلمانوں کی انتہائی قابل رحم حالت زار کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمشنربرائے پناہ گزین کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق'' میانمار میں روہنگیا ہر طرح کے جبر کا شکار ہیں جس میں جبری مشقت، زبردستی ان کا مال لے لینا،نقل و حرکت پر پابندی، رہائشی حقوق کی کمی، شادی کے غیر منصفانہ قوانین اور زمین ضبط کر لینا شامل ہے‘‘۔

برما کے مسلمانوں کے قتل عام کے تین فریق ذمہ دار ہیں:

.1میانمار کی مجرم ریاست جو کہ مغرب کی آلہ کار ہے اور اس کے خلاف ہمارا وہی موقف ہے جو دیگر مغربی ممالک کے خلاف ہے کہ اگرچہ جبر و استبداد کے دن کتنے ہی طویل کیو ں نہ ہوجائیں بلا آخر اس ملک کے لیے افسوس اور خسارے کا باعث ہی ہوتا ہے۔فرعون کے جبر اور غرورکا دور اگر چہ بہت طویل تھا لیکن بلا آخر اللہ نے اس کو ذلیل ورسوا کیا اور اس کو تباہ کردیا۔اور ظالموں کے لیے اللہ کا یہی قانون ہے۔

.2 میانمار کی پڑوسی ریاست بنگلادیش ایک مسلم ریاست ہے اور اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے لیکن اس نے اپنی سرحدوں سے چند گز کے فاصلے پر ہونے والے قتلِ عام اور بے دخلی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔لہذا بنگلادیش کی ریاست بھی اتنی ہی غدار اور مجرم ہے جتنا کہ میانمار کی ریاست۔

.3میڈیا بھی اس ظلم میں معاون ہے۔کوئی ایمان دارانہ ،شفاف اور مقصد سے مزین خبر میسر نہیں ہے ۔ ''رائے اور اختلاف رائے‘‘اور''مزید جاننا‘‘ کے نعرے محض جھوٹ اور دھوکہ ہیں۔ صرف وہ کچھ جانیں جو وہ آپ کو بتانا چاہتے ہیں اور میڈیا کایہ دعوہ کہ ہم حقیقت کواس کی اصل صورت میں پہنچاتے ہیں بھی ایک جھوٹ ہے کیونکہ وہ حقیقت کو بھی جھوٹ کا تڑکا لگا کر ویسے دیکھاتے ہیں جیسا کہ ان کے آقا دنیا کو دیکھانا چاہتے ہوں۔لہذا میڈیا بھی استعماری ریاستوں کا ایک باج گزار غلام ہے۔

اگرچہ ہم نے ان لوگوں کی نشان دہی کردی ہے جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ لوگ ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ درحقیقت وہ تمام مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں جو ان کی مددو معاونت کرسکتے ہیں۔تو کیا چیز ہے جو میانمار کے پڑوسی مسلمان ممالک بنگلادیش،انڈونیشیا اور ملائیشیا کے فوجیوں کو ان مسلمانوں کی مدد سے روکتی ہے۔کیا وہ اپنے مسلمان بھائیوں کواپنی آنکھوں کے سامنے بے دخل اور قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے؟کیا اسلام اور مسلمانوں کی محبت ان کے جسم اور روح کو اس ظلم کو روکنے کے لیے نہیں اکساتی؟کیا انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ نہیں سنے کہ

((المسلمون نتنکافا دماو ھم ویسعی بذمتھم ادناھم، و ھم ید علی من سو اھم))

''مسلمانوں کا خون ایک جیسا(برابر)ہے،

ان کے ماتحت ان کی امان میں ہیں اور وہ ایک امت ہیں تمام دوسروں کو چھوڑ کر‘‘۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہماری التجاوں کو جلد شرفِ قبولیت عطا فرمائیں کیونکہ ہمارے بھائیوں کی تکلیفیں بڑھتی جارہی ہیں اور اقوام ان پر ہر طرف سے ایسے جھپٹ رہی ہیں جیسا کہ وہ اپنا اپنا حصہ چاہ رہی ہوں۔ بہرحال ظلم و ناانصافی کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوجائے اللہ کے حکم سے دوبارہ خلافت راشدہ قائم ہوگی جو دوبارہ انصاف کا بول بولا کرے گی اور ظالموں سے ان کے مظالم کا حساب لے گی اور دنیا کو ایک بار پھر انصاف کے زیور سے مزین کردے گی۔

حزب التحریرمیانمار میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لاتی رہے گی لیکن ہم امت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق ایک خلیفہ ایک امام کو بیعت دیں جو ہم پر اللہ کے احکامات کے مطابق ہم پر حکومت کرے،مسلمانوں کے خون،مال اور عزت کی ظالموں اور مجرموں سے حفاظت کرے۔اور مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اللہ یقیناًآپ سے آپ کے بھائیوں کے متعلق سوال پوچھے گا اور آپ کا احتساب کرے گا۔

وَاللّہُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ
اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک