الجمعة، 18 رمضان 1445| 2024/03/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    29 من جمادى الثانية 1439هـ شمارہ نمبر: PR18020
عیسوی تاریخ     ہفتہ, 17 مارچ 2018 م

 

عالمی اسلامی مالیاتی فورم (ورلڈ اسلامک فائنانس فورم) کے شرکاء کے نام:

 

ناکام سرمایہ داریت کے متبادل کے طور پر خلافت اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے گی

 

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

19 سے 20 مارچ 2018 کو انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی  بی اے) میں کراچی کے سینٹر فار ایکسی لینس ان اسلامک فائنانس کی جانب سے لمز (ایل یو ایم ایس) اور آئی این سی ای آئی ایف کے تعاون سے ہونے والے عالمی اسلامک مالیاتی فورم کے شرکاء سے ہم مخاطب ہیں۔  یقیناً آپ کا یہ فورم اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی مالیات کا شعبہ تیزی سے پھیل رہا ہے جو اب اربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے۔ 

ہم  شروعات اس تنبیہ سے کررہے ہیں کہ اسلامی مالیاتی شعبے کے پھیلاؤ نے کافر سرماداریت کو اس کی جانب متوجہ کیا ہے  جو اب اس شعبے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔  بھٹکی ہوئی سرمایہ داریت اس بات سے آگاہ ہے کہ مسلمان اسلامی مالیاتی شعبے میں اس لیے داخل ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ موجودہ مالیاتی نظام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی پرمبنی ہے اور اس کا حصہ بن کر وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دیتے ہیں۔ لہٰذا سرمایہ داریت اپنے کرپٹ سرمایہ دارانہ مالیاتی اشیاء کی کرپشن کو چھپانے کے لیے عربی اور اسلامی نام استعمال کرتی ہے۔ وہ مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے سودکو نفع، انشورنس کو تکافل اور پبلک شیئر کمپنی کو مضاربہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ یہ کام سرمایہ داریت کے نظام کو مسلمانوں کی جانب سے مسترد ہونے سے بچانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ اسے جاری و ساری رکھیں اگرچہ سرمایہ داریت ناکام ہو چکی ہے ۔ یہ کام ویسے ہی ہے جیسے مغرب جمہوریت کی ترویج  اور اسے مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے  کہتا ہےکہ یہ تو محض انتخابات اور مشاورت ہے جس کی اسلام اجازت دیتا ہے جبکہ  جمہوریت بنیادی طور پر قرآن و سنت کی جگہ انسانی عقل اور منطق کو قانون سازی کا ماخذ قرار دیتی ہے۔

اس کے علاوہ ہم اس فورم کے شرکاء پر یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی توجہ صرف اسلامی مالیاتی شعبے تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے  بلکہ اسلام کو سرمایہ داریت کے مکمل متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ اس وقت یہ کام کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا پر سرمایہ داریت کی ناکامیاں واضح ہوتی جارہیں ہیں کیونکہ یہ نظام دولت کو چند ہاتھوں میں محدود کردیتا ہے۔ 

 

محترم شرکاء، 

اس بات پر غور کریں کہ سرمایہ داریت توانائی اور معدنی ذخائر کو نجی ملکیت میں دیتی ہے جس کے ذریعے حاصل ہونے والی بے تحاشا دولت  چند لوگوں کے درمیان گردش کرتی ہے اور باقی پورا معاشرہ اس دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔ سرمایہ داریت کا یہ طریقہ اسلام کے بالکل برخلاف  ہے جس نے توانائی اور معدنی وسائل کو منفرد انداز سے عوامی ملکیت قرار دیا ہے جو نہ تو سرکاری اور نہ ہی نجی ملکیت ہے اور اس طرح ریاستِ خلافت کے تمام شہری اس سے حاصل ہونے والی دولت سے مستفید ہوتے ہیں۔ ریاستِ خلافت میں توانائی اور معدنی وسائل کی ریاست  مالک نہیں ہوتی جیسا کہ کمیونسٹ نظام میں ہوتا تھا جہاں ریاست ان وسائل کو جہاں چاہتی تھی اپنی مرضی سے استعمال کرتی تھی۔ اسی طرح ریاستِ خلافت میں ان وسائل کے مالک ایک فرد یا چند افراد نہیں بن سکتے جیسا کہ سرمایہ داریت میں ہوتا ہے جو بڑے سرمایہ داروں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ان عظیم وسائل کے مالک بن جائیں  اور پھر ان کی ذاتی دولت  کئی ممالک کی دولت سے بھی بڑھ جاتی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

«الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ»

”   مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراہگا ہیں اور آگ(احمد)۔ 

 

اس حدیث میں آگ سے مراد توانائی کی وہ تمام اقسام ہیں جو صنعتوں ، مشینوں اور پلانٹس میں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں جس میں گیس اور کوئلہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہﷺ کی حدیث میں ابیض  بن حمال کو ایک زمین کی ملکیت دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا گیا تھا کہ اس میں نمک کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔  لہٰذا  عوامی ملکیت میں تمام معدنیات شامل  ہیں چاہے وہ ٹھوس ہوں جیسا کہ کوئلہ، تانبہ، لوہا یا سونا وغیرہ، یا وہ مائع حالت میں ہوں جیسا کہ تیل یا گیس کی صورت میں ہوں جیسا کہ قدرتی گیس۔ عوامی ملکیت سے حاصل ہونے والی دولت  کے حوالے سے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہر شہری کو اس میں سے اس کا جائز حق ملے۔ عوامی ملکیت سے حاصل ہونے والی دولت کو شہریوںمیں تقسیم کیا جاتا ہے اور ان کا اس پر پیدائشی حق ہوتا ہے اسی لیے اسے عوام کے امور کی دیکھ بھال پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں  کہ جب ریاستِ خلافت  توانائی اور معدنی وسائل سے اس قدر وسیع پیمانے پر حاصل ہونے والی دولت کو اپنے شہریوں تک پہنچائے گی تو پھر  کیسے غربت کا خاتمہ ہوگا اور ہمارے صنعتی اور زرعی شعبے کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔

 

محترم شرکاء، 

اس بات پر بھی غور کریں کہ کمپنی کی تشکیل کے لیے سرمایہ دارانہ نظام جو طریقہ کار پیش کرتا ہے اس کی وجہ سے ریاست زبردست دولت کے حصول سے محروم ہوجاتی ہے جنہیں وہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کرسکتی تھی۔  پبلک شیئر کمپنی نے نجی کمپنیوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ  بھاری صنعتوں، تعمیرات کے شعبوں، مواصلات اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبوں میں بھر پور طریقے سے کام کرسکیں جن میں بہت بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔ اسلام نے پبلک شیئر کمپنی کی ممانعت کی ہے کیونکہ یہ اسلام میں کمپنی کی تعریف پر پورا نہیں اترتی بلکہ اس کے متضاد ہے۔ اسلام میں کمپنی کی تعریف یہ ہے: 

 

 عقد بين اثنين فأكثر، يتفقان فيه على القيام بعمل مالي، بقصد الربح

 ”  دو یا زیادہ افراد کے درمیان ایک عقد (معاہدہ) ہے جس میں منافع کمانے کے ارادے سے کسی مالی کام کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔

 

لہٰذا اسلام میں کمپنی دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے اور اس طرح یہ معاہدہ یک طرفہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ پبلک شیئر کمپنی میں ہوتا ہے جہاں معاہدے کی بنیاد صرف شیئر کی خریداری ہے۔ اس کے علاوہ  پبلک شیئر کمپنی میں شیئر کی خریداری صرف شراکت داری تک محدود ہوتی ہے اور اس کاکمپنی کے چلانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جبکہ اس کے برخلاف اسلام میں کمپنی کے معاہدے میں شراکت داری صرف کمپنی کے قیام یا اس کا حصہ بننے  کے لیے صرف مال کی فراہمی تک محدود نہیں ہوتی بلکہ کمپنی کے مالکان روز مرہ کے امور کو چلانے یا ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کھتے ہیں ۔

سرمایہ دارانہ پبلک شیئر کمپنی کے خاتمے کی صورت میں موجودہ صورتحال کے برخلاف نجی کمپنیوں کا کردار ان شعبوں میں محدود ہوجائے گا جہاں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے کیونکہ نجی کمپنیوں کے پاس اس قدر وسیع مالی وسائل نہیں ہوتے جو کہ ایک ریاست کے پاس ہوتے ہیں۔  لہٰذا قدرتی طور پر ریاست ان شعبوں میں حاوی ہوگی اور اس کے پاس ان شعبوں سے بہت بھاری تعداد میں وسائل آئیں گے جس سے وہ لوگوں کے امور کی زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ بھال کرسکے گی۔ ان شعبوں سے حاصل ہونے والے وسائل چونکہ ریاستی ملکیت ہوں گے لہٰذا خلیفہ ریاست اور اس کے شہریوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے انہیں اپنی صوابدید اور اجتہاد کے مطابق خرچ کرے گا۔ مثال کے طور پر وہ ان ریاستی وسائل کو صرف معاشرے کے غریب افراد پر خرچ کر سکتا ہے تا کہ معاشرے میں دولت  کی تقسیم کے حوالےسے توازن پیدا ہو ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ 

 اکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ (دولت) پھرتی رہے(الحشر:7) ۔

لہٰذا خلیفہ ان سے حاصل ہونے والے مال کو غرباء اور مساکین پر خرچ کرے گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی نضیر کے قبیلے سے حاصل ہونے والے مالِ فے کو مکّہ  سے ہجرت کر کے آنے والوں  کودیا اور مدینہ کے انصار کو نہیں دیا سوائے دو افراد کےجو کہ مہاجرین ہی کی طرح غریب تھے اور ان کے نام تھے أبو دجانة اورسحل بن حنيف۔ یہ عمل اس آیت کے مطابق تھا اور اس طرح دولت محض امراء کے درمیان ہی گردش کرتی نہیں رہی۔ 

 

محترم شرکاء،

ہمارے دور میں جو لوگ اسلام سے محبت کرتے ہیں وہ اپنی سوچ کو صرف مالیات کے شعبے تک ہی محدود نہیں رکھ سکتے بلکہ انہیں پورے کے پورے اسلام کے متعلق سوچنا چاہیے جس کے لیے خلافت کا قیام ضروری ہے۔ نبوت کے منہج پر قائم خلافت اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرتی ہے اور دولت کو چند ہاتھوں میں محدود ہونے کے تباہ کن عمل کو روکتی ہے۔

وعلیکم اسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک