الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    26 من شـعبان 1441هـ شمارہ نمبر: 1441 / 51
عیسوی تاریخ     جمعرات, 26 مارچ 2020 م

پریس رلیز

مسلمان دین کے معاملات میں جامع الازہر پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ اس نے مصر کے فرعون السِیسی کی وفاداری میں، اللہ کی شریعت کی معطلی پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے

 

            مصر کی جامع الاظہر نے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی درخواست پر ایک فتویٰ جاری کیا جس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کےپیشِ نظر جمعہ کی نماز معطل کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ 25 مارچ، 2020 بدھ کے روزصدرِپاکستان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ، " میں جامعہ الازہر کے مفتی اعظم اور سپریم کونسل کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری درخواست کا جواب دیا اورکورونا وائرس کی وباء کے دوران مساجد میں جماعت اور جمعہ کی نماز کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کی "۔

 

جامع الاظہر نے فتویٰ جاری کیا کہ جمعہ کی نماز کو معطل کیا جا سکتا ہے بلکہ ایسا کرنا لازم ہے اور بطورِ دلیل یہ جواز پیش کیا کہ جس مسلمان کے منہ سے لہسن یا پیاز کی بو آرہی ہو اس کے مسجد جانے کو ناپسند کیا گیا ہے! حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے،

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

"اوراس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا، جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کا ذکر کئے جانےکو منع کرے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں، مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے"

(البقرۃ 2:114)۔

 

تو ان دو میں سے کس رائے کو صحیح سمجھا جائے؟ کیا جامع الاظہر کے فتویٰ اور اس کے غلط استدلال کو صحیح تسلیم کیا جائے جس میں مسجد میں جانے سے منع کرنے کی بنیاد عبادت گزار کے منہ کی بدبو کو بنایا گیا ہے یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام کو تسلیم کیا جائے کہ جس کا مطلب بالکل واضح ہے؟ کیا جامع الاظہر یا جو بھی ان کے فتویٰ کو مانتا ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ امت علماء سے محروم ہو گئی ہے  جبکہ مخلص علما کی خاصی تعداد تو صرف پاکستان میں ہی موجود ہے ! تو کیا ایک ایسی جامع سے فتویٰ مانگنا جائز ہے جو آج کے دور کے فرعون، السیسی، کی وفادار ہے؟!ہم کیسے ایک ایسی جامع سے اپنے دین کی حفاظت کی توقع کرسکتے ہیں جس نے حکمرانوں میں سے ہر اس شخص کی حمایت کی جو دین کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا اور جس نے الکنانہ(تیروں کا ترکش- مصر) کی سرزمین پر اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی عدم موجودگی پر خاموشی اختیار کی اور جس نےہمیشہ ایسے فتاویٰ دیے جو کتاب اللہ  اور سنتِ رسول سے مکمل طور پر متصادم ہیں۔ اسی جامع الاظہر نے یہودی وجود کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر یہود کے "حق" کو تسلیم کرنے کو جائز قرار دیا، اور اس جامع الاظہرنے سود  اور موجودہ غیر اسلامی حکمرانی کے نظاموں کی اجازت  کےفتوے دیے۔۔۔ اور اس طرح کے کئی اور فتاویٰ دیے۔   ایسے فتویٰ کو کیسے  قبول کیا جاسکتا ہے جو قیاس کی بنیاد پر دیا گیا ہے جبکہ عبادات کے معاملات میں قیاس کی اجازت ہی نہیں ہے؟ یا یہ کہ جامع الاظہر اور صدر پاکستان یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی ٹیڑھی  رائے کو پاکستان کے مسلمان اور مخلص علماء  قبول کرلیں گے؟! یقیناً باشعورذہنوں  کو حقیر گردانناایک بڑا مذاق ہے۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو!

پاکستان کا صدر عوام کی صحت  کے حوالے سے حکومت کی غفلت اور ناکامی کو چھپانے کے لیے مساجد کو بند کرنے کا مطالبہ کررہا ہے ۔ کورونا وائرس کی وباء کے پھیلنے سے قبل بھی حکومت لوگوں کیصحت کے تحفظ کے حوالے سے مکمل طور پرناکام تھی۔  حکومت کے پاس تو معمول کی صورتحال میں بھی لوگوں کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا انتظام نہیں ہے تو اب کہاں سے یہ استثنائی صورتحال بن گئی ہے کہ ایک دم حکومت عوام کی  صحت کے معاملے میں اتنی چست ہو گئی ہے؟! کرفیو کا نفاذ اور مساجد کی بندش  اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہونے میں ناکامی سے توجہ ہٹانے کی ایک دانستہ کوشش ہے تا کہ لوگ حکومت کی ناکامی اور کرپشن کے ایک اور پہلوسے واقف نہ ہوسکیں۔ اگر حکومت مساجد کی بندش کے حوالے سےقرآنِ پاک کی سخت وعید کے بارے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ اس معاملے پر گہری فکر اور احتیاط سے کام لیتی ، اگر بہت ضروری ہوتا تو نمازیوں کو بیماری سے  تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرتی  جیسا کہ اگلی اور پچھلی صف کے درمیان فاصلے کو بڑھانا، اعلیٰ معیار کے ماسک تقسیم کرنا، جمعہ کے خطبے کو مختصر کرنا اور بوڑھوں اور بیماروں کوعارضی طور پر مساجد نہ آنے کی ہدایات دینا۔۔۔حکومت اسی طرح کے دیگر اقدامات لیتی، اگر اسے واقعی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف ہوتا!

 

مساجد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا گھر ہیں اور جو بھی شفایابی چاہتا ہے تو اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پکارنا چاہیے کیونکہ صرف وہ ذات ہی الشافی ہے۔آزمائش اور ابتلاء میں اصل بنیاد یہ ہے کہ مساجد کا رخ کیا جائے کیونکہ وہ اللہ کا گھر ہیں جس میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس آزمائش اور ابتلاء سے نجات عطا فرمائے۔ جہاں تک مساجد کی بندش کا تعلق ہے  تو اگر ایسا ایک دن کے لیے بھی کیا گیا تو یہ گناہ ان حکمرانوں کے پچھلوں گناہوں میں مزید  اضافہ ہوگاکہ جن کے باعث اللہ سبحانہ و تعالیٰ سختیاں بھیجتا ہے۔ لہٰذا بنیادی امر یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور جس کام کے ذریعے ہم سب سے زیادہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قربت اختیار کر سکتے ہیں وہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنا ہے ، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اتاری ہوئی وحی کی بنیاد پر حکمرانی قائم ہو، تا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور ہمیں تمام ترمصیبتوں سے نجات عطا کرے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

  ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون

"خشکیاور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ اُن کو اُنکے بعض اعمال کا مزہ چکھائے۔ عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں"

(الروم 30:41)۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

#Covid19

#Korona

#كورونا

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک