الجمعة، 29 ربيع الثاني 1446| 2024/11/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ     شمارہ نمبر:
عیسوی تاریخ     بدھ, 12 دسمبر 2012 م

سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت عوام کے ساتھ جمہوریت کا انتقام ہے خلافت امت کو توانائی کی مصنوعی قلت سے نجات دلائے گی

عوام جوپہلے ہی کئی بحرانوں کا سامنا کر رہے تھے ان پر اب سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت کا بحران بھی تھونپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھنٹوں تک گاڑی میں گیس بھروانے کے لیے لائنوں میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس مصنوعی بحران کو ختم کرنے کے بجائے عوام کو اس عذاب سے نکلنے کے لیے یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ مہنگی درآمدی ایل۔پی۔جی اور پیٹرول پر منتقل ہو جائیں یا مہنگی سی۔این۔جی خریدنے پر تیار ہو جائیں۔ تقریباً ایک عشرے قبل حکومت کی جانب سے سی۔این۔جی کو یہ کہہ کر متعارف کرایا گیا تھا کہ یہ ایک ملکی خزانہ ہے جس کے استعمال سے نہ صرف مہنگے درآمدی پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں کمی آئے گی اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ سستا ایندھن ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں کمی واقع ہو گی، عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ صاف ایندھن ہونے کی بنا پر ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا ان تمام سالوں میں کسی حکمران کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ملک میں گیس کے ذخائر اس قدر موجود نہیں کہ گھریلو و صنعتی صارفین اور بجلی کے کارخانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورانہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت یہ حکمران جھوٹ بول رہے ہیں۔

ملک میں توانائی کی کوئی حقیقی قلت موجود نہیں ہے جس کا ثبوت ملک میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ میں پچھلے دو ماہ میں اچانک حیرت انگیز کمی ہے کہ کہاں شہروں میں دن میں بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیدنگ ہو رہی تھی جو اب گھٹ کر ایک یا دو گھنٹے رہ گئی ہے۔ اسی طرح سے ملک میں گیس کی بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ 2 اکتوبر 2012 کو مشیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹرعاصم حسین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیل و گیس کی کئی کمپنیوں نے پچھلے چند سالوں کے دوران گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے باوجود نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں اس کی کم قیمت مل رہی تھی۔ اور جب وزیر پیٹرولیم سے یہ پوچھا گیا کہ ان کمپنیوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی تو ان کا جواب تھا کہ ان کمپنیوں کو سزا دینے کے بجائے حکومت کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ لیکن پیٹرولیم پالیسی 2012 کے اعلان کے بعد یہ کمپنیاں نئے دریافت شدہ ذخائر سے نئی قیمتوں پر گیس کی پیداوار دینے کے لیے تیار ہو گئیں ہیں۔ اس ظالم حکومت نے 2012 کی پیٹرولیم پالیسی میں نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت 3.24 ڈالر MMBTU سے بڑھا کر 6 ڈالر MMBTU کر دی ہے۔ OGDCL (آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ)، جس کا پاکستان کی تیل کی پیداوار میں حصہ 58 فیصد اور گیس کی پیداوار میں 27 فیصد حصہ ہے، نے مالیاتی سال 2011-12 میں بعد از ٹیکس 91 ارب روپے کا خالص منافع کمایا ہے۔ اگر صرف ایک کمپنی کا ایک سال کا منافع اس قدر زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی کمپنیاں بھی سالانہ اربوں روپے کما رہی ہیں اور اب نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد ان کے منافع میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ ہے جمہوریت کا کمال جو انسانی اور ملکی ضرورت کی ایک انتہائی اہم چیز کی پیداوار صرف اس لیے نہیں لے رہی تھی کیونکہ چند کمپنیوں کو ان کی مرضی کا منافع حاصل نہیں ہو رہا تھا۔ اور اب ایک بار پھر گیس کی مصنوعی قلت کا یہ مجرمانہ اور ظالمانہ فعل اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتیں ہفتوں کے لیے بند ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو کر فاقوں پر مجبور ہیں اور ملکی معیشت کو اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے مجرم ہونے کا ایک اور بڑا ثبوت سالوں گزر جانے کے باوجود تھر کے کوئلے کے عظیم ذخائر سے فائدہ نہ اٹھا نا ہے۔ مشیر پیٹرولیم کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور استعماری طاقتیں مسلم ممالک میں آمر اور جمہوری دونوں طرح کے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکمران امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مرضی کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک زبردست قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ان ممالک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنسے ہوتے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکمران اس دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں تیل، گیس اور معدنی وسائل کو آزاد معیشت کے نام پر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔

صرف خلافت ہی امت مسلمہ اور انسانیت کو اس ظلم سے نجات دلائے گی کیونکہ اسلام نے قانون سازی کا حق انسانوں سے لے کر ہمیشہ کے لیے کرپشن کے اس دروازے کو بند کر دیا ہے۔ اسلام تیل، گیس اور تمام معدنی وسائل کو امت کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لیے خلافت ان وسائل پر نفع نہیں کمائے گی اور ان وسائل کو امت تک ان پر آنے والی لاگت کی قیمت پر پہنچائے گی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

((المسلمون شرکاء ف ثلاث ف الماء والکل والنارو ثمنہ حرام))''

"تمام مسلمان تین چیزوں میں برابرکے شریک ہیں: آبی ذخائر، چراگاہیں یا جنگلات اور آگ (توانائی کے وسائل)۔ اور اِن کی قیمت حرام ہے" (داود)۔

اسلام کے صرف اس ایک حکم کے نفاذ سے کھربوں روپے کا منافع جو اس وقت حکمرانوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجوریوں میں جا رہا ہے اس کا رخ عوام کی جانب مڑ جائے گا، امت کو سستی اور وافر توانائی کے وسائل میسر ہوں گے اور سستی توانائی کی بدولت صنعتیں زبردست ترقی کریں گی۔ حزب التحریر امت سے پوچھتی ہے اگر انتخابات کے بعد نئے چہروں پر مشتمل نئی حکومت نے بھی توانائی کے وسائل کی نجکاری کا سلسلہ جاری رکھا تو کیا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ نئی آنے والی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح توانائی کے بحران کی ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دیتی رہے گی جبکہ حقیقت میں اصل مسئلہ جمہوریت ہے جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ایماندار حکمران بھی اسلام کو نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین یعنی سرمایہ داریت کو ہی نافذ کرتا ہے۔ لہذا امت انسانوں کے بنائے ہوئے کفریہ جمہوری نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کے نظام یعنی خلافت کے قیام کے ذریعے اس ظلم کے نظام کے خاتمے میں حزب التحریر کا ساتھ دیں اور اس نعرے کو بلند کریں "نئے چہرے، نیا نظام - حزب التحریر اور خلافت کا نظام"۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک