Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت کے ہدف کو اپنانا  اور اس کا اعلان کرنا ہی کامیابی کا پہلا قدم ہے


کامیابی کے حصول کی بنیاد وہ قواعد و ضوابط  ہیں جن کو شریعت نے وضع کیا ہے اور اس کے طریقہ کار   کی وضاحت کی ہے۔ اور وہ لوگ جو امت  کی عزت اور وقار  کی بہالی  کی راہ پر گامزن ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی مددونصرت کے طلبگار ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ  اس لائحہ عمل کی پیروی میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان اس عظیم دن کے منتظر ہیں  جب مومنین اللہ کی نصرت پر خوشیاں منائیں گے۔


لیکن  اکثریت نے خلافت کے قیام کے کام کو اس طرح سنجیدہ نہیں لیا جیسے اسلام نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ گردانا ہے۔ اس لئے سقوطِ خلافت کے ساتھ ہی  ہماری حفاظتی ڈھال ٹوٹ گئی ،پھرہماری عزتیں پامال ہوئیں،ہمارا خون بہایا گیا، ہماری دولت لوٹی گئی اور ہم دنیا بھر میں بے یارومددگار بکھرگئے۔ اور سقوطِ خلافت کے ساتھ ہی اسلام عملی زندگی سے ناپیدہوگیا، پس اس کے احکامات کی نئی تاویل کی گئی اور اس کے افکار کو نشانہ بنایا گیا  تاکہ یہ صرف مساجد تک محدود ہو  جائے اور  چند انفرادی  اعمال  پر اثر انداز ہو سکے۔ چنانچہ شریعت پر مبنی خلافت کے قیام  کا طریقہ کاربڑے فرائض میں سے ہے جس کی حدبندی ہمارے رب نے کی اور جس کی اتباع ہمارے رسول ﷺ نے کی۔


یہ ناگزیر تھا کہ مسلمان خلافت کے دوبارہ قیام کو زندگی اور موت کا مسئلہ بناتے اور اس  کی جانب قدم اٹھاتے تاکہ دین عملی زندگی میں قائم ہوتا اور امتِ مسلمہ اپنی کھوئی ہوئی شان اور مقام پاتی جو اللہ نے اس کو بخشی ہے یعنی ایسی بہترین امت جو تمام انسانیت کے لئے نکالی گئی ہے۔ نہ صرف  یہ کہ دوبارہ اسلامی ریاست کے قیام کی  جدوجہد ہو بلکہ اس طریقہ کار کواختیار کرنا لازم  ہے جس پر چل کر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔


 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾

" آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور جو میرے ساتھ ہیں اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں۔"[یوسف: 108] 

 

یہ اللہ تعالیٰ وحدہ  لا شریک کا اپنے نبی کریم ﷺ اور جو انکے نقشِ قدم پر چلیں کی جانب خطاب ہے کہ وہ ایک مخصوص راہ اختیار کریں جو واضح اور  سیدھی ہو اور ان کی  دعوت  الی اللہ  واضح بصیرت کی مانند یعنی روزِ روشن کی طرح  عیاں ہو جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو۔


حق اور باطل کے مابین کشمکش  اورکفار  بشمول اس کے اتحادی اور ایمان والوں بشمول ان کے اتحادی کے مابین  ایک  نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے، باالخصوص شام کے مسلمانوں  پر ٹوٹنے والے ظلم کے پہاڑ  اس کا واضح ثبوت ہیں۔ کفر کے علمبردار ممالک اور سازشی ممالک نے اپنے تمام اسلحہ اورسازوسامان  کو یکجا کر کے  انقلابیوں کا خاتمہ کرنا چاہا جنہوں نے اسلام کا نعرہ بلند کیا، مجرم اور کفار کی ایجنٹ ریاست کو جڑ سے اکھاڑنے کی خاطر اللہ کی راہ میں عظیم قربانیاں دیں۔


اس جدوجہد میں یہ کافی نہیں کہ خلافت سے دل میں محبت کی جائے اور اللہ کے دین کو خالی نعروں سے  مدد دی جائے، بلکہ ہمیں اس کی جانب اس طرح قدم اٹھانا چاہیے جیسا اللہ رب العزت نے  متعین فرمایا اور ہمارےقول و فعل میں اس کا اظہار ہونا چاہیے ۔اور اس کی مثال ہمیں نبی کریم ﷺ کی سنت میں ملتی ہے جب انہوں نے  اللہ کی پکار پر لبیک کہا جب  اللہ نے فرمایا:

 

 

﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ﴾

"پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے! اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے۔"[الحجر: 94]


پس نبی کریمﷺ  اور آپ کے ساتھ ایمان  لانے والوں نے قریش کے ظلم و ستم کے باوجود اسلام کی دعوت کو کھلم کھلا  بیان کیا اور علی الاعلان  حق کے ساتھ ان کو للکارا۔


یہ واضح جواب ہے ان  لوگوں کےلئے جو  کفار کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر یا ان سے نہ الجھنےکی وجہ سے خلافت کے منصوبے کو چھپانا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کافر مغرب   کبھی ان سے راضی نہیں ہونگے جب تک یہ ان کے مذہب کی پیروی نہ کریں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

 

﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾

"آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔" [البقرہ: 120]


لہذا اس خلافت کے منصوبے کو اپنانا کامیابی  کے لئے شرط ہے اور کھلم کھلا اعلان کرنا  اس کےطریقہ کار  میں سے ہے جو لازم و ملزوم ہے۔ نصرت  کا شرف حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے  اور  اس طرح  امت کے سپوتوں کو خلافت   کے منصوبے کو اپنانا چاہیے جس میں گہرائی ہو اور ان کی زندگی کا مہور ہو ، یہی کارِ عظیم ہو گا۔ تب ہی کافر مغرب کو شکست ہو گی، اس کے بوسیدہ اور غلیظ نظاموں سے چھٹکارا ملے گااور اسی سے ہمارے دشمن ڈرتے ہیں۔


ہچکچاہٹ میں پھنسے،  مایوس اور ہمت ہارے  لوگ  جو ظالم کے خوف سے حیلے اور  بہانے تراشتے ہیں کہ  انتقام اور فساد سے بچے رہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس معاملہ کو سلجھا دیا اور احمدؒ سے مروی حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«لا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ رَهْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا رَآهُ، أَوْ يُذَكِّرَ بِعَظِيمٍ، فَإِنَّهُ لا يُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ، وَلا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ أَوْ يُذَكِّرَ بِعَظِيمٍ»

"تمہیں لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، بیشک حق بات کہنا نہ تو موت کو قریب کرتا ہے نہ ہی رزق کو دور کرتا ہے۔" (مسند احمد)


اے شام کے صابر مسلمانو!
بے شک کرب طویل ہو  چکا،  تکلیف شدت اختیار کر چکی اور  عظیم قیمت ادا کی گئی۔ آپ لوکوں  نے  اپنے اطراف میں دشمن کو جمع ہوتے دیکھا ہے، دوست ہونے کے دعویداروں کو دستبردار ہوتے دیکھا ہے،  لیکن سوائے اللہ رب العزت کے ہمارا کوئی مددگار نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان ایمان والے بندوں سے نصرت کا وعدہ  کیا ہے جو اس کی مدد کریں  یعنی حق کا ساتھ دیں، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور  رسول اللہﷺ اور  صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر آگے بڑھیں۔


پس اے سچے اور صابر لوگو!

آگے بڑھو اور ہمارے ساتھ عہد کرو  جو ہمارےاور رب کے مابین  ہو گا کہ  ہم اللہ کی مدد کریں گے  جو  نصرت کرنے کا حق ہے،  ہم اپنے دین  کا  برملا اعلان کریں گے اور اسے اپنا منصوبہ بنائیں گے یعنی "الخلافة الثانية على منهاج النبوة" کا منصوبہ، اور اللہ کی خاطر ہم کسی ملامت گر کی پرواہ نہیں کریں گے۔ اور ہم ان مخلص ساتھیوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالیں گے جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ اسے قائم کر کے رہیں گے تاکہ اس دنیااور آخرت میں سرخروں ہو سکیں  اور وہ اللہ  کی شریعت  کے نفاذ کو دیکھ سکیں اور صرف رسول اللہ ﷺ کا رایہ (جھنڈا) لہرا تا رہے۔ اس میں ہماری  عظمت ، نجات اور  قلبی سکون ہے۔ اور یہ کوئی خواب نہیں اور نہ ہی کوئی دجّال کا وہم ہے بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے جو سچائی کے منبا ہیں اور یہ اللہ کا وعدہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾

"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں۔" [النور: 55]

ہجری تاریخ :18 من محرم 1360هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 28 ستمبر 2018م

حزب التحرير
ولایہ شام

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.