السبت، 10 شوال 1445| 2024/04/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بنگلہ دیش میں ریاست کی بنیادکیا ہو گی:نام نہادآزادی کے نام پر سیکولرازم یا اسلام؟

 

 

ملک کے قیام کے بعد  سے ہی بنگلا دیش پر سیکولر ازم کے ذریعہ حکومت کی جارہی  ہے، کبھی عوامی لیگ نام نہاد آزادی کے  نام پر حکومت کرتی رہی ہے  توکبھی کچھ دیگرنعروں کے ساتھ جاتیا  پارٹی(Jatiya Party) اور بی این پی حکومت کرتی رہیں ہیں ۔ تاہم اس ملک کے مسلمان عالمی اسلامی امت کے ایک حصہ کے طور پردنیا  بھر میں اسلامی احیا  ءسے الگ تھلگ نہیں رہے ہیں ۔ اور خاص طور پر اس صدی کے آغاز کے بعد سے،اسلام کی ترقی، توسیع، عوامی حمایت اور اسلامی سیاسی تحریک  میں بہت تیز  رفتاری سے ضافہ ہوا ہے: اور اسلام کے ذریعہ حکمرانی (خلافت) کا مطالبہ، ایک مقبول مطالبہ بن گیا ہے۔اِن حالات نےسامراجی صلیبی  طاقتوں،امریکہ اِس کے  اتحادیوں اور اُس کے مسلط کردہ کرپٹ ایجنٹ حکمرانوں کو پریشان کردیا ؛اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کراسلام کوحکمرانی تک پہنچنے سے روکنے کے لئے  کام شروع کردیا ،اور ہر ممکن سازشیں اور منصوبہ بندیاں کیں۔ تاہم حالات اِن  کےحق میں نہیں تھے اور اسلام کا سفر اور اسلامی حکومت کے لئے کام ہر گزرتے  لمحہ  کے ساتھ نئی بلندیوں تک پہنچ گیا۔اسی لیے جب  گلشن حملہ  واقع ہوا  تو  انہوں نےاسے  ایک بہت بڑا موقع جانا تاکہ اسلام کے خلاف اپنی لڑائی کو  ایک نیا جوش  ولولہ دے سکیں۔

 

اول یہ کہ انہوں نےاسلام اورخلافت قائم کرنے کے لئےاُس کے سچے سیاسی کام کو بدنام کرنے کی مہم  شروع کی اور  اسلام اور اسلامی حکمرانی  کا تعلق غیر انسانی  قتل   وغارت گری، تشدد،درندگی اور سفاکی میں مشہور عالمی بدنام زمانہ داعش   ISISسے جوڑ دیا ۔ شیخ حسینہ  نےالزام لگایا   کہ "نوجوانوں کے ذہن  مذہب کے حق میں بدل دیے گیے ہیں"اور اُس کے امریکی آقاؤں نے ملک میں داعش ISISکی موجودگی کا  شور مچانا شروع کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ گلشن حملے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس طرح کے حملے اسلامی تعلیمات کے منافی اور حرام ہیں۔اس کے علاوہ،  بین الاقوامی صورتحال سےآگاہ سیاستدان اِس بات کا اچھی طرح اِدراک رکھتے ہیں کہ داعش ISISجیسی تنظیموں کا فائدہ صرف امریکیوں اور اِن کےمنصوبوں کو پہنچ رہاہے۔امریکیوں نے عراق کے شہر موصل میں اِن کی موجودگی کے لیے سہولت فراہم کی تاکہ نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ملک  کو تقسیم اور توڑا جاسکے۔اور شام میں وہ جلادامریکی ایجنٹ بشار الاسد کی حمایت کے لئے اُس کواستعمال کر رہے ہیں جو کہ اپنے ہی لوگوں   کا  قتلِ عام کررہا ہے جو اُس کے ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔جب شام کے عوام بشار کے خلاف متحد ہوئے تاکہ اُسے  حکومت سے برطرف  کرسکیںاور خلافت قائم کرسکیں،عین اسُی وقت داعشISISنمودار ہو ئی اور بغاوت کرنے والے گروپوں کے خلاف لڑنا شروع کر دیا، پھر اُس نے شریعت کے اصولوں کے بَر خلاف خلافت کےلیے خود کا اعلان کر دیااور خلافت کو بدنام کرنے کا ایک آلہ بن گئیہے۔

 

دوم، ظالم حسینہ اور اِس کی حکومت نےملک کے مسلمانوں کو اس طرح دہشت زدہ کرنا شروع کر دیا کہ جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔نجی یونیورسٹیوں کے طلباء ، زمینداروں، کرایہ داروں، انڈرگریجویٹ، خواتین، علماء …غرض پورا معاشرہ  اِس کےبڑھتے ہوئے ظلم کا ہدف اور شکار ہے،جبکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیےایسے جابرانہ قانونی حفاظتی اقدامات بنائےجارہے ہیں تاکہ اسلام کی خواہش کودبایا ، لوگوں کواسلامی سیاسی کام سے دور رکھا، اوراسلامی پُکار کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جاسکیں۔اور حکومت کےغیر ملکی آقاؤں نےاپنی غلامی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برے کاموں کے بدلے حسینہ کی خدمات سے  خوش ہو کہ اسے انعامات سے نوازا۔

 

آخری ،مگراتنا ہی اہم یہ کہ وہ جارحانہ انداز میں سیکولر ازم کے تصور کو فروغ دے رہی تھی تاکہ اُسےمعاشرے میں زیادہ گہرائی سے قائم کرسکے۔اور یہاُس کا بڑھتا ہوا ظلم میان سے نکلی ہوئی وہ تلوارہو جسے لوگوں کے سامنے اس طرح لہرایا جارہا ہوکہ گویا اُنہیں بتایا جارہاہو کہ"تمہاراسیکولرازم قبول کرنا لازمی ہے ورنہ…!"پوری ریاستی مشینری - صدر، وزیر اعظم، آئی جی پی، آر اے بی، ڈی جی،بکے ہوئے دانشور، اخبار کے ایڈیٹرز اور میڈیا شخصیات…تمام کے تمام  سیکولر ازم کی وکالت میں بلا سوچے سمجھےمصروفتھے اور دعویدار تھے کہ یہ ہی ہم آہنگی،امن اور ترقی کاواحد راستہ ہے اوریہ کہ ریاستِ  بنگلا دیش کو اس بنیاد پر مضبوطی سے رہنا چاہئے۔یہ  اس  حد تک بڑھ گئے کہ  اُن لوگوں کو ڈرانے دھمکانے لگے کہ جن کے اپنے ذاتی اعمال میں عبادات بھی  اِن کے اسیکولر نظریات سے متابقت نہیں  رکھتی۔وہ مسلمان جو ٹھیک تلفظ سے " سلام" کہے  اُسے شک کی نگاہ سے دیکھا  جاتا ہے۔انہوں نے  نہایت بے شرمی سے  والدین سے کہا  کہ اگر اِن کے  لڑکوں کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہےتووہ  انہیں  ترغیب دیں۔انہوں نے لوگوں سے ایسے اشخاص کی مخبری کرنے کو کہا کہ جو  پہلےاسلامی عبادات  سے دور تھےمگر اب  باقائدگی سے  اِن پر عمل کرتے اور نماز ادا کرتے ہیں۔

 

﴿أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

"یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی، تو نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب  ہی ہوئے"(البقرۃ: 16)

 

سیکولر ازم کا   نظریہ کافر مغربی مبدے  (سرمایہ داری) کا عقیدہ ہے۔یہ نظریہ تمام مذاہب( بشمول اسلام ) کا ریاست اور زندگی کے معاملات سے علیحدگی کا مطالبہ کرتا ہے،چاہےیہ معاملہ حکمرانی سےہو یا پھر معاشیات، عدلیہ، تعلیم، یا امور خارجہ سےہو… سیکولر ازم کے نظریہ کے مطابق،خالق پر ایمان ایک ذاتی معاملہ ہے،اوریہ  ضروری ہےکہ اسے ملک کے امور کو منظم کرنے میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی   چاہیے۔ یہ ایک مکمل طور پر غلط نظریہ ہے،کیونکہ یا تو اللہ تعالیٰ کا وجود ہے یا اُن کا وجود نہیں ہے،اوراگر اُن کاوجود نہیں ہے تو سیکولر ازم کوایک ذاتی عقیدے کے طور پر لینا بھی درست نہیں ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ کا وجود ایک  یقینی اور  ثابت شدہ سچائی ہے ،اسی لیے  اللہ تعالیٰ نے انسان  کےتمام امور  منظم کیے ،چاہے یہ کوئی ذاتی معاملہہویاعوامی  معاملہ.اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ

"سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے" (سورۃ اعراف: 54)۔

 

 

اسلام ایسےنظریہ کو مسترد کرتا ہےجس میں اللہ تعالیٰ خالق ہو جبکہ قانون سازی کسی اور کے لئے ہو،﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ"حکم صرف اللہ کا ہے" (سورۃیوسف: 40)۔ اسی طرح اسلام کہتا ہے کہ

﴿وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ

"اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے" (سورۃآل عمران: 189)۔

 

نہ وہ جو  سیکولر کہتےہیں"قیصر کو دو جو  قیصر کا ہے اور خدا کو جو خدا کا ہے"، قیصر، اس کا تخت، اس کی سلطنت اور اس میں جوہے سب کچھ اللہ کے احکام کے تابع ہیں۔اسلام  یہ ہرگز قبول نہیں کرتا کہ صرف مساجد اللہ کے لئے ہیں جبکہ پوری ریاست شیخ حسینہ کے لئے ، اورنہ ہی  یہ قبول کرتا ہے کہ صرف  نماز اور روزے کے لئے توقانون سازی اللہ کے لئے ہے، جبکہ حکومت، معیشت اور عدلیہ وغیرہ کے لئے قانون سازی شیخ حسینہ کے لئے ۔ اس طرح  کاتصوراللہ (عزوجل) کے ساتھ شریک ٹہرانے کے زمرے میں آئے گا:

 

﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ

" کیا اُن کے لئے کچھ (ایسے) شریک ہیں جنہوں نے اُن کے لئے دین کا ایسا راستہ مقرر کر دیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا تھا" (سورۃ الشوریٰ:21)

 

جہاں تک سیکولر وں کےاس دعویٰ کا تعلق ہے کہ اگر  ریاست کسی ایک دین پر قائم  کی  جائیگی تو یہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ظلم کی وجہ بنے ہو گا،تو اس دعویٰ کا   اسلام سےکوئی تعلق نہیں ہے۔تمام مذاہب کے لوگ اسلام کے سائے تلے شانہ بشانہ رہتےتھےاور کسی کو بھی ان کے مذہبی عقائد اور طرزِحیات کی وجہ سے  ڈرایا  دھمکایا  

نہیں گیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

 

«وَمَنْ يَكُنْ عَلَى يَهُودِيَّتِهِ أَوْ عَلَى نَصْرَانِيَّتِهِ فَإِنَّهُ لا يُفْتَنُ عَنْهَا وَعَلَيْهِ الْجِزْيَةُ»

"جوکوئی یہودیت پر ہے  اور جوکوئی عیسائیت پرانہیں اپنے  عقیدے سے دور ہونے پرمجبور نہ کیا جائے"۔

 

اور آپ ﷺ نے فرمایا,

 

«ألا مٓنْ ظَلَمَ مُعَاهِداً أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئاً بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ فَأَنَا خَصْمُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»

"کہ جس  کسی نے بھی ایسے آدمی کے ساتھ ظلم کیا کہ جس کےساتھ عہد کیا جاچکا ہو، یا  اُن کےکسی بھی حق  پر پابندی لگائی، یا اُن پر اُن کی برداشت سے زیادہ عائدکیا ، یا  اُن سےاُن کی اجازت یا معاہدے کے بغیر کچھ لیا تو قیامت کے دن وہ  مجھے اپنا مخالف  پائے گا"۔

 

اور  یہ  لو گ جوسورۃ الکا فرون  کاسیکولرزم کے حق میں ہونے کا  حوالہ دیتے ہیں کہ  

 

﴿لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ

"تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین"(الکافِرون: 6)،

 

تو اس  کا مطلب اصل میں اس کے برعکس ہے۔ اس کا مطلب وہ نہیں کہ جو  یہ دعویٰ کرتے  ہیں کہ"ریاست سب کے لئے ہے جبکہ ہر ایک کے لئے اُس کا  اپنا مذہب ہے"اوریہ کہ  ریاست کسی ایک مذہب کی بنیاد پرقائم نہیں ہے۔اصل میں اس  آیت کے معنی ہیں کہ اسلام   کافروں کے مذہب  سے بالکل الگ اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔یہ آیت نازل ہوئی تھی دراصل کفرکوفیصلہ کن طور پرمستردکرنے کےلیےکہ  جب مکہ کے سرداروں نے آپ ﷺ کو اسلام اور اپنے دین کے درمیان ایک معاہدے کی پیشکش کی۔آپﷺنے ان کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اس دعوت کواُس وقت تک جاری رکھیں گےکہ جب تک اسلام لوگوں کے لیے ایک سچے دین  کے طورپر غالب نہ ہو جائے۔اور آپ ﷺ نے فرمایا

 

«وَاللَّهِ يَا عَمِّ، لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِي يَمِينِي، وَالْقَمَرَ فِي شِمَالِي، عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الأَمْرَ مَا تَرَكْتُهُ، حَتَّى يُظْهِرَهُ اللَّهُ، أَوْ أَهْلِكَ فِيهِ»

"اللہ کی قسم،اگریہ لوگ میرےدائیں ہاتھ پہ سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ پہ چاند، تا کہ میں اس معاملے کو چھوڑ دوں،تو میں اسے نہیں چھوڑوں گایہاں تک کہ اللہ اس کو غالب کردے یا مجھےاس کے لئے فنا"۔

 

لہذا اسلام سیکولرازم کو مسترد کر تاہےاور ریاست کی بنیاد کے طور پر اسے اپناناکفر ہے۔مسلمانوں کے لیے ممنوع ہےکہ وہ اس  پر یقین رکھیں، اسے اختیار کریں،اس کی طرف دعوت دیں،اس کی ترویج کریں،اس کے تحت زندگی گزاریں یا اس کی حکمرانی قبول کریں۔اسلام مسلمانوں کو منع کرتاہےکہ وہ اپنے معاملات کا  فیصلہ کرنے میں اسلامی اتھارٹی کے سواکسی کا سہارا لیں۔

 

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ

"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ جو تم پر نازل ہوا اور جو تم سے پہلے نازل ہوا  ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ غیراللہ(جھوٹےقاضیوں، حکمرانوں، رہنماؤں)کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کو رد کردیں"(سورۃ النساء: 60)

 

اسلام نےمسلمانوں پرخلافت کو حکمرانی کے نظام کے طور پر مقرر کردیاہے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے ،

 

عَنْ النَّبِيِّ r قَالَ: «كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ»

"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءکرتے تھے،جب کوئی نبی وفات پاجاتا  تو دوسرا نبی اس کی جگہ لےلیتا ،میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے،بلکہ بڑی کثرت سے خلفاءہوں گے۔صحابہ نے پوچھا: آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے  ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرو اورانہیں ان کا حق ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی"

 

اور یہ ہے وہ جس کی طرف ہم دعوت دےرہے ہیں، اے مسلمانو! آپ کفر سیکولرازم  کو ریاست کی بنیاد کے طورپرہونے کو مسترد کردیں،اس کے ذریعہ حکمرانی کو ہرگز قبول نہ کریں،موجودہ حکومت کو ہٹا کےاسلام کی بنیاد پر ریاست قائم کریں، ریاستِ خلافت جو آپ کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کےمطابق آپ پر حکومت کرے گی،جس کی وجہ سےانشاء اللہ دنیا اور آخرت میں  بھلائی  حاصل ہوگی۔

 

﴿وَمَنْ أَحْسَنُ مِنْ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

"کیا وہ (تم سے) زمانہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اہلِ ایمان کےلیے اللہ سے بہتر حکم کون کرسکتا ہے"(سورۃالمائدہ : 50)

 

ہجری تاریخ :18 من صـفر الخير 1438هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 18 نومبر 2016م

حزب التحرير
ولایہ بنگلادیش

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک