Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي
ولایہ شام

ہجری تاریخ    13 من شـعبان 1437هـ شمارہ نمبر:
عیسوی تاریخ     جمعہ, 20 مئی 2016 م

 

" تم میں سے جوشخص اس مہینے کو پائے، اسے  روزہ رکھنا چاہیے"

 

مشرق  سے مغرب تک امت مسلمہ اور رمضان المبارک، خیرو نعمت ، رحمت و مغفرت  اور آگ سے آزادی کے مہینے کے درمیان چند دنوں کا فاصلہ رہ گیا ہے۔  تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم پر اس فضیلت والے مہینے کا احسان کیا۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں پوری امت ایک ہی دن روزہ رکھنے  اور ایک ہی دن عید منانے کی خواہش مند ہے ، کہ یہی وہ دن ہے جب امت مسلمہ کی وحدت کاعملی مظاہرہ ہوتا ہے۔  مگر کئی سالوں سے سرکش حکمرانوں کے تسلط کے سبب، جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقے کا بیج بویا، مسلمانوں کو اس خیر سے محروم کررکھا ہے،جس میں ان کے روزے اور عیدین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے چاند کو بھی ان سیاسی سرحدوں کے تابع کردیا جن کو کفار نے مسلمانوں کے درمیان کھینچا تھا، جبکہ درباری علماء نے اس کی اجازت دے دی یا اس پر خاموشی اختیار کی۔

 

اے مسلمانو!

 

مسلمان رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد میں  اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی دن روزہ رکھتے تھے اور ایک ہی دن عید مناتے تھے۔   اُس دن سے ہی جس دن رمضان کے روزے اللہ کے اس فرمان کے ذریعے فرض کیے گئے :

 

فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ

"تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اسے روزہ رکھنا چاہیے "(البقرۃ:185)

 

رسول اللہ ﷺنے اس معاملے کی ہر پہلو سے پابندی کے لیے اس کو عملاً نافذ کرنے کا اہتمام کیا اور اس کو واضح کیا جس میں  رمضان کے مہینے کی ابتداء بھی شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صوموا لرویتہ و افطروا لرویتہ، فان غبِّی علیکم فاکملوا عدّۃ شعبان ثلاثین"چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر افطار کرو، اگر بادل ہوں تو پھر شعبان کے تیس پورے کرو"(بخاری)۔ اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں  رسول اللہ ﷺ نے تمام مسلمانوں کو  رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا حکم دیا۔  احادیث کے الفاظ عام ہیں کیونکہ "صوموا(روزہ)۔۔۔وافطروا(افطار کرو)" میں  جمع کی ضمیر  عموم پر دلالت کرتی ہے جو تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ اسی طرح "رویتہ"(اسی کو دیکھ کر) اسم جنس ہے جو کہ ضمیر کی طرف مضاف ہے جو عموم پر دلالت کرتی ہے۔

 

قابل احترام سنت نے  یہ واضح کیا کہ  روزہ رکھنے کے لیے ہر مسلمان کی جانب سے  خود چاند دیکھنا مطلوب نہیں،  بلکہ ایک مسلمان کا چاند دیکھنا تمام مسلمانوں کے لیے کافی ہے۔  چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے  کہ انہوں نے کہا:  ایک بدو رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں نے چاند دیکھا ہے- یعنی رمضان کا چاند- آپ ﷺ نے فرمایا : اتشھد ان لا الہ الّا اللہ ؟" کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟" اس نے کہا: کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا: اتشھد انّ محمدا رسول اللہ؟"کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟" اس نے کہا : کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یا بلا اذّن فی النّاس ان یصوموا غدا "اے بلال لوگوں کے لیے اعلان کرو کہ کل روزہ رکھیں" (الحاکم)۔  اس کے بعد سنت رسولﷺ نے یہ بھی بیان کیا کہ مسلمانوں کا کسی بھی علاقے میں چاند دیکھنا دوسرے علاقوں  کے مسلمانوں کو بھی پابند کرتا ہے۔اور ایسا اس لیے ہے کہ کسی مسلمان کو کسی دوسرے مسلمان پر یا کسی ایک علاقے کو کسی دوسرے علاقے پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے۔ انصار کی ایک جماعت سے روایت کی گئی ہے کہ :

 

غمّ علینا ھلال شوّال فاصبحنا صیاماً، فجاء رکب من آخر النھار فشھدوا عند النبی ﷺ انھم راوا الھلال بالامس، فامرھم رسول اللہ ﷺ ان یفطروا ثم یخرجوا لعیدھم من الغد

"بادل کی وجہ سے ہم شوال کا چاند نہیں دیکھ سکے اس لیے روزے سے ہی رہے، دوپہرکو ایک قافلہ آیا اور انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے یہ شہادت دی  کہ انہوں  نے کل چاند دیکھا تھا،  رسول اللہ ﷺ نے ان کو افطار کرنے اور کل عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا"(احمد)۔

 

یوں رسول اللہ ﷺ نے ان مسلمانوں کی شہادت پر اکتفا کیا جو کسی دوسرے علاقے سے مدینہ منورہ پہنچے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو،  بلکہ اہل مدینہ کو اپنے ان بھائیوں کی رویت ہلال  پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اس سنت کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے اس معاملے کو واضح کر دیا۔   رمضان کے روزے تمام مسلمانوں پر فرض ہیں، ان کا روزہ  کسی بھی علاقے کے کسی بھی  ایک مسلمان کی جانب سے چاند دیکھنے سے شروع ہوتا ہے شرط یہ ہے کہ یہ رویت شرعی شرائط اور ضوابط کے مطابق ہو۔  رسول اللہ ﷺ کے عہد سے لے کر آج تک مسلمانوں کے جمہور علماء اور  تمام  اسلامی مذاہب کی یہی رائے رہی ہے ۔

 

اے مسلمانو!

 

بعض فقہاء نےاختلاف مطالع (مختلف علاقوں کے لئے مختلف چاند)کی رائے اختیار کی  اور اس حوالے سے انہوں نے کُریب کی اس روایت پر اعتماد کیا ہے کہ :" ام الفضل نے اس کو معاویہ کے پاس شام بھیجا، وہ کہتا ہے کہ: میں شام پہنچا، اپنا کام کیا  اور میں شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند دیکھا گیا اور جمعہ کی رات میں نے خود بھی چاند دیکھا، پھر میں  مہینے کے آخر میں مدینہ آیا،  عبد اللہ بن عباس نے مجھ سے پوچھا اور ہلال کا ذکر کیا، اورکہا: تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا  ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، انہوں نے کہا: تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جی، لوگوں نے بھی دیکھا تھا اور روزہ رکھا تھا معاویہ نے بھی روزہ رکھا، انہوں نے کہا کہ ہم نے تو ہفتے کی رات دیکھا تھا  اس لیے ہم تیس پورے کریں گے یا پھر چاند دیکھیں گے، میں نے کہا: کیا معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا آپ کے لیے کافی نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں،  ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا ہے "(النسائی)۔ جمہور علماء نے اس کو رد کیا ہے  اور کہا ہے کہ یہ رائے ابن عباس  رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اجتہاد قرآن اور سنت کے عموم کی تخصیص نہیں کرتا۔  اس کے علاوہ یہ اجتہاد  ان عمومی دلائل کے بھی خلاف ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے جن میں سے ایک رسول اللہ ﷺ کی جانب سے باہر سےمدینہ آنے والے مسافروں کی رویت کو قبول کرنا ہے۔ اس رائے کے قائل لوگوں کے درمیان خود "مطالع" کی تحدید اور مسافت کے تعین کے حوالے سے بڑے اختلافات ہیں۔ اگر چہ "اختلاف مطالع" کے اعتبار یا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تقلید یا آج کے زمانے میں تحقیق مناط کے مشکل ہونے یا پھر اُس زمانے میں مختلف علاقوں کے درمیان مواصلاتی رابطوں  کے مشکل ہونے کی وجہ سے اس رائے کے قائل لوگوں کا عذر قبول بھی کر لیا جائے تب بھی  اس فقہی رائے کو رویت ہلال کو کفار کی جانب سے  مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی غرض سے کھینچی گئی سرحدوں  سے مربوط کرنے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔

 

معتبر رویت  آنکھ سے دیکھنا ہے  اگر آنکھ سے رویت ثابت نہ ہو تو فلکی حسابات کا کوئی اعتبار نہیں۔ کیونکہ روزہ اور افطار کو ثابت کرنے کے لیے شریعت میں فلکی حسابات کی کوئی وقعت نہیں،  روزہ یا افطار کا شرعی سبب آنکھ سے رویت ہلال ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اذا رایتموہ فصوموا، واذا رایتموہ فافطروا، فان غمَّ علیکم فاقدروا لہ" جب چاند دیکھو روزہ رکھو اور جب چاند دیکھو افطار کرو ،اگر بادل ہوں تو اندازہ کرو"(بخاری)۔ " فان غم علیکم" کا معنی ہے کہ  اگر چاند بادلوں میں چھپ جائے  اور تمہیں نظر نہ آئے۔  "فاقدرو" کا معنی  فلکی حسابات نہیں  بلکہ مہینے کے تیس دن پورے کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر بادل ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو"(بخاری)۔

 

اے مسلمانو!

 

امت کے روزے کے دن کی وحدت  اسلامی سرزمین کو نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ کی ریاست کے قیام کے ذریعے ایک کرنے پر ہی منحصر ہے، جو امت کی شیرازہ بندی کرے گی، جو اسلام کے شعائر کو حکمرانوں کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق نافذ کرے گی۔

 

ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ  اللہ اطاعت کو قبول کرے اور سارے مسلمانوں کے مصائب کو عام طور پر اور اہل شام کے مصائب کو خاص طور پر دور کرے، اس مہینے کو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی کامیابی کا مہینہ بنا دے، نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ کے قیام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو پوری کر دے، اسلام اور مسلمانوں کو سرخرو کر دے۔

 

ہر سال آپ خیریت سے رہیں۔

 

20 شعبان 1437 ہجری                                                                                                                                                                             

27 مئی 2016 

 

حزب التحریر

ولایہ شام

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ شام
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.