سوال کا جواب: اوباما کا سعودی عرب کا دورہ اور شام پر اس کے اثرات
- Published in امیر حزب التحریر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
پریس ریلیز
پیر 10 مارچ کو رائیٹرز، بی۔بی۔سی اور میڈیا کے دیگراداروں نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پچھلے چند ماہ کے دوران سیکڑوں بچے قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقامی میڈیا نے اس علاقے میں پچھلے تین ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 140 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پیر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 10ملین ڈالر کی امداد اور خالی وعدوں کا اعلان کیا کہ "لوگ جلد ہی اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوجائیں گے اور خوشحالی اس علاقے میں بھی آئے گی"۔
ایک کے بعد دوسری آنے والی پاکستان کی نااہل اور سیکولر قیادت نے قدرتی آفات کو انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے لوگوں پر آنے والی اس آفت میں کئی گنا اضافہ کی ذمہ دار دہائیوں سے جاری ناکام سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں، وسائل کی نامناسب تنظیم، زراعت کے شعبے میں ضرور ت سے انتہائی کم سرمایہ کاری اور پاکستان کی کرپٹ، اپنی جیبیں بھرنے والی جمہوری اور آمر حکومتیں اور حکمران ہیں ۔ اس علاقے میں صحت کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غربت نے ایسی صورتحال کو پیدا کیا جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو سالوں سے ان کے باقیاجات ادا نہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے ذمہ ٹرانسپورٹروں کے 60 ملین روپے کی ادائیگی واجب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ انسانی المیے سے بچا جاسکتا تھا اگر اس کا سامنا کرنے کی تیاری اور احتیاتی تدابیر اختیار کرلی جاتیں لیکن ایسا اس صورت میں ممکن تھا اگر ملک کے حکمران صاحب بصیرت اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتے۔ لہٰذا ان بچوں کی اموات کی ذمہ داری صرف اور صرف سابقہ اور موجودہ سیکولر حکومتوں اور نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تو بنا دیا لیکن اس کو کام میں نہیں لاتے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ کئی مہینے کے قحط اور سینکڑوں اموات کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے اس بحران کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ کیا متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اداروں کو فوراًپہنچ نہیں جانا چاہیے تھا؟ لیکن اس کی جگہ امت پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو ایک ایسے وقت میں مہنگے اور نفیس ترین کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اس امت کے بچے بھوک سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا سب سے اہم قدرتی خزانہ اس کی قابل کاشت زمین اور پانی ہے اور جو دنیا میں گندم، چاول، دودھ، گنا اور چنے کی پیداوار میں سرفہرست ہے، وہاں پر لوگ غربت اور غذائی قلت کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں۔
صرف خلافت ہی سندھ اور پوری مسلم دنیا کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند اسلام کی حکمرانی میں دنیا میں زراعت کی پیداوار کا انجن تھا اور اس کی معیشت کُل دنیا کی معیشت کا 25فیصد تھی اور ایسا صرف اسلام کے معاشی نظام اور زرعی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ خلافت کی دولت اس قدر وسیع تھی کہ وہ دوسرے ممالک کو قدرتی آفات کی صورت میں امداد فراہم کرتی تھی جیسا کہ انیسویں صدی میں عثمانی خلافت نے تین بہت بڑے بحری جہاز جو غذائی اجناس سے لدے ہوئے تھے، اس وقت آئرلینڈ بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ صرف ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلامی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں امت صحیح معنوں میں خوشحالی کے تصور سے آشنا ہوگی۔ خلافت زرعی زمینوں کو منظم اور انہیں سیراب کرے گی اورمسلم دنیا کے بیش بہا خزانوں کو پوری امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہ دولت چھوٹے سے امیر اشرافیہ کے گروہ کی ملکیت میں نجکاری کے نام پر دے دی جائے یا وہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس کے مخلص حکمران اس ذہنیت کے حامل ہوں گے کہ ان پر عوام کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے جنہوں نے اس وقت جب جزیرۃ العرب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تو مصر کے گورنر امر بن العاص کو حکم جاری کیا کہ دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان ایک نہر کے ذریعے غذائی اجناس جزیرۃ العرب بھیجیں اور کہا کہ "اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مدینہ میں بھی غذائی اجناس کی وہی قیمت ہو جو مصر میں ہے تو دریا اور نہریں تعمیر کرو"۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ "میں ضرور یہ کروں گا اور میں اس میں جلدی کروں گا"۔ لیکن مصر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ اس کے نتیجے میں مصر کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ لکھ کردیا کہ "جلدی کرو، اللہ اس تعمیر میں مصر کو تباہ کردے اور مدینہ کو آباد کردے"۔ اس کے نتیجے میں مصر کی دولت میں اضافہ ہوا اور پھر مدینہ نے کبھی 'راکھ کے سال' جیسا قحط نہیں دیکھا۔ قحط کے دوران جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحت خراب ہونے لگی تو ان سے کہا گیا کہ اپنی صحت کا خیال کریں تو انہوں نے کہا کہ "اگر تکلیف کا مزہ نہیں لوں گا تو میں کس طرح دوسروں کی تکلیف کو جان سکوں گا؟"۔ یہ ہے وہ زبردست قیادت جس کا حق سندھ کے بچے رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر نظرین نواز
رکن مرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر
حزب التحریر /ولایہ پاکستان فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی کوشائع کررہی ہے،جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ خلافت کس طرح اختلاف رائے کے احترام کی فضاء قائم کرے گی اورفرقہ واریت کا خاتمہ کرے گی۔
ا) مقدمہ: جمہوریت معاشروں میں تفریق، گروہ بندی اورتصادم کی سیاست کوپروان چڑھاتی ہے، جمہوری معاشروں میں فرقہ واریت انہی اختلافات کاشاخسانہ ہے۔
جمہوریت ایسانظام حکومت ہے جوریاست کے وسائل اور توجہ کو معاشرے میں موجود گروہوں کی سیاسی قوت کے مطابق تقسیم کرتا ہے۔ وہ گروہ جو زیادہ سیاسی قوت اور وزن رکھتے ہیں وہ ملک میں ہونے والی قانون سازی پر زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں اور نتیجتاً اپنے لیے ریاست سے زیادہ وسائل اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ لہذا جمہوری ریاست میں صرف ان شہریوں کے مفادات اور حقوق کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے،جو ریاست پر اس قدر دباو ڈال سکیں کہ ریاست ان کے مطالبات ماننے پرمجبورہوجائے، یوں نمائندہ جمہوریت کاتصور معاشرے میں پائے جانے والے مختلف گروہوں میں عدم تحفظ کااحساس اُجاگرکرتاہے کہ وہ کس طرح ریاست کی توجہ حاصل کر کے اپنے مطالبات منوا سکیں۔
جمہوری معاشرے میں مقامی سطح پرہم سیاسی قائدین کودیکھتے ہیں جواکثراوقات اپنے لیے اس بات کو فائدہ مند بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرے کے اندر تقسیم کی حوصلہ افزائی کریں اورجس گروہ کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں اس کی مخصوص نسلی یاسیاسی شناخت کواجاگرکریں، تاکہ وہ اپنے گروہ کی مخصوص شناخت برقرار رکھ کر اپنے لئے سیاسی وزن پیداکرسکیں اور ریاست کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکیں۔ یوں جمہوری نظام حکومت معاشرے میں تقسیم اور گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کرتاہے، جہاں مختلف گروہ ریاست کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال ہراس ملک کےاندرواضح دکھائی دیتی ہے جہاں جمہوریت نافذ ہے اور جہاں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں جواپنے مفادات اورحقوق کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی جمہوری سیاست کواختیارکیاجاتاہےجو قومیت، نسل اورمسلکی بنیادوں پرمختلف گروپوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کے باعث ایک طرف کراچی میں مہاجر،پٹھان اورسندھی کی تفریق کی بنیاد پر تصادم اور لڑائی کو ہوا مل رہی ہے،تودوسری جانب بلوچستان میں بلوچوں اورپاکستانی حکومت کے درمیان ایک نسلی تنازعہ چل رہا ہے۔ ان تنازعات کی وجہ سے ملک عدم استحکام اورغیریقینی کی صورتحال سے دوچارہے، جسے جب بھی چاہیں،اجنبی قوتیں بھڑکاسکتی ہیں۔
ب) سیاسی اہمیت: سامراجی قوتیں فرقہ واریت کوہوادیتی ہیں۔
ملک میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کی کاروائیوں کی حالیہ لہر کا تعلق پاکستانی حکومت کی غلامانہ خارجہ پالیسی اور اس کی افغانستان پر امریکی قبضے کے لیے سہارا دینے سے ہے۔ افغانستان کے مسلما نوں اور پاکستان کے فاٹا کے علاقے میں موجود ان کے بھائیوں کے ہاتھوں شکست کے خوف نے اور اپنے ملک میں جاری معاشی بحران نے جس نے امریکہ کو کمزور کر دیا ہے، امریکہ کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ خطے میں جار ی امریکہ مخالف مزاحمت کو کمزور کرے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی انٹلیجنس ایجنسیاں پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دھماکوں اور False Flag حملوں کی مہم چلا رہی ہیں تا کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوایا جا سکے اور امریکہ کے خلاف افعانستان میں جار ی مزاحمتی تحریک کو پاکستانی عوام کی نظروں میں بدنام کیا جا سکے۔ یہ امریکہ کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے کہ وہ پاکستان کی فوج اور جنگجوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو بھڑکائے اور اس مقصد کے لیے امریکہ پرتشدد فرقہ وارانہ کاروائیوں کو استعمال کر رہا ہے تا کہ ان گروہوں کو جو امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کو فرقہ وارانہ گروہ ، جو شیعہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، کے طور پر پیش کر کے ان کو بدنام کرے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو امریکہ نے عراق میں استعمال کی جہاں اس نے مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی اور فرقہ واریت کو استعمال کرتے ہوئے امریکی قبضے کے خلاف جاری تحریک کو تقسیم اور کمزور کیا اور عراق پر اپنی گرفت مضبوط کی۔
امریکی غلامی کی پالیسی پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت اورخائن حکمران بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ عو ام پراپنے غیرفطری اقتدار کوبرقرار رکھ سکیں۔ امریکی ایما ءاور حوصلہ افزائی پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی حکومت نے، جوخطے میں اسلام کی واپسی سے خوفزدہ تھی، پاکستان میں فرقہ وارنہ بنیادوں پرتنظیمیں بنانے کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ امت کی اسلام کی طرف لوٹنے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔ آج بھی پاکستانی حکومت مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کوبھڑکانے کی پالیسی پر گامزن ہے تا کہ امریکہ کی اسلام کے خلاف جنگ میں اپنی شمولیت کے لیے جواز فراہم کر سکے۔ مزید براں حکومت ا ور اس کے حواری مسلمانو ں کے درمیان فرقہ واریت کو اس لیے بھی ہوا دیتے ہیں تا کہ ملک میں شریعت کے نفاذ کے بڑھتے ہوئے مطالبے کی مخالفت اور مقابلہ کیا جا سکے اور پاکستان کے لیےسیکولر سول جمہوری حکومتی ماڈل کی ترویج کی جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے لیے مختلف تعلیمی نصاب قائم رکھ کر پاکستانی ریاست مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو برقرار رکھتی ہے۔
ج) قانونی ممانعت: اسلام تمام رعایا کے حقوق کی ضمانت دیتاہے اورمختلف گروہوں کےدرمیان اختلاف رائے کی تعمیری طریقہ سے نگرانی اوردیکھ بھال کرتاہے۔وہ طریقہ یہ ہے۔
ج1۔ شہریوں کے حقوق کی ضمانت احکام شرعیہ کے ذریعے کی جاتی ہے، نہ کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے سیاسی اتھارٹی تک پہنچنے کی قابلیت کے ذریعے۔
جمہوریت کے برعکس اسلام ایسے قومی نمائندوں پریقین نہیں رکھتاجوعوام پرحکومت کرنے کیلئے قانون سازی کریں۔جمہوریت میں یہ طریقہ کارفطری طورپران جماعتوں اورگروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوجنم دیتا ہے، جن کے پاس ریاست کی قانون ساز اتھارٹی پراثرانداز ہونے کیلئے مطلوبہ سیاسی اثرورسوخ موجود نہ ہو۔ اس سے معاشرے میں مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھتی ہےاوران کے درمیان خوفناک قسم کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے، یوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہو کر تقسیم ہوجاتاہے۔ اگر چہ خلیفہ کوانتخابات کے ذریعے چنُا جاتا ہے، مگرنہ توخلیفہ اورنہ ہی مجلس امت (مجلس شوریٰ) کے ارکان کے پاس قانون سازی کا اختیارہوتاہے، بلکہ خلیفہ صرف اورصرف شریعت اور اس کے احکا مات کے ذریعے حکمرانی کاپابند ہوتاہے۔ اسلا م گروہ بندی پر مبنی سیاست کومسترد کرتا ہے۔ اسلامی ریاست میں شہریوں کے د رمیان ریاست کے وسائل شرعی ضوابط کے مطابق تقسیم کئے جاتے ہیں نہ کہ معاشرے کے اندرموجود مختلف گروہوں کے سیاسی وزن کے مطابق۔ اورخلیفہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ نسل، قومیت، دین، مسلک وغیرہ کی بنیاد پرریاست کے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق کرے،بلکہ اس پریہ واجب ہےکہ وہ صرف احکام شرعیہ کی بنیاد پراسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔
حزب التحریر کے مقدمہ دستور کی شق (6) میں ذکرکیاگیاہے "ریاست کیلئے جائز نہیں کہ وہ حکومت، عدالتی امور، لوگوں کے زندگی کے نظم ونسق اوردیگرمسائل میں شہریوں کے درمیان تفریق وتمیز کرے،بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومیت، دین، رنگ ونسل وغیرہ سے بالاترہوکرتمام افرادکو ایک نظرسے دیکھے۔"
دستور کی شق (7) میں یہ واضح کیاگیاہے کہ"ریاست ان تمام لوگوں پرجواسلامی ریاست کےشہری ہوں، چاہے مسلمان ہوں یاغیرمسلم،حسبِ ذیل طریقے سے اسلامی شریعت کونافذ کرتی ہے: 1۔مسلمانوں پربغیرکسی استثناء کے تمام اسلامی احکامات لاگوہوتے ہیں۔ 2۔ غیرمسلموں کوعمومی نظام کے تحت اپنے عقائد وعبادات کی اجازت ہوتی ہے۔ 3۔ مرتد ہونے والوں پرمرتدوں کے احکام لاگوں کئے جاتے ہیں، ایسے لوگ جوکسی مرتد کی اولادہوں اوروہ پیدائشی غیرمسلم ہوں، ان کے ساتھ غیرمسلموں کاسامعاملہ کیاجاتاہے یعنی ان کی حالت پرہے کہ وہ مشرک ہیں یااہل کتاب۔ 4۔ کھانے پینے اورلباس کے امورمیں غیرمسلموں کے ساتھ شرعی احکامات کی حدود میں رہتے ہوئےان کے مذاہب کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے۔ 5۔ غیرمسلموں کے درمیان شادی بیاہ اورطلاق کے امورکوان کے مذاہب کے مطابق نمٹایاجاتاہے، اگرمعاملہ ان کے اورمسلمانوں کے درمیان ہوتوپھراسلامی احکامات کے مطابق طے کیاجاتا ہے۔ 6۔ باقی تمام شرعی احکامات اور شرعی امورمثلاً لین دین، سزائیں، گواہی، نظام حکومت، نظام معیشت وغیرہ کو تمام رعایاپر،خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ریاست برابری کی بنیاد پرنافذ کرتی ہے۔ اسی طرح معاہدین (اہل ذمہ)، مستامنین (اسلامی ریاست کی پناہ میں آنے والے) اورہراس شخص پر جو اسلامی ریاست کے زیرسایہ رہتاہے، ریاست ان احکامات کوناٖفذ کرتی ہے،ماسوائے سفیروں، ایلچیوںاوراسی نوعیت کے دیگرلوگوں کے جنہیں سفارتی امان حاصل ہو۔
ج2۔ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے،اور وہ مسلمانوں کے مابین وحدت کومضبوط کرے گی۔
ریاستِ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے، اس سےقطع نظر کہ شرعی نصوص اوراسلامی تاریخ کے حوالے سے ان کی تشریح کیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت کومضبوط رکھنے کے لیے ریاست خلافت، ذرائع ابلاغ اوریکساں نصاب تعلیم کے نفاذکوبروئے کار لائے گی اورمسلمانوں کے درمیان اسلام کی صحیح فہم کے مطابق بھائی چارے کے ربط کا پرچار کرے گی۔ پوری ریاست میں یکساں تعلیمی نظام مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت کے ربط کو مضبوط کرے گا۔
مقدمہ دستور کی شق (103) اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ "میڈیاوہ شعبہ ہے جوریاست کی میڈیاپالیسی بناتاہے،اوراسے نافذکرتا ہےتاکہ اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کوپوراکیاجائے۔ داخلی طورپریہ ایک قوی اورمتحداسلامی معاشرے کی تشکیل کرتاہے،جوخباثت کونکال باہر کرے اوراپنی خوشبوؤں کوبکھیرتارہے۔ اورخارجی طورپریہ اسلام کوجنگ اورامن کے دوران اس انداز میں پیش کرتاہے جس سےاسلام کی عظمت، اس کے عدل اوراس کی افواج کی قوت کااظہارہوتاہواورانسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے فساد اورظلم کوبیان کرے اوران کی افواج کی کمزوری کو آشکارا کرے۔
شق (177) یہ واضح کرتی ہے کہ "منہج تعلیم ایک ہی ہوگااورریاست کے منہج تعلیم کے علاوہ کسی دوسرے منہج کی اجازت نہیں ہوگی۔ پرائیویٹ سکولوں کی اس وقت تک اجازت ہوگی جب تک کہ وہ ریاست کے تعلیمی منہج، اس کی تعلیمی پالیسی اوراس کے مقصد کی بنیادپرقائم ہوں گے۔ یہ بھی شرط ہوگی کہ ان میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہوگی، مردوزن کااختلاط معلمین اوراساتذہ دونوں کے درمیان ممنوع ہوگا۔مزید برآں یہ بھی شرط ہوگی کہ تعلیم کسی خاص کردہ دین یامذہب یارنگ ونسل کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔"
ج3۔ معاشرے کی بھلائی کی خاطراختلاف رائے کی نگرانی اوراحترام۔
اسلام اختلافِ رائے کی اجازت دیتاہے،اورشرعی طورپرمعتبرنصوص سےاجتہاد کرکے احکام شرعیہ اخذکرلینےمیں اختلاف کی گنجائش کو تسلیم کرتاہے۔ بخاری اور مسلم عمر بن العاص کی سند پر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (اذاحکم الحاکم فاجتہد ثم اصاب فلہ اجران واذاحکم فاجتہد ثم اخطافلہ اجر) "جب قاضی فیصلہ دے اور اجتہاد کرے اور وہ درست ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ اگر وہ فیصلہ کرے اور غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے"۔ یہ حدیث بخاری اورمسلم نے روایت کی ہے۔ مختلف مجتہدین کے درمیان شرعی نصوص میں اسی اجتہادی اختلاف کی وجہ سے فقہ اسلامی کاعظیم ذخیرہ وجود میں آیا۔ اسی نے اسلا م میں مختلف قانونی مسالک کو جنم دیا۔ اسلام اجتہادی آراء میں اختلاف کی اجازت دیتاہے۔ جمہوریت کے برعکس جوقانون سازی کیلئے اکثریت پراعتماد کرتی ہے، جس کی وجہ سے ریاست اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھتی ہے، اسلام ریاست کے قانونی انتظام کے لیے اختلاف رائے کو حل کرنے کیلئے ایک منفرد انداز اپناتا ہے۔ اسلام نے ریاست میں قانون کے نفاذ کے لیے خلیفہ کوہی احکام کی تبنی کاحق دیاہےتاکہ انہیں نافذکیاجائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے خلیفہ پر شرعی احکامات کی تبنی کے حوالے سے بعض پابندیاں بھی لگائیں ہیں۔ مقدمہ دستورکی شق نمبر3 میں ذکر کیا گیا ہے کہ "خلیفہ متعین شرعی احکامات کی تبنی کرے گاجودستوراورقوانین کہلائیں گے۔ خلیفہ جب کسی حکم شرعی کی تبنی کرے توصرف یہی حکم وہ حکم شرعی ہوگاجس پرعمل کرناعوام پرفرض ہوگا، یہ اس وقت سے ہی نافذ العمل قانون بن جاتاہے جس پرعمل درآمد عوام میں سے ہرفرد پرظاہراًاورباطناً فرض ہوگا"۔
قانونی آراء کی تبنی میں جو ریاست میں نافذ کی جائیں گی خلیفہ کیلئےعبادات میں سوائے زکوٰۃ اورجہاد کے تبنی کی اجازت نہیں اور نہ ہی وہ عقیدہ سے منسلک افکار میں تبنی کرے گا۔ یہ چیز ریاست میں مختلف مسالک کے درمیان سیاسی وحدت قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ جیساکہ مقدمہ دستور کی شق (4) میں ذکر کیا گیا ہے "خلیفہ عبادات میں سے زکوٰۃاورجہادکے سوا اور جو کچھ بھی امت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہو کے علاوہ، کسی متعین حکم شرعی کی تبنی نہیں کرےگا۔ نہ وہ اسلامی عقیدہ سے متعلقہ افکارمیں سے کسی فکرکی تبنی کرے گا۔"
علاوہ ازیں اسلام نے خلیفہ کی احکام شرعیہ کی تبنی کومنظم کیاہے، کہ وہ شرعی نصوص سے احکام شرعیہ کے استنباط کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرے گا، اور اس کو صر ف ان احکام کی تبنی کی اجازت ہو گی جو اس نے اس طریقہ اجتہا د کو استعمال کرتے ہو ئے اخذ کئے ہیں جس کی وہ پہلے تبنی اور اعلان کر چکا ہے۔ اس لئے اگرخلیفہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جوشرعی نصوص سے استنباط کرکے اخذ نہیں کیاگیا یا جس کے اخذ کرنے میں اس طریقہ اجتہاد کو استعمال نہیں کیا گیا جس کو خلیفہ پہلے اپنا چکا ہے اور جس کا وہ اعلان کر چکا ہے تو ایسے ہر حکم کو باطل سمجھاجائے گا۔مقدمہ دستورکی شق (37) وضاحت کرتی ہےکہ"خلیفہ احکام شرعیہ کی تبنی میں احکام شریعت کاپابندہے، چنانچہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرنااس کے لئے حرام ہے جس کااس نے "ادلہّ شرعیہ" سے صحیح طورپر استنباط نہ کیاہو۔ وہ اپنے تبنی کردہ احکامات اورطریقہ استنباط کابھی پابندہے، چنانچہ اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جس کے استنباط کاطریقہ اس کے تبنی کردہ طریقے سے متناقض ہو۔ اورنہ ہی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کوئی ایساحکم دے جواس کے تبنی کردہ احکامات سے متانقض ہو۔"
نوٹ: مذکورہ شقوں (3، 4، 6، 7، 37، 103، 177) کےبارے میں قرآن وسنت سے ان کےمکمل دلائل دیکھنے کے لئے مقدمہ دستور کی طرف رجوع کیاجائے، نیز مقدمہ دستورمیں سے ان سے متعلقہ شقوں کودیکھنے کے لئے اس لنک پرویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں:
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
د) پالیسی: خلافت جمہوریت کی گروہ بندی اور تقسیم پر مبنی سیاست کا خاتمہ کرے گی۔
1- جمہوریت کا خاتمہ معاشرے سے گروہ بندی اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر دے گا۔
2- خلافت نسل، قومیت اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے گی اور ان کے معاملات کو اسلام کے احکام کے مطابق منظم کرے گی۔
3- خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے۔ وہ تعلیمی نصاب اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں میں ہم آہنگی اور وحدت کا پرچار کرے گی۔
4- خلیفہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ درست اجتہاد کے ذریعے جو ان قانونی مصادر پر مبنی ہو جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کیے ہیں، قانونی آراء کی تبنی کرے اور اس کی تبنی شدہ احکام کی اتباع تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ خلیفہ کی احکام کی تبنی شرعی احکام کی تابع ہے۔ خلیفہ عقائد اور عبادات میں تبنی نہیں کرے گا۔
5- خلافت تمام حربی ممالک، جن کا سربراہ امریکہ ہے، سے تمام تعلقات منقطع کر لے گی اور پاکستان سے ان ممالک کی سفارتی، فوجی اور انٹلیجنس موجودگی کا خاتمہ کر دے گی۔ یوں امریکہ کی ہمارے علاقوں تک عدم رسائی امریکہ کی مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی قابلیت کو ختم کر دے گا۔
حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے اور اس کے بیان کی سختی سے مذمت کرتی ہےجو ایک اخبار میں بروز جمعہ 14مارچ 2014 کو شائع ہوا۔ اس بیان میں ازبک سفیر نے حزب التحریر کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی اور یہ بے بنیاد الزام عائد کیا کہ حزب التحریر سے منسلک ازبک باشندے پاکستان کے قبائلی علاقے میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ حزب التحریر سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ حزب التحریر ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کی جدوجہد میں رسول اللہﷺکے منہج پر سختی سے کاربند ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ازبکستان کی مجرم حکومت اور اس کے بے شرم اہلکار اسلام کے خلاف کسی بھی محاذ میں اپنے حصہ ڈالنے کے لیے تیاررہتے ہیں۔ اس وقت جبکہ پاکستان کی حکومت مذاکرات اور آپریشن کا ڈرامہ کھیل کر افغانستان کے نام نہاد الیکشن کو کامیاب بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہےاور ان لوگوں کونشانہ بنارہی ہے جو جزوی امریکی انخلاکے نام پرافغانستان میں مستقل امریکی اڈوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، تو ازبکستان کی حکومت بھی آگے بڑھی ہے تاکہ قبائلی علاقے کے مسلمانوں کا خون بہانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی اس نے حزب کے صاف دامن پر کیچڑ اچھالنے کو بھی ضروری سمجھا ،تاہم یہ ازبکستان کی حکومت کی پہلی ناکام کوشش نہیں ہے۔ ازبکستان کی مجرم حکومت ایک عرصے سے حزب التحریر کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث دکھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کی نتیجے میں امت کی نظر میں حزب التحریر کی قدر و منزلت میں اضافہ ہی ہوا۔ کیونکہ امت خلافت کے تصور اور اس کی نگہبانی کرنے والی جماعت حزب التحریر کی پر امن سیاسی و فکری جدوجہد کےطریقہ کار سے آگاہ ہے اور امت اس بات کو بھی جان چکی ہے کہ کس طرح مسلم دنیا کہ غدار حکمران اپنے استعماری آقاؤں کی خاطر اسلام کی واپسی ، خلافت کے دوبارہ قیام کے راستے میں کھڑے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو خلافت کے قیام کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ ازبکستان کی جیلیں اس بات کا سب سے بڑاثبوت ہیں جہاں حزب التحریر کے درجنوں شباب کو شہید کیاجا چکا ہے، محض اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔
حزب التحریر ازبکستان کے سفیر کو خبردار کرتی ہے کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں کہ جب کفار کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والی مسلم دنیا میں قائم مصنوعی حکومتیں کیفر کردار تک پہنچیں گیں ، کیونکہ خلافت کا قیام اب بہت قریب ہے۔ عنقریب خلافت کا قیام ان کے چہروں کو خوف سے بے رونق اور سیاہ کر نےوالاہےا وروہ وقت کیسا ہو گا کہ ازبکستان کے مجرم حکمران کو دنیا میں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس وقت یہ استعماری کفار کہ جن کی خاطر ازبکستان کا حکمران مسلمانوں اور ان کے نظامِ خلافت کے خلاف لڑنے کے لیے دن رات ایک کرتا رہااس سے منہ موڑ لیں گے ، جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے ایجنٹوں کے ناکارہ ہوجانے پر ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ๐ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ ๐ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ ๐ كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ ๐ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ
"وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور وہ آرام کی چیزیں جن میں عیش کررہے تھے ، اسی طرح ہوگیا اور ہم ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنادیا۔ ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی" (الدخان:29-25)
شام کے مسلمانوں پر مغرب کے براہ راست اور مسلمانوں کے حکمرانوں میں سے اس کے آلہ کاروں کی جانب سے کیے جانے والے بالواسطہ حملوں میں شدت آگئی ہے۔ شام میں مسلمان اس مجرمانہ صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی مثال بھی صرف دوسرے مسلم خطوں جیسے چیچنیا، عراق ، افغانستان،وسطی افریقہ اور برمامیں ہی ملتی ہے.....یہ ناگفتہ بہ صورت حال ہمیں اللہ کا یہ فرمان یاد دلاتی ہے: ﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ "وہ ان سے صرف اس بات کا انتقام لیتے ہیں کہ یہ اللہ زبردست اور قابل حمدو ثنا پر ایمان لائے ہیں" (البروج : 8)۔ یہ ہمیں خندقوں والوں کا قصہ یاد دلاتی ہے۔ اللہ کے دشمن اسلام سے کھلی عداوت کے اعلان کی جسارت کر رہے ہیں اور اسلام کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی اپنے دین کی طرف شاندار واپسی اور اپنی عزت کے سرچشمہ "خلافت راشدہ کی ریاست " کے مطالبے سے خوفزدہ ہو کر ان کو بدترین عذاب دے رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمان صرف اس خلافت کے ذریعے سرخ رو اور مغربی کفر اور کفار سیاہ رو ہوں گے۔ سرمایہ دارانہ کافر مغرب کو اسلام کے ذریعے حکمرانی اور دعوت اور جہاد کے ذریعے اسلام کے عروج کے حوالے سے تلخ تجربہ ہے،اسی وجہ سے وہی اس خون ریز یلغار کی قیادت کر رہا ہے جس سے اسلام کے ساتھ اس کے بغض اور اس کے میدان کارزار میں نمودار ہونے کے بارے میں خوفزدگی کا ا اندازہ ہو تا ہے۔ اسلام کے خلاف اس خونخوار جنگ میں دمشق کے درندوں کی حیثیت بھونکتے کتے سے زیادہ نہیں۔
جی ہاں یہ ہمیں اس درد ناک واقعے کی یاد دلاتا ہے جس کو قرآن کریم نے سورۃ البروج میں خندقوں والوں کے قصے کے طور ذکر کیا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو یاددہانی، عبرت اور بہترین نصیحت کے طور پر ذکر کیا ہے، ﴿هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ "ایمان والی قوم کے لیے ہدایت اور رحمت کے طور پر" (الاعراف: 52)۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان: ﴿قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ O النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ O إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ﴾ "خندقوں والے ہلاک کیے گئے وہ آگ جو ایندھن والی تھی جب وہ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے" (البروج : 4-6)۔ یہ ہمیں ان نت نئے طریقوں سے قتل کرنے اور اس کے ہولناک مناظر کو یاد دلاتا ہے جو اب شام میں بمباری، تشدد، ذبح کر کے، جلا کر، زندہ دفنا کر ، کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے اور پھٹنے والے ڈرموں کے ذریعے قتل اور اس کے نتیجے میں بکھرے ہوئے انسانی اعضاء کے مناظر کا مشاہدہ کر کے کیا جاسکتا ہے..... انواع و اقسام کے قتل جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی دل ہل جاتا ہے جس کی مثال انسانیت نے نہیں دیکھی ہو گی۔ جو بھی کہا جائے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے ان جرائم کی تعبیر کرنا زبان کے لیے ممکن نہیں۔ ایسے ماحول میں زندگی گزارنا جہاں ماں باپ کو کھودیا گیا ہو، بچوں سے ہاتھ دھو دیا گیا ہو، شوہروں اور بیویوں سے جدائی کا غم ہو بہنوں اور عزیز و اقارب کا نام ونشان نہ ہو .....
اللہ کا یہ فرمان ﴿وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ﴾ "اور مسلمانوں کے ساتھ جو کررہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے" (البروج: 7) ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو مجرمانہ سازشیں ہو رہی ہیں وہ اس لئے مسلمانوں کی نظروں کے سامنے ہو رہی ہیں تاکہ ان کو خوفزدہ کیا جائے ۔ یوں وہ گناہ عظیم اور ایسے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جس سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں جس کا اعلان انہوں نے بر ملاء کر رکھا ہے۔ اس سے ان کا ارادہ شام اور ہر جگہ کے مسلمانوں کو اسلام کی بنیاد پر تبدیلی کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈرانا ہے۔ وہ مسلمانوں کو اندرونی طور پر ہی شکست دینا چاہتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خباثت سے پُر نتائج حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے جرائم کوایسا مثالی بنا کر دکھا رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے تمام بین الاقوامی قوانین کو روند ڈالا اور اپنے تمام کارندوں کو دوڑا یا جن میں سب سے آگے مسلم علاقوں میں ان کے آلہ کار حکمران ہیں جن کے ساتھ ذلیل سیکولر اور ذہنی طور پر غلام لوگوں کو متحرک کیا.....جن کو امت کے اسلامی منصوبے کو ناکام بنانے اور روشنی کی کرن دیکھنےسے روکنے کے لیے مسلح کیا گیا۔ اس وحشیانہ دشمنی میں رحم اور انسانیت کی ادنٰی ترین علامات بھی مفقود تھیں۔ اللہ کے اس فرمان کی حقیقت واضح ہو گئی کہ: ﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ "ان کا جر م اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ زبردست اور تعریفوں والے اللہ پر ایمان رکھتے تھے" (البروج : 8) درحقیقت تہذیبوں کے تصادم کے میدان میں یہ اس قدر قابل دید سازش اسلام کے سامنے مغرب کی شکست ہے اوریہی اسلام کے غلبے کے قریب ہونے کی بشارت ہے۔ یہ وہی کشمکش ہے جو ہمیشہ حق اور باطل اور اللہ کے دین کے پیرو کاروں اور ابلیس کے چیلوں کے درمیان جاری رہتی ہے اور یہ اس وقت سے ہے جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور یہ قیامت تک جاری رہے گی اورجس کا ذکر قرآن اور سنت نے کیا ہے یہ سب ایک ہی معرکہ ہے اس کی فطرت اور اہداف ایک ہیں۔ یہ وہی معرکہ ہے جو رسول اللہﷺ کی اس حدیث میں مذکور ہے جس کو بخاری نے روایت کی ہے: "خباب بن الارت سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ سے شکا یت کرنے گئے تو آپﷺ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر لیٹے ہوئے تھے، ہم نے عرض کیا: کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کر تے، فرمایا: «كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ» "تم سے پہلے ایک شخص کو زمین میں گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کیا جاتا تھا پھر آری لاکر اس کے سر پر رکھ کر اس کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا لیکن یہ چیز بھی اس شخص کواس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت کے بعد ہڈیوں اور پھٹوں تک کو نکال دیا جاتا لیکن یہ چیز اس کو اس کے دین سے نہیں روکتی تھی،اللہ کی قسم ضرور اس دین کو عروج پر پہنچا یا جائے گا یہاں تک کہ سوار صنعا سے حضر موت تک چلے گا اس کو اپنے مویشیوں کے بارے میں اللہ اور بھیڑیئے کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہو گالیکن تم لوگ جلد بازی کرتے ہو"۔ یہ وہی جنگ ہے جس کا ذکر اللہ نے سورہ البروج میں خندقوں والوں کے بارے میں کیا ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں لازما ایک جیتنے والا اور ایک ہارنے والا ہے، اس میں جیتنے والے کے لیے تقویٰ لازمی ہے اوریہ ہی دشمن کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ صرف اللہ سے ہی مدد طلب کرنی چا ہیے اس کے علاوہ ہر استعانت سے قطع تعلق ہو جانا چاہئے۔ یہ حقیقی جنگ ہے، یہ خباثت کو پاکیزگی سے الگ الگ کر کے رکھ دے گی.....یہ وہ جنگ ہے جس میں آزمائش عظیم اور قیمت بھاری ہوتی ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جس کو ادا کرنے پر اللہ کے ساتھ مخلص ہی صبر کر سکتے ہیں۔ اس جنگ کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اللہ کے لیے اللہ کی خاطر ہے اوراگر یہی بات ہے تو یہ منافع بخش ہے اور کوئی بھی قیمت اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اس تمام میں صرف اللہ ہی گواہ ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾ "اور اللہ ہی ہر چیز پر گواہ ہے" (البروج : 9)۔ اس کے بعدکی آیات اس کے نتیجے کےبارے میں بتاتی ہیں۔ جہاں تک آخرت کی بات ہے تو اللہ تعالٰی کفار کی سزا کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾ "جن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو آزمائش میں ڈال دیا پھر توبہ بھی نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب اور جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10) جبکہ مؤمنوں کے بارے میں اللہ عزّوجلّ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ﴾ "بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں یہی بڑی کامیابی ہے" (البروج: 11)۔
جہاں تک دنیا کی بات ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ کی انہی آیتوں میں اسی سورۃ میں ہمیں بتایا جاتا ہے: ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ O إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ O وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ O ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ O فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ O هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ O فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ O بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي تَكْذِيبٍ O وَاللَّهُ مِنْ وَرَائِهِمْ مُحِيطٌ O بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ O فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ﴾ "یقینا تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے بے شک وہی اکیلا پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی لوٹا تا ہے وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے جو چاہتا ہے کر گزر تا ہے کیا فوج والوں کی بات تم تک پہنچی ہے یعنی فرعون اور ثمود کی بلکہ کافر تو جھٹلاتے ہیں اور اللہ تعالٰی بھی انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے یہ تو قرآن عظیم الشان ہے جو کہ لوح محفوظ میں ہے" (البروج: 12-22)۔
اے مسلمانوں! جن کو اللہ تعالٰی نے اس بات کے لیے منتخب کر لیا ہے کہ ان کا ملک اسلام کا مسکن بن جائے: صبر کرو تم حق پر ہو یہ اللہ کا ارادہ ہے کہ تمام مسلمانوں میں سے تمہیں اس بنیادی تبدیلی کی ابتدا ءکر نے کا شرف حاصل کر لو جس کا مسلمان شدت سے انتظار کر رہے ہیں، اللہ ہی کا ارادہ ہے کہ تم اس کی بھاری قیمت ادا کرو ، اگر یہ قیمت صرف اللہ کے لیے اور اس کی شریعت کو قائم کرنے کی خاطر ہو تو تم اس امت کے اسلاف کے بہترین جانشین ہو، اگر مہاجرین اور انصار السابقون االاولون ہیں تو تم السابقون الآخرون ہو جنہوں نے اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی جیسا کہ اللہ نے فرمایا ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ "اور مہاجرین اور انصار میں سے سابقون اولون اور وہ لوگ جنہوں نے اچھے انداز سے ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو ا اور ان کو راضی کر دیا اور ان کے لیے وہ باغ تیار کرلیا ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے" (التوبۃ: 100)۔ کیا وہ رسول اللہﷺ کے اصحاب اور ہم آپﷺ کے احباب نہیں ؟ کیا ہم میں سے ایک شخص کا اجر ان کے چالیس کے اجر کے برابر نہیں؟ اللہ سے اپنے اجر کی امید رکھو، یقینا رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق تبدیلی کے تمام عوامل شام میں یکجا ہو چکے ہیں۔مسلمانوں کے علاقے بھی مسلمانوں کے ممالک میں سے اس ملک کے ساتھ الحاق کے لیے تیار ہو چکے ہیں جہاں خلافت راشدہ کی ریاست قائم ہو گی۔ اس لیے تم سب سے سبقت لے جانے والے بن کر دنیا اور آخرت کی عزت سمیٹ لو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ O أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ O فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ O ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ O وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ﴾ "سبقت لے جانے والے ہاں سبقت لے جانے والے ہی اللہ کے مقرب ہیں یہی باغوں کی نعمتوں میں ہو ں گے پہلوں میں سے ایک گروہ اور پچھلوں میں سے تھوڑے" (الواقع: 10-14)۔