Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

کتاب کا تعارف: "المقاصد عند الإمام الشاطبيّ"

 

(ترجمہ)

 

تحریر: استاد رشاد الحاج

 

https://www.al-waie.org/archives/article/2522

 

(مجلة الوعي– شمارہ 232 – بیسواں سال – جمادی الاولیٰ 1427ھ – جون 2006ء)

 

حال ہی میں استاد محمود عبد الہادی فاعور کی تالیف کردہ کتاب (المقاصد عند الإمام الشاطبيّ)  شائع ہوئی ہے۔ مجلة الوعي  اس کتاب کا تعارف اپنے قارئین کے لیے اس وجہ سے پیش کر رہا ہے کہ اس میں اصولی اور فقہی تحقیق نہایت سنجیدگی، گہرائی اور ضبط و ترتیب کے ساتھ انجام دی گئی ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں امام شاطبیؒ کے ہاں "مقاصد" کے تصور یا نظریے کی حقیقت کو کماحقہٗ دریافت کرنے کے لیے تحقیق و تتبع کا دامن تھامے رکھا، اور اس پورے عمل میں تجزیاتی اور معروضی طرز کو اپنی انتہا تک برتا۔

 

اس قیمتی کتاب کی نمایاں خصوصیات میں ایک چیز جو جلی طور پر سامنے آتی ہے وہ اس کا بھرپور حوالہ جاتی نظام اور ہمہ گیر تحقیق ہے۔ مؤلف شاطبیؒ کی طرف کسی رائے، ان کے مطلوبہ معنیٰ، کسی اختیار کردہ قاعدے کے مقصد، یا ان کے منہج میں کسی اہم نص کی تشریح کی نسبت اس وقت تک نہیں کرتے جب تک کہ وہ اسے شاطبیؒ کے ایسے نصوص سے نہ جوڑ دیں جو ان کے مقصد اور مراد کو فیصلہ کن انداز میں ثابت کریں۔ درحقیقت، اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والا قاری اس کتاب کے ابواب اور مباحث کی تقسیم اور ترتیب میں محقق کی محنتِ شاقّہ کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہر سابقہ مبحث، آنے والے مبحث کے لیے تمہید ہے، اور ہر آنے والا مبحث، سابقہ پر مبنی ہے، ایک ایسے مربوط فکری اسلوب کے ساتھ، جو قاری کو قائل بھی کرتا ہے اور فائدہ بھی دیتا ہے۔ یہ ترتیب قاری کو شریعت کے مقاصد کے تصور کی پیدائش اور  اس کے ارتقا کے ادراک اور پھر امام شاطبیؒ کے ہاں اس تصور کی تفہیم تک لے جاتی ہے۔

 

اس فکر کی وضاحت کرنے کے بعد، جن اہم اور نازک امور  پر مؤلف نے غور و شرح کے بعد روشنی ڈالی، وہ امام شاطبیؒ کے طریقۂ کار میں معتبر قواعد و اصول کی وضاحت ہے، جیسے: افعال کے نتائج (مآلات الأفعال) کا اصول، مصالح مرسلہ، استحسان، سدّ ذرائع، قاعدۂ اصل و غالب، اور رفع ضرر۔ مؤلف نے ان تمام امور کو نہایت واضح اور تطبیقی انداز میں امام شاطبی کے طریقۂ کار کے مطابق پیش کیا ہے، خواہ وہ قواعد و اصول کومتعین کرنا ہو، یا شریعت کے فہم کا طریقہ ہو۔ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے شاطبیؒ نے اپنی کتاب ’’الموافقات‘‘ لکھی، اور اصولِ فقہ میں اپنے نئے منہجی زاویے کی وضاحت فرمائی۔

 

مؤلف نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر اس بڑے فرق، بلکہ تضاد کو نمایاں کیا ہے جو امام شاطبیؒ کے طریقۂ کار کی حقیقت اور ان دعوی جات  یا نظریات کے درمیان ہے، جو ہمارے دور میں بعض لوگ فقہ یا اصولِ فقہ کی تجدید کے نام پر شاطبیؒ کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ دراصل، یہی وہ امر تھا جس نے مؤلف کو اس پیچیدہ موضوع کی تحقیق پر آمادہ کیا، تاکہ امام شاطبیؒ کے ہاں ’’مقاصد‘‘ کے اصل تصور کو واضح کیا جا سکے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے مقدمے میں کہا:

 

«محقق نے ’’الموافقات‘‘ کا اول سے آخر تک، اور آخر سے اول تک مطالعہ کیا۔ یہ کتاب گہرائی رکھتی ہے، اور مصنف کا ایک خاص مقصد ہے۔ اسے بار بار غور و فکر کی ضرورت ہے۔ لہٰذا محقق نے اس پر یکسوئی سے غور کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ شاطبیؒ پر ایک گروہ کی طرف سے بہتان تراشی کی گئی ہے، اور دوسرے گروہ نے انہیں غلط سمجھا ہے۔حاصل یہ کہ شاطبیؒ ان نسبتوں سے بری ہیں جو ان کی طرف مصالح اور مقاصد کے باب میں کی جاتی ہیں۔ محقق نے شاطبیؒ کی دوسری کتاب ’’الاعتصام‘‘ کا بھی مطالعہ کیا، تو پایا کہ وہ لوگ جو شاطبیؒ کو اپنی ڈھال بناتے ہیں، ان کے نزدیک مبتدعین ہیں۔ ’’الموافقات‘‘ ان کی موافقت نہیں کرتی، بلکہ شاطبیؒ ان سے اور ان کے طریقے سے خبردار کرتے ہیں اور ان پر سخت رد کرتے ہیں۔ یہیں سے اس موضوع پر تحقیق کی تحریک پیدا ہوئی، جس کے اسباب مختصراً درج ذیل ہیں:

 

1- بلاشبہ دین ایک عظیم ذمہ داری ہے اور ہر وہ شخص جو اس کی حقیقت کو سمجھتا ہے، اس کی گردن پر ایک امانت ہے۔ محقق نے اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا فرض جانا کہ وہ یہ واضح کرے کہ "مقاصدِ شریعت" نہ تو شریعت کو منسوخ کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے احکام کو باطل قرار دیتے ہیں۔ اگر مقاصد، فی الحقیقت شریعت ہی کے مقاصد ہیں، تو وہ اس کے تابع اوراس کے فروع  ہیں، جبکہ شریعت اصل ہے؛ اور اصولی طور پر فرع کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اصل کو منسوخ یا باطل قرار دے۔ لہٰذا ہر اُس فکر یا کوشش کا ردّ ضروری ہے جو شریعت کو معطل کرنے یا اس کی حدود سے تجاوز کرنے کی دعوت دیتی ہے، خصوصاً جب ایسی کوششیں "اسلام" کے نام پر کی جائیں۔

 

2- چونکہ بعض افراد نے امام شاطبیؒ اور ان کی  تصنیف "الموافقات" کو بنیاد بنا کر ایسی باتوں کی نسبت ان کی طرف کر دی، جن کا وہ نہ صرف انکار کرتے رہے بلکہ جن سے مسلسل خبردار کرتے رہے۔  اس لیے یہ  واضح کرنا لازم تھا کہ نہ تو شاطبیؒ کے ہاں  اور نہ ہی الموافقات میں ایسی کوئی دلیل موجود ہے جو کسی شخص کو "مقاصدِ شریعت" کے نام پر شریعت کے احکام میں تغیر و تبدل کا جواز فراہم کرے، خواہ وہ اچھے ارادے اور نیت سے ہو یا برے ارادے اور نیت سے۔

 

3- جب شاطبیؒ اور ان کے مقاصد کے تصور یا نظریے کے بارے میں، اور شریعت کو سمجھنے کے ان کے منفرد اسلوب کے بارے میں بہت زیادہ بات ہونے لگی، اور اس کے بارے میں کتابوں، رسالوں، اخبارات کے صفحات پر اور سیٹلائٹ چینلز پر تحقیقات پیش کی گئیں، تو محقق نے محسوس کیا کہ ان میں سے اکثر کا فہم نہ صرف امام شاطبیؒ کی اصل فکر سے بعید ہے، بلکہ ان کے منہج اور تصور کے جوہر تک رسائی حاصل کرنے میں بھی ناکام ہے۔ چنانچہ محقق نے ضروری سمجھا کہ وہ اس باب میں جو بات صحیح سمجھتے ہیں، اسے واضح انداز میں پیش کریں۔» (مؤلف کے مقدمے سے)

 

اور اگر یہ بات درست ہے، جیسا کہ اہلِ تحقیق کے درمیان مشہور ہے، کہ الموافقات ایک مشکل بلکہ نہایت دقیق کتاب ہے ،جس میں شاطبیؒ نے اپنے مقاصد کے تصور اور اجتہاد کے اپنے منہج کو شامل کیا ہے،  اور خود امام شاطبیؒ نے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ نصیحت کی ہے کہ صرف وہی شخص اس کتاب سے استفادہ کرے جو علومِ شریعت میں سیراب ہو، ورنہ یہ علمی نعمت اُس کے لیے الٹا وبال بن سکتی ہے ،  تو ایسی صورت میں مؤلف نے اس موضوع کو عام فہم بنانے کے لیے ایک علمی خدمت انجام دی ہے۔ انہوں نے اصولِ فقہ کے آغاز، اس کی تدریجی ارتقاء، اور "مقاصدِ شریعت" کے تصور کی نشوونما کا ایک مختصر مگر جامع جائزہ پیش کیا ، نیز شاطبیؒ سے قبل کے اصولیوں کی علمی کاوشوں اور ان کے باہمی مناقشات کا بھی خلاصہ بیان کیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب مقاصدِ شریعت میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لیے نہایت سہل اور معتبر انداز میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

 

کتاب میں متعدد اہم اور توجہ طلب نکات شامل ہیں، جن میں سے بطورِ مثال ایک یہ ہے کہ مؤلف نے امام شاطبیؒ کے ہاں "مقاصد" سے مراد کو نہایت وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ یہ وضاحت اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ اس باب میں معاصرین کی علمی کاوشیں، اور شاطبیؒ، ان کے منہج اور ان کے فکری تجدیدی اسلوب کی طرف ان کی توجہات، دراصل شاطبیؒ کے حقیقی منہج سے خاصی دور واقع ہوئی ہیں۔ امام شاطبیؒ نے "مقاصد" کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے: مقاصدُ الشارع (شارع کے مقاصد) اور  مقاصدُ المُکلّف (مکلّف کے مقاصد)۔  شاطبیؒ نے مزید برآں "مقاصدُ المُکلّف" کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے "مقاصدُ الشریعہ" محض ایک نوع ہے۔ اس کے برعکس، معاصرین صرف "مقاصدُ الشریعہ" ہی کو موضوعِ بحث بناتے ہیں اور اسی کو محورِ تحقیق قرار دیتے ہیں۔اس سے بڑھ کر تشویش ناک امر یہ ہے کہ جب معاصر محققین "مقاصدُ الشریعہ" پر بحث کرتے بھی ہیں، تو ان کے تجزیات و تحقیقات کا محور درحقیقت "مقاصدُ المُکلّف" ہوتا ہے، نہ کہ مقاصدُ الشریعہ۔

 

اسی طرح، بیشتر معاصر مباحث اُس بنیادی مقصد کو نظرانداز کر دیتے ہیں جسے شاطبیؒ نے "مقاصد" کی چوتھی قسم قرار دیا، یعنی: "بندوں سے عبادت و اطاعت کا تقاضا"۔ درحقیقت شاطبیؒ کے نزدیک دیگر تمام مقاصد کی غایت بھی اسی مقصد کا حصول ہےیعنی  انسان کو اس کے خالق کی بندگی کے دائرے میں لانا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

 

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

 

"اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے" [سورۃ الذاریات:آیت  56]۔

 

اسی طرح، مؤلف کے دقیق کاموں میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے شاطبیؒ کے استعمال کردہ ہر لفظ یا مفرد کا معنی واضح کیا ہے، جن کا تعلق براہِ راست شاطبیؒ کے منہج اور فکری جدت کو سمجھنے سے ہے۔ انہوں نے ان  الفاظ کے شاطبیؒ کے ہاں معانی واضح کیے ہیں جیسے:سبب، مسبب، حکمت، علت، اصل، جزئی، فرع، احکام کے معانی، مقاصدِ اصلیہ، مقاصدِ تابعہ اور دیگر متعلقہ اصطلاحات۔ اسی طرح، مؤلف نے استقراء (استقرائی طریقہ) سے شاطبیؒ کی مراد کو، اس کے اطلاق کے طریقے کو، اصولوں میں "قطعیت" (یقینی ہونا) کی شرط کو، اور  اس سے استدلال کے طریقے کو نہایت خوبی سے نمایاں کیا ہے۔ یہ بات واضح کی گئی ہے کہ "استقرائی منہج" شاطبیؒ کی فکر کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے، جسے معاصر تجدیدی دعویدار یا تو مکمل طور پر نظرانداز کر بیٹھے ہیں یا اسے سرے سے فراموش کر چکے ہیں۔

 

اور اس طرح مؤلف اپنے قاری کو قدم بقدم لے کر چلتے ہیں تاکہ وہ "مقاصد" کے مفہوم کو امام شاطبیؒ کی منشا اور مراد کے مطابق درست طور پر سمجھ سکے۔ اس رہنمائی کا اگلا مرحلہ یہ ہے کہ قاری یہ جان سکے کہ کوئی مقصد کب اور کیسے "شرعی مقصد" شمار ہوتا ہے، اور کن بنیادوں پر کسی مقصد کو مسترد یا ناقابلِ قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مؤلف قاری کو اس نکتے کا بھی شعور بخشتے ہیں کہ "مقاصدِ شریعہ" کے اندر مراتب پائے جاتے ہیں ، چنانچہ بعض مقاصد "ضروریات" میں شمار ہوتے ہیں، بعض "حاجیات" میں، اور بعض "تحسینات" کے درجے میں آتے ہیں۔ مزید برآں، مؤلف ہمیں امام شاطبیؒ کے اس منہج سے بھی روشناس کرواتے ہیں جس کے تحت انہوں نے مقاصد کو ایک خاص ترتیب میں رکھا: حفظِ دین، حفظِ نفس، حفظِ عقل، حفظِ نسل، اور حفظِ مال۔ اسی تناظر میں مؤلف اس امر کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ، مثال کے طور پر، امامتِ عظمٰی (خلافت) کو امام شاطبیؒ نے "حفظِ دین" کے دائرے میں ضروریات کے زمرے میں شامل کیا ہے ۔ اسی طرح جہاد، نماز اور دیگر تمام ارکانِ دین بھی اسی درجہ میں آتے ہیں۔ اور یہ تمام ترتیب و درجہ بندی عین امام شاطبیؒ کے منہج و تصریحات کے مطابق ہے۔

 

اس کتاب کے تعارف میں جس نکتہ کی جانب اشارہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وہ امام شاطبیؒ کے ہاں "مصلحت" اور "مفسد" جیسے بنیادی الفاظ کے مفاہیم کی تعریف  و تشریح ہے، اور اس بات کی توضیح کہ ایک مصلحت کب "شرعی مقصد" کے درجے میں شمار ہوتی ہے، جسے قانون سازی میں مکلف کے لیے معتبر مانا جا سکتا ہے، اور کب وہ محض مکلف کی انفرادی خواہشات یا رجحانات پر مبنی ایک دنیوی مفاد ہوتی ہے۔ کتاب میں اس باب میں نہایت فیصلہ کن تحقیق پیش کی گئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام شاطبیؒ کے نزدیک "مصلحت" وہی معتبر ہے جس کے متعلق شریعت نے یہ ثابت کر دیا ہو کہ وہ شارع کا مقصود ہے ،  خواہ وہ مخلوق کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو یا نہ ہو۔ اس وضاحت سے یہ بات دوٹوک انداز میں ثابت ہوتی ہے کہ شاطبیؒ کے منہج میں کوئی ابہام نہیں۔ چنانچہ صحیح تعبیر یہ ہے: "شریعت، مصلحت ہے"؛ نہ کہ یہ، جیسا کہ بعض معاصرین غلط فہمی میں مبتلا ہیں: "مصلحت،  شریعت ہے"

 

اسی سیاق میں مؤلف نے "معتبر"، "مرسل"، اور "ملغیٰ" جیسی فقہی اصطلاحات کی تفہیم بھی نہایت شرح و بسط سے بیان کی ہے، نیز ان تعبیرات میں آنے والے "اعتبار" کی مختلف اقسام ،  جیسے "مصلحتِ معتبرہ" اور "مصلحتِ مرسلہ"   کی علمی توضیح بھی کی ہے۔علاوہ ازیں، مؤلف نے الموافقات سے ماخوذ قطعی نصوص کے ذریعے امام شاطبیؒ کے ہاں "وسط" اور "وسطیت" کے مفہوم کو نمایاں کیا ہے، اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کسی بھی مسئلے میں "وسط" کی تعیین کس اصول پر ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے میں وسط کی تعیین کے طریقے کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ "وسط" افراط و تفریط کے دونوں کناروں کے درمیان واقع ہونے والی چیز نہیں، یا اس طرح کی کوئی چیز نہیں۔ بلکہ افراط و تفریط کا تعیّن تو خود "وسط" کی معرفت کے بعد ہی ممکن ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وسط کو  کیسے پہچانا جائے، تو اس کے بارے میں مؤلف ہمارے لیے  شاطبیؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ: «وسط کی پہچان شریعت سے ہوتی ہے»

 

اسی طرح، کتاب  امام شاطبیؒ کا ان فتاویٰ اور اصولی قواعد کے بارے میں مؤقف  بیان کرتی ہے  جو بعض مفتیان کے ہاں رائج ہیں  جیسے: مشقت کی بنیاد پر آسانی، نام نہاد ضرورتیں یا حاجتیں، اور مختلف مذاہب یا فتاویٰ کے درمیان انتخاب کی گنجائش۔شاطبیؒ ان تمام رجحانات کو سختی سے رد کرتے ہیں، بلکہ وہ ان پر شدید تنقید بھی  کرتے ہیں۔

 

اسی ضمن میں کتاب امام شاطبیؒ کا "عرف" یا "عادات" (جنہیں وہ اپنی اصطلاح میں "عادات" کہتے ہیں) کے حوالے سے نظریہ بیان کرتی ہے  کہ شرع میں ان کا اعتبار کس حد تک ممکن ہے، اور کس مقام پر ان کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ امام شاطبیؒ "عرف، مصالح، زمان یا مکان کی تبدیلی سے احکام میں تغیر" کے نظریے، یا شریعت میں "خلا" (vacuum zone) کے دعووں سے متعلق کیا موقف رکھتے ہیں۔ مؤلف ان سب امور  اور دیگر مسائل پر دلچسپ اور مفید تحقیقات پیش کرتے ہوئے  شاطبیؒ کا موقف واضح کرتے ہیں،اور شاطبیؒ کے نصوص سے ان کے مؤقف کو مستند بنیادوں پر واضح کرتے ہیں۔ ان نصوص میں سے ایک یہ قول ہے: "بیشک شریعت کی خصوصیات میں سے ایک 'عموم اور ہمہ گیری' ہے؛ چنانچہ مکلفین کے افعال میں شرعی احکام مطلقاً جاری ہوتے ہیں، چاہے ان  احکامات کے متعلقہ افراد کتنے ہی کثیر کیوں نہ ہوں۔ پس کوئی بھی عمل، حرکت یا سکون ایسا نہیں جس پر شریعت ،  فرداً یا مرکباً ،  حاکم نہ ہو، اور یہی اس کے 'عام ہونے' کا مفہوم ہے۔" اور اس کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے، جیسا کہ شاطبیؒ کہتے ہیں: "شریعت کی خصوصیات میں سے ایک 'زوال کے بغیر اس کا  ثابت رہنا ' ہے؛ لہٰذا جب شریعت مکمل ہو گئی، تو اس کے بعد نہ تو آپ اس میں نسخ پائیں گے، نہ اس کے عموم کی تخصیص، نہ اس کے اطلاق کی تقیید، اور نہ ہی اس کے کسی حکم میں تبدیلی ہو گی ، نہ مکلفین کی عمومیت کے لحاظ سے، نہ ان میں سے بعض کی خصوصیت کے لحاظ سے، نہ کسی بھی حالت کے لحاظ سے۔ بلکہ جو سبب شریعت میں سبب قرار پایا، وہ ہمیشہ سبب ہی رہے گا؛ اور جو شرط قرار دی گئی، وہ ہمیشہ شرط ہی رہے گی؛ اور جو حکم واجب تھا، وہ واجب ہی رہے گا؛ جو مستحب تھا، وہ مستحب ہی رہے گا ، اور یہی تمام احکام کا معاملہ ہے، ان میں کسی قسم کا زوال یا تغیر روا نہیں۔ اگر تکلیف کو دائمی فرض کر لیا جائے، تو اس کے احکام بھی اسی طرح باقی رہیں گے۔" اور مؤلف شاطبیؒ کے اقوال میں سے یہ بھی نقل کرتے ہیں: "چونکہ شریعت ابدی بقاء پر مبنی ہے، لہٰذا اگر دنیا کا باقی رہنا غیر متناہی فرض کر لیا جائے، اور اسی طرح تکلیف بھی، تو شریعت میں کسی مزید اضافے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔"

 

اور کتاب میں (مقاصد کے بہانے سے احکام کی مخالفت جائز نہیں ہے) کے عنوان سے ایک بحث موجود ہے، جو امام شاطبیؒ کے نزدیک "مقاصدِ شریعہ" کی قبولیت اور ان کے صحیح اطلاق کے لیے ایک بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔شاطبیؒ کے نزدیک اگر کوئی مقصد شرعی احکام کے خلاف واقع ہو، تو وہ کسی حال میں "شرعی مقصد" شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ اصولی نکتہ ہے جس کی طرف امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب الموافقات میں بارہا اشارہ کیا ہے۔ درحقیقت، یہ وہی تصور ہے جس کا تعلق شاطبیؒ کے اس مشہور اصول سے ہے کہ شریعت کی کلیات (اصول) اور جزئیات (فروع) دونوں کو ایک ساتھ، مربوط طور پر، لاگو کیا جانا لازم ہے۔ مؤلف نے اس اصول کو  واضح کیا ہے، اور یہ بھی دکھایا ہے کہ یہ اصول شاطبیؒ کے فقہی منہج میں لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ۔

 

مؤلف نے ہمارے عہد کے بعض اصولی محققین اور مصنّفین کی آراء، تعبیرات اور فہمی بنیادوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے ،  بالخصوص ان مقامات پر جہاں وہ " الموافقات" کے حوالے سے امام شاطبیؒ کی طرف بعض اقوال یا تصورات غلط طور پر منسوب کرتے ہیں۔ مؤلف  انکی غلطی  کی نشاندہی کرتے ہیں، اور بعض مواقع پر امام شاطبیؒ کے ساتھ ان آراء کے صریح تضاد کو بھی واضح کرتے ہیں۔یہ تمام تجزیہ شاطبیؒ کی نصوص، ان کے عملی اطلاقات، اور منہجِ استدلال کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے ،  اور وہ بھی ایک فکری، معروضی، اور علمی اسلوب کے ساتھ۔ مزید برآں، مؤلف ان دعووں کا بھی رد کرتے ہیں جن میں بعض اہلِ قلم نے شاطبیؒ کے ہاں بعض مسائل کے درمیان تضاد کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ مؤلف یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ تضاد دراصل خود ان ناقدین کی فہم کی کوتاہی کا نتیجہ ہے ،  یا تو وہ ان مسائل کو گہرائی سے نہیں سمجھ سکے، یا پھر شاطبیؒ کے منہج میں استعمال ہونے والی بعض کلیدی اصطلاحات  جیسے: مصلحت، مفسد، اور عرف میں سمجھی جانے والی مصلحت ، کے مفاہیم کو صحیح طور پر نہیں سمجھ پائے۔

 

مؤلف نے اپنی کتاب کو دسویں باب پر ختم کیا ہے، جسے انہوں نے تین مباحث میں تقسیم کیا: پہلے مبحث میں مؤلف نے امام شاطبیؒ کے ہاں "مقاصدِ شریعہ" کے تصور کا جامع خلاصہ پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے نہ صرف مقاصد کے ارکان اور اس کا مفہوم واضح کیا ہے، بلکہ اس امر کو بھی  بیان کیا ہے کہ امام شاطبیؒ نے شریعت کو سمجھنے کے لیے کس طرح اس تصورِ مقاصد کو ایک اصولی منہج کے طور پر اختیار کیا۔دوسرے اور تیسرے مباحث میں مؤلف نے اصولی و استدلالی اسلوب اپنایا ہے، جہاں انہوں نے منہج کے طور پر استقراء (استقرائی طریقہ) کو بطور منہج موضوعِ بحث بنایا، اور اسے استنباط (استنباطی طریقہ) کے مقابل میں پیش کیا۔ سی طرح انہوں نے امام شاطبیؒ کے ہاں تواترِ معنوی کے مفہوم پر روشنی ڈالی   اور اس مفہوم کا  علمِ حدیث کی اصطلاح میں رائج "تواتر معنوی" سے تقابل پیش کیا۔ اسی طرح انہوں نے  اصولوں کے بارے میں شاطبیؒ کے موقف پر بحث کی، اور اس کی قطعیت (یقینی ہونا) کی ضرورت پربات کی۔  نیز اخبارِ آحاد اور ظنی دلالتوں کے بارے میں امام شاطبیؒ کے موقف کو بھی  بیان کیا۔ انہوں نے تعلیل کے اصول پر بھی بحث کی، جو شاطبیؒ کے نزدیک اور ان سے پہلے کے بعض قائلین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے افعال اور احکام کی حکمت اور علت کی تلاش ہے۔ اسی طرح انہوں نے ایک فکری، عمیق اور دقیق اسلوب میں (مقاصد اور علل) کے مسئلے پر بحث کی، اور مقصد اور علت کے درمیان فرق کو واضح کیا، اور ان دونوں کے خلط ملط ہونے سے پیدا ہونے والی پریشانی اور الجھن کو دور کیا۔

 

کتاب کے اختتام پر، مؤلف نے شاطبیؒ کو ایک عالم اور روشن خیال مجتہد کے طور پر سراہا، اگرچہ وہ اصول فقہ میں ان کے پیش کردہ بعض   طریقوں سے اختلاف رکھتے ہیں، اور یہ اختلاف ان کے منہج کے بعض ارکان سے متعلق ہے۔  مؤلف نے (الموافقات) کے سفر میں ان کے ہمراہ رہنے کے دوران شاطبیؒ کے تئیں اپنے دل میں پیدا ہونے والی محبت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: "یہ محبت اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ محقق کے دل میں ایک ایسے شخص کے لیے محبت پیدا ہوئی جس نے عبقریت اور ایمان، علم اور اخلاق، ہمت اور تقویٰ کو جمع کیا۔ ان کی عقل نے انہیں بلند کیا، اور ایک ایسی نفسیات نے انہیں بلند کیا  جو خوف اور امید سے بھری تھی اور  اسے مزید بلند کرنے کے لیےانہوں نے عمل کرنے والے زاہدین جیسا شوق اپنایا،  اور ایک ایسی عقل نے انہیں بلند کیا جو فکر اور حکمت سے بھری تھی اور  اسے مزید بلند کرنے کے لیے انہوں نے شکر گزار عابدین جیسا زہد اختیار کیا۔ جب اعلیٰ عقلیت اور بلند نفسیات ایک ایماندار شخص میں یکجا ہوئیں، تو اس ملاقات نے اللہ کی محبت کو جنم دیا، اور ایمان نے اپنی حلاوت کا پھل دیا، اور سالک اپنے راستے پر استقامت اختیار کر گیا۔ اور جب محقق نے سالک کی ٹھوکر اور راستوں کی دشواری دیکھی، تو محبت اور لگن میں رحم اور شفقت کا اضافہ ہو گیا،اور محقق نے اس جلیل القدر عالم اور بیدار فکر مبصر کو اس حال میں دیکھا کہ بعض اوقات منزلِ مقصود کی شدت اسے راستے کی باریکیوں سے غافل کر دیتی ہے، اور نتائج کی سچائی جزئیات کی دقت سے پردہ ڈال دیتی ہے۔تو محقق کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش محقق ان کا شاگرد ہوتا،اور  ان کا ہم سفرہوتا، جو انہیں اپنی آنکھوں کے ساتھ مزید دو آنکھیں عطا کرتا؛ جو انہیں ان چیزوں سے محفوظ رکھتا جو بصیرت سے ہٹاتی ہیں یا ادراک کو دھندلاتی ہیں۔ کیونکہ عظیم، بڑے اور متقی لوگ نادر ہوتے ہیں، اور وہ فاصلے پر رہتے ہیں، اور نبی ﷺ کے بعد کسی کے لیے کوئی معصومیت نہیں ہے۔ پس اللہ کی اطاعت میں ان کی مدد کرنا، اور اللہ کے حکم کی خدمت کرنے میں ان کی خدمت کرنا،  بہت بڑی نیکی اور اطاعت ہے۔  انہیں ادب سے درست کرنا،  حکمت سے بصیرت عطا کرنے کی کوشش کرنا،  اللہ کے لیے اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ ان کی اطاعت کرنا  اور ان سے قربت اختیار کرنا،  ان کے عظیم اعمال کی طرح کا عظیم عمل ہے، اور ان کی پیداوار کے فائدے کی طرح مفید ہے، اور یہ ان سے بھی زیادہ نایاب موقع ہے۔ اور ان کی طرف سے غلطی اور لغزش ان کے ساتھ والوں اور ان کے ارد گرد والوں کے لیے نقصان دہ ہے، اگرچہ وہ اجر پانے والے ہوں۔"

 

میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ استاد محمود عبد الہادی فاعور کی کتاب (المقاصد عند الإمام الشاطبيّ) پہلی کتاب ہے جس نے امام شاطبیؒ کے ہاں مقاصد کے موضوع کا احاطہ کیا ہے، اور جو ہمیں کتاب (الموافقات) کو سمجھانے اور آسان بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ کتاب  576 صفحات  پر مشتمل ہے۔

 

Last modified onپیر, 01 ستمبر 2025 23:16

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.