Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

دریائے نیل سے ڈیم تک

یہ جنگ امت کی ہے، کسی حکومت کی نہیں

(ترجمہ)

 

تحریر: استاذ  محمود اللیثی

 

افریقی میدان ان دنوں مصر اور ایتھوپیا کے درمیان کشیدگی اور باہمی الزامات کے ایک نئے اضافے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔  یہ تناؤ اس سیلاب کی لہر کے پس منظر میں ہے جس نے سوڈان کے وسیع علاقوں اور مصر کے کچھ حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔  اس سیلاب کے بعد مصر کی جانب سے ایتھوپیا پر کھلے عام یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ اس سیلاب کی وجہ یہ ہے کہ ایتھوپیا نے    رینیسانس ڈیم (سدّ النہضہ) کے پانی کو یکطرفہ طور پر اور بغیر کسی ہم آہنگی کے چھوڑا ہے جبکہ ایتھوپیا نے فوراََ اپنی ذمہ داری سے انکار کیا اور ان الزامات کو "جھوٹے دعوے" قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اس کی اصل وجہ ایتھوپین سطح مرتفع پر ہونے والی بھاری موسمی بارشیں ہیں۔

 

اگرچہ یہ تناؤ بظاہر ایک تکنیکی اختلاف یا آبی وسائل کے انتظام پر جھگڑا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ یہ تناؤ افریقہ میں جاری بین الاقوامی کشمکش اور اسلامی دنیا کے اس حساس علاقے میں فیصلہ سازی پر امریکی بالادستی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہ تناؤ مصر اور سوڈان کے حکمرانوں کی طرف سے اپنے عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں میں غفلت اور اپنے معاملات کے انتظام میں اسلامی احکامات سے انحراف سے بھی جڑا ہوا ہے۔

 

(گرینڈ ایتھوپیا رینیسنس ڈیم )(GERD) محض ایک ہائیڈرو الیکٹرک پاور  پلانٹ یا پانی کا ایک بڑا ذخیرہ نہیں ہے۔ یہ اس کے ہاتھ میں ایک اسٹریٹجک ہتھیار ہے جو بھی اسے کنٹرول کرتا ہے۔ تقریباً 74 بلین کیوب میٹر کی اپنی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ، یہ دریائے نیل کو کنٹرول کر سکتا ہے، جو مصر اور سوڈان کی زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جو بھی ڈیم کو چلانے اور کنٹرول کرنے کا اختیار رکھتا ہے وہ مصر اور سوڈان میں پانی کی کمی یا تباہ کن سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔

 

یہ ڈیم اپنے آغاز سے ہی واضح امریکی سرپرستی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ امریکہ نے کئی مراحل پر مذاکرات کی سرپرستی کی، ایتھوپیا کے خلاف کسی بھی پابندی پر مبنی بین الاقوامی قرارداد کے اجراء کو روکا، اور اس منصوبے کو حتمی مرحلے تک پہنچنے کے لیے سیاسی اور سفارتی حمایت فراہم کی۔  مصر اور سوڈان دونوں ڈیم سے براہِ راست متاثر ہونے والے ممالک ہیں، اس کے باوجود وہ اسے روکنے یا اپنی شرائط مسلط کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ اس طرح یہ ڈیم امریکہ کے ہاتھ میں ایک سودے بازی کا ہتھیار بن گیا جسے وہ  صرف مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کی حکومتوں کو ہی نہیں بلکہ ان ممالک کی عوام کے رویے کو کنٹرول کرنے اور دنیا کےاہم ترین دریاؤں میں سے ایک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

 

جو کوئی بھی ان تینوں ممالک کے سرکاری مؤقف کی پیروی کرتا  ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ اپنی عوام کے مفادات کے مطابق حرکت نہیں کر رہے، بلکہ  بڑی طاقتوں، جن میں امریکہ سرفہرست ہے، کے وضع کردہ منصوبوں پر چل رہے ہیں۔ اگرچہ ایتھوپیا کی حکومت بعض مراحل میں دباؤ کو کچھ حد تک چیلنج کرتی نظر آتی ہے، مگر بالآخر وہ واشنگٹن کے منصوبوں کے مطابق ہی چل رہی ہے، اور اسے امریکہ کے علاقائی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جن میں مصر کو، اس کی آبی شہ رگ کو کنٹرول کرکے ،اسٹریٹیجک طور پر کمزور کرنا اور گھیرنا شامل ہے۔

 

جہاں تک مصری حکومت کا تعلق ہے، اگرچہ وہ کھلے عام اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے اور غصے والے بیانات جاری کرتی ہے، لیکن عملی طور پر اس نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا، نہ ڈیم کی تعمیر کے مرحلے کے دوران، نہ ہی اس کے  بھرنے کے مراحل کے دوران، اور نہ ہی اس کے مکمل آپریشنل ہونے کے بعد۔ درحقیقت، اس نے انہیں مارچ 2015 میں خرطوم میں اصولوں کے اعلامیے سے اتفاق کرتے ہوئے ایک مضبوط مقام دیا، جس نے پہلی بار ڈیم کی تعمیر کے جواز کو تسلیم کیا اور ایتھوپیا کو ضروری قانونی اور بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا۔ اس نے لاحاصل مذاکرات اور بین الاقوامی ثالثی پر انحصار  جاری رکھا جن کی سرپرستی وہی طاقتیں کر رہی ہیں جو ڈیم کی سرپرستی کر رہی ہیں اور اس کے تسلسل کو یقینی بنا رہی ہیں۔ یہ مؤقف وسائل میں کمزوری کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ امریکہ کی مکمل سیاسی تابعداری کا نتیجہ ہے۔

 

جہاں تک سوڈانی حکومت کا تعلق ہے،تو سوڈان بین الاقوامی تنازعہ کا میدان بن گیا ہے اور اب اس کے پاس حقیقی خود مختار فیصلہ سازی کی طاقت نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ اصولی موقف یا آزاد سیاسی مرضی کے بغیر، بعض اوقات ایتھوپیا کی حمایت کرنے اور کبھی اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے درمیان بدلتا رہتا ہے           

 

سوڈان نے حالیہ ہفتوں میں بڑے پیمانے پر سیلاب دیکھا ہے، جس سے ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے ہیں اور کھیتی باڑی اور انفراسٹرکچر کے وسیع علاقے تباہ ہوئےہیں۔ مصر کے بعض علاقے بھی نیل کے پانی کی سطح میں اچانک اضافے سے متاثر ہوئے ہیں۔ مصر کا موقف ہے کہ یہ سیلاب ایتھوپیا کی جانب سے ڈیم سے پانی کے غیر مربوط اخراج کا نتیجہ ہے، جبکہ ایتھوپیا اس کی وجہ موسمی بارشوں کو قرار دیتا ہے۔

 

تکنیکی بحث سے قطع نظر، تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ڈیم کے دروازے کھولنے یا بند کرنے کا فیصلہ  ایتھوپیا کا فیصلہ بن چکا ہے جو امریکی ہدایات کے ماتحت ہے اور اسے کسی بھی لمحے مصر اور سوڈان کے خلاف سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ڈیم کو غیر مربوط طریقے سے چلانے سے تباہ کن سیلاب آسکتا ہے، اسی طرح خشک سالی کے دوران پانی کو روکنا پانی کی خطرناک قلت کا باعث بن سکتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

 

مصر کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ سیاسی بھیک مانگنا یا بین الاقوامی ثالثوں کی گود میں گرنا نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقی خود مختار موقف اختیار کرنا ہے جو لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کے اُس فریضے پر مبنی ہو جو اسلام نے ریاست پر فرض کیا ہے۔ اس دیکھ بھال میں ان کی آبی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا، اور ان کے اہم وسائل کا تمام جائز ذرائع سے دفاع کرنا شامل ہے، نہ کہ انہیں کسی دوسری ریاست یا بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں یرغمال چھوڑ دینا۔۔ مصری حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان بے مقصد مذاکرات کو فوری طور پر ختم کرے جنہوں نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے، اور مصر اور سوڈان کے لوگوں کے لیے کسی بھی آبی خطرے کو روکنے کے لیے عملی اقدام اٹھائے، کیونکہ پانی مذاکرات کا نہیں، بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اسے اس معاملے میں امریکہ کی چالاک مداخلت کو بھی بے نقاب کرنا چاہیے اور واشنگٹن کو ثالث کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ اس سانپ کے سر کی طرح نمٹنا چاہیے جو اس معاملے کو اپنے مفادات کے لیے چلاتا ہے، نہ کہ خطے کے لوگوں کے مفادات کے لیے۔

 

تاہم، ان بکھرے ہوئے، غلام حکومتوں کے ماتحت ایک حقیقی  بنیادی حل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ  نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافتِ راشدہ کوقائم کیا جائے، جو تمام مسلم ممالک کو ایک قیادت کے تحت جمع کرے، ان کے وسائل اور طاقت کو یکجا کرے، اور ان کے دریاؤں اور ڈیموں کا انتظام اس طرح کرے جو امت کے مفاد کو پورا کرے، نہ کہ استعمار کے مفاد کو۔

 

خلافت کے زیر سایہ، کسی بھی دوسری ریاست کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی ایسے دریا پر قبضہ جمائے جو بلاد اسلام سے گزرتا ہو اور اُسے کنٹرول کرے۔ بلکہ دریا کو تمام مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت (عوامی ملکیت) کے طور پر چلایا جائے گا، اور کسی بھی فریق کو حق نہیں ہوگا کہ وہ اس کے پانی کو روکے یا اسے بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرے۔ اور اگر کوئی بیرونی فریق یا ایجنٹ اُمت کو اس کے ذریعہ حیات کے ذریعے دھمکی دینے کی جسارت کرتا ہے، تو خلافت ایسے اقدامات کرے گی جو مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کریں، چاہے طاقت کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اُمت کا تحفظ ایک شرعی فرض ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:«الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْمَاءِ وَالْكَلَأِ وَالنَّارِ» "مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراگاہ اور آگ میں"، لہذا نیل اسلامی اُمت کی مشترکہ ملکیت ہے، نہ امریکہ کو حق ہے کہ وہ اسے کنٹرول کرے، نہ ایتھوپیا کو حق ہے کہ وہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرے، اور نہ ہی مصر کو حق ہے کہ وہ اس میں اپنے حصے پر یوں گفت و شنید کرے جیسے یہ کوئی عطیہ ہو۔

 

اصل مسئلہ گرینڈ ایتھوپیا کے نھضہ  ڈیم کی دیواروں میں نہیں اور نہ ہی اس کے دروازوں میں ہے، بلکہ ان حکومتوں میں ہے جو آج مسلم ممالک پر حکومت کر رہی ہیں۔ اگر مصر میں اسلام کو نافذ کرنے اور ملکی معاملات کی دیکھ بھال کرنے والی مخلص اور آزاد حکومت ہوتی تو وہ اس ڈیم کی تعمیر کی  اجازت ہی  نہ دیتی اور نہ ہی اس معاملے کو ہمارے عوام کے خلاف امریکی دباؤ کا آلہ بننے دیتی۔

 

مصر اور سوڈان اور پورے اسلامی اُمت کے لوگوں پر خصوصاً ان کی افواج پر لازم ہے کہ وہ نبوت کے منہج کے مطابق خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے کام کریں، جو مسلمانوں کے ممالک کو یکجا کرے گی اور ان کے سیاسی و اقتصادی فیصلوں کو آزاد کرے گی، اور ان کے وسائل کو احکامِ اسلام کے مطابق دوبارہ چلائے گی، تاکہ یہ وسائل امت کی خدمت میں استعمال ہوں نہ کہ اسے دھمکانے یا نقصان پہنچانے کے لیے۔

 

ولایہ مصر میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

 

Last modified onبدھ, 12 نومبر 2025 20:44

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.