Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

جمہوریت نوعِ انسان کے لئے قطعاً مناسب نظام نہیں ہے

بقلم: ڈاکٹر اشرف أبو عطایہ

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9897-democracy-is-not-suitable-for-humanity

 

دورِ حاظر میں جمہوری نظام کو اس طرح سے بنا سنوار کر پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ انسانی عقل کی معراج ہو، یعنی حکومت کے امور کے نظم و نسق کا سب سے اعلیٰ اور کامل طریقہ۔ یہاں تک کہ جمہوریت ایک ایسا اعتقاد بن چکا ہے جس پر تنقید کرنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے، گویا کہ جیسے یہ خود ہی جانچ کی ایک کسوٹی ہو، نہ کہ کوئی ایسا نظام جسے کسی معیار پر پرکھا جائے۔ لیکن بہرحال، معمولی سا بھی غور و فکر کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمہوریت نہ صرف اپنی اساس میں ہی ایک متضاد تصور ہے بلکہ ایک ایسا نظام بھی ہے جو انسانی فطرت کے منافی ہے۔ اور بالآخر آزادی اور ترقی کے بجائے انتشار اور زوال کی طرف لے جاتا ہے۔

 

اپنے نظریاتی آغاز سے ہی جمہوریت ایک دلکش نعرے پر قائم کی گئی تھی کہ یہ ”عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، اور عوام کے لئے“ ہے۔ مگر اپنی عملی حقیقت کے سامنے یہ مثالی تعریف دھری کی دھری رہ گئی۔ کروڑوں لوگوں کے لئے خود جمع ہو کر اپنے لئے قوانین بنانا ممکن نہیں، چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ عوام کی طرف سے ”نمائندے“ منتخب کیے جائیں جو ان کی جانب سے قانون سازی کریں گے۔ اس عملی تبدیلی کے ساتھ ہی عوام کی حکومت درحقیقت ایک اقلیتی حکومت میں بدل گئی جو ”عوامی نمائندگی“ کے بینر تلے اکثریت کے مقدر پر حکومت کرتی ہے۔ یوں جمہوریت، جو نظریاتی طور پر توعوام کی حاکمیت کے نعرے سے شروع ہوتی ہے، مگر عملی طور پر چند سیاست دان اشرافیہ، سرمایہ داروں اور میڈیا کے مالکان کی بالادستی کے سامنے سر ٹیک دیتی ہے۔ بیلٹ بکس کی نام نہاد قانونی حیثیت دراصل طاقت کی قانونی حیثیت سے بدل جاتی ہے، اور منتخب آمر پرانے غاصب حکمرانوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ جمہوریت ایک شائستہ لفظی چال ہے جو بظاہر تو عوام کے بااختیار ہونے کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، مگر درحقیقت اپنے باطن میں آمریت کی ایک نئی شکل کو چھپائے ہوئے ہے، ایسی آمریت جو اگرچہ عوام کے نام پر چلائی جاتی ہے، مگر ان کے فائدے کے لئے ہرگز نہیں ہوتی۔

 

تاہم یہ تضاد صرف سیاسی ڈھانچے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ خود اس تصور کی اصل روح تک سرایت کر جاتا ہے کہ قانون سازی کا حق کس کے پاس ہے؟ جمہوریت انسان کو حتمی اتھارٹی بنا دیتی ہے، یعنی وہ خود اپنے لئے قوانین وضع کرے۔ یوں قانون سازی انسان کی بدلتی ہوئی خواہشات اور مفادات کا عکس بن جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو امر کسی ایک معاشرے میں حق سمجھا جاتا ہے، وہی کسی دوسرے معاشرے میں جرم قرار دیا جا سکتا ہے؛ اور جس فعل کو آج آزادی کے نام پر تسلیم کیا جاتا ہے، تو آنے والے کل اسے گمراہی یا نفرت کے طور پر رد بھی کیا جا سکتا ہے۔

 

انسانی سوچ کے معیار مسلسل بدلتے رہتے ہیں، اور یہ معیار نفسانی خواہشات اور حالات کے تابع ہوتے ہیں۔ تو پھر ایک ایسا غیر مستقل اور تضاد سے بھرپور تصوّر آخر کس طرح سے استحکام کا حتمی ذریعہ ہو سکتا ہے؟ اور جو تصور خود اپنے اندر ہی دیانتداری سے محروم ہو، وہ انسانیت کے لئے کس طرح سے دیانتداری کے اصول قائم کر سکتا ہے؟ ”عوامی خودمختاری“ کا تصور اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے کہ لوگ کوئی واحد، مربوط اکائی نہیں ہوتے بلکہ باہمی تضادات اور مختلف مفادات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جب فیصلے اکثریتی ووٹ سے ہو جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ درست فیصلے ہیں، بلکہ صرف یہ کہ انہیں زیادہ ووٹ مل گئے ہیں۔ یوں حاکمیت علت کے اصول سے نکل کر صرف تعداد کے اصول میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

 

حاکمیت کے اصول میں اس خلل کے ساتھ، آزادی کا بحران پیدا ہو جاتا ہے— وہ آزادی کہ جسے عقیدہ، رائے، ملکیت اور طرزِ عمل میں ”آزادی“ دے کر جمہوریت نے اعلیٰ ترین قدر کا درجہ دے رکھا ہوتا ہے۔ لیکن جب آزادی کو اخلاقی پابندی سے جدا کر دیا جائے، تو وہ انتشار میں بدل جاتی ہے۔ اور جب اس آزادی کو کسی ذمہ داری کے بغیر مقدس بنا دیا جائے، تو یہ انسانیت کو نہیں بلکہ صرف جبلتوں کو آزاد کرتی ہے۔ جمہوریت نے آزادی کے نام پر انسانی خواہشات کو بے لگام کر دیا ہے، یہاں تک کہ انسان خود اپنی ہی خواہشات کا غلام بن کر رہ گیا ہے، انسان کسی اعلیٰ مقصد یا اخلاقی غرض کےبغیر اپنی لذتوں کے پیچھے اسی طرح بھاگتا ہے جیسے کوئی حیوان اپنے کھانے اور خواہشات کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے۔ آزادی کے نام پر ہر چیز جائز قرار دے دی گئی ہے: یعنی انسانی فطرت کا انکار، خاندانی نظام  میں بگاڑ، اور انحرافات و بے راہ رویوں کو ذاتی پسند ناپسند کے طور پر سراہا جانا۔ یوں جمہوریت نے انسانیت کو پابندیوں سے آزاد نہیں کیا؛ بلکہ جمہوریت نے انسان کی جبلتوں اور اس کے نفسِ امّارہ کو شتر بےمہار چھوڑ دیا ہے، اور اس وحشی حیوان کو باہر نکال دیا ہے جو اس کے اندر چھپا ہوا تھا۔

 

اخلاقی پابندیاں ختم ہو جانے سے معنی ہی مٹ کر رہ گئے۔ ہر انسانی نظام کو کسی مقصد کی ضرورت ہوتی ہے جس کی طرف وہ کوشش کرے، اور ایک ایسے معیار کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر اچھائی  و برائی کا فیصلہ ہو۔ لیکن جمہوریت نے، انسان کو اس کی تقدیر کا واحد فیصلہ کرنے والا بنا کر، ہر اُس اتھارٹی کو ختم کر دیا جو اس کی فوری دنیوی خواہشات سے بلند ہو۔ یوں اچھائی وہ بن گئی  جو اسے خوش کرتی ہو اور اس کی خواہشات کو پورا کرتی ہو، اور برائی وہ جو اسے ناگوار گزرتی ہو، اور اس سب  کے نتیجے میں اعلیٰ اقدار کمزور پڑ گئیں اور فطرتِ سلیم کی روشنی ماند پڑ گئی۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا انسان وجود میں آیا جو نہ تو کوئی سمت رکھتا ہے اور نہ کسی اعلیٰ معیار کا پابند ہے؛ بلکہ وہ اپنی خواہشات کی لاحاصل دوڑ اور اپنے افکار کے تضادات میں گم، روحانی خلا، افسردگی اور بےمعنویت کے احساس سے گھرا ہواانسان ہے۔ وہ نظام جس نے اسے آزادی اور عزت کا وعدہ کیا تھا، اسی نے اس سے مقصد اور ذہنی سکون چھین لیا ہے۔

 

اپنی بنیاد میں، جمہوریت یہ تصور کرتی ہے کہ انسان ایک ایسا ذی عقل و شعور ہے جو خود کو اور اپنے معاشرے کو عدل و حکمت کے ساتھ خود چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن انسانی تجربہ کے دلائل اس کے برعکس گواہی دیتے ہیں۔ انسان ایک محدود مخلوق ہے، جو اپنے مفادات، خوف اور خواہشات سے متاثر ہو جاتا ہے۔ اگر اسے قانون سازی کی طاقت دے دی جائے جو کسی ایسی اعلیٰ اتھارٹی کے بغیر ہو جو اس کی خواہشات کو قابو میں رکھے، تو انسان اپنے گرد و پیش ہر شے کو فساد میں مبتلا کر دے گا۔ پس، جمہوریت کا بحران صرف اس کے مذہب کو علیحٰدہ کر دینے میں ہی نہیں، بلکہ نوعِ انسان کی اصل فطرت کو سمجھنے میں غلطی کرنے میں بھی ہے۔ انسان نہ تو ایک چھوٹا دیوتا ہے جو قوانین بنائے، اور نہ ہی ایک خالص عقلی مشین ہے جو سرد منطق سے دنیا کو چلا سکے۔ بلکہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کے اندر خیر و شر، شرافت و کمینگی، دونوں کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی لئے اسے ایک اعلیٰ اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے رہنمائی دے اور اس کی حدود متعین کرے۔ لیکن جمہوریت نے، آزادی اور خودمختاری کے نام پر، وہ تمام پابندیاں توڑ دیں جو انسان کے بگاڑ کو روک سکتی تھیں، اور اسے ایسے حال پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ بغیر کسی رہنمائی اور اخلاقی سمت کے خود ہی کا سامنا کرے۔

 

جمہوریت نے ایک ایسے سادہ وہم سے جنم لیا کہ انسان خود کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن جمہوریت کا انجام ایک تلخ حقیقت میں ہوا جو یہ ثابت کرتی ہے کہ جب انسان خود اپنا حاکم بنتا ہے تو وہ خود ہی کو تباہ کر دیتا ہے۔ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو انسان کی بنیادی فطرت، اس کی عقل کی محدودیت، اور استحکام و فہم کے لیے انسان کی بنیادی فطری ضرورت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ جمہوریت بظاہر ایک خوبصورت فکر نظر آتی ہے، لیکن انسانوں کی حقیقی دنیا میں یہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ انسان کو عزت ووقار کی بلندیوں تک پہنچانے کے بجائے، جمہوریت نے اسے حیوان کے درجے تک گرا دیا ہے، کہ وہ بغیر کسی اصول، ضبط یا مقصد کے زندگی گزارے۔ پس، جمہوریت اپنی اساس کے اعتبار سے ہی انسانیت کے خلاف ایک نظام ہے، خواہ وہ اس کے برعکس دعویٰ ہی کیوں نہ کرتا رہے۔

 

انسان کو ایسے نظام کی ضرورت نہیں جو اس کی خواہشات کو پورا کرتا ہو۔ بلکہ انسان کو ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ان کا حل پیش کرتا ہو، اس کی جبلتوں کو سنوارے، اور اس کی انسانیت کو محض جبلتوں کے درجہ سے اٹھا کر عزت و شرف کے مقام تک پہنچائے۔ اسے ایک ایسے ہمہ گیر نظام کی ضرورت ہے جو اس کی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرے، یعنی فکر و عمل میں، فرد اور معاشرے دونوں کی سطح پر، دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے۔ اور ایسا نظام صرف اسی ذات کی طرف سے ہو سکتا ہے جو خود کامل ہو، جس میں کوئی کمی، نقص، احتیاج یا گمراہی نہ ہو — اور وہ ذات صرف اللہ ﷻ کی ہے، وہی خالق ہے جس نے انسان، کائنات اور خود حیات  کو وجود بخشا۔ اللہ ﷻ نے فرمایا:

 

﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

 

”کیا وہ ہی نہ جانے، جس نے پیدا کیا ہے ؟ اور وہ ہر باریکی کو جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے“۔ [سورۃ الملک؛ 67:14]

 

جب انسان اپنے آپ کے بارے میں، اور اس کائنات کے بارے میں جس میں وہ رہتا ہے، اور ان دونوں کے تعلق کے بارے میں، نیز زندگی سے پہلے اور بعد کے حقائق کے بارے میں درست فہم حاصل کر لیتا ہے، تو وہ اپنی انسانیت کو واقعی بلند کرنے کی سمت پہلا قدم اٹھا چکا ہوتا ہے۔ نشاۃ (نہضہ) کا آغاز معیشت، صنعت یا دولت سے نہیں، بلکہ اس فکر سے ہوتا ہے جو وجود کے معنی اور زندگی کے مقصد کو معین کرتی ہے۔

 

اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ ایک روحانی اور سیاسی عقیدہ ہو جو حقیقی نشاۃ (نہضہ) کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرے، عملی فکر اور گہرے ایمان کو یکجا کرے، اور دنیا اور آخرت کو الگ کیے بغیر باہم مربوط کرے۔ اور یہ عقیدہ، اسلامی عقیدہ ہے جو اسلامی آئیڈیالوجی سے پیوستہ ہے، جو رہنمائی کرنے والے ایمان اور منظم نظام کو ایک جگہ جمع کرتا ہے — ایک ایسی آئیڈیالوجی جو انسانیت کو حقیقی طور پر بلند کرتی ہے، نہ کہ محض ایک خیالی طور پر۔

Last modified onمنگل, 18 نومبر 2025 21:24

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.