Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات

(ترجمہ)

سوال:

عمان، جو کہ امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ بات چیت کے چوتھے دور کو مؤخر کر دیا گیا ہے، جو ہفتہ کے دن اطالوی دارالحکومت روم میں ہونا تھا۔ مؤخر کرنے کی وجہ "لاجسٹک مسائل" بتائی گئی ہے، اور کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا (الشرق، 1 مئی 2025ء)۔ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز 12 اپریل 2025ء کو عمانی دارالحکومت مسقط میں ہوا، جس میں عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعيدی نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ دوسرا دور 19 اپریل 2025ء کو روم میں عمانی سفارت خانے میں ہوا، جہاں وزیر البوسعيدی نے دوبارہ ثالثی کی۔ تیسرا دور ہفتہ، 26 اپریل 2025ء کو سلطنت عمان میں منعقد ہوا، جو اسی عمانی ثالثی کے تحت تھا۔

 

سوال یہ ہے کہ اب ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی کوشش کیوں کر رہے ہیں، حالانکہ امریکہ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر اُس معاہدے کو ختم کر دیا تھا جو 14 جولائی 2015 کو طے پایا تھا؟ اسی تناظر میں، چوتھے دورِ مذاکرات کے التوا کی کیا وجوہات ہیں؟ 'لاجسٹک وجوہات' (logistical reasons) سے کیا مراد ہے؟ اور کیا اس تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ بات چیت فی الحال معطل کر دی گئی ہے؟

 

جواب:

سب سے پہلے ضروری ہے کہ 2015 میں ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے وقت کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے، پھر 2018 میں ٹرمپ کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے پس منظر اور اُس وقت کے حالات کو سمجھا جائے، اور آخر میں امریکہ اور ایران کے درمیان جاری حالیہ مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر نظر ڈالی جائے۔

 

1- وہ عوامل جنہوں نے 2015 میں امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے پر آمادہ کیا تھا:

 

ہم نے 22 جولائی، 2015 کو امریکہ کے معاہدے پر دستخط کے بارے میں اپنے جواب میں کہا تھا کہ "... چنانچہ امریکی صدر دور سے ان مذاکرات کی نگرانی کر رہا تھا، اور اس معاہدے کے انعقاد میں براہِ راست رابطے اور گہری دلچسپی کے ساتھ شریک تھا۔ اس نے اپنے وزیر خارجہ کو مسلسل تین ہفتوں تک ان مذاکرات میں مصروف رکھا، علاوہ ازیں پہلے سے ہونے والے رابطے بھی تھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ، اس کے مفادات، اور اوباما انتظامیہ کے لیے کس قدر اہم تھا۔ اس معاہدے نے ایران پر پابندیاں لگائیں اور اسے جوہری ہتھیار بنانے سے دور رکھا۔

 

اگر ہم اس معاملے کو امریکی صدر اور دیگر اعلیٰ حکام کے اُن بیانات سے جوڑیں جن میں ایران کے خطے میں اسٹریٹجک کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا، اور اس کے ساتھ تعاون کی آمادگی بلکہ عملی تعاون کا اعتراف بھی کیا گیا، اور ساتھ ہی ایرانی قیادت کے اُن بیانات کو بھی مدنظر رکھیں جن میں انہوں نے عراق اور افغانستان میں امریکہ کے ساتھ تعاون اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر آمادگی ظاہر کی—تو یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ نے عملاً شام میں ایران اور اس کی اتحادی تنظیم حزب اللہ کی کارروائیوں پر خاموش رضامندی ظاہر کی تھی… یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ اس معاہدے کے ذریعے ایران کے لیے حالات کو آسان بنانے، پابندیاں اٹھانے اور اس کے ساتھ کھلے تعلقات قائم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ ایران وہ کردار ادا کرے، جو امریکہ کے لیے اپنی کارروائیوں کو آسان بنانے، اس کے بوجھ کو کم کرنے اور اس کے خطے میں مختلف ممالک اور عوام کے ساتھ کیے گئے کاموں پر پردہ ڈالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

 

یوں ایران درحقیقت امریکی پالیسی ہی کو عملی جامہ پہنا رہا ہے—جیسا کہ عراق، شام اور یمن میں دیکھا جا سکتا ہے—تاہم اس بار یہ عمل نہ تو پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے، نہ ہی مکمل رازداری میں، بلکہ یا تو ایک نیم شفاف پردے کے پیچھے ہے یا کھلے عام انجام پا رہا ہے۔

 

اس لیے اوباما نے 14 جولائی 2015 کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تاکہ شام میں ایران کا کردار فعال ہو سکے۔

 

2- وہ عوامل جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو 2018 میں ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کو منسوخ کرنے پر آمادہ کیا تھا:

 

الف) واشنگٹن نے خطے کے معاملات میں سعودی عرب اور ترکی کو بھرپور طریقے سے شریک کر لیا، جس کے نتیجے میں ترکی نے بھی ایک زیادہ سرگرم اور مؤثر کردار ادا کرنا شروع کیا۔ 2016 میں اُس نے 'فرات شیلڈ' اور مارچ 2018 میں 'اولیو برانچ' کے نام سے فوجی کارروائیاں شروع کیں۔ دوسری جانب، سعودی عرب بھی خطے میں اپنی موجودگی اور اثر قائم رکھنے کے لیے متحرک رہا۔ ایسے میں شام میں ایران کے 'مرکزی کردار' کی گنجائش باقی نہ رہی، اور اس کا کردار محدود کرنا ایک ناگزیر امر بن گیا۔ یہی وہ اقدام تھا جو ٹرمپ نے اٹھایا—اس نے ایران کے اثر و رسوخ کو کم کر کے اُسے ایک کلیدی فریق سے محض ایک ثانوی یا معاون حیثیت تک محدود کر دیا۔

 

ب) یورپی ممالک بھی 2015 کے جوہری معاہدے کا حصہ تھے، اور وہی اس معاہدے سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ لیکن ٹرمپ نہیں چاہتا تھا کہ یورپ کو ایک ایسے معاہدے سے فائدہ پہنچے جس پر دستخط اوباما انتظامیہ کے دور میں ہوئے تھے، چنانچہ اُس نے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا۔

 

یوں ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان اس وقت امریکی مفاد کا تقاضا تھا، تاکہ ایک نئے معاہدے کی تیاری کی جا سکے جو خطے میں ایران کے کردار کو محدود کرے۔

 

3- وہ عوامل جنہوں نے ٹرمپ کو 2025 میں اس جوہری معاہدے کی جانب دوبارہ رجوع کرنے پر مجبور کیا، جسے اُس نے 2018 میں منسوخ کیا تھا:

 

جب ہم ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں جو 20 جنوری 2025 سے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد پیش آئے، تو ہمیں وہ اسباب واضح نظر آتے ہیں جنہوں نے امریکہ کو ایک بار پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی طرف لوٹنے پر آمادہ کیا:

 

الف- یہ بات واضح ہے کہ خود ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کا آغاز کیا۔ ٹرمپ نے 7 مارچ کو عمانی ثالثی کے ذریعے تہران کو ایک پیغام بھیجا، جس میں اس نے واضح طور پر مذاکرات کی بحالی اور ایک نئے معاہدے کے حصول کی خواہش کا اظہار کیا۔  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "فاکس بزنس" نیٹ ورک کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ" اُس نے ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو جمعرات 6 مارچ کو ایک پیغام بھیجا، جس میں اس نے تہران کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کو ترجیح دینے کی خواہش ظاہر کی۔"ٹرمپ نے اس انٹرویو جو اتوار کو نشر ہونے والا ہے میں مزید کہا،: "دوسرا آپشن یہ ہے کہ کارروائی کی جائے، کیونکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیے جا سکتے۔" جہاں تک اُس پیغام کا تعلق ہے جو اُس نے خامنہ ای کو بھیجا، ٹرمپ نے کہا: "میں نے اسے بتایا کہ مجھے امید ہے کہ تم مذاکرات کرو گے، کیونکہ یہ ایران کے لیے کہیں بہتر ہوگا"… (ایران انٹرنیشنل، 7 مارچ 2025)۔

 

ب- ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدہ اس لیے منسوخ کیا تھا کیونکہ 2015 میں اقوامِ متحدہ کی پانچ مستقل رکن ریاستوں اور جرمنی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بڑے فوائد یورپی ممالک کو حاصل ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے، ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے حالیہ جوہری مذاکرات سے یورپی ممالک کو باہر رکھا، برخلاف 2015 کے، جب وہ براہِ راست شریک تھے۔ اس بار نہ ان سے مشاورت کی گئی، نہ ہی انہیں عمان میں ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یورپ کو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات شروع کرنے کی کسی بھی کوشش سے روکا جا سکے۔ "یورپی سفارتکاروں نے "رائٹرز" کو بتایا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک نیا اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر یہ کوششیں اس وقت بظاہر معطل ہو گئیں جب تہران نے رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر بالواسطہ بات چیت شروع کی۔ امریکہ نے یورپی ممالک کو عمان میں ہونے والے ان مذاکرات کے بارے میں اس وقت تک آگاہ نہیں کیا جب تک ٹرمپ نے خود اس کا اعلان نہیں کر دیا"... (الشرق، 24/04/2025) حتیٰ کہ ٹرمپ انتظامیہ نے دوسرے دور کی میزبانی کے لیے اٹلی کو منتخب کیا، جس کی وزیراعظم جورجیا میلونی ایک دائیں بازو کی رہنما ہیں اور جنہیں ٹرمپ کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ انتخاب دراصل یورپی ممالک کے لیے ایک پیغام ہے، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اور جرمنی جیسے ممالک کے لیے، جو نیٹو کے حوالے سے امریکہ سے ٹکراؤ اور مخالفت رکھتے ہیں۔

 

ج- پھر یہ کہ امریکہ اپنی تمام تر توجہ اور وسائل کو چین کے ساتھ عالمی سطح پر جاری مقابلے کی طرف مرکوز کرنا چاہتا ہے؛ اس لیے وہ ہر اُس عنصر سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کے لیے مسئلہ بن سکتا ہو یا اس کی توانائی کو منتشر کر سکتا ہو۔ روس کے ساتھ جاری مذاکرات کو بھی اسی منطق کے تحت سمجھا جا سکتا ہے: ان کا مقصد یوکرین کے بحران کے ذریعے روس کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے، تاکہ اسے چین سے الگ کیا جا سکے، اور اس طرح چین-روس محور کو کمزور بنایا جا سکے۔ اسی تناظر میں، ٹرمپ چین کو محدود کرنا اپنی اسٹریٹیجک ترجیح سمجھتے ہیں۔

 

د- یہودی وجود کی جانب سے ایران پر حملے کی خواہش دراصل اس مؤقف کے پردے میں پیش کی جاتی ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اکتوبر 2024 میں یہودی وجود نے ایران پر حملہ کیا تھا، اور ایران نے میزائل حملوں کے ذریعے جواب دیا تاکہ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے، یہ سب کچھ امریکہ اور اسرائیل کو پیشگی اطلاع دینے کے بعد ہوا۔ اب امریکہ یہ نہیں چاہتا کہ وہ ایران پر ممکنہ حملوں میں الجھ کر اپنی توجہ چین جیسے بڑے اسٹریٹجک حریف سے ہٹا لے۔ چنانچہ وہ ایران کے ساتھ ایک نیا جوہری معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے، تاکہ ایک جانب یہودی وجود کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے، اور دوسری جانب اس کے ہاتھ سے حملے کا جواز بھی چھینا جا سکے۔ اس طرح، ٹرمپ، جو وائٹ ہاؤس میں یہودی وجود کا سب سے بڑا حامی ہے، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کر کے یہودی وجود کے ہاتھ سے تنازعے کا بہانہ چھین لینا چاہتا ہے، اور ان کے حملوں کا جواز ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسی وقت، وہ امریکی اقتصادی مفادات اور چین کا مقابلہ کرنے کو اپنی اولین ترجیح بنانا چاہتا ہے، تاکہ بغیر کسی رکاوٹ یا خلفشار کے چین پر مکمل توجہ مرکوز کر سکے۔

 

لہٰذا، ٹرمپ نے ایران کے ساتھ یہ مذاکرات اس لیے شروع کیے تاکہ ایک ایسا معاہدہ کیا جا سکے جو ایران کی جوہری صلاحیتوں کو متعین کرے، اور یہ سب کچھ یورپی ممالک کو شامل کیے بغیر ہو رہا ہے۔

 

4- جہاں تک مذاکرات کے چوتھے دور کے التوا کا تعلق ہے، تو جیسا کہ میڈیا میں ذکر ہوا، اس کی وجہ "لاجسٹک" (logistical) وجوہات تھیں۔ لفظ "لاجسٹک" کا مطلب جیسا کہ ویکیپیڈیا میں آیا ہے: "فراہمی اور رسد (supply and provisioning) کا فن۔ جسے انگریزی میں Logistics کہتے ہیں یا عربی میں جسے "فن السوقيات" کہا جاتا ہے، یعنی یہ سامان، توانائی، اور معلومات کے بہاؤ کو منظم کرنے کا علم اور فن ہے..." گویا اس سے مراد ماحول کو منظم کرنا ور کشیدگی کو کم کرنا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ نے ایران کے ساتھ جاری مذاکرات کے ساتھ ساتھ اس پر نئی پابندیاں عائد کیں۔ ایک ایرانی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ "ایران-امریکہ مذاکرات کسی اور وقت ہوں گے، اور یہ امریکی طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے تہران پر عائد کی گئی پابندیاں، جوہری تنازعے کے حل کے لیے جاری سفارتی کوششوں میں مددگار نہیں ہیں۔" یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب امریکہ نے ایران کے تیل اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی غیرقانونی تجارت میں ملوث کچھ اداروں پر نئی پابندیاں عائد کیں۔ "امریکہ نے بدھ کے روز ان اداروں پر پابندیاں لگائیں جن پر الزام تھا کہ وہ ایران کا غیر قانونی تیل اور پیٹروکیمیکل کی تجارت میں ملوث ہیں، اور یہ سب کچھ ایران پر دباؤ بڑھانے کی امریکی کوششوں کا حصہ تھا۔" (الشرق، 1 مئی 2025) یہ پابندیاں ایسے وقت پر عائد کی گئیں جب فریقین کے درمیان سنجیدہ نوعیت کے مذاکرات جاری تھے، جیسا کہ متعدد ذرائع نے بیان کیا۔ اسی سلسلے میں، ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، اسماعیل بقائی نے کہا کہ "تہران امریکہ کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات میں سنجیدگی اور مضبوطی سے شرکت جاری رکھے گا۔" (الشرق، 1 مئی 2025)

 

لہٰذا، یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہ تاخیر مذاکرات کے مکمل خاتمے کی علامت ہے، بلکہ یہ ایک وقتی تعطل ہے تاکہ امریکی پابندیوں کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کیا جا سکے، جبکہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہےگا۔

 

5- یہ حقیقتاً حیرت کی بات ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اس بات پر رضامند ہو جاتے ہیں کہ امریکہ یہ طے کرے کہ مسلمانوں کے پاس کتنی طاقت، کس نوعیت کے ہتھیار، اور کس درجے کی صنعت ہو!

 

ان حکمرانوں کو یہ شعور ہی نہیں کہ اسلام میں طاقت کی تیاری کا مقصد دشمن کو شکست دینا، اسے مرعوب کرنا، اور اس پر رعب ڈالنا ہے۔ اگر دشمن یہ طے کرنے لگے کہ ہم کتنی طاقت رکھیں تو درحقیقت ہم شکست تسلیم کر چکے ہیں — وہ بھی جنگ سے پہلے! ایران امریکہ کو کیسے یہ اجازت دے سکتا ہے کہ وہ اس کی طاقت، میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں میں مداخلت کرے، جبکہ خود امریکہ کے پاس جوہری اسلحے کے انبار موجود ہیں، اور وہ کئی دہائیوں پہلے ہیروشیما اور ناگاساکی میں انہیں استعمال بھی کر چکا ہے؟! امریکہ تو کھلے عام یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن اصل تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ایران اور باقی مسلمان حکمران امریکہ کو کھل کر جواب دیتے کہ "پہلے تم اپنے جوہری ہتھیار تباہ کرو، پھر دوسروں سے اس کی توقع رکھو۔ اور پہلے تم اپنے میزائل ختم کرو، پھر دوسروں سے تقاضا کرو کہ وہ اپنے میزائل تباہ کریں۔" لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے، دشمن بھاری اسلحہ رکھے، اور مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اسے نہ رکھیں، تو یہ بات سراسر ظلم، تکبر اور دوسروں کو حقیر جاننے کے مترادف ہے... کاش وہ یہ بات سمجھ لیں!

 

یہ بات اللہ رب العزت نے اپنی کتاب قرآن مجید میں واضح فرما دی ہے:

﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾

"اور تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی مقدور بھر قوت  اور گھوڑوں کو تیار رکھو کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو،اور ان کے علا وہ اُن کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے لیکن اللہ انہیں خوب جانتا ہے اور جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے وه تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔" (سورۃ الانفال:60)

جیسا کہ "مقدمہ دستور" میں، صفحہ 256 پر بیان کیا گیا ہے:

[المادة 69: (يجـب أن تتوفـر لدى الجيش الأسـلحـة والمعدات والتجهيزات واللوازم والمهمات التي تمكنه من القيام بمهمته بوصفه جيشاً إسلامياً..) فقوله تعالى: ﴿تُرْهِبُونَ﴾ علة للإعداد، ولا يكون الإعداد تاماً إلا إذا تحققت فيه العلة التي شرع من أجلها، وهي إرهاب العدو وإرهاب المنافقين؛ ومن هنا جاءت فرضية توفير الأسلحة والمعدات والمهمات وسائر التجهيزات للجيش حتى يوجد الإرهاب، ومن باب أولى حتى يكون الجيش قادراً على القيام بمهمته وهي الجهاد لنشر دعوة الإسلام...].

"دفعہ نمبر69:   (یہ بھی فرض ہے کہ فوج کے پاس و افر مقدار میں اسلحہ، آلاتِ جنگ، سازو سامان اور جنگی مہمات کے لیے لازمی اور ضروری چیزیں ہوں تاکہ ایک اسلامی فوج ہونے کی حیثیت سے وہ با آسانی اپنی ذمہ داری کو ادا کر سکے ...)

آیت﴿تُرْهِبُونَ﴾ "تاکہ تم ہیبت طاری کرو" تیاری کا مقصد بیان کرتی ہے، اور تیاری اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنا مطلوبہ ہدف حاصل نہ کر لے، یعنی دشمنوں اور منافقین کے دلوں میں رعب ڈالنا۔ اسی سے یہ وجوب نکلتا ہے کہ فوج کے لیے ہتھیار، ساز و سامان، رسد اور تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ نہ صرف دشمن پر رعب ڈال سکے بلکہ اپنے اصل مشن کو بھی پورا کر سکے، جو ہے: دینِ اسلام کا پیغام دنیا میں غالب کرنا اور اس کے لیے قتال کرنا۔

 

یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پوری کوشش کریں کہ ان کی طاقت دشمن کی طاقت سے بڑھ کر ہو، اور کفار کے دلوں میں خوف و ہیبت پیدا کرے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری طاقت دشمن کے لیے ایک مستقل فکر اور دہشت کا باعث بنے۔ یہ سب کچھ دشمن کے ساتھ ایسے مذاکرات سے بالکل متصادم ہے جن میں وہ ہماری قوت، اسلحہ، اور عسکری صلاحیتوں پر پابندیاں عائد کرے، اور ہمیں اس قابل ہی نہ رہنے دے کہ ہم انہیں خوفزدہ کر سکیں۔

 

اور ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حزب التحریر، جو ایک ایسی جماعت ہے جس کے اراکین اپنی امت سے جھوٹ نہیں بولتے، کو اسلام کی ریاست، یعنی خلافتِ راشدہ کے قیام کی جلد از جلد توفیق دے، تاکہ وہ  دشمنوں کو ویسے ہی خوفزدہ کرے جیسے پہلے خلافت کیا کرتی تھی، وہ دنیا بھر میں بھلائی پھیلائے، اور کافروں کی چالوں کو انہی کے خلاف پلٹا دے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

"اور اس دن اہلِ ایمان خوش ہوں گے۔ اللہ کی مدد سے، وه جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔" (سور ۃ الروم:4،5)

 

4 ذی القعدہ 1446ھ

بمطابق 2 مئی 2025 بروز جمعہ

Last modified onبدھ, 07 مئی 2025 22:16

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.