Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    10 من جمادى الثانية 1447هـ شمارہ نمبر: 1447/22
عیسوی تاریخ     پیر, 01 دسمبر 2025 م

پریس ریلیز

 

پاکستان کی مسلح افواج کو اللہ رب العزت کے دشمنوں ٹرمپ اور یہود کی خواہشات کی پیروی کے بجائے فلسطین کی بابرکت سرزمین کی آزادی کیلئے روانہ کیا جائے

 

پاکستانی افواج کو غزہ کے مسلمانوں کی مدد اور وہاں یہودیوں کی جانب سے جاری مسلسل قتلِ عام کو روکنے کیلئے بھیجنے کا معاملہ تو کبھی زیرِ بحث نہیں آ سکا، یہ کہہ کر کہ غزہ تو دور ہے اور شرعی ذمہ داری اُن پر ہے جو قریب ترین ہوں، لیکن جیسے ہی پاکستانی حکمرانوں کے آقا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دشمن ٹرمپ نے حکم دیا کہ افواج کو غزہ بھیج کر اس کی خواہشات کی تکمیل کی جائے، اچانک پاکستان غزہ کا پڑوسی ملک بن گیا! اور ایک دم پاکستانی افواج کو وطن کے محدود قومی دائرے سے باہر کارروائیوں کے لیے تیار کر لیا گیا۔ یوں اس جھوٹ کا پردہ فاش ہو گیا کہ افواجِ پاکستان غزہ کے مسلمانوں کی مدد کیلئے نہیں بھیجی جاسکتیں، اور یوں ان حکمرانوں کی غداری پر مہر ثبت ہوگئی۔ اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ سیٹ اپ بھی ہمیشہ کی طرح ایک صلیبی استعماری کافر امریکہ کے کمان میں موجود ایک تیر کی مانند ہے، جو اس ملک کی طاقت، دولت اور افواج کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ اور اب ایک بار پھر یہ پاکستان کو یہودی ریاست اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہا ہے، حتیٰ کہ فلسطین کی مقدس اور بابرکت سرزمین میں بھی! یہ کیسی رسوائی اور کیسی شرم کی بات ہے جس تک اس ایجنٹ ریاست نے ہمیں پہنچا دیا ہے!

 

اسی تناظر میں 29 نومبر 2025 کو پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جو جھوٹ، فریب گوئی، دھوکہ دہی اور خیانت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ پریس کانفرنس امریکہ کے اس حکم پر عمل کرنے کا اظہار تھا، جس کا مقصد فلسطین میں یہودی ناجائز ریاست کے مفادات اور تسلط کا تحفظ ہے۔ اس کی پریس کانفرنس میں سے چند فریب یہ ہیں۔

 

پہلا فریب: اسحاق ڈار کا حماس کو غیر مسلح کرنے سے متعلق بیان کہ "ہم اس کے لیے تیار نہیں، یہ ہمارا کام نہیں۔۔۔ میری معلومات کے مطابق، اگر اس میں حماس کو غیر مسلح کرنا شامل ہوا، تو میرے انڈونیشین ہم منصب نے بھی غیر رسمی طور پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔" یہ بات سراسر فریب اور گمراہ کن ہے۔ کیونکہ غزہ میں صلیبی جنگ کے قائد ٹرمپ کی تجویز کردہ "امن فوج" کی حقیقت "امن" سے کوسوں دور ہے، کیونکہ یہ فوج امریکہ کے زیرِ کمان، زیرِ انتظام اور نگرانی کے اسی جنگی مرکز کے ماتحت ہوگی، جو غزہ کے نزدیک چل رہا ہے اور جو غزہ میں ابھی بھی قتل و تباہی کی کاروائیاں چلانے کا ذمہ دار ہے، یہاں تک کہ شرم الشیخ معاہدے کے بعد بھی، جہاں شہباز شریف اور اس کے ہمنوا جعلی گواہ بنے ہوئے تھے۔ تو کون یقین کرے گا کہ ایسی فوج امن قائم کرے گی؟ یہ دراصل کرائے کے سپاہی ہوں گے جو وہی گندا کام کریں گے جو امریکہ اور یہودی ریاست آج کر رہی ہے! اور اگر یہ واقعی امن فوج ہے تو بتائیں یہ کس کا "امن" محفوظ بنائیں گی؟ کیا یہ پورا پروجیکٹ اور تجویز ٹرمپ کی نہیں؟! اب تک اس نے یہودیوں کی جانب سے اس نام نہاد امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ کیا اس نے کبھی یہودی ریاست کو امن معاہدے کے پامال کرنے سے روکا؟ ظلم اور قتل عام سے روکا؟ کیا اس نے اب تک اس کی مذمت بھی کی ہے؟ یا وہ اس قتل و غارت کا مالی سرپرست، انتظامی ترتیب کار اور کلیدی سپورٹر نہیں ہے؟

 

دوسرا فریب: مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے تک کا، جہاں تک تعلق ہے، وزیر خارجہ کا بیان: "ہم اس کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہمارا کام نہیں، یہ فلسطینی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ ہمارا کام امن قائم رکھنا ہے، امن نافذ کرنا نہیں۔ ہم فورسز میں حصہ دینے کے لیے یقینی طور پر تیار ہیں — وزیرِ اعظم نے اصولی طور پر مشاورت کے بعد فیلڈ مارشل کے ساتھ اعلان کر دیا ہے کہ ہم حصہ دیں گے،" — یہ بھی ایک اور گمراہ کن بیان ہے۔ کیونکہ اگر یہ فورس واقعی امن قائم رکھنے کے لیے ہے تو کیا وہ یہودیوں کے خلاف جب وہ غزہ کے عوام یا مزاحمت پر کوئی عسکری کارروائی کریں گی تو اُن کے خلاف لڑیں گی؟ یا یہ فورسز اس بات کے لیے ہوں گی کہ غزہ کے لوگوں کو یہودی قابض کے خلاف مزاحمت کرنے سے روکا جائے، جیسا کہ بین الاقوامی طور پر طے شدہ ہے اور امریکہ کا مطالبہ ہے؟ پھر یہ وزیر کس مزاحمتی اسلحے کی بات کر رہا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہودیوں نے غزہ میں زیادہ تر مزاحمتی قوتوں کو شہید اور ختم کر دیا ہے، جبکہ وہ اور ٹرمپ کے "پسندیدہ فیلڈ مارشل" دو سال سے زائد عرصے تک تماشا دیکھتے رہے اور ایک انگلی تک نہیں ہلائی؟ مزید برآں، کیا فلسطینی اتھارٹی کے فورسز کی حمایت، جو خود یہودیوں کے لیے سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتی ہیں، یہودی ریاست کی براہِ راست حمایت اور غزہ کے عوام اور جو کچھ مزاحمت باقی ہے اس کے خلاف یہود کے ساتھ شمولیت نہیں؟ ان فورسز کا کردار وہی گندا کام مکمل کرنا ہوگا جو امریکہ اور یہودی ریاست نے شروع کیا ہے، یعنی اوسلو کے غدارانہ معاہدے کی کوکھ سے جنم لینے والے ایجنٹ حکمران محمود عباس کے ساتھ مل کر غزہ میں بچی کھچی مزاحمت کو ختم کرنا، اور بس!

 

تیسرا فریب: اسحاق ڈار کا کہنا کہ انڈونیشیا نے 20,000 فوجی پیش کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی "اصولی طور پر" اس میں شمولیت پر مثبت اشارہ دیا ہے - یہ بیان اس یہودی وجود، جو بابرکت مسجد الاقصیٰ اور اس کے اطراف پر قابض ہے، کی حقیقت سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ یہودی ریاست کی موجودگی مٹانے کے لیے انڈونیشیا یا پاکستان کے 20,000 جنگی سپاہی ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ ریاست نہتے عوام اور چند ہزار ہلکے اسلحے اٹھائے مجاہدین کے عزم کو توڑنے میں ناکام رہی، باوجودیکہ اسے امریکہ اور عالمی صلیبی اتحاد کی ہر معاونت حاصل تھی، جن میں اس خطے کے کئی ممالک بھی شامل ہیں، جن میں قرب و جوار کے ممالک خصوصاً اردن، مصر، ترکی، متحدہ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں ڈار صاحب، کہ یہودی ریاست پاکستان یا انڈونیشیا کے 20,000 بہترین جنگی تجربہ کار ایلیٹ فائٹر جوانوں کے سامنے ٹک سکتی ہے؟

 

یہ بندوبست، اپنی سیاسی اور عسکری دونوں شاخوں میں، اس نیچ غداری کی حامل کارروائی میں اپنے لیے مختص خیانت کے کردار سے واقف ہے۔ اسی لیے وہ چھپنے، جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے کا سہارا لیتا ہے تاکہ اپنی ساکھ بچا سکے، اگر کوئی رہی سہی ساکھ بچی ہوئی ہو تو۔ اسی پس منظر میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے گزشتہ ماہ 'غم و غصے' کے بارے میں جو خبریں آئیں کہ انہوں نے "حکومت کے ترجمان دانیال چوہدری کے متنازعہ بیانات" کی سخت مذمت کی کہ فورس کے مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا شامل ہو گا—سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس غصے والے شخص سے سوال ہے: اگر یہ فورس حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے نہیں ہے تو کیا یہ فورس مزاحمت کو جاری رکھنے دے گی؟ اور کیا یہ فورس مزاحمت کو اس کے جہاد اور دفاع کے فرض میں مدد دے گی، یا جیسا کہ ٹرمپ کے معاہدے میں ہے، اسے روکے گی اور اس کے خلاف لڑے گی؟ خواجہ آصف کی اس مشکوک ردِ عمل اور تفصیلات پر تحفظات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بھی وہی مشن انجام دیں گے جو ٹرمپ اور یہودی چاہتے اور پسند کرتے ہیں۔ ان کا بظاہر غصہ محض دھول جھاڑنے کے مترادف ہے تاکہ قوم کی نظروں میں اس غداری کو ہلکا دکھایا جا سکے۔

 

اے پاکستانی مسلح افواج کے اندر موجود مخلص افسران!

 

اگر تمہاری افواج مبارک سرزمین فلسطین جائے تو انہیں بطورِ مجاہد مسلح افواج کے طور پر بھیجا جائے تاکہ پورے فلسطین کو آزاد کیا جائے اور بیت المقدس اور اس کے اطراف کو یہودیوں کی نجاست سے پاک کیا جائے — اور اللہ کی قسم! اگر تمہارے پاس مخلص قیادت ہو جو توحید کا پرچم بلند کرے، تو تم اس کے اہل ہو۔ لہٰذا اپنے ان قائدین کے ہاتھ زبردستی پکڑ لو جو خوش دلی سے ٹرمپ کے اشاروں پر چلتے ہیں، انہیں گرا دو، اور اپنے درمیان سے مخلص کمانڈرز کھڑے کرو جو اسلام اور مسلمانوں کی حمایت کریں گے اور حزبِ التحریر کو عسکری مدد (نصرۃ) فراہم کریں گے جو خلافتِ راشدہ قائم کرے گی جو علی منہاج النبوۃ ہوگی — اور وہ لشکروں کو منظم کرے گی اور انہیں مبارک سرزمینِ فلسطین کی آزادی کیلئے رَوَانہ کرے گی تاکہ امریکہ اور یہودیوں کی نجاست سے اسے چھڑایا جا سکے اور پچھلے دو سالوں میں شہید ہونے والے ستر ہزار سے زائد شہداء کا بدلہ لیا جا سکے۔

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

"اے ایمان والوں! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین کے ساتھ چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو بجائے اس کے کہ تم آخرت کے لیے راضی ہوتے؟ دنیا کی زندگی کا سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔  اگر تم نہ نکلو تو وہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلاء کر دے گا اور تمہاری جگہ ایسی قومیں لے لیں گے جو تم سے بہتر ہوں گی، اور تم اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔" (سورہ التوبہ:38–39)

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.