الخميس، 07 ذو القعدة 1445| 2024/05/16
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حنا ربانی کھر کا دورہ سعودیہ عرب شام کے جابر کا خاتمہ قریب ہے اسی لیے دوسرے جابروں نے بھی لا حاصل بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے

پاکستان کی وزیر خارجہ یکم جنوری 2013 کو شام کے معاملے پر امریکہ اور خطے میں موجود دیگر غدار مسلمان حکمرانوں کی سازش میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے سعودی عرب جا رہی ہیں۔ یہ دورہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان نیویارک میں اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے جا رہاہے۔ پاکستان سلامتی کونسل کی صدارت اس وقت سنبھال رہا ہے جب شام کا مسئلہ سب سے بڑا بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔

وزیر خارجہ کے اس ہنگامی دورے کا مقصد پاکستان کے حکمرانوں کے آقا، امریکہ، کی خوشنودی اور اس کے مفادات کا تحفظ ہے۔ استعماری طاقتیں اس بات سے سخت پریشان ہیں کہ شام کے مسلمانوں کی جانب سے کسی بھی مغربی مداخلت کو مسترد کیا جا رہا ہے چاہے وہ ان کے نئے ایجنٹ کی صورت میں ہو یا مغربی جمہوریت کے نفاذ کی صورت میں۔ وہ اس بات سے سخت خوفزدہ ہیں کہ شام کے مسلمانوں نے اللہ سبحانہ و تعالی کے سوا کسی کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں خلافت کی آواز سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ امریکہ شام میں خلافت کے قیام سے پریشان ہے اور اس بات سے خوفزدہ ہے کہ یہ خلافت دوسری مسلم سرزمینوں تک پھیل جائے گی کیونکہ خلافت تمام مسلمانوں کی ریاست ہے اور اس کا خلیفہ تمام مسلمانوں کا حکمران ہوتا ہے۔

اب تک پاکستان کے حکمرانوں نے شام کی حقیقی صورتحال سے متعلق میڈیا بلیک آوٹ کر کے، جس میں اس وہ وڈیوز بھی شامل ہیں جس میں شام کے مسلمان عظیم شان مظاہروں میں خلافت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں، امریکہ کی معاونت کی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے مغرب کے اس موقف کی حمائت کی ہے جس میں شام میں اسلامی تحریکوں کی موجودگی کی مخالفت کی گئی ہے اور مغرب انھیں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر شام میں مغرب کی فوجی مداخلت چاہتا ہے۔ پاکستان کے حکمران پاکستان میں خلافت کے مطالبے کی قوت سے گھبرا کر افواج پاکستان اور سیاست دانوں میں موجود ان لوگوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اس غدار زرداری، کیانی اور ان کے ٹولے سے بالکل غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ میں بھر پور شرکت کرتے ہیں، ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی دہشت گردوں کو پاکستان بھر میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ہر اس شخص کو انعام سے نوازتے ہیں جو ان کی غداری میں معاونت فراہم کرے اور امریکہ کی حمائت میں میڈیا مہم چلاتے ہیں۔

اس وقت شام میں خلافت کے قیام کی جدوجہد مغربی استعماری طاقتوں کے خلاف پوری مسلم امت کی جدوجہد کی ترجمانی کرتی ہے۔ غدار حکمرانوں کی بھاگ دوڑ صرف ان کی غداریوں پرمہر تصدیق ثبت ہوگی جنھیں خلافت کی عدالتوں میں اپنی غداریوں کی بناء پر ذلت آمیز مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم ان غدار حکمرانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی یہ بھاگ دوڑ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے ناکافی ہے اور ان کی یہ شدید کوشش قیامت کے دن اللہ کی شدید ناراضگی کا باعث بنے گا۔ لہذا ان کی یہ بھاگ دوڑ لا حاصل ہے کیونکہ اسلام اور اس کی امت اللہ سبحانہ و تعالی کی مدد سے ضرور کامیابی حاصل کرے گی۔

يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَىٰ ٱللَّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَافِرُون هُوَ ٱلَّذِيۤ أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ َ

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے مگر اس بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش ہوں۔ اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں۔

(التوبة:32,33)

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

خلافت کے داعی کا بیان سنگین مقدمات کے ذریعے شرمناک سیاسی انتقام حکمرانوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے

السلام علیکم!

میرا نام محمد ارشد جمال ہے اور میں تین بچوں کا باپ ہوں۔ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، پیشہ کے اعتبار سے آئی ٹی کنسلٹنٹ ہوں اور گزشتہ دس برس سے معاشرے کی تعمیر میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے حصہ ڈال رہا ہوں۔

رواں سال 11 اگست 2012 کو مجھے ٹائون شپ تھانے کی حدود سے وہاں پر تعینات SHO نے اس وقت گرفتار کیا جب میں اپنی موٹر سائیکل چھڑوانے تھانے گیا تھا۔ تقریباَ 24 گھنٹے مجھے اسی تھانے کی ایک کوٹھڑی میں غیر قانونی حبسِ بےجا میں رکھا تا کہ ا مریکی جھولی میں بیٹھی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ماتحت ایجنسیاں اپنے ظرف کے مطابق مجھ پر طبع آزمائی کر سکیں۔ اس دوران جو دوست احباب مجھے ڈھونڈتے اس تھانے پہنچے ان سے میری موجودگی کے بارے میں جھوٹ بولا جاتا رہا اور انھوں نے اس گرفتاری کے واقعے سے لا تعلقی ظاہر کی۔

12 اگست 2012 کی شام میرے خلاف ایک عدد FIR درج کی گئی اور میرے چہرے پر نقاب ڈالے مجھے میڈیا کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جیسے کسی کمانڈر کے قبضہ سے کوئی ٹینک برآمد ہوا ہو۔ اس FIR میں بغاوت اور دیگر دفعات کے علاوہ پاکستان آرمی ایکٹ کی وہ ناقابلِ ضمانت سنگین دفعہ (PAA Section ii (D) بھی شامل کی گئی کہ اگر کسی صورت حکام اپنا کوّا سفید ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو میرے خلاف کورٹ مارشل تک کی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی تھی جس کا ایک انجام یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مجھے سزائے موت سنا دی جاتی۔ ابھی اس مقدّمہ کی کاروائی جاری تھی کہ مجھے ایک اور FIR کا مژدہ سنا دیا گیا جو اسی ہفتہ میں ڈیفنس کے ایک تھانے میں میرے خلاف درج کی گئی تھی جس میں شامل دفعات پہلے سے بھی زیادہ غضب ناک تھیں۔

یہ دو مقدّمات بھگتنے میں مجھے اڈھائی ماہ سے زائد کا عرصہ لگا اور بالآخر میں ان مقدّمات سے باعزت بری ہو گیا۔ میں اس انتقامی کاروائی کا محض ایک نشانہ ہوں۔ میرے خلاف یہ کاروائی اس رٹ کے جواب میں مجھے سبق سکھانے کے لئے عمل میں لائی گئی جو میں نے لاہور ہائی کورٹ میں ان حکام کے خلاف اس وقت دائر کی جب ان حکام کی طرف سے اغواء و تشدد اور قتل کی دھمکیوں کا وہ گھنائونا سلسلہ شروع ہوا جس میں عمران یوسفزئی جیسے باصلاحیّت نوجوانوں اور ڈاکٹر عبدالقیوم جیسے قابلِ احترام بزرگوں تک کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان جیسے کئی معزز شہریوں کی ایک فہرست موجود ہے جو ان حکام کے عتاب کا نشانہ بنے۔

ان کاروائیوں کی شرمناکی کی انتہا یہ ہے کہ ان حکام نے لوگوں کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کی ان نشستوں پر دھاوا بولنا شروع کر دیا جن میں ملکی و غیرملکی اہم سیاسی اور فکری موضوعات پر گفتگو کی جاتی اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا جاتا۔ ان نشستوں کے شرکاء میں تاجر، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹ، پراپرٹی ڈیلرز، منیجرز، اکائونٹنٹ، طلباء اور معاشرے کے مختلف دھاروں سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہوتے۔ ان حضرات کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے ایک تحقیر آمیز میں پیش کر کے انکی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا۔ کسی کی ملازمت گئی تو کسی کو کاروباری نقصان ہوا اور کسی کی تعلیم کا حرج ہوا۔

معاشرے کے ان ذمہ دار افراد کو محض اس لئے ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ معاشرے میں ایک حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور جان چکے ہیں کہ یہ تبدیلی خلافتِ راشدہ کے بغیر ممکن نہیں اور اس خلافتِ راشدہ کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر جیسی اس نظریاتی جماعت سے وابستہ ہوئے کہ دنیا بھر کے حکمران ریاستی طاقت کے زورکے باوجود جس کے فکری و سیاسی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک ایسی پر امن جماعت جس پر محض امریکی خوشنودی کی خاطر جنرل مشرف نے 2003 میں پابندی لگا دی کیوں کہ حزب التحریر اس امریکی وفادار کی بزدلی اور خیانتوں کو بے نقاب کر رہی تھی۔ اس پابندی کی آڑ میں اس جماعت اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف حکمرانوں کا قبیح پروپیگنڈا مسلسل جاری ہے۔ پہلے حربے کے طور پر اس پر مذہبی منافرت، فرقہ وارئیت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے بے سروپا الزامات لگائے گئے اور آخری حربے کے طور پر فوج جیسے ملکی سالمیت کے اہم ترین ادارے میں انتشار اور اسے کمزور کرنے کے مکروہ ترین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حزب التحریر وحدت پر مبنی ایک ایسی ریاست خلافت کے قیام کی طرف دیکھ رہی ہے جو مسلم ممالک کے درمیان ان مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرے گی اور جس میں رنگ، نسل، مذہب اور علاقائی وابستگی سے قطع نظر تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہونگے۔ پھر یہ ریاست ان آفاقی نظریات کو دنیاپر پیش کرے گی۔

حزب التحریر ایک ایسی ریاست کی سوچ دیتی ہے جس کی حکمرانی مضبوط ترین لیکن قابل ِگرفت ہوگی۔ جسکی معیشت غربت میں کمی نہیں بلکہ اس کا خاتمہ کرے گی۔ جس کا معاشرہ عزت و غیرت کا پیکر ہو گا۔ جس کی عدلیہ فوری انصاف فراہم کرے گی۔ جسکا تعلیمی ڈھانچہ دنیا کے قابل ترین افراد پیدا کرے گا اور جس کی خارجہ سیاست ایک New World Order کی بنا ڈالے گی اور جس کی فوج کشمیر، افغانستان، فلسطین اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے شکنجے سے نجات دلائے گی۔ یہ تمام اقدامات امریکہ کی موجودہ سیاسی و اقتصادی چودھراہٹ کیلئے ناقابلِ برداشت دھچکا ہوں گے۔ یہ واضح خطرات ہی مغرب کے لئے وہ حقیقی چیلنج ہونگے جس سے پیشگی نمٹنے کے لئے حزب التحریر پر آج ہر اس ملک میں پابندی ہے جہاں سے حزب التحریر کے زیرِقیادت خلافتِ راشدہ کا دوبارہ احیاء ہو سکتا ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ آج سپین سے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سے مراکش تک ان خطرات کو بڑی شدّو مد کے ساتھ محسوس کر رہا ہے۔

پاکستان اسلام کی خاطرحاصل کیا گیاتھا امریکی مفادات کی خاطر نہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الاللہ وہ نعرہ تھا جس کیلئے ہمارے اسلاف نے اپنی عزت، جان اور مال سمیت سب کچھ دائو پہ لگا دیا۔ اسکی جڑوں کو ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔ تو پھر ایک ایسے ملک میں اسلام کے نفاذ کی بات کرنا جرم کیوں؟

ہمیں اس لئے اغواء و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم حکام کو روزِ حشر کا وہ بھاری دن یاد کراتے ہیں جس دن بڑے سے بڑا غدار اپنے جھنڈے کی اونچائی سے پہچانا جائے گا۔ ہمیں اس لئے مقدمات کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ان حکام کا کڑا محاسبہ کرتے ہیں۔ ہمیں اس لئے تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اسلام سے نفرت کرے والے سے نفرت کرتے ہیں۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ایک ایسے ملک میں اسلام کے ان آفاقی تصورات، اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے ذِکر پر پابندی ہونی چاہئے؟ کیا پاکستان میں مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اورپسِ پردہ سازشوں کے پردوں کو چاک کرنے پر پابندی ہونی چاہئے؟ یاان کی سازشوں میں شریک سیاسی و عسکری قیادت میں موجود غداروں کی خیانتوں کو بے باکی سے بے نقاب کرنے پر پابندی ہونی چاہیے؟

حزب التحریر یہ تمام کام پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے کرتی ہے۔ کیا حزب التحریر پر پابندی ہونی چاہیے؟

اتمامِ حجت کے لئے میں مطالبہ کرتا ہوں۔

1. آج کے اس آزاد میڈیا سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے اس بودے پن کو بے نقاب کرے اور اسے بھی اپنے نظریات کو پیش کرنے کا پورا پورا حق دے۔

2. انسانی حقوق کی تنظیموں سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے خلاف بھی اپنے روائتی انداز میں مہم چلائیں کہ جس کی وجہ سے اس سے وابستہ افراد اپنے بنیادی شہری حقوق تک سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔

3. عدلیہ سے کہ وہ نہ صرف ان جھوٹے مقدمات کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے بلکہ اس نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے جو حزب التحریر پراس غیر منصفانہ پابندی کا سبب ہے۔

4. میں قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کے اہلکاروں کو یہ یاد کراتا ہوں کہ اب جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عسکری وسیاسی قیادت میں موجود غدار امریکہ کی جھولی میں بیٹھی آپکو احکامات دے رہی ہے، روز حشر آپ کے کسی افسرِ بالا کا آرڈر اور نہ ہی ایسی کوئی وضاحت کوئی معنی رکھے گی کیونکہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے۔

فإن أُمِرَ بمعصية فلا سمع ولا طاعة

اگر معصیت کا کام کرنے کا حکم دیا جائے تو وہ نہ تو سنے اور نہ ہی اطاعت کرے (اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا)

اس وقت جب میں یہ تحریر رقم کر رہا ہوں۔ میرے اوپر بیٹھے بیٹھے کم از کم ایک اور مقدمہ کا انکشاف ہو چکا ہے۔ جو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔ اور اس تحریر کے شائع ہو جانے کے بعد اس حق گوئی کی پاداش مزید میں کتنے مقدمات میرے خلاف کھڑے کر دیئے جائیں گے معلوم نہیں۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

ترجمان کے اغوا کا مسئلہ خاندان کا نوید بٹ کی فوری بازیابی کا مطالبہ

السلام علیکم!

آج نوید بٹ کو اغواء ہوئے 7 مہینے سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران رمضان کا با برکت مہینہ گزرا، مسلمانوں کی دو عیدیں گزریں مگر ان ظالم حکمرانوں کو نہ رمضان کے تقدس کا خیال آیا اور نہ ہی عیدوں کا لحاظ کہ یہ رمضان اور یہ عیدیں نوید بٹ کے اہلِ خانہ اور ان کے بچوں کے لئے کیسی تھیں۔ نوید بٹ جو کہ ایک انجینئر ہیں انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نظا مِ خلافت کے نفاذ کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ جو لوگ بھی نوید بٹ کو جانتے ہیں اور ان سے مل چکے ہیں، چاہے ان کا تعلق میڈیا سے ہو یا سیاست سے، اچھی طرح اس بات کو جانتے ہیں کہ نوید بٹ کی جدوجہد صرف سیاسی اور فکری نوعیت تک محدود تھی اور وہ خلافت کے نفاذ کے لئے کام کرنے والی سیاسی جماعت کا عسکری جدوجہد کرنے کو نبی ﷺ کے طریقے سے متصادم سمجھتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نوید بٹ بہادری سے عصرِحاضر میں کلمہِ حق کو بلند کرنے میں کسی خوف کے بغیر مسلسل مصروف رہے اور اس دوران انہوں نے قلم اور تقریر کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اسلام کے اس داعی کو آج سے سات مہینے پہلے، اس کے بچوں کے سامنے اغواء کیا گیا اور تاحال ان کی خیریت کی کوئی خبر نہیں۔ مزید برآں، اب ان ہرکاروں نے ان کے خاندان کے لوگوں کو خاموش رکھنے کے لئے ان پر دبائو ڈالنا اور ان کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے ایک بھانجے کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی اور ان پر گولیاں تک چلا دی گئیں، اور ایک بھانجے کے گھرپر ان کی والدہ اور بچوں کے سامنے چھاپہ مارا گیا۔

ہم، نوید بٹ کے قریبی اہلِ خانہ اور رشتہ دار اس افسوسناک صورتحال پر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور اہلِ خرد اور احساس رکھنے والوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام کے نظام کے لئے بلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو مہینوں تک غائب کر دیا جائے؟ ہم انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا حکمرانوں کا احتساب کرنا اور ان کے غلط فیصلوں پر ان سے سوال کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس ملک کے قانون سے بالاتر ہو کر ایک شخص کو اپنا وکیل کرنے جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے؟؟ اور ہم ان حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں اللہ کا خوف نہیں؟ کیا وہ یہ ایمان نہیں رکھتے کہ اس مختصر زندگی کے بعد ایک دن انہیں اللہ کے حضور اپنے ان اعمال کا جواب دینا ہوگا؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ نوید بٹ کو غائب کر کے وہ اللہ کے دین کے نفاذ کو روک لیں گے؟

ہم اعلان کرتے ہیں کہ نوید بٹ کی قربانی اور ان کے خلاف جو ناانصافی کی گئی ہے، اِس نے اُن سب کو جو نوید کو جانتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں، خلافت کی جدوجہد کے لئے اور زیادہ متحرک کر دیا ہے اور ہم پہلے سے زیادہ مضبوطی سے ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو خلافت کے قیام کے لئے دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں۔ ہم شدید ترین مطالبہ کرتے ہیں کہ نوید بٹ کو فوری بازیاب کروایا جائے اور ان کو اغواء کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ہم پاکستان کے مسلمانوں کو پکارتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ مسلم امت دوبارہ اسلامی ریاست، خلافت کے ذریعے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر لے اور انشاء اللہ اس دن مسلمان خوشیاں منائیں گے۔

(بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ Oوَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ)

"اور اُس روز مومن خوش ہو جائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے"

(الروم:4-5)

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

جمہوریت مسائل کی جڑ ۔ خلافت مسائل کا حل مغوی نوید بٹ کی کتاب کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کی کتاب "جمہوریت مسائل کی جڑ ۔ خلافت مسائل کا حل" کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ اس وقت شائع کیا جا رہا ہے جب نوید بٹ کو اغوا ہوئے تقریباً سات ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا میں استعماری کفار نے جمہوریت کو واحد نظام حکومت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ استعماری کفار نے اسلام کے نظام حکومت خلافت سے متعلق واضع احکامات کو مسلمانوں کے اذہان میں دھندلا دیا ہے۔ کفار اپنی اس کوشش میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ مخلص مسلمان علمائ، دانشور، مفکرین بھی جمہورت کو ایک اسلامی فکر تصور کرنے لگے۔ آج جبکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں جمہوریت نظام عوام کی ایک عظیم اکثریت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں یکسر ناکام ہو چکا ہے لہذا لوگ ایک نئے نظام کی راہ تک رہے ہیں۔ نوید بٹ کی تحریر کردہ یہ کتاب مسلمانوں اور انسانیت کی رہنمائی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کتاب کے چار حصے ہیں:

1 کیوں جمہوریت تمام مسائل کی جڑ ہے۔

2 فکری لحاظ سے جمہوریت کی حقیقت

3 کیوں 1973 کا آئین ایک سیکولر اور غیر اسلامی آئین ہے

4 ریاست خلافت کا ڈھانچہ

موجودہ صورتحال میں جب پوری مسلم دنیا میں بیداری کی لہر چل پڑی ہے، عوام استعماری نظام اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں اور پاکستان میں عوام کو ایک بار پھر اس استعماری نظام سے امیدیں وابستہ کرنے کے لیے انتخابات کا ڈرامہ شروع ہونے والا ہے، یہ کتاب دانشوروں، تجزیہ نگاروں، مفکرین، بیوروکریٹس، ججز، سیاست دانوں، تاجروں، صنعتکاروں اور عوام کو موجودہ مسائل کو سمجھنے اور اس کے صحیح حل کی طرف بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

میڈیا سے التماس ہے کہ اس کتاب کے حوالے سے فیچرز لکھیں اور پروگرام کریں، عوام کو اس اہم کتاب سے آگاہ کریں اور عوام کی صحیح رہنمائی کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

نوٹ: یہ کتاب مندرجہ ذیل انٹرنیٹ پتے پر دیکھی جا سکتی ہے۔

انگریزی ترجمہ:

Link-1

Link-2

 

اردو کتاب:

Link-1

Link-2

Read more...

پشاور ائرپورٹ، جمرود اور نوشہرہ چھاونی پر حملہ اسلام کے خلاف امریکی جنگ کو اپنی جنگ تسلیم کروانے کی ایک اور گھناونی کوشش

ہفتے کی رات تقریبا آٹھ بج کر تیس منٹ پر پشاور کے ہوائی اڈے پر دہشت گردوں نے راکٹوں سے حملہ کر دیا اور کچھ ہی دیر بعدکج رو سرکاری برطانوی میڈیا، بی بی سی نے یہ خبر دی کہ طالبان کے مبینہ ترجمان احسان اللہ احسان، جو کہ ایک غیر معروف اور خفیہ کردار ہے، نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ خبر آتے ہی تقریبا تمام ٹی وی چینلز پر تبصرے شروع ہو گئے جن میں خطے میں جاری اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر قبول کرنے اور پاک فوج کے جوانوں کو مزید اس فتنے کی جنگ کا ایندھن بنانے کے مشورے دیے گئے۔ اس واقع کے بعد حکمرانوں نے پشتخرہ اور باڑہ روڈ کے علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا اور وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا میاں افتخار حسین نے ایک بھر پور آپریشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔

اس سے قبل امریکی سیکریٹری دفاع لیون پنیٹا نے 12 دسمبر 2012 کو اپنے دورہ کابل کے دوران کہا کہ "آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے محفوظ ٹھکانوں پر مزید دباؤ بڑھانے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے" اور آج ہی پینٹاگون نے کانگریس کو مطلع کیا ہے کہ "کولیشن سپورٹ فنڈ" کے تحت پاکستان کے لیے سات سو ملین ڈالر کی رقم جاری کی جا رہی ہے۔ لاہور میں امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دن دھاڑے دو پاکستانیوں کے قتل کے بعد سے پاکستان کے مسلمان یہ جان چکے ہیں کہ شہری و فوجی تنصیبات پر حملوں میں امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ملوث ہے اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے امریکہ کی خفیہ فوجی اور نجی تنظیموں یعنی سی۔آئی،اے اور بلیک واٹر کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بلخصوص اور پورے پاکستان میں بلعموم جاسوسی اور تخریبی کاروائیاں کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے قبائلی مسلمان بھائیوں کے خلاف کسی صورت لڑنا نہیں چاہتے لیکن انھیں قائل کرنے کے لیے کہ قبائلی علاقوں میں مسلمانوں سے نہیں بلکہ کافروں سے لڑائی ہو رہی ہے کبھی یہ کہانی سنائی جاتی ہے کہ ان کے ٹھکانوں سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں یا جب ان کی لاشوں کا معائنہ کیا گیا تو ان کے ختنے نہیں ہوئے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ غدار حکمرانوں کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے تو اب ایک شیطانی ٹیٹو کو سامنے لایا گیا ہے اور اس لاش کی خوب تشہیر کی گئی ہے تا کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار عوام کو یہ یقین دلا سکیں کہ ہم اپنے فوجیوں کو قبائلی علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں سے نہیں بلکہ کفار سے لڑنے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں۔ غدار حکمرانوں نے اپنے امریکی آقا کے حکم پرایک غیر واضع ہدف ہونے کے باوجود پورے قبائلی علاقے کو پچھلے آٹھ سالوں سے میدان جنگ بنایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں شہری اور فوجی جوان شہید جبکہ لاکھوں قبائلی مسلمان اپنے ہی ملک میں ہجرت کرنے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں اور پاکستان مزید بدامنی کا شکار ہو گیا ہے۔

میڈیا اور مختلف سابق فوجی اور سفارتی شخصیات کی جانب سے اس حقیقت کو آشکار کرنے کے باوجود کہ پاکستان کے بڑے شہروں اور فوجی چھاونیوں میں بلیک واٹر کے محفوظ ٹھکانے (Safe Houses) موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ان محفوظ ٹھکانوں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے قبائلی علاقوں میں فتنے کی جنگ میں ہزاروں فوجیوں کو جھونک دیا گیا ہے لیکن ملک بھر میں موجود بلیک واٹر کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

یہ طرزعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حکمران بازاروں، فوجی تنصیبات ،پاکستان کے شہریوں اور افواج پاکستان پر ان حملوں کی روک تھام نہیں چاہتے بلکہ ان حملوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کی آگ کو مزید بھڑکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ حکمران مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہوتے تو امریکہ کی ان نجی عسکری تنظیموں کو پاکستان میں داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ مسلمانوں کے مصائب کی بنیادی وجہ یہ حکمران ہیں جب تک ان کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر ان کی جگہ ایک خلیفہ کی بیعت نہیں کی جائے گی مسلمانوں کی جان ومال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہو سکتی، اسی خلیفہ کو اللہ کے رسول ﷺ نے امت کے لیے ڈھال قرار دیا ہے،

(إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ)

"بے شک خلیفہ ایک ڈھال ہے جس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے بچائو ہو تا ہے" (مسلم)۔

آج وہ ڈھال نہیں اس لیے مسلمان بھی محفوظ نہیں۔ اے مسلمانو! آپ اس خلافت کے قیام اور اس ڈھال کو دوبارہ حاصل کرنے کے اہم دینی فریضے کی ادائیگی میں حزب التحریر کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ اے پاکستان کے مسلمانو اور فوج میں موجود مخلص افسران! کیا آپ حزب التحریر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے پیارے نبی ﷺ کی اس بشارت کے مستحق نہیں بننا چاہتے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

(ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة)

"پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی" (مسند احمد)۔

 

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت عوام کے ساتھ جمہوریت کا انتقام ہے خلافت امت کو توانائی کی مصنوعی قلت سے نجات دلائے گی

عوام جوپہلے ہی کئی بحرانوں کا سامنا کر رہے تھے ان پر اب سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت کا بحران بھی تھونپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھنٹوں تک گاڑی میں گیس بھروانے کے لیے لائنوں میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس مصنوعی بحران کو ختم کرنے کے بجائے عوام کو اس عذاب سے نکلنے کے لیے یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ مہنگی درآمدی ایل۔پی۔جی اور پیٹرول پر منتقل ہو جائیں یا مہنگی سی۔این۔جی خریدنے پر تیار ہو جائیں۔ تقریباً ایک عشرے قبل حکومت کی جانب سے سی۔این۔جی کو یہ کہہ کر متعارف کرایا گیا تھا کہ یہ ایک ملکی خزانہ ہے جس کے استعمال سے نہ صرف مہنگے درآمدی پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں کمی آئے گی اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ سستا ایندھن ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں کمی واقع ہو گی، عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ صاف ایندھن ہونے کی بنا پر ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا ان تمام سالوں میں کسی حکمران کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ملک میں گیس کے ذخائر اس قدر موجود نہیں کہ گھریلو و صنعتی صارفین اور بجلی کے کارخانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورانہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت یہ حکمران جھوٹ بول رہے ہیں۔

ملک میں توانائی کی کوئی حقیقی قلت موجود نہیں ہے جس کا ثبوت ملک میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ میں پچھلے دو ماہ میں اچانک حیرت انگیز کمی ہے کہ کہاں شہروں میں دن میں بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیدنگ ہو رہی تھی جو اب گھٹ کر ایک یا دو گھنٹے رہ گئی ہے۔ اسی طرح سے ملک میں گیس کی بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ 2 اکتوبر 2012 کو مشیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹرعاصم حسین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیل و گیس کی کئی کمپنیوں نے پچھلے چند سالوں کے دوران گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے باوجود نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں اس کی کم قیمت مل رہی تھی۔ اور جب وزیر پیٹرولیم سے یہ پوچھا گیا کہ ان کمپنیوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی تو ان کا جواب تھا کہ ان کمپنیوں کو سزا دینے کے بجائے حکومت کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ لیکن پیٹرولیم پالیسی 2012 کے اعلان کے بعد یہ کمپنیاں نئے دریافت شدہ ذخائر سے نئی قیمتوں پر گیس کی پیداوار دینے کے لیے تیار ہو گئیں ہیں۔ اس ظالم حکومت نے 2012 کی پیٹرولیم پالیسی میں نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت 3.24 ڈالر MMBTU سے بڑھا کر 6 ڈالر MMBTU کر دی ہے۔ OGDCL (آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ)، جس کا پاکستان کی تیل کی پیداوار میں حصہ 58 فیصد اور گیس کی پیداوار میں 27 فیصد حصہ ہے، نے مالیاتی سال 2011-12 میں بعد از ٹیکس 91 ارب روپے کا خالص منافع کمایا ہے۔ اگر صرف ایک کمپنی کا ایک سال کا منافع اس قدر زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی کمپنیاں بھی سالانہ اربوں روپے کما رہی ہیں اور اب نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد ان کے منافع میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ ہے جمہوریت کا کمال جو انسانی اور ملکی ضرورت کی ایک انتہائی اہم چیز کی پیداوار صرف اس لیے نہیں لے رہی تھی کیونکہ چند کمپنیوں کو ان کی مرضی کا منافع حاصل نہیں ہو رہا تھا۔ اور اب ایک بار پھر گیس کی مصنوعی قلت کا یہ مجرمانہ اور ظالمانہ فعل اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتیں ہفتوں کے لیے بند ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو کر فاقوں پر مجبور ہیں اور ملکی معیشت کو اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے مجرم ہونے کا ایک اور بڑا ثبوت سالوں گزر جانے کے باوجود تھر کے کوئلے کے عظیم ذخائر سے فائدہ نہ اٹھا نا ہے۔ مشیر پیٹرولیم کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور استعماری طاقتیں مسلم ممالک میں آمر اور جمہوری دونوں طرح کے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکمران امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مرضی کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک زبردست قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ان ممالک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنسے ہوتے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکمران اس دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں تیل، گیس اور معدنی وسائل کو آزاد معیشت کے نام پر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔

صرف خلافت ہی امت مسلمہ اور انسانیت کو اس ظلم سے نجات دلائے گی کیونکہ اسلام نے قانون سازی کا حق انسانوں سے لے کر ہمیشہ کے لیے کرپشن کے اس دروازے کو بند کر دیا ہے۔ اسلام تیل، گیس اور تمام معدنی وسائل کو امت کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لیے خلافت ان وسائل پر نفع نہیں کمائے گی اور ان وسائل کو امت تک ان پر آنے والی لاگت کی قیمت پر پہنچائے گی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

((المسلمون شرکاء ف ثلاث ف الماء والکل والنارو ثمنہ حرام))''

"تمام مسلمان تین چیزوں میں برابرکے شریک ہیں: آبی ذخائر، چراگاہیں یا جنگلات اور آگ (توانائی کے وسائل)۔ اور اِن کی قیمت حرام ہے" (داود)۔

اسلام کے صرف اس ایک حکم کے نفاذ سے کھربوں روپے کا منافع جو اس وقت حکمرانوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجوریوں میں جا رہا ہے اس کا رخ عوام کی جانب مڑ جائے گا، امت کو سستی اور وافر توانائی کے وسائل میسر ہوں گے اور سستی توانائی کی بدولت صنعتیں زبردست ترقی کریں گی۔ حزب التحریر امت سے پوچھتی ہے اگر انتخابات کے بعد نئے چہروں پر مشتمل نئی حکومت نے بھی توانائی کے وسائل کی نجکاری کا سلسلہ جاری رکھا تو کیا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ نئی آنے والی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح توانائی کے بحران کی ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دیتی رہے گی جبکہ حقیقت میں اصل مسئلہ جمہوریت ہے جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ایماندار حکمران بھی اسلام کو نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین یعنی سرمایہ داریت کو ہی نافذ کرتا ہے۔ لہذا امت انسانوں کے بنائے ہوئے کفریہ جمہوری نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کے نظام یعنی خلافت کے قیام کے ذریعے اس ظلم کے نظام کے خاتمے میں حزب التحریر کا ساتھ دیں اور اس نعرے کو بلند کریں "نئے چہرے، نیا نظام - حزب التحریر اور خلافت کا نظام"۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک