السبت، 02 جمادى الثانية 1447| 2025/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ

 

 

"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے "

 

[ سورۃ الشعراء: آیت  214]

(ترجمہ)

یہ ہمارے زمانے کی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں کا عرصہ گزرنے کے ساتھ ساتھ،دعوت کے کام میں مصروف بے شمار سرگرم افراد اپنے بچوں کے دباؤ کی وجہ سے سست پڑ جاتے ہیں، اور بعض اوقات تو مکمل طور پر رک بھی جاتے ہیں۔ یہ داعی فکری طور پر وہی پختہ عقائد رکھتے ہیں، مگر کئی صورتوں میں— بہت سی صورتوں میں— انہیں اپنے بچوں کی طرف سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوجوان مرد و خواتین (شباب) معاشرتی اصولوں کی پیروی کرنے کے لیے سنگین سماجی دباؤ  کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ داعی ایسے نظریات اور مؤقف اختیار کرتے ہیں جو معاشرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں اور ان کے بچے لادین تعلیمی نظام اور سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر ایک آزاد خیال  ماحول سے دوچار ہوتے ہیں۔

 

لہٰذا، ایسی گھریلو مخالفت کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی راستہ  نہیں ہوتا، کیونکہ یہ اسی خاندان کی طرف سے آتی ہے جس سے ہم سکون، اطمینان اور سہارے کی توقع رکھتے ہیں۔ سالوں اور دہائیوں پرمستمل خاندان کی یہ مخالفت ،  داعی کو تھکا دیتی ہے۔ وہ اکثر خود کو اس دعوت کے بیچ، جو وہ لے کر چل رہے ہوتے ہیں، اور اپنے گھر میں اپنے بچوں کی طرف سے "معاشرے میں شامل ہونے" (fit in) کے مسلسل مطالبات کے درمیان تضاد کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ تضاد نماز، حجاب، عبایا، سود پر قرضے (student loans on interests) لینے اور مرد و زن کے اختلاط سے متعلق معاملات تک پھیلا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ ایک داعی کے لیے اس کا برداشت کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ بہت زیادہ پریشان کن اور تکلیف دہ بھی  بن سکتا ہے۔

 

دوسری طرف، وہ خاندان جنہیں کئی ایسے بچے نصیب ہوئے ہیں جو دعوت کا بوجھ اٹھاتے ہیں، وہ ایک سہارے اور محرک کا کام کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کے داعی شادی، والدین بننے اور یہاں تک کہ دادا دادی بننے کے بعد بھی ایک مستقل رفتار قائم رکھتے ہیں۔یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری زندگیوں میں بھلا ئی اس بات میں مضمر ہے کہ ہم سنتِ نبوی ﷺ پر قائم رہیں، جبکہ بدحالی اور ناکامی اُس وقت سامنے آتی ہے جب ہم اس راہ کو ترک کر دیتے ہیں۔تو، آئیے اس پر گہرائی سے غور کریں کہ گھرانے کے حوالے سے سنت کا طریقہ کیا ہے؟

 

مسلمان گھرانے کا بہترین  نمونہ اللہ کے رسول ﷺ کا بابرکت گھرانہ، اہل بیت، ہے۔ یہ ایک ایسا گھرانہ تھا جسے ایک بیٹی، فاطمہ (رضی اللہ عنہا)، کی نعمت حاصل تھی جنہوں نے دعوت کا بوجھ اٹھایا اور آزمائشوں میں اپنے والد کے ساتھ کھڑی رہیں۔ یہ ایک ایسا گھرانہ تھا جسے ایک نوجوان چچا زاد، علی (رضی اللہ عنہ)، کی نعمت حاصل تھی جنہوں نے اپنی جوانی اللہ ﷻ کی اطاعت سے بھردیا اور ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ یہ ایک ایسا گھرانہ تھا جسے عزت دار نواسوں، حسن (رضی اللہ عنہ) اور حسین (رضی اللہ عنہ)، کی نعمت حاصل تھی، جنہوں نے اپنی زندگی میں نہ صرف ظلم کے خلاف مضبوط مؤقف اختیار کیا بلکہ اپنی شہادت کے ذریعے اسلامی امت پر ایک گہرا اور ناقابلِ فراموش اثر چھوڑا۔ درحقیقت، اہل بیت کے بہت سے نوجوان مرد و خواتین اسلامی امت کی بنیاد بنے۔ صدیوں بعد بھی، مسلمان اہل بیت (یعنی نبی ﷺ کے گھرانے کے افراد) کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی زندگیوں سے تحریک اور رہنمائی حاصل کریں۔

 

اللہ ﷻ نے حکم دیا،

 

﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ

 

"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے"  [القرآن، سورۃ الشعراء 26:214]۔

 

 

 

ابن کثیر نے اس آیت پر درج ذیل تبصرہ کیا: ثُمَّ قَالَ تَعَالَى آمِرًا لِرَسُولِهِ، صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ أَنْ يُنْذِرَ عَشِيرَتَهُ الْأَقْرَبِينَ، أَيْ، الْأَدْنَيْنَ إِلَيْهِ، وَأَنَّهُ لَا يُخَلِّصُ أَحَدًا مِنْهُمْ إِلَّا إِيمَانُهُ بِرَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَلِينَ جَانِبَهُ لِمَنِ اتَّبَعَهُ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ الْمُؤْمِنِينَ "پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول، صلوات اللہ وسلامہ علیہ، کو حکم دیا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں— یعنی ان کے سب سے نزدیک لوگوں— کو ڈرائیں، اور انہیں بتائیں کہ ان میں سے کوئی بھی شخص اپنے رب  پر ایمان لائے بغیر نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ اللہ نے انہیں یہ بھی حکم دیا کہ وہ اللہ کے مومن بندوں میں سے جو ان کی پیروی کریں، ان کے لیے اپنا پہلو نرم رکھیں۔"

 

ابن کثیر نے یہ بھی ذکر کیا: قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ، لَمَّا نَزَلَتْ، ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ، «يَا فَاطِمَةُ ابْنَةُ مُحَمَّدٍ، يَا صَفِيَّةُ ابْنَةُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُم» انْفَرَدَ بِإِخْرَاجِهِ مُسْلِمٌ "امام احمد نے روایت کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: 'جب یہ آیت، " اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے "، نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: "اے محمد کی بیٹی فاطمہ، اے عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ، اے بنو عبدالمطلب! میں اللہ کے حضور تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ البتہ میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔" اسے  مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

امام نووی نے اپنی شرح مسلم میں، باب "اللہ تعالیٰ کے فرمان، 'اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے'" کے تحت ذکر کیا کہ نبی محمد ﷺ نے فرمایا: «يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» "اے فاطمہ، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیونکہ  میں اللہ کے حضور تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا،سوائے اس کے کہ تمہارا میرے ساتھ ایک خونی رشتہ ہے،جس کے پانی سے میں آگ کو صرف  تر ہی کر سکوں گا۔"

 

رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہ سے جو فرمایا: «سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُم» "البتہ میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو،" اس کے بارے میں حنفی عالم امام تُّورْبَشْتِيُّ (جن کا انتقال 661 ہجری میں ہوا) نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: أَرَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ الْمَالِ الْمَعْرُوفِ فِي شَيْءٍ وَإِنَّمَا عَبَّرَ بِهِ عَمَّا يَمْلِكُهُ مِنْ الْأَمْرِ وَيَنْفُذُ تَصَرُّفُهُ فِيهِ "میری رائے یہ ہے کہ اس کا تعلق کسی بھی طرح معروف مال و دولت سے نہیں، بلکہ اس کے ذریعے آپ ﷺ نے اس چیز کا اظہار فرمایا ہے جس کا آپ اختیار رکھتے ہیں اور جس میں آپ کا تصرف مؤثر ہے۔" چنانچہ، رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کو یہ بات واضح کی کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو آپ ﷺ ان کے لیے اللہ ﷻ کے عذاب کو ٹالنے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آپ ﷺ کا اختیار نہیں ہے۔لہٰذا، آپ ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ کو یہ فرمایا کہ وہ آپ کے مال میں سے جو چاہیں مانگ لیں، کیونکہ یہ آپ کے اختیار میں ہے، لیکن جہاں تک اللہ کے حکم کو ٹالنے کا تعلق ہے، تو یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے!

 

اس طرح، ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو  ایک استاد کے طور پر پوری توجہ سے تعلیم دی۔آپ ﷺ ایک مشفق والد تھے، اور ان کے اولین شاگردوں میں ان کے گھرانے کے نوجوان مرد و خواتین شامل تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ» "بیشک میں تمہارے لیے والد کی جگہ پر ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔" [سنن ابی داؤد] چنانچہ، رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹی فاطمہ کے ساتھ نرمی، احترام اور محبت سے پیش آئے، جس نے  فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا، یہاں تک کہ ان کے اطوار بھی ان کے والد ﷺ کے سانچے میں ڈھل گئے۔ ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ كَانَ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ ﷺ كَلاَمًا وَلاَ حَدِيثًا وَلاَ جِلْسَةً مِنْ فَاطِمَةَ. وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا رَآهَا قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّى يُجْلِسَهَا فِي مَكَانِهِ، وَكَانَتْ إِذَا أَتَاهَا النَّبِيُّ ﷺ رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ» "میں نے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے زیادہ کسی کو نبی ﷺ سے بات چیت، گفتگو، یا بیٹھنے کے انداز میں مشابہ نہیں دیکھا۔جب نبی ﷺفاطمہ (رضی اللہ عنہا)کو آتے ہوئے دیکھتے تو آپ ﷺ انہیں خوش آمدید کہتے، پھر ان کے لیے کھڑے ہوتے اور انہیں بوسہ دیتے، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر  انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اور جب نبی ﷺ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آتے تو وہ آپ ﷺ کو خوش آمدید کہتیں، پھر آپ ﷺ کے لیے کھڑی ہوتیں اور آپ ﷺ کو بوسہ دیتیں۔" [الادب المفرد]

 

فاطمہ( رضی اللہ عنہا) نے اسلام کو مکمل طور پر اپنایا، دین کا علم حاصل کیا اور حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے والد ﷺ کی دعوت کی آزمائشوں میں ان کا ساتھ دیا۔ جب ظالم عقبہ بن ابی معیط نے نبی ﷺ کے سر پر، جب آپ ﷺ سجدے میں تھے، اونٹ کی اوجھڑی پھینکی، تو یہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) ہی تھیں جنہوں نے آ کر اسے نبی ﷺ سے صاف کیا۔

 

جدوجہد اور قربانی سے بھرپور نبوت کی زندگی گزارنے کے بعد، نبی ﷺ نے محسوس کیا کہ اللہ ﷻ کے حضور ان کی واپسی قریب ہے، تب  فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو جنت میں اپنے والد ﷺ کے ساتھ ان کے مقام کے بارے میں خبر دی گئی۔ عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے روایت کیا: «أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي، كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مَشْىُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم (مَرْحَبًا بِابْنَتِي)‏‏.‏ ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا، فَبَكَتْ فَقُلْتُ لَهَا لِمَ تَبْكِينَ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَضَحِكَتْ فَقُلْتُ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ‏.‏ فَقَالَتْ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلْتُهَا فَقَالَتْ أَسَرَّ إِلَىَّ ‏(إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَنِي الْعَامَ مَرَّتَيْنِ، وَلَا أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي، وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي).‏ فَبَكَيْتُ فَقَالَ ‏(أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَوْ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ)‏‏.‏ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ‏)» "ایک روز فاطمہ(رضی اللہ عنہا) آئیں، ان کا چلنا نبی ﷺ کے چلنے جیسا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "میری بیٹی، خوش آمدید!" پھر آپ ﷺ نے انہیں اپنے دائیں یا بائیں بٹھایا، پھر انہیں ایک راز کی بات بتائی، تو وہ رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا، 'تم کیوں رو رہی ہو؟' پھر آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ ایک راز کی بات بتائی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے کہا، 'میں نے آج تک خوشی کو غم کے اتنا قریب کبھی نہیں دیکھا۔ ' پھر میں نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے انہیں کیا بتایا تھا۔ انہوں نے کہا، 'میں رسول اللہ ﷺ کا راز کبھی فاش نہیں کروں گی۔' یہاں تک کہ جب نبی ﷺ کا وصال ہو گیا، تو میں نے ان سے دوبارہ پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا: 'آپ ﷺ نے مجھے چپکے سے بتایا کہ 'بیشک جبریل ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا دورا کیا کرتے تھے، اور اس سال انہوں نے مجھ سے دو بار دورا کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ  میری موت قریب آ گئی ہے، اور تم میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ ملو گی۔' تویہ سن کر  میں رو پڑی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: 'کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم جنّت کی تمام عورتوں یا مومن عورتوں کی سردار ہو۔' تو یہ سن کر میں مسکرا اٹھی۔" کیا ہی بابرکت انجام ہے، والد اور بیٹی دونوں کے لیے!

 

اے بھائیو اور بہنو! چچاؤ، پھوپھیو، والدین، دادا دادی اور نانا نانی!

 

دیکھیے کیسے رسول اللہ ﷺ نے چار بابرکت بیٹیوں (رضی اللہ عنہن) کی پرورش کی جنہوں نے ہر دور میں مسلم امت کے لیے مثال قائم کی۔ دیکھیے کیسے آپ ﷺ نے اپنے بڑے، غریب چچا کے بیٹے علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کی پرورش کی، جو  بعد میں چوتھے خلیفہ راشد بنے۔ دیکھیے کیسے آپ ﷺ نے  اپنے پیارے نواسوں حسن (رضی اللہ عنہ) اور حسین (رضی اللہ عنہ)کی پرورش کی۔

 

ہر فاطمہ، علی، حسن اور حسین کی قدر کیجیے!

 

درحقیقت، ہمارے ہر خاندان میں ایک قیمتی خزانہ چھپاہوا ہے، جو ہمارے بیٹوں، بیٹیوں، بھتیجوں، بھتیجیوں، نواسوں اور نواسیوں میں موجود نوجوان مرد و خواتین (شباب) ہیں۔ آئیے ہم ان سب پر اپنی توجہ مرکوز کریں، یہاں تک کہ جب ہم زمانے کے ظالموں کا محاسبہ کر رہے ہوں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے پاس ایک کام کے لیے وقت ہے اور دوسرے کے لیے نہیں! یہ دونوں عمل، یعنی تربیت اور احتساب،تبدیلی کے لیے نبی ﷺ کے طریقے کا حصہ ہیں، اور ہمیں ان میں سے کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

 

تو، آئیے ہم ہر نوجوان مرد اور عورت پر بھرپور توجہ دیں، تاکہ وہ ہماری حمایت کریں اور ہم بھی ان کی حمایت کریں۔ ہمیں ان کی تربیت  میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ ہم سب ایک ساتھ جنّت کے سکون میں ہمیشہ کی زندگی کا لطف اٹھا سکیں۔ اے اللہ ﷻ، ایسا ہی ہو! آمین!

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آف کے لیے تحریر کردہ

مصعب عمیر – ولایہ پاکستان

Last modified onجمعہ, 21 نومبر 2025 20:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک