الجمعة، 26 ذو القعدة 1446| 2025/05/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سجد الاقصٰی مسلم دنیا کی طاقتور ترین فوج کو پکار رہی ہے اے افواج پاکستان! مجھے یہود کے نجس قبضے سے نجات اور آزادی دلاؤ

حزب التحریر نے فلسطین میں سقوط خلافت کی برسی کے موقع پر مسجد الاقصٰی میں ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی۔ اس ریلی نے مسلمانوں کو عموماً اور ان کی افواج کو خصوصاً مسجد الاقصٰی اورپورے فلسطین کو یہود کے ناپاک قبضے سے نجات دلانے کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرائی۔
مسجد الاقصٰی کی جانب سے دی جانے والی اس پُرزور پکار میں مسلم دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج یعنی افواج پاکستان کو بھی پکارا گیا ہے۔اس پُرزور پکار میں کہا گیا ہے کہ " کیا تمہارے اندر الاقصٰی سے والہانہ محبت نہیں،کیا تمہارے دل الاقصٰی میں سجدے کے شوق سے لبریز نہیں، کیا تمہارے دلوں میں الاقصٰی سے ملاقات کی تڑپ نہیں رہی ہے ؟ کیا تم رسول اللہ ﷺ کے اسراء کے مقام کے دیوانے نہیں ہو ، کیا تم اس مبارک سرزمین پر شہادت کے آرزومند نہیں ہو جہاں تمہارا خون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مبارک لہو سے یکجا ہو ؟ الاقصٰی تم سے یہ سوال کر رہی ہے ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں ہے ۔۔۔ صلاح الدین کہاں ہے۔۔۔ مسلمانوں کا خلیفہ کہاں ہے ، کیا رسول اللہ ﷺ کا مقام اسراء تمہارے نزدیک ایسی بے وقعت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے یہود اپنی نجاست سے اس کو روندتے رہیں ؟ یہ خلافت کے انہدام کی یاد میں تمہاری طرف الاقصٰی کی منادی ہے،خلافت کو قائم کرو اور مجھے آزاد کراؤ ،خلافت کو قائم کرو اور مجھے بچاؤ۔۔۔"۔
مسجد الاقصٰی کی جانب سے اس پُرزور پکار میں مزید کہا گیا ہے کہ " اے افواج پاکستان ۔۔۔ امریکہ تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر لگارہا ہے۔۔۔ امریکہ تمہیں تباہ کرنے کے درپے ہے۔۔۔ امریکہ ہی تمہارا دشمن ہے،اس کی غلامی سے اپنے آپ کو نکالو۔۔۔ اپنے درمیان موجود ایجنٹوں کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔۔۔مسلمانوں کو یکجا کرو،اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑدو۔ تم، افغانستان ، ہند کے مسلمان ،وادی فرغانہ اور قفقاز ایک ہی امت ہو اور تم اسلام کی مدد اور اقامت دین پر قادر ہو۔۔۔ لہٰذا حزب التحریر کی تمہیں پکارتی ہے کہ خلافت کو قائم کرو اور پنی بہادر افواج کو بیت المقدس کی طرف گامزن کردو اور تم یہ شرف حاصل کرنے کے اہل ہو"۔
اس ریلی کی ویڈیو نے پاکستان کے سوشل میڈیا پر زبرست توجہ حاصل کی ہے اور اب انگریزی ترجمہ کے ساتھ اس ویڈیو کو مندرجہ ذیل ویب لنکز پر دیکھا جاسکتا ہے:
http://www.dailymotion.com/video/x1zjseb_a-warm-call-from-al-aqsa-mosque-to-the-islamic-ummah-and-the-muslim-armies_news
اور
http://pk.tl/1gnY
تمام میڈیا کے اداروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس ویڈیو کو نشر کریں اور پاکستان کے عوام اور افواج سے مسجد الاقصٰی جس بات کا تقاضا کررہی ہے، اس سے انہیں آگاہ کریں۔

Read more...

سوال کا جواب: امریکی پالیسی کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات

 

سوال : امریکی صدر نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے قائد مودی کو سب سے پہلے کامیابی پر مبارک باد دی اور اس کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ اس کے بعد 5 جون 2014 کو اعلان کیا کہ مودی ستمبر میں دورہ کرے گا۔ 26 مئی 2014 کو ہندوستان کے نئے وزیر اعظم کے طور پر مودی کی تقریب حلف برداری ہوئی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی جس میں اس نے پارلیمنٹ کی 545 نشستوں میں سے دو کو چھوڑ کرجن کو براہ راست صدر مقرر کرتا ہے 282 نشتوں پر کامیابی حا صل کی۔ یوں کانگریس پارٹی کو تاریخ ساز شکست کا سامنا ہوا جو صرف 44 نشستیں ہی جیت سکی۔ پھر مودی کی جانب سے ملاقات کی دعوت دیے جانے پر پہلی بار پاکستانی وزیر اعظم نے اس قسم کی تقریب میں شرکت کی اور اس سے ملاقات کی۔ ان تمام باتوں کے کیا نتائج ہوں گے؟ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات امریکی پالیسی اور منصوبوں کے دائرہ کار میں کیسے آگے بڑھیں گے اور چین اور افغانستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
جواب :
1۔ انتخابات کے دوران امریکہ کی جانب سے مودی کی پشت پناہی قابل دید تھی.....مودی کا کردار بہتر بنا نے کی مہم ہندوستان تک محدود نہیں تھی بلکہ ملک سے باہر خاص طور پر امریکہ میں موجود ہندو انتہا پسند تنظیموں کو متحرک کیا گیا تھا، جن کے ذریعے مودی کو تمام ہندوستانیوں بلا استثناء تمام اقلیتوں کے لیے جدو جہد کرنے والے قائد کےطور پر پرچار کیا گیا۔ جو تنظیمیں "مودی " آلہ کار کے طور پر متحرک تھیں ان میں امریکہ انڈیا فاؤنڈیشن اور امریکہ انڈیاکمیٹی برائے پولیٹیکل ایکشن پیش پیش تھیں۔ ان تنظیموں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پشت پناہی، اس کی خارجہ تعلقات کے یونٹ اور سمندر پار بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوستوں کے ذریعے کی اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ وغیرہ میں ہزاروں ہندوستانی رہائش پزیر ہیں۔
اس پارٹی کی اس بھر پور حمایت کی تائید اس سے ہوتی ہے جو واشنگٹن میں "امریکن انٹر پرائز" سٹرپ نے شائع کی ہے کہ انتخابی مہم کے لیے ملک سے باہر جو بھی رقم اکھٹی کی گئی اس کا زیادہ تر حصہ "بھارتیہ جنتاپارٹی " کو ارسال کیا گیا۔ اسی طرح دس ہزار سے زائد امریکی اور یورپی شہریت رکھنے والے ہندوستانی تاجر وں اور کمپنیوں کے مالکان نے "مودی" کی انتخابی مہم کی مدد اور اس کو ووٹ دینے پر لوگوں کو ابھارا۔ ظاہری بات ہے کہ اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے والوں اور "مودی" کے مدد گاروں اور پشت پناہوں کا اس کی مقبولیت میں اضافے اور اس کے کردار کو بہتر بنانے اور دوسری پارٹیوں اور ان کی انتخابی مہم پس منظر میں لیجانے میں بڑا کردار ہے.....
بہر حال یہ بات واضح ہے کہ متعصب ہندو مودی کی کامیابی کے پیچھے مشرق بعید میں امریکہ کا زبردست مفاد ہی ہے۔ 19 مئی 2014 کو "نقطہ نظر" کے عنوان سے ایک مقالہ جس کو بی بی سی عربی نے "مودی کس طرح بھارت امریکہ تعلقات پر اثر انداز ہو گا ؟"کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ اس مضمون جو کہ لیزا کرٹیس نے تحریر کیا ہے ، میں کہا گیا ہے کہ " نئی دلی اور واشنگٹن دونوں کے اسٹرٹیجک اہداف مشترک ہیں خواہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہوں یا بحری گزرگاہوں کی حفاظت کے لیے ہوں یا ابھرتے ہوئے چین کے خلاف ہوں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بالخصوص چین کے حوالے سے سخت پالیسی امریکی عہدیداروں کو اس کے قریب ہو نے کے مواقع فراہم کرے گی"۔ جیسا کہ وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے مودی کو فون کر کے کامیابی پر مبارک باد کے ساتھ اس کو امریکی دورے کی دعوت دی۔ اوباما نے مودی سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے جس کا ہدف "امریکہ اور انڈیا کے درمیان دوطرفہ اسٹرٹیجک شراکت" کے وعدے کو پوراکرنا ہے۔ 16 مئی 2014 کو بی بی سی عربی نے سے نشر ہونے والی رپورٹ کے مطابق "صدر نے مودی کو دعوت دی اور دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا "۔
2۔ یو ں ہم نے امریکہ کو مودی کی قیادت میں جنتا پارٹی کی جیت پر انتخابات کے فوراً بعد اور نتائج کے سرکاری طور پر اعلان سے پہلے ہی خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے دیکھا۔ 12 مئی 2014 کو الشرق الاوسط اخبار میں آیا کہ "اوباما نے 12 مئی 2014 کو مکمل ہو نے والے ہندوستانی انتخابات کی تعریف کی 16 مئی 2014 کو ابتدائی نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی پر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نئی ہندوستانی حکومت کی تشکیل کو جلد سے جلد دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور نئی ہندوستانی انتظامیہ کے ساتھ اعتماد کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں تا کہ آنے والے سال بار آور ہوں'....." یہ امریکہ کی جانب سے مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کی شدید خواہش اور اس کے ساتھ تعاون کے طرف اشارہ ہے جیسا کہ اٹل بہاری واچپائی کی قیادت میں اس پارٹی کے ساتھ اس وقت تعاون کیا تھا جب یہ 1998 تا 2004 حکمران تھی۔ اب بھی یہی حال ہے کہ جب16 مئی 2014 کو سرکاری طور پر اس پارٹی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو اوباما نے مودی کو فون کر کے اس کو مبارک باد دی اور اس کو واشنگٹن کے دورے اور ملاقات کی دعوت دی۔ امریکی صدر نے مودی کے ساتھ اپنی ٹلیٹ فونک گفتگو میں اس طرف اشارہ کیا کہ "وہ پر اعتمادی سے امریکہ اور ہندوستان کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت کے لیے مودی کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے" اور "دونوں نے تعلقات کو گہرے اور وسیع کر نے میں بھرپور تعاون پر اتفاق کیا "۔ (انڈیا ٹی وی 17 مئی 2014)۔ پھر 5 جنوری 2014 کو دو ہندوستانی اخبارات "ٹائمز آف انڈیا" اور "ہندوستان ٹائمز" نے ایک خبر شائع کی کہ جس کے مطابق مودی ستمبر میں امریکی صدر سے ملاقات کے لیے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔ یہ سب اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ کو اعتماد ہے کہ ہندوستان بی جے پی اور اس کے سربراہ مودی کی قیادت میں خصوصی اسٹریٹیجک شراکت کے نام پر امریکہ کا ہم رکاب ہو گا۔ اس سال پہلے بھی امریکی سفیر کے جنتا پارٹی کے سربراہ "مودی"کے ساتھ ملاقاتوں کی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور یہ انتخابات سے بھی پہلے کی بات ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ امریکی پالیسی کے مطابق انتخابات کے بعد مودی کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کی گئی ہے جس پر مودی کار بند ہو گا۔
کانگریس کی دس سالہ حکمرانی کے بعد بی جے پی کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے پر امریکہ خوش ہے کیونکہ کانگریس کے دور میں امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات گرم جوشی پر مبنی نہیں تھے۔ اس نے امریکہ کی ہر بات نہیں مانی خاص کر چین سے ٹکر لینے کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما نے ہندوستانی انتخابات کے نتائج آنے پر اپنے ایجنٹوں کو حکمرانی کے مسند پر دیکھ کر خوشی کے اظہار میں جلد بازی کی۔ اس خوشی میں اوباما یہ بھی بھول گیا کہ امریکہ نے گجرات میں اس وقت مودی کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام پر "مودی" کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی جب وہ وزیر اعلٰی تھا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے جو امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے سے دھوکہ کھاتے ہیں۔ امریکہ اپنے مفاد کے لئےتمام انسانی حقوق کو پامال کر تا رہتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے "مودی" کے امریکہ داخلے پر پابندی انتخابات میں اس کی جیت کے ساتھ ہی آنے والے دنوں میں امریکہ آنے پر پرتپاک استقبال میں تبدیل ہو گیا ہے.....
یوں امریکہ جنتا پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے سے خوش ہے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں امریکہ کے وفادار بر سر اقتدار آچکے ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں اور ان کے سرغنہ نواز شریف سے ہندوستان کو مزید مراعات فراہم کرنے کا مطالبہ کرے تا کہ ہندستان کی پوزیشن مستحکم ہو یعنی چین کے مقابلے میں ہندوستان کی پوزیشن مستحکم ہو۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں لیکن پاکستان کی قیمت پر.....۔ دوطرفہ تعلقات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ کشمیر کا متنازعہ علاقہ ہے اس کے بعد ہندوستان میں مسلح اسلامی گروہوں کی موجودگی ہے اور نئی دلی ان کی مدد کا الزام پاکستان پر لگاتی ہے۔ اس بات کی توقع ہے کہ امریکہ اپنے ایجنٹ نواز شریف پر ہندوستان کے مفاد میں کشمیر میں خطرناک تباہ کن مراعات کے لیے دباؤ ڈالے گا تاکہ انتہا پسند ہندو نریندر مودی اور اس کی پارٹی کو خوش کیا جاسکے۔ اوراسی طرح امریکہ نواز شریف سے دہشت گردی پر قابو پانے کے نام پر کشمیری مجاہدین کا صفایا کر نے کا بھی مطالبہ کرے گا۔ یہ سب اس لیے ہوگا تا کہ ہندوستان کو ابھرتے چین کا سامنا کرنے کے قابل بنا یا جاسکے.....
1998 سے 2004 کے درمیان بھی یہی ہوا تھا جب جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور پاکستان نے ہندوستان میں امریکی ایجنٹوں کو مضبوط کرنے اور اس کے اثر ورسوخ کو بڑھانے کے لیے کشمیر میں ہندوستان کے مفاد میں پسپائی اختیار کی تھی۔ نوازشریف ہی نے پاک فوج اور مجاہدین کو کارگل کی ان چوٹیوں سے پسپا ہونے کا حکم دیا تھا جن کو فوج اور مجاہدین نے زبردست معرکے کے بعد آزاد کرایا تھا۔ یہ تب ہو جب نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کیا اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے 4 جولائی 1999 کو ملاقات کی اور امریکہ نےپسپائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالا اور اس نےسر جکاق کر پسپائی کا حکم دے دیا.....اب پھر نواز شریف ہی پسپائی کو دوہرا رہا ہے جس کی ابتدا نواز شریف نے 26 مئی 2014 کو نئے ہندوستانی وزیر اعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور ایک گھنٹے کی ملاقات سے کیا ہے۔ اس دوران مودی نے نواز شریف کو یاد دہانی بھی کرادی کہ "پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سرزمین کو ہندوستان پر حملوں کے لیے استعمال ہو نے سے روکے اور 2008 کے ممبئی حملے کے ذمہ داروں کو سزادے" (رائٹرز 27 مئی 2014 )۔ اس موقع پر نواز شریف نے کمزوری اور ذلت کا اظہار کیا اور کم ازکم برابری کی سطح پر بھی اس کا جواب نہیں دیا بلکہ صحافیوں کے سامنے یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ "اس نے مودی کے ساتھ دوطرفہ دوستانہ خوشگوار ملاقات کی"۔ وہ یہ بات کر رہا ہے جبکہ 2002 کے گجرات واقعات اب تک مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں جب نریندر مودی کے گجرات کے وزیر اعلی بننے پر ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا تھا جس کے نتیجے میں 2000 سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے جو اب تک در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس نہیں آسکے۔ صوبائی یا ہندوستان کی مرکزی حکومت نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ نوازشریف نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں علیحد گی پسندوں کی مدد کا مسئلہ بھی نہیں اٹھا یا۔ یوں نواز شریف نے ہندوستان کے نئے وزیر اعظم مودی کو چیلنج کرنے یا کم ازکم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بجائے امریکی پالیسی کے مطابق ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے مودی کے سامنے رسوائے زمانہ جھکاؤ اختیار کیا!
3۔ دوسری طرف یہ نظر آرہا ہے کہ امریکہ ہندوستان کو افغانستان میں کردار دینا چاہتا ہے اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں استحکام لانے میں وہ پاکستان کا محتاج نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے والا پہلا صدر افغانستان کا کرزئی ہی تھا۔ ہندوستان میں جب بھی امریکہ کی پروردہ حکومت ہوتی ہے، امریکہ پاکستان سے زیادہ ہندوستان پر اعتماد کر تا ہے حالانکہ پاکستان میں بھی اس کی پروردہ حکومت ہے لیکن اس کو یہ خوف ہے کہ اس اسلامی ملک میں کسی بھی وقت کوئی بھی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے، اس لیے وہ یہاں زیادہ دیر محفوظ نہیں کیونکہ یہاں کے لوگ تبدیلی کے لیے متحرک ہیں اور حقیقی اور سنجیدہ تبدیلی اور مغرب سے بالعموم اور امریکہ سے بالخصوص جان چھڑانے کا رجحان موجود ہے، جس کی وجہ سے وہ یہاں نظامِ حکمرانی پر حاوی رہتا ہے اور اپنے ایجنٹوں کو حکومت میں لاتا ہے اور ساتھ ہی فوج کی قیادت کو بھی اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ یوں امریکہ نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں اپنے مہرے رکھے ہوئے ہے.....امریکہ کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں امت اس کی بنی بنائی عمارت کو منہدم نہ کردے۔ اس کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ امت اسلامی حکومت قائم کرے گی اور خلافت کا اعلان کرے گی۔ یہی وہ چیز ہے جس سے امریکہ تشویش میں مبتلا ہے.....یہی وجہ ہے امریکہ افغانستان سے فوج کو "واپس بلانے" کے بعد وہاں معاملات کو درست کرنے میں صرف پاکستان پر اعتماد پر اکتفا نہیں کر رہا ہے بلکہ وہاں حالات کو معمول پر لانے میں بھارت کو فعال کردار سونپنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے لیے افغا نستان اور بھارت کے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ مغربی اور امریکی فوج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد امن و امان کے لیے اس کا زیادہ اعتماد ہندوستان پر ہو گا ، اسی لیے کرسچئن سائنس مانیٹر نے یکم جون 2014 کو ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ "پچھلے ہفتے جب افغان صدر حامد کرزئی نے نئے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اس موقع پر اس نے ان اشیاء کی ایک فہرست پیش کی جن کو حاصل کرنے میں افغانستان دلچسپی رکھتا ہے جن میں ٹینک، اسلحہ، ٹرک، ہیلی کاپٹر وغیرہ شامل ہیں"۔ اخبار نے مزید کہا ہے کہ "کرزئی کا مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان کے حکومتی اور عسکری حلقوں میں یہ بحث عروج پر تھی کہ آیا نئی دلی کابل کی عسکری امداد میں اضافہ کرے گی یا نہیں....." اخبار نے یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ "ہندوستان کے افغانستان کے ساتھ روایتی اور مضبوط تعلقات ہیں اور ہندوستان کا بل کا اسٹریٹیجک شراکت دار اور دوست بھی بن چکا ہے، اگرچہ طالبان دور ِحکومت میں اس سے دور ہوگئے تھا"۔ یوں امریکہ کے وفادار مودی کے دور حکومت میں ہندوستان افغانستان میں امریکہ کی پشت پناہی میں بننے والی حکومت کے مفاد میں امن و امان کے حوالے سے متحرک کردار ادا کرے گا۔
4۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اپنے اثر ورسوخ کو بڑھا یا اور اپنے خطے میں اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ امریکہ چین کے ارد گرد ممالک کے ذریعے اس کے گرد گیرکا تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جیسے جاپان، جنوبی کوریا، ویتنام اور ہندوستان۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے چین کو قابو کرنے کے لیے کئی ایک اتحاد اور پارٹنر بنا ئے تاکہ چین کے ہمسایہ ممالک کے ذریعے ہی اس کو لگام دے۔ امریکہ نے دیکھ لیا کہ برصغیر میں چین کا سامنا کرنے کے لیے ہندوستان مناسب ملک ہے کیونکہ اس کے چین کے ساتھ مختلف پرانے سرحدی تنازعات بھی ہیں۔
یوں امریکہ نے چین پر دباؤ میں اضافہ کرنے، اس کو اپنے آس پاس کےعلاقوں پر اثر انداز ہو نے سے روکنے، اپنی ہی سر زمین تک محدود رہنے اورہندوستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنے میں مشغول رکھنے کے لیے ہندوستان کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اسی لیے امریکہ نے دوسال قبل ایشات-بحر الکاہل سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کر دیا تھاجس کی رو سے وہ اپنی 60 فیصدبحری طاقت کو اس خطے میں چین کا راستہ روکنے اور خطے کے ممالک سے اتحاد قائم کر کے ان کو چین کے سامنے لاکھڑا کرنے کے لئے منتقل کرے گا۔ ان ممالک میں سے ایک ہندوستان ہے جس کو بحرالکاہل میں مشرقی خطے خاص کر جنوبی چین کے سمندری علاقے کی طرف متوجہ کیا اور اس کو وہاں توانائی کے وسائل تیل اور گیس کی موجودگی کا جھانسہ دیا۔ اگرچہ ہندوستان کی کانگریسی حکومت نے امریکہ کے اس ترغیب پر زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، حالانکہ امریکہ نے ہندوستان کی کانگریسی حکومت کو قائل کرنے کے لیے اپنی بھر پور قوت استعمال کی اور اپنے نائب صدر جوزیف بائیڈن کو اور پھر گزشتہ سال کے وسط میں وزیر خارجہ جان کیری کو اس مقصد کے لیے بھیجا، آسٹریلیا کو ہندوستان کے ساتھ شرا کت پر مجبور کیا اور مراعات کے لیے پا کستان پر دباؤ ڈال کر اس کو ہندوستانی سرحد سے اپنی فوج ہٹانے پر مجبور کیا تاکہ انڈیا اپنی فوج چینی سرحد کی طرف منتقل کرے اور اس کی طرف توجہ دے۔ جارج بش نے مارچ 2006 میں کانگریس کے دور حکومت میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور ہندوستان کی مدد پر مبنی کئی معاہدات پر دستخط بھی کیے تھے، جس میں سول نیوکلئیر ڈیل بھی شامل تھی۔ اسی طرح اوباما نے نومبر 2010 میں ہندوستان کا دورہ کیا اور یہ سب ہندوستان کی کانگریسی حکومت پر اثر انداز ہو کر اس کو امریکی پالیسی کی طرف مائل کرنے کے لیے تھا، لیکن امریکہ اس پر اس قدر اثر انداز نہیں ہو سکا کہ اس کو خطے میں امریکی پالیسی پر گامزن کرسکے اور اپنی پالیسی نافذ کرنے کے لیے فعال شریک کار بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈین کانگریس پارٹی انگریز کی وفادار ہے اور امریکی پالیسیوں کی مخالف ہے.....2005 کے انتخابات کے موقعے پر کانگریس کا بیان اس کا غماز ہے جس میں کہا گیا تھا کہ "یہ افسوس ناک امر ہے کہ ہندوستان جیسا بڑا ملک اپنے تعلقات میں امریکہ کا دست نگر بن کر رہ گیا ہے اس حد تک کہ امریکی حکومت ہندوستان کی وفاداری پختہ قرار دیتی ہے، جس نے بی جے پی حکومت کو اپنی پالیسی میں امریکی پالیسی اور ترجیحات کے ضمن میں ہی رد وبدل کرنے پر مجبور کیا جس میں ہندوستان کی آزاد خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کو بھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی تھی"۔
یوں امریکہ چین کے بارے میں اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کانگریس کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ امریکہ ہندوستانی فوجی قیادت کو بھی پاکستانی سرحد سے ہٹا کر چین پرتوجہ مرکوز کرانے کے لیے قائل نہیں کر سکا۔ ہندوستانی فوج کی توجہ اندرونی سکیورٹی، کشمیر اور پاکستان کی سرحد پر مرکوز ہے۔ ہندوستانی فوج کے سات کور اور اضافی تین بریگیڈ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ہیں اور80 فیصد مرکزی فرنٹ لائن اڈے بھی پاکستان کے خلاف ہیں۔
اب جب کہ مئی 2014 کے انتخابات میں جنتا پارٹی جیت گئی ہے جو نوے کی دہائی واجپائی کے زمانے سے ہی امریکہ کی وفادار ہے اس لیے امریکہ کے لیے ہندوستان کو چین کے سامنے لاکھڑا کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا ہے، کیونکہ ہندوستان کو چین کے مد مقابل لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس پارٹی کا حکومت میں ہو نا تھا اب یہ رکاوٹ ختم ہو گئی ہے۔ اب امریکہ کے لیے اپنی وفادار بی جے پی کو اس بات پر قائل کرنا آسان ہے کہ فوج پاکستانی سرحد کی بجائے چین کی سرحد پر توجہ مرکوز کرے، خاص کر امریکہ بی جے پی کو یہ ضمانت دے رہا ہے کہ پاکستانی قیادت نے پاک فوج کا رخ شمالی علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے اور ہندوستانی سرحد سے فوج اور اسلحہ کم کر چکا ہے، پاکستانی عسکری اور سیاسی قیادت کا امریکی مطالبات کے سامنے سرنگوں ہو نا قابل ذکر ہے.....! یاد رہے کہ پاکستانی بری فوج بنیادی طور پر 13 کور پر مشتمل ہے جن میں سے نو ہندوستانی سرحد کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی ہیں۔ مشرف اور کیانی کے دور سے شمالی علاقوں اور وادی سوات میں آپریشن کی وجہ سے اس فوج کے کچھ حصے کو ہندوستانی سرحد سے ادھر منتقل کیا گیا ہے۔
جنوری 2013 میں جرنیل کیانی نے ملک کے نئی ملٹری ڈاکٹرائن کا اعلان کر دیا جس کی بنیاد پر عسکری پوزیشن میں تبدیلی کی گئی اور اس بات کا تعین کیا گیا کہ ملک کی سکوورٹی کو ہندوستان کے مقابلے میں اندر ونی طور پر زیادہ خطرہ ہے یوں پاکستان نے اپنی توجہ کا مرکز ہندوستان کی سرحد کی بجائے افغانستان سے ملحقہ شمالی علاقوں کو بنا یا۔ لیکن اس کے برعکس ہندوستان نے پاکستان کی طرح کوئی قدم نہیں اٹھا یا بلکہ وہ اب بھی پاکستان کو ہی اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور پاکستان کی سرحد سے فوج کو مکمل طور پر ہٹانے سے انکار ی ہے۔
بہر حال اب پاکستان اور ہندوستان دونوں کی حکومتیں امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو امریکہ پاکستان کو افغانستان اور شمالی علاقوں میں ہی مصروف رکھے گا جس کے نتیجے میں ہندوستان کے پاس پاکستانی سرحد کے ساتھ بہت بڑی فوج رکھنے کا جواز باقی نہیں رہے گا اور اس سے ہندوستان کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔ اس لئے امریکہ سوپارٹی معاہدوں کے ذریعے ہندوستان کو جنگی سازوسامان دے گا خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب بی جے پی کی صورت میں ایسی جماعت اقتدار میں آئی ہے جس کی ہمیشہ سے برصغیر میں پولیس مین کا کردار ادا کرنے کی خواہش رہی ہو۔ اس بات کی بھی توقع ہے کہ امریکہ ہندوستان کو اقتصادی معاہدات کی بھی پیش کش کرے گا جیسے ہندوستانی کمپنیوں میں سرمایہ کاری، ہندوستانی معیشت کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی۔ اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی قوت کا اظہار کرنے کے لیے جنوبی چین کے سمندر میں اپنی قوت بڑھائے گی۔
امریکہ اس بات کا اہتمام کر رہا ہے کہ اسٹریٹیجک تعاون کو مضبوط کر کے چین کے گرد گیر ا تنگ کیا جائے اور اس کی سرگرمیوں کومحدود کرنے کے لیے اس پر حاوی ہوا جائے اور ہندوستان کو چین کے مد مقابل ایک قوت کا روپ دیا جائے۔ خاص کر انتخابات میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے نتیجے میں اس کی تن تنہا حکومت ہو گی جس سے امریکہ کے لیے ہندوستان کو چین کے خلاف متحرک کرنا بالخصوص مندجہ ذیل میدانوں میں آسان ہو گا:
ا۔ تبت کے علاقے کی خود مختاری کے موضوع کو اچھالنے اور لداخ کے خطے کی حدود کے بارے میں چین اور ہندوستان کے درمیان موجود اختلافات کو ہوا دے کر.....
ب۔ تجارتی راستوں یعنی بحر چین سے گزرنے والے تجارتی راستوں کی سکوارٹی کے حوالے سے جو کہ 50 فیصدبین الاقوامی نقل وحمل کا ذریعہ ہیں۔
یہ سب وہ مسائل ہیں جن کے حل میں چین مشغول ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ امریکی پالیسی کے مطابق اپنے ادر گرد علاقوں میں ہی محصور ہو کر رہے گا۔ ایسا لگ بھی رہا ہے کہ امریکہ مودی کو چین کے بارے میں متحرک کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ "مودی" نے فوج کے سابق سربراہ وی پی سنگھ کو شمالی مشرقی علاقوں کے سکو رٹی کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے شمالی علاقوں کا وفاقی وزیر بنا دیا ہے جن کے بارے میں مودی نے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کے دور میں چین کے ساتھ تعلقات اور یہاں امن وامان کی صورت حال خراب ہوئی ہے۔ سنگھ نےاپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد گزشتہ جمعرات کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "شمال مشرق کے علاقوں کی ترقی میری پہلی ترجیح ہو گی"۔ اس بات کی توقع ہے کہ سنگھ شمال مشرق میں چین کی سرحد کے ساتھ 80 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فورس کے بنانے کے ہندوستانی منصوبے کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
یوں امریکہ پاکستان کی طرف سے ہندوستانی سرحد کی حفاظت کی ضمانت کے بعد ہندوستان کو چین کے خلاف متحرک کرنے کے اپنے منصوبے پر کاربند ہے۔ پاکستانی قیادت نے پاک فوج کو افغان سرحد اور شمالی علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں پر حملوں کے لیے منتقل کیا، بجائے اس کے کہ فوج کو کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے متحرک کرتے جیسا کہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کو اسلامی علاقوں میں بالادستی نہ دیں ﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾ "اور اللہ ہرگز مسلمانوں پر کافروں کو بالادستی نہیں دے گا" (النساء:141)۔
امریکہ اپنے جرائم، سازشوں اور ملکوں کو پامال کرنے میں تمام حدیں پار کر چکا ہے اور تمام استعماریوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے.....وہ اپنے استعماری مفادات کے لیے ہر جرم اور ہر سازش کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وہ چین کے خلاف کھلی سازش کر رہا ہے، ہند وستان کے خلاف خفیہ سازش کر رہا ہے اور اس کو یہ باور کرا رہا ہے کہ خشکی اور سمندر میں چین کے مد مقابل آنا ہندوستان کے مفاد میں ہے۔ امداد اور اسٹریٹیجک معاہدوں کی آڑ میں اس کو دھوکے دے رہا ہےکیونکہ بالآخر اس سب کا نقصان ہندوستان کو ہو گا کیونکہ چین اس سے مادی اور فکری لحاظ سے طاقتور ہے.....اس کے باوجو چین اور بھارت میں کوئی قدر مشترک نہیں اگر دونوں ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو تے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جو یہ ہے کہ پاکستان میں اور افغانستان میں مسلمان آپس میں ہی لڑیں.....اس سے بھی تعجب کی بات ہے کہ یہ دونوں ظالم حکومتیں اب بھی مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہیں ! اس امت پرفرض ہے جس کو اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے کہ اس اسلام کو مضبوطی سے تھامے اور اس کے ذریعے حکمرانی کرے اور ان ظالم حکومتوں کو برطرف کرے اور ان کی جگہ اسلامی ریاست خلافت راشدہ کو قائم کرے جو امریکہ اور اس کی سازشوں کو پاوں تلے روندے گی، افغانستان، پاکستا ن اور تمام اسلای ممالک کو اللہ کے بندے اور ایک دوسرے کا بھائی بنادے گی ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اس دن مؤمنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا مدد کرتا ہےاور وہی غالب اور رحیم ہے" (الروم:4-5)۔

Read more...

شمالی وزیرستان آپریشن راحیل نواز حکومت پاک فوج کوامریکی جنگ کا ایندھن بنا رہی ہے

سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے افغانستان اور خطے میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ 9 مئی 2014 کو نائب امریکی سیکریٹری خارجہ ویلیم برنز کے دورہ پاکستان کے بعد ہی یہ واضح ہوچکا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن اب یقینی ہے کیونکہ برنزنے راحیل-نواز حکومت کو یہ حکم دیا تھا کہ اگلی افغان حکومت کے قیام سے قبل شمالی وزیرستان سے ان مجاہدین کا خاتمہ کردیا جائے جو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر افغانستان میں اس کے مفادات کی تکمیل کے لیے تیار نہیں اور جو افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء تک امریکی قبضے کے خلاف جہادکو جاری رکھنے کے حامی ہیں۔
راحیل-نواز حکومت نے اس امریکی حکم کو بجا لانے کے لیے امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ فوجی و شہری تنصیبات پر حملے کروائے تا کہ فوجی آپریشن کے لیے رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔ لہٰذا ویلیم برنز کے دورہ سے ایک روز قبل شمالی وزیرستان میں ایک حملے میں دس فوجی مارے گئےاور اس دورے کے چند روز بعد راولپنڈی کےقریب دو اعلیٰ فوجی افسران ایک اور حملے میں جابحق ہوئے اور پھر کراچی ائرپورٹ پر حملہ ہوا۔ ا ن حملوں کو جواز بناتے ہوئے راحیل-نواز حکومت نے ملک سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کا نعرہ بلند کیا اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن "ضرب ِعضب" کا اعلان کردیا۔ حزب التحریر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے سوال کرتی ہے کہ تم نے اس وقت "آپریشن ضرب ِعضب" کیوں نہ شروع کیا جب امریکہ نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پاک فوج کے درجنوں افسران اور جوانوں کو شہید کردیا تھا؟ تم نے امریکہ کے خلاف اس وقت "آپریشن ضرب ِعضب" کا آغاز کیوں نہ کیا جب اس نے ایبٹ آباد پر حملہ کر کے دنیا کی ساتویں بڑی فوج کو دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کروا دیا تھا، تم نے کشمیر، سیاچن اور سرکریک کو بھارت کے قبضے سے نجات دلانے کے لیے "آپریشن ضرب ِعضب" کا آغاز کیوں نہ کیا اور تم نے ریمنڈ ڈیوس اور ایف۔بی۔آئی ایجنٹ جوئیل کاکس کی گرفتاری کے باوجود ملک میں قائم امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے خلاف "آپریشن ضرب ِعضب " کا آغاز کیوں نہ کیا۔ لیکن اپنے آقا امریکہ کا حکم بجا لانے کے لیے تم نے پاک افواج کو اس امریکی جنگ کا ایندھن بنانے کا حکم جاری کردیا ہے جو کسی صورت اس فتنے کی جنگ کاحصہ نہیں بننا چاہتی بلکہ افواج پاکستان کا ہر آفیسر اور سپاہی اسلام کی سربلندی اور کشمیر و فلسطین کی آزادی کے لیے کفار کے خلاف جہاد کرنا چاہتا ہے۔
حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کو خبردار کرتی ہے کہ تمھاری خاموشی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اپنی غداریوں کو جاری و ساری رکھنے کا حوصلہ فراہم کررہی ہے۔ حزب التحریر آپ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں تا کہ افواج پاکستان کو امریکی جنگ کا ایندھن بننے سے روکا جاسکے اور ایک خلیفہ راشد کی قیادت تلے کفار کے خلاف آپ کے شوق جہاد و شہادت کی تسکین ممکن ہوسکے۔
وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُونُوۤاْ أَمْثَالَكُم
"اور اگر تم پھر گئے تو وہ تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا پھر وہ تمھاری طرح نہ ہوں گے" (محمد:38)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر نے پاکستان بھر میں پوسٹ بجٹ15-2014سیمینارمنعقد کیے معیشت کی آزادی کے لیے پاکستان کو ایک انقلابی اسلامی تبدیلی کی ضرورت ہے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پوسٹ بجٹ 15-2014سیمینار منعقد کیے۔ ان سیمیناروں میں بنکاروں، صنعت کاروں، تاجروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ حزب التحریر کے اراکین نے ان اجتماعات سے خطاب کیا اور بجٹ 15-2014کے تین اہم موضوعات ٹیکس، زرمبادلہ کے ذخائر بمقابلہ روپے کی قدر میں استحکام اور توانائی کی پالیسی پر اظہار خیال کیا۔
مقررین نے بجٹ میں آئی۔ایم۔ایف کی ہدایت پرامت پر بھاری ٹیکسوں کے عائد کیے جانے پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں صرف وہی ٹیکس امت پرعائد کیے جاسکتے ہیں جن کی شرعی دلیل ہو۔ کوئی بھی ٹیکس جس کی شرعی دلیل نہ ہو اسے اسلامی ریاست امت پر عائد نہیں کر سکتی۔اسلام کا اپنا ایک منفرد ٹیکس کا نظام ہے جس میں عشر، خراج، جزیہ اور مختلف اشیاء پر زکوۃ شامل ہے۔ مقررین نے کہا کہ اسلام کے ٹیکس سے متعلق احکامات پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ٹیکس دولت پر لگایا جاتا ہے نہ کہ ہر مالیاتی و تجارتی سودے پر۔ مقررین نے مالیاتی خسارے کو بیرونی سودی قرضوں سے پورا کرنے کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ ایسے قرضے نہ صرف اسلام میں حرام ہیں بلکہ یہ مغربی استعماری طاقتوں کو ہمارے سیاسی و معاشی معاملات میں مداخلت کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں استحکام کے حوالے سے مقررین نے مقامی کرنسی کو ڈالر کے ساتھ منسلک کرنے کی پالیسی پر تنقید کی۔ مقررین نے کہا کہ اسلام کی مالیاتی پالیسی میں ایسی کرنسی کا کوئی وجود نہیں جس کی بنیاد کسی قیمتی دھات پر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ریاست سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دیتی ہے۔ سونے اور چاندی کو ریاست کی کرنسی قرار دینے سے بین الاقوامی طور پر کرنسی کے تبادلے میں استحکام آتا ہے اور مقامی آبادی افراط زر سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کرنسی کے تعلق کو ڈالر سے توڑ کر اور سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دینے سے پاکستان کرنسی کی بین الاقوامی مارکیٹوں میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے محفوظ ہو جائے گا کیونکہ سونے اور چاندی کی اپنی ایک منفرد قدر ہوتی ہے جبکہ ڈالر کی قدر کا تعین سیاسی و معاشی حالات اور کرنسی کی مارکیٹ کرتے ہیں۔
مقررین نے حکومت کی توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری اور بجلی کی پیداواری اور تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی پالیسی پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف یہ پالیسی اسلام کی رو سے حرام ہے وہیں اس کا مقصد صرف اور صرف بیرونی سرمایہ کاروں کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ عوام کے معاشی استحصال کی قیمت پر زیادہ سے زیادہ نفع کمائیں۔ اسلام نے توانائی کے شعبے کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے اور اسے کسی صورت نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔
سیمینارز کے اختتام پر سوال و جواب کی نشست منعقد کی گئی ۔ اس کے علاوہ کتابوں کا ایک سٹال بھی لگایا گیا تھا جہاں پر اردو کتب "اسلام کا نظام اقتصاد" اور ریاست خلافت کا آئین "مقدمہ دستور" رکھیں گئیں تھیں۔

2014_06_16_Pakistan_MO_pic_PWR

2014_06_16_Pakistan_MO_pic_ISL.

2014_06_16_Pakistan_MO_pic_LHR

2014_06_16_Pakistan_MO_pic_KHI

Read more...

کراچی ائرپورٹ پر حملہ راحیل-نواز حکومت کا امریکہ کے ساتھ شیطانی اتحاد کا نتیجہ ہے جب تک امریکی اہلکار حساس علاقوں میں دندناتے پھریں گےایسے خونی حملے جاری رہیں گے

حزب التحریر ولایہ پاکستان کراچی ائر پورٹ پر حملے کی مذمت کرتی ہے اور اللہ سے شہید ہونے والےافراد کے درجات کی بلندی اور ان کے لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتی ہے۔8 جون کی رات کراچی ائرپورٹ پر جس آسانی سے دس دہشت گرد داخل ہوئے، اس نے مہران نیول بیس کراچی اور کامرہ ائر بیس پر حملوں کی یاد کو تازہ کردیا ۔ایک بار پھر دہشت گرد اسلحے سے لدے حساس ترین علاقے میں اس آسانی سے داخل ہوگئے جیسے وہ بچوں کے پارک میں داخل ہو رہے ہوں۔ یہ بات اب پوری قوم جان چکی ہے کہ جب بھی امریکی حکم پر قبائلی علاقے میں کسی فوجی آپریشن کو شروع کرنا مقصود ہوتا ہے تو افواج پاکستان اور عوام میں اس کے موافق رائے عامہ پیدا کرنے کے لیے فوجی و شہری تنصیبات پر خونی حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ان حملوں کو جواز بنا کر پاکستان کی فوج اور عوام پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" امریکی صلیبی جنگ نہیں بلکہ یہ ہماری جنگ ہے۔
یہ حملے اس وقت ہوئے جب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے امریکی حکم نامہ اس کا نائب سیکریٹری خارجہ ویلیم برنز 9 مئی 2014کو پاکستان کے دورے میں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے حوالے کرچکا ہے۔ پھر اس آپریشن کے حوالے سے ماحول بنانے کے لیے راحیل-نواز حکومت نے شمالی وزیرستان کے قبائلیوں کو پندرہ روز کی مہلت دی ہے۔اور پھر محض چند دنوں کے وقفے سےپہلے 4 جون 2014 کو راولپنڈی میں دو فوجی افسران پر خودکش حملہ ہوا اور ان کی شہادت ہوئی اور 8 جون کی رات کراچی ائر پورٹ پر حملہ ہوجاتا ہے۔ یہ حملے اس لیے کیے گئے ہیں تا کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور فوجی آپریشن کے لیے فوجی و عوامی رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔ لہٰذا ان حملوں کا فائدہ سوائے امریکہ اور پاکستان کی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹوں کے اور کسی کو نہیں پہنچتا ۔
یہ بات اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک میں اس قسم کی کاروائیوں کے پیچھے امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا رفرما ہے، جس کا مقصد افواج پاکستان کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ جب تک امریکی اہلکار جی۔ایچ۔کیو، فوجی اڈوں اورحساس تنصیبات سمیت پورے پاکستان میں دندناتے پھریں گے تاکہ کمزور مقامات کی معلومات حاصل کریں اور پھر انہیں ہمارے خلاف استعمال کریں، ہماری تنصیبات پر ایسے حملے ہوتے رہیں گے۔ یہ حملے راحیل۔نواز حکومت کا امریکہ کے ساتھ شیطانی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جس نے امریکی دہشت گردوں کو ملک میں اس قسم کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے کی آزادی فراہم کررکھی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک مہران بیس کراچی اور کامرہ ائر بیس کی تحقیقات سامنے نہیں آسکیں اور اس قسم کا حملہ ہوجانے کے بعد بھی حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کیں جاتیں کہ دہشت گرد دوبارہ حساس تنصیبات میں داخل نہ ہوسکیں۔ آخر کیوں امریکی دہشت گرد ملک میں آزادنہ گھومتے پھرتے ہیں یہاں تک کہ ایف۔بی۔آئی کا مسلحہ ایجنٹ کراچی ائر پورٹ پرگرفتار ہوتا ہے اور حکومت اسے رہا کردیتی ہے۔
حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے سوال کرتی ہے کہ کب تک افواج پاکستان اور عوام کو اس امریکی صلیبی جنگ کا ایندھن بنتا دیکھتے رہیں گے؟مشرف-عزیز، اورکیانی-زرداری حکومت کی طرح راحیل-نواز حکومت بھی امریکی اہداف کے حصول کے لیے پاکستان کی افواج اور اس کے عوام کو قربان کررہی ہے۔یہ خونی صورتحال صرف اسی وقت ختم ہوسکتی ہے جب آپ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں گے۔ پھر مسلمانوں کا خلیفہ ریاست خلافت کے اسلامی آئین پر عمل کرتے ہوئے تمام دشمن ممالک کے فوجی ، سفارتی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدر کرے گا اور ان کے زہریلے اور ناپاک وجود سے اس اسلامی سرزمین کو پاک کرے گا۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا خاتمہ کرو جو ہماری افواج کو نشانہ بنا رہی ہے

حزب التحریر ولایہ پاکستان راولپنڈی کے قریب فتح جنگ روڈ پر دو فوجی افسران پر خود کش حملے کی مذمت کرتی ہے اور اللہ سے شہید فوجی افسران کے درجات کی بلندی اور ان کے لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتی ہے۔
9 مئی 2014 کو نائب امریکی سیکریٹری خارجہ ویلیم برنز کے دورہ پاکستان میں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے شمالی وزیرستان میں اگلی کٹھ پتلی افغان حکومت کے قیام سے قبل اُن مجاہدین کے خلاف فوری فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا گیا تھا جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درکار عوامی اور فوجی رائے عامہ کو حاصل کرنے کے لیے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک نے پاکستان کی افواج اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی امریکہ کی جانب سے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو قبائلی علاقوں میں بالخصوص اور پاکستان میں بالعموم افواج پاکستان پر حملے تیز ہوجاتے ہیں۔امریکی فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے سوا پاکستان میں کون ہے جن کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ آزادانہ ہماری فوجی چھاونیوں میں دندناتے پھریں اور جنہیں ہمارے فوجیوں کی نقل و حمل کی پوری خبر بھی ہو۔ جنوری 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کی لاہور سے گرفتاری اور پھر مئی 2014 میں امریکی ایف۔بی۔آئی ایجنٹ جوئیل کوکس کی کراچی سے گرفتاری یہ ثابت کرتی ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ان دہشت گرد امریکیوں کو پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کے عوام کے خلاف اپنے خونی عزائم کی تکمیل کی کھلی چھٹی فراہم کررکھی ہے۔
آج دراصل پاکستان کے اصل دشمن دہشت گرد امریکی ہیں جو خفیہ طریقے استعمال کر کے ہمارے فوجیوں کی شہید کررہے ہیں تا کہ امریکہ یہ کہہ سکے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تمھاری اپنی جنگ ہے اور پھر ہم پر ہماری افواج کو ان قبائلی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکے جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ افواج پاکستان اور پاکستان کے تحفظ کےلیے پاکستان میں قائم امریکی سفارت خانے ، قونصل خانوں اور اڈوں کی بندش اور تمام امریکی سفارت کاروں، فوجی ، انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی اہلکاروں کی ملک بدری کا آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے ہماری افواج کے خلاف خفیہ جنگ شروع کر رکھی ہے تا کہ خطے میں اس کے قبضے کے خلاف لڑنے والوں کے خلاف پاکستان کی افواج کو استعمال کیا جاسکے۔
جب تک پاکستان اور خطے میں امریکہ کی موجودگی اس کے سفارت خانوں، قونصل خانوں، سفارت کاروں، فوجی و انٹیلی جنس اہلکاروں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی شکل میں موجود رہے گی افواج پاکستان پر امریکی ایماء پر یہ خفیہ حملے بھی جاری رہیں گے۔ حزب التحریر پاکستان کے عوام سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سرزمین پر امریکی موجودگی اور ہماری افواج پر اس کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ کے خلاف آواز بلند کریں اور غدار راحیل-نواز حکومت کو اکھاڑ پھینکیں جس نے امریکی دہشت گردوں کو پورے پاکستان میں پاکستان کے عوام اور افواج پر حملے کرنے کی آزادی فراہم کررکھی ہے اور خلافت کا قیام عمل میں لائیں۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی ملک سے امریکی موجودگی کے خاتمے کے لیے درکار فوجی آپریشن ہو سکے گااور خطے کو امریکہ کے زہریلے وجود سے نجات مل سکے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ "یقیناً خلیفہ ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے"۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

شمالی وزیرستان آپریشن:پاک فوج امریکی صلیبی جنگ کا ایندھن بنے گی حزب التحریر نے ملک بھر میں شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف مظاہرے کیے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا : "شمالی وزیرستان آپریشن، پاک فوج امریکی جنگ کا ایندھن"، "صرف امریکی فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے خلاف آپریشن سے ملک میں امن قائم ہو گا"۔
مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ راحیل-نواز حکومت امریکی احکامات کی پیروی میں شمالی وزیرستان میں موجود ان مجاہدین کے خلاف آپریشن کررہی ہے جو افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرتے ہیں۔ راحیل-نواز حکومت بجائے اس کے کہ اِن مجاہدین کے ساتھ مل کر خطے سے امریکہ کو نکالتی جو کہ دہشت گردی اور عدم استحکام کی اصل وجہ ہے، اس نے امریکہ کا ساتھ دینا کا فیصلہ کیا اور شمالی وزیرستان میں اندھادھند بمباری شروع کردی جس کے نتیجے میں عورتیں اور بچے ہلاک جبکہ گھر اور بازار تباہ و برباد ہورہے ہیں۔
مظاہرین نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے اور افواج پاکستان کو اس امریکی صلیبی جنگ کا ایندھن بنانے کی شدید مذمت کی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ آپریشن امریکی انٹیلی جنس اور فوجی اہلکاروں کے خلاف شروع کیا جانا چاہیے جو شہری و فوجی علاقوں میں بم دھماکوں اور قتل کے وارداتوں کی منصوبہ بندی اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی نگرانی کرتے ہیں۔ مظاہرین نے افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ راحیل-نواز حکومت کو اپنی حمائت سے محروم کردیں جس کو نہ تو اپنے شہریوں اور اور نہ ہی افواج کی کوئی پروا ہے اور ان کے مقدس خون کو دنیا کے واحد مسلم ایٹمی ریاست کی دہلیز پر امریکی موجودگی کے مستقل قیام کو یقینی بنانے کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ مظاہرین نے مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں، جو مجاہدین اور افواج کی قوت کو یکجا کر کے خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرے گی اور خطے کو اس کا کھویا ہوا اَمن اور استحکام دوبارہ لوٹائے گی۔

2014_06_04_Pakistan_MO_1_pic

Read more...

بجٹ15-2014 پاکستان کو استعماری قرضوں کی دلدل میں مزید دھکیل دے گا

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 15-2014میں اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان آئی۔ایم۔ایف کے قرضوں کے جال سے کسی صورت نکل نہ پائے۔ یہ بجٹ تقریر 10 مئی 2014 کو آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ہی ایک طویل شکل تھی۔ خود اپنے ہی منہ سے اپنی تعریفیں کر کرکےعوام کو بیزار اور ان کا قیمتی وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ راحیل-نواز حکومت آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی فوٹو کاپیاں جاری کردیا کرے۔ اس بجٹ میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ آئی۔ایم۔ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو نجکاری کے نام پر بیچ دیا جائے کہ جن کو استعمال کر کے پاکستان خود اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ معیشت ، جو پہلے ہی بجلی اور گیس کے بحران کے باعث زوال کا شکار ہے، پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کراس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عام آدمی ،جو پہلے ہی بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ سے قریب المرگ ہے ، پر مزید 231 ارب روپے کے نئے ٹیکس ڈال کر اسے زمین سے لگا دیا گیا ہےجبکہ دوسری جانب اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں سہولت فراہم کی جائے تا کہ انتہائی قیمتی قومی اثاثوں کونجکاری کے نام پر با آسانی خرید کر اپنے منافعوں میں کئی گنا اضافہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ موجودہ بجٹ کا ایک تہائی حصہ، 1325ارب روپے، قرضوں کی اصل رقم کی واپسی اور ان پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیے جائیں گے جو کہ نہ صرف بہت بڑا گناہ ہے بلکہ اسے جواز بنا کر پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئندہ بھی حکومت مزید قرضے لے گی ۔
ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی کچھ اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ اور کچھ پر کمی کرکے ایک روایتی استعماری بجٹ ہی پیش کیا گیا ہے۔ راحیل-نواز حکومت نےمعیشت کو درپیش بنیادی مسائل پر کوئی ایسا انقلابی تصور پیش نہیں کیا کہ جس پر چل کر پاکستان کی معیشت حقیقی معنوں میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے اور امریکہ اور اس کے استعماری اداروں آئی۔ایم۔ایف اور عالمی بینک کی شکنجوں سے آزادی حاصل کرسکے۔
پاکستان کے مسلمانوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ آمریت ہو یا جمہوریت ان پر سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ کیا جاتا ہے اور جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا نہ تو پاکستا ن اور نہ ہی اس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔صرف ہماری خلافت ہی عوامی اثاثوں یعنی تیل، گیس اور معدنی وسائل اور ریاستی اثاثوں یعنی بھاری صنعتوں، اسلحہ سازی کی صنعت، مواصلات، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے ذریعے اور زراعت پر خراج سے اس قدر وسائل پیدا کرے گی کہ بیرونی سودی قرضوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کی جدوجہد کا حصہ بن جائیں۔

Read more...

سوال کا جواب: کفریہ نظام میں شرکت

سوال: ہم اس پر بحث کررہے تھے کہ ایک مسلمان کا موجودہ غیر اسلامی حکومتی نظاموں کے اندر شمولیت حرام ہے توبحث کے دوران کسی نے کہاکہ اس نے ایک شیخ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس میں شمولیت جائز ہے اور اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے عمل کو دلیل بنا کر پیش کیاکہ اُنہوں نے مصر میں اس وقت کے بادشاہ کی شریعت پر فیصلے کئے ..... اور یہ کہ نجاشی کئی سالوں تک کفر کے ساتھ حکومت کرتا رہا جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان تھا اور رسول اللہﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔ پھر یہ کہ مصلحت جو کہ ایک دلیل شرعی ہے، اس کاتقاضا کرتی ہے اور وہ مصلحت یہ ہے کہ ایک مسلمان اگر حکومت میں شامل ہوگا تو وہ ایک سیکولر شخص سے زیادہ اچھے طریقے سے مسلمانوں کے مفادات کا انتظام کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ استدلال کہاں تک صحیح ہے؟ اور کیا یقینا ً کچھ شیوخ ایسے ہیں جواس طرح کی بات کرتے ہیں؟ امید ہے جواب دے کرمستفید فرمائیں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دیدے۔
جواب: جی ہاں! کچھ سرکاری شیوخ سے اس قسم کے اقوال سننے کوملتے ہیں لیکن ان کے اقوال ہمارے لئےحجت نہیں کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کرنے کے دلائل صریح، صاف و شفاف اور بالکل واضح ہیں اور ان کا ثبوت بھی قطعی اور دلالت بھی قطعی ہے اور اس میں آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ بلاشبہ حکم بما انزل اللہ فرض ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنْ الْحَقِّ﴾"پس آپ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ (احکامات ) کے مطابق فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے، اس کے مقابلے میں ان کے خواہشات کی پیروی نہ کریں" (المائدہ: 48)۔ اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: ﴿وَأَنْ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ﴾ اوران کے درمیان اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات ) کے بارے میں آپﷺ کو بھٹکا نہ دیں" (المائدہ:49)۔
یہی مضمون بہت سی دیگر نصوص میں آیا ہے۔ جہاں تک بات ہے اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت نہ کرنے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا سہار ا لینے کی تو اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر حکومت کرنے والا اس پر ایمان بھی رکھتا ہے تو یہ کفر ہے، ایمان نہ رکھے تو پھر یہ ظلم اور فسق ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے۔ ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ کافر ہے" (المائدہ:44)۔اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)۔اور ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ﴾"اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ فاسق ہے" (المائدہ:47)۔
جہاں تک ان مشائخ سلطانی کے استدلال کی بات ہے تو جیسا کہ ہم نے کہا یہ حجت نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں:
1۔ یوسف علیہ السلام کے عمل کو دلیل بنا کر ان لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ بعض مسائل میں بادشاہ ِمصر کی شریعت کے تحت فیصلے کیاکرتےتھے، یعنی جس کو اللہ تعالی ٰ نے نازل نہیں کیا تھا، تو اس استدلا ل کا یہ محل نہیں، کیونکہ ہمیں اسلام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے جس کو محمد رسول اللہﷺ لےکر آئے اور یہ اللہ کی طرف سے وحی تھی۔ ہمیں یوسف علیہ السلام یا دوسرے انبیاء کی شریعتوں پر چلنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سے پہلے کی شریعت ہمارے لئے شریعت کا درجہ نہیں رکھتی کیونکہ اسلام نے آکر پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ "اور (اے رسولﷺ) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہے اور جو حق تمہارے پاس آگیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔تم میں سے ہر ایک (امت ) کے لئے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے" (المائدہ:48)۔ اس آیت میں "مہیمناً" کا معنی ناسخاً (منسوخ کردینے والا)کے ہیں تو اسلام نے سابقہ تمام کتابوں کومنسوخ کردیا، اس لئے پچھلی قوموں کی شریعتیں ہمارے لئے شریعت کا حکم نہیں رکھتیں۔
کچھ دیگر آئمہ اصول نے ایک اور انداز میں اس قاعدہ کو لیا ہے یعنی (شَرْعُ مَنْ قبلَنا شرع لنا ما لم يُنْسَخ) "پچھلی اقوام کی شریعت کو جب تک منسوخ نہ کر دیا جائے وہ ہمارے لئے بھی شریعت ہوتی ہے"۔ یہ اصولی قاعدہ بھی گزشتہ شریعتوں کے صرف ان احکام سے استدلال کو جائز قرار دیتا ہے جو غیر منسوخ ہو۔ ان احکام کو جن کو ہماری شریعت نے آکر منسوخ کردیا، لینا درست نہیں بلکہ ہم سے مطالبہ ان احکام کا ہے جو ہماری شریعت میں وارد ہوئے ہیں اور اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کا حکم اسلام کا ایک صریح اور واضح حکم ہے۔ اس سے زمانہ گزشتہ کی وہ تمام شریعتیں منسوخ ہوجاتی ہیں جو اس حکم میں اسلام کی مخالف ہوں۔ اس بناء پر معتبر علماء اصول الفقہ خواہ وہ پہلے قاعدے "شرع من قبلنا ليس شرعاً لنا" کو ماننے والے ہیں یا دوسرے قاعدے "شرع من قبلنا شرع لنا ما لم ينسخ" کو ماننے والے ہیں سب نے کہا ہے کہ حکم بما انزل اللہ فرض ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک واضح اور منصوص حکم ہے۔ یہ قطعی الثبوت والدلالۃ ہے اور پچھلی مخالف شرائع کو منسوخ کرتا ہے۔
یہ اس بناء پر ہے کہ جب ہم فرض کرلیں کہ یوسف علیہ السلام نے بعض مسائل میں مصر کے بادشاہ کی شریعت پر فیصلے کئے، اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلا م نبی تھے اور معصوم تھے، انہوں نے جتنے فیصلے کئے صرف اور صرف ما انزل اللہ کے مطابق کئے، جب اپنے جیل کے دو ساتھیوں کے ساتھ ان کی گفتگو ہوئی تو انہیں یہی کہا کہ فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ہے، ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اے میرے قیدے خانے کے ساتھیو ! کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جس کا اقتدار سب پر چھایا ہواہے؟ اُس کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو اُ ن کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے آباؤاجداد نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے اُن کے حق میں کوئی دلیل نہیں اُتاری۔ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اُسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لو گ نہیں جانتے " (یوسف:39-40)۔ اس آیت میں تو یوسف علیہ السلام یہی کہہ رہے ہیں کہ(ان الحکم الاللہ) کہ اللہ کے علاوہ کسی کو حاکمیت حاصل نہیں۔ لہذا حاکمیت صرف رب العالمین کی ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اورصرف اسی سے قوانین شریعت لیں گے۔ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں مانتے۔
اور یوسف علیہ السلام کے قول و عمل میں ایسا کوئی تضاد نہیں تھا کہ ایک طرف وہ اللہ کی حاکمیت کی دعوت دیں اور دوسری طرف کفر کے ساتھ حکومت کریں۔ اس کا مطلب ایک نبی کی عصمت پر طعنہ زنی کرنا ہے اوریہ ایک بہتان ہے جو یقیناً کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں.....اس لئے یوسف علیہ السلام کفر کے ساتھ حکومت نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے ایک سچے اور مخلص بندے کی طرح اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی کی۔ تو جیساکہ ہم نے کہا کہ اگر بالفرض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے حضرت یوسف علیہ السلام کوان کی شریعت میں یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ بعض معاملات میں شاہ مصر کے قوانین پر فیصلے کریں تو بجا ہے، مگر اسلام آنے کے بعد گزشتہ تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور ہمارے اوپر رسول اللہﷺ کی نبوت کے بعد صرف اور صرف اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنا فرض کیا گیا ہے۔
2۔ جہاں تک نجاشی کے حوالے سے بات ہے تو یہ بھی بے محل ہے کیونکہ اس مسئلے کے اندر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نجاشی قبول اسلام سے پہلے بھی بادشاہ تھااور خفیہ اسلام لایا اور اسلام لانے کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہا اور پھر اس کا انتقال ہو گیا اور چونکہ باقی ساری قوم کافر تھی تو اس کی اتنی قد رت نہیں تھی کہ اسلام کا نفاذ کرتا، اس لئے اپنے اسلام کا اعلان بھی نہ کرسکا..... اب اس کو ایک ایسے مسلمان پر منطبق نہیں کیا جاسکتا جسے لوگ بحیثیت ایک مسلمان کے جانتے ہوں اور اس کا اسلام مشہور ومعروف ہو ہم اس کو مزید تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
ا۔ نجاشی کا لفظ ملک حبشہ کے کسی مخصوص حکمران کا نام نہیں بلکہ یہ ہرحبشی حکمران کا لقب ہوا کرتا تھا جیساکہ فارس (ایران) کا حکمران کسریٰ اور روم کا حکمران قیصر کہلاتا تھا.....جس نجاشی کے مسلمان ہونے کی ہم بات کررہے ہیں جس پر رسول اللہﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی، توایسا نہیں تھا کہ اس کے اسلام لانے کے کئی سال گزرے تھے، جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے، بلکہ اس کے اسلام کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا جو چند دن یا ہفتے یا ایک دو مہینے سے زیادہ نہیں تھا۔ یہ وہ نجاشی نہیں تھا جس کے پاس مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے گئے۔ یہ وہ نجاشی بھی نہیں تھا جس کے پاس رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو صلح حدیبیہ کے بعد بھیجا تھا یعنی جب آپﷺ نے حکمرانوں کے پاس قاصد بھیجے بلکہ یہ ایک دوسرا نجاشی تھا جس نے اس نجاشی کے بعد حکومت سنبھالی تھی جس کے پاس رسول اللہ ﷺ نے پیغام بھیجا تھا۔ بخاری و مسلم میں اس حوالے سے روایات موجود ہیں، لہذا جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ وہی نجاشی ہے جو حبشہ کا بادشاہ تھا جس نے اسلام قبول کرلیا تھا اورجس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، یا یہ وہ نجاشی تھا جس کے پاس رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ کے بعد بھیجا تھا تو یہ ایک واہمہ سے زیادہ نہیں ہے۔ باقی رہی بخاری و مسلم کی روایات سے متضاد دیگر روایات، تو وہ مردود ہیں۔ ہماری ذکرکردہ باتوں پر ہمارے پاس کئی دلائل ہیں:
مسلم ؒ نے قتادہ سے، اس نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے («أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ تَعَالَى»، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ) " کہ نبیﷺ نے کسری ، قیصر، نجاشی اور تمام جابروں کو خطوط لکھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔ یہ وہ نجاشی نہیں جس کی نبیﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی"۔
ترمذی ؒ قتادہ سے وہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں («أَنَّ رسو ل اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ قبل موتہ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ» وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم) "کہ نبیﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور تمام جابروں کو خطوط لکھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، یہ وہ نجاشی نہیں جس کی نبیﷺ نے نمازجنازہ پڑھی تھی"۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ب۔ چونکہ رسولﷺ نے حدیبیہ سے واپسی پر حکمرانوں کو خطوط بھیجے، یعنی ذی قعدہ 6 ہجری کو اور جس نجاشی نے اسلام قبول کر لیا تھا یہ وہ نجاشی نہیں جس کو دیگر حکمرانوں کی طرح رسول اللہﷺ نے خط بھیجا بلکہ یہ اس کے بعد آنے والا دوسرا نجاشی تھا تو گویا اس بعد میں آنے والے نے سنہ 7 ہجری میں حکومت سنبھا ل لی تھی۔
ج۔ اور چونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو ان احادیث کے راوی ہیں، مسلمان ہونے والے نجاشی کی نمازجنازہ پڑھتے وقت آپﷺ کے ساتھ تھے جیسا کہ نجاشی کی نماز جنازہ والی احادیث میں ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے قبیلہ دوس کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ آئے، اس وفد میں ستر یا اسّی لوگ تھے اور اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ وفد والے وہاں جاکر آپﷺ سے ملے۔ آپﷺ نے ان کو خیبر کی غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور خیبر کا واقعہ سنہ 7 ہجری میں ہوا۔ ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ نجاشی جو مسلمان ہوا تھا، اس نے حبشہ کی حکومت ساتویں ہجری میں سنبھال لی تھی، اسی سال اس کی وفات بھی ہوئی، یعنی چند دن یا ایک مہینہ یا چند مہینے زندہ رہا۔
د۔ ان دنوں حبشہ کے لوگ کفر کی حالت میں اور عیسائی دین پر تھے۔ ان کا حکمران نجاشی تھا جس نے خفیہ طور پر اسلام قبول کرلیاتھا۔ لوگوں کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، حتٰی کہ رسول اللہﷺ کو بھی نجاشی کی وفات کی خبر وحی سے معلوم ہوئی جیسا کہ اس نجاشی پر نماز پڑھنے کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
أخرج البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ («أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى المُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا») "بخاری ؒ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے اسی دن نجاشی کی وفات کی اطلاع دی جس دن اس کی وفات ہوئی۔ آپﷺ عید گاہ کی طرف نکلے، صفیں بنائی گئیں اور آپﷺ نے چار تکبیریں کہیں"۔ دوسری روایت میں ہے کہ "آپﷺ نے نجاشی حبشہ والے کی وفات کے دن ہی اس کی موت کی اطلاع دی اور کہا کہ اپنے بھائی کیلئے اللہ سے دعائے مغفرت کرو"۔ بخاری ؒ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا "آج حبش کے ایک نیک آدمی کی وفات ہوئی ہے، آؤ اس کی نماز جنازہ پڑھیں"۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے صفیں بنائیں اور آپﷺ نے اس کی نماز جناز ہ پڑھی۔ ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں دوسری صف میں کھڑا تھا۔ ایک روایت میں جابر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نجاشی کی وفات کے وقت آپﷺ نے فرمایا "آج ایک نیک آدمی کی وفات ہوئی ہے، اٹھو اپنے بھائی اَصحَمَہ کی نماز جنازہ ادا کرو"۔
یہ جتنے الفاظ ان احادیث میں آئے ہیں مثلاً «نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ»، «نَعَى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الحَبَشَةِ، يَوْمَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ»، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ»"، «مات اليوم رجل صالح...» ان سب سے مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نجاشی کی وفات کے دن ہی آپﷺ نے اس کی اطلاع دی، جبکہ نجاشی حبشہ میں اور رسول اللہﷺ مدینے میں تھے۔ اور یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ علم آپﷺ کو وحی کی ذریعے دیا گیا۔ تو جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اپنے بھائی کیلئے دعائے مغفرت کرو" اور "آج ایک نیک بندے کا انتقال ہوا ہے" ان تمام کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کو اس کی موت کے بارے کوئی علم نہیں تھا۔
ھ۔ اس لئے اقتدار میں شرکت کے معاملے میں نجاشی والےحالات موجود نہیں۔ اُس نے تو خفیہ اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کی قوم کافر تھی۔ پھر تھوڑے عرصے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور رسولﷺ کے علاوہ کوئی بھی اس کے اسلام کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ان تما م حقائق کو دیکھتے ہوئے ایک مشہور و معروف مسلمان اگر اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ دیگر نظاموں کے ذریعے حکمرانی کرے تواس کے اور نجاشی کی (اس غیر معروف ) زندگی کے درمیان کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے درمیان یکسانیت موجود ہے توان کے پاس اس بات پر کوئی دلیل یا شبہ دلیل موجود نہیں۔
3۔ جہاں تک مصلحت کو دلیل بنانے کی بات ہے تو یہ بھی بے محل ہے۔ ہم نے اس کا جائزہ لیا:
اصول فقہ کے علماء میں سے بعض مصلحت کو دلیل کے طور پر لیتے ہیں مگر انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ مصلحت کو دلیل تب ہی بنانا جائز ہوگا جبکہ شرع میں اس کے بارے کوئی امر یا نہی نہ آئی ہو، بصورت دیگر مصلحت پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ شرع میں وارد حکم کو لیا جائے گا۔ معتمد علماء ِ اصول فقہ میں سے کسی نے بھی مصلحت کے تقاضے کے پیش نظر وحی کی نصوص کو معطل کرنے کی بات نہیں کی ہے۔
مثلاً ربا حرام ہے۔ وحی کی ثابت شدہ نصوص اس کو حرام قرار دیتی ہیں۔ اب اگر مصالح کی تکمیل ربا کا تقاضا کرے تو شرع اس کو مسترد کرتی ہے اور یہ فعل حرام ہوگا اور اگر کچھ نام نہاد علماء اس پر فتویٰ دیں تو ان کافتویٰ ناقابل قبول ہو گاکیونکہ یہ شرعی نصوص کے مخالف ہے۔
ماانزل اللہ کے علاوہ حکمرانی قطعی طور پر حرام ہے۔اس کے بارے میں بھی آسمانی وحی کی نصوص آئیں ہیں، جیسے ربا ایک قطعی حرام ہے۔ تو مصلحت کو فیصلہ کن بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ شرعی احکامات کی تنفیذ ہی مصلحت ہے۔ اس کے برعکس یہ کہنا کہ جو مصلحت ہے وہی شریعت کا حکم ہے، ایسا ہر گز نہیں۔
چلوہم ان علماء کے ساتھ کچھ دیر کیلئے موافقت کرلیتے ہیں، جو اس معاملے میں سہولت پسند ہیں اور مصالح مرسلہ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے مذہب میں مصلحت کو دلیل بنانے کا یہ موقع نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مصالح مرسلہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہاں ان لوگوں کے ہاں ضرورموجود ہے جو کہتے ہیں کہ شرع نے کچھ امور ایسے چھوڑے ہیں جن کے بارے میں کوئی امر یا نہی نہیں کی۔ وہ ایسے مواقع میں مصلحت کو استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شرع نے ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کے بارے میں حکم نہ دیا ہو۔ شرع نے سب کچھ بیان کیا ہے، مثلاً ﴿تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾ "جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے" (النحل:89)، ﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ﴾ "ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی" (الانعام:38)، ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ "آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پراپنا انعام بھر پور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "(المائدہ:3).
4۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفریہ نظاموں میں حصہ لینا اور اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ سے حکمرانی کرنا کفر ہے جبکہ حکمران اس حکمرانی کا عقید ہ بھی رکھتا ہو اور بغیر عقیدے کے کفریہ نظاموں کےساتھ حکمرانی کرنا ظلم اور فسق ہے جیساکہ ان آیا ت کریمہ میں وارد ہے ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾، ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ اور ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے علاوہ حکمرانی میں مسلمان کی شرکت جائز ہے تو ان کے پاس کوئی دلیل یا شبہ دلیل نہیں کیونکہ یہ عمل قطعی الثبوت والدلالۃ نصوص کی رو سے ممنوع ہے۔
امید ہے جواب سے تسلی ہوجائے گی، انشا ء اللہ۔

Read more...

مسجد اقصیٰ سے امت مسلمہ اور مسلمانوں کی افواج کو پرزور پکار

﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾
" پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصٰی لے گیا جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ان کو اپنی نشانیاں دیکھا دیں، بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے" (بنی اسرائیل: 81)
اے مسلمانو!..... اے مومنو!..... اے مسلم افواج!
خلافت کے انہدام کی یاد میں مسجد اقصٰی کے آنگن سے ہم تم سے التجا کرتے ہیں۔ قبلہ اول سے ہم تمہیں پکار رہے ہیں۔ جہاد کی سرزمین سے تمہاری ہمتوں اور عزائم کو بیدار کر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی اسراء کے مقام سے، زمین کے اس پاکیزہ ٹکڑے سے جہاں سے ہمارےنبیﷺ آسمانوں کی بلندیوں پر تشریف لے گئے تھے ہم تم سے مخاطب ہیں۔
یہاں سے، اس مبارک سر زمین سے، دنیا کے ہر خطے میں موجود امت مسلمہ سے مخاطب ہیں..... سمندر سے سمندر تک اور ہر اس سرزمین کی طرف ہم متوجہ ہیں جہا ں تکبیر "اللہ اکبر....." کی صدا پہنچ چکی ہے۔
مسلمانوں کی تمام افواج کو بالعموم، کنانہ(مصر)، پاکستان، ترکی کی افواج اور بلاد الشام کے اہل قوت کو بالخصوص پکار تے ہیں.....کیا تمہارے اندر الاقصٰی سے والہانہ محبت نہیں۔ کیا تمہارے دل الاقصٰی میں سجدے کے شوق سے لبریز نہیں؟ کیا تمہارے دلوں میں الاقصٰی سے ملاقات کی تڑپ نہیں رہی ہے ؟
کیا تم رسول اللہﷺ کے اسراء کے مقام کے دیوانے نہیں ہو؟ کیا تم اس مبارک سرزمین پر شہادت کے آرزومند نہیں ہو جہاں تمہارا خون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مبارک لہو سے یکجا ہو ؟
الاقصٰی تم سے یہ سوال کر رہی ہے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں ہیں..... صلاح الدین کہاں ہے..... مسلمانوں کا خلیفہ کہاں ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ کا مقام اسراء تمہارے نزدیک ایسا بے وقعت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے یہود اپنی نجاست سے اس کو روندتے رہیں ؟
یہود، جو اہل ایمان کے سخت ترین دشمن ہیں، نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے الاقصٰی اور صلاح الدین کے منبر کو جلا ڈالا ہے.....کیا اپنی عزت کی نشانی کو جلتا ہوا دیکھ کر تمہارے دل غم و غصے سے جل نہیں گئے؟
یہود الاقصٰی پر اس لیے ہلہ بول دیتے ہیں کہ وہاں اپنے تہوار منائیں..... تا کہ اس کی زمین کو اپنی نجاست سے روندیں۔ الاقصٰی روندی جارہی ہے۔ اس میں غیر اللہ کی تعظیم ہو رہی ہے اورتم کھڑے یہ تما شا دیکھ رہے ہو !! اے بہترین مؤمنو تم کہاں ہو ؟؟
اپنا خودساختہ ہیکل بنانے کے لیے الاقصٰی کے خلاف یہودیوں کے حملے شدت اختیار کر چکے ہیں.....تم کیا کر رہے ہو ؟؟
کیا تم نے الاقصٰی کے نیچے ان کی سرنگوں کے بارے میں نہیں سنا ہے..... کیا ان کی کھودائی کے بارے میں نہیں سنا ہے..... کیا اس کی بنیادیں گرائے جانے پر بھی تم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہو گے ؟!!
یہ خلافت کے انہدام کی یاد میں تمہاری طرف الاقصٰی کی منادی ہے۔ خلافت کو قائم کرو اور مجھے آزاد کرو۔ خلافت کو قائم کرو اور مجھے بچاؤ.....
اے اہل شام.....اے بہترین مؤمنو..... تمہیں اپنی جان، مال اور اہل وعیال کے بارے میں آزمائش کا سامنا ہے، ہر قریب اور دور والے نے تمہارے خلاف سازش کی، اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی مدد گار نہیں.....اسلام کے علاوہ تمہارا کوئی نجات دہندہ نہیں.....ایمان کے علاوہ تمہیں ثابت قدم رکھنے والا کوئی نہیں.....
اے حمص کے صابر لوگو! اہل شام میں سے سب سے پہلے اسلام لانے وال، اے وہ لوگو جن کو اللہ نے یہ شرف بخشا کہ ان کی زمین کو اللہ کی تلوار خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوئی.....
اے روشن حلب کے نیکوکارو! جس کو اللہ نے نور الدین زنگی رحمہ اللہ کےذریعے منور کیا.....یہیں سے مجاہدین کے وہ قافلے چل پڑے تھے جنہوں نے صلیبیوں کے قلعوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔
اے شام کے بہترین شہر.....مؤمنوں کے مسکن..... دمشق میں پہرا دینے والو!
اے الغوطہ میں مسلمانوں کے خیمے کے بہادرو! اے بریگیڈ اور بٹالین کے بہترین لوگو!
الاقصٰی سے ہم تم سب سے مخاطب ہیں۔ ایک ہو جاؤ اپنی صفوں کو یکجا کرو، ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾ "یقینا اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں" (الصف:4)۔ ایجنٹوں اور مجرموں کے قدم اکھاڑ دو۔ اللہ کا نام لے کر اس کی توفیق سے شام کے بہترین شہر دمشق کی طرف قدم بڑھاؤ۔ ناگ کا سر کچل دو۔ جو تمہیں دمشق جانے سے روک رہے ہیں ان کی طرف التفات مت کرو۔ یاد رکھو کہ کامیابی صرف اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تمہارا مولٰی ہے جبکہ ان کا کوئی مولٰی نہیں ﴿ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ﴾ "یہ اس لیے کہ اللہ ایمان والوں کا مولٰی ہے اور جنہوں نے کفر کیا ان کا کوئی مولٰی نہیں" (محمد:11)۔
تکبیروں اور تہلیلوں کی گونج میں الاقصٰی کی طرف روانہ ہو جاؤ..... خلیفۃ المسلمین کے ساتھ دار الخلافہ بیت المقدس کی جانب چل پڑو.....
اے اہل کنانہ (اللہ کے تیر کش)..... اے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والو!
اے مصر کی فوج! اللہ کی زمین پر اس کے تیر کش! تم اسلام کے مدد گا ر اور مسلمانوں کی قوت ہو۔ تم حطین اور عین جالوت کے ہیرو ہو۔ تم رمضان کے ہیرو ہو۔ اگر سازشیوں کی سازشیں نہ ہوتی تو کئی سال پہلے ہی تم اسی دن بیت المقدس کو آزاد کرانے کا شرف حاصل کر چکے ہو تے جس دن تم نے فلک شگاف تکبیروں کی گونج میں نہر سویز عبور کیا تھا۔
اے مصر کے افسران! دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں تمہاری عظیم فوج کو تتر بتر اور برباد کرنے کی تباہ کن سازش ہو رہی ہے۔ ہوشیار ہوشیار اپنے چہرے بیت المقدس کی طرف کرو اور مسلمانوں کو اپنے پیچھے جمع کرو جان لو اللہ کے اذن سے تم کامیاب ہو جاؤ گے ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ "اور مؤمنین کی مدد تو ہماری ذمہ داری ہے" (الروم:47)۔
اے علمائے ازہر! کیا تم میں اور تمہارے درمیان کوئی عز بن عبد السلام نہیں ؟..... علماء تو انبیاء کے وارث ہو تے ہیں۔ اپنے دین کی خاطر اٹھو اور مصر کو اسلام کی مدد اور خلافت کے قیام کے لیے ایک لشکر کا روپ دو.....
اے افسرو اور کمانڈرو! صلاح الدین ایوبی کی سیرت کو دہراؤ اور العقاب (رسول اللہ کے جھنڈا) کے دونوں بازو مصر اور شام کو یکجا کرو تاکہ امت مسلمہ سے کندھے سے کندھا ملاکر یہودی وجود کو نیست ونابود کردو اور ارض مقدس کو ان کی نجاست سے پاک کر سکو۔
اے اہل پاکستان..... اے تقویٰ اور اسلام کے علمبردارو!
رسول اللہﷺ کا مقام معراج تم سے فریاد کر رہا ہے.....اس کے جواب میں تم کیا کرو گے؟ مسجد اقصٰی تم سے التجا کر رہی ہےتو کیا تم لبیک کہنے والے ہو ؟.....
اے افواج پاکستان..... امریکہ تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر لگارہا ہے..... امریکہ تمہیں تباہ کرنے کے درپے ہے..... امریکہ ہی تمہارا دشمن ہے، اس کی غلامی سے اپنے آپ کو نکالو.....اپنے درمیان موجود ایجنٹوں کو اٹھا کر باہر پھینک دو.....مسلمانوں کو یکجا کرو۔ اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ دو، تم افغانستان، ہند کے مسلمان، وادی فرغانہ اور قفقاز ایک ہی امت ہو اور تم اسلام کی مدد اور اقامت دین پر قادر ہو۔
یہ حزب التحریر کی تمہارے لیے پکار ہے کہ خلافت کو قائم کرو اور پنی بہادر افواج کو بیت المقدس کی طرف گامزن کردو اور تم یہ شرف حاصل کرنے کے اہل ہو۔
اے ترکی کے عزتمندو اور ترک فوج ! تم محمد الفاتح اور سلطان سلیمان کے فرزند ہو، تم ان عظیم قائدین کی اولاد ہو جنہوں نے اسلام کو پھیلایا، دین کو قائم کیا اور مقدسات کی حفاظت کی، تم اس سلطان عبد الحمید کے پوتے ہو جنہوں نے کہا تھا " میرے لیے اپنے جسم کا ایک ٹکرا کاٹ دینا فلسطین کی ایک بالشت یہودیوں کو دینے سے آسان ہے"الاقصی کی پکار پر لبیک کہو اور خلافہ علی منہاج النبوۃ کو قائم کرو، مسجد اقصٰی کے بارے میں خلفاء کے عہد کو دہراو کیونکہ خلافت کا خون ابھی تک تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔
اے اہل یمن..... اے ایمان اور حکمت والو! مسجد اقصٰی کی فریاد کا جواب دو.....یکجان ہو کر خلافت کو قائم کرو اور جزیرہ عرب کو اسلام کے اقتدار کے زیر سایہ لاؤ..... تاکہ الاقصٰی کے منارے اور بیت العتیق (بیت اللہ) کے منارے تکبیر اور تہلیل کرتے ہوئے ہم آغوش ہوں.....پھر مؤمنوں کی آوازیں یہ تلاوت کرتے ہو ئے بلند ہوں ﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ "کہدو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے" (بنی اسرائیل:81)۔
اے اسلامی مراکش کے بہترین لوگو! اے بہادروں اور مجاہدین کی سرزمین لیبیا میں اللہ کی کتاب کو یاد کرنے والو! اے علماء اور قائدین کی سرزمین تیونس کے سپوتو! اے شہداء کی سرزمین الجزائر اور مغرب کے مسلمانو! اللہ کے منادی کا جواب دو، الاقصٰی کی پکار سنو، سکیولرازم اور گمراہی کو اتار پھینکو، سر حدوں کو مٹاکر لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے جھنڈے تلے ایک ہو جاؤ، خلافت ہی تمہاری وحدت اور تمہاری نجات ہے۔
اے ہر اس جگہ کے مسلمانو جہاں تکبیر " اللہ اکبر " پہنچ چکی ہے
اے امت مسلمہ کی افواج!
بیت المقدس تم سے فریاد کرتا ہے اور الاقصٰی تم سے التجا کرتی ہے.....تمہارے درمیان یہ منادی کرتی ہے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر..... حی الصلاۃ حی علی الفلاح..... تمہارے درمیان یہ منادی بھی کرتی ہے حی علی الجہاد..... کیا تم لبیک کہنے والے ہو؟ کیا تم اس کو یہودیوں کی نجاست سے آزاد کرنے والے ہو؟ کیا تم مخلص ہو ؟
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
"اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو بوجھل ہو کر زمین سے چمٹتے ہو۔ کیا آخرت کی بجائے دنیا کی زند گی پر ہی خوش ہو گئے ہو آخرت کے مقابلے دنیا کی زندی تو بہت ہی تھوڑی ہے اگر تم نہیں نکلے تو اللہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ لائے گا اور تم اللہ کو ذرا برابر نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے اللہ ہر چیز پر قادر ہے " (التوبہ:38-39)
مسجد اقصٰی مدد اور آزادی کے عہد کا انتظار کررہی ہے، خلیفۃ المسلمین کے ساتھ کا ، خلافت کی فوج کے ساتھ کا.....یہ ہے اقصٰی کی جانب سے تمہیں پکار.....خلافت تمہارے رب کی رضا، تمہاری عزت کا باعث ہے اس لیے اے مسلمانوں اس کو قائم کرو اے افسران اور جوانوں اس کو قائم کرو
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾ "اے ایمان والو اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے" (الانفال:24)۔
اے اللہ ہماری اس پکار کو مسلمانوں تک پہنچا..... اے اللہ اس کو مسلم افواج تک پہنچا
اے اللہ اپنے بہترین اولیاء اور بہترین فوج کے ذریعے ہماری مدد فرما.....اور مسجد اقصٰی کو یہود کی نجاست سے پاک فرما
اے اللہ مسلمانوں کی صفوں کو ایک کردے.....اور اقامت دین کے لیے ان کو ایک کردے
اے اللہ مسلمانوں کے عزائم کو مضبوط کر دے.....اور خائین اور ایجنٹ حکمرانوں کو برطرف کرنے میں ان کی مدد فرما
اے اللہ ہم خلافت علی منہاج النبوۃ..... امیر المؤمنین کی بیعت..... اور اے ارحم الراحمین آپ کی نصرت کے طلبگار ہیں
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں

2014_05_23_Palestine_Pic

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک