الجمعة، 26 ذو القعدة 1446| 2025/05/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

روس نے حزب التحریر کے ممبر عبدالرحیم توشموتوف کو 17 سال قید کی سزا سنادی

پریس ریلیز
3 اپریل 2014کوانٹرفیکس نیوز ایجنسی نے روس کےفیڈرل سکیورٹی سروس کی میڈیاآفس (ایف ، ایس ،بی) سے یہ رپورٹ نقل کی کہ : "سٹافروبل (Stavropol)شہر کی علاقائی عدالت نے عالمی دہشت گرد تنظیم حزب التحریر کے ایک رکن کو سزا سنائی جس پر 2013میں مایسکی(Maiskii) کی تہواری تقریبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کاالزام تھا۔ عبدالرحیم توشموتوف کو جو تاجکستان کاباشندہ ہے، کریمنل لاز کے جز اوّل کےآرٹیکل 205 اور30 کے تحت مجرم ثابت کیا گیا (اس پر دہشت گردی اور دہشت گردانہ جرائم کے ارتکاب میں ملوث ہونے، دہشت گردانہ خیالات یا دہشت گردی کی کاروائیوں میں معاونت فراہم کرنے کاالزام لگایاگیا)۔ اس کو 17 سال قید بامشقت کی سزاسنائی گئی جبکہ 55ہزار روبل مالی جرمانہ اس کے علاوہ ہے "۔
بھائی عبدالرحیم کے خلاف یہ فیصلہ ہمارے لئے کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ روسی حکومت عرصہ دراز سےاسلام اورمسلمانوں کے خلاف کھلم کھلاجنگ لڑرہی ہے،جس میں کئی بھیانک اور وحشیانہ سلوک پرمبنی مختلف طریقوں کو استعمال کیاجاتاہے ۔ ہر کوئی یہ جانتاہے کہ روس میں مکمل طورپر کریملن کا پینل سسٹم پر کنٹرول ہے تو جو بھی قوانین جاری کیے جاتے ہیں وہ کریملن اتھارٹی کے مطالبے پر جاری ہوتے ہیں جو دعوتی سرگرمیوں کودہشت گردی قرار دیکر ہر اس شخص سے جان چھڑانا چاہتا ہے جو کلمہ حق کو بلند کرتا ہے۔ 2014 کے اوائل میں ڈوما(روسی پارلیمنٹ) نے شرمناک قوانین منظور کئے جو ہر قسم کی سیاسی سرگرمی پرنام نہاد دہشت گردی کالیبل لگاکراس کوجرم قراردیتے ہیں ،خواہ یہ سیاسی سرگرمیاں کتنی ہی پر امن کیوں نہ ہوں اور انہی قوانین کے تحت اس قسم کی سرگرمیوں پر 15 تا 20 سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔
روس کے اندر دہشت گردی کی واحدذمہ دارکریملن کی مجرم حکومت ہےاور اس کے بے شماردلائل ہیں۔ ہمارے بھائی عبدالرحیم کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اس دہشت گردی کی صرف ایک مثال ہے۔ اسے ماسکومیں13ستمبر 2011کو عشاء کی نمازاداکرنے کے بعد مسجد کے باہر پکڑاگیا۔ پھر 29نومبر2011 کواسے ایک سال قید کی سزاسنائی گئی ، صرف اس لئے کہ اس نے مسجد میں کچھ باتیں کیں اورمسلمانوں کوماہ رمضان کی مبارکباد دی ۔ اسی سال روسی سکیورٹی کے اہلکار وں نے کئی مرتبہ ان کے ساتھ جیل میں ملاقات کی اوران کے ساتھ تعاون کرنے اوربطورجاسوس کام کرنے کامطالبہ کیالیکن اُنہوں نے اِس مطالبے کو سختی سے مسترد کردیا ۔ پھر جب وہ جیل سے رہاہو ئے تواُن کو16اپریل 2013 کو سٹافروبل شہر میں امیگریشن اورپاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں حاضر ہونے کے لئے کہا گیا کہ ان کو کچھ کاغذات دینے ہیں لیکن وہاں انہیں حراست میں لےلیاگیا۔ روسی دہشت گرد مشینری نےا ُن کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں کاالزام تراش لیا ۔ اس واقع کے گواہ ماسکو میں حقوق کے میموریل مرکز کے جناب ویتالی بونومارف ہیں جنہیں روسی سکیورٹی بیورو کی غیر قانونی حرکتوں اور دعوت کے حاملین کے خلاف ان کی الزام تراشیوں کو بے نقاب کرنے کے جرات مندانہ کردار کی وجہ سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔
کریملن حکومت کا یہ اسٹالنی طریقہ کار برسراقتدارطبقے کی اسلام اورمسلم دشمنی کی حقیقت کوبے نقاب کرتاہے اوریہ کہ حزب التحریر نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیاہواہے کہ حق کے اظہار اورباطل کوبے نقاب کرنےکے راستے میں اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہیں دبے گی اور اس کے باجود کہ مسلمانوں کے حکمرانوں نے ماسکو کے سرکش کے جرائم پرخاموشی اختیارکررکھی ہے، ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری مدد کرے گا ۔ اللہ تعالی ٰ کاارشاد ہے:
﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾
"اوروہ ایمان والوں کوصرف اس بات کی سزادے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جوبڑے اقتدار والا،بہت قابل تعریف ہے" (البروج: 8)

Read more...

کرغیزستان کے سپیشل فورسز نے بہن آمانوف زولفیا بنت آمانوف حمیداللہ شہید کو گرفتارکرلیا

پریس ریلیز
31مارچ 2014 کو کرغیزستان کی سپیشل فورسز نے بہن آمانوف زولفیا کو اوش شہر میں گرفتارکرلیا۔ جابرمجرموں نے آمانوف زولفیاکوپانچ سال کی عمر میں اس کے والد سےمحروم کردیاتھا ، جنہیں اس وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ سیاسی پارٹی حزب التحریر کے رکن تھے ۔ گزشتہ سال ہم نے بھائی آمانوف حمیداللہ کی افسوسناک موت کی خبر نشرکی تھی جو کرغیزستان کے شہر اوش کےرہنے والےتھے،جہاں آمانوف کو ازبک سپیشل فورسز نے اغواکرکے 14 سال تک قید میں رکھا اس دوران ان کو جابر کریموف کے قیدخانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اورپھر اس کے خاندان والوں کو اس کی لاش تک حوالے نہیں کی گئی۔
آمانوف زولفیابنت حمید اللہ شہید بچپن سے ہی اسلام سے شدید محبت کرتی آرہی ہیں۔ انہوں نے دیگرعلوم کے ساتھ ساتھ اسلام اور اس کے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا اورعربی زبان کے ساتھ کئی زبانیں بھی سیکھیں ۔ کریموف کے پاگل کتوں نے کرغیزستان کی معاونت سے شہادت سے پہلے شہید کے اہل خانہ کاپیچھاکیابلکہ شہادت کے بعد بھی ان کوتنگ کرتے رہے ،کیونکہ شہید کے خاندان نے کرغیزستان اورازبکستان کی ظالم حکومتوں سے شہید کے قتل کی تحقیات شروع کرنے اور ان کی لاش کو حوالے کرنے کامطالبہ کیاتھا۔ آمانوف زولفیا نے متعدد نے متعدد لوگوں سے رابطہ کیا تا کہ ان کے جرم اور جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے ۔ ان کی اس کوشش نے حکومت کو غضبناک کردیا جنہوں نے انہیں انتقام کانشانہ بناتے ہوئے گرفتارکرلیا۔
مجرم حکومت نے کرغیزستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے حزب التحریر کے شباب کوپکڑنے کیلئے مہم تیز کردی ہے ، دسیوں شباب کو نارینسکایا، باتکینسکایا،بشکیک اوراوش کے علاقوں سے گرفتارکرلیاگیا ہے۔ یہ مجرم حکومت عورتوں اوربچوں کو گرفتار کرنے سے بھی نہیں شرماتی چنانچہ زولفیا کو گرفتارکرکے ایک نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا ہے اور کسی کویہ علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اورکن حالات سے دوچارہے ۔ سو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسے ایما ن پر ثابت قدمی عطافرمائے ،اس کے عزم کو مضبوط کردے اوراس مصیبت پر صبر کی توفیق دے ۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اس کے گھروالوں اور اس کے رشتہ داروں کو صبر جمیل عطافرمائے اور اللہ ہی مدد گار ہے۔ ازبکستان اورکرغیزستان کی مجرم حکومتیں یاد رکھیں کہ زولفیا ، اس کے خاندان اوراس کے والد کے ساتھ ان کے جرائم پرانہیں ضرور سزامل کے رہے گی ۔
دنیا بھرمیں خلافت کے جھنڈے لہرائے جارہے ہیں اوراب مسلمان خلافت علٰی منہاج النبوۃ اورایک خلیفہ راشد کی بیعت کے ذریعے نئے سرےسےاسلامی زندگی کے آغاز کیلئے کمربستہ ہوگئے ہیں ۔ اللہ کے اذن سے آج نہیں تو کل خلافت آکر رہے گی ،تب کرغیزستان ،ازبکستان اور مسلم ممالک میں موجود حکومتیں اپنے ان جرائم کامزہ چکھ لیں گی جن کاارتکاب اسلام اورمسلمانوں کے خلاف یہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ دور آئے گا ،صبح کے انتظار کرنے والے پر صبح طلوع ہواکرتی ہے ۔ پھر آخرت کاعذاب تو اس سے کئی گنابڑھ کر ہوگا کاش یہ لوگ سمجھتے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَقِفُوَهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ﴾ "ان کوروکو ان سے پوچھ گچھ ہونے والی ہے" (اصآفات: 24)

Read more...

راحیل۔نواز حکومت حق کی آواز کو خاموش کردینا چاہتی ہے حزب التحریر کے رکن کو قید کر کے پاکستان میں خلافت کے قیام کو روکا نہیں جاسکتا

حزب التحریر ولایہ پاکستان کے رکن ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو آج صبح تقریباً دس بجے اس وقت چوروں کی طرح راحیل۔نواز حکومت کے غنڈوں نے روک کر اپنی قید میں لے لیا جب وہ گلستان جوہر میں واقع اپنے گھر سے نکلے ہی تھے۔ پھر ان غنڈوں نے ایک مسلمان کے گھر کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان کے گھر کے گیٹ پر گولی چلا کر تالے کو توڑا اور ان کی گاڑی کو لے گئے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر اسماعیل کے بیوی بچوں کو دھمکیاں دیں اور انہیں شدید خوف میں مبتلا کردیا اور گھر سے کئی اشیاء کو لوٹ کر لے گئے۔
ڈاکٹر اسماعیل شیخ جو گلستان جوہر کے رہائشی ہیں ، ایک مایہ ناز اور انتہائی تعلیم یافتہ ڈینٹل سرجن اور خلافت کے متحرک داعی ہیں۔ ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی زندگی ایک داعی کی زندگی ہے جس نے اسلام کی سربلندی اور اس امت کو زوال سے نکالنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے سیاسی و فکری جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ایک طرف سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار وں نے امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو تو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے کہ وہ پاکستان بھر میں فوجی و شہری تنصیبات کو نشانہ بنائیں لیکن حزب التحریر کے پرامن شباب کو ہر ممکن طریقے سے پاکستان میں خلافت کے قیام کی سیاسی و فکری جدوجہد سے روکنے کے لئے انتہائی ذلیل ترین ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
ہم پوچھتے ہیں کہ آخر کس طرح کافر ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو کھلی چھوٹ فراہم کی جاتی ہے جو دن رات پاکستان کے سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ وہ مسلمان جو امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لیے کام کرتے ہیں انہیں قید کرلیا جاتا ہے؟ ہم پوچھتے ہیں کہ آخر یہ کس طرح قابل قبول ہوسکتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گردوں کے لیے پاکستان آنے والے سامان کو حکومت اس قدر تقدس فراہم کرتی ہے کہ پاکستانی حکام کو اُن کے سیلڈ کنٹینروں کو دیکھنے کی اجازت بھی فراہم نہیں کی جاتی جبکہ خلافت کے داعی کے گھر کی چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے اور گھر میں موجود چیزوں کو لوٹ لیا جاتا ہے؟ اور یہ سب کچھ اس مسلم سرزمین پر ہورہا ہے جس پر اسلام کے نفاذ کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے خوشی سے اپنی جانیں قربان کردیں تھیں اور اب خلافت کی حمائت بھی ملک کے تمام طبقات میں پائی جاتی ہے ۔
حزب التحریر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں پر واضح کردینا چاہتی ہے کہ صدام اور قذافی جیسے سفاک حکمرانوں نے حزب التحریر کو اس کی سیاسی و فکری جدوجہد سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور پھر ان کی وہاں سے پکڑ ہوئی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور آج بھی ان جیسے موجود ہیں جو اپنے بد قسمت انجام کا انتظار کررہے ہیں۔ لہٰذا ایک ایسے وقت میں جب خلافت کا قیام عنقریب ہے انشاء اللہ، عقل مند لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ امت کے غضب اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے غضب کو دعوت دیں گے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ط مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ
" اور مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے۔ وہ اِن کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہےجب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور لوگ سر اوپر اٹھا کر دوڑرہے ہوں گے، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں لوٹ نہ سکیں گی اور اُن کے دل (خوف کے مارے) ہوا ہو رہے ہوں گے" (ابراھیم:43-42)

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

تمام امریکی اہلکاروں کو گرفتار اور امریکی سفارت خانے کو بند کرو سبزی منڈی میں قتل عام: ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک نے کور کمانڈرز کانفرنس کے منہ پر تھپڑ مارا ہے

بدھ 9 اپریل 2014 کے دن جب راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس جاری تھی کہ دارلحکومت ، اسلام آبادکی سبزی منڈی میں ایک خوفناک بم دھماکے نے زبردست تباہی مچادی۔ کم از کم 19 افراد اس دھماکے میں جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک نے افواج پاکستان اور ان کی قیادت کے منہ پر تھپڑ مارا ہےجو کئی سال قبل تنظیمی لحاظ سے کمزور قبائلی نیٹ ورکس میں سرائیت کر چکا ہے۔ یہ تھپڑ امریکی خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے خاص طور پر محدود تنازعات کو پروان چڑھانے کی امریکی پالیسی جس کے تحت "بلیک آپریشنز " کے ذریعے ان محدود تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے۔
جب تک پاکستان ہر قسم کی امریکی موجودگی کا خاتمہ نہیں کردیتا، ہماری افواج اور عوام اس فتنے کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ ہماری افواج کو لازماً امریکی سفارت خانےکو بند کرنےاور امریکی اہلکاروں بشمول اس کے سفارت کاروں ، فوجی اہلکاروں ، انٹیلی جنس اور نجی امریکی سیکورٹی تنظیموں کو ملک بدر کرنے کے لئے حرکت میں آنا چاہیے۔ اور ہمارے قبائلی عوام کو اپنے درمیان موجود ان فساد پھیلانے والے عناصر کو نکال دینا چاہیے جو افواج پاکستان پر حملے کرنے کی دعوت دیتے ہیں بلکہ انہیں افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ طلب کرنی چاہیے۔
ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری افواج اور قبائلی جنگجو اپنے گولہ بارود کا رخ امریکہ کی جانب موڑ دیں جوحملوں کی منصوبہ بندی، سرمائے اور جدید ترین گولہ بارود کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے جس کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے فوجی و شہری تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں۔جب تک ہماری سرزمین پر امریکہ موجود رہے گا ہم کبھی بھی اس بھیانک جنگ کا خاتمہ ہوتے نہیں دیکھ سکیں گے چاہے ہم اس سے بھی زیادہ نقصان ہی کیوں نہ اٹھا لیں جتنا کہ پہلے ہی اٹھا چکے ہیں۔ اور یقین رکھیں کہ خلافت کی واپسی پر ، جس کا قیام انشاء اللہ قریب ہے، ہماری افواج اور قبائلی جنگجوؤں دونوں کو بغیر کسی تاخیر کے خطے سے امریکی موجودگی کے خاتمے کے لئے حرکت میں لایا جائے گا۔ اور ان کا حرکت میں آنا کافر امریکہ کو خوف سے کپکپانے پر مجبور کردے گا اور اس امت کے خلاف ان کی ناپاک خواہشات کو ان کے منہ پر دے مارے گا۔
ہم افواج پاکستان میں موجود اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خطے میں امریکی موجودگی کے خاتمے کے لئے حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں جو امریکہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا اور خلافت اس امت پر مسلط ہونے والی تذلیل اور شکست کے دور کو عزت، طاقت اور شہرت کے دور سے بدل دے گی۔انشاء اللہ
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
"عزت تو صرف اللہ تعالٰی کے لئے اور اس کے رسولﷺ کے لئے اور ایمان والوں کے لئے ہے لیکن یہ منافق نہیں جانتے " (المنافقون: 8)

Read more...

قومی اسمبلی نے امریکی کالے قانون کو منظور کیا ہے تحفظ پاکستان بِل امریکی راج کو تحفظ فراہم کرے گا

کل رات ،پیر ، 7اپریل 2014 کو راحیل۔نواز حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی عددی برتری کو استعمال کرتے ہوئے "تحفظ پاکستان بِل" کے نام پر ایک کالے قانون کو منظور کرلیا۔ یہ قانون مبینہ ملزمان کو دیکھتے ہی گولی مارنے، 90 دن تک بغیر کسی عدالتی کاروائی کے قید اور قید کی جگہ کو خفیہ رکھنے کے غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے۔ کیا پاکستان کو تحفظ فراہم کرنے کا یہ طریقہ ہے؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اِن طریقوں کو پچھلے تیرہ سالوں سے استعمال کررہے ہیں۔ یہ قانون دہشت گردی کےخلاف لڑنے کے لئے نہیں بنایا گیا کیونکہ اس بِل میں جتنی بھی تجاویز دیں گئی ہیں وہ تمام کی تمام نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی شروعات سے استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر راحیل۔نواز حکومت دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا خاتمہ کرچکی ہوتی جو دہشت گردی کی اصل وجہ ہے۔ درحقیقت یہ قانون اُن لوگوں کی زبانوں کو تالا لگانے کے لئے بنایا گیا ہے جو ملک سے امریکی راج کے خاتمے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کے دین کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اس قسم کےقوانین کا مقصدامریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اورامریکہ مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان قوانین کو نافذ کرواتا ہے۔ 1970 سے امریکہ نے اپنی مرضی کے مطابق داخلی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کی تعریف کا تعین کیا ہے۔ کمیونزم کے خاتمے کے بعد جب سے امریکہ نے اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے، وہ دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مسلم ممالک میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے اور انہیں اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اسلامی تحریکوں کو امریکہ دہشت گرد قرار دیتا ہے یہاں تک کہ ان سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کو بھی دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے عسکری یا مادی جدوجہد نہیں کرتیں۔ لہٰذا امریکہ ہر اس جماعت، تحریک یا ریاست کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اسلام کی واپسی کی جدوجہد کرتیں ہیں اور اُن کی اِس جدوجہد کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ اس جواز کو استعمال کر کے اور ان ریاستوں کو مجبور کر کے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف قوانین اختیار کررکھے ہوتے ہیں ،امریکہ اس قابل ہوتا ہے کہ مسلم ممالک کی افواج کواپنی قیادت میں حرکت میں لائے اور اِن جماعتوں، تحریکوں اور ریاستوں کی قیادت کو نشانہ بنائے۔
اس امریکی راج کے قانون کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اسلام کے خلاف امریکی صلیبی جنگ کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔ قانون بنانے کی طاقت اور عددی اکثریت کے زور پر ان غیر انسانی اعمال کو قوانین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ یہ ہے انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی حشرانگیزیاں کیونکہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت ، ایک دستخط سے حرام کو حلال قرار دیا جاسکتا ہے۔
اب میڈیا اور دوسرے شعبوں میں موجود اُن مسلمانوں پر یہ لازم ہے جو خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں یا اس کی حمائت کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کی حقیقت کو اسلامی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے سامنے بے نقاب کریں۔ وہ لازمی اِس امریکی پالیسی کو آشکار کریں کہ امریکہ اِن قوانین کے ذریعے دنیا پراپنی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور یہ کہ دنیا بھر میں ہونے والے بم دھماکوں اور حملوں کے پیچھے کسی مسلم فرد، جماعت یا ریاست کا ہاتھ نہیں بلکہ درحقیقت امریکہ کااپناہی ہاتھ ہوتا ہے۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

نوید بٹ کو رہا کرو مہم حزب التحریر نے نوید بٹ کو رہا کرو مہم کے تحت ایس۔ایم۔ایس جاری کردیا

حزب التحریر ولایہ پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل ایس۔ایم۔ایس کو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ، جو 11 مئی 2012 سے حکومتی ایجنسیوں کے غنڈوں کی تحویل میں ہیں، کی حمائت میں ہر اس شخص کو بھیجیں جنہیں وہ جانتے ہیں ۔
"میں اللہ کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان میں خلافت کے عظیم داعی ،نوید بٹ کے اصولی اور بہادرانہ موقف کی حمائت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں ان کی دو سالہ طویل جبری گمشدگی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ برائے مہربانی اس پیغام کو اپنے دوستوں کو بھیجیں۔ اللہ تعالٰی بہت جلد امت کو خلافت عطا فرمائے"۔

 

Read more...

وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيد یہ لوگ اُن ایمان والوں سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے یہ کہ وہ اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پرایمان لائے تھے (البروج: 8)


نوید بٹ، ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے مشہور و معروف اور انتہائی قابلِ احترام ترجمان ، جنہیں آج سے دو سال قبل 11 مئی 2012ءکو اغوا کیا گیا تھا، آج تک حکومتی غنڈوں کے قبضے میں ہیں۔ نوید بٹ کا مسلمانوں کے خلاف کافر استعماری طاقتوں کی سازشوں کو مسلسل بے نقاب کرنا اور اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کے نقشے کو واضح طور پر پیش کرنا سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو سخت ناپسند تھا اگرچہ اسلام کی یہ حکمرانی مسلم دنیا کے لئے بالخصوص اور پوری دنیا کے لئے بالعموم خیرو بھلائی کا باعث بنے گی۔ یہ غدار اپنے استعماری آقاؤں کی پالیسیوں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے نوید بٹ کو خاموش کرنے کے لئے حرکت میں آئے، وہ استعماری آقا کہ جنہوں نےشام سے لے کر ازبکستان تک خلافت کی دعوت کے خلاف جنگ برپا کر رکھی ہے۔ پس ان ظالموں نے اسلام کے خلاف اپنے متعددجرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا اور نوید بٹ کا پیچھا کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اِن کے غنڈوں نے نوید بٹ کو اُن کے بچوں کے سامنے اغوا کرلیا۔ اور آج کے دن تک ان غداروں نے صرف نوید بٹ کو ہی اپنے قید خانے میں قید نہیں کر رکھا ہے بلکہ انہوں نے حزب التحریر کے شباب کے خلاف ظلم و جبر کی مہم برپا کر رکھی ہے۔ یقیناً خلافت کی دعوت ان کی آنکھوں میں اس قدر کھٹکتی ہے کہ وہ اپنے غنڈوں کو ہر اس جگہ بھیجتے ہیں جہاں حزب التحریر کے شباب عوام سے مخاطب ہوں یا عوام کے درمیان پمفلٹ تقسیم کر رہے ہوں خواہ یہ چند منٹوں کے لیے ہی ہو۔
اے پاکستان کے مسلمانو! ہمیں انشاء اللہ نوید بٹ کے لئے کوئی افسوس یا رنج یا مایوسی نہیں ہے کیونکہ وہ خیر کی دعوت کی راہ کے مسافر ہیں، وہ راہ کہ جس پراس سے قبل انبیاء علیہ السلام ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کی پیروی کرنے والے صالحین نے چل کر دکھایا اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو صبر و استقامت سے برداشت کیا۔ نوید بٹ کے اپنے بیوی بچوں اور خاندان سے لمبی جدائی بھی کسی افسوس یا رنج کا مقام نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ قیامت کے دن نیکو کاروں کو ان کے خاندان والوں کے ساتھ ملادے گا، اس دنیا کی مختصر زندگی کی طرح نہیں بلکہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، ایک ایسا ملاپ کہ جس کے بعد پھر کبھی کوئی جدائی نہیں ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ جَنّٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ءَابَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ﴾ "ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ داداؤں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ نہ ہی یہ ظلم و جبر ان لوگوں کے لیے کسی رنج یا افسوس کا باعث ہے جو اسلام کی دعوت کے علمبردار ہیں کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انشاء اللہ کامیابی قریب ہے۔ یقیناً آزمائش وہ بھٹی ہے جس سے گزر نے سے اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قرب اور رضا نصیب ہوتی ہے اور اس کی مدد اور کامیابی حاصل ہوتی ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشادہے: ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِيْنَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ﴾ "کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ:214)۔
ہاں یقیناً رنج و غم اور افسوس ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کر کے اللہ کے حضور اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں، بلکہ افسوس اور حسرت تو ان جابروں کے حصے میں آئے گی جو اسلامی دعوت کے عَلمبرداروں کی جانب سے پہنچائی گئی دعوت کو مسترد کرتے ہیں اور ان پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾ "بے شک جن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ستایا پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اوران کے لئے جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10)۔ اور رنج و افسوس ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم ڈھانے کے احکامات جاری کرتے ہیں، اوررنج و افسوس ان غنڈوں کے لئے ہے جو ان جابروں کے بازو، آنکھیں اور کان بنے ہوئے ہیں اور ان کے احکامات کو نافذ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اطاعت نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ﴾ "اور(جہنمی) کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی بات مانی جنہوں نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 67)۔
اے افواج پاکستان! اسلامی دعوت کے عَلمبرداروں کا اغوا اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد آج پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا محض ایک جرم ہے۔ لیکن بے شک وہ ہر طرح کے سنگین جرائم سر انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ملکِ پاکستان کو دشمنوں کی چراگاہ بنا رکھا ہے اور اس کے لوگوں کو غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ جب تک یہ ظلم یعنی کافر دشمنوں کی اطاعت اور کفر کے نفاذ کا سلسلہ جاری رہے گا، ہم ذلت، مایوسی، فتنے اور سزا سے ہی دوچار رہیں گے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ "اور ڈرو ایسے وبال سے کہ جو خاص کر تم میں سے ظالموں پر ہی واقع نہ ہوگا (بلکہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے)، اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (الانفال: 25)۔ اوررسول اللہﷺ نے فرمایا: ﴿إنَّ النَّاسَ إَذا رَأوُا الظَّالِمَ فَلمْ يَأْخُذُوا عَلى يَدَيْهِ أوْشَكَ أن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقَاب﴾ "اگر لوگ ایک ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا دے" (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔
اگر آج یہ ظلم وجبر جاری و ساری ہے تو یہ آپ کی گردن پر ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں آپ ہی اہلِ نُصرۃ یعنی عسکری مدد فراہم کرنے کے اہل ہیں، اورآپ یہ قوت رکھتے ہیں کہ کفریہ حکمرانی کا خاتمہ کرکے اسلام کی حکمرانی کو بحال کردیں۔یقیناً آپ کے اسلاف آپ ہی کی مانند میدانِ جنگ کے شہسوار تھے کہ جن کی مادی مدد سے رسول اللہﷺ نے کفر کی حکمرانی کواُس مادی سہارے سے محروم کردیا تھا کہ جس پر وہ کھڑی تھی۔رسول اللہﷺ ایک مضبوط مادی قوت کی تلاش میں تھے اور قبیلوں سے واضح طور پر پوچھتے تھے ﴿﴿و هل عند قومك منعة؟﴾﴾ "کیا تمھارے لوگوں میں طاقت ہے؟" آپﷺ نے ان لوگوں کی مدد کو مسترد کردیا جو اسلام کو اس کے دشمنوں سے تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تھے۔ پس رسول اللہﷺ کئی قبائل سے ملے جن میں بنو کلب، بنی عامر بن صعصہ، بنو کندہ اور بنو شیبان وغیرہ شامل تھے۔رسول اللہﷺ اس طریقہ کار پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انصارِ مدینہﷺ کے ذریعے آپ کو نُصرۃ کے معاملے میں کامیابی عطا کردی۔ انصار کا یہ گروہ جنگی صلاحیت کے حامل گروہوں میں سے ایک چھوٹا لیکن بہادر اور مخلص افراد کا گروہ تھا۔ اوریوں سیرتِ نبوی کے ذریعے اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے نُصرۃ کے شرعی حکم کاتعین ہو گیا اور اس کے نتیجےمیں منتشرا ورتقسیم شدہ یثرب اسلام کے طاقتور قلعے مدینہ منورہ میں تبدیل ہو گیا۔
اے افواج پاکستان! نوید بٹ کی طرح کے افراد نہ تو کوئی حیران کن بات ہے اور نہ ہی کوئی یکتا مثال، کیونکہ یہ سرزمین ایسے بہادر لوگوں سے بھری پڑی ہے کہ جن کا ایمان انہیں کفر کے سامنے دلیری دکھانے اورڈٹ جانے کی طرف ابھارتا ہے۔ اس خطے کے لوگوں نے خلافتِ راشدہ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ اس وقت سےہم مسلمان ہونے کے ناطے اسلام کے لئے اپنا خون پسینہ بہاتے رہے ہیں۔ ہم مسلمان کفار کی افواج کو شکست سے دوچار کرتے رہے ہیں اور کئی سو سال تک اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ یہ برِصغیر اپنی خوشحالی کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ ہم نے اس سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کیا اور دو سو سال تک کفر یہ برطانوی راج کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے رہے۔ ہم نے برطانوی افواج کو اس سرزمین کو چھوڑنے پر اس طرح مجبور کیا کہ انہوں نے دوبارہ واپس آنے کی ہمت نہیں کی اور پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آگیا۔ مسلم انڈیا کی تقسیم کے دوران ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی اور یہ قربانیاں ہمارے لیے ہرگز رنج اور افسوس کا باعث نہیں ہیں ۔
اسلام آج بھی ہماری رگوں میں دوڑتا ہے ، یہ ہماری زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے اور ہم اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اور آج، اس موقع پر، اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کا طریقہ کار نصرۃ کے حامل افراد سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے نُصرۃ فراہم کریں اور آپ میں سے ہر شخص نُصرۃ فراہم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ سو تم راحیل ۔نواز حکومت کی صفوں میں موجود ان لوگوں کی دنیاوی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کو برباد کرنے سے بچو کہ جواُس حلف سے پِھر چکے ہیں جو انہوں نے اٹھایا تھا اور تمھاری قیادت کو آلودہ کررہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے خلافت کے دوبارہ قیام کے لئےحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرو، جوفقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت تلے سرگرمِ عمل ہے۔ وہ لوگ جو اب تک اس مقصد کے لئے آگے نہیں بڑھے، انہیں اب لازماً آگے آنا چاہیے کیونکہ خلافت کے قیام کا کام اپنے ابتدائی مرحلے میں نہیں بلکہ آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھو اور اس بات کو جان لو کہ ہم پر کوئی بھی مشکل اور تکلیف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہیں آتی اور مؤمن اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرا کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ "کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ جبکہ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو" (التوبۃ: 13)۔

Read more...

سوال کا جواب: اوباما کا سعودی عرب کا دورہ اور شام پر اس کے اثرات

سوال: 8/3/2014 کو الحیات ویب سائٹ نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے ایک خبر شائع کی کہ: "فری سیرین آرمی کی سپریم ملٹری کونسل نے میجر جنرل سلیم ادریس کی جگہ بریگیڈئر عبد الالٰہ البشیر النعیمی کو چیف آف سٹاف مقرر کر لیا ....." یہ "سپریم ملٹری کونسل کے ڈھانچے کو مکمل کرنے" کے ضمن میں کیا گیا.....اس تکمیل میں سٹاف کے دوسرے ممبران کی تقرری بھی شامل ہے.....ان واقعات کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی منظر عام پر آگئی کہ ترکی نے قومی کونسل دفاتر بند کر دیا اور ان کے قاہرہ منتقل ہو نے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ: کیا ان تبدیلیوں اور منظر عام پر آنے والی ان خبروں کا اس ماہ کے آخر میں اوباما کے خطے خاص طور پر سعودی عرب کے دورے کے ساتھ کوئی تعلق ہے کیونکہ سعودی عرب کا شام میں لڑائی کے محاذوں خصوصا جنوبی محاذ میں کردار ہے؟ان دفاتر کو بند کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: یقیناً اوباما کی جانب سے اس مہینے کے آخرمیں سعودیہ کے دورہ اور میجر جنرل سلیم ادریس کو برطرف کر کے بریگیڈئر عبد الالٰہ البشیر کو سپریم ملٹری کونسل کے چیف آف سٹاف مقرر کر کے اس کے ڈھانچے کو مکمل کرنا دونوں شام کے لیے امریکی پالیسی کے دوایسے راستے ہیں جو آخر کار یکجا ہو جاتے ہیں لیکن تفصیل میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہر ایک کے مخصوص اغراض ومقاصد ہیں اس کی وضاحت ہم اس طرح کریں گے:
اوّلاً: اوباما کی جانب سے اس ماہ کے آخر میں خطے بالخصوص سعودی عرب کے دورے کے حوالے سے:
1۔ امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ آئی آئی پی ڈیجیٹل نے 21/1/2014 کو ایک بیان شائع کیا جس کو وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری کے آفس نے جاری کیا تھا،جس میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما 24، 25 مارچ کو ایٹمی مواد کی سکیورٹی کی ضمانت کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت اور ایٹمی دہشت گردی کو روکنے کے لیے مستقبل کے اقدامات پر بحث کر نے کے لیے ایٹمی امن سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ہالینڈ میں ہوں گے.....جس کے فوراً بعد 26 مارچ کو امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز جائیں گے.....27 مارچ کو پوپ فرانسیس سے ملاقات کے لیے ویٹیکن کا دورہ کریں گے.....اٹلی کے صدر اور وزیر اعظم سے بھی ملاقات کریں گے.....3/2/2014 کو یعنی دس دن کے بعد وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ: "دونوں ملکوں کے درمیان انتظامی مشاورت کے حصے کے طور پر صدر اوباما مارچ میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے جس میں دوممالک کے مابین قائم مضبوط تعلقات پر تبادلۂخیال اور خلیج کی سکیورٹی، علاقائی امن اور مشرق وسطیٰ کی سلامتی سے متعلق مشترکہ مفادات ، انتہا پسندی اور تشدد کی سرکوبی اور ترقی اور امن کے فروع سے متعلق معاملات زیر بحث آئیں گے،صدر کا سعودیہ کا دورہ اس کے یورپ کے دورے جس میں ہالینڈ،بلجیم اور اٹلی شامل ہیں کے بعد ہو گا "۔(آئی آئی پی ڈیجیٹل ویب سائٹ امریکی وزارت خارجہ 3/2/2014 )۔
اس سے یہ واضح ہو گیا کہ سعودیہ کا دورہ اس ماہ کے آخر میں یعنی 27/3/2014 کو اٹلی کے دورے کے بعد ہو گا۔
2۔ سی این این سائٹ نے 3/2/2014 کو یہ خبردی کہ ان کو یہ رپورٹ ملی ہے کہ "امریکی صدر مارچ میں سعودی فرمانروا کے ساتھ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حال ہی طے پانے والے معاہدے کے بارے میں واشنگٹن اور ریاض کے درمیان اختلافات پر بات چیت کریں گے"سائٹ نے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا یہ بیان شائع کیا: "ہمارے درمیان نقطہ نظر کا جس قدر بھی اختلاف ہو لیکن اس سے کسی چیز میں تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ہمارا اشتراک بہت ہی اہم اور اعتماد سے بھر پور ہے"۔
واشنگٹن پوسٹ نے 3 فروری کو یہ خبر نشر کی کہ وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ: "سعودی عرب امریکہ کا دوست ہے ہمارے درمیان وسیع اور گہرے دوطرفہ تعلقات ہیں جو ہمہ گیر ہیں، صدر کو اس دورے کا شدت سے انتظار ہے، ملاقات میں تمام مسائل پر بحث کی جائے گی .....ہمارے درمیان اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو لیکن یہ اس حقیقت کو ذرا برابر بھی تبدیل نہیں کر سکتے کہ یہ اشتراک اہم اور اعتماد سے بھر پور ہے"۔
امریکی اخبار (وال سٹریٹ جرنل) نے 1/2/2014 کو خبر شائع کی کہ امریکی صدر باراک اوباما رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں وہ سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشرق وسطیٰٰ کے خطے کے لیے امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں خاص طور پر ایرانی ایٹمی پروگرام اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے بگڑتے تعلقات کو معمول پر لانے کو شش کریں گے، سائٹ نے ایک عرب عہدہ دار کے حوالے سے کہا کہ یہ سربراہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس کا مقصد امریکہ اور سعودی عرب کی پالیسیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اس نے مزید کہا کہ (اس کا مقصد بگڑتے تعلقات اور بے اعتمادی کو ختم کرنا ہے)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے کہ جس نے امریکہ کو اوباما کی جانب سے تین یورپی ملکوں کے اس مقررہ دورے، جس کا اعلان دس دن پہلے کیا گیا تھا، میں اسے شامل کرنے پر مجبور کیا !اس کو سمجھنے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ہم یہ پیش کرتے ہیں:
ا۔ 24 /11/2013 کو امریکہ اور ایران کے درمیان اس ایٹمی معاہدے، جس نے خطے میں ایران کا ہاتھ کھول دیا، کےبعد امریکہ اور ایران کے درمیان قربت، پھر شام میں رونما ہو نے والے واقعات میں امریکہ کے مؤقف جس سے واضح ہو تا ہے کہ وہ بشار کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کر رہا ہے .....اس سب نے خاص کر خطے میں ایران کے ہاتھ آزاد کرنے سے سعودی عرب کو متاثر کر دیا، ایران کے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ وہ ہر ملک میں اس مسلکی پہلو کو استعمال کرتا ہے جس کا اس سے تعلق ہو اور وہاں افراتفری کو ہوا دیتا ہے،سعودی عرب نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے جو کچھ بحرین،عراق،شام، لبنان اور یمن میں ہو رہا ہے.....وہ سعودیہ کے مشرقی علاقوں میں ایران کی حرکات وسکنات سے بھی پریشان ہے جو ان کی حکومت کے لیے امن آمان کا مسئلہ پیدا کررہی ہیں.....اس سب کی وجہ سے سعودی عرب نے بین الاقوامی برادری کے اقدامات سے ناراض ہو کر احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی نشست لینے سے انکار کر دیا، ظاہر ہے بین الاقوامی بردری سے ان کی مراد امریکہ ہی ہے۔یہ ان بیانات کے علاوہ ہیں جن میں بعض سعودی عہدیداروں کی جانب سے امریکی مؤقف پر تنقید بھی کی گئی.....
ب۔ سعودیہ شام کےجنوبی علاقوں میں انقلابیوں کو جو اسلحہ فراہم کر رہا ہے یعنی اردن کے راستے اور خاص کر وہ کھیپ جو شام کے جنوبی علاقوں کے انقلابیوں کے لیے اسلحے کی فراہمی پر نگران اردن میں امریکی چیک پوسٹوں کو بائی پاس کرتے ہیں یہ کھیپ امریکہ کو پریشان کر رہی ہیں .....فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے 28/10/2013 کو صحافی جارجز مالبرونو کی ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق (ہر ہفتے 15 ٹن اسلحہ فری سیریئن آرمی کے اسلحے کے گوداموں میں پہنچ جاتا ہے، اس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ سعودی سرمائے سے اسلحہ یوکرائن اور بلغاریا کہ بلیک مارکیٹوں میں خریدا جاتا ہے پھر سعود جہازوں کے ذریعے اس کو جنوبی اردن کے ہوائی اڈوں پر پہنچا یا جاتا ہے) اس رپورٹ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ (روان سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران چھ سو ٹن اسلحہ (شامی صدر بشار) اسد کےمخالفین کو اردن کے راستے پہنچایا گیا).....السفیر میگزین نے 21/2/2014 کو یہ خبر شائع کی کہ (.....گزشتہ 29 جنوری کو اسلحے سے لدے ہوئے تین سعودی ملٹری کارگو طیارے اترے ہیں، اس اسلحہ میں لاو راکٹ، ذرائع موصلات کے آلات، ٹینک شکن راکٹ، ہلکا اسلحہ اور بکتربند گاڑیاں شامل ہیں.....عرب ذرائع نے کہا ہے کہ امریکہ اب بھی شامی مسلح اپوزیشن کو چائنا ساختہ میزائل اور جدید اسلحہ فراہم کرنے میں تردد کا شکار ہیں.....) یہ بھی کہا کہ: (عرب اور مغربی متضاد سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ الغوطہ الشرقیہ کے معرکے کے دوران اور اس کے بعد کے ہفتوں میں سعودیوں نے المفرق ائرپورٹ کے ذریعے اسلحے کی بھاری کھیپ منتقل کر دی جس میں سے کچھ یوکرائن میں خریدا گیا تھا، ہر ہفتے 15 ٹن اسلحہ لے کر قافلے اردنی شامی سرحد سے صحرائی گزرگاہوں کے ذریعے ان مراکز تک پہنچے جن کی تعداد 15 سے زیادہ ہے جو الغوطہ الشرقیہ کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں) اسلحے کے پہنچنے کے حوالے سے 6/2/2014 کو 'السفیر' میں نشر ہو نے والی یہ خبر بھی دلالت کر تی ہے کہ "درعا کے اکثر مسلح گروپ کل اکھٹے ہوئے اور "فرقۃ الیرموک" کے جھنڈے تلے اکٹھےہونے کا اقرار کیا جس میں اس وقت 14 مختلف بریگیڈ اور بٹالین شامل تھیں جن میں سے نمایاں ترین 'درع الجنوب'، 'البراء بن مالک' اور ' کتیبۃ المدرعات' ہیں"، مزید یہ کہ: "مسلح گروپوں کی یہ وحدت جنوبی شام میں شروع کی جانے والی ایک لڑائی کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئی جس کو"حوران کے جنیوا" کا نام دیا گیا، جس کی قیادت پانچ آپریشن رومز کر رہے تھے جو پورے درعا صوبے میں پھیلے ہوئے تھے".....
اس سب نے امریکہ کو پریشان کر دیا کیونکہ اس کے ذریعے جنوبی محاذ کے بعض انقلابیوں کا اس کی حلقۂ اثر سے نکلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا، خاص کر چونکہ سعودیہ میں ایسی قوتیں ہیں جو انگریز کے پیروکار ہیں اور اس کے نقش قدم پر چل کر امریکی منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں جو کہ انگریز کی پالیسی میں معروف ہے.....اس سب نے شام کے جنوبی محاذ میں سعودی سرگرمیوں سے امریکہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا.....اگر چہ امریکہ 13 دسمبر 2013 کو شام کے جنوب میں سعودی سرگرمیوں کے رد عمل میں جنوب میں فری سیرئن آرمی کے ماتحت شامی انقلابیوں کا محاذ قائم کر چکا ہے، تاہم امریکہ جنوب میں سعودی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے خاص کر ان سرگرمیوں کو جواردن میں امریکی نگرانی کو بائی پاس کرتی ہیں۔
ج۔ پھر ایک اور عامل بھی ہے؛ اگرچہ آل سعود کی قیادت اس وقت برطانوی وفادار عبد اللہ اور اس کے معاونین کے پاس ہے لیکن ان کی صفوں میں امریکہ کے وفادار بھی ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اقتدار تک پہنچانے اور حکومت کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کے طور پر، جیسا کہ فہد کے دور میں تھا، سعودیہ کے ساتھ دشمنی کا اظہار نہ کرے۔ ساتھ شاہی خاندان میں امریکی کارندے امریکہ کے ساتھ تعلقات سنوارنے کا اہتمام بھی کر رہے ہیں.....
3۔ یو ں فریقین اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں! اب دو نوں طرف سے یہ چاہتیں اس ماہ کے آخر میں اوباما کے متوقع دورے کی تمہید کے طور پر عملی اقدامات کی شکل اختیار کر چکے ہیں ، طرفین نے کے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
ا۔ سعودی عر ب نے "ملک سے باہر جا کر لڑنے والوں اور انتہا پسند گروہوں سےتعلق رکھنے والوں کو سزادینے کےقانون " کا اجراء کیا، (الاقتصادیہ 3/2/2014)، ظاہری بات ہے کہ اس سے مقصود شام کی لڑائی ہے، اس قانون کا اجراء 3/2/2014 یعنی اوباماکی جانب سے سعودیہ کو بھی اپنے دورے کی ترتیب میں شامل کر نے کے ساتھ ہوا جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے! یہ سب امریکہ کو خوش کرنے کے لیے تھا.....اس کے ساتھ ساتھ شہزادہ محمد بن نایف (وزیرداخلہ) نے امریکی سی آئی اے اور واشنگٹن کی دوسری انٹلیجنس ایجنسیوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کی اور کئی مسائل، جن میں شام کا مسئلہ بھی شامل ہے، کے بارے میں گفت وشنید کی.....الرویہ نیوز نیٹ ورک نے 24/2/2014 کو خبر دی کہ: (نیشنل سکیورٹی کی مشیر سوزان رائس اور داخلی سکیورٹی کی مشیر لیزا موناکو نے گزشتہ بدھ سعودیہ کے وزیرداخلہ شہزادہ محمد بن نایف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہائیڈن نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تینوں عہدہ داروں نے "علاقائی مسائل پر تبادلۂخیال کیا اور مشترکہ مفادات کے کئی معاملات میں باہمی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا"۔
ب۔ امریکہ نے حالیہ مہینوں میں کیری کو دوبارہ بھیجا: نومبر 2013 اور جنوری 2014 میں یہ دورے ایران اور شام سے متعلق امریکی پالیسی کے حوالے سے سعودی عہدہ داروں کو مطمئن کرنے کے لیے تھے۔کیری نے امریکہ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ کیری نے میٹنگ سے تھوڑی دیر پہلے ہی کہا کہ سعودیہ خطے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے (بی بی سی ترکی 6/11/2013 )۔
4۔ پھر اوباما کی جانب سے سعودیہ کا دورہ جو کہ باہمی صلح کی اعلی سطحی کوشش کرنا، فریقین کے درمیان ناراضگی کو کم کرنے اور آل سعود کو ان کی کرسی، کہ جس کے حوالے سےوہ خوفزدہ ہیں، کے بارے میں مطمئن کرنا ہے۔ اس کرسی کے علاوہ ان کو کسی چیز کی فکر نہیں۔ صرف یہی چیز ہے جس کے لیے ان کو تشویش لاحق ہےورنہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہےاس سے ان کو کوئی پریشانی نہیں سوائے اس کے کہ کہیں اس کی بازگشت ان کی کرسی تو تہہ وبالا نہ کر دےگی۔ اسی وجہ سے وہ اہل شام کی مدد نہیں کرتے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ امریکہ جنیو -1 اور جنیو -2 کانفرنسوں میں جن کی آل سعود نے حمایت کی تھی شامی حکومت کے مسئلے کو حل کر دے تاکہ وہ شامی انقلاب کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ ہاں ان کی جانب سے یہ اہتمام اپنے تخت وتاج کو بچانے کے لیے ہے شام کے مسلمانوں کی مدد یا ان کے بہتے ہوئے خون کو روکنے کے لیے نہیں.....
یوں یہ دورہ سعودیہ کے ساتھ اختلافات کو کم کرنے اور ان کے سامنے یہ واضح کرنے کے لیے ہے کہ ایران کے ساتھ اس کی قربت یا شام کے بارے میں اس کا مؤقف سعودی حکومت کو پریشان کرنے کے لیے نہیں، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ آل سعود کے لیے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت متاثر نہ ہو، ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہی چیز ان کے لیے اہم ہے۔ یہ ان کے لیے شام کے زخمیوں یا مقتولین کی تعداد سے زیادہ اہم ہے.....
اس بات کا امکان ہے کہ اوباما خطے کے اپنے دورے کے دوران دوسرے علاقوں کا بھی دورہ کرے گا مگر توقع یہی ہے کہ سعودی عرب کا یہ دورہ ہی اس کا اہم سنگ میل ہے.....اوباما سعودی حکمرانوں کو باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ ان کی کرسیاں محفوظ ہیں اور ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات سعودی حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ نام نہاد "دہشت گردی" کے خلاف ہیں، وہ اس حوالے سے سعودیوں کو لڑائی کے لیے شام جانے سے روکنے کے فیصلوں پر سعودی اقدامات کی تعریف کرے گا.....
ثانیاً: جہاں تک سلیم ادریس کی برطرفی اور بعض دفتاتر کو بند کر کے ان کو قاہرہ منتقل کرنے کے موضوع کا تعلق ہے تو معاملہ کچھ یوں لگ رہا ہے:
1۔ 7/12/2012 کو 250 تا 260 عسکری قائدین اور مسلح شامی اپوزیشن کا اجتماع ہوا اس اجتماع میں مغربی اور عرب سکیورٹی عہدیداروں نے شرکت کی جس میں متحرک کردار امریکہ کا تھا،یہاں فری سیرین آرمی کے لیے نئی ملٹری کونسل کا انتخاب کیا گیا جو تین عسکری قائدین پر مشتمل تھی جس میں بریگیڈئر سلیم ادریس کو فری سیرین آرمی کا نیاسربراہ منتخب کیا گیا اور یوں وہ سپریم ملٹری کونسل (SMC) کا سربراہ بن گیا (ایسوسی ایٹڈ پریس 7 دسمبر 2012)۔
2۔ 7/5/2013 کو واشنگٹن پوسٹ نے خبر شائع کی کہ "باراک اوباما کی قیادت میں امریکی انتظامیہ سلیم ادریس پر اعتماد کرتی ہے"۔ اخبار نے کہا کہ: "یہی امریکہ کی نئی پالیسی میں سنگ بنیاد ہے اس کا ذمہ دارانہ مؤقف اور اعتدال پسندی ہی انتظامیہ کےاس پر اعتماد کرنے کا محرک ہے"۔ اخبار نے کہا کہ: "اس (سلیم ادریس) نے صدر اوباما کو خط لکھا جس میں اس نے شام میں مداخلت نہ کرنے کے بارے میں امریکہ کے مؤقف کو سمجھنے کا اظہار کیا اور مالی، انٹلیجنس اور تربیتی مدد کا مطالبہ، ساتھ ہی جہادی جماعتوں کا سامنا کرنے کے لئے اپنی تیاری کا عندیہ دیا" اس حال میں ان کے علم بلکہ اشارے کے بغیر سلیم کو برطرف کرنا ممکن نہیں کیونکہ اسی نے اس کا تقرر کیا تھا، وہی اس پر اعتماد کر تھا اور اسی نے قومی کونسل کی طرح ملٹری کونسل بنائی ہے۔
3 ۔ سلیم ادریس انقلابیوں کے محاذوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہی کوشش کے باوجود وہ کسی اندرونی محاذ کو اپنی طرف کر سکا، بلکہ وہ تو فری سیرین آرمی کے جنگجوؤں اور بعض بریگیڈز کو اسلامی جنگجووں میں شامل ہونے سے بھی نہیں روک سکا، رائٹرز نے 30/9/2013 کو اس شمولیت کے بارے میں کہا کہ: "جنگجو صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مکمل بریگیڈ جو کہ طاقتور تھے ان میں شامل ہوگئے" پھر جس چیز نے امریکہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا وہ اسلامی گروپوں کا دسمبر 2013 میں سرحدی چیک پوسٹوں اور مغرب کی حمایت یافتہ فری سیرین آرمی کے اسلحے کے گوداموں پر قبضہ ہے ..... امریکی میگزین ٹائمزنے نے خبر دی کہ امریکی عہدہ داروں نے تصدیق کی ہے کہ فری سیرین آرمی کا سربراہ سلیم ادریس شام سے بھاگ گیا ہے، امریکی میگزین نے 12/12/2013 کو اپنی ویب سائٹ پر نشر کی جانے والی رپورٹ میں امریکی عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ "ادریس شام سے ترکی بھاگ گیا پھر وہاں سے قطر چلاگیا....." گویا سلیم ادریس کے اقدامات ان کو پسند نہیں آئے۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ امدادی گوداموں پر حملے کے واقع نے ان کو پریشان کر دیا کیونکہ امریکہ نے یہ شرط لگا رکھی تھی کہ یہ ان انقلابیوں کے ہاتھ نہیں لگنے چاہیے جو ان کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے، قومی کونسل کو تسلیم نہیں کر تے اور اس کے منصوبے قبول نہیں کر تے۔
4۔ جہاں تک سلیم ادریس کا تعلق ہے اس کو امریکہ ہی نے مقرر کیا تھا جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے اور اسی پر اعتماد کر تا رہا کہ وہ کچھ قابل ستائش اقدامات کے ذریعے شام کے اندر فری سیرین آرمی کی حیثیت قائم کرے اور کچھ گروپوں کو فری سیرین آرمی میں ضم کر دے.....لیکن اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ وہ شام کے اندر کسی گروپ کو فری سیرین آرمی میں ضم نہیں کر سکا، بلکہ وہ تو خود اس آرمی کو نقصان سے نہیں بچا سکا اور اس کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ ایک بڑی تعداد اس کو چھوڑ کر دوسرے گروپوں میں شامل ہو گئی! پھر جس چیز نے معاملے کو اور پیچیدہ کر دیا وہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے دیے گئے اسلحے کو بھی محفوظ نہیں کر سکا اور اسلحہ گوداموں پر دوسرے گروپوں نے قبضہ کر لیا اسی لیے یہ افواہ پھیل گئی کہ سلیم ادریس قطر بھاگ گیا جس نے امریکہ کو پریشان کر دیا۔ یوں امریکہ سلیم ادریس کے ذریعے شام کے اندر فری سیرین آرمی کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں ناکام ہو گا، امریکہ اسی پر بھروسہ کرتا تھا کیونکہ کونسل میں اس کے آلہ کار بھی باہرتھے۔ وہ یہ گمان کر تا تھا کہ فری سیرین آرمی مؤ ثر آپریشن کے ذریعے اندرونی طور پر اپنا لوہا منوائے گی لیکن امریکہ کی یہ امید خاک میں مل گئی، جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں،اسی وجہ سے وہ ایک ایسا قائدتالاش کرنے لگا جس کی جڑیں نسب کے لحاظ سے کسی قبیلے یا خاندان کی وجہ سے مضبوط ہوں،میدان جنگ میں لڑائی میں بھی اس کی جڑیں پیوست ہوں۔ اسی لیے اس کی نظریں عبد الالٰہ البشیر پر مرکوز ہو گئیں اور اس کو 16/2/2014 کو سلیم ادریس کی جگہ متعین کر دیا اور ملٹری کونسل نے اس بارے میں فیصلہ کردیا، اسی طرح بریگیڈئر ھیثم افصیح کو شمال میں ادلب کے صوبے میں البشیر کے نائب کے طور پر کما ن سونپ دی گئی، امریکہ امید کر تا ہے کہ البشیر جنوب میں اور ھیثم شمال میں دونوں محاذوں کے درمیان نظم ونسق کو بہتر بنانے اور اندرونی طور پر اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نئے تقرر کردہ یہ دونو ں قائدین سیرین انقلابی فرنٹ کے ساتھ پُر اعتماد طریقے سے کام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے قائد جمال معروف ہیں۔ امریکہ جنوبی علاقوں میں البشیر کے تعلقات کو باہر بیٹھی کونسل کے لیے اندر ونی طور پر ایک قوت تشکیل دینے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی جنوب میں سعودی حمایت یافتہ انقلابیوں کو بھی قابو کرنا چاہتا ہے۔
ابتدا میں سلیم ادریس نے انتہائی رد عمل کا مظا ہر کیا اور کونسل کے سربراہ الجربا پر آمر ہو نے کا الزام لگا یا۔ مختلف فرنٹوں اور ملٹری کونسل کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا اور الجربا کو سپریم ملٹری کونسل کے فیصلے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ: "فارمیشن لیڈران اس پر اعتماد نہیں کر تے اور اس پرکرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ اس نے فیصلے پر دستخط کرنے والوں کو رشوت دی ہے" (اے ایف پی 17/2/2014)۔ اگر چہ سب جانتے ہیں کہ الجربا اور جو بھی اس کے ساتھ ہیں وہ امریکہ کی مرضی اور اس کے اشارے کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے.....!
بہر حال اس کے بعد ادریس ٹھنڈے ہو گئے خاص کر 6/3/2014 کو اس خبر کے نشر ہونے کے بعد کہ (سیرین قومی کونسل سربراہ احمد الجربا، پانچوں عسکری قائدین،جنوبی محاذ کے قائدین اور درعا میں انقلابی کونسل کے سربراہ نے اتفاق کر لیا کہ وزیر دفاع اسعد مصطفی کونسل کے سربراہ کو اپنا استعفیٰ پیش کرے گا اور اس کے نائبین کو مستعفی سمجھا جائے گا.....اسی طرح بریگیڈیئر سلیم ادریس بھی سٹاف کے سامنے اپنا استعفی پیش کرے گا اور پھر اس کو کونسل کے سربراہ کے عسکری امور کا مشیر نامزد کیا جائے گا،ساتھ سپریم ملٹری کونسل کے ممبران میں اضافہ کیا جائے گا)۔
پھر اس کے بعد آج بتاریخ 8/3/2014 کو 6/3/2014 کی خبر کی تصدیق ہو گئی جب الحیات ویب سائٹ نے فرانسیسی نیو ز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے 8/3/2014 کو یہ خبر شائع کی تھی کہ: "فری سیرین آرمی کی سپریم ملٹری کونسل نے بریگیڈیر عبد الالٰہ البشیر النعیمی کو میجر جنرل سلیم ادریس کی جگہ چیف آف سٹاف مقرر کر دیا ....."۔
5۔ "فری سیرین آرمی "کے نئے چیف آف سٹاف بریگیڈیرعبد الالہٰ البشیر النعیمی شام کے جنوب مغربی صوبے القنیطرہ کے علاقے الرفید سےتعلق رکھتا ہے، جو کہ گولان کی ان پہاڑیوں کے ساتھ ہے جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ النعیمی قبیلے جو کہ شام کے بڑے قبائل میں سے ہے کے سرداروں میں سے ہے۔ البشیر شامی حکومتی فورسز سے جون 2012 میں منحرف ہو گیا تھا، تب سے وہ القنیطرہ صوبے میں "فری سیرین آرمی" کی تاسیس اور تشکیل نو میں مصروف ہے۔ وہاں آپریشن کی قیادت، اس کے بعد ملٹری کونسل کی سربراہی قبول کرنے تک خود ہی آپریشن فارمیشن کی قیادت کی۔ ان عسکری منصوبوں کو ترتیب دیا جن سے صوبے کے جنوبی مضافات میں اس کی قیادت میں 90 ٪ سے زائدعلاقے پر قبضہ کیا گیا۔ ملٹری کونسل کے فیصلے پر قومی کونسل کے سربراہ احمد الجربا کا یہ بیان سامنے آگیا کہ کونسل "ملٹری کونسل کی جانب سے عبد الالہٰ البشیر کو فری سیرین آرمی کے چیف آف سٹاف اور بریگیڈئر ھیثم افصیح کو ڈپٹی چیف مقرر ہو نے پر خوشی محسوس کر تی ہے" (الجزیرہ- ایجنسیاں)۔
البشیر کی انہی خوبیوں کی وجہ سے کہ وہ جنوب کے ایک قبیلے سے ہےاور عملی طور پر میدان جنگ کا قائد ہے، امریکہ نے اس امید کے ساتھ اس کا تقرر کیا کہ وہ اس کے بیرونی آلہ کاروں کے لیے اندر ونی طور پر جڑیں مضبوط کر ے گا.....لیکن اللہ کے اذن سے اس کی یہ امید بھی خائب و خاسر ہو گی جیسا کہ پہلے بھی ہوئی ۔اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
ثا لثا ً: رہی بات ترکی میں بعض دفاتر کے بند ہو نے اور ان کو قاہرہ منتقل کیے جانے کی.....:
جی ہاں اس حوالے سے خبر ویب سائٹ "کلنا شرکاء" میں 12/2/2014 کو نشر ہوئی، سائٹ پینوراما مشرق وسطیٰ نے بھی 5/2/2014 کو ترکی میں بعض دفاتر کو بند کیے جانے کی طرف اشارہ کیا.....
لیکن ان خبروں کی بعد میں تردید بھی کی گئی جیسا کہ الشرق الاوسط اخبار نے 25/2/2014 کوخبر شائع کی کہ ".....'شامی کونسل'کے ترکی میں نمائندے خالد خوجہ نے 'الشرق الاوسط' سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کردی کہ 'ترک حکومت نے کونسل سے اپنے ہیڈ کواٹر کو قاہرہ منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے' اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا کہ 'کل ہی اسکے اور ترکی وزارت خارجہ کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہو ئی جس میں کہا گیا کہ کونسل کے ارکان کو تر کی میں خوش آمدید کہا جائے گا اور ہم اپنے اس بنیادی مؤقف پر قائم ہیں کہ ہم ایک آمر کے خلاف شامی عوام کی جدوجہد میں ان کی حمایت جاری رکھیں گے' "۔
جیسا کہ پیرس کی روزنہ ویب سائٹ میں 24/2/2014 کو یہ خبر آئی کہ "شامی اپوزیشن کونسل میڈیا ایڈوائزر محترمہ بہیہ ماردینی نے کہا کہ ترک حکومت نے ترکی میں کونسل کے دفاتر بند نہیں کئے، ماردینی نے روزنہ ریڈیو سے خصوصی بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ یہ خبر جنیوا-2 کے انعقاد سے قبل شامی حکومت کی پروپیگنڈہ مہم کے سلسلے میں اس کی زیر اثر ویب سائٹوں کی پھیلائی ہوئی ہے، ماردینی نے وضاحت کی کہ کونسل نے ترکی میں اپنے دفاتر "بر جلی" کے علاقے سے "فلوریا" میں منتقل کر دیاہے۔ یہ منتقلی داعش(ISIS) اور شامی حکومت کی جانب سے دھمکیوں کے اطلاعات کے بعد سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ترکی حکومت نے کی۔ یہی مسائل وہ وجہ ہیں کہ یہ دفاتر پر ہجوم علاقوں سے کم خطرے والے عاقوں میں منتقل کیے گئے"۔
لگتا ہے اس موضوع کے حوالے سے جو کچھ شائع ہوا وہ درست ہے لیکن دفاتر ترکی کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے گئے پھر جان بوجھ کر اتحاد کو تر کی سے نکالے جانے کا شوشہ چھورا گیا تا کہ قومی اتحاد اور قومی کونسل دونوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ دونوں پھر یکجا ہوں ورنہ ان کو ترکی سے قاہرہ منتقل ہونا پڑے گا، ظاہری بات ہے کہ ان کا منتقل ہو نا ان کے لیے ڈراؤنا خواب ہو گا کیونکہ وہ شام سے دور ہوں گے اور پرانے اتحاد کو "دھتکارنے " کے بعد ترکی میں کوئی اور متبادل اتحاد قائم کیا جائے گا اور یہ ان کے لیے بمزلہ موت ہو گا! اس خبر کے آتے ہی قومی کونسل نے قومی اتحاد کے ساتھ یکجا ہونے کا اعلان کر دیا ! فرانس پریس نیوز ایجنسی نے 1/3/2014 کو خبر شائع کی کہ "شامی قومی کونسل کی مشترکہ قیادت نے اپنے 27، 28 فروری کے استنبول اجلاس میں شامی قومی کونسل کے تمام عناصر نے، انقلابیوں اور شامی اپوزیشن کے لئے، قومی اتحاد کی صفوں میں واپس آنے کا عندیہ دیا"۔
رابعاً: آپ کے سوال کے جواب میں ان تین نکات پر مشتمل میری یہی ترجیحی رائے ہے اور ہم نے اس موضوع پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ اگر اس حوالے سے مزید کسی بیان اور وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو ہم انشاء اللہ کریں گے۔ اللہ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔

Read more...

صرف خلافت ہی سندھ کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے

پریس ریلیز
پیر 10 مارچ کو رائیٹرز، بی۔بی۔سی اور میڈیا کے دیگراداروں نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پچھلے چند ماہ کے دوران سیکڑوں بچے قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقامی میڈیا نے اس علاقے میں پچھلے تین ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 140 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پیر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 10ملین ڈالر کی امداد اور خالی وعدوں کا اعلان کیا کہ "لوگ جلد ہی اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوجائیں گے اور خوشحالی اس علاقے میں بھی آئے گی"۔
ایک کے بعد دوسری آنے والی پاکستان کی نااہل اور سیکولر قیادت نے قدرتی آفات کو انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے لوگوں پر آنے والی اس آفت میں کئی گنا اضافہ کی ذمہ دار دہائیوں سے جاری ناکام سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں، وسائل کی نامناسب تنظیم، زراعت کے شعبے میں ضرور ت سے انتہائی کم سرمایہ کاری اور پاکستان کی کرپٹ، اپنی جیبیں بھرنے والی جمہوری اور آمر حکومتیں اور حکمران ہیں ۔ اس علاقے میں صحت کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غربت نے ایسی صورتحال کو پیدا کیا جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو سالوں سے ان کے باقیاجات ادا نہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے ذمہ ٹرانسپورٹروں کے 60 ملین روپے کی ادائیگی واجب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ انسانی المیے سے بچا جاسکتا تھا اگر اس کا سامنا کرنے کی تیاری اور احتیاتی تدابیر اختیار کرلی جاتیں لیکن ایسا اس صورت میں ممکن تھا اگر ملک کے حکمران صاحب بصیرت اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتے۔ لہٰذا ان بچوں کی اموات کی ذمہ داری صرف اور صرف سابقہ اور موجودہ سیکولر حکومتوں اور نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تو بنا دیا لیکن اس کو کام میں نہیں لاتے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ کئی مہینے کے قحط اور سینکڑوں اموات کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے اس بحران کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ کیا متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اداروں کو فوراًپہنچ نہیں جانا چاہیے تھا؟ لیکن اس کی جگہ امت پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو ایک ایسے وقت میں مہنگے اور نفیس ترین کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اس امت کے بچے بھوک سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا سب سے اہم قدرتی خزانہ اس کی قابل کاشت زمین اور پانی ہے اور جو دنیا میں گندم، چاول، دودھ، گنا اور چنے کی پیداوار میں سرفہرست ہے، وہاں پر لوگ غربت اور غذائی قلت کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں۔
صرف خلافت ہی سندھ اور پوری مسلم دنیا کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند اسلام کی حکمرانی میں دنیا میں زراعت کی پیداوار کا انجن تھا اور اس کی معیشت کُل دنیا کی معیشت کا 25فیصد تھی اور ایسا صرف اسلام کے معاشی نظام اور زرعی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ خلافت کی دولت اس قدر وسیع تھی کہ وہ دوسرے ممالک کو قدرتی آفات کی صورت میں امداد فراہم کرتی تھی جیسا کہ انیسویں صدی میں عثمانی خلافت نے تین بہت بڑے بحری جہاز جو غذائی اجناس سے لدے ہوئے تھے، اس وقت آئرلینڈ بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ صرف ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلامی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں امت صحیح معنوں میں خوشحالی کے تصور سے آشنا ہوگی۔ خلافت زرعی زمینوں کو منظم اور انہیں سیراب کرے گی اورمسلم دنیا کے بیش بہا خزانوں کو پوری امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہ دولت چھوٹے سے امیر اشرافیہ کے گروہ کی ملکیت میں نجکاری کے نام پر دے دی جائے یا وہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس کے مخلص حکمران اس ذہنیت کے حامل ہوں گے کہ ان پر عوام کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے جنہوں نے اس وقت جب جزیرۃ العرب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تو مصر کے گورنر امر بن العاص کو حکم جاری کیا کہ دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان ایک نہر کے ذریعے غذائی اجناس جزیرۃ العرب بھیجیں اور کہا کہ "اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مدینہ میں بھی غذائی اجناس کی وہی قیمت ہو جو مصر میں ہے تو دریا اور نہریں تعمیر کرو"۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ "میں ضرور یہ کروں گا اور میں اس میں جلدی کروں گا"۔ لیکن مصر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ اس کے نتیجے میں مصر کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ لکھ کردیا کہ "جلدی کرو، اللہ اس تعمیر میں مصر کو تباہ کردے اور مدینہ کو آباد کردے"۔ اس کے نتیجے میں مصر کی دولت میں اضافہ ہوا اور پھر مدینہ نے کبھی 'راکھ کے سال' جیسا قحط نہیں دیکھا۔ قحط کے دوران جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحت خراب ہونے لگی تو ان سے کہا گیا کہ اپنی صحت کا خیال کریں تو انہوں نے کہا کہ "اگر تکلیف کا مزہ نہیں لوں گا تو میں کس طرح دوسروں کی تکلیف کو جان سکوں گا؟"۔ یہ ہے وہ زبردست قیادت جس کا حق سندھ کے بچے رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر نظرین نواز
رکن مرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی


حزب التحریر /ولایہ پاکستان فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی کوشائع کررہی ہے،جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ خلافت کس طرح اختلاف رائے کے احترام کی فضاء قائم کرے گی اورفرقہ واریت کا خاتمہ کرے گی۔
ا) مقدمہ: جمہوریت معاشروں میں تفریق، گروہ بندی اورتصادم کی سیاست کوپروان چڑھاتی ہے، جمہوری معاشروں میں فرقہ واریت انہی اختلافات کاشاخسانہ ہے۔
جمہوریت ایسانظام حکومت ہے جوریاست کے وسائل اور توجہ کو معاشرے میں موجود گروہوں کی سیاسی قوت کے مطابق تقسیم کرتا ہے۔ وہ گروہ جو زیادہ سیاسی قوت اور وزن رکھتے ہیں وہ ملک میں ہونے والی قانون سازی پر زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں اور نتیجتاً اپنے لیے ریاست سے زیادہ وسائل اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ لہذا جمہوری ریاست میں صرف ان شہریوں کے مفادات اور حقوق کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے،جو ریاست پر اس قدر دباو ڈال سکیں کہ ریاست ان کے مطالبات ماننے پرمجبورہوجائے، یوں نمائندہ جمہوریت کاتصور معاشرے میں پائے جانے والے مختلف گروہوں میں عدم تحفظ کااحساس اُجاگرکرتاہے کہ وہ کس طرح ریاست کی توجہ حاصل کر کے اپنے مطالبات منوا سکیں۔
جمہوری معاشرے میں مقامی سطح پرہم سیاسی قائدین کودیکھتے ہیں جواکثراوقات اپنے لیے اس بات کو فائدہ مند بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرے کے اندر تقسیم کی حوصلہ افزائی کریں اورجس گروہ کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں اس کی مخصوص نسلی یاسیاسی شناخت کواجاگرکریں، تاکہ وہ اپنے گروہ کی مخصوص شناخت برقرار رکھ کر اپنے لئے سیاسی وزن پیداکرسکیں اور ریاست کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکیں۔ یوں جمہوری نظام حکومت معاشرے میں تقسیم اور گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کرتاہے، جہاں مختلف گروہ ریاست کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال ہراس ملک کےاندرواضح دکھائی دیتی ہے جہاں جمہوریت نافذ ہے اور جہاں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں جواپنے مفادات اورحقوق کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی جمہوری سیاست کواختیارکیاجاتاہےجو قومیت، نسل اورمسلکی بنیادوں پرمختلف گروپوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کے باعث ایک طرف کراچی میں مہاجر،پٹھان اورسندھی کی تفریق کی بنیاد پر تصادم اور لڑائی کو ہوا مل رہی ہے،تودوسری جانب بلوچستان میں بلوچوں اورپاکستانی حکومت کے درمیان ایک نسلی تنازعہ چل رہا ہے۔ ان تنازعات کی وجہ سے ملک عدم استحکام اورغیریقینی کی صورتحال سے دوچارہے، جسے جب بھی چاہیں،اجنبی قوتیں بھڑکاسکتی ہیں۔
ب) سیاسی اہمیت: سامراجی قوتیں فرقہ واریت کوہوادیتی ہیں۔
ملک میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کی کاروائیوں کی حالیہ لہر کا تعلق پاکستانی حکومت کی غلامانہ خارجہ پالیسی اور اس کی افغانستان پر امریکی قبضے کے لیے سہارا دینے سے ہے۔ افغانستان کے مسلما نوں اور پاکستان کے فاٹا کے علاقے میں موجود ان کے بھائیوں کے ہاتھوں شکست کے خوف نے اور اپنے ملک میں جاری معاشی بحران نے جس نے امریکہ کو کمزور کر دیا ہے، امریکہ کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ خطے میں جار ی امریکہ مخالف مزاحمت کو کمزور کرے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی انٹلیجنس ایجنسیاں پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دھماکوں اور False Flag حملوں کی مہم چلا رہی ہیں تا کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوایا جا سکے اور امریکہ کے خلاف افعانستان میں جار ی مزاحمتی تحریک کو پاکستانی عوام کی نظروں میں بدنام کیا جا سکے۔ یہ امریکہ کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے کہ وہ پاکستان کی فوج اور جنگجوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو بھڑکائے اور اس مقصد کے لیے امریکہ پرتشدد فرقہ وارانہ کاروائیوں کو استعمال کر رہا ہے تا کہ ان گروہوں کو جو امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کو فرقہ وارانہ گروہ ، جو شیعہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، کے طور پر پیش کر کے ان کو بدنام کرے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو امریکہ نے عراق میں استعمال کی جہاں اس نے مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی اور فرقہ واریت کو استعمال کرتے ہوئے امریکی قبضے کے خلاف جاری تحریک کو تقسیم اور کمزور کیا اور عراق پر اپنی گرفت مضبوط کی۔
امریکی غلامی کی پالیسی پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت اورخائن حکمران بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ عو ام پراپنے غیرفطری اقتدار کوبرقرار رکھ سکیں۔ امریکی ایما ءاور حوصلہ افزائی پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی حکومت نے، جوخطے میں اسلام کی واپسی سے خوفزدہ تھی، پاکستان میں فرقہ وارنہ بنیادوں پرتنظیمیں بنانے کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ امت کی اسلام کی طرف لوٹنے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔ آج بھی پاکستانی حکومت مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کوبھڑکانے کی پالیسی پر گامزن ہے تا کہ امریکہ کی اسلام کے خلاف جنگ میں اپنی شمولیت کے لیے جواز فراہم کر سکے۔ مزید براں حکومت ا ور اس کے حواری مسلمانو ں کے درمیان فرقہ واریت کو اس لیے بھی ہوا دیتے ہیں تا کہ ملک میں شریعت کے نفاذ کے بڑھتے ہوئے مطالبے کی مخالفت اور مقابلہ کیا جا سکے اور پاکستان کے لیےسیکولر سول جمہوری حکومتی ماڈل کی ترویج کی جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے لیے مختلف تعلیمی نصاب قائم رکھ کر پاکستانی ریاست مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو برقرار رکھتی ہے۔
ج) قانونی ممانعت: اسلام تمام رعایا کے حقوق کی ضمانت دیتاہے اورمختلف گروہوں کےدرمیان اختلاف رائے کی تعمیری طریقہ سے نگرانی اوردیکھ بھال کرتاہے۔وہ طریقہ یہ ہے۔
ج1۔ شہریوں کے حقوق کی ضمانت احکام شرعیہ کے ذریعے کی جاتی ہے، نہ کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے سیاسی اتھارٹی تک پہنچنے کی قابلیت کے ذریعے۔
جمہوریت کے برعکس اسلام ایسے قومی نمائندوں پریقین نہیں رکھتاجوعوام پرحکومت کرنے کیلئے قانون سازی کریں۔جمہوریت میں یہ طریقہ کارفطری طورپران جماعتوں اورگروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوجنم دیتا ہے، جن کے پاس ریاست کی قانون ساز اتھارٹی پراثرانداز ہونے کیلئے مطلوبہ سیاسی اثرورسوخ موجود نہ ہو۔ اس سے معاشرے میں مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھتی ہےاوران کے درمیان خوفناک قسم کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے، یوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہو کر تقسیم ہوجاتاہے۔ اگر چہ خلیفہ کوانتخابات کے ذریعے چنُا جاتا ہے، مگرنہ توخلیفہ اورنہ ہی مجلس امت (مجلس شوریٰ) کے ارکان کے پاس قانون سازی کا اختیارہوتاہے، بلکہ خلیفہ صرف اورصرف شریعت اور اس کے احکا مات کے ذریعے حکمرانی کاپابند ہوتاہے۔ اسلا م گروہ بندی پر مبنی سیاست کومسترد کرتا ہے۔ اسلامی ریاست میں شہریوں کے د رمیان ریاست کے وسائل شرعی ضوابط کے مطابق تقسیم کئے جاتے ہیں نہ کہ معاشرے کے اندرموجود مختلف گروہوں کے سیاسی وزن کے مطابق۔ اورخلیفہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ نسل، قومیت، دین، مسلک وغیرہ کی بنیاد پرریاست کے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق کرے،بلکہ اس پریہ واجب ہےکہ وہ صرف احکام شرعیہ کی بنیاد پراسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔
حزب التحریر کے مقدمہ دستور کی شق (6) میں ذکرکیاگیاہے "ریاست کیلئے جائز نہیں کہ وہ حکومت، عدالتی امور، لوگوں کے زندگی کے نظم ونسق اوردیگرمسائل میں شہریوں کے درمیان تفریق وتمیز کرے،بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومیت، دین، رنگ ونسل وغیرہ سے بالاترہوکرتمام افرادکو ایک نظرسے دیکھے۔"
دستور کی شق (7) میں یہ واضح کیاگیاہے کہ"ریاست ان تمام لوگوں پرجواسلامی ریاست کےشہری ہوں، چاہے مسلمان ہوں یاغیرمسلم،حسبِ ذیل طریقے سے اسلامی شریعت کونافذ کرتی ہے: 1۔مسلمانوں پربغیرکسی استثناء کے تمام اسلامی احکامات لاگوہوتے ہیں۔ 2۔ غیرمسلموں کوعمومی نظام کے تحت اپنے عقائد وعبادات کی اجازت ہوتی ہے۔ 3۔ مرتد ہونے والوں پرمرتدوں کے احکام لاگوں کئے جاتے ہیں، ایسے لوگ جوکسی مرتد کی اولادہوں اوروہ پیدائشی غیرمسلم ہوں، ان کے ساتھ غیرمسلموں کاسامعاملہ کیاجاتاہے یعنی ان کی حالت پرہے کہ وہ مشرک ہیں یااہل کتاب۔ 4۔ کھانے پینے اورلباس کے امورمیں غیرمسلموں کے ساتھ شرعی احکامات کی حدود میں رہتے ہوئےان کے مذاہب کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے۔ 5۔ غیرمسلموں کے درمیان شادی بیاہ اورطلاق کے امورکوان کے مذاہب کے مطابق نمٹایاجاتاہے، اگرمعاملہ ان کے اورمسلمانوں کے درمیان ہوتوپھراسلامی احکامات کے مطابق طے کیاجاتا ہے۔ 6۔ باقی تمام شرعی احکامات اور شرعی امورمثلاً لین دین، سزائیں، گواہی، نظام حکومت، نظام معیشت وغیرہ کو تمام رعایاپر،خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ریاست برابری کی بنیاد پرنافذ کرتی ہے۔ اسی طرح معاہدین (اہل ذمہ)، مستامنین (اسلامی ریاست کی پناہ میں آنے والے) اورہراس شخص پر جو اسلامی ریاست کے زیرسایہ رہتاہے، ریاست ان احکامات کوناٖفذ کرتی ہے،ماسوائے سفیروں، ایلچیوںاوراسی نوعیت کے دیگرلوگوں کے جنہیں سفارتی امان حاصل ہو۔
ج2۔ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے،اور وہ مسلمانوں کے مابین وحدت کومضبوط کرے گی۔
ریاستِ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے، اس سےقطع نظر کہ شرعی نصوص اوراسلامی تاریخ کے حوالے سے ان کی تشریح کیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت کومضبوط رکھنے کے لیے ریاست خلافت، ذرائع ابلاغ اوریکساں نصاب تعلیم کے نفاذکوبروئے کار لائے گی اورمسلمانوں کے درمیان اسلام کی صحیح فہم کے مطابق بھائی چارے کے ربط کا پرچار کرے گی۔ پوری ریاست میں یکساں تعلیمی نظام مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت کے ربط کو مضبوط کرے گا۔
مقدمہ دستور کی شق (103) اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ "میڈیاوہ شعبہ ہے جوریاست کی میڈیاپالیسی بناتاہے،اوراسے نافذکرتا ہےتاکہ اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کوپوراکیاجائے۔ داخلی طورپریہ ایک قوی اورمتحداسلامی معاشرے کی تشکیل کرتاہے،جوخباثت کونکال باہر کرے اوراپنی خوشبوؤں کوبکھیرتارہے۔ اورخارجی طورپریہ اسلام کوجنگ اورامن کے دوران اس انداز میں پیش کرتاہے جس سےاسلام کی عظمت، اس کے عدل اوراس کی افواج کی قوت کااظہارہوتاہواورانسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے فساد اورظلم کوبیان کرے اوران کی افواج کی کمزوری کو آشکارا کرے۔
شق (177) یہ واضح کرتی ہے کہ "منہج تعلیم ایک ہی ہوگااورریاست کے منہج تعلیم کے علاوہ کسی دوسرے منہج کی اجازت نہیں ہوگی۔ پرائیویٹ سکولوں کی اس وقت تک اجازت ہوگی جب تک کہ وہ ریاست کے تعلیمی منہج، اس کی تعلیمی پالیسی اوراس کے مقصد کی بنیادپرقائم ہوں گے۔ یہ بھی شرط ہوگی کہ ان میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہوگی، مردوزن کااختلاط معلمین اوراساتذہ دونوں کے درمیان ممنوع ہوگا۔مزید برآں یہ بھی شرط ہوگی کہ تعلیم کسی خاص کردہ دین یامذہب یارنگ ونسل کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔"
ج3۔ معاشرے کی بھلائی کی خاطراختلاف رائے کی نگرانی اوراحترام۔
اسلام اختلافِ رائے کی اجازت دیتاہے،اورشرعی طورپرمعتبرنصوص سےاجتہاد کرکے احکام شرعیہ اخذکرلینےمیں اختلاف کی گنجائش کو تسلیم کرتاہے۔ بخاری اور مسلم عمر بن العاص کی سند پر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (اذاحکم الحاکم فاجتہد ثم اصاب فلہ اجران واذاحکم فاجتہد ثم اخطافلہ اجر) "جب قاضی فیصلہ دے اور اجتہاد کرے اور وہ درست ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ اگر وہ فیصلہ کرے اور غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے"۔ یہ حدیث بخاری اورمسلم نے روایت کی ہے۔ مختلف مجتہدین کے درمیان شرعی نصوص میں اسی اجتہادی اختلاف کی وجہ سے فقہ اسلامی کاعظیم ذخیرہ وجود میں آیا۔ اسی نے اسلا م میں مختلف قانونی مسالک کو جنم دیا۔ اسلام اجتہادی آراء میں اختلاف کی اجازت دیتاہے۔ جمہوریت کے برعکس جوقانون سازی کیلئے اکثریت پراعتماد کرتی ہے، جس کی وجہ سے ریاست اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھتی ہے، اسلام ریاست کے قانونی انتظام کے لیے اختلاف رائے کو حل کرنے کیلئے ایک منفرد انداز اپناتا ہے۔ اسلام نے ریاست میں قانون کے نفاذ کے لیے خلیفہ کوہی احکام کی تبنی کاحق دیاہےتاکہ انہیں نافذکیاجائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے خلیفہ پر شرعی احکامات کی تبنی کے حوالے سے بعض پابندیاں بھی لگائیں ہیں۔ مقدمہ دستورکی شق نمبر3 میں ذکر کیا گیا ہے کہ "خلیفہ متعین شرعی احکامات کی تبنی کرے گاجودستوراورقوانین کہلائیں گے۔ خلیفہ جب کسی حکم شرعی کی تبنی کرے توصرف یہی حکم وہ حکم شرعی ہوگاجس پرعمل کرناعوام پرفرض ہوگا، یہ اس وقت سے ہی نافذ العمل قانون بن جاتاہے جس پرعمل درآمد عوام میں سے ہرفرد پرظاہراًاورباطناً فرض ہوگا"۔
قانونی آراء کی تبنی میں جو ریاست میں نافذ کی جائیں گی خلیفہ کیلئےعبادات میں سوائے زکوٰۃ اورجہاد کے تبنی کی اجازت نہیں اور نہ ہی وہ عقیدہ سے منسلک افکار میں تبنی کرے گا۔ یہ چیز ریاست میں مختلف مسالک کے درمیان سیاسی وحدت قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ جیساکہ مقدمہ دستور کی شق (4) میں ذکر کیا گیا ہے "خلیفہ عبادات میں سے زکوٰۃاورجہادکے سوا اور جو کچھ بھی امت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہو کے علاوہ، کسی متعین حکم شرعی کی تبنی نہیں کرےگا۔ نہ وہ اسلامی عقیدہ سے متعلقہ افکارمیں سے کسی فکرکی تبنی کرے گا۔"
علاوہ ازیں اسلام نے خلیفہ کی احکام شرعیہ کی تبنی کومنظم کیاہے، کہ وہ شرعی نصوص سے احکام شرعیہ کے استنباط کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرے گا، اور اس کو صر ف ان احکام کی تبنی کی اجازت ہو گی جو اس نے اس طریقہ اجتہا د کو استعمال کرتے ہو ئے اخذ کئے ہیں جس کی وہ پہلے تبنی اور اعلان کر چکا ہے۔ اس لئے اگرخلیفہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جوشرعی نصوص سے استنباط کرکے اخذ نہیں کیاگیا یا جس کے اخذ کرنے میں اس طریقہ اجتہاد کو استعمال نہیں کیا گیا جس کو خلیفہ پہلے اپنا چکا ہے اور جس کا وہ اعلان کر چکا ہے تو ایسے ہر حکم کو باطل سمجھاجائے گا۔مقدمہ دستورکی شق (37) وضاحت کرتی ہےکہ"خلیفہ احکام شرعیہ کی تبنی میں احکام شریعت کاپابندہے، چنانچہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرنااس کے لئے حرام ہے جس کااس نے "ادلہّ شرعیہ" سے صحیح طورپر استنباط نہ کیاہو۔ وہ اپنے تبنی کردہ احکامات اورطریقہ استنباط کابھی پابندہے، چنانچہ اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جس کے استنباط کاطریقہ اس کے تبنی کردہ طریقے سے متناقض ہو۔ اورنہ ہی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کوئی ایساحکم دے جواس کے تبنی کردہ احکامات سے متانقض ہو۔"
نوٹ: مذکورہ شقوں (3، 4، 6، 7، 37، 103، 177) کےبارے میں قرآن وسنت سے ان کےمکمل دلائل دیکھنے کے لئے مقدمہ دستور کی طرف رجوع کیاجائے، نیز مقدمہ دستورمیں سے ان سے متعلقہ شقوں کودیکھنے کے لئے اس لنک پرویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں:
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
د) پالیسی: خلافت جمہوریت کی گروہ بندی اور تقسیم پر مبنی سیاست کا خاتمہ کرے گی۔
1- جمہوریت کا خاتمہ معاشرے سے گروہ بندی اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر دے گا۔
2- خلافت نسل، قومیت اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے گی اور ان کے معاملات کو اسلام کے احکام کے مطابق منظم کرے گی۔
3- خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے۔ وہ تعلیمی نصاب اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں میں ہم آہنگی اور وحدت کا پرچار کرے گی۔
4- خلیفہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ درست اجتہاد کے ذریعے جو ان قانونی مصادر پر مبنی ہو جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کیے ہیں، قانونی آراء کی تبنی کرے اور اس کی تبنی شدہ احکام کی اتباع تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ خلیفہ کی احکام کی تبنی شرعی احکام کی تابع ہے۔ خلیفہ عقائد اور عبادات میں تبنی نہیں کرے گا۔
5- خلافت تمام حربی ممالک، جن کا سربراہ امریکہ ہے، سے تمام تعلقات منقطع کر لے گی اور پاکستان سے ان ممالک کی سفارتی، فوجی اور انٹلیجنس موجودگی کا خاتمہ کر دے گی۔ یوں امریکہ کی ہمارے علاقوں تک عدم رسائی امریکہ کی مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی قابلیت کو ختم کر دے گا۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک