الأربعاء، 28 محرّم 1447| 2025/07/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شامی قومی اتحاد کے وفد کا دورہ واشنگٹن اور اسے شامی عوام کا نمائندہ ظاہر کرنا جھوٹ اور فریب ہے اس دورے کا مقصد سابق مجرم ایجنٹ کی جگہ لینے کے لیے "الجربا" کو بطور متبادل ایجنٹ تیار کرنا ہے

5 مئی 2014 الجربا نے شامی قومی اتحاد کے وفد کے طویل دورہ واشنگٹن کی سربراہی کی جو کہ کل 14 مئی کو اختتام پزیر ہوا۔ اس دورے کے دوران امریکی انتظامیہ، محکمہ دفاع، وزارت خارجہ، نیشنل سیکورٹی کونسل کے اہم اہلکاروں، کانگرس کے ارکان اور موجودہ و سابقہ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کی گئی۔ اس دورےکا اختتام آخری وقت میں امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ایک "ہنگامی ملاقات" پر ہوا جو کہ اس دورے میں شامل نہیں تھی۔ واشنگٹن نے بيک وقت بشار کی حکومت کا سفارت خانہ اور بہت سے قونصل خانوں کو بند کرتے ہوے واشنگٹن میں موجود اتحاد کے آفس کو "فارن مشن" کا درجہ دے دیا۔ شام کے لیے امریکی سفیر ڈینیل روبنسٹن، جس نے فورڈ کی جگہ لی ہے، نے کہا کہ الجربا کے وفد کا دورہ جس میں فری سیرین آرمی کے عبداللہ البشیر اور کئی اہم سیاسی رہنما شامل تھے، بہت اہم ہے۔ مزيد کہا کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہواہے جب امریکی انتظامیہ شام کے بارے میں اپنی پالیسی پر "نظر ثانی" مکمل کرنے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہے یہ دورہ امریکی انتظامیہ کے اشارے پر کیا گیا جس کا مقصد اتحاد کو فیصلہ کن انداز میں جانچنا تھا کہ کیا یہ امریکی مفاد کو پورا کرنے میں بشار کی طرح موزوں ہے یا نہیں؟یہ مفاد امریکہ اور "نئے شام" کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کو پیدا کرنا، انتہا پسند گروہوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی کوششوں، امداد کی وصولی اور شام میں امن اور سلامتی کے لیے روڈ میپ پر ایک ڈرافٹ پیش کرنا ہے۔ اس میں سکیورٹی تعاون، فری سيرين آرمی کی صلاحیتوں اور امریکی امداد کو "ذمہ داری" سے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔
امریکہ جانتا ہے کہ اس کا ایجنٹ بشار مکمل طور پر چلا ہوا کارتوس ہے اسی لیے اوباما اوراتحاد کے وفد کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کئی بار یہ ذکر کیا گیاکہ "بشار الاسد شام پر حکومت کرنے کے تمام قانونی جواز کھو چکا ہے اور ملک کے مستقبل میں اس کا کوئی کردار نہیں"۔ یہ امریکہ ہی ہے جو بشار کی حکومت کو سہارا دے رہا ہے اور اس کے جنگی جرائم اور شیطانیت پر پردہ ڈال رہا ہے لیکن ایسا وہ اس وقت تک کرے گا جب تک وہ اس کا ایک متبادل تیار نہ کرلے اور عبورى مرحلے کی قیادت میں اپنا اثرو رسوخ مضبوط نہ کرلے۔یہ بیان بڑے واضح اشاروں پر مشتمل ہے..... جیسا کہ "صدر اوباما نے اتحاد کے رہنماؤں اور بات چیت کرنے کے لیے تعمیری نقطہ نظر کو خوش آمدید کہا" اور "ایک جامع معاہدہ جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے" کے نقطہ نظر کو فروغ دینے میں اتحاد كے كردار کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ بہت واضح ہے کہ یہ الفاظ اتحاد کو ایک مخصوص کام کے لیے بطور ایجنٹ سند عطا کرتے ہیں جو کہ "ایک جامع معاہدہ جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے" کے نقطہ نظر کو فروغ دینا ہے۔ اسی طرح بیان میں تمام شامی عوام کی نمائندہ حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ وہی مطالبہ ہے جو کہ "جنيوا کانفرنس" میں بھی کيا گیا تھا۔ جیسا کہ امریکہ جنيوا کانفرنس کے مطابق اور خاص کر ابراہیمی کے استعفیٰ کے بعد عبوری مرحلے کی قیادت پر اکيلا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس رجحان کی تصديق بیان میں ذکر کردہ اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ "ہر فريق میں موجود دہشتگرد گروہوں کے مقابلے کی ضرورت ہے" یعنی مسلمانوں کے گروہ جو نظام کے خلاف اسلامی نظام کے منصوبے کو لے کر کھڑے ہوئے، جن کو یہ دہشتگرد اور تکفیری گروہ کے طور پر بیان کرتا ہے اور حکومتی گروہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں جبکہ حکومت مخالف تمام ہی گروہوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ اسی وجہ سے الجربا کویہ کہنا پڑا کہ وہ" تیسری درمیانی راہ" کی نمائندگی کرتا ہے، جو امریکی حل کی معاونت کرتی ہے۔ جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے، امریکہ کے اپنے اندازے ہیں اوریہ کام سی آئی اے براہ راست کرتی ہے اور اس نے کئی ایسے گروہ بنا لیے ہیں جن کی وفاداری یقینی ہے اور یہ ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت اس وقت تک نہیں دے گا جب تک یہ یقین نہ کر لے کہ اتحاد اس کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور دہشتگردوں کا مسئلہ ختم کردیا ہے۔جس طرح امریکہ حافظ اور بشار کو حکومت میں لایا تو ان مذاکرات کی کامیابی کے بعد اس کو نکال باہر کرے گا اور پھر عبوری حکومت قائم کرے گا جس طرح جنيوا کانفرنس کی شرائط میں طے کیا گیا تھا۔
یہ دورہ درج ذيل امور کی تصديق کرتا ہے:
اول امریکہ شام کی موجودہ حالت میں اکیلا فیصلہ ساز بننے کے لیے کام کر رہا ہے۔اس نے دوسروں سے ہٹ کر عبوری مرحلے کی طرف اکيلے پیش قدمی کرنا شروع کر دی ہے۔ جنيوا کانفرنس اپنی تمام سفارشات کے ساتھ ابھی بھی زندہ ہے۔ "اتحاد" امریکہ کو اپنى وفاداری ثابت کرنے کے لیے شدید جدوجہد کررہا ہے حتٰى کہ یہ امریکی منصوبے پر عمل کرتے ہوے اسے "نيا شام" دینے پر تیار ہے۔الجربا کے بیانات اوراتحاد کا موقف مکمل امریکی ہے۔ واشنگٹن میں الجربا نے کثرت رائے سے بننے والی "سول جمہوری حکومت" کے قیام کا مطالبہ کیا اور امریکی لب و لہجہ استعمال کرتے ہوے "تکفیری دہشتگردوں" سے لڑنے کی ضرورت کو بیان کیااور اس "تیسری درمیانی راہ" کی حمایت کی جو امریکی انتظامیہ کو قبول ہے، حتٰى کہ اس نے فری سيرين آرمی کو "خواہ کم مقدار ہی میں ہو" معیاری ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تا کہ توازن قائم کر کے بشار کو بات چیت کے لیے راضی کیا جا سکے۔اس طرح وہ امریکی حل نکل سکے جو امریکہ تیار کر چکا ہے اور نافذ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے..... اگر یہ اس طرح کرنے کے قابل ہوا۔
اے شام کے مسلمانوں! تم نے امریکہ کی شام میں حکمرانی میں رہنے کے تمام منصوبے ناکام بناتے ہوئے اسے تھکا دیا ہے، اب اس کے نوکر "الجربا اوراتحاد میں موجود اس کے ساتھیوں" کو اجازت مت دو کہ یہ شام میں قدم جما سکیں۔ تم نے قابل تعريف قربانیاں اس لیے نہیں ديں کہ ہماری سرزمین پر طاغوت کی حکمرانی قائم رہے۔ جان رکھو کہ تم امریکہ اور اس کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے قابل نہ ہو گے سوائے خلافت کی صورت میں اسلامی نظام قائم کر کےجو کہ اس خطے سے امریکہ کی جڑیں کاٹ دے گی اور اسے ذلیل کرتے ہوے نکال باہر کرے گی۔اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، ﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ "اور جو الله كى مدد کریں الله ضرور ان كى مدد كرتا ہے، يقينا الله بہت زبردست طاقت والا ہے" (الحج: 40)۔
ہم حزب التحریر صرف ریاست خلافت کا قیام چاہتے ہیں جو کہ ہمارے تمام معاملات کو درست کرے گی۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو الله نے ہم پر فرض کیا اور اس پر عمل کرنا الله کو راضی کرتا ہے اور وہی ہمیں فتح نصيب فرمائے گا۔ رسول اللهﷺ نے فرمایا: «وما تقرَّبَ إليَّ عبدي بشيءٍ أحبَّ إليَّ مما افترضتُه عليه» " جس چیز کے ذریعے میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اس میں سے کوئی چیز مجھے ان فرائض سے زیادہ محبوب نہیں جو کہ میں نے اس پر عائد کیے ہیں" (البخاری)
الله سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکے ہیں کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ نہ شکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں" (النور: 55)۔

Read more...

سوال کا جواب: چین کامقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکی اثرات

سوال: 7 اپریل 2014 کو انڈیا میں عام انتخابات کا آغاز ہوا، جو 12 مئی 2014 تک جاری رہیں گےاوراس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ ان انتخابات میں دو بڑی سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، ایک بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) جن کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں اور یہ اس کی اتحادی ہے جبکہ دوسری کانگریس ہے جو انگریز نواز ہے…
Read more...

مجرم حکمران ایک طرف تو بجلی پر ہمارے حق سے ہمیں محروم کررہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں قرضوں اور ناامیدی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں

2 مئی 2014 کو ہمارے وزیر خزانہ نے فخر سے یہ اعلان کیا کہ عالمی بینک نےپاکستان کے لیے 12 ارب ڈالر کا سودی قرضہ منظور کرلیا ہے جس میں وہ ایک ارب ڈالر بھی شامل ہے جو مئی کے دوسرے ہفتے میں دیا جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی۔ایم۔ایف اور جاپان انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسی کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضوں کی طرح اس قرضے میں بھی یہ شرط شامل ہے کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں جاری اہم اصلاحات کو جاری رکھے گا۔ جمعہ 2 مئی کو پاکستان میں عالمی بینک کے ڈائریکٹر رِچرڈ بین میسوئڈ نے صحافیوں سے بذریعہ وڈیو کانفرنس خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں "قیمتوں کو بہتر بنانے کی پالیسی" اختیار کرے اور "(توانائی کی) مارکیٹ کو نجی شعبے کے لیے کھولا" جائے۔ جبکہ اس سے قبل7 اپریل 2014 کو آئی.ایم.ایف نے "پاکستان کے لیے اپنے پروگرام نوٹ" میں توانائی کی پالیسی کے متعلق "نجی و حکومتی شعبے کی شراکت داری " اور "کاروبار ی فضا کو بہتر کرنے کے لیے درکار اقدامات" کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔
لیکن توانائی کے شعبے میں"نجی و حکومتی شعبے کی شراکت داری" اور "نجی شعبے کے لیے (توانائی کی)مارکیٹ کو کھولنے" کامطلب یہ ہے کہ توانائی کے شعبے کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے،جو درحقیقت ایک جرم ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام محاصل (revenue)کے بہت بڑےذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں کہ جس سے وہ اپنے امور کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ توانائی کے نجی مالکان اسی وقت بجلی فراہم کریں گے جب ایسا کرنا ان کے لیے منافع بخش ہوگا۔ محدود وسائل کا حامل ہونے کی وجہ سے نجی مالکان ریاست کے تمام شہریوں کو بجلی اس طور پر مہیا نہیں کر سکتے کہ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو کہ ہر شہری کا حق ہے،کیونکہ یہ کام دراصل ایک ذمہ دار اور خیال رکھنے والی ریاست ہی کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نج کاری (privatization) بجلی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی براہِ راست وجہ بنتی ہے،کیونکہ نجی مالکان بجلی کی پیداوار میں کمی کردیتے ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے پیسے نہ دینے کی صورت میں وہ خسارے سے دوچار نہ ہوں، یا وہ صرف ان کارخانوں کو چالو رکھتے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت زیادہ بہتر ہے جبکہ اُن بجلی کے کارخانوں کو بند کردیتے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت اچھی نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے زیادہ منافع بخش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کے پاس 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہماری زیادہ سے زیادہ ضرورت صرف 17500 میگاواٹ ہے، لیکن اس ضرورت کے نصف سے بھی کم بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے، ہر روزدس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور لوگ شدید گرمی کے مہینوں میں پنکھے کی ہواکی نعمت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بجلی کی قلت کے نتیجے میں مقامی صنعت کی تباہی اس کے علاوہ ہے۔
جہاں تک توانائی کی"قیمتوں کو بہتر بنانے کی پالیسی" اور" کاروباری فضاکو بہتر کرنے کے لیے درکار اقدامات" کا تعلق ہے تو اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تا کہ اس کے نتیجے میں توانائی کے شعبے سے منسلک نجی کمپنیوں کے مالکان کے منافع میں اضافہ ہو۔ بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر کے حکومت پہلے ہی نجی شعبے کے لیے اس کی سرمایہ کاری پر یقینی منافع کا بندوبست کر چکی ہے۔ حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے منافع کو اس حد تک یقینی بنایا ہے کہ ان کمپنیوں کو اس صورت میں بھی حکومت کی طرف سے پیسے کی ادائیگی کی جاتی ہے جب وہ تیل کی کمی کی بنا پر بجلی پیدا نہیں کررہے ہوتے۔ یوں بجلی اس قدر مہنگی ہوچکی ہے کہ ایک بہت بڑا "گردشی قرضہ" وجود میں آچکا ہے جو حکومت نے بجلی کے کارخانوں کے مالکان کو ادا کرنا ہے۔ پچھلی گرمیوں یعنی جولائی 2013 میں حکومت نے 270 ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں(IPPs) کو ادا کیےتھے۔ اتنی بڑی رقم کا سُن کر لوگ بھی چونک اٹھے کہ توانائی کے شعبے میں کس قدر دولت ہے، لیکن اس عوامی اثاثے سے حاصل ہونے والی دولت کے ایک روپے پربھی عوام کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اور اس سال یہ "گردشی قرضہ" ایک بار پھر جمع ہو چکا ہے ، حکومت اتنی مہنگی بجلی کی ادائیگیاں نہیں کر پارہی ،پس29 اپریل 2014 کو کئی حکومتی محکموں کی بجلی کاٹ دی گئی جس میں پانی و بجلی کی وزارت بھی شامل تھی!!!
حکمران امت کے توانائی کے وسائل کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہے ہیں جبکہ اسلام نے توانائی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جس کے مالک تمام مسلمان ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)" (مسنداحمد)۔ لہٰذا خلافت میں اسلامی آئین کے زیرِ سایہ بجلی کا فائدہ تمام لوگوں کے لیے ہوگا جبکہ ریاست اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس شعبے کی سرپرستی و نگرانی کرے گی۔
اس کے علاوہ ،حکومت کی طرف سے حاصل کیے جانے والے یہ تمام قرضےسود پر مبنی ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے واضح اور قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ انہی سودی قرضوں نے پاکستان کو اس کے قیام کے بعد سے ہی قرضوں کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے ،حالانکہ پاکستان ان قرضوں کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم سودی قسطوں کی شکل میں ادا کر چکا ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! کیا آپ کےلیے کافی نہیں کہ آپ ایسی کئی حکومتوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں جوکھلم کھلااستعماری ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ بناتی ہیں، ان کے اہلکاروں سے دنیا کے ہر کونے میں دن رات ملاقاتیں کرتی ہیں تا کہ آپ کو آپ ہی کی دولت سے محروم کرنےاور آپ کی بدحالی میں مزید اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے؟ یہی وقت ہے کہ آپ اس حکومت کے خاتمے اور اس عمدہ سرزمین پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے شباب کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیں۔ صرف ہماری اپنی ریاستِ خلافت ہی عوامی اثاثوں سے بہت بڑی مقدار میں محاصل (revenue) پیدا کرے گی جس میں پاکستان کے توانائی اور معدنیات کے وسیع وسائل شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان شعبوں سے بھی بھاری محاصل حاصل کرے گی جو بنیادی طور پر ریاست ہی کے پاس ہوتے ہیں اگرچہ نجی شعبہ بھی اس میں کام کرسکتا ہے جیسا کہ بھاری مشینری، ہتھیاروں کی تیاری، ٹیلی مواصلات، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے ادارے ۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے سے خراج کی صورت میں محاصل اکٹھے کئے جائیں گے۔ یہ سب غیر ملکی سودی قرضوں پر انحصار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے گا ، وہ قرضے کہ جو کفر اور گمراہی پر مبنی شرائط کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔
یہ جان لیں کہ پاکستان اور مسلم دنیا میں بدترین معاشی بدحالی کا اصل اور بنیادی سبب یہ ہے کہ28رجب 1342ہجری بمطابق 23مارچ 1924ءکو خلافت کے خاتمے کے بعد سے اسلام،ریاستی دستور اورآئین کی صورت میں نافذ نہیں ہے۔ اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے اور ہم اس امر میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں کہ ہم ایک خلیفہ کی بیعت کریں جو تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور صرف اور صرف اسلام کو ہی مکمل طور پر نافذ کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ کو بیعت دینے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ "میرے بعد کوئی نبی نہیں لیکن کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے جواب دیا :ایک کے بعد دوسرے کو بیعت دو کہ اللہ اُن سے اُس کے متعلق پوچھے گا جس پر انہیں ذمہ دار بنایا گیا" (بخاری)۔ حزب التحریر اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے پاس پوری مسلم دنیا میں پھیلے ہوئے قابل سیاست دانوں کی ایک پوری فوج موجود ہے اور 191 دفعات پر مشتمل آئین نفاذ کے لیےتیارموجود ہے جس کی تمام دفعات صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کی گئی ہیں۔ تو اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں اور خلافت کی واپسی کو یقینی بنائیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! کفر کے زیرِ سایہ تمھاری قوم کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ ان کی حالت کو دیکھوکہ وہ کس قدر مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ تم وہ ہو کہ جنہوں نے اپنے لوگوں کی خاطر اپنی جانیں دینے کی قسم کھائی ہے۔ یہی وقت ہے کہ تم اپنے عہد ،اپنی قسم کو پورا کرو۔ اس کفر کی حکمرانی اور جمہوریت کے آئین کی مددو نصرت سے ہاتھ کھینچ لو اور اسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوجانے دو۔ راحیل-نواز حکومت کا خاتمہ کردواورحزب التحریرکو نُصرۃ فراہم کر وجوقابل فقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے، تاکہ اس مسلم سرزمین پر، جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیش بہا وسائل اور قابل بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا ہے،خلافت کا قیام عمل میں آ جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
" اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولﷺکی پکار پر لبیک کہو ، وہ تمہیں اس چیز کی جانب بلاتے ہیں جس میں تمھارے لیے زندگی ہے" (الانفال: 24)

Read more...

گجرات کے قصائی مودی کو مبارک باد اور دورہ پاکستان کی دعوت راحیل-نواز حکومت کا مودی کی کامیابی پر گرمجوشی، مسلمانوں کے خون سے غداری ہے

راحیل -نواز حکومت نے مودی کو وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قبل ہی دورہ پاکستان کی دعوت دے ڈالی ہے۔ کل دوپہر نواز شریف نے گجرات کے قصائی مودی کو فون کر کے انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ حزب التحریر راحیل-نواز حکومت سے پوچھتی ہے کہ جس شخص کے حکم سے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کی گئی تھی ، اس کو وہ مبارک باد کس طرح دے سکتے ہیں؟ کیا راحیل-نواز حکومت انتہا پسند ہندوں کی نمائندہ ہے کہ جسے مودی کی جیت کی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ تمام تر مصروفیات کو ترک کر کے اس کو فون کیا جاتا ہے؟ راحیل-نواز حکومت کا مودی کی کامیابی پر اس قدر خوشی کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو بھی امت کے دکھ، درد، تکلیف سے کوئی سروکار نہیں بلکہ اپنے آقا امریکہ کی خوشنودی کے لیے اس شخص کو بھی گلے لگانے کے لیے تیار ہیں جس کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا وجود مسلمانوں کے مقدس اور مظلوم خون سے تر بتر ہے۔
راحیل-نواز حکومت کا یہ کہنا کہ مودی کے آنے سے خطے میں امن اور استحکام آئے گا ، دیوانے کا خواب ہے۔ بی۔جے۔پی کی کامیابی کے نتیجے میں وہ امریکی منصوبہ ایک بار پھر زندہ ہوجائے گا ، جو کانگریس کے دور حکومت میں تقریباً منجمد ہی ہوگیا تھا ، جس کے تحت امریکہ بھارت کو خطے میں طاقتور کر کے اپنے مد مقابل چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اکھنڈ بھارت کے حق میں رائے عامہ پیدا کرنے کے لیے مودی پہلے ہی اس صدی کو "بھارت کی صدی" قرار دے چکا ہے ۔
بی-جے-پی کی پچھلی حکومت میں بھی امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف اور پھر مشرف کے ذریعے بھارت کو، کارگل سے پسپائی، کشمیری مجاہد تنظیموں پر پابندی، کشمیر پر پاکستان کے تاریخی مؤقف سے دستبرداری، بھارتی سرحد سے افواج کو افغانستان کی سرحد پر منتقلی اور پاکستان کو بھارتی مصنوعات کی منڈی بنانے جیسی مراعات فراہم کیں تاکہ بھارت کو خطے میں ایک اہم ، بڑی اور طاقتور ریاست بنایا جاسکے۔ اور اب جبکہ بی-جے-پی پھراقتدار میں آگئی ہے تو راحیل-نواز حکومت ایک بار پھر خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان کی سلامتی اور معاشی مفادات کو بھارت کے سامنے قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے مسلمانوں کو اس امریکی منصوبے کو مسترد کرکے اس کے خلاف حرکت میں آجانا چاہیےاور حکمرانوں کو اس سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیں۔ خطے میں بھارت کی بالادستی پاکستان کو کمزور اور بھارت کا محتاج کردے گا۔ پاکستان کے مسلمان اس صورتحال کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے آباؤ اجداد نے اس ملک کے قیام کے لیے لاکھوں شہداء اور ہجرت کی قربانی بھارت کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے نہیں دی تھی۔ حزب التحریر پاکستان کے مسلمانوں اور افواج پاکستان کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ پاکستان کو خلافت کے قیام کا مرکز بنائیں اور پوری مسلم دنیا کو ایک خلیفہ کے سائے تلے متحد کر کے دنیا کی عظیم ترین ریاست بنائیں اور اس پورے خطے کو ظالم ہندو مشرکین کے ظلم وجبر سے نجات دلائیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
"اہل کتاب میں سے کافر نہیں چاہتے اور نہ ہی مشرک کہ تم پر تمھارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو ،مگر اللہ اپنی رحمت کے لیے جسے چاہتا ہے خاص کرلیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے" (البقرۃ: 105)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

راحیل-نواز حکومت کو کراچی میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کراچی میں امن کے قیام کے لیے امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ دیوس نیٹ ورک کا خاتمہ ضروری ہے

بدھ 14 مئی 2014 کووزیر اعظم پاکستان نے کراچی آپریشن کے حوالے سے کراچی میں ایک اعلٰی سطح کا اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں وفاق اور صوبے کی اعلٰی سیاسی قیادت کے ساتھ افواج پاکستان کے سربراہ، کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی آئی۔ایس۔آئی نے بھی شرکت کی۔اس اجلاس میں کراچی آپریشن اور اس کے نتائج پر غور کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی آپریشن کو جاری و ساری رکھا جائے ۔
اس انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس کے ذریعے راحیل-نواز حکومت نے عوام کو ایک طرف تو یہ تاثر دیا ہے کہ کراچی میں دہشت گرد اس قدر طاقتور ہیں کہ یہ کراچی پولیس اور صوبہ سندھ کی حکومت کے بس کی بات نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاسی و فوجی قیادت کو مل کر ان کے خاتمے کی کوشش کرنی ہوگی، جبکہ دوسری جانب عوام کو یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے راحیل-نواز حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ میں انتہائی سنجیدہ ہے۔ درحقیقت راحیل-نواز حکومت کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام میں ناکام ہوجائے گی کیونکہ وہ اس ناکامی کی ذمہ داری غیر قانی موبائل سیموں، چھوٹے جرائم پیشہ عناصراور دوسرے چھوٹے مسائل پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ کراچی آپریشن میں ناکامی کی اصل وجہ امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو کراچی سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کے وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنےاور انہیں انجام تک پہنچانے کے لیے فراہم کی جانے والی آزادی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک طرف کراچی میں فوجی افسران سے لے کر ، ڈاکٹر، وکیل، علماء اور عام شہری تک دہشت گردوں کی کاروائیوں سے محفوط نہیں لیکن امریکی اہلکار بغیر کسی خوف کے پورے شہر میں گھومتے پھرتے ہیں اور کسی دہشت گردی کی کاروائی کا نشانہ بھی نہیں بنتے۔ اسی طرح چند ہفتے قبل کراچی ائرپورٹ سے امریکی ایف۔بی۔آئی ایجنٹ اسلحے اور جاسوسی کی آلات سمیت گرفتار ہوتا ہے اور راحیل-نواز حکومت امریکی ایجنٹ کو ضمانت کی فراہمی میں تعاون فراہم کرکے امریکہ کی خدمت انجام دیتی ہے۔ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ کراچی میں بدامنی کی وجہ امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹورک ہے۔
اگر راحیل-نواز حکومت پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے خاتمے کا حکم دے دیں ، جو دراصل کراچی کے سب سےبڑے مجرموں کے گروہ ہیں، تو چند ہفتوں میں کراچی میں امن بحال ہوسکتا ہے اور اس کاروائی کے نتیجے میں مقامی چھوٹے چھوٹے مجرموں کے گروہ اپنی جانیں پچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
لیکن راحیل-نواز حکومت یہ قدم کبھی نہیں اٹھائے گی کیونکہ انہیں اپنے عوام کی جان و مال سے زیادہ امریکی مفادات عزیز ہیں۔ آمریت ہو یا جمہوریت دونوں نے ہی کراچی کو امریکی مفاد کے تحت بدامنی کے آگ میں دھکیلا ہے۔کراچی، پاکستان اور خطے میں بدامنی کی بنیادی وجہ امریکہ کی موجودگی ہے۔ پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان سے امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے خاتمے کا حکم جمہوری و آمر حکمران کبھی بھی جاری نہیں کریں گے۔ یہ کام صرف ریاست خلافت ہی سرانجام دے سکتی ہے کیو نکہ اس کا اسلامی آئین امریکہ کو دشمن ملک قرار دیتا ہے جبکہ موجودہ آئین امریکہ کو ایک دوست ملک قرار دیتا ہے۔ لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرےجو کراچی، پاکستان اور اس پورے خطے سے امریکی وجود کی ہر شکل کا خاتمہ اور اس پورے مسلم خطے کو امن کے دور سے روشناس کردے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

خلافت نصرۃ کے ذریعے رابطہ مہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارلحکومت لاہورمیں سیمینار

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سےاللہ سبحانہ و تعالی کے حکم سےپاکستان میں جلد از جلدخلافت کے قیام کے لیے ملک کے بڑے شہروں میں جاری "خلافت نصرۃ کے ذریعے " کی رابطہ مہم میں تیزی آتی جارہی ہے ۔ اس مہم کے دوران آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ایک بڑا سیمینار منعقد کیا گیا۔
رکن حزب التحریر ڈاکٹر افتخار نے خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار کے مطابق کام کرنے کی اہمیت سے سیمینار میں شریک لوگوں کو آگاہ کیا۔اس پُر اثر تقریرنے لوگوں پر یہ ثابت کیا کہ رسول اللہﷺکفریہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اسی کفریہ نظام کا حصہ نہیں بنے،اگرچہ انھیں اس نظام کا سربراہ بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور رسول اللہﷺ نے ایسےاقتدار کو بھی قبول نہیں کیا جس کے بدلے میں آپ ﷺ سےاسلام کے کسی ایک معاملے پر بھی سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ اس کی جگہ رسول اللہ ﷺ نے کفر کی حکومت کے خاتمے کے لیے پورےمعاشرے سے اس کفریہ حکومت کی حمایت اور قوت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہﷺ نےلوگوں کی طرف سے کفرکی حمایت کو ختم کیا اور اس کے لیے آپﷺنے کفر کے نظام کو کھلم کھلاچیلنج کیا ،اس کی حقیقت کو بے نقاب کیااور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ نے کفر کی حکمرانی کو اس مادّی سہارے سے محروم کیاجواسے تحفظ فراہم کیے ہوئے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ذاتی طور پر ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جو جنگی طاقت رکھتے تھے اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ ایمان قبول کرنے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کو نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ ﷺ نے طویل سفر کیے، مشکلات اٹھائیں تا کہ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں قائم کرنے کے لیے نُصرۃ کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
رسول اللہ ﷺجن لوگوں سے نصرۃ کا مطالبہ کرتے تھے، ان کی مادّی قوت کو بھی معلوم کرتے تھے۔آپ ﷺ ان سے سوال کرتے تھے:((و هل عند قومك منعة؟)) "کیا تمھارے لوگ طاقت و اسلحہ رکھتے ہیں؟" اور آپﷺنےان لوگوں کی پیش کش کو قبول نہ کیاجن میں اسلام کے دشمنوں سے اسلام کا دفاع کرنے کی طاقت موجود نہیں تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے کئی قبائل سے ملاقاتیں کیں جن میں بَنُو كلب،بنوحَنِيفَةُ، بنو عامر بن صَعْصَعَة، بنو كنْدةُ اور بنوشيبان شامل تھے۔ اوررسول اللہ ﷺاسی طریقہ کار پر صبر و استقامت کے ساتھ کاربند رہے یہاں تک کے اللہ تعالی نے نصرۃ کے حصول میں کامیابی عطا فرمادی جب انصار کے ایک چھوٹے مگر مخلص اور اہلِ قوت گروہ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نبی کریم ﷺ کو نُصرۃ فراہم کر دی۔ لہٰذا اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرۃ کا حصول رسول اللہ ﷺ کی سنت اور طریقہ ہے، اس طریقے پر چل کر نبی ﷺ نے یثرب کے تقسیم شدہ معاشرے کو اسلام کے قلعے،مدینۃالمنورہ میں تبدیل کردیا۔
نوٹ: اس سیمینار کی تصاویر اور ویڈیوhizb-pakistan.comسے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک