بسم الله الرحمن الرحيم
سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-2)
https://www.al-waie.org/archives/article/19855
)عربی سے ترجمہ(
تحریر : لقمان حرز اللہ
چونکہ سیاسی تجزیئے کی بنیاد فہم پر ہوتی ہے نہ کہ تخیل پر، اس لئے یہ لازم ہے کہ ضروری معلومات کا اچھا خاصا مواد حاصل کیا جائے تاکہ فہم حاصل کیا جا سکے۔ سیاسی فہم کے لئے جن معلومات کی ضرورت ہوتی ہے اس کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم موجودہ حالات وواقعات کے بارے میں خبریں ہیں اور دوسری قسم ان واقعات سے جڑی ہوئی معلومات اور ان سے متعلقہ صورت حال ہے۔ اور اس دوسری قسم کی معلومات کو ہم سیاسی معلومات کے نام سے جانتے ہیں۔
سیاسی معلومات
سیاسی معلومات ایسی معلومات کو کہتے ہیں جو کسی واقعے سے جڑی ہوتی ہیں اور اس کے گرد وپیش کے واقعات، جس میں اس واقعے کا تاریخی پس منظر، سیاسی جیوگرافی، واقعہ سے جڑی ہوئی شخصیات، اس واقعے سے متاثر ہونے والے ممالک، اور ان کا باہمی تعلق۔ اور ان معلومات کو محض علمی طور پر نہیں لیا جاتا۔ بلکہ اس میں صرف سیاسی اہمیت کے حامل پہلوؤں کو پرکھا جائے گا۔
کسی واقعے سے متعلق سیاسی معلومات درج ذیل ہیں
اول: سیاسی جغرافیہ
کسی ملک کا محل وقوع، جغرافیائی خصوصیات اور اس کے وسائل اس کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور یہ سب اس ملک کے سیاسی واقعات کو سمجھنے میں ایک کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جو جغرافیائی لحاظ سے عالمی تجارتی راستوں پر واقع ہو تو وہ اس پوزیشن میں ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرے، یہ پہلو بذات خود اس ملک کو ایک بڑی طاقت بننے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو جغرافیائی اہمیت کے حامل گزرگاہوں کے قریب واقع ہو جیسا کہ سمندری گزرگاہ اور بحری راستے، تو وہ اپنے اس محل وقوع کی وجہ سے ان سمندری راستوں سے گزرنے والوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اپنے لئے دولت اکٹھی کر سکتا ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس وافر معدنی وسائل موجود ہوں، جیسا کہ تیل، سونا، نایاب معدنیات اور یورینیم وغیرہ تو بھی اس ملک کے پاس دولت اکٹھی کرنے اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی ملک کے نقل وحمل کے راستے بہت کٹھن اور دشوار ہوں تو یہ پہلو اس ملک کی دفاعی صلاحیتوں کو بہت بڑھا دے گا ...
دوئم : تاریخ
عالمی مسائل کا ایک تاریخی پہلو بھی ہوتا ہے جو موجودہ واقعات پر اثر انداز ہوتا ہے یا ایسا بھی ہے کہ موجودہ واقعات اپنے سے جُڑی تاریخ کی روشنی میں رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر یورپ اور روس کے تعلق کا جائزہ لیا جائے تو یہ قابل توجہ بات ہے کہ ان کے تعلق میں عداوت و دشمنی پائی جاتی ہے، ایک ایسی عداوت و دشمنی جس کی جڑیں تاریخ سے پھوٹتی ہیں۔ روس کے مغربی محاذ پر یورپی طاقتوں نے تین بار چڑھائی کی جو کہ اس تاریخی بغض کی ایک وجہ ہے۔
سوئم : لوگوں کے اوصاف
کسی ملک کا عمومی سیاسی رجحان اس کے لوگوں کے اوصاف سے الگ تھلگ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، اگر کسی علاقے کے لوگ محض اپنے معمولات کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں اور دوسروں کے امور کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو اس ریاست کی پالیسیوں کا جھکاؤ اقدامی جارحیت یا توسیع کی بہ نسبت دفاع پر زیادہ مرکوز ہوگا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ سیاسی تجزیہ کرتے وقت لوگوں کے اوصاف پر بھی خاص توجہ دی جائے۔
چہارم : عالمی منظرنامہ
یہ پہلو اس سے متعلق ہے کہ دنیا کے ممالک کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ جو ممالک عالمی منظر نامے پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ ایسے ممالک ہیں جن کی خارجہ پالیسیاں دوسرے ممالک پر اثر انداز ہونے کی قابلیت رکھتی ہیں۔ جب ایک یا ایک سے زیادہ ایسی طاقتیں ابھرتی ہیں جو عالمی امور پر اثر انداز ہو سکیں، تو وہ اس کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ ان عالمی تعلقات کی ہیئت کو بدل سکیں، اوریوں اس طرح عالمی منظر نامے کا نقشہ متعین کر سکیں۔ وہ ملک جو عالمی منظر نامے کا نقشہ کھینچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اسے دنیا کی صف اول کی طاقت سمجھا جاتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ اس ریاست کی نشاندہی کر لی جائے۔
جیسا کہ کوئی واقعہ صف اول کی ریاست کے علاوہ کسی اور ملک میں بھی پیش آسکتا ہے تو اس لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی حقیقت کو سمجھا جائے جس میں کہ یہ واقعہ پیش آیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس ملک کا اس عالمی طاقت کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ عالمی منظر نامے کو نظر انداز کر دینا یا واقعات کو اس بڑی عالمی طاقت سے جدا کرنا کسی بھی ذی شعور کے نکتۂ نظر کو محدود بنا دے گا جس سے فہم میں خامی پیدا ہوگی نتیجتاً ایک عالمی واقعہ محض مقامی وقوعہ بن کر رہ جائے گا۔
مثال کے طور پر، 2010ء میں نائیجر میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ حقیقت بخوبی جانی جاتی ہے کہ نائیجر فرانس کے زیر اثر تھا اور فرانس یورینیم نکالنے کے لئے نائیجر کا استحصال کرتا رہا ہے۔ نائیجر کی اس عسکری بغاوت میں فرانس کے ایجنٹ مامادوتنجو Mamadou Tandja کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔ اس وقت نائیجر ایک بڑی طاقت، یعنی فرانس کی تابع ریاست تھا جبکہ دنیا کی عالمی طاقت کا درجہ امریکہ کے پاس تھا جو افریقہ میں فرانس کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنا چاہتا تھا۔ جب ہم امریکہ کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے معزول صدر، تنجو کو قصوروار ٹھہرایا، نہ تو امریکہ نے اس کی بحالی کی بات کی اور نہ ہی تختہ الٹنے والوں اور بے دخل کئے گئے صدر کے درمیان کسی مفاہمت کی بات کی۔ یہ معلومات اس نتیجے کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس بغاوت کے پس پردہ امریکہ کا ہی ہاتھ تھا۔
پنجم: اس واقعہ سے متاثرہ ریاست کے حوالے سے سیاسی منصوبے
مثال کے طور پر، 2023ء میں جب سوڈان میں فسادات برپا ہوئے تو عالمی منظر نامے کو سمجھنے کے لئے، سوڈان کے عالمی سربراہ طاقت کے ساتھ تعلقات کو سمجھنا گرچہ خاصا اہم ہے لیکن فقط یہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ تجزیۂ کار سوڈان کے بارے میں تیار کئے گئے سیاسی منصوبوں کی بھی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ تو فوری طور پر ایک تاریخی منصوبہ ذہن میں آتا ہے: سوڈان کی تقسیم کا منصوبہ جس کی کڑیاں برطانوی استعماری دور سے جا ملتی ہیں، جہاں انتظامی تقسیم کو اس طرح سے تشکیل دیا گیا تھا کہ آئندہ مستقبل کی تقسیم کو آسان بنایا جاسکے۔ مغربی حلقوں میں اس منصوبے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
ایک اور تازہ ترین منصوبہ یہ ہے کہ یورپ کی یہ کوشش ہے کہ سول حکمرانی کے لئے دباؤ ڈال کر سوڈان کو اپنے زیر اثر لایا جائے، ایک ایسا منصوبہ جس نے اپنے مقاصد کی خاطر عمر البشیر کے خلاف سوڈانی انقلاب کا استحصال کیا۔ ایسے واقعات کا تجزیہ کرتے وقت ان سیاسی منصوبوں کو نظر انداز کر دینا غلط ہوگا۔ ان منصوبوں کی حقیقت کو پہچانے بغیر تجزیے میں گہرائی کا فقدان ہوگا اور تجزیہ بالکل مختلف اور ممکنہ طور پر غلط سمت اختیار کر جائے گا۔
ششم: ممکنہ قریب ترین صورتِ حال
جب اگر کسی ملک یا خطے میں کوئی واقعہ پیش آیا ہو اور عالمی منظر نامے کا ادراک بھی کیا جا چکا ہو اور اس واقعے سے متاثرہ ریاست اور دنیا کی سربراہ طاقت کے مابین تعلقات بھی جانچ لئے گئے ہوں اور اگر اس واقعے سے متعلقہ ریاست کے حوالے سے کوئی براہ راست سیاسی منصوبہ بھی نہ ہو تو پھر تجزیۂ نگار کو ممکنہ قریب ترین صورتِ حال پر غور کرنا چاہیٔے۔
مثال کے طور پر، جب امریکہ نے 2017ء میں آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ساتھ اپنے اتحاد کی تجدید کی اور یہ بات معلوم تھی کہ امریکہ ان میں سے کسی ملک کے لئے فرداً فرداً کوئی مخصوص سیاسی منصوبہ نہیں رکھتا لیکن یہ اتحاد اس دور میں بحال کیا گیا تھا جب امریکہ نے چین کو قابو میں کرنے کے لئے ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران شروع کیا گیا تھا اور اس کے بعد بھی جاری رکھا گیا تھا۔ تو پھر اس منصوبے کو ممکنہ قریب ترین صورتِ حال کے طور پر لازمی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یوں اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان ممالک کے ساتھ امریکہ کے اتحاد کی یہ تجدید چین پر قابو پانے کی امریکی کوششوں کے فریم ورک کے اندر رہ کر ہی وقوع پذیر ہوئی ہے۔
ہفتم: واقعہ سے براہ راست جڑی شخصیات
چونکہ افراد سے ہی سیاست مرتب ہوتی ہے اس لئے واقعات کی تشکیل سے براہ راست جڑی شخصیات کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ ان افراد کے رجحان کو سمجھ کر کوئی بھی بخوبی یہ جان سکتا ہے کہ واقعہ کس سمت جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر، غزہ پر 2023ء کی جنگ کے دوران یہودی وجود کا وزیراعظم، بینجمن نیتن یاہو تھا۔ اس وقت ہم بین الاقوامی تناظر اور ممکنہ قریب ترین صورتِ حال سے بھی باخبر تھے۔ تاہم اس بات پر بھی گہری نظر ڈالنا ضروری ہے کہ آخر نیتن یاہو کون ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ نیتن یاہو کے امریکہ میں اے آئی پی اے سی (AIPAC) کے ساتھ گہرے مراسم ہیں اور اسے ان کی حمایت حاصل ہے۔ نیتن یاہو ٹرمپ کے ریپبلکن کیمپ سے بھی منسلک ہے جو کہ اس وقت صدر بائیڈن کے خلاف کانٹے کا مقابلہ کر رہا تھا جبکہ امریکہ میں وہ وقت انتخابی سال کے الیکشنز کا تھا۔
نیتن یاہو کے پاس یہودی وجود کے لئے ایک ایسا سیاسی ایجنڈا تھا جو امریکی دو ریاستی حل سے متصادم تھا۔ اس نے غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان علیحدگی کو برقرار رکھنے کے لئے سرگرمی سے کام کیا۔ مزید براں اسے عدالت میں کرپشن کے الزامات کا سامنا بھی تھا۔ ان تمام حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ نیتن یاہو نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے ان معاہدوں میں رکاوٹیں کیوں ڈالیں جن پر عمل درآمد کروانے کے لئے امریکہ کوششیں کر رہا تھا۔ اگر نتین یاہو کی جگہ یہودی وجود کا کوئی اور وزیراعظم ہوتا، جو کہ یہودی وجود میں امریکہ کے وفادار ترین لوگوں میں سے ایک ہے، تب یہودی وجود کا رویہ شاید مختلف ہوتا۔
ہشتم : واقعہ سے استفادہ حاصل کرنے والے
کسی واقعہ سے کون فائدہ اٹھاتا ہے اس کے بارے میں مطالعہ مفید ہو سکتا ہے لیکن صورتحال کی حقیقت کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے دیگر ذرائع سے توثیقی ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو متعدد فریق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن میں کچھ نے ہو سکتا ہے اس کی منصوبہ بندی کی ہو جبکہ دیگر مستفید ہونے والے فریقین کا اس کی منصوبہ بندی میں کوئی دخل نہ ہو۔ لہٰذا اگر کسی کا فہم صرف اس بات کی پہچان پر مبنی ہے کہ کون فائدہ اٹھا رہا ہے تو یہ تجزیہ ناقابل اعتبار ہوگا جس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
سیاسی فہم کے لئے ضروری معلومات کی یہ اقسام ہیں اور ذیل میں ہم ان میں سے چند اقسام کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
خبروں کا تعاقب (متابعۃ الأخبار)
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں سیاسی فہم پیدا کرنے کے لئے معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان معلومات میں موجودہ صورتحال کی معلومات اور سیاسی معلومات دونوں کی خبر رکھنا شامل ہیں۔ خبروں کا تعاقب محض ایک سرسری نظر دوڑانے کے طور پہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ کسی بھی پیش رفت کے بارے میں دانستہ اور بامقصد طور پر باخبر رہنا چاہئے۔
عربی لغت میں لفظ ”متابعۃ‘‘ کے معنی تلاش میں لگ جانا، تعاقب کرنا، پیروی کے ہیں۔ اور یہ معنی پہلی چیز کو بعد میں آنے والی چیز سے جوڑنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے پچھلا قدم اگلے قدم کا تعاقب کرتا ہے۔ یہی اصول خبروں کے تعاقب پر بھی لاگو ہوتا ہے جس میں خبروں کو سننا اور پڑھنا دونوں شامل ہیں۔ خبروں کا تعاقب کرنے کا مطلب ہے کہ تمام اہم اور بظاہر معمولی نظر آنے والی خبروں کا تعاقب کیا جائے اور مفید معلومات کی تلاش کی کوشش کی جائے۔ ایک بظاہر غیر اہم رپورٹ میں کسی اہم واقعے سے جڑی معلومات ہو بھی سکتی ہیں اور نہیں بھی۔ چونکہ مبصر یہ نہیں جانتا کہ مفید معلومات کب اور کہاں نمودار ہوں گیں اس لئے اسے خبروں کی چھان بین پوری تندہی سے کرنی چاہیے۔
خبروں کا تعاقب کرنے والا شخص یا تو معلومات کے کسی خاص حصے کو تلاش کر سکتا ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ موجود ہے یا وہ ممکنہ طور پر کسی اہم اور مفید معلومات کو تلاش کر سکتا ہے۔ وہ معلومات جن کے وجود کے بارے میں گمان تب پیدا ہوتا ہے جب ذہن میں کسی واقعے کی نامکمل تصویر ہو اور اس تصویر کو مکمل کرنے کے لئے ایک خاص گمشدہ حصہ کی ضرورت ہو۔ اس صورت میں تلاش ایک ہدف کے ساتھ اور مخصوص ہو جاتی ہے۔ تاہم جب ذہن میں تصویر ابھی اپنی ابتدائی شکل میں ہو یا ابھی پوری طرح سے بنی نہ ہو تو کسی بھی اہم معلومات کے لئے وسیع پیمانے پر تلاش کرنی چاہیے، چاہے اس کے خدوخال ابھی تک واضح نہ ہوئے ہوں۔ اور جب ایک بار معلومات حاصل ہو جائیں تو ان کی اہمیت اس کی نوعیت سے پہچانی جائے گی۔
معلومات کے کچھ ایسے سیاسی حصے ہوتے ہیں جو خود واقعے کی بابت براہ راست بتا رہے ہوتے ہیں جبکہ کچھ اور حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جو سیاسی طور پر اس واقعہ سے متعلق ہوتے ہیں جیسا کہ اس واقعہ سے جڑی شخصیات کے بارے میں معلومات، واقعہ سے منسلک سیاسی منصوبہ یا ممکنہ قریب ترین صورتِ حال۔ یہ معلومات کی وہ اقسام ہیں جن کا اکٹھا کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ دوسری طرف ان زمروں میں نہ آنے والی معلومات جیسا کہ جذباتی کہانیاں یا ڈرامائی بیانیہ جو میڈیا ذرائع کے ذریعے محض ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے نشر کیے جاتے ہیں، ان کو نظر انداز کیا جانا چاہیے۔
ایک سیاسی محقق کی طرف سے آنے والی خبریں مختلف شکلوں میں آسکتی ہیں: کسی واقعہ اور اس سے متعلقہ پیشرفت کے بارے میں براہ راست رپورٹ کی صورت میں، یا کسی واقعہ اور اس سے مربوط تعلق کو بیان کرتے ہوئے ایک مضمون کی صورت میں یا ایک رائے کی صورت میں کہ جس میں ایک لکھاری واقعہ کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ اور یہاں کسی سیاسی تجزیہ نگار کے لئے یہ فرق کرنا ضروری ہے کہ اس مواد سے کیا لینا چاہیے اور کن امور کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔
خبر کو سننے یا پڑھ لینے کے بعد ایک دانشمندانہ انداز میں اس کی درجہ بندی کی جانی چاہیے یعنی کہ آیا یہ معلومات محفوظ رکھنی ہے یا کہ اسے نظر انداز کرنا ہے۔ جو معلومات محفوظ رکھنی ہیں وہ ایسی معلومات ہیں جو اس واقعہ سے براہ راست منسلک ہوں۔ واقعہ سے غیر متعلقہ کوئی بھی معلومات نیز کسی بھی تجزیہ یا رائے کو ایک طرف کر دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سیاسی تجزیہ کار کو اپنا تجزیہ آزادانہ طور پر خود کرنا چاہیے اور اسے کسی اور کی تعبیر پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک رائے لکھنے والا لکھاری وہی سیاسی افکار رکھتا ہو جو ایک تجزیہ نگار کے ہوتے ہیں۔ درحقیقت بہت سے تجزیہ نگار مفروضوں، قیاس آرائیوں یا محض منطق کی بنیاد پر اپنے خیالات کی بنیاد رکھتے ہیں، اور حتیٰ کہ کچھ تجزیہ نگار تو دانستہ طور پر گمراہ بھی کرتے ہیں، جبکہ دیگر تجزیہ نگار اس واقعہ کے ایک رخ یا جذباتی رد عمل پر مبنی تاثرات کو اپنے نکتۂ نظر پر اثر انداز ہونے دیتے ہیں۔
لہٰذا براہ راست خبریں اور وضاحتی مضامین، کسی تجزیہ نگار کی رائے کے مقابلے میں زیادہ قدر کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اس رائے میں بھی اہم معلومات ہوں جو اس لکھاری نے کہیں سے حاصل کر لی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لکھاری خبروں کے ذرائع کا حصہ بنے رہتے ہیں گوکہ وہ رائے براہ راست خبروں کی رپورٹوں اور تجزیوں کے مقابلے میں کم ترجیح رکھتی ہیں۔
جہاں تک ان ذرائع کا تعلق ہے جن سے ایک سیاسی تجزیہ نگار خبریں اور مضامین اکٹھی کرتا ہے تو وہ باوثوق نیوز چینلز اور معتبر اخبارات ہونے چاہیئں یعنی وہ ذرائع جو اپنی رپورٹس کے لئے مستند جانے جاتے ہوں۔ تاہم ایک سیاسی تجزیہ نگار کو ان ذرائع کی خبروں پر اندھا اعتماد نہیں کر لینا چاہیے انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مقصد مفید معلومات کی تلاش ہے جو ان میڈیا ذرائع سے حاصل ہو بھی سکتی ہیں اور نہیں بھی۔
یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ان چینلز اور اخبارات کے میلان اور ان کی طرفداری پر بھی نظر رکھی جائے، کیونکہ قدامت پسند اشاعتیں دائیں بازو کے طرز نظر کے مطابق خبریں پیش کر رہی ہوتی ہیں اور یہی حال بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے میڈیا ذرائع کا ہے۔ ایک ہی معلومات کو دونوں طرف سے رپورٹ کیا جا سکتا ہے لیکن ہر کوئی اسے مختلف نکتۂ نظر سے پیش کرے گا۔ چنانچہ تجزیہ نگار کو متعصب لسانی فریمنگ کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔
مضمون کے لکھاری پر بھی توجہ دینی چاہئے، کچھ لکھاری اور صحافی واضح طور پر کسی واقعہ یا اس واقعے سے متعلق اہم شخصیات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنی رپورٹنگ کی درستگی کے بارے میں پختہ عزم ظاہر کرتے ہیں۔ جب ان کے مضامین اور خبروں کو پڑھنے کی بات آتی ہے تو یہ لکھاری دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔
ایک سیاسی تجزیہ کار کو ان شخصیات کی طرف سے جاری کردہ ہر خبر کا تعاقب کرنا چاہیے جو واقعات میں یا تو براہ راست ملوث ہوں یا اس کے متاثرین میں سے ہوں۔ مثال کے طور پر، اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور امریکی وزیر خارجہ اس کے بارے میں پریس کانفرنس کرتا ہے تو تجزیہ نگار کو اس کانفرنس کو ضرور سننا چاہئے۔ یہی بات امریکہ کے صدر، قومی سلامتی کے مشیر، وائٹ ہاؤس کے ترجمان اور اس واقعے کی تشکیل میں شامل دیگر افراد کے بیانات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امریکہ اس وقت دنیا کی صف اول کی طاقت ہے اور مشرق وسطیٰ پر ایک وسیع کنٹرول رکھتا ہے۔
بسا اوقات ہمیں حکام کے بیانات میں یا ان کے قول و فعل میں تضاد نظر آسکتا ہے۔ اس مخمصے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ درست معلومات کو بھٹکانے والے بیانات سے الگ کیا جائے۔ یہ کام اس سیاق کو سباق کا جائزہ لے کر کیا جا سکتا ہے جس میں کوئی بھی بیان دیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر، اگر امریکی صدر دو بظاہر متضاد بیانات دے جس میں ایک بیان قصداً امریکی عوام کے لئے ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا بیان اس مسئلے یا واقعے کی طرف ہو۔ جب ہر بیان کو اس کے مناسب سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ طے کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ معاملے کا کون سا درست رخ ہے اور کون سا رخ بھٹکانے والا ہے۔
مزید براں یہ ضروری ہے کہ زبانی بیانات کا موازنہ حقیقت میں انجام پائی گئی کاروائیوں کے ساتھ بھی کیا جائے۔ ایسا اس لئے ہے تاکہ میسر معلومات کی روشنی میں ان کاروائیوں کا موازنہ کیا جا سکے اور اس مخصوص واقعہ یا خطے کے حوالے سے بیان جاری کرنے والی ریاست کے مقاصد کا بھی۔ اگر کوئی بیان وسیع سیاسی منصوبے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو جبکہ عمل اس سے متضاد ہو تو بیانیہ ممکنہ طور پر سچا ہوگا اور کاروائی کا مقصد محض دھوکہ دہی۔ اس کے برعکس، اگر وہ اقدام منصوبے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو جبکہ بیان اس کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو تو وہ کاروائی سچ ہے اور بیان بھٹکانے والا ہو گا۔ مختصر یہ کہ خبر کو مجموعی سیاق و سباق یا اس کے گرد وپیش میں موجود وسیع تر منظرنامے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
انجام دئیے گئے افعال میں بھی دھوکہ دہی ویسے ہی پائی جاتی ہے جیسے الفاظ میں اور اسے پہچاننا ایک سیاسی تجزیہ نگار کی بنیادی مہارتوں میں سے ایک ہے جو اس کے پاس ہونی چاہئے۔ ایک غیر مسلم سیاست دان دھوکہ دینے کے لئے جھوٹ بول سکتا ہے لیکن ایک مسلمان سیاستدان جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی بجائے وہ دانستہ ایسا اندازِ بیاں استعمال کر سکتا ہے جس سے قریب کے معنی کی طرف اشارہ ہوتا ہو جبکہ درحقیقت زیادہ دور کے معنی یا اس سے بھی گہرے چھپے ہوئے معنی کا ارادہ ہو۔
مثال کے طور پر، رسول اللہ ﷺ بعض اوقات کسی فوجی مہم کو اس کے حقیقی ہدف کی بجائے کسی اور سمت میں بھیجتے اور جب وہ مہم کسی ایسے مقام پر پہنچ جاتی جہاں سے دشمن خود کو محفوظ سمجھنے لگتا اور یہ فرض کر لیتا کہ اس مہم کا مطلوبہ ہدف وہ نہیں ہے تو آپ ﷺ مہم کو اس کے اصل ہدف کی طرف موڑ دیتے۔ سیاسی کاروائیوں میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے جیسا کہ فوجی کاروائیوں میں ہوتا ہے۔
خبروں کا تعاقب کرنا، درست خبر کا انتخاب کرنا اور اسے کھنگال کر الگ کر لینا جو مفید ہو، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے لیے مشق اور تجربے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ اس میں مہارت حاصل ہو جائے اور یہ عمل تجزیہ نگار کے لئے آسان ہو جائے۔
(جاری ہے ...)