بسم الله الرحمن الرحيم
امت ایک زندہ حقیقت ہے جو کبھی فنانہیں ہوتی … اور ہر نئی بیداری سے قبل ایک کٹھن مرحلہ لازمی آتا ہے
https://www.al-waie.org/archives/article/19937
الوعی میگزین، شمارہ نمبر 469
انتالیسواں سال
صفر الخیر 1447ھ
بمطابق اگست 2025ء
تحریر : عبد المحمود العامري – ولاية اليمن
اسلامی امت میں جو پھوٹ اور تقسیم واقع ہوئی، یہ کوئی اتفاقیہ امر نہ تھا۔ بلکہ یہ ایک شدید دھچکے کا نتیجہ تھا جس نے امت کا سر کاٹ کے رکھ دیا تھا، یعنی خلافت۔ امت کا سیاسی نظام ڈھیر ہو گیا، حکومتی ڈھانچہ مفلوج ہو کر رہ گیا، اور اس کے جوڑ جوڑ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ اُمّت ایک بھاری دیوہیکل وجود کی طرح نیچے آن گری ، جس کی آنکھیں بے نور ہو کر زمین پر خالی تکتی رہیں اور اس کے برج ڈھے گئے۔ بہت سے جاہل اور غدار لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ قوی ہیکل دیو ہمیشہ کے لئے فنا ہو گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امت کا دل اب بھی دھڑک رہا ہے، نہ تو یہ رکا ہے اور نہ ہی یہ مر گیا ہے۔
خلافت کا خاتمہ تاریخ کا کوئی عام واقعہ نہ تھا بلکہ یہ امتِ مسلمہ پر ہمارے نبی ﷺ کی بعثت کے بعد سب سے بڑی سیاسی تباہی تھی۔ خلافت کی عدم موجودگی کا مطلب اسلامی احکام کا تعطل، حکمرانی سے شریعت کی بےدخلی، امت کی وحدت کا پارہ پارہ ہونا اور امت کی گردنوں کو کافر استعماریوں کے آگے جھکا دینا تھا۔
خلافت کا انہدام آخر کیسے ممکن ہوا؟
عثمانی خلافت اگرچہ اپنے آخری دور میں کمزور ہو گئی تھی، مگر یہ مسلمانوں کو ایک رایہ کے جھنڈے تلے جمع کرنے والی آخری سیاسی چھتری تھی، جو انہیں اللہ کی شریعت کے مطابق حکمرانی دے رہی تھی اور مسلمانوں کے علاقوں کا دفاع کر رہی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی کفار کی طاقتیں، برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے ریاستِ خلافت کا خاتمہ کرنے کی سازشوں میں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ ان کا سب سے خطرناک ایجنٹ مصطفیٰ کمال تھا، اس پر اللہ ﷻ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، جس نے جنگِ عظیم اول کے بعد خلافت کے انہدام کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تھا۔اس نے اپنے آپ کو ترک فوج کا کمانڈر قرار دیا اور ایک ’’جعلی آزادی‘‘ کی مہم کی قیادت کی۔ پھر خلافت کے خلاف بغاوت کی اور 3 مارچ 1924ء کو ترک پارلیمنٹ کے حکم کے ذریعے خلافت کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا۔ تمام وہ لوگ جنہوں نے اس کی مخالفت کی، انہیں یا تو قید میں ڈال دیا گیا یا پھر ملک بدر کر دیا گیا۔
خلافتِ عثمانیہ کے زوال کی وجوہات میں سے:
ہم کہتے ہیں کہ برطانوی ایجنٹ مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کے باضابطہ خاتمے کا فیصلہ محض ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا، بلکہ یہ ایک ایسا تہذیبی زلزلہ تھا جس نے امت کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب کفار نے اس کے خلاف سازش کی اور امت کے وجود میں پائی جانے والی ان مہلک خامیوں سے فائدہ اٹھایا، یعنی داخلی سطح پر ریاست کی کمزوری، اس کے اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، انتظامی کرپشن کا پھیلاؤ، سیاسی و شرعی اجتہاد کی عدم موجودگی، اور ریاست کا صلاحیت اور قابلیت کے بجائے ذاتی وفاداریوں پر انحصار کرنا۔
شاید ان وجوہات میں سب سے نمایاں یہ ہیں:
اسلام کے فہم کی کمزوری:
مسلمانوں کا اپنے دین کا فہم اس وقت کمزور ہو گیا جب مفاہیم کو عملی زندگی سے کاٹ دیا گیا۔ اسلام بغیر کسی نظامِ حیات کے محض رسومات بن کر رہ گیا۔ خالی وعظ و نصیحت ہی رہ گئے، مگر ان کا عملی اطلاق نہ رہا۔ لوگوں نے اسلام کو ایک مکمل دین اور ریاست کے طور پر سمجھنا چھوڑ دیا۔ شرعی فقہ فقط طہارت اور عبادات تک محدود ہو گئی، جبکہ حکومت، معیشت اور معاشرے کو خواہشات، نفس اور اجنبیوں کی نقالی کے سپرد کر دیا گیا۔ لوگوں کی نگاہ میں اسلام ایک خواب بن کر رہ گیا، اور کج رویاں بڑھتی چلی گئیں۔ مسلمانوں کی زندگیوں میں اسلام محض انفرادی عبادات کا مجموعہ بن کر رہ گیا، نہ کہ ایک سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام جو کہ نظامِ حیات پر حکمرانی کرتا۔ شریعت کے احکام مٹتے چلے گئے اور شریعت کا نفاذ معدوم ہو گیا۔
مسلمان ممالک میں مغربی ثقافتی یلغار:
مغرب نے کوئی گولیاں نہیں برسائی تھیں بلکہ ایسی کتابیں، افکار اور نصاب پھیلائے جنہوں نے مسلمان کے اذہان کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مغرب نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ اس کی تہذیب عقلی ہے اور اسلام ہی سے ماخوذ ہے، اور یہ کہ جمہوریت اسلام کے خلاف نہیں ہے! بعض مفکرین دھوکے میں آ گئے اور امت نے یہ سمجھ کر اپنے دین کو ترک کرنا شروع کر دیا کہ وہ ترقی کر رہی ہے۔ مغرب اپنے افکار اور اقدار کے ساتھ داخل ہوا اور امت کو اس وہم میں مبتلا کر دیا کہ اس کا احیاء مغربی تہذیب سے ہی اخذ کردہ ہے، اور مغرب نے قوم پرستی، جمہوریت اور سیکولرازم کی اقدار کو پھیلایا، یہاں تک کہ بہت سے مسلمان نادانستہ طور پر اپنے استعماری آقاؤں کے ان اسباب کا دفاع کرنے لگے۔ ان مغربی ممالک میں سب سے نمایاں برطانیہ، فرانس اور روس تھے جنہوں نے خلافتِ عثمانیہ کو توڑنے کی منصوبہ بندی کی، علیحدگی پسند تحریکوں کو سہارا دیا اور ہر کمزوری سے فائدہ اٹھایا تاکہ خلافت کو اندر سے ہی ضرب لگائی جا سکے۔
ایجنٹوں اور جاسوسوں کا کردار
ان ایجنٹوں میں سب سے نمایاں نام مصطفیٰ کمال کا تھا، جسے 1924ء میں خلافت کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس نے اس کام کو ’’اصلاح اور جدت‘‘ کے نام پر انجام دیا، حالانکہ حقیقت میں وہ مغرب کا ایجنٹ تھا جو تباہی کے منصوبے پر عمل پیرا تھا۔
سیاست کو عسکری شکل دینا:
عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجائے بعض گروہوں اور لیڈروں نے اقتدار پر قبضے کے لئے فوجی طاقت استعمال کی۔ اس سے جائز قیادت کے شرعی احکام کو زک پہنچی اور یہ مزید تقسیم کا سبب بنے۔ بیعت (خلیفہ کے لیے اطاعت کا عہد) کا تصور بے معنی ہو گیا، خلافت کے لئے درکار صحیح شرائط پوری نہ ہو سکیں اور حالات بگڑنے لگے۔ عوام کمزور ہوتے گئے اور حکمرانوں کا محاسبہ کرنے سے دور ہٹا دیے گئے۔
خلفاء کی نرمی اور ولایہ کے والیوں کی فکر نہ کرنا،
جیسا کہ شام اور اندلس میں والیانِ ریاست کو مرکزِ خلافت سے آزاد ہونے کی چھوٹ مل گئی۔ اس سے سیاسی وحدتِ اسلام کی حرمت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور ’’علاقائی ریاست‘‘ کا تصور پیدا ہوا۔ اس نے مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ 1924ء میں خلافت کے باضابطہ خاتمے کے بعد امت کو مزید تقسیم کر کے اپنے قبضے میں لے۔ یوں امت ایک رکھوالے کے بغیر ٹکڑوں میں بٹ گئی، جس کی نہ تو کوئی ریاست تھی جو اسے متحد کرتی اور نہ ہی اس کے پاس کو ئی فوج تھی جو اس کی مدد کرتی۔
والیان (گورنروں) کو حد سے زیادہ اختیارات دینا:
گورنروں کو بے لگام اور وسیع اختیارات دینے سے ان کی خودمختاری کی خواہش بڑھنے لگی۔ وہ آزادانہ فیصلے کرنے لگے اور خلافت کے خلاف ہی بغاوت کرنے لگے۔ اس طرح ولایات چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بدل گئیں اور ریاست کی وحدت بکھر گئی، جس نے اسلام کے دشمنوں کو مداخلت، کنٹرول اور بالآخر تباہی کا موقع فراہم کیا۔ ان کی طاقت اور وسعت کی خواہش نے انہیں آزاد حکمرانوں کی طرح برتاؤ کرنے پر مجبور کیا، جس سے خلافت کی دھاک اور عظمت کو نقصان پہنچا۔
فوجی قیادت سے متعلق اسلامی تصورات کا استعمال، لیکن فکری مفاہیم کا نظرانداز کر دینا، خصوصاً عثمانی فتوحات کے دوران۔ یہاں توجہ فوجی توسیع پر رہی لیکن امت کو اسلام کے فکری اور سیاسی منصوبے پر تربیت نہ دی گئی۔ یوں پیغام کی اصل غایت اور اسلامی دعوت کو لے کر چلنے کا مقصد ہی کھو گیا۔
اجتہاد کا باب بند کرنا :
ریاست اور معاشرے کے امور میں اجتہاد کو منجمد کر دیا گیا اور ذہن اسلامی دائرے کے اندر تخلیقی کام انجام دینے سے رک گئے۔
سائنسی اور صنعتی پسماندگی :
یورپ آگے بڑھتا گیا جبکہ خلافتِ عثمانیہ پیچھے رہ گئی، جس سے احساسِ کمتری اور اندرونی شکست خوردگی میں اضافہ ہوا۔
علاقوں کا نقصان اور عدم ردِ عمل:
دشمنوں نے جرأت کر کے اسلامی ریاست کے علاقے چھین لیے، جیسے ایران، بلقان اور جزیرۂ عرب، اور اس پر کوئی بڑا ردعمل نہ ہوا۔ اس سے داخلی اور خارجی سطح پر خلافت کی ساکھ متأثر ہو گئی۔
امت کے شعور کو مسخ کرنا اور عیسائی فتوحات کی راہ ہموار کرنا:
’’انسانیت، تعلیم اور امداد‘‘ کے نعروں کے تحت عیسائی مشنری داخل ہوئے، جنہوں نے انتشار پھیلایا اور امت کی اپنی ہی اولاد کو مغربی نظریات، یورپی تعلیم اور لبرل و جمہوری افکار کے ذریعے اس کے اپنے دین اور امت کے خلاف تیار کیا۔ خلافت کو ’’پسماندہ اور ظالمانہ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔
قوم پرستی کا ابھار:
عرب، ترک، کرد اور آرمینی اقوام سمیت امت میں قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکایا گیا، اور علیحدگی پسند تحریکیں قائم کی گئیں۔ مسلمانوں کے لئے ’’آزادی‘‘ اور ’’آزادیٔ وطن‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ یوں عقیدہ کا رشتہ توڑ کر قومی رشتہ قائم کیا گیا، تاکہ خلافت کو توڑ دیا جائے۔
یہودی و صہیونی دراندازی :
یہود نے یورپی فنڈنگ، منصوبہ بندی اور تعاون کے ساتھ امت کی تقسیم کے اس منصوبے میں فعال کردار ادا کیا اور داخلی تباہی کے لئے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوئے۔
اسلامی بنیاد پر قائم باشعور سیاسی جماعت کا فقدان:
اس دور میں مسلمان ایسی کسی باضابطہ سیاسی جماعت سے محروم تھے جو امت کو بکھرنے سے روک سکتی یا فوری طور پر دوبارہ کھڑا کر سکتی۔
مقامی لیڈران کی غداری:
ان میں سب سے نمایاں شریف حسین تھا جس نے نام نہاد ’’عظیم عرب بغاوت‘‘ میں برطانیہ سے اتحاد کیا اور ایک ’’عرب بادشاہت‘‘ کے جھوٹے وعدے کے عوض خلافت کی تباہی میں آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوا۔
پہلی جنگِ عظیم:
خلافتِ عثمانیہ نے جنگِ عظیم اول میں جرمنی کا ساتھ دیا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہی وہ جواز تھا جس کی بنیاد پر خلافت کی میراث کو تقسیم کرنے اور پھر جو کچھ باقی تھا اُسے ختم کرنے کا بہانہ بنایا گیا۔ خلافت کی تباہی میں براہِ راست برطانیہ کا کردار سب سے نمایاں تھا، جس نے قوم پرست تحریکوں کو سہارا دیا، ایجنٹ پیدا کیے اور قوم پرستی و ’’سول ریاست‘‘ کے مغربی تصورات کو پھیلایا۔
خلافت کے خاتمے کے بعد… کس نے غداری کی اور کس نے گمراہ کیا؟
خلافت کے انہدام کے بعد کافر استعمار کے لئے یہ دروازہ کھل گیا کہ وہ امت میں فساد پھیلائیں اور اس کے سیاسی نقشہ کو اپنے مفاد کے مطابق نئے سرے سے مرتب کریں۔ تاریخ اور دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوم پرست اور وطن پرست تحریکوں نے اس جرم کی کمان سنبھالی ۔ امت کی وحدت اور حرمت کا دفاع کرنے کے بجائے انہوں نے غیر ملکی طاقتوں کی خدمت کی، امت کو تقسیم کیا اور ’’آزادی‘‘ اور ’’خودمختاری‘‘ کے نام پر اسلام سے ہی جنگ لڑی۔
سیاسی متفقہ رائے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں، عرب، فارسی، ترک قوم پرست، اور ’’قومی آزادی‘‘ کے علمبردار وغیرہ، ان کی حیثیت استعماری طاقتوں کے ہاتھوں آلۂ کاربنے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھی۔ انہوں نے ان کے منصوبے نافذ کیے، باہمی نفاق کے بیج بوئے اور ایسی حکومتوں کو جواز فراہم کیا جنہیں اسلام سے کوئی سروکار نہ تھا۔ خلافت کے خاتمے کے پس پردہ خفیہ راز یہ عیاں کرتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی اور مقامی سطح پر کس قدر بڑی سازش تیار کی گئی تھی۔ اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ رونما ہوا وہ محض ایک سیاسی تبدیلی نہ تھی بلکہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایک سوچی سمجھی ہوئی سازش تھی۔ ان خفیہ رازوں میں سب سے اہم یہ ہیں :
ایجنٹوں کو قوم پرست بنا کر پیش کرنا:
برطانیہ کی قیادت میں مغرب نے خلافت کو یونہی براہِ راست ختم نہیں کر دیا بلکہ ’’قوم پرستی‘‘ کے لبادے میں ایجنٹ پیدا کیے، جیسے مصطفیٰ کمال، جنہیں ’’آزادی اور خودمختاری‘‘ کے علمبردار کے طور پر پیش کیا گیا۔ درحقیقت وہ اسلامی حکم کو ختم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کرنے والے آلۂ کار تھے۔ پسِ پردہ تو برطانیہ ہی تھا جبکہ مصطفیٰ کمال اوراس کے کارندے برطانیہ کے معاون تھے۔ برطانوی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ مصطفیٰ کمال نے ان کے ساتھ براہِ راست رابطہ رکھا اور اسے برطانیہ کی بھرپور مدد حاصل تھی۔ حتیٰ کہ آج بھی بعض مغربی سیاستدان یہ اقرار کرتے ہیں کہ انہوں نے خلافت کو مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ختم کروایا تھا۔
مغرب کا قوم پرست اور سیکولر تحریکوں سے اتحاد:
امت کی وحدت کو ختم کرنے کے لئے ترک اور عرب قوم پرستی کو ہوا دی گئی۔ قوم پرستی نے ٹکڑوں میں بانٹ دیا جبکہ خلافت نے وحدت دی تھی۔ ان تحریکوں کو مالی امداد، ذرائع ابلاغ اور تربیت فراہم کی گئی۔ امتِ مسلمہ کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی دراصل انہی منافق ایجنٹوں کے ہاتھوں عمل میں آئی، جو قوم پرستی اور وطن پرستی کے بھیس میں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نے امت کے حصے بخرے کر دئیے، اور ایک متحد ریاست کو کسی قیادت، عزم ، اور عزت کے بغیر بے سروسامان اکائیوں میں بدل ڈالا۔
سیاسی وار سے پہلے فکری حملہ:
خلافت کو ختم کرنے سے قبل، مسلمانوں کے ذہنوں میں خلافت کے تصور کو بگاڑ دیا گیا۔ دین اور ریاست کی جدائی کو فروغ دیا گیا، جہاد، شوریٰ اور خلافت کے معانی کو اس قدر مسخ کر دیا گیا کہ مسلمان ان کی قدر و قیمت کو سمجھنا چھوڑ بیٹھے۔
خلافت کے خاتمے کا وقت سوچ سمجھ کر منتخب کیا گیا:
پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب خلافتِ عثمانیہ تھک چکی تھی، اس کے علاقوں پرقبضہ ہو گیا تھا اور معاہدۂ لوزان کی ذلت مسلط کر دی گئی تھی، تو انہوں نے مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
علماء کی خاموشی اور ناکامی:
بہت سے علماء خاموش رہے، کچھ نے تو اس عمل کو جائز قرار دے دیا، اور کچھ فروعی مسائل میں الجھے رہے جبکہ اسلام کا سر کاٹا جا رہا تھا۔ چند علماء نے خلافت کے خاتمے کی مذمت کی مگر جلاوطن یا قتل کر دیے گئے۔
خلافت کے خاتمے کے بعد اسلام کو دبانا اور اس کے سرچشمے خشک کرنا:
خلافت کے خاتمے کے بعد مصطفیٰ کمال نے دینی مدارس بند کر دیے، مساجد کو عجائب گھر میں بدل دیا، عربی میں اذان دینے پر پابندی لگا دی، قرآن کو لاطینی رسم الخط میں لکھوایا، عوامی سطح پر حجاب کو ختم کیا اور شریعت کی جگہ سوئس قانون نافذ کر دیا!
امت کے دوبارہ ابھرنے کا خوف:
مغرب جانتا ہے کہ اسلام کبھی فنا نہیں ہو پائے گا، اسی لئے ضروری تھا کہ خلافت کو ختم کر دیا جائے اور اس کے قیام کے لئے کام کرنے والوں سے جنگ کی جائے تاکہ وہ نئی ابتدا نہ کر سکیں۔ آج بھی مغرب خلافت کے ذکر سے ہی کانپ اٹھتا ہے۔
کئی تحریکوں نے خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہوئیں، کیونکہ انہوں نے اسلامی طریقہ اختیار کئے بغیر قوم پرستی، وطن پرستی، سیکولرازم یا جمہوریت کے راستے پر چل کر امت کے احیاء کی کوشش کی۔ یہ سب کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، بالکل ایسے جیسے کوئی کسی زندہ انسان کی میراث تقسیم کرنے لگے!
بنیادی اصول یہ ہے کہ شریعت کا طریقہ سب سے اولین ہے۔ وہ عمل جو اللہ ﷻ کے حکم پر مبنی نہ ہو، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «كُلُّ عَمَلٍ لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» ”ہر وہ عمل جو ہمارے حکم پر مبنی نہ ہو، وہ مردود ہے“ (صحیح مسلم)۔ یہ صریح نبوی اصول اس دروازے کو بند کر دیتا ہے جو اسلامی طریقہ اور شریعت کے علاوہ کسی اور عمل کی طرف کھلتا ہے، چاہے وہ بظاہر کتنا ہی مفید یا شاندار کیوں نہ لگے۔ یہی وہ معیار ہے جس پر امت اپنے اعمال، تحریکوں، منصوبوں بلکہ نیتوں تک کو پرکھتی ہے۔
اگر ہم دیانت داری سے ان تمام قومی، علاقائی اور قوم پرستانہ تبدیلی کی تحریکوں کا جائزہ لیں جو ماضی میں اٹھیں اور آج بھی سرگرم ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انحراف صرف نتائج میں ہی نہیں بلکہ بنیادوں اور طریقۂ کار میں بھی ہے۔ یہ تحریکیں نہ تو اللہ ﷻ کے لئے اخلاص رکھتی تھیں جیسا کہ وہ ظاہر کرتی ہیں، اور نہ ہی اسلامی عقیدہ سے پھوٹی تھیں۔ بلکہ یہ مغربی استعماری افکار سے پیدا ہوئیں، اور مغرب زدہ لوگوں نے انہیں مزین کیا تھا۔
وہ تحریکیں خود دلدل میں کھڑے ہو کر اسے بدلنا چاہتی تھیں، مگر خود اسی میں ہی ڈوب گئیں۔یہ معاملہ کسی دوسرے رائے کا احترام کرنے یا کسی کی کوششوں پر فیصلہ دینے کا نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنے کا ہے کہ ان کا طریقہ کتنا انحراف پر مبنی ہے، ان کا منہج کتنا غلط ہے اور ان کے انجام کا خطرہ دنیا و آخرت میں کتنا بڑا ہے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ ان کے پیروکار جو ابھی تک الجھے ہوئے ہیں، حقیقت کو جان سکیں، سیدھی راہ پر لوٹ آئیں اور توبہ کریں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ کیونکہ یہی وہ ہیں جنہوں نے اس سرمایہ دارانہ نظام کی عمر بڑھائی ہے اور اب بھی بڑھا رہے ہیں۔
اگرچہ اسلامی تحریکوں کے بعض افراد نے اچھی نیت اور کچھ کوشش تو کی، مگر منہج کی غلطیوں، جاہلی نظاموں کی طرف جھکنے یا کافر عالمی نظام کے آلۂ کاروں میں ضم ہو جانے کی وجہ سے اپنی سمت کھو بیٹھے۔ یہ تحریکیں مختلف منہج اور وژن کے ساتھ ابھریں:
• اصلاحی تحریکیں: جو موجودہ حقیقت کو جڑ سے بدلے بغیر بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
• تصوف اور عبادات پر مبنی تحریکیں: جنہوں نے خود کو سیاست سے الگ رکھا ہوا ہے۔
• جہادی تحریکیں: جنہوں نے غلطیوں کا مقابلہ تو کیا مگر مکمل سیاسی منصوبے کا فقدان رہا۔
• آئینی تحریکیں: جو ظالم حکمرانوں کے ساتھ مل گئیں۔
• وہ انقلابی تحریکیں: جو بیدار سیاسی بصیرت کی عدم موجودگی کی وجہ سے مطلوبہ تبدیلی لانے میں ناکام رہیں۔
• روایتی تحریکیں، جیسے سلفیت اور جمعیت برائے احیائے ورثہ۔
یہ حقیقت جس میں ہم آج جی رہے ہیں کسی سطحی تبدیلی کی نہیں بلکہ انقلابی تبدیلی کی متقاضی ہے۔ درحقیقت، امت میں اس طرز پر صرف حزب التحریر ہی کام کر رہی ہے۔ یہ جماعت 1950ء کی دہائی میں جامعۃ الازہر کے عالم اور فقیہ شیخ تقي الدين النبهاني رحمه الله نے قائم کی۔ حزب نے اسلامی ریاست کے قیام میں رسول اللہ ﷺ کے منہج کو اختیار کیا، جو کہ ہتھیار اٹھانے یا موجودہ کفریہ نظاموں کا سہارا لینے کی بجائے سیاسی بیداری پیدا کرنے، اپنے شباب اور عوام کی تربیت کرنے، اور اہلِ قوت و نصرۃ یعنی فوجی طاقت اور حفاظت رکھنے والوں سے نصرۃ طلب کرنے پر مرکوز تھا۔ حزب نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے یا رعایت کو مسترد کر دیا، اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو اپنے عملی راستے کا رہنما بنایا: «يَا عَمِّ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِي يَمِينِي وَالْقَمَرَ فِي شِمَالِي عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يُظْهِرَهُ اللَّهُ أَوْ أَهْلِكَ فِيهِ مَا تَرَكْتُهُ» ”اے چچا! اللہ کی قسم، اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں اس شرط پر کہ میں اس معاملے کو چھوڑ دوں، تو بھی میں اسے ہرگز نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ اسے غالب کر دے یا میں اس میں فنا ہو جاؤں“۔ اگرچہ ایجنٹ حکومتوں نے سنجیدہ اسلامی عمل کی تصویر کو مسخ کرنے کی کوشش کی، ایسے معتدل مذہبی گروہ پیدا کیے جو حکومتوں کی حمایت کریں، حقیقی تبدیلی کو روکیں اور حق کی دعوت دینے والوں سے لڑیں، لیکن حزب التحریر اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہی۔ حزب نے اپنے منہج میں نہ تو کوئی تبدیلی کی، نہ جھکاؤ دکھایا، اور نہ ہی کسی دباؤ کے آگے جھکی، چاہے وہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو۔ حزب نے اپنے منہج کا شرعی جواز ان حکمران حکومتوں سے نہیں لیا بلکہ صرف اسلام سے ہی لیا ہے۔
لہٰذا ہر وہ عمل جو اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق نہ ہو، پس وہ مسترد ہے۔ خالص اسلامی منہج ہی نقطہ آغاز، سمت نما اور راستہ ہونا چاہیے۔ اب بس بہت ہو چکا کہ امت گمراہی کے راستے پر بھٹکتی رہے اور استعماری نگرانی میں الجھتی رہے۔اسلامی امت پر خلافت کے خاتمے کی جو تباہی نازل ہوئی وہ یونہی اچانک رونما ہونے والا کوئی واقعہ نہ تھا، بلکہ اس سے پہلے زوال کو روکنے کی کئی کوششیں بھی ہوئیں۔
تاہم یہ سب کوششیں ایک بنیادی وجہ سے ناکام ہوئیں: درست فکر، صحیح منہج اور شرعی سیاسی بصیرت کا فقدان ہونا۔شیخ تقی الدین النبھانی رحمہ اللہ اپنی کتاب التكتل الحزبي میں بیان کرتے ہیں: ”تیرہویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) سے بہت سی اصلاحی تحریکیں ابھریں … لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں، اگرچہ انہوں نے اپنے بعد آنے والوں پر کچھ اثر چھوڑا“۔
ان تحریکوں کی ناکامی کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی:
• وہ کسی واضح اور مخصوص فکر کی بنیاد پر نہ تھیں۔
• انہوں نے سیدھا اور درست طریقہ اختیار نہ کیا۔
• وہ باشعور افراد کی قیادت میں نہ تھیں۔
• ان کے افراد کسی مضبوط شرعی رشتہ پر مجتمع نہ تھے۔
کچھ اسلامی تحریکوں نے بجائے اس کے کہ وہ بگڑے ہوئے حقائق کو حق کے ساتھ تبدیل کرتیں انہوں نے اسلام کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اسے انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کے تسلسل کو جواز دینے کے لئے بھی استعمال کیا۔ لہٰذا اسلامی عمل کے پورے ڈھانچے کا انقلابی جائزہ لینا صرف فلاح وبہبود نہیں بلکہ اب ایک انتہائی ضرورت بن چکا ہے۔اسلام کا حقیقی دشمن خلافت کے حکمرانی کے منظرنامے پر واپسی سے آگاہ ہو چکا ہے، جیسا کہ نیتن یاہو نے اعلان کیا جب اس نے کہا: ”ہم نہیں چاہتے کہ بحیرۂ روم کے ساحلوں پر ایک خلافت قائم ہو“، اور ایسے ہی بیان اس سے پہلے کے اسلام کے دشمن بھی کہہ چکے ہیں۔ مغربی لیڈران، جن کی قیادت یہ خبیث نیتن یاہو کر رہا ہے، ان کے ان بار بار دئیے جانے والے بیانات کے تناظر میں یہی نظر آتا ہے کہ خلافت کے قیام کی ان کی دو ٹوک مخالفت اور اسلام کی ایک متحد سیاسی قوت کے طور پر واپسی سے ان کے گہرے خوف بالکل عیاں ہیں۔نیتن یاہو کا حالیہ دہرایا جانے والا بیان کہ ”اسرائیل شمالی یا جنوبی سرحدوں پر یا مغربی کنارے میں اسلامی خلافت کے قیام کی اجازت نہیں دے گا“، اور اس بات پر زور دینا کہ ”اس کی حکومت اس معاملے میں پیچھے نہیں ہٹے گی اور نہ ہی جھکے گی“، اپنی نوعیت کا پہلا بیان نہیں، کیونکہ مغربی رہنما پہلے بھی اسلامی خلافت کی واپسی کے خوف کا اظہار کر چکے ہیں۔مثال کے طور پر، 16 جولائی 2005ء کو سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے خبردار کیا تھا کہ: ”وہ اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، مسلم ممالک سےتمام مغربی لوگوں کا انخلاء، خواہ عوام اور حکومت کی خواہش کچھ بھی ہو؛ طالبان نما ریاستوں اور عرب دنیا میں شریعت کے نفاذ کا قیام جو کہ ایک ایسی خلافت کی راہ پر ہو جو تمام مسلم ممالک کو اس میں شامل کرے“۔ 11 دسمبر 2002ء کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تشویش ظاہر کی تھی کہ: ”وہ مذہبی انتہا پسند اور عالمی دہشت گرد ہیں۔ ویسے، میں آپ کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ روسی فیڈریشن کی سرزمین پر خلافت کا قیام ان کے منصوبے کا صرف پہلا حصہ ہے۔ حقیقت میں، اگر آپ اس محور کی صورتحال پر نظر رکھیں تو آپ اس بات سے لاعلم نہیں رہ سکتے کہ ان شدت پسندوں نے اپنے لئے اس سے کہیں زیادہ دور رس اہداف مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ ایک عالمی خلافت کے قیام کی بات کرتے ہیں“۔
یہ بار بار کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لیڈران اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی خلافت ان کے مفادات کے لئے ایک حقیقی خطرہ ہے اور یہ امت کو ایک رایۂ کے جھنڈے تلے دوبارہ یکجا کر سکتی ہے، اور اس طرح سے عالمی سطح پر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو مضبوط کر سکتی ہے۔
اس کے برعکس، یہ مغربی خدشات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسلامی خلافت کا تصور کوئی دور کا خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ اور ایک شرعی فریضۂ الٰہی ہے جسے مسلمان اپنی شاندار تاریخ اور اپنے سچے دین کی تعلیمات کی بنیاد پر حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اللہ ﷻ نے اپنے مومن بندوں سے فتح کا وعدہ کیا ہے:
﴿وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمۡ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ﴾
’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلافت عطا کرے گا۔‘‘ [النور؛ 24:55]
لہٰذا خلافت کے منصوبے کو ناکام بنانے کی مغرب کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی، کیونکہ اللہ کی مشیت سب پر غالب ہے اور اس لیے بھی کہ اسلامی امت اپنی بیداری دوبارہ حاصل کرنے لگی ہے، اپنی غفلت سے جاگنے لگی ہے اور اپنے اتحاد کے قیام اور اپنی عظمت و عزت کی بحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امت اس وقت تک اپنی نشاۃ ثانیہ میں کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ اسلامی فکر، طریقۂ کار اور تعلق کو نہ سمجھے اور بصیرت و آگاہی کے ساتھ اسلام کو بطور ریاست قائم کرنے کے لیے کام نہ کرے۔ ہماری نشاۃ ثانیہ صرف اسلام اور اس منہج کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ریاست کے قیام کے لئے اپنایا، نہ کہ قوم پرست حکومتوں یا گمراہ کن پکاروں کے ذریعے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ قوم پرست اور وطنی تحریکیں دراصل استعمار کے آلۂ کار ہیں اور امت کے پہلو میں ایک خنجر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خلافت کے خاتمے کے بعد سے نفاق وتقسیم کی تلوار امت کے بدن کومسلسل گھاؤ لگا رہی ہے۔ یہ نہ کوئی اتفاق تھا اور نہ ہی کوئی ناگزیر تقدیر، بلکہ یہ ایک دانستہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا جسے استعماری طاقتوں نے قوم پرست اور وطنی تحریکوں کے ذریعے سرانجام کیا۔ انہی تحریکوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے اور ان کی واحد ریاست کو پاش پاش کرنے میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔
کئی غیر جانبدار محققین، جنہیں تاریخ کے پس منظر کا شعور ہے، اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ یہ تحریکیں دراصل ایک استعماری تخلیق تھیں، جن کا مقصد سیاسی اسلام کو ختم کرنا اور اس کی جگہ ایک مسخ شدہ متبادل پیش کرنا تھا جو قومیت اور مصنوعی سرحدوں کی بنیاد پر تھا۔ ان لوگوں نے کوئی حقیقی وطن قائم نہیں کیے، بلکہ ایسے عملی کارآمد ادارے کھڑے کئے جو دشمن کے مفاد میں اور امتِ مسلمہ کے نقصان میں تھے۔ یہ تحریکیں، جو امت کو آزاد کرانے اور قیادت کا دعویٰ کرتی تھیں، دراصل کافر مغرب کے مسلط کردہ نظام کو قبول کر بیٹھیں۔ یہ امت کے پہلو میں محض خنجر ہی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد سے انحراف کیا اور خلافت کی بحالی کے لئے کام کرنے والوں سے اپنے ظالم حکمرانوں کے اشاروں پر لڑائی کی۔
مزید برآں، جہالت، بدعنوانی اور غلامی عام ہوگئی… ایک صدی تک مسلمانوں کی سرزمینوں پر مکمل تسلط کے بعد، جبکہ مسلمان، کافر مغرب کی تہذیبوں سے ہی پروان چڑھ رہے تھے، کافر مغرب مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ انہوں نے امت کو کیا دیا؟ اور مسلمانوں نے اپنی پرورش کرنے والی ماں کو کھونے کے بعد کیا کھویا؟
مختصر جواب :
1- انہیں ’’دنیا کے پست ترین‘‘ کے طور پر درجہ بند کرنا:کافر مغرب نے ان سب مصنوعی قومی ریاستوں کو ’’تیسری دنیا کے ممالک‘‘ کے طور پر درجہ دیا، جو ترقی کے قابل نہیں، اقتصادی طور پر تباہ حال، سائنسی یا صنعتی طور پر غیر پیداواری اور کسی تہذیبی افق یا نشاۃ ثانیہ کے منصوبے کے بغیر ہیں۔ یعنی وہ کمزوری اور ذلت میں مبتلا ہو گئے، ترقی کے قابل نہ رہے اور کسی حقیقی نشاۃ ثانیہ کے منصوبے کے بغیر انحصار کرنے کے مدار میں ہی گھومتے رہے۔
2- عظیم غداری:مسلمانوں کی حکومتوں نے کبھی امت کے دشمنوں سے جنگ نہیں کی۔ اس کے برعکس انہوں نے یہودی وجود کی حفاظت کی، اسے امت کے مال سے سہارا دیا، اور دشمن کے بجائے ہر مجاہد اور ہر داعی کو، جو کتاب اللہ ﷻ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرتا تھا، اسے اپنا نشانہ بنایا۔ ان مصنوعی ریاستوں میں سے کوئی بھی امت کے دشمنوں کے ساتھ کسی سنجیدہ جنگ میں نہیں اتری۔ اگر ان کی افواج کبھی حرکت میں آئی بھی تھیں تو یا اپنے تخت بچانے کے لئے، یا اپنی ہی عوام کو کچلنے کے لئے، یا پھر ایسی مرتب شدہ نمائشی جنگوں میں جو کفارکے اثر و رسوخ میں اضافے اور مسلمانوں کی مزید تقسیم پر منتج ہوئیں۔ یہی ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، اور اس کی سب سے بڑی دلیل غزہ میں یہودی وجود کے مکمل محاصرے اور نسل کشی پر ان حکومتوں کا شرمناک سکوت ہے۔
3- اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنا:انہوں نے حقیقی تبدیلی کے داعیان کے خلاف ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ کی طرح کھڑے ہو کر، شریعت کے قیام کی ہر اسلامی کوشش کو بدنام کیا، اور سیاسی و سماجی فساد کو جائز قرار دیا، جیسے اخلاقیات اور دین کی تباہی۔ ترکِ صلاۃ کرنے والوں اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی تعداد بڑھ گئی، اور بے حیائی و بدکاری کی شرح عروج پر جا پہنچی۔ ہر قسم کا شروفساد اس حد تک پھیل گیا اور یہاں تک کہ اسلام اپنی ہی سرزمین میں اجنبی ہو گیا اور اعتدال، میانہ روی اور توازن کے نام پر اس سے لڑائی کی جانے لگی۔
4- اقتصادی تباہی اور مالی کرپشن : ان حکومتوں کی معیشت سودی قرضوں سے تباہ ہو گئی، بیروزگاری بڑھ گئی، امت کے خزانے لوٹ کر ناقابل واپسی طور پر مغربی بینکوں میں جمع کرا دیے گئے، بغیر کسی پیداوار، بغیر کسی خود کفالت اور بغیر کسی حقیقی صنعت کے۔ صرف ذلت آمیز اور شرمناک انحصار باقی رہ گیا۔ کرنسیاں گر گئیں، بیروزگاری پھیل گئی، قرضے بڑھ گئے اور عوامی فنڈ لوٹ لئے گئے، جبکہ امت کے وسائل استعماری مفادات کی خاطر لوٹ لئے گئے۔
اور امت اپنے اصل مقام پر اس وقت تک واپس نہیں آ سکتی جب تک کہ ان حکمرانوں کو مسترد نہ کرے اور یہ تحریکیں ایک مخلص اور باشعور قیادت کے تحت اسلام کے منصوبے کی طرف واپس نہ آئیں، جو بصیرت کے ساتھ اسلام کو لے کر چلے، جیسا کہ ہمارے رب نے حکم دیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿قُلۡ هَٰذِهِۦ سَبِيلِيٓ أَدۡعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِيۖ﴾
’’کہہ دو یہ ہے میرا راستہ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور وہ بھی جنہوں نے میری پیروی کی‘‘ [یوسف: 108]
5- سماجی ڈھانچے کو بگاڑنا: ان حکومتوں نے فرقہ واریت اور علاقائیت کی آگ بھڑکائی اور ایسے جابرانہ خفیہ اداروں کے ذریعے امت کے طبقات کے درمیان بدگمانی اور بے اعتمادی پھیلائی، جو امت کی حفاظت کے بجائے نظام کی حفاظت کرتے ہیں۔
6- مغرب کے سامنے مکمل سر تسلیم خم: مسلمانوں کے حکمران سب مغربی استعمار کے سائے تلے کام کرتے رہے، انہوں نے اس کے فیصلوں اور احکامات کی تعمیل کی اور امت کی تقدیر کو کافر تنظیموں جیسے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ جوڑ دیا۔ آج مسلمان ذلت اور غلامی میں ڈوبے ہوئے ہیں، روَیبضہ حکمرانوں کے زیر تسلط ہیں جنہوں نے ان کے ممالک کو تقسیم کیا، ان پر آہنی ہاتھ سے حکومت کی اور انہیں بدترین اذیتوں میں مبتلا کیا۔ ان حکمرانوں نے نیک و متقی لوگوں پرظلم کیا، ایمانداروں اور دین کی نصرۃ کرنے والوں کو گرفتار کیا اور ملک کو کافر ریاستوں کے اڈے میں تبدیل کر دیا۔ مسلمان صرف مُردوں اور مہاجرین کی فہرست میں اعداد و شمار بن گئے اور تیسری دنیا کا حصہ شمار کئے جانے لگے۔ مسلمان عالمی مالیاتی فنڈ اور کفر کے سرغنہ، امریکہ کی قیادت میں ظالم کے متحدہ قانون کے ذریعے کنٹرول کیے گئے۔ مسلمانوں کی اب ان کی اقوام اور ریاستوں میں کوئی حیثیت نہیں رہی، حالانکہ مسلمانوں کی ریاست کئی صدیوں تک دنیا کی صفِ اول کی ریاست رہی تھی۔
مغرب نے خلافت کے خاتمے کے بعد جو جماعتیں اور ادارے پیدا کیے، وہ تباہ کن ریاستیں ہیں، نہ نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بننے کے قابل ہیں اور نہ ہی اسلامی حکم کے لیے پناہ گاہ۔ بلکہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور ان کے ملبے پر خلافتِ ثانیہ راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ قائم کرنی چاہیے۔
صرف خلافت ہی امت کو متحد کر سکتی ہے، اس کی کھوئی ہوئی عزت ووقار کو بحال کر سکتی ہے، عدل قائم کر سکتی ہے اور مظلوموں کی مدد کر سکتی ہے۔ خلافت کے خاتمے کے ہولناک نتائج سب پر واضح ہیں، جن میں سب سے نمایاں یہ ہیں:
1- امت کا شیرازہ بکھر جانا، یعنی پچاس سے زائد کمزور قومی اکائیوں میں بٹ جانا، جو سائیکس-پیکو معاہدے کے تابع ہیں۔ اسلامی امت کے اتحاد کا بکھر جانا اس کی طاقت کو کمزور کر گیا اور اسے بیرونی مداخلت کا شکار بنا دیا۔
2- اسلامی حکم کا فقدان، مغربی وضعی قوانین کی بالادستی اور تمام شرعی احکام کی معطلی نے کسی احتساب یا نگرانی کے بغیرظلم، فساد اور خونریزی کو عام کر دیا۔
3- مسلمانوں کے مال و دولت کی لوٹ مار اور ان کی سرزمینوں کی پامالی، فلسطین سے لے کر عراق، شام اور یمن تک، بالخصوص تیل اور معدنیات۔ یہ وسائل ان کے منصوبوں کی مالی اعانت کےلئے استعمال ہوئے جبکہ امت کے لوگ غربت اور محرومی کا شکار رہے۔
4- اسلامی شناخت کا ضیاع اور سیکولر قومی و وطنی نظریے کی بالادستی، جس نے اسلامی ولاء و براء کو تار تار کر دیا۔
5- اللہ ﷻ کی رسی کو تھامنے سے انکار نے مسلمانوں کو تقسیم کر دیا، حالانکہ اللہ ﷻ ہمیں پکارتا اور تاکید کرتا ہے کہ:
﴿وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعٗا وَلَا تَفَرَّقُواْ﴾
’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ ڈالو‘‘ ]آل عمران؛3:103[
6- سیاسی خودمختاری کا ضیاع: مسلم ممالک کی ایجنٹ ریاستیں اپنے سیاسی و معاشی فیصلوں میں مغرب کی غلام بن گئیں اور اپنی عوام کے مفاد میں آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں۔
7- فلسطین ضائع ہو گیا۔
8- مسلمان عورت نے وہ حقوق کھو دیے جو اسلام نے اسے دیئے تھے، اور وہ استحصال، امتیازی سلوک اور تجارت کی جنس بن کر رہ گئی۔
9- مخلص علماء اور داعیان کے کردار کو کمزور کرنا اور سرکاری علماء کا مقام بلند کرنا، جس نے امت کو گمراہی میں ڈال دیا۔
10- اسلامی امت نے اسلام کو پھیلانے اور اس کی دعوت دینے کا کردار کھو دیا، اور داعی بننے کے بجائے غیر کے داعیوں کی مخاطب بن گئی۔
صرف یہی نہیں بلکہ دیگر بے شمار ایسے معاملات ہیں جن میں خلافت کی عدم موجودگی کے باعث ہم نے بہت سا خسارہ اٹھایا ہے، اور ان سب کو یہاں قلمبند کرنا ممکن نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿إِنَّهُمۡ يَكِيدُونَ كَيۡدٗا ١٥وَأَكِيدُ كَيۡدٗا ١٦ فَمَهِّلِ ٱلۡكَٰفِرِينَ أَمۡهِلۡهُمۡ رُوَيۡدَۢا ١٧﴾
’’یقیناً وہ چالیں کر رہے ہیں * اور میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں * پس تو کافروں کو ڈھیل دے، انہیں کچھ وقت دے‘‘ [الطارق: 15-17]
کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان حکومتی نظاموں پر بھروسہ کرے یا ان کے نعروں سے دھوکہ کھائے۔ بلکہ اسے چاہیے کہ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرے، ان کو رد کرے اور صرف اسلام کے منصوبے، خلافتِ راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کے منصوبے کو اپنائے۔ اللہ ﷻ نے فرمایا:
﴿وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥٓۚ﴾
’’اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کرے گا‘‘ [الحج: 40]
شرعی اور سیاسی فرض یہ ہے کہ ہر مسلمان سخت محنت کرے تاکہ خلافتِ راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کو دوبارہ قائم کرے، جس کی واپسی کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی ہے۔
آج جو بیداری امت میں پیدا ہو رہی ہے، وہ خلافت کی ولادت کی تمہید ہے، اور یہ مصیبتیں جو ہم سہہ رہے ہیں، یہ اللہ ﷻ کی سنت کا حصہ ہیں جو تبدیلی کے لیے ہے۔اے امتِ اسلام کے بیٹو اور بیٹیو! اللہ ﷻ کی عظمت سے مایوس نہ ہو، اور ان پر یقین نہ کرو جو تمہاری موت کا اعلان کرتے ہیں۔ اٹھو اور ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جاؤ جو نیک اعمال کرتے ہیں تاکہ امت کے سر کو اس کے بدن سے جوڑا جائے، خلافت اٹھ کھڑی ہو، عزت واپس آئے اور اللہ ﷻ کا وعدہ پورا ہو۔اللہ ﷻ نے فرمایا:
﴿وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمۡ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسۡتَخۡلِفَنَّهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ﴾
’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلافت عطا کرے گا۔‘‘ [النور؛ 24:55]۔
اور اللہ ﷻ نے فرمایا،
﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ﴾
’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی ضرور مدد کریں گے‘‘ ]غافر؛ 40:51[،
اور اللہ ﷻ نے فرمایا:
﴿وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ ١٧٣﴾
’’اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا‘‘ [الصافات؛ 37:173]
Latest from
- یورپ کی خودمختاری کے امکانات اور اس میں حائل ہونے والی مشکلات
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-4) اقوام کی تاریخ، ان کی صفات، باہمی اتحاد، اور تنازعات
- امت کو اپنے مقدسات کی حفاظت کے لیے خلافت کی ضرورت ہے نہ کہ دفاعی معاہدوں کی جن کا مقصد ایجنٹ حکمرانوں کی حفاظت ہو۔
- استنبول اعلامیہ اور سابقہ فتووں میں بہت بڑا فرق!
- پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اسٹریٹجک معاہدہ