بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
فاریکس مارکیٹ میں ٹریڈنگ
امین جرار کے لئے
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ خیر و عافیت سے رہیں۔
سوال یہ ہے کہ: معاہدہ برائے فرق (سی ایف ڈی) کا استعمال کرتے ہوئے فاریکس مارکیٹ (غیر ملکی زرمبادلہ مارکیٹ) میں تجارت، جہاں تجارت اور سٹہ بازی، اثاثوں کی قیمت کے اتارچڑھاؤ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، بجائے اس کے کہ اسے معمول کے مطابق خرید و فروخت کیا جائے۔
فاریکس مارکیٹ ایک عالمی مارکیٹ ہے جو بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ذریعہ منظم کی جاتی ہے جو تاجروں، مالیاتی ثالثوں، اور دیگر اداروں جیسے بینکوں اور ہیج فنڈز کی نگرانی کرتی ہے۔
فاریکس مارکیٹ میں داخلے کے لئے، مجھے ایک بروکر کی ضرورت ہے جس کے ساتھ میرا کاروباری معاہدہ اور شراکت ہے، جس میں سی ایف ڈی معاہدہ بھی شامل ہے۔ میں اس بروکر کو رقم جمع کروا دیتا ہوں اور ایک موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے، میں غیر ملکی کرنسیوں کی تجارت کر سکتا ہوں۔
أسامة الفارعة :
اس موضوع پر بہت سے فتوے آ چکے ہیں، چاہے ان کا جواب جائز ہو یا حرام (جو اکثریت کی رائے ہے)۔ جن میں صرف بیعانہ اور اوورنائٹ فیس (ربا) کے مسئلے پر توجہ دی گی ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس سے ٹریڈنگ کے دوران آسانی سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ : کیا معاہدے کا اصول خود شریعت کے مخالف ہے؟
براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے، شکریہ
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فاریکس کے بارے میں جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ”فاریکس“، ”فارن ایکسچینج (غیر ملکی زرِمبادلہ) “ کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے غیر ملکی کرنسیوں کا تبادلہ کرنا۔ یہ کرنسیوں کی خریدوفروخت کے لئے ایک بہت بڑی عالمی منڈی ہوتی ہے جس کا مقصد ان کی قیمتوں میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہم نے اس سے پہلے 14 اکتوبر 2024ء کو اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیا تھا، اور میں یہاں اس میں کرنسی ٹریڈنگ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا تھا اس کا حوالہ دوں گا:
”جہاں تک سونے اور چاندی کا تعلق ہے تو ان کو ایک دوسرے کے بدلے یا نقد رقم کے بدلے بیچنا اور خریدنا ہاتھوں ہاتھ کرنا ضروری ہے، جیسا کہ بخاری اور ابو داؤد میں عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ «الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِباً إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ» ”سونے کے بدلے چاندی بیچنا سُود ہے، سوائے اس کے کہ جب یہ معاملہ یہ لو اور یہ دو (دست بدست)کی صورت میں ہو“۔ لہٰذا چاندی کے بدلے یا نقد رقم کے بدلے سونا خریدنا درست نہیں ہے سوائے کہ یہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔
اور چونکہ جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ آن لائن تجارت کیسے کی جاتی ہے جہاں اس کا تبادلہ فوری طور پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں گھنٹوں یا دن لگ سکتے ہیں، اس لئے انٹرنیٹ پر الیکٹرانک کارڈ سے سونا اور چاندی خریدنا جائز نہیں ہے جب تک کہ سونا یا چاندی خریدتے وقت کارڈ سے کٹوتی فوراً یعنی دست بدست نہ ہو۔ لہٰذا سونا یا چاندی اس وقت تک وصول نہ کریں سوائے اس کے کہ جب آپ کے اکاؤنٹ سے رقم کی کٹوتی کر لی جائے۔ اور چونکہ آن لائن ٹریڈنگ میں فوری طور پر کوئی تبادلہ نہیں ہوتا بلکہ ایک یا دو دن لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد تبادلہ ہوتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔
-
اسٹاک اور بانڈز کی تجارت حرام ہے کیونکہ اسٹاک کا تعلق مشترکہ کمپنیوں سے ہے جو اسلامی شریعہ کے مطابق باطل ہیں اور اس لئے کہ چونکہ بانڈز سود سے منسلک ہوتے ہیں۔ ہم نے مشترکہ اسٹاک کمپنیوں کے موضوع کو ”نظام الاقتصاد“ کی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے، نیز اسٹاک مارکیٹس کی ہنگامہ خیزی کو دیگر کتابوں میں بھی بیان کیا ہے۔ ہم نے ”اسٹاک مارکیٹوں کی ہنگامہ آرائی“ کے عنوان سے کتابچے میں ذکر کیا ہے اور اس معاملے کا خلاصہ درج ذیل ہے
:
”جہاں تک ان حصص اور سکیورٹیز کے لین دین سے متعلق شرعی حکم کا تعلق ہے، چاہے خرید و فروخت ہو، یہ جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حصص کسی ایسی کمپنی کے ہیں جو شریعت کے مطابق حرام ہے۔ یہ درحقیقت بلوں کے سرٹیفکیٹ ہیں جن میں حلال سرمائے اور حرام کے منافع سے ملی جلی رقم ہوتی ہے، جو حرام لین دین سے حاصل ہوتی ہے۔ ہر بل ایک حصص کی قیمت کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ حصہ ان اثاثوں کے حصے کی نمائندگی کرتا ہے جو حرام کمپنی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اثاثوں کو ایک حرام لین دین کے ساتھ ملایا گیا ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔ چنانچہ یہ پیسہ حرام ہے، جس کی خرید و فروخت حرام ہو جاتی ہے، اور اس طرح کے پیسوں کا کاروبار بھی حرام ہے۔ بانڈز کا بھی یہی حال ہے، جس میں سود کے ساتھ پیسہ لگایا جاتا ہے، اور اسی طرح بینک کے حصص کا بھی اسی طرح کا معاملہ ہے، کیونکہ ان سب میں حرام کی رقم ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی خرید و فروخت حرام ہے، کیونکہ ان میں موجود رقم حرام ہے“۔ [اختتام اقتباس]
انٹرنیٹ پر کاغذی کرنسیوں کی تجارت کرنا، جیسے ڈالر اور یورو وغیرہ، تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی ہاتھوں ہاتھ تبادلہ نہیں ہوتا ہے، جو کہ رقم کے تبادلے میں ضروری ہے۔ دست بدست ایکسچینج، جیسا کہ یہ اصول سونے اور چاندی پر لاگو ہوتا ہے تو یہ کرنسی کی بنیاد پر کاغذی پیسے پر بھی لاگو ہوتا ہے، یعنی انہیں قیمتوں اور اجرت کے طور پر استعمال کرنا۔ ہم نے 11 جولائی، 2004ء کو ایک سوال کے جواب میں درج ذیل نکات بیان کئے ہیں:
”کاغذی کرنسیوں سے لین دین کرنا“
جی ہاں سونے اور چاندی پر سود اور دیگر نقدی کے جن احکام کا اطلاق ہوتا ہے وہی اصول کاغذی کرنسیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کاغذات میں وجہ (نقدی، یعنی قیمتوں اور اجرت کے طور پر اس کا استعمال) کا ادراک انہیں رقم کے احکام کے تابع کرتا ہے۔ لہٰذا ان کاغذات سے ادھار پر اجناس خریدنا حدیث میں مذکور اشیاء پر بھی لاگو ہوتا ہے، یعنی یہ قرض نہیں ہے۔موضوع درج ذیل ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا : «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ» ”سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گیہوں کے بدلے گیہوں، جوکے بدلے جَو، کھجور کے بدلے کھجور ، نمک کے بدلے نمک، جنس کے بدلے جنس برابر کے برابر، مساوی مقدار میں، ہاتھوں ہاتھ۔ اور اگر یہ اصناف مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو، بشرطیکہ وہ ہاتھوں ہاتھ (یعنی نقد) ہو“ یعنی ادھار پر نہ ہو۔(بخاری و مسلم نے عبادہ بن الصامتؓ سے روایت کیا ہے)۔
جب یہ سودی (ربوی) اقسام مختلف ہوں تو عبارت واضح ہے کہ فروخت جیسی چاہو ویسی ہوسکتی ہے، یعنی ایک جنس کے بدلے ایک جنس ہونا شرط نہیں، بلکہ تبادلہ (یعنی دست بدست لین دین) ہونا شرط ہے۔ لفظ ”اقسام“ تمام سودی اقسام (یعنی وہ چھ اقسام) کے بارے میں عام طور پر استعمال ہوا ہے، اور اس میں سے کسی چیز کو صرف نص (دلیلِ شرعی) کے ذریعے ہی مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ اور جہاں کوئی نص موجود نہ ہو، وہاں حکم یہ ہے کہ گندم کا جَو کے بدلے لین دین جائز ہے، یا گندم سونے کے بدلے، یا جَو چاندی کے بدلے، یا کھجور نمک کے بدلے، یا کھجور سونے کے بدلے، یا نمک چاندی کے بدلے... وغیرہ۔ چاہے تبادلے کی قدریں اور قیمتیں کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں، لیکن جب معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہو (یعنی اُدھار نہ ہو)، تو یہ جائز ہے۔ اور جو حکم سونا اور چاندی پر لاگو ہوتا ہے، وہی کاغذی کرنسی پر بھی لاگو ہوتا ہے، کیونکہ ان سب میں مشترک علت ”نقد“ ہے — یعنی ان کا استعمال قیمت اور اجرت کے طور پر۔ (اختتام)
جب سونے کی خرید و فروخت میں آن لائن تجارت کے طریقہ کار کا مطالعہ کیا گیا، تو یہ بات واضح ہوئی کہ ادائیگی یا معاملے کی تکمیل عموماً عقد کے دن سے ایک یا دو دن کی تاخیر سے ہوتی ہے۔ یہ تاخیر اس شرط کے خلاف ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی، یعنی ”دست بدست“۔ امام بخاریؒ براء بن عازبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: «مَا کَانَ يَداً بِيَدٍ فَخُذُوهُ وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فذَرُوهُ» ”جو معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہو، اسے قبول کرو، اور جو اُدھار ہو، اسے چھوڑ دو“۔ امام مسلم نے مالک بن اوس بن الحدثانؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں آیا اور کہا، ”کون درہم کا تبادلہ کرے گا؟“، طلحہ بن عبیداللہؓ، جو اُس وقت عمر بن الخطابؓ کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا: ”ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، پھر ہمارے خادم کے آنے پر ہمارے پاس آنا، ہم تمہیں تمہارے درہم دے دیں گے“۔عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ”نہیں، اللہ کی قسم، یا تو اسے اس کی رقم دے دو یا اس کا سونا اس کو واپس کر دو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِباً إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ...» ”سونے کے بدلے چاندی بیچنا سُود ہے، سوائے اس کے کہ جب یہ معاملہ یہ لو اور یہ دو (دست بدست)کی صورت میں ہو“۔
اس اصول کے مطابق، یورو، ڈالر، اور کرنسی کی دیگر شکلوں کو انٹرنیٹ پر تجارت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ان میں فوری طور پر کوئی تبادلہ نہیں ہوتا ہے۔ [اختتام اقتباس]
جواب کا اقتباس یہاں ختم ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کافی ہے اور اللہﷻ بہتر جانتا ہے۔ [11 ربیع الثانی 1446ھ - بمطابق 14 اکتوبر، 2024ء]۔
مذکورہ بالا بات پچھلے جواب کو مکمل کرتی ہے۔ لہٰذا، چونکہ یہ لین دین جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے، یہ معاملہ درست نہیں ہے، اس لئے مذکورہ کام کو انجام دینے کا معاہدہ بھی درست نہیں ہے۔
یہی رائے مجھے اس معاملے میں زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جاننے والا ہے، وہ حکمت والا ہے۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خليل أبو الرشتة
11 جمادى الأولى 1447هـ
بمطابق 2 نومبر 2025 عیسوی
#Amir_of_Hizb_ut-Tahrir
#أمير_حزب_التحرير
Latest from
- سوڈان : ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF ) کی جانب سے الفاشر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد
- سونا اور ڈالر کے مابین جاری مخمصہ
- اللہ ﷻ کو غضبناک کرنے والوں کا ظلم رکنے کا نام ہی نہیں لیتا
- پاکستان کے حکمرانوں کے نزدیک حزب التحریر کا "جرم" ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی مخالفت ہے! حزب التحریر کے شباب اپنی حق گوئی کے سبب حکومت کی جانب سے اغوا، تشدد اور قید و بند کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں!
- شرعی نقطۂ نظر سے تنظیمی سرگرمیاں(العمل الحزبي)