الجمعة، 10 ذو الحجة 1446| 2025/06/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

صرف خلافت ہی امت کو سود پر مبنی بھاریحکومتی قرض سے نجات دلائے گی

صرف خلافت ہی امت کو سود پر مبنی بھاریحکومتی قرض سے نجات دلائے گی

گز شتہ سات سال میں پاکستان کے حکومتی قر ض میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔یہ قرض بیس ٹریلین روپے کی بلندترین سطح کو چھو چکا ہے جو کہ ۲۰۰۸؁ء میں ۳۔۶ٹریلین روپے تھا ۔صرف موجودہ حکومت نے گزشتہ  دو سالوں میں اندرونی قرض میں ۵۔۳ٹریلین کا اضافہ کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق حکومت اپنی آمدن کا ۴۴فیصد یعنی تقریباــ ً نصف قرض پر سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔اسطرح پاکستانی  عوام پر اس قرض پر سود کی ادائیگی کا بوجھ تقریباً ۷ہزار روپے سالانہ فی کس ہے۔

 

Read more...

خروج اور حزب التحریر کا منہج

خروج  اور حزب التحریر کا منہج

آج کے دور میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ اُمّت مسلمہ ایک بہت ہی کھٹن مرحلے سے گزر رہی ہے، اس پر ظا لم حکمران مسّلط ہیں، جو کہ اُن پر ایسے نظام نا فذ کررہے ہیں، جو کہ سر سرا سر کفر پر مبنی ہیں۔ ایسے میں امّت میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے کہ کس طرح ان دونوں سے چھٹکارا پایا جائے۔ اسی مقصد کو حا صل کرنے کے لیے امّت میں سے ہی کچھ آوازیں بلند ہوئیں جنھوں نے ان حکمرانوں اور ان نظاموں کو ہٹانے کے بارے میں مختلف آرا ء دیں۔

Read more...

راحیل-نواز حکومت امریکی احکامات کی پیروی میں کشمیری مسلمانوں سے غداری کررہی ہے

14جولائی 2015 کو کشمیری مسلمانوں کے انتہائی معتبر اور معزز رہنما سید علی گیلانی نے 21 جولائی کو بھارت میں  پاکستان ہائی کمیشن کی جانب سے عید ملن کی تقریب کی دعوت میں شرکت کی درخواست  یہ کہہ کر مسترد کردی کہ 10 جولائی 2015 کو روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں   کشمیر  کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ "ہمارے لئے کشمیر  زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کوئی ہمیں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اور میں نیو دلی میں ہونے والی عید ملن کی تقریب میں احتجاج کے طور پر شرکت نہیں کروں گا"۔

Read more...

پاکستانی  حکومت یمن  میں طاقت استعمال کرنے کا اشارہ دے رہی  ہے جبکہ پاکستان میں حزب التحریر کے مرکزی رابطہ کمیٹی کے چیئر مین سعد جگرانوی کو اغوا کر لیا ہے

خبر :

ریاض ، اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) کل(23/4/2015) خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ریاض کے قصرالعوجاء میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے ساتھ آنے والے وفد کا استقبال کیا۔  اس ملاقات کا مقصد یمن بحران اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور وحوض تھا۔  نواز شریف کے ہمراہ بری فوج کے سربراہ راحیل شریف ،وزیر دفاع خواجہ آصف ،مشیر  خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر اعظم کے مشیر خاص طارق فاطمی وفد میں شامل تھے۔  کل پاکستان کے وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ وزیر اعظم کا دورۂ ریاض  اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد سعودی عر ب کے ساتھ تعاون   اور یمن کے اندر سیاسی حل کے لئے کوشش کرے گا۔

 

تبصرہ:

ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں اصل حکمران فوج ہے جبکہ  سیاسی حکمرانوں کی حیثیت کسی مضمون کے عنوان  سے زیادہ کچھ نہیں اوراس کی دلیل ا س نظام کی پالیسیاں اور وہ فیصلے ہیں جو یہ نظام صادر  کرتا رہتا ہے اورجس کی نگرانی کے لئے انسانوں اور مال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتاہے ۔ یہ نظام کئی دہائیوں سے بھارت   سے نفرت اور دشمنی کی پالیسی چلاتا رہا تاکہ اسے خطے کے اندر امریکی مفادات کی خدمت بجالانے اورانگریزوں کے بجائے امریکی ایجنٹ بننے پر مجبور کردے۔  یہ نظام عالمی انسپکٹر وں کی زیر نگرانی جس کا سرغنہ امریکہ ہے،ایٹمی ہتھیار  سے لیس ہوا۔  یہ اسلحہ کشمیر کو آزادی دلانے یا مسلمانوں کے قبلۂ اول،  بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لئے حاصل کیا گیا  اور نہ ہی افغانستان ، برما وغیرہ میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے تیار کیا گیا بلکہ اس اسلحے کامقصد  یہ تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک پہلو سے برابری کی پوزیشن پر آجائے۔ اس طرح  بھارت پر دباؤ ڈال سکےکیونکہ اس نظام نے  اپنے صحیح مقام پراس ایٹمی طاقت کو استعمال نہیں کیا (یعنی بھارت کے قبضے سے کشمیر کی آزادی کے لئے)۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایٹمی طاقت کو محض خطے میں امریکی اسٹریٹجک مسائل کی خدمت میں استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ صرف امریکہ ہی اس اسلحے کا فائد ہ اٹھاتا ہے ۔  اسی طرح  افغانستان میں عسکری قوت استعمال کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے اس کو خطے سے سوویت یونین کو پسپا کرنے اور اسے نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد امریکی استعمار نے  اس کی جگہ لے لی۔   پھراس  فوجی طاقت کو افغانستان میں امریکی قبضے کو استحکام دلانے کے لئے بروئے کارلایا گیا ۔ اس کے علاوہ کئی  اورمثالیں بھی دی جاسکتی ہیں لیکن  ان دو مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان کے اندر حکومت (یعنی عسکری قیادت) صرف وہی کام کرتی ہے جو امریکی مفادات کی راہ میں انجام دئے جائیں۔ نہایت  افسو س کا مقام ہے کہ اس فوجی قوت کی ریکارڈ میں کوئی ایک بھی  ایسی مثال نہیں ملتی جو اس کے لئے  باعثِ فخر ہو۔  اس  نے اپنی پوری  طاقت امریکہ کی خدمت ، اس کےمفادات اور اس کی بزدل افواج کو بچانے میں جھونک دی، جیسا کہ گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی  کے اوائل  میں  پاکستانی فوجی ڈویژن نے  امریکی میرینز کی ڈویژن کو صومالیہ میں وہاں کے مجاہدین کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچایا،  جو آپریشن "بلیک ہاک " کے نام سے مشہور ہے۔

 

اسی ضمن میں یمن کے معاملے میں پاکستانی حکومت کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔  بات یہ ہے کہ جہاں کہیں امریکہ کے مفادات موجود ہیں وہاں اس کے ایجنٹ بھی موجود ہوتے ہیں جو اس کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خون اور ان کی قوت وطاقت کو اس کے لئے داؤ پر لگانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ پاکستانی حکومت جس کی فوجی طاقت ،اعلیٰ تربیت اورایٹمی اسلحہ کے ساتھ مسلح ہو نا مشہور ہے ، کا کردار یہ ہے کہ وہ انگریز اور یمن میں  اس  کے ایجنٹوں کے خلاف اس طاقت کا مظاہرہ کرے ،جہاں امریکا کی یہ کوشش  ہے کہ انگریز  کا گھیراؤ کرے یا ان کو  ایساسمجھوتہ  کرنےپر مجبور کرے، جس میں اس کے ایجنٹوں کا بڑا حصہ ہو۔  یو ں یمن میں اثر ونفوذ اور اس کے بے پناہ وسائل پر کنٹرول میں اسے سب سے بڑا   حصہ ملے اور اس کی تزویراتی(اسٹریٹجک ) پوزیشن اس کے تصرف میں آجائے۔  یمن وہ خطہ ہے جودنیا بھر کی اکثر ناگزیر اور اہم  آبی گزرگاہوں کے ساحلوں پر واقع ہے۔

 

پاکستانی حکومت کے اس غدارانہ کردارکی یہ  سمجھ صرف حزب التحریر کے ہاں پائی جاتی ہے ۔سعد جگرانوی بھی اسی حزب کا حصہ ہے جو امت کے سامنے برابر اس کو بے نقاب کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔  حکومت نے اپنی رسوائی کے خوف سے ،خصوصاً  ایک تجارت پیشہ اور اپنی قوم کے معزز آدمی کی طرف سے ،جوتقویٰ اور ایمان میں مشہور ایک معزز گھرانے کا فرد ہے ،جس نے ہرمعزز شخصیت ، ہر  باکردار سیاستدان اور ہر نامور عالم کے ساتھ ملاقاتیں کیں  اور اسے اس نظام کے خفیہ خیانتوں سے آگاہ کیا،  اس کو  اور اس کے بھائی کو رات کے اندھیرے  میں  اغواکرلیا۔

 

بلاشبہ پاکستانی حکومت کی حالت بھی باقی مسلم ممالک جیسی ہے ، جن میں  سعودیہ بھی شامل ہے ، جو اپنی عوام کا گھیراؤ کرنے کے لئے ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔  یہ تمام کے تمام نظام ہائے حکومت اس قابل ہیں کہ ان کو نظام خلافت سےتبدیل کیا جائے ۔  اس لئے یہ حکومتیں امت کے مخلصین کا پیچھا کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھاتیں۔  وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اکیلی اپنی اپنی قوم کا سامنا کرنے میں بے بس ہوچکی ہیں ، چنانچہ ان حکومتوں نے عوام سے  اپنا بچاؤ کرنے کے لئے مشترکہ فورسز تشکیل دیں ۔  یہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اس کا وقتِ مقرر آپہنچا ہے ۔ ان شاء اللہ

(...إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا )

"یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ  اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ۔(البتہ)  اللہ نے ہر چیز کا ایک انداز مقرر کر رکھا ہے۔"(الطلاق: 3)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے

بلا ل المہاجر کی پاکستان سے بھیجی ہوئی تحریر

Read more...

خلافت: ایک قطعی فرض الٰہی

"چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) اس بات پر متفق ہیں کہ امامت (خلافت) ایک فرض ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک امام (خلیفہ) کو مقرر کریں جو دین کے احکامات کو نافذ کرےاور مظلوموں کو ظالموں کے خلاف انصاف فراہم کرے ۔ چاروں امام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ ایک وقت میں ان کے دو امام (خلیفہ) ہوں، خواہ متفقہ يا متفرقہ طور پر۔۔۔"۔(چار مذاہب کی فقہ: الفقہ علی المذاھب الاربعہ 5:416)۔

یہ قول امام الجزيری کا ہے جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے۔ یہاں پر انہوں نے  مختلف فقہا کاخلافت کے موضوع پر نقطہ نظر  پیش کیا ہے جو کہ وہی موقف ہے جو صحابہ رضی اللہ عنھم کے وقت سے چلا آرہا ہے۔

تمام مکتبہ فکر کے چوٹی کے علماء نے ہمیشہ خلافت کے موضوع کو انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ

"شریعت کہ ضروريات میں سے ہے جسے کسی صورت چھوڑا نہیں جاسکتا"

(الغزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد،199)،

"مسلمانوں کے اہم ترین مفادات میں سے ہے اور دین کے اہم ترین ستونوں میں سے"

(الآمدی، غايۃ المرام،366)،

"دین کے عظیم ترین ستونوں میں سے ایک عظیم  ستون ہے"

(القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1:265)،

"دین کے اہم ترین فرائض میں سے ہے"

(ابن تیمیہ، السیاسیہ الشریعہ، 129)،

اور "اہم ترین فرائض میں سے ایک فرض"

(الحصکفي، رد المحتار، 1:548)۔

 

باالفاظ دیگر خلافت صرف ایک فرض نہیں بلکہ اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جسے چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ اس کے بغیر اسلام جامع اور مکمل  طور پر  نافذ ہی نہیں ہوسکتا۔

 

لیکن کچھ "جدیدیت"اور "اصلاح"پسند اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے کہنے کہ مطابق ایک ہزار سال کا علم و فضل اس موضوع (اور اس کے ساتھ دیگر کئی موضوعات) کو صحیح نہیں سمجھ سکا اور اب وہ لوگ ہی قرآن اور سنت کی صحیح تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بلند بانگ دعویٰ ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا لیکن اس معاملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم اس کو دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

 

ڈاکٹر غامدی ،جو اسی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا فرض ہونا تو دور کی بات یہ تو کوئی "دينی اصطلاح" بھی نہیں ہے۔

 

پہلے ایک اصولینقطہ۔کوئی بھی اصطلاح تین قسم کی معنوں ميں سے ایک کی حامل ہوسکتی ہے: لغوی، اصطلاحی يا شرعی۔ شرعی کا یہاں اسلامی شریعت کی طرف نسبۃ ہے۔ لھذا شاید غامدی صاحب کا "دينی اصطلاح" کہنے کا مطلب تیسری قسم کے معنی سے ہے۔صحيح طور پر اس کو شرعی اصطلاح کہہ جاتا ہے-اسے اسلامی اصطلاح بھی کہا جاسکتا ہے۔

 

لغوی معنی لوگوں کی جانب سے آتےہیں جو اصل میں ایک زبان کو پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پرانے عرب یا یونانی۔ اصطلاحی معنی ان لوگوں کی جانب سے آتے ہیں جو کسی مخصوص شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں جیسے فقہاء، محدثین یا طبیعات کے علماء وغیرہ مخصوص اصطلاحات روشناس کراتے ہیں۔ پھر یہ اصطلاحات انہیں شعبوں میں اپنے مخصوص معنوں میں ہی استعمال ہوتی ہیں جبکہ اسی وقت وہی اصطلاح کسی اور شعبے میں کسی اور معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فقہ میں لفظ "سنت" کا مطلب مندوب اعمال ہے یعنی ایسے اعمال جن کا کرنا شارع کی طرف سے مطلوب ہے ليکن فرض نہیں جبکہ حدیث کے شعبے میں اس کا مطلب رسول اللہﷺ کا عمل، قولیااقرار ہوتا ہے۔

 

شرعی معنی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کی جانب سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ معنی شریعت بتاتی ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن حیرانگیز طور پر اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ قرآن اور سنت میں لفظ خلافہ کو لغوی معنی یعنی "جاں نشین" کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ لفظ کئی احادیث میں  محض "جاں نشینی " کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوا ہے جو کہ ایک خاص قسم کی جاں نشینی ہے جس سے عرب کے لوگ اسلام سے قبل آشنا نہ تھے۔ مثال کے طور پر رسول اللہﷺ نے فرمایا  کہ ,

«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر» ، قالوا: فما تأمرنا؟ قال: «فوا ببيعة الأول، فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»

"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا، جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرنا اور انہیں ان کا حق ادا کرنا کیونکہ اللہ تعالٰی ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے انہیں دی"(مسلم، 1842)۔

 

یہاں رسول اللہﷺخصوصاً ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو مسلمانوں پر حکمرانی میں خلفاء (اس کی واحد خلیفہ ہے)کی حیثیت سے  ان کے جاں نشین ہوں گے۔  یہاں پر کسی عام جاں نشینی کا ذکر نہیں ہورہا بلکہ ان جاں نشینوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ایک خاص طریقے یعنی بیعت کے ذریعے حکمران بنیں گے اور جو ایک خاص طریقے سے حکمرانی کریں گے یعنی اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے زریعے۔ یقیناً حکمران ہونے کی حیثیت میں ان کا تمام تر کردار شریعت کے قوانین اور اصولوں  کے تابع ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے اُس وقت ایک نیا طرز حکمرانی دیا  اور جس نے اُس تمام وقتوں کے لئے ایکمنفردطرز حکمرانی مقرر کيا۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو محض حکمرانوں کے متعلق ہی بات کرنا ہوتی تو وہ لفظ "حکام"،جس کا واحد حاکم ہے، استعمال کرتے جو کہ عربی زبان میں حکمرانوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ ہے۔

 

اسی طرح رسول اللہﷺ نے مسلمانوں پر حکمرانی کے حوالے سے آنے والے ادوار کے ذکر میں خاص لفظ "خلافہ" استعمال کیا۔ آپﷺ نے فرمایاکہ،

 

«تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا، فيكون ما شاء الله أن يكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكا جبرية، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج نبوة»

"تم میں نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر وراثتی حکمرانی ہو گی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گااور اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ اور پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی"(احمد،18406)۔

 

یہاں پر یہ بات غور طلب ہے  کہ تمام ادوار حکمرانی ہی کے ادوار ہیں چاہے وہ کسی ایک قسم کے ہوں یا دوسری قسم کے لیکن ان میں کچھ ادوار کو خصوصاً خلافہ کہا گیا۔ لہٰذا خلافہ محض کسی بھی قسم کی حکمرانی کی وضاحت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے ایک اپنے مخصوص نظام حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے اور یہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے صرف اس طرز حکمرانی کابيان کيا۔

لہٰذا لفظ "خلافہ" اسلامی طرز حکمرانی کو بیان کرتا ہے جس کو یہ معنی شارع نے خود دیا ہے نا کہ کسی عالم یا فقيہ نے، تاہم یہ ایک شرعی یا اسلامی اصطلاح ہے۔

 

لیکن اگر پھر بھی غامدی صاحب کی دلائل کو قبول کرلیا جائے کہ خلافہ محض مسلمانوں کی ایجاد کردہ ایک "پوليٹيکل سائنس اور سوشيالوجی کی اصطلاح ہے جیسے فقہ، کلام اور حدیث"، تو یہ سوال اھٹتا ہے  کہ اس اصطلاح کو اسلامی حکومت کے لئے کیوں نہیں قبول اور استعمال کرليتے بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے فقہ یا حدیث کی اصطلاح کو قبول بھی کیا اور اسے استعمال بھی کرتے ہیں؟ اس خلافہ کی اصطلاح کے لئے ایک دوسرا طرز عمل کیوں اختیار کیا جائے؟ اور اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ  اس اصطلاح  کو غیر دينی ثابت کیا جائے؟

 

جہاں تک اس شرعی حکم کا بات ہے کے صرف ایک ہی خلیفہ  ہوسکتا ہے تو اس حوالے سے احادیث بالکل واضح ہيں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

«إذا بويع لخليفتين، فاقتلوا الآخر منهما»

"جب دو خلفاء کے لئے بیعت لے لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو"(مسلم،1853)۔

رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ،

«من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد، يريد أن يشق عصاكم، أو يفرق جماعتكم، فاقتلوه»

"اگر تم متحد ہو ايک بندے کے تحت اور کوئی تمہاری صفوں میں رخنہ ڈالنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے تو اسے قتل کردو"(مسلم، 1852)۔

 

غامدی صاحب اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلی حدیث سند کے لحاذ سے صحيح نہیں ہے جبکہ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کی ہر حدیث کو محدثين نے متفقہ طور پر "صحیح" قرار دیا ہے۔

 

اس سے بھی بڑھ کر وہ ان احادیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اتفاق یا وحدت برقرار رکھنے کا یہ حکم کسی ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق ہےیعنی کہ مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں ہوسکتی ہیں اور لازماً پھر ایک سے زیادہ حکمران  بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ  احادیث عام ہیں اور ان میں غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ۔ اس کے علاوہ اُس وقت جب یہ احادیث بیان کی گئیں تو مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہی نہ تھیں کہ غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح ممکن بھی ہوسکے۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنھم کے ذریعے  آنے والے تمام وقتوں کے مسلمانوں سے خطاب فرما رہے تھے ۔

 

اپنی تشریح کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر غامدی  اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں تبدیلی تک کردی۔  فرمایا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، "ریاست کا صرف ایک ہی حکمران ہوسکتا ہے"، جبکہ انہوں نے جس روایت کو بیہقی کی سنن الکبری (نمبر16550) سے نقل کیا ہے اس میں "ریاست" کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ، "اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کے دو حکمران ہوں"، اور بالکل یہی ہمارا موقف ہے۔

 

اصولِ فقہ میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ "لام الجنس" عمومیت کی علامت ہے، اسی لئے مسلمانوں سے مراد تمام مسلمان ہیں ناکہ چند مسلمان۔ مسلمان بحیثیت مجموعی صرف ایک ہی حکمران تعینات کرنے کی مجاز ہیں جو ان کی رہنمائی کرے اور وہ حکمران خلیفہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تفرقہ، تقسیم اور اختلاف لازم ہے جس کو بیان کرنے کےلئے الفاظ کی کوئی ضروت نہیں بلکہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال ہی اس کا بیان کرنے کے لئے  کافی ہے۔

 

غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ حکمران بہت زیادہ نا اتفاقی اور تفرقے کا باعث ہوگی۔ لیکن حیرت ہے کہ انہیں مسلمانوں کے پچاس سے زائد غیر مؤثر ممالک میں تقسیم ہونے سے کوئی انکار نہیں ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ "جدیدیت" اور "اصلاح" پسندی کے پردے کے پیچھے سے پیش کیے جانے والے یہ انتہائ کمزور فکری دلائل موجودہ وقت کی سیکولر لبرل طاقت کی مرہون منت ہے۔ یہ جدیدیت اور اصلاح پسندی اسلامی شریعت کو سیکولر لبرل فکر اور موجودہ عالمی آرڈرکےچشمے سےدیکھنے کا نام ہے۔ اس فکر کے حامل افراد اسلام کو موجودہ دور کی حقیقت کو  سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اسلام کو حقیقت سے جدا گانہ طریقے سے سمجھ کر پھر اس کا اطلاق موجودہ حقیقت پر کیا جاتا ہے۔ اس طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ یہ حضرات اُن نتائج پر پہنچتے ہیں کہ جن کو اختیار کرنے سے مقامی یا بین الاقوامی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے۔

 

خلافت کا تصور عالمی صورتحال اور اس کے جابرانہ ڈھانچے کو مکمل طور پر چیلنج کرتا ہے۔ یہ دنیا کے مسلمانوں کو یکجا کرنے اور ایک بار پھر اسلام کو دنیا کی امامت کے مقام پر فائز کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ غامدی اور ان جیسے دیگر افراد اس کی مخالف سوچ رکھتے ہیں یعنی وہ اسلام کو استعمال کرتے ہوئے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے اس عمل میں پوری طرح سے مسلسل ناکام ہیں کیونکہ امت جدید سیکولر ماڈل کی حقیقت کو جان چکی ہے جو کہ ایک ایسا نظام ہے جہاں اقلیتی اشرافیہجمھور عوام کا استحصال کرتی ہے اور امت جانتی ہے کہ خلافت اس کے بالکل الٹ چیز ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ ایک فرض الٰہی ہے اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ناصرف اس کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔

 

عمر علی

مسلم سیاسی کارکن، لکھاری اور عربی اور اسلام کا طالب علم

Read more...

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ "اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں"

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:«بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ فطوبى للغرباء قالوا يا رسول الله ومن الغرباء؟ قال الذين يصلحون عند فساد الناس» "اسلام کی ابتداء اجنبی تھی اور یہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ یہ اپنی شروعات میں تھا۔  انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ، یہ اجنبی کون ہیں؟  آپ ﷺ نے جواب دیا: جو اس وقت لوگوں کی اصلاح کریں گے جب ان میں خرابی پھیل جائے گی''(طبرانی )۔   اور فرمایا: ((إن الدين بدأ غريباً ويرجع غريباً، فطوبى للغرباء الذين يصلحون ما أفسد الناس من بعدي من سنتي))"بے شک دین ایک اجنبی کی طرح شروع ہوا اور یہ پھر اجنبی ہو جائے گا، پس ان اجنبیوں پر رحمت ہو جو میرے بعد میری سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے بگاڑ دیاہو گا''۔    بے شک  آج اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو یہ دور وہی دور ہے جس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اِن احادیث میں کیا ہے۔   دین اجنبی ہو چکا ہے،فساد اور خرابی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے،نبی کریم ﷺ کی سنت کو بگاڑاجا چکا  ہےاوراسلام کو مساجد تک محدود کر دیا گیا ہے،بلکہ کئی جگہ مساجد کے منبروں سے بھی  اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جا رہی  ہے۔    دوسری طرف مسلم دنیا کے حکمرانوں نے استعماری کفار کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف ایک جنگ برپا کر رکھی ہے۔  پچھلی کئی دہائی سے جاری اس جنگ کی تازہ کڑی یہ ہے کہ  پہلے جہاد کے تصور کو بدنام کیا گیا اور اب خلافت کے تصور کو داغ دار کیا جا رہا ہے۔

 

لیکن الحمد اللہ مسلم معاشروں سے اسلام کو مٹائے جانے کے احساس نے آج امت کو دوبارہ متحرک کردیا ہے۔ مسلمان اس کوشش میں ہیں کہ آج پھر سے اسلام کو زندہ کیا جائے،اسلام کے افکار پر صدیوں سے جمی ہوئی گرد کو صاف کیا جائے،اسلام کا درخت دوبارا ہرا بھرا ہو،یہ امت دوبارا بہترین امت بن کر ابھرےاور اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے۔

تاہم یہ کام آسان نہیں ہے۔   اس رستے میں مشکلات ہیں، آزمائشیں ہیں۔اسلام کی وہ ریاست کہ جس کو تباہ کرنے کے لیے کفار نے  جنگیں لڑیں ، صدیوں تک سر جوڑ کر سازشیں کیں،وہ اس ریاست کے دوبارا ابھرنے کو ٹھنڈے پیٹ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔  آج جو بھی اس کام کو کرنے کے لیے اٹھ رہا ہے کفار مسلم دنیا میں موجود اپنے  ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعےانہیں مسلم معاشروں سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجرم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔     پس آج جو بھی اسلام کو دوبارا نظام اور ریاست کے طور پر واپس لانے کے لیے  کام کرے گا اسے اجنبی بننا پڑے گا۔

آج ایک حامل دعوت کو اس صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہونا ہو گا کہ اسے ماحول کے دھارے کے خلاف چلنا ہے۔  کیونکہ وہ چیزیں جو اللہ کی نظر میں اہم نہیں انہیں اہم بلکہ زندگی کا مرکز و محور بنا دیا گیا ہے، اور وہ امور جو کہ مسلمانوں کے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں ، بے وقعت کیے جا چکے ہیں۔   یہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا اثرہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم دنیا پر نافذ ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ایک حامل دعوت کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کے تمام دوست  اپنے مستقبل کو سنوارنے (کیرئر ) کی لگن میں جتے ہوتے ہیں ،تو وہ ان لوگوں پر اپنا وقت خرچ کر رہا ہوتا ہے، جن سے اس کی کوئی رشتے داری نہیں،کوئی دنیاوی غرض نہیں، کوئی دوستی نہیں ۔اس کے گھر والے، رشتے دار، عزیز و عقارب اسے دوسروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ کامیاب زندگی اسے کہتے ہیں، دیکھو فلاں شخص نے کتنی تیزی سے دنیا میں ترقی کی ہے، اپنی زندگی کو مستحکم  ( settle)کیا ہے ،اب اس کا اپنا گھر ہے، نئی گاڑی ہے، اس نے  اپنے والدین کے لیے کتنی آسائشوں اور ان کےحج و عمرے کا بندوبست کیا  ہے ۔   اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ تم کن کاموں میں پڑ گئے ہو، اپنی اور اپنے بال بچوں کی فکر کرو،اپنے مستقبل کی فکر کرو۔   جب ایک حاملِ دعوت یہ باتیں سنتا ہے تو اسےمحسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام، اسلام کے تقاضے، رسول اللہ ﷺ کی سنت، صحابہ کے طریقے، سیرتِ نبوی، یہ سب اجنبی ہو چکے ہے۔  ایک حاملِ دعوت کو یہ اجنبیت دعوت کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور محسوس ہوتی ہے۔

 

ایک حاملِ دعوت اس اجنبی ماحول میں استقامت کی راہ سے ڈگمگانے سے  اسی صورت محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ انبیاء اورصحابہ کے واقعات پر غور و فکر کرتا رہے اور اپنے آپ کو یاددہانی کراتا رہے کہ کس طرح ان ہستیوں نے دین کے مقابلے میں دنیاوی آسائشوں کو بے وقعت سمجھا، دین و دنیا کی تجارت میں دین کا انتخاب کیا،کس طرح مجاہدینِ اسلام  نے اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگیوں کا نصب العین بنایا۔

اور یہی وہ اجنبیت ہے کہ جس کے بدلے میں اجر ہے، وہ اجر نہیں جو کہ اصحاب الیمین کو ملے گا  بلکہ ویسا اجر جو کہ سابقون الاولون کو ملے گا، ان لوگوں کو ملے گا جو قیامت کے دن اللہ کے مقرب ہوں گے،   نور کے منبروں پر بیٹھے گے، انہیں رحمٰن کے قدموں میں جگہ دی جائے گی۔  یہ اجر ان لوگوں کو ملے گا کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ" لا خوف علیھم ولاھم یخزنون"انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے"(یونس:62)۔

بے شک جو لوگ اپنی دنیا میں مگن ہیں یا پھر اس انتظار میں ہیں کہ جب دین کو فتح حاصل ہو جائے گی  اور خلافت قائم ہو جائے گی تو وہ بھی ساتھ شامل ہو جائیں گے، وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جو آج کفر کی موجوں کے تھپیڑے برداشت کر رہے ہیں، ایجنٹ حکمرانوں کے قید خانوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے غنڈوں کے شر سے نبٹ رہے  ہیں، ان کے بنائے ہوئے کالے قوانین سے ٹکڑا رہے ہیں ،اورخلافت کے قیام کی جدوجہد میں اپنے بیوی بچوں کی قربانی دے رہے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی یہی صورتِ حال تھی ،جب باقی عالمِ عرب رسول اللہ ﷺ اور ان کے مختصر گروہ اور مشرکین مکہ کی کشمکش کو دیکھ رہا تھا۔امام بخاری نے روایت کیا ہے : " تمام عرب اپنے اسلام کے لیے فتحِ مکہ کا منتظر تھا ۔  وہ کہتے تھے کہ محمد کو اپنی قوم سے نبٹ لینے دو۔  اگر وہ غالب آ گئے تو وہ سچے پیغمبر ہیں ۔  پس جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قبیلے کے لوگ تیزی سے اسلام کی طرف لپکے"۔  لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاعلان فرمادیا:

لَا یسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ ط اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِینَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَ قَاتَلُوْا

''تم میں سےجن لوگوں نےفتح سےپہلےخرچ کیااورقتال کیاوہ (بعد والوں کے) برابرنہیں۔  ان کادرجہ ان لوگوں سےکہیں بڑھ کرہےجنہوں نےبعد میں اموال خرچ کیےاورقتال کیا''(الحدید:10)۔

انشاء اللہ ایسے ہی درجات  ان لوگوں کے منتظر ہیں جنہوں نے آج اجنیبیت کی زندگی کو دنیادی آسائشوں پر ترجیح دی ہے۔

لیکن ان درجات کے کچھ لوازمات ہیں جن کے بغیر وہ اجر حاصل نہیں ہو سکتا کہ جو اس دعوت کے ساتھ منسلک ہے۔ان درجات کو حاصل کرنے کے لیے اس دعوت کے لیے ویسی ہی سرگرمی دکھانا ہو گی جو کہ ان لوگوں نے دکھائی جنہوں نے پہلی مرتبہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا، اتنا ہی سنجیدہ اور یکسو ہونا ہو گا جیسا کہ صحابہ کرامؓ تھے، ویسی ہی عادات اپنانا ہوں گی جیسا کہ صحابہؓ کی تھیں۔  کیونکہ یہی وہ گروہ ہے کہ جن کے ایمان ، ایثار اور صبر و استقامت کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تصدیق کی ہےاور ان کے متعلق کہا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،اور ان کے متعلق گواہی دی ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَنَصَرُوا أُوْلَئِكَ هُمْ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

"اورجو لوگ ایمان لائے ، ہجرت کی ، اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں(نے مہاجرین کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی ، یہی لوگ سچے مومن ہیں ۔ ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کا رزق ہے" (سورۃ الانفال:75) ۔

 

ایک حاملِ دعوت جب اس حدیث کو پڑھتا ہے :ثم تکون خلافةعلی منهاج النبوۃ"پھر نبوت کے تقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" تواسے   رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دی گئی بشارت پر خوشی ہوتی ہے اور دل میں ایک اطمینان پیدا ہوتا ہے۔   تاہم اسے  اس حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ حدیث جس طرح ہمیں بتاتی ہے کہ خلافت نے دوبارہ قائم ہونا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس چیز کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ یہ خلافت نبوت کے نقشِ قدم پر ہوگی۔ یعنی اس گروہ میں وہ خصوصیات ہوں گی جو اس پہلے گروہ میں تھیں کہ جس نے پہلی اسلامی ریاست کو قائم کیا تھا۔   تو پھر  ہم پر لازم ہے کہ ہم ان لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر اس اسلامی ریاست کو پہلی مرتبہ قائم کیا تھا، کہ نئی قائم ہونے والی خلافت اسی کا عکس اور اس کے نقشِ قدم پر قائم ہوگی۔  ہم ان صحابہ کی زندگی کا جائزہ لیں کہ انہوں نے دین کی دعوت کو کیا اہمیت دی تھی، ان کی صفات کیا تھیں۔   یاددہانی کے طور پرکچھ واقعات کا ذکرکرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ

فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

"یاد دہانی مومنین کو فائدہ دیتی ہے"(الذریت:55)۔

عمرو بن جموحؓ انصاری صحابی تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں جد بن قیس کی جگہ پربنو سلمہ قبیلے کا سردار بنایا تھا۔  وہ ایک پاؤ ں سے معذور تھے جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتے تھے۔  بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی ۔  آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ معذور ہیں لہٰذا آپ کے لیے اللہ کی طرف سے رخصت ہے ۔ چنانچہ وہ بدر کی جنگ میں شرکت نہ کر سکے۔  ان کے چار بیٹے تھے جو کہ بدر میں شریک ہوئے۔  معاذؓ جنہوں نے بدر کی جنگ میں ابوجہل کو اپنا ہدف بنایا تھا اور ابوجہل کی ٹانگ کاٹی تھی عمرو بن جموحؓ ہی کے بیٹے تھے۔ جب  احد کا موقع آیا تو عمرو بن جموح  نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ جہاد میں شرکت کروں گا۔  بیٹوں نے کہا کہ آپ معذور ہیں ، اللہ کی طرف سے آپ کےلیےرخصت ہے ۔  لیکن وہ نہ مانے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے مجھے آپ کے ساتھ جانے سے روکتے ہیں۔  اور کہا: اللہ کی قسم میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اسی معذور ٹانگ کے ساتھ میں جنت کی زمین پر سیر کروںگا۔  آپ کے  اصرار پر آپ ﷺ نے بیٹوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: کیا حرج ہے اگر تم انہیں نہ روکو، شائد اللہ تعالیٰ ان کو شہادت نصیب فرمائے ،چنانچہ وہ جہاد کے لئے نکلے۔  چونکہ ٹانگ سے معذور تھے ،جو کہ لڑائی ، حملےاور بچاؤ میں رکاوٹ تھی، چنانچہ جلد ہی شہید ہو گئے۔   اسی غزوہ میں ان کے بیٹے خلاد بن عمرو بن جموح بھی شہید ہوئے ۔  جنگ کے بعد عمرو بن جموح کی بیوی ہندہ بنت عمرو بن حرام نے اپنے بیٹے اور شوہر کو ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ واپس لے جانے کا ارادہ کیا، تاکہ انہیں وہاں دفن کریں۔  مگر جب وہ مدینہ کا ارادہ کرتیں تو اونٹ بیٹھ جاتا اور جب احد کا رخ کرتی ہیں تو تیز چلنے لگتا ہے۔   انہوں نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا: عمرو بن جموح نے مدینہ سے چلتے وقت کچھ کہا تھا۔ ہندہ  نے کہا ہاں انہوں نے دعا مانگی تھی:اللّٰھم لا تعد نی الی اھلی"اے اللہ مجھے  گھر والوں کی طرف واپس نہ بھیجنا"۔   آپ ﷺ نے فرمایا : اسی وجہ سے اونٹ نہیں چلتا۔ اور فرمایا: قسم ہے اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں بعض ایسے بھی ہیں اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم کو ضرور پورا کرے ان میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں۔

 

سبحان اللہ یہ تھے رسول اللہ ﷺ کے صحابی کہ جن کی معذوری انہیں جہاد پر جانے سے نہیں روک سکی،انہوں نے اس معذوری کو بہانہ نہیں بنایا،  چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے۔  رسول اللہ ﷺنے عمرو بن جموح کو عبد اللہ بن عمرو بن حرام کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیا اور فرمایا:عمرو بن جموح اور عبد اللہ بن عمرو کو ایک ہی قبر میں دفن کر دو،یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محض اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے محبت کیا کرتے تھے۔  اُس وقت صورتِ حال یہ تھی  کہ شہداء کو دفن کرنے کیلئے کفن میّسر نہ تھے،اس لئے عبداللہ بن عمروؓ ایک چادر میں کفن دیا گیاجس میں چہرہ تو چھپ گیا لیکن پاؤں کھلے رہے جن پر گھاس ڈالی گئی ۔یہ قبر نشیب میں واقع تھی ۔اتفاق سے چالیس سال بعد معاویہؓ کے زمانے میں یہاں سیلاب آگیا اور وہاں سے ایک نہر نکالنی پڑی۔اُس موقع پر قبر کو عبداللہ بن عمروؓ کے بیٹے جابربن عبد اللہؓ کی موجودگی میں کھولا گیا تو دونوں کے اجسام بالکل صحیح و سالم اور تر و تازہ تھے۔بلکہ ایک روایت یہ ہے کہ اُن کہ چہرے پر جو زخم تھا اُن کا ہاتھ اُ س زخم پر رکھا ہوا تھا۔لوگوں نے ہاتھ وہاں سے ہٹایا توتازہ خون بہنے لگاپھر ہاتھ دوبارہ وہاں رکھاتو خون بند ہو گیا (طبقات ابن سعد، موطا امام مالک، کتاب الجہاد، باب الدفن من قبر واحد من ضرورۃ)۔

صحابہ کی خوبی یہ تھی کہ وہ دین کی راہ میں آگے بڑھتے تھے،اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھتے تھےاور اس کوشش میں مشکلات اور آزمائشوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کا ہر آنے والا دن اجر و ثواب کے لحاظ سے پچھلے دن سے بہتر ہو۔  بےشک آج بھی خلافت کے  قیام کے ذریعے دین کے نفاذ کی جدوجہدمحض معمول کا کام نہیں ہوگا، یہ صحابہ کی طرح دن اور رات کو ایک کرنےسے ہی ہو سکتا ہے،اس کے لیے حاملِ دعوت کو وہی تڑپ ،لگن ، اورشوق کو اپنے اندر اُجاگر کرنا ہو گا، جیسا ذوق اور شوق صحابہؓ کے اندر تھا۔غزوہ تبوک میں ہمیں اس شوق اور جنون کی ایک اور مثال ملتی ہے۔   غزوہ تبوک غزوہ عسرت بھی کہلاتا ہے، کیونکہ اس میں جنگی سامان اور سواریوں کی کمی تھی۔   رسول اللہ ﷺ نے غزوہ کے لیے تیاری کی ترغیب دی اور اس سلسلے میں صحابہ کرام ؓسے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنا مال خرچ کریں۔  صحابہ کرام ؓنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  تبوک مدینہ منورہ سے بہت دور تھا۔  پیدل سفر دشوار تھا اس لئے سواریوں کا انتظام کیا گیا۔  چند تنگ دست صحابہؓ جن کی تعداد سات تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم جہاد میں شریک ہونا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس سواری نہیں ۔  آپ ہمارے لیے سواری کا بندوبست فرما دیں۔  ان کی درخواست سن کر رسول للہ ﷺ نے فرمایا:  لا اجد ما احملکم عليه"میرے پاس سواری نہیں کہ جس پر تم کو سوار کروں"۔  یہ سن کر ساتوں افراد رونے لگے  اور غزوہ میں شرکت سے محرومی پر افسوس کرتے ہوئے چلے گئے۔  ان سات لوگوں میں سالم بن عمیر بھی تھے جو کہ اصحابِ صفہ میں سے تھے۔     اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبۃ میں ان کے اخلاص اور رغبت کی گواہی ان الفاظ میں دی ہے:

 

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
'' اور ان لوگو ں پر بھی کوئی گناہ نہیں کہ جب وہ آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں تو آپ نے کہا کہ میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوئے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں"(التوبۃ:92)۔

 

اسی طرح کا واقعہ حضرت ابوذر غفاری کا بھی ہے۔  تبوک کے موقع پر سخت گرمی کا موسم تھا اور اس وقت کی سپر پاور روم سے لڑائی تھی۔  منافقین کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس جنگ میں شریک نہ ہونے کا بہانہ تلاش کیا جائے۔  اللہ نے قرآن میں منافقین کی صورتِ حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:وَقَالُوا لاَ تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ oفَلْيَضْحَكُوا قَلِيلاً وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ''اوراُنہوں نےکہاکہ اس گرمی میں مت نکلو۔  کہہ دیجئےکہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھ سکتے۔ پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو یہ کرتے ہیں''(التوبہ: 81-82 )۔  اِنہی بہانہ بنانےوالوںمیں سےایک بنی سلمہ قبیلےکےجدبن قیس سےاللہ کےرسول ﷺنےپوچھاکہ'' اےجد!کیاتم بنیاصفرلڑناچاہوگے؟''  تواُسنےجوابدیا، ''اےاللہ کےرسولﷺ،آپ مجھےرہنےدیجئے،امتحان میں نہ ڈالئےمیرےسارےلوگ جانتےہیں کہ میں عورتوں کےمعاملےمیں کچاہوں،وہاںبنیاصفرکی رومی عورتیں دیکھوں گاتوخودکوروک نہ پاؤں گا''۔  آپﷺنےاُس سےمنہ پھیرلیا۔  اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی:

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

''ان میں سےکوئی توکہتاہےمجھےاجازت دیجئے،مجھےفتنےمیں نہ ڈالئے،آگاہ رہووہ توفتنےمیں پڑچکےہیں اوریقیناًدوزخ کافروں کوگھیرلینےوالی ہے''(التوبہ: 49 )۔

لیکن دوسری طرف ابوذرغفاری جیسے صحابہ کرام تھے ۔  ان کا اونٹ کمزور تھا اورسفر کے دوران سست ہو گیا۔  حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس کو چلانے کی کافی کوشش کی مگر وہ نہ چلا۔  چنانچہ آپؓ نے اس پر سے ساز و سامان اتار کر اپنی پیٹھ پر لاد لیااور سخت گرمی کے موسم میں پیدل لشکر کے پیچھے روانہ ہو گئے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ سے جا ملے۔

صحابہ کی دوسری نمایاں صفت دنیا سے بےرغبتی تھی۔ایک حاملِ دعوت جب لوگوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرتا ہے تو اسے کتنے ہی ایسے لوگ ملتے ہیں، جو کہ اس دین سے محبت کرتے ہیں، لیکن جو چیز ان کے لیے اسلامی ریاست کے قیام کے عظیم کام کا بیڑا اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے وہ دنیا کی نعمتوں کے چھن جانے کا خوف اور مال کی محبت ہے، طرز زندگی کی فکر ہے، کاروبار میں کمی کا ڈر ہے۔بے شک آج سرمایہ دارانہ نظام سے پھوٹنے والا مادہ پرستی کا عظیم فتنہ دنیا کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔

ابو بکرؓنے اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ پینے کے لیے پانی مانگا تو لوگ شہد کا شربت لائے،  آپؓ نے پیالے کو منہ لگایا اور پھر ہٹا کر رونے لگے۔  جو لوگ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی رو پڑے۔  لوگوں نے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو رُلا دیا ۔  آپ نے فرمایا: ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ  تھا ۔ میں سے دیکھا کہ آپﷺ کسی آدمی کو دھکیل رہے ہیں،  حالانکہ کوئی شخص آپ کے پاس نہ تھا۔  میں نے پوچھا کہ آپﷺ کس کو دھکیل رہے ہیں ۔  آپ ﷺنے فرمایا: دنیا میرے سامنے مجسم ہو کر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ وہ ہٹ گئی، پھر دوبارا آئی اور کہا آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں تو نکل جائیں لیکن آپ کے بعد کے لوگ مجھ سے نہیں بچ سکتے ۔  ابوبکرؓ فرماتے ہیں مجھے یہی واقعہ یاد آ گیا اور میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں یہ دنیا مجھے چمٹ نہ جائے۔ابوبکر کس قدر فکر مند اور خبردار تھے۔  کہ ایک نعمت کی فراوانی نے انہیں فکر مند کر دیا کہ کہیں دنیا ان سے چمٹ نہ جائے۔  اور آج ہم کتنی نعمتیں کھاتے ہیں، پہنتے ہیں، استعمال کرتے ہیں، لیکن کیا ہمیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے؟!

 

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بے شک ایسا نہیں تھا کہ صحابہؓ اللہ کی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے تھے، اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے تھے۔  عشرہ مبشرۃ میں سے دو صحابی عثمان ؓ اور عبد الرحمن بن عوف ؓ کے پاس مال و دولت کی فراوانی تھی۔     ابو بکرؓ اور عمرؓکے پاس قطع اراضی تھے جن پر وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے۔  اوربے شک یہ تصور درست نہیں کہ  ہر کسی کے لیے اتنا ہی ہونا چاہئے کہ جتنا کہ بس اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو، اور اسے آسائشوں کو حاصل نہیں کرنا چاہئے۔ اگر اسلام میں ایسا ہوتا تو پھر اسلام میں وراثت کے احکامات موجود نہ ہوتے۔  اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرے دولت مندی کا اسے کوئی مضائقہ نہیں (احمد)۔     مگر جس چیز سےایک حاملِ دعوت کو خبردار رہنا ہے وہ یہ ہے کہ آج جب ایک ایمان دار شخص کے لیےجائز طریقوں سے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف اس نظام نے حرام ذرائع سے دولت کے حصول کے دروازے کھول رکھے ہیں،اورحکمرانوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو نافذ کر کے لوگوں کی  زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے، تو یہ صورتِ حال کہیں اسےگرفت میں نہ لے لے کہ اس کے بڑھتے ہوئے قدم سست پڑ جائیں، اور شیطان اس کی ترجیحات کو تبدیل کردےاوروہ دنیا کی طرف نہ جھک جائے۔   کیونکہ  رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:((يهرمابنادموی شبمنهاثنانالحرصعلی المالوالحرصعلی العمر))"آدمی بوڑھا ہوتا جاتا ہے مگر دو چیزیں اس میں جوان ہی رہتی ہیں مال اور عمر کے لمبا ہونے کی حرص"(متفق علیہ)۔    پس اسے رسول اللہ ﷺ کے ان فرمودات کو اپنے سامنے رکھنا ہے: ان لکل امة فتنة وفتنة امتی المال "بے شک ہر امت کا ایک مخصوص فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے"(ترمذی)۔   اور فرمایا:  لا الفقر اخشی علیکم و لکن اخشی ان تبسط علیکم الدنی افتنافسوهاکماتنافسوهافتهلک کمکمااھلکتهم"میں تم پر فقر کا خوف نہیں لیکن اس بات کا خوف رکھتاہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے گی اور تم اس میں ایسے ہی رغبت کرو گے جیسے پہلوں نے کی اور وہ تمہیں ایسے ہی ہلاک کرے گی جیسے پہلوں کو کیا"(بخاری)۔   اور فرمایا:

 

(( ان اخوف ما اتخوف علی امتی الهوی وطولالاملفاماالهویٰ فی صدعن الحقواماطولا لاملفی نسیا لآخرۃ))

"بے شک میں اپنی امت پر جن چیزوں کا خوف رکھتا ہوں ان میں سب سے زیادہ خوف خواہشاتِ نفس اور لمبی امیدوں کا ہے۔ خواہشات حق سے روک دیتی ہیں اور لمبی امیدیں آخرت سے غافل کر دیتی ہیں"(بیھقی)۔

اورامام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

((اثنان یکرھھماابنادمیکرہالموتوالموتخیرللمومنینمنالفتنةویکرہقلةالمالوقلةالمالاقلللحساب))

"انسان دوچیزوں کو اچھا نہیں سمجھتا حالانکہ وہ دونوں اس کے لیے بہتر ہیں۔  وہ موت سے کراہت کرتا ہے حالانکہ موت مومن کے لیے بہتر ہے جس کی وجہ سے وہ فتنے سے بچ جائے گا اور وہ مال کی کمی کو اچھا نہیں سمجھتا حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا سبب ہے"۔

 

صحابہ کرام ؓ لوگوں کو بھی دنیا کی بے وقعتی کی یاددہانی کراتے رہتے تھے۔ ایک دن ابو ہریرۃ ؓ نے بازار میں جا کر لوگوں کو پکارا کہ تمہیں کس چیز نے مجبور کر رکھا ہے؟ لوگوں نے پوچھا کس چیز سے؟  آپؓ نے کہا وہاں رسول اللہﷺ کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو۔  لوگوں نے پوچھا  : کہاں تقسیم ہو رہی ہے۔  آپؓ نے کہا : مسجد میں۔  لوگ لپک کر مسجد پہنچے۔  لیکن وہاں مال کی تقسیم کا کوئی معاملہ نہ تھا۔  انہوں نے واپس آ کر صحابی رسول سے کہا کہ وہاں تک کچھ بھی تقسیم نہیں ہو رہا، البتہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ تلاوتِ قرآن پاک میں مشغول ہیں ، کچھ حلال و حرام پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ہیں۔  ابوہریرۃ ؓ نے فرمایا: تم لوگوں پر افسوس ہے ، یہی تو تمہارے نبی کی میراث ہے۔

دارمی نے عبد اللہ بن عمر و بن العاصؓ سے روایت کیا کہ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور فقراء مہاجرین کا ایک گروہ بھی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا   کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے  اور ان میں آ کر بیٹھ گئے۔  میں ان کے پاس آیا۔  اور رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔  فقرا مہاجرین اس چیز کے ساتھ خوش ہو جائیں جو انہیں خوش کرے گی۔  وہ جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہو ں گے۔  عبد اللہ بن عمر وؓفرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے روشن ہو گئے یہاں تک کہ میں نے آروز کی کہ میں بھی انہی میں سے ہوتا۔

بیت المقدس کی فتح کے بعد جب عمرؓ نے بلاد الشام کا رخ کیا تو وہاں ان کی ملاقات حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ سے ہوئی۔  ایک دن عمرؓ نے ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ مجھے اپنے گھر لے چلئے۔  ابو عبیدہ نے جواب دیا  آپ میرے گھر میں کیا کریں گے  اور عمرؓ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن عمرؓ کے اصرار پر انہیں ساتھ گھر لے آئے۔  ان کی گھر میں ڈھال ، تلوار اور اونٹ کے کجائے کے علاوہ کوئی خاص سامان نہ تھا۔    عمرؓ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ کاش تم ضروری سامان تو فراہم کر لیتے۔  اس پر ابو عبیدہ بن جراح نے جواب دیا : ہمیں قبر تک پہنچانے کے لیے اتنا سامان ہی کافی ہے۔

یہ تھے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کا طرزِ عمل۔   آج حاملینِ دعوت کو صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کو مشعلِ راہ بنانا ہے۔تبھی وہ کفر کے اژدھام کے باوجود آگے سے آگے بڑھ سکے گا۔  اورلوگوں کے لیے اس کی حیثیت  وہی  گی کہ جیسے اندھیری رات میں چراغ کی ہوتی ہے۔  اور اسلام کی سربلندی کا ہدف ان کے ہاتھوں اسی طرح پورا ہوگا جیسا کہ ماضی میں صحابہ ؓ کے ہاتھوں ہو ا۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

تحریر: افتخار احمد

 

 

Read more...

عالمی سیاست اور بیدار امت

الم . غُلِبَتِ الرُّومُ . فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ‏.‏ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ . فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ } [الروم‏:1‏ ـ4].‏

 

حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں  لکھتے ہیں کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آگیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آکر قسطنطیہ میں محصور ہوگیا۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہوگی۔ مفصل بیان آگے آرہا ہے۔ مسند احمد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں۔ اس لئے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لئے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا رومی عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ صدیق اکبر نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کرلو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہوگئی اور رومی غالب نہ آئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خدمت نبوی میں یہ خبر پہنچائی آپ نے فرمایا تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لئے لفظ بضع استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندراندر رومی پھر غالب آگئے ۔

 

ان قرآنی آیات میں اللہ سبحان و تعالیٰ عالمی سیاست کو موضوع بنارہے ہیں اور یہ بحث  بھی ایسے موقع پر کی جارہی ہے جب  کفر کاغلبہ ہے۔  پھر بھی صحابہ عالمی سیاست پر کفار سے بحش و مباحثے میں مصروف ہیں اور آپ ﷺ اس معاملے میں بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ  کی اسلام سے رہنمائی کر رہے ہیں جو اس بات کی  عکاسی کرتا ہے کہ مسلمانوں کا نقطہ نظر ابتدا ہی سے  ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ عالمی رہا ہے۔  جس کے بعد یہ سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا کہ سیاست یا عالمی سیاسی صورت حال وغیرہ جیسے موضوع تو محض دنیاوی معاملات ہیں  وغیرہ وغیرہ۔

یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان کفار کی سازشوں کو صرف اسی صورت میں ناکام  اور امت کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ،جب وہ اس کا صحیح ادراک کرسکتے ہوں۔ حزب اپنی کتاب "سیاسی مفاہیم" میں  لکھتی ہے کہ، " دنیا میں ہر ریاست کی پالیسی سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہے اور ایک مسلم سیاست دان اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ بات ہر مسلمان کے لیے نہایت اہم ہے کہ عمومی انداز میں عالمی طاقتوں کی  نوعیت (nature)، رازوں (secret)،  منصوبوں (plan) اور طرز عمل (style)، سے باخبر رہنا اور ان امور کا تفصیلی اور حقیقت پر مبنی فہم، روزانہ کی بنیاد  پر بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کی بنیادوں اور ستونوں کا مکمل ادراک ہر مسلمان مفکر کے لیے ضروری ہے۔ یوں امت کو ان سے محفوظ رکھنے کا مقصد واضح  ہوتا ہے جس کے ذریعے ریاست اور امت مسلمہ کی حفاظت اور اسلامی دعوت کو دنیا میں پھیلانے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔"

اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ  عالمی سیاست اوراس کی بنیادوں  کو کچھ بنیادی اصولوں کے ذریعے سمجھا جائے۔ اول تو یہ کہ عالمی منظر نامے پر موجود ممالک کی موجودہ حیثیت ، ان کے سیاسی منصوبوں اور سیاسی  طرز عمل کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔

عالمی دنیا کا فہم اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ آیا وہ کون سے ممالک ہیں جن کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور ہے  اور وہ دنیا کی سیاست پر متاثر ہوتے ہیں  اور وہ کن ممالک کو  براہ راست کنٹرول کرتے ہیں یا ان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

 

بنیادی طور پر آج دنیا میں چار اقسام کی ریاستیں پائی جاتی ہیں ۔ پہلی تو وہ جسے سپر پاور ریاست کہا جاتا ہے جو دنیا میں طاقتور ترین ریاست کا کردار ادا کرتی ہے اور دوسری ریاستوں کی حیثیت  کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسا کہ امریکا ۔ دوسری وہ  ماتحت (sub-ordinate) ریاستیں ہیں جن کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا انحصار دوسری طاقتور ریاستوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، قطر  اور مالی وغیرہ  جیسے ملکوں کا شمار ان ہی ریاستوں میں ہوتا ہے۔  تیسری  وہ سیٹلائٹ ریاستیں ہیں جن کی داخلہ  پالیسیاں تو خود مختار ہوتی ہیں تاہم بیشتر خارجی پالیسیاں  دوسرے ممالک کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آسٹریلیا ، کینیڈا وغیرہ۔ اور چوتھی قسم کی ریاستیں وہ ہیں جو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے اعتبار سے خودمختار ہوتی ہیں جیسا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور اسرائیل وغیرہ۔

ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طاقتور ممالک کی اپنے مقاصد  کی حفاظت کیلیے  مرتب کی گئی سیاسی حکمت عملی (politcial plan)اور  ان  سیاسی حکمت عملیوں کو عملی جامع پہنانے کیلیے سیاسی طور طریقوں(political style) کو سمجھا جائے ۔ جیسا کہ عراق پر قبضہ اور اس قبضے کو مقامی اور عالمی  دونوں سطح پر قانونی جواز فراہم کرنا امریکا کی حکمت عملی میں شامل تھا۔ جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے  امریکا نے  مختلف  سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا ۔ جن میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا بہانہ،  جھوٹ پر مبنی  سی آئی اے رپورٹس کی تشہیر، اقوام متحدہ کے ذریعے  جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنا ، شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینا، اہل تشیعوں کو حکومت کا حصہ بنانے  اور ایرانی و شامی اثرو رسوخ کا استعمال شامل ہے۔

 

تاہم یہ بات سمجھنا بھی لازم ہے کہ  سیاسی  طور طریقے سیاسی حکمت عملی کے مطابق مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں جب کہ سیاسی حکمت عملی صرف اسی صورت تبدیل  کی جاتی ہے  جب تمام اختیار کردہ سیاسی طریقے ناکام ہوجائیں  اور سیاسی اہداف حاصل نہ ہوسکیں یا  یہ کہ سیاسی حکمت عملی کسی خاص صورت حال کی وجہ  سے سیاسی مقاصد کے ہی مخالف ہوجائے  مثال کے طور پر  پہلے چین کی امداد کرکے اسے روس کے خلاف کھڑا کیا گیا اور پھر چین ہی کا گھیرا تنگ کرکے اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کیلیے سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا گیا ۔

کچھ یہی حال امریکا کا مسلم دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلیے ہے جس کے لیے وہ اپنے سیاسی طور طریقوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلی  لاتا رہتا ہے جیسا کہ  پہلے عسکری بغاوتوں  اور دیگر سیاسی اقدامات کے ذریعے مسلم ممالک کو کنٹرول کیا  گیا  اور اب مسلم زمینوں پر عسکری حملوں  کے ذریعے  اس کنٹرول کو مستحکم کیا جارہا ہے ۔لہٰذا ہماری سیاسی جدوجہد کا ہدف استعمار کی سیاسی فکر ، سیاسی حکمت عملیوں اور اس کے طور طریقوں کو بے نقاب  کرنا ہونا چاہیے۔

 

آج انبیاء کی سرزمین شام کی صورت حال  کچھ ایسی ہے کہ اقوام عالم اس پر بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔ امریکا  ہو ، سعودی عرب ہو، روس ہو یا ایران ۔۔ سب کے سب  یک زبان ہو کر شام کے بابرکت انقلاب اور اس کے مخلص انقلابیوں کے خلاف  کمربستہ ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں استعما ر نے اپنی سیاسی فکر  کے مطابق ہر سیاسی  حکمت عملی  کو پایہ تکمیل  تک پہنچانے کے لیے مختلف طور طریقوں کو آزمایا تاہم   شام کے عوام  نے بیدار امت کا ثبوت دیتے ہوئے  استعمار کی ہر حکمت عملی اور اس کے طور طریقوں کو خاک میں ملادیا ۔ جب کہ مصر ، تیونس ، لیبیا اور یمن وغیرہ سیاسی بصیرت اور پختگی نہ ہونے  کے باعث استعمار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ۔  شام میں لگ بھگ چار سال سے جاری  سیاسی بغاوت  اس بات کا ثبوت ہے کہ امت کو سیاسی پختگی اور سیاسی شعور اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب اسے اسلام کی جانب مسلسل دعوت  دی جاتی رہے۔

شام کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے  شام کی عالمی حیثیت  اور پس منظر کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔  شام  گزشتہ چالیس برسوں سے  حافظ الاسد اور پھر اس  کی اولاد بشار الاسد کی زیرسربراہی امریکا کے ماتحت رہا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ  سیاسی قائدین   کی زبانی جمع  خرچ  اور کچھ سیاسی بیانات  اور اقدامات سے مرعوب ہو کر شام  اور اس کے حکمرانوں کو  امریکا مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں جیسا کہ  مئی دو ہزار چار میں امریکا نے اس الزام پر  شام پر معاشی پابندیاں عائد کردیں کہ وہ  عراق میں عسکریت پسندوں کے داخلے کو  روکنے میں ناکام رہا۔ جب کہ حقیقت کا مفصل اورصحیح جائزہ لینےسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شام الاسد خاندان کی کمان میں ہمیشہ امریکی ایجنٹ ہی رہا ہے۔ شام کا خلیجی جنگ میں صدام حسین کے خلاف امریکا  کا ساتھ دینا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ شام  وہ واحد جمہوری عرب ریاست  تھی  جس نے پہلی خلیجی جنگ  میں عراق کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا اورOperation  Desert Storm میں مدد کیلیے اپنے دستے روانہ کیے۔

 

شام نے اسلام پسندوں کے خلاف بھی امریکا کی بھرپور مدد کی۔ اور اس بات کا اعتراف خود امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کیا کہ شام کی مدد سے امریکا کو وہ معلومات حاصل ہوسکیں جس کا اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔ شام ہی نے اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ شامی صدر بشار الاسد کی دوستی و  امن کی آشا کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ  اسرائیل نے 2007 میں شام میں  جوہری ری ایکٹر کو فضائی حملے میں تباہ  کردیا اور صدر بشار الاسد نے خاطر خواہ   جواب تک دینے کی زحمت نہ کی ۔    امریکا اور شام کے درمیان اتحاد  کی اس سے بہتر اور کیا مثال  ہوگی کہ بشارالاسد ساڑھے تین برس تک  شام کے معصوم شہریوں پر مسلسل بم برساتا رہا اور امریکا  کے ماتھے پر بل تک نہ آیا مگر جیسے ہی باغی  بشار الاسد کو اکھاڑ پھینکنے کے اہل ہوئے امریکا نے ان پر ہی چڑھائی کردی۔ مگر آفرین ہو  شام کے عوام پر  جنہوں نے ہر موڑ پر باخبر  ہونے کا ثبوت دیا اور امریکا کے سیاسی عزائم کو مسلسل ناکام بناتے ہوئے اسے اپنےسیاسی منصوبے فوری تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ثمر کوئی ایک ماہ یا ایک سال کی جدوجہد کا نہیں بلکہ برسوں کی محنت کا تھا۔ مارچ 2011میں ملک گیر احتجاج  کے آغاز کے بعد جب بات بشار کے دھڑن تختے تک جاپہنچی  تو شامی عوام میں موجود سیاسی قائدین   نے اس بات کو جانچ لیا کہ مصر، تیونس  اور لیبیا کی طرح شام میں بھی عوام کو  بشار کی حکومت کے  متبادل کی صورت میں دھوکہ دیا جائے گا۔ اور اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکا نے بشار کے مخالفین کو صفوں میں کھڑا کرنا شروع کیا۔ اکتوبر 2011 میں   Syrian National Council قائم کی گئی۔ نومبر میں  عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل  کرکے اس پر پابندیاں عائد کیں تاکہ  بشار پر دباؤ ڈال کر  اور اسے پس پشت ڈال کر اس کا متبادل  تیار کیا جاسکے۔

حزب التحریر  شامی انقلاب کے آغاز سے عوام میں مضبوط جڑیں بناکر انقلابیوں کی رہنمائی میں پیش پیش  رہی ۔ حزب نے کفار کی اس سازش کو  دو نومبر 2011 کو  اپنے پمفلٹ کے ذریعے بے نقاب کیا ، " امریکا اپنے آلہ کار عرب لیگ کے ذریعے  شامی حکومت کو مزید وقت فراہم کر رہا ہے  تاکہ وہ مزید معصوم شہریوں کا خون بہا سکے اور اس دوران بشار کا متبادل تیار کیا جاسکے۔"

مخلص قائدین انقلابیوں کو  اللہ سبحان و تعالیٰ کے اس فرمان کو بار بار یاد دلا رہے تھے کہ ،

"ان لوگوں کی جانب ہرگز راغب نہ ہونا جو ظلم کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تمہیں آگ پکڑ لے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔" {سورۃ ہود 11:113}

 

ادھر مارچ 2012 میں  اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کوفی عنان کے غیرمشروط امن معاہدے کی توثیق کردی جس کی حمایت کا اعلان روس اور چین  نے بھی کردیا  تاہم  پھر بھی  خون کی ہولی جاری رہی۔ کوفی عنان کے مستعفی ہونے پر اقوام متحدہ نے الجزائر کے سفارتکار لخدار  براہمی  کو  اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا شام کیلیے ایلچی مقرر کردیا۔

جون 2012 میں پہلی جنیوا کنونشن کے انعقاد تک پچاس ہزار شہری  لقمہ اجل بن چکے تھے۔ 30جون 2012 کو حزب التحریر نے امت سے خطاب میں جنیوا  معاہدے  کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے   یہ واضح کیا کہ جنیوا معاہدے کی منظوری  ایسا داغ ہوگی جس کو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا ، یہ امت سے بغاوت ہوگی۔۔۔ روس اپنے مالک کے لیے تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ ۔۔۔"

امریکا شام  کی چاروں  سرحدوں  یعنی لبنان، اسرائیل، ترکی اور عراق  پر بیٹھا تھا  جب کہ روس کی موجودگی تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر وہ صرف  مادی فوائد  ، مسلمان ملکوں  میں بڑھتی  تبدیلی کی لہر  اور وسطی ایشیا کے ممالک  تک ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطرامریکا کی ہر چال میں اس کا اتحادی بنا رہا۔ جب کہ امریکا کا مقصد واضح تھا کہ جب تک متبادل تیار نہیں ہوجاتا شامی عوام کو خون میں نہاتے رہنے دیا جائے۔ یہاں تک کہ امریکا نے لیبیا کی طرح  شام میں نو فلائی زون کا قیام بھی درست نہ سمجھا کہ کسی طرح فضائی بمباری سے ہونے والے جانی نقصانات کو ہی روکا جاسکے۔

 

نومبر 2012 میں  قطر میں منعقدہ اجلاس میں  نام نہاد اپوزیشن جماعتیں  National Coalition for Syrian Revolutionary & Opposition Forces  کی چھتری تلے یکجا ہوگئیں  جن کا نعرہ جمہوریت کا قیام تھا۔ دسمبر 2012 میں  امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی اور خلیجی ریاستوں نے معاذ الخطیب کی زیرسربراہی  Syrian National Coalition کو  شامی عوام کا نمائندہ قرار دینے کی کوشش کی تو  اس موقع پر حزب التحریر نے  امت پر یہ بات واضح کی کہ ،

" یہ ایک شرانگیز منصوبہ ہے، جسے امریکا اور اس کے حواریوں نے تشکیل دیا ہے۔ شام میں بے پناہ قتل و غارت گری  کرکے دشمن  ہمیں مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی اتحاد کو تسلیم کرلیں ۔۔۔ ۔"

اور الحمداللہ  شام کے غیور عوام نے حزب التحریر کی مخلص پکار کا مثبت جواب دیتے ہوئے شامی اپوزیشن اتحاد کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔  میدان عمل میں بشار الاسد سے برسرپیکار اہم ترین گروہ جبہۃ النصرہ اور  التوحید نے اتحاد کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ  وہ جمہوری نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ انہوں نے  شام کے قوم پرست جھنڈوں کو  پس پشت ڈالا اور رایہ اور لواء کو ہاتھوں میں تھامنا شروع کردیا۔ منصوبوں کی مسلسل ناکامی کو دیکھتے ہوئے  اپوزیشن  اتحاد کے سربراہ معاذ الخطیب نے استعفیٰ دیا اور خود یہ انکشاف کیا کہ  کچھ بیرونی عناصر اپوزیشن اتحاد  سے اپنے کام نکلوانا چاہتے ہیں۔

جس کے بعد 13مارچ 2013 کو حزب التحریر نے امت کو اللہ کے اس قول سے خبردار کیا،

"اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے  بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ ڈالا۔۔"{ سورۃ النحل:92}

شامی قومی اتحاد کی ناکامی کے بعد امریکا نے  شامی سیکولر بریگیڈز پر پیسہ لگانا شروع کیا ۔ واشنگٹن پوسٹ نے مئی 2013 کو خبر شائع کی کہ "امریکی حکومت اب سلیم ادریس  پر جوا لگا رہی ہے ۔" اخبار نے مزید لکھا کہ ،"سلیم ادریس کے اعتدال پسند  اور ذمہ دارانہ رویے پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکی حکومت اس  پر پیشہ لگانا چاہتی ہے۔" جس کے بدلے میں سلیم ادریس  نے براک اوباما کو خط لکھ کر اس بات کا اظہار کیا کہ "اسے شام میں مداخلت  کے حوالے سے امریکی پوزیشن کا اندازہ  ہے ۔ سلیم ادریس نے امریکا سے مالی امداد اور ٹریننگ میں مدد کی درخواست کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ جہادی گروپوں سے نمٹنے کیلیے تیار ہے۔"

تمام منصوبے ایک طرف اور ایران اور حزب ایران کا استعمال کرکے شامی انقلاب کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش  کا امریکی منصوبہ ایک طرف  تھا۔ ایران کو بشار الاسد کی امداد میں اپنے عوام کو یہ بہانہ پیش  کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ایران تو شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کیلیے مداخلت کر رہا ہے۔ ادھر حمص اور لبنانی سرحد کے درمیان  میں واقع اہم ترین شامی علاقے قصیر میں حزب ایران اور عسکری گروہوں میں لڑائی کا آغاز ہوچکا تھا اور یوں امریکا اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب رہا کہ ظلم کے خلاف بغاوت  کو فرقہ ورانہ رنگ دے کر بشار کی حکومت کو محفوظ بنایا جائے۔

دوسری جانب اب اسرائیل بھی شامی عوام کے خلاف کھل کر میدان میں آچکا تھا۔ حزب التحریر نے 7مئی 2013 کو امت سے خطاب  میں ان علاقوں پر اسرائیلی بمباری کی تصدیق کی جہاں باغیوں کا پلڑا بھاری تھا " 5مئی 2013 کو اسرائیلی طیاروں نے شام پر بمباری کی ۔۔۔ یقیناً بشار حکومت  یہود، امریکا  اور اس کے حواریوں کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھتی  بلکہ اس کے دشمن تو بس شام کے عوام ہیں۔۔ اور یہی کھیل ہے جو امریکا اور اس کے حواری کھیلتے ہیں کہ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے تبدیل کردیا جائے۔"

 

ایک طرف شامی افواج کا بدترین ظلم جاری تھا تو دوسری جانب امریکا بھی مسلسل اپنی سیاسی چالیں چلنے میں مصروف تھا ۔ جارج صابرہ کی جگہ سعودی حمایت یافتہ احمد جربا شامی قومی اتحاد کے  قائم مقام سربراہ  کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ جب کہ عبوری وزیراعظم یہ کہہ کرعہدے سے مستعفی ہوگئے  کہ وہ باغیوں کے زیرتسلط علاقوں میں حکومت قائم نہیں کرسکتے۔

اسی اثنا ء میں  امریکا کے کئی زبانی دعووں اور دھمکیوں کے باوجود بشار نے اگست 2013میں  دارالحکومت دمشق کے علاقے غوطہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں تقریباً 300شہری جان سے گئے۔ امریکا  کے مطابق تو یہ اس کی اپنی بنائی ہوئی  سرخ لکیر تھی  جس کو عبور کرنے پر امریکی صدر براک اوباما بار بار بشار کو دھمکیاں دیتا آیا تھا مگر حملہ ہوئے ڈیڑھ برس گزر چکے، آج تک بشار کے سر سے ایک امریکی طیارہ نہ گزرا۔  کیمیائی ہتھیاروں کا سارا ڈرامہ صرف اس لیے رچایا گیا کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کیا جاسکے تاکہ مستقبل قریب میں قائم ہونے والی خلافت کے پاس وہ صلاحیت ہی نہ ہو کہ وہ کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے، مگر وہ شائد بھول گئے کہ جنگ صرف عسکری قوت کےبل بوتے پرنہیں بلکہ ایمان کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔

شام کے بیدار عوام مسلسل دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے آرہے تھے چاہے وہ بشار کے خلاف مزاحمت ہو یا سفارتی محاذ۔  2014 کے اوائل میں دوسری جنیوا  کانفرنس کی ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہے  جب شامی اتھارٹی نے عبوری حکومت پر بحث کرنے سے انکار کردیا۔ حزب التحریر نے  امت کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا" شامی عوام کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا اور اس بات کا یقین رکھنا  ہوگا  کہ فتح صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آپ کو اپنے انقلاب  کو شفاف انداز اور انتہائی وضاحت کے ساتھ برقرار رکھنا ہوگا ، وہ انقلاب  جس کا آغاز یہ کہہ کر کیا گیا  کہ 'یہ صرف اللہ کے لیے ہے، یہ صرف اللہ کے لیے ہے' اور اس بابرکت انقلاب کو جنیوا کانفرنس کی مذاکراتی میزوں پر فروخت کرنے سے ہر صورت باز رہا جائے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا جائے، " اے ایمان والو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے) {سورۃ آل عمران: 118}

 

اور یقیناً امت کا نعرہ یہی تھا، "شعب یرید - الخلافۃ بالجدید"

ادھر امریکی حمایت یافتہ  FSA بھی  شدید ناکامی سے دوچار تھی۔ اسلام پسندوں نے اس کے قدم اکھاڑ کر رکھ دیے تھے ۔ پے درپے ناکامیوں کے پیش نظرFSA کی کمان  سلیم ادریس  سے  بریگیڈیئر عبداللہ البشیر کو سونپی گئی۔ مگر شکست کے بادل   مسلسل منڈلاتے رہے۔ ساری سیاسی چالیں   شکست کھاچکی تھیں اس لیے ضروری تھا کہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے ۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کو نشانہ بنانے کی آڑ میں امریکا  بالآخر شام پر براہ راست حملہ آور ہوگیا ۔۔مگر یہ امت کے لیے کوئی  انوکھی بات نہ تھی کیوں کہ اس کے متعلق امیر حزب التحریر شٰخ عطابن خلیل ابو الرشتہ   مئی 2013 میں ہی آگاہ کرچکے تھے ۔ امیر حزب التحریر نے یہ  واضح کیا تھا کہ ، "میڈیا   کی سیکولر عناصر کو بے پناہ کوریج دینے کے باوجود سیکولر آوازیں  بالکل دب کر رہ چکی تھیں اور  امریکا  خلافت کے قیام کیلیے اٹھنے والی آوازوں سے  بوکھلاکر رہ گیا تھا۔"

امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی تھی ۔ امیر حزب التحریر نے ڈیڑھ برس قبل  ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا تھا کہ معاملات مکمل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر  امریکا نے تین نکات  پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اول یہ کہ بشار کو قتل و غارت گری کی چھوٹ دی جائے  تاکہ عوام کو اپنے منصوبوں کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے تاکہ  شام میں سیکولر سول ریاست کا قیام ممکن بنایاجاسکے  اور پھر مکمل ریاستی ڈھانچہ اور جمہوری نظام برقرار رکھتے ہوئے  چہروں  کو تبدیل کردیا جائے۔ تاہم  کفار اور اسکے ایجنٹوں کو  بیدار امت کے مقابلے میں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ۔ شام کے عوام نے  معاذ الخطیب، جارج سابرا، احمد جابرا ، عبوری وزیراعظم  غسان ہیتو ، سلیم ادریس،  عبداللہ البشیر،  کوفی عنان ، لخدر براہمی ، جنیوا ون  اور جنیو ٹو  سمیت کفار کے تمام منصوبوں کو دھول چٹائی ۔

پہلا منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں ان کا دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ  اگر وہ  اپنے حمایت یافتہ باغیوں  یا حزب اختلاف کے ذریعے بشار الاسد کو عہدے سے ہٹانے میں ناکام رہے تو  عالمی مداخلت کے ذریعے  اپنی مرضی کی حکومت منتخب کی جائے  گی ۔یہ دونوں منصوبے ناکام ہونے کی صورت میں کفار کی یہ سوچ تھی کہ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں ، ہر طرف اتنی تباہی  پھیل چکی ہوگی کہ اگر اسلام کو اقتدار حاصل ہوبھی جاتا ہے تو امت  مایوسی کے سبب نشاۃ ثانیہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنے احیا ء کی جانب  قدم نہ بڑھا سکے گی۔

مگر کفار  اور ان کے پیروکار یہ سمجھنے میں قاصر رہے کہ  یہ ایک بہترین امت ہے جسے دنیا  کی امامت کے لیے چنا گیا ہے  اور اس امت میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو  امت کو نشاۃ ثانیہ کی جانب لے جانا جانتے ہیں اور کفار و منافقین کے سارے  منصوبوں  کو ناکام بنادیں گے۔ یہ جانتے نہیں کہ یہ وہی امت ہے جس نے روم و فارس جیسے عظیم سلطنتوں کو ناکون چنے چبوانے پر مجبور کیا ، صلیبیوں  کو ان کی اوقات یاد دلائی اور یہود و ہنود پر اپنا رعب و دبدبا طاری کیا۔ رب کائنات کا  یہ فرمان کسی صورت جھٹایانہیں جاسکتا کہ ،

" تم وہ بہترین امت ہو  جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔"{ آل عمران:110}

 

امت مسلمہ کو اللہ نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو اسے  دنیا کی دیگر اقوام سے ممتاز کرتی ہے  بس ضرورت  ہے تو صرف اس بات کی کہ امت میں بیدار سیاسی شخصیات اور گروہ موجود رہیں  جو امت کو کفار کے منصوبوں سے باخبر رکھیں ۔ اور اس باخبر اور باشعور حزب پر بھی  یہ لازم ہے کہ وہ  امت میں اپنی جڑیں مضبوط کرے اور امت کے ہر طبقے سے مستحکم روابط رکھے  تاکہ امت حزب کے ساتھ آگے بڑھے اور  کفار کے گھناؤنے منصوبوں  کو ملیامیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ امت کے فرزندوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم    امت میں بہترین انداز میں دعوت رکھیں ، بہترین سیاست دان بنیں اور اس امت کو اس منزل تک پہنچائیں جس کی  یہ مستحق ہے۔ یہ عمل ہمیں اس دنیا میں  بھی عزت دلائے گا اور آخرت میں بھی ہمارا حساب شہدا ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ کیا جائے گا، انشاء اللہ۔ بے شک عزت اور ذلت دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، " واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ ﷺنے فرمایا، ہاں کسریٰ بن ہرمز کے ۔تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان پورا ہوا ۔ یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشنگوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔"

واللہ ہمیں بھی یقین ہے کہ رسول ﷺ  کی  "نبوت  کے نقش قدم پر خلافت  کے دوبارہ قیام " کی بشارت بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

انجینئرعمیر ، پاکستان

 

Read more...

خبر اور تبصرہ راحیل-نواز حکومت نیشنل ایکشن پلان (امریکی ایکشن پلان) کو نافذ کرنے کے لئے پاگل ہوگئی ہے

خبر: 6 فروری 2015 کو وزیر اعظم کے دفتر نے اعداد و شمار پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دس ہزار سے زائد مبینہ "دہشت گردوں" کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن اس دستاویز میں پکڑے جانے والے لوگوں کے پس منظر اور اُن کی کِن جماعتوں سے وابستگی ہے کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ پریس کو جاری کی جانے والی اس دستاویز میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حکومت کب اور کیسے ان دس ہزار سے زائد لوگوں پر مقدمات چلائے گی جنہیں ملک بھر سے چودہ ہزار سے زائد چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب کاروائیاں دسمبر 2015 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہونے کے بعد کی گئی ہیں جس میں 140 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔


تبصرہ: پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے خوفناک حملے اور پھر نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت نے ملک بھر میں چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا جس میں اُن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں یا پھر اُن کو جو پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حکومت نے امام مساجد کو بھی نہیں بخشا اور ہزاروں کو لاوڈ سپیکر ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ حکومت کی ایجنسیاں مدارس کے طلبہ کا پیچھا کررہی ہیں اور انہیں اغوا کررہی ہیں۔ لیکن اِن کا پاگل پن اُس وقت انتہاء کو پہنچ گیا جب انہوں نے لاہور، گلبرگ میں ایک انتہائی معزز اور مشہور جگرانوی خاندان کے گھر پر چھاپہ مارا۔
حکومت کے غنڈے جگرانوی خاندان کے ایک فرد کو گرفتار کرنے آئے تھے جسے پچھلے کئی سالوں سے بد نام زمانہ فورتھ شیڈول میں ڈال رکھا گیا ہے۔ لیکن جب وہ اسے گرفتار نہ کرسکے تو 11 فروری کو اُس کے بھائیوں اور اُن کی بیویوں کے نام چارج شیٹ لکھ ڈالی۔ لیکن حکومت کی جانب سے یہی کافی نہ تھا کہ 13فروری کو نماز جمعہ سے قبل حکومت کے غنڈے واپس آئے اور جگرانوی خاندان کے گھر کی چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا اور بغیر اجازت گھر میں داخل ہوگئے اور ایک غنڈے نے اِس خاندان کی ایک عورت کو پکڑ لیا جب اس کی گود میں اس کا جسمانی طور پر معزور بچہ بھی موجود تھا اور اُسے گرفتار کر کے لے گئے۔ اب وہ خاتون اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ لاہور کی کوٹھ لکھپت جیل میں قید ہیں اور عدلیہ کی جانب سے اپنی ضمانت کی درخواست سننے کی منتظر ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جگرانوی خاندان نے حکومت کے غضب اور جبر کا سامنا کیا ہے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ اُن کے کچھ مرد حضرات حزب التحریر کے ساتھ خلافت کے قیام کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ پورا خاندان اس مقصد کی حمایت کرتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار جگرانوی خاندان کے مرد حضرات کو گرفتار کیا گیا اور وہ اس اعلٰی مقصد کے لئے کام کرنے کے جرم میں جیل بھی گئے۔ لیکن حکومت کا جبر اور ظلم اِس خاندان کو اسلام سے محبت اور اس کے نفاذ کی جدوجہد سے دستبردار نہیں کراسکا۔ اب اُن کے استقامت کو متزلزل کرنے کے لئے حکومت نے اُن کی پاک دامن عورت پر اپنا گندا ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ عمل پاکستان کے معاشرے میں ایک سرخ لکیر ہے کیونکہ پاکستان کا معاشرہ اسلام سے شدید محبت رکھتا ہےاور اس حد کو کسی صورت عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ یہ غلیظ عمل کر کے اِس حکومت نے پورے معاشرے کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے کافر آقاؤں کی خوشنودی کے لئے کسی بھی حد تک گرسکتی ہے۔
الحمد اللہ حکومت کے خلاف غصہ اس کی جانب سے مسلط کیے گئے خوف پر غالب آرہا ہے۔ حکومت کی اس ظلم وجبر کی مہم نے بہت سو ں کو غصے میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومت کے غنڈے گھر کی چار دیواری کا تقدس بغیر پوچھے داخل ہو کر پامال کررہی ہے یہاں تک کہ خواتین اور چھوٹے بچوں کو دہشت زدہ کررہی ہے۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان جو درحقیقت امریکی ایکشن پلان ہے، کے خلاف کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہیں کررہی تا کہ پاکستان میں امریکی راج کو مستحکم کیا جائے۔ اِس حکومت نے اسلام اور اس کی امت کو چھوڑ دیا ہے اور یہ واشنگٹن میں بیٹھے اپنے کافر آقاؤں کی خدمت کرنے پر فخر کرتی ہے اوراس حکومت کے افراد کفار سے میڈلز اور گارڈ آف آنرز وصول کرنے میں انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ اس حکومت کی انہی خصوصیات کی بنا پر اس نے اپنے آپ پر اللہ سبحانہ و تعالٰی کا غضب لازم کرلیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

 

وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً
"اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور راہ راست کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اہل ایمان کے سوا کسی اور کی روش پر چلے، تو اُسے ہم اُسی طرف چلتا کردیں گے جدھر وہ خود پھر گیا۔ اور ہم اُسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بدترین جائے قرار ہے"(النساء:115)



حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

المیوں کی ماں

پشاور واقعے جیسے لرزہ خیزواقعات کسی بھی با شعور قوم کو احساس دلانے  کے لئے کافی  ہوتے ہیں، مگر یہاں  ایک اور بڑا المیہ ہے،جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ  اُمت عرصہ دراز سےان جیسے  المیوں سے  مانوس ہوچکی ہے۔ یہ کوئی نیا المیہ نہیں  یکے بعد دیگرے مسلم علاقوں میں مسلمان ماؤں ،بہنوں کی عصمت دری اور بچوں ،بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرڈالنے کے بے شمار واقعات  تاریخ کے اوراق  اور آج کی جدید ٹیکنالوجی  کے ذریعے متحرک شکل میں محفوظ ہیں۔  وحشت وبربریت  کے ایسی داستاں رقم کی گئی جس میں جدید ٹیکنالوجی کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا بلکہ خاص اسی مقصد کے لئے  بنائے گئے آلات اورتشدد کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔ انسانیت پر مسلط کی گئی  جنگ ،پریشانی اور بے چینی  صرف مسلمانوں تک ہی محدود  نہیں رہی۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے تباہ کن واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ  کی حیثیت سے تا قیامت موجود رہیں گے۔ مگر جدید ظلم  ودردندگی کا نشانہ سوچے سمجھے منصوبے اور منظم سازش کے ذریعے  اکثر مسلمان بنتے رہے ہیں۔ بوسنیا اور چیچنیا کے اندر روس اور سربیا کے مظالم  کے خوفناک مناظر آنکھوں کےسامنے ہیں۔  گوانتاناموبے ، ابوغریب اور بگرام  کے قیدخانوں کےانسانیت سوز اور حیا سوز واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ماضی قریب میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھسٹوں کی ستم کاریاں ، شام کے مسلمانوں پر اسد ی حکومت کی طرف سے پٹرول بموں کی بارش اور اس کے ہاتھوں دمشق شہر کی تہہ وبالا کی گئی عمارتیں اور لہو رنگ مناظر۔   وحشت ،سفاکیت اور بہیمیت  سے بھر پور المیوں  کی ایک  طویل  اور ناقابل بیان  ناقابل فراموش تاریخ ہے ۔   یہاں میں جس المیے کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ المیۂ فکریہ ہے،یعنی جب انسانیت  کوصحیح حل سے  محروم کردیا جائے  اور اس کی سوچنے کی صلاحیت ہی متاثر ہوجائے ،جب سچ بولنا جرم ٹھہرجائے ،جب ظلم روکنے کو دہشت گردی سے موسوم  اور دہشت گردی کو امن اور انصاف کی تلاش کا نام دیا جائے۔ جہاں دلیل کے بجائے جبر اور طاقت کی زبان بولی جاتی ہو،تو یہ تمام المیوں سے بڑھ کر المیہ ہے، یہ المیوں کی ماں ہے، ماں! وجہ یہ ہے کہ جب صحیح حل تک رسائی ہی نہیں ہورہی یا نہیں ہونے  دی جارہی تو ظاہرہے کہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اورانسانیت سسک سسک کر تڑپتی رہے گی اور درندگی ،وحشت وبربریت کا شکار رہے گی ،جو اس کی بدبختی ہے۔

 

بلاشبہ اس طرح کے واقعات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بہت جلد اصل اسباب وعوامل کا تعین  کرکے حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں  پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتے  ہیں تاکہ مستقبل میں سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کیا جائے اور اگر سچ  پر قدغن نہ ہو اور رائے کی آزادی کی بجائے اس کے مبنی بر دلیل ہونے کو مدِ نظر رکھا جائے توحق و سچائی تک پہنچا جا سکتا ہے۔  مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ "وسیع تر قومی مفاد" ،"دہشت گردی کے خلاف جنگ "، "ملکی سالمیت " وغیرہ یہ کیا ہے ، ان الفاظ کی حقیقت مکمل طورپرمبہم اور بے بنیاد دعوؤں کے سوا  کچھ نہیں۔جنہیں مختلف مواقع پر استعمال کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حقائق تک رسائی  کے نام پر حقائق کو اوجھل رکھنے کی کوشش ، رسمی مذمت  اور جذباتی ماحول ،اورخوف کی فضائیں تخلیق کرکے  غیر معمولی حالات کا نام دے کربیرونی طاقتوں کے فائدے کے قوانین کی منظوری  اصل کامیابی اور حل سمجھا جاتا ہے۔  المیہ تب ہوتا ہے کہ جب دشمن اپنی چالاکی وہوشیاری کو بروئے کار لاکر اس حد تک حواس باختہ کردے اور اپنے آپ کو اس حد تک خفیہ رکھے کہ وہ  وار پر وارکرتا رہے ، مگر آپ  فیصلہ ہی نہ کر سکیں کہ وار کرنے ولا کون ہے۔  دشمن پے درپے ضرب اس مقصد کے لئے لگاتا ر ہے کہ سوچ بچار کاموقع ہی نہ ملےاورآپ   حواس باختگی کے عالم میں اِدھر اُدھر  لپٹ جھپٹ کر حملہ کرتےر ہیں۔ یہ ہے ہلاکت وبربادی کہ جس میں پاکستان کے مسلمانوں کو مبتلا کردیا گیا ہے۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ قول وعمل میں تضاد بہت مستحکم ہوچکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ یہ  تضاد ناسمجھی ،سادگی یا بے وقوفی کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم کا  لہو بیچنے کے لئے ہے ۔  کیا یہ بہت عجیب بات نہیں کہ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے اور دوسری طرف امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر جیسے بد نام زمانہ تنظیموں کو باقاعدہ ویزے جاری کئے جائیں اور انہیں ہر جگہ آزادانہ ،اسلحہ اور جاسوسی کے آلات سے لیس ،بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیوں میں پھرنے کی اجازت بلکہ تحفظ  فراہم کیاجائے؟  یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ بڑے بڑے سانحے ہوتے رہے اور اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے کمیٹیاں بنانے ،اتفاق رائے وغیرہ جیسے غیر ضروری کاموں میں وقت صرف کیا جائے ،کیا یہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ اخلاص ہے ؟

 

آج کل اکثر جنگیں اسٹریٹجک بنیادوں پر لڑی جاتی ہیں۔بالخصوص امریکہ کی اگر ہم بات کریں۔  مثلاً    بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے کر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں،مگر یہ دھمکی عوام کے لئے تو دھمکی ہوسکتی ہے،اصحاب اقتدار کے لئے نہیں ، اس لئے کہ یہ سب کچھ گٹھ جوڑ کے بعد ہوتا ہے ۔  امداد کے نام پر سیاسی وعسکری اور اقتصاد ی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا، ایجنٹ اشخاص وحکومتیں،مبہم اصطلاحات :جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ،انصاف،انسانیت وغیرہ، وہ ہتھکنڈے ہیں جنہیں استعماری منصوبہ ساز اپنے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بروئے کار لاتے  رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  آج تک دہشت گردی کی تعریف ہی متعین نہیں کی جاسکی  بلکہ آج کل  "سہولت کاروں" کی جو اصطلاح نکلی ہے ،اُن سے کون لوگ مراد ہیں؟  کوئی واضح تعین نہیں۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ ایسے مواقع پر صرف موم بتیاں جلا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور دشمن کی چال میں آکر اس کانام لینے کے بجائے اس کو گالیاں دیتےاور لعنت بھیجتے  ہیں جنہیں  دشمن ان سے  دلوانا  چاہتا ہے۔ یوں دشمن کے منصوبے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہمارے بچوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔   یہ کام اکثر لوگ سطحیت کی وجہ سے کر رہے ہیں مگر اس کااصل سبب  صاحبان اقتدار ہیں جو میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور میڈیا  اصل حقائق جاننے کے باوجود  انہیں بیان نہیں کرسکتا ۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسا اشتعال انگیز ماحول قائم ہوجاتا ہے کہ  ایک طرف  خون کی ندیاں بہتی ہیں  جبکہ  دوسری طرف اسی ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصل ذمہ داروں عوام کے سامنے بے نقاب نہیں ہوتے۔  ایسے میں اگر کوئی حقائق جاننے کی بات کرتا ہے تو اس کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔اور بے سروپا دلائل کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔   ہونا تو یہ چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟  اصل مسئلہ کہاں ہے اور کیسے حل کریں؟ مگر ہائے رے کم نصیبی!

 

ایسے مواقع پر سربراہان ِقوم مسئلہ کاحل ڈھونڈنے کے لئے اکٹھے ہوکر سنجیدگی سے سوچتے ہیں ،مگر جب قیادت ہی بکی ہوئی ہو تو آپ خود سوچئے ، کیا ہوگا؟  ابہام درابہا م درابہام ! سنجیدگی کا سب سے  اولین تقاضا یہ ہے کہ  اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا جائے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کریں ۔تاکہ کوئی ابہام نہ رہے، لیکن یہاں ایسا نہیں۔

اگر ہم اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہم نے مندرجہ ذیل کام  طےکرنے ہوں گے:

1-      دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے۔

2-      اس تعریف کا مصداق کون کون ہے، ان کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا سنائی جائے۔

3-      کیا قابض کفار کے خلاف جہاد دہشت گردی ہے؟اس کو واضح کیا جائے  اور اسی کی روشنی میں  افغانستان کی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ   کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔

4-      ہمارے چھوٹے بڑے تمام فیصلوں کی بنیاد کیا ہونی چاہئے؟

5-      کیا اسلامی نظام کے نفاذ اور اپنے فیصلے قرآ ن وسنت کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ یا اس مقصد کے لئے جدوجہد کرنا انتہا پسندی اور جرم ہے؟۔

6-      کیا  اسلامی نظام سے مسلمانان پاکستان کو محروم رکھنا جرم نہیں؟

7-      یا پھر ایسا ہے کہ اسلام ناقبل عمل ہے؟ جس کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہئے۔

8-      اگر یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے تو کیوں؟

9-      حساس مقامات تک کسی بھی غیر ملکی کورسائی دیناکیا حیثیت رکھتا ہے؟

10-  غیر ملکی حملہ آور یا دہشت گرد حساس مقامات تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ جبکہ ملک کے حالات غیر معمولی ہیں؟

11-  سہولت کار کون ہے؟

یہ وہ  امور ہیں جو اگر طے ہو جائیں تو  ہم اس مخمصے سے بہت جلد نکل سکتے ہیں کہ جس میں پاکستان کے عوام کو پچھلے کئی سالوں سے مبتلا کیا گیا ہے۔ ان سوالات  میں اہم ترین سوال نمبر 4 ہے  ۔ آج تک جن المیوں سے ہم دوچار ہوتے رہے ہیں ،ان کی اصل بنیاد قوم کو بیوقوف بنانے کی پالیسی ہے جس میں ابہام اور عدم شفافیت سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ ہمارے کئی لوگ ایسے ہیں جو اس حوالے سے شک وشبہ کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اس خونریزی ، قتل وغارت گری  اور تباہی وبربادی کا اصل ذمہ دارامریکہ ہے جو براہ راست ان جیسے مذموم کاروائیوں میں ملوث ہے یا کوئی اور۔اور جنہیں یہ یقین کرنا مشکل پڑتا ہے کہ ایک حکمران کس طرح قوم کی عزت وناموس اور جان ومال کے سودوں کا دھندا کرنے میں ملوث ہوسکتا ہے؟  اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطاء فرمائے۔ آمین!

 

تحریر : راغب فاتح

Read more...

مغرب کا تہذیبی دیوالیہ پن اور مغرب سے مرعوب لوگوں کا المیہ

 

کچھ عرصہ قبل امریکہ کی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے سرکاری طور پر اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو شائع کردیا جو کہ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران بنائے گئے طریقہ کار اور اس کے مطابق امریکی سی۔آئی۔اے کا قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق ہے۔   مکمل رپورٹ تو 6000صفحوں پر مشتمل ہے مگر اس کے صرف 400 صفحات کو شائع کرنے کی اجازت دی گئی ۔   لیکن یہ 400 صفحات بھی مغرب اور اس کی حکومتوں کی درندگی  کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کومسلسل چھ دن تک جگائے رکھا گیا اور انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ نیند کے بغیر مسلسل گھڑے رہیں۔اس ذہنی تشدد کے نتیجے میں یہ قیدی نیم پاگل ہو گئے۔    ان میں سے دو قیدیوں کے  پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک قیدی کو یہ گھٹیا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گا تو اس کی والدہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔"مہذب" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے واٹر بورڈنگ تکنیک (technique  Water boarding) بھی استعمال کی جو کہ تشدد کا بدترین اسلوب ہے۔  اس تکنیک میں ایک شخص کے ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس پر بار بار پانی ڈالا جاتا ہے جس سے وہ شخص ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ گویا وہ ڈوب رہا ہے۔  رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو 183مرتبہ اس عمل سے گزارا گیا۔

 

یہ ظالمانہ سلوک کوئی نیا نہیں ہے۔  اس سے پہلے عراق کی ابو غریب جیل میں روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی تصویریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔  اور ماضی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اپنی کالونیوں میں لوگوں کو جن ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے وہ مغرب کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور ایک مخصوص طبقہ مغرب کے متعلق یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔  چنانچہ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو مغرب کی اعلیٰ اقدار کے گن گاتے نظر آتے ہیں اورانہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرہ اجڈ ، جاہل، گنوار اور تہذیب سے عاری ہے، جبکہ مغربی معاشرے مہذب اور بااخلاق ہیں۔  چنانچہ یہ لوگ مغرب کی نقالی کرنے میں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کرنا ،مہذب اورپڑھا لکھا ہونے اورروشن فکری کی علامت ہے۔

 

ان لوگوں کے مغرب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی مادی ترقی ہے۔  بلند و بالا عمارتیں، سائنسی ایجادات، مستحکم حکومتوں کی موجودگی، دولت کی فراوانی، مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں عوام کے لیے اچھی سہولیات کی فراہمی اور ایک منظم نظام کی موجودگی، انہیں اس سوچ کی طرف لے جاتی ہے کہ مغرب کے لوگ اقدار کے لحاظ سے بھی تیسری دنیا خاص طور پر مسلمانوں سے بہتر ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایجادات اور مادی ترقی کے لحاظ سے مسلم ممالک سے کہیں آگے ہے۔  اور یہ ممالک اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور کسی دوسری قوم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خود سے اس کے متعلق غور و فکر کریں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب کے لوگ انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے باقی دنیا  کے انسانوں سے بہتر ہیں یا ان کی تہذیب اور اقدار ہم سے بہتر ہے۔ایسے ممالک کہ جن کے پاس ایک ایسا نظریہ موجود ہو کہ جس میں سے انسانی مسائل کے کے حل نکلتے ہوں ان میں ہمیں یہ صفت نظر آئے گی۔   ماضی میں سوویت رشیا کی بھی یہی صورتِ حال تھی کہ جہاں سوشلزم کے نظریے کے نفاذ نے مادی ترقی اورخوشحالی کو جنم دیا۔مگر ایک نظریئے کی بنیاد پر انسانی مسائل کو حل کرنے اور ان حل کے درست ہونے اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے میں فرق ہے۔  حقیقت یہ ہے مغربی تہذیب جس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار ہے،اس میں سے نکلنے والے  زندگی کے مسائل کے حل کا نفاذ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے ۔یہ کیونکر ہےیہ بحث آج کے موضوع سے الگ ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ جو چیز موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی بذاتِ خودمغرب کے اخلاقی و تہذیبی دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ہے۔

 

اس سے پہلے کہ ہم مغربی تہذیب کی گراوٹ اور مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ اس کے فکری تعلق کو بیان کریں ۔  پہلے اس کنفیوژن کو واضح کر دیا جائے جو کہ مغرب کے بعض لوگوں کے حسنِ سلوک اور خیرات اور رفاحی کاموں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے۔   یہ لوگ بل گیٹس جیسی  مثالیں پیش کرتے ہیں،کہ   فوربز میگزین کے مطابق 2013میں بل گیٹس اور اس کی بیوی نے 2.65ارب ڈالر بیماریوں سے بچاؤ اور تعلیم کی بہتری کے لیے خیرات کے طور پر دیے ۔  میگزین کے مطابق بل گیٹس اور اس کی بیوی اپنی پوری زندگی میں 30.2 ارب ڈالرکی خطیر رقم  خیرات کے طور پر خرچ کر چکے ہیں جو ان کی دولت کا 37فیصد بنتا ہے۔  اسی طرح فیس بک کے کو فاونڈراور سی ای او مارک زکر برگ نے 2013میں خیرات کے طور پر 991ٍملین ڈالر خرچ کیے۔  ایسی مثالوں کو پیش کر کے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ  اگر مغرب کے لوگ مادہ پرست اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر ہی برے ہیں تو پھر ہمیں یہ مثالیں کیوں نظر آتی ہیں۔

اس بحث میں جائے بغیر کے مندرجہ بالا انفرادی مثالوں میں انسانیت کی بہتری اور غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے اخلاص کا جذبہ کس حد تک کارفرما ہے اور کس حد تک یہ دولت واقعی غریب لوگوں کے ہاتھوں میں ہی پہنچتی ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ  اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جس طرح ہر انسان کو دو آنکھیں ، ناک ، کان اور ہاتھوں سے نوازا ہے ، اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ جبلتیں اور عضویاتی حاجات بھی رکھیں ہیں۔ کوئی انسان بھی سانس لیے بغیر، کھانا کھانے بغیریا پانی پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔  یہ اس کی عضویاتی حاجات ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر تین جبلتیں موجود ہیں۔  جبلتِ بقا کہ جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ، جیسا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت و آسائش کی چیزیں ہوں، اگر وہ میچ کھیل رہا ہے تو وہی جیتے، بحث کے دوران اس کی دلیل حاوی ہو، یہ سب جبلتِ بقا کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر جبلتِ نوع بھی موجود ہے جو کہ اسے اس چیز کی طرف ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے بنائے، اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرے، اپنے لیے کنبہ بنائے ،اپنے والدین، بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر اس انسان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبات کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ یہ مغرب کا انسان ہو یا مغرب کا۔  کسی انسان کا زندہ جل جانا، ڈوب کر مر جانا، غربت و افلاس کے ہاتھوں خود کشی کر لینامشرق کے انسان کو بھی افسردہ کرتا ہے اور مغرب کے انسان کوبھی۔ اور جس طرح ایک انسان کو مادی قدر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے انسانی اور اخلاقی قدر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔   اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔  چنانچہ جس طرح وہ دولت کو حاصل کرکے اطمینان اور خوشی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ کسی ڈوبتے ہوئے کی جان بچانے میں اور کسی غریب کی مدد کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔

 

لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی جبلتیں اور ان کی بنا پر جنم لینے والے جذبات  کی تدوین ان افکار کی پر ہو تی ہیں، جو کہ کوئی بھی انسان زندگی کے متعلق رکھتا ہے۔  پس ایک مسلمان کے لیے کسی نبی کی توہین ایک انتہائی قبیح اور ہیجان انگیر حرکت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایسی حرکت کرنے والے شخص کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔   کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ انبیاء کے متعلق کچھ افکار فراہم کرتا ہے۔ یہ افکار ایک مسلمان میں پائی جانے والی جبلتِ تدین (worship instinct)کو ایک خاص شکل دیتے ہیں ۔  پس ایک مسلمان کے جذبات ان افکار کے مطابق ہوتے ہیں جو وہ جبلتِ تدین کو پورا کرنے کے متعلق رکھتا ہے۔  جبلتِ تدین ، جبلتِ نوع اور جبلتِ بقا کے علاوہ وہ تیسری جبلت ہے جو کہ ہرانسان میں پائی جاتی ہے۔اور یہ بھی افکار کے ذریعے ہی ریگولیٹ ہوتی  ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں انبیاء کی توہین اتنا سنگین مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ مغرب کے نزدیک  آزادی اظہارایک درست تصور ہے اور کوئی شخص کسی نبی کے متعلق کوئی بھی تصور رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے۔  یہ تصور مغرب کے ایک سیکولر شخص کی جبلتِ تدین کو متاثر کرتا ہے اور اس کے اعمال اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

چنانچہ جیسا کہ بیان کیا گیاکہ مغرب کے انسان میں بھی جبلتِ نوع موجود ہے جو اسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ان کے لیے ایثار کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف ابھارتی ہے۔  مگر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے سے نکلنے والے افکار کو اپنانے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے لیے آسائشوں کا حصول،اپنے لیے مال و دولت کو جمع کرنا اور انفرادیت پسندی ہر چیز پر حاوی ہے۔کیونکہ سرمایہ دارنہ آئیڈیالوجی ایک مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی ہے کہ جو یہ فکر دیتی ہے کہ  مادی قدرو قیمت کا حصول ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے ۔  اور مال و دولت و آسائشوں کا حصول ہی خوشی و سعادت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا صف اول کا مفکر ایڈم سمتھ اپنی دو کتابوں Theory of Moral SentimentsاورThe Wealth of Nationsمیں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائشوں سے اپنی لیے زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کر سکے۔  اور ہر شخص کی فطرت ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے ہی کام کرتا ہے۔  جب ہر شخص کو اپنی بہتری کے لیے آزاد ماحول فراہم کر دیا جائے اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہو تو معاشرے کے مفادات کا تحفظ خود بخود ہو جائے گا۔   اخلاق کو قوانین کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ لوگوں کو اس معاملے میں آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔    اور کوئی بھی مذہب جو عقائد و رسومات(مذہبی قانونی ضابطوں) کو اخلاق پر ترجیح دیتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور ایک مہذب اور پر سکون معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔  چنانچہ یہ آئیڈیالوجی زندگی کے لیے جو پیمانہ مقرر کرتی ہے وہ نفع و نقصان کا پیمانہ ہے  کہ ایک انسان کسی بھی عمل کوکرتے وقت جس چیز کو مدِ نظر رکھے وہ یہ ہے کہ آیا یہ عمل اس کی ذات کے لیے کس حد تک فائدے کا باعث ہے،  خواہ یہ کاروبار ہو ، ذاتی تعلقات ہوں حتیٰ کہ اخلاق بھی۔  چنانچہ اگر کسی جگہ پر اخلاق دکھانا نفع بخش ہے تو وہاں خوش اخلاقی اور ایمانداری دکھائی جائے گی اور جہاں پر اخلاق دکھانا مادی نقصان کا باعث ہو وہاں اخلاق ، رشتوں ناطوں کی پرواہ نہیں کہ جائے گی۔  یہی وجہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی اور جب تک سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی مغرب میں نافذ ہے مغربی معاشرہ اس صورتِ حال سے چھٹکارہ حا صل نہیں کر سکتا۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا بنیادی عقیدہ سیکولرازم ہے ۔  جو دین کو ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔  اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے لیے نظام بنائے گا۔  جو اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کی عقل اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ معاشرے میں کیاچیز جائز یا قانونی ہونی چاہئے اور کیا چیز ناجائزاور غیر قانونی۔  گویا انسانی عقل ہی اس چیز کو طے کرے گی کہ کیا چیز معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کیا چیز بری ۔پس مغرب کے نزدیک انسانی عقل اس چیز کا تعین بھی کر سکتی ہے کہ اچھا اخلاقی طرزِ عمل کیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں۔  معاشرے کے لیے اچھی یا برے اقدارکا تعین کرنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن انسانی عقل سے جنم لینے والی اس آئیڈیالوجی نے مغرب میں کس طرح تہذیبی  گراوٹ کو جنم دیا ہے، آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

 

مغرب کی گراوٹ ان کے معاشرتی نظام میں سب سے نمایاں ہے۔     بچوں کے ساتھ برے  سلوک کی بات پاکستان کے معاشرے کے متعلق بہت کی جاتی ہے لیکن جب ہم مغرب کے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ضمن میں مغرب کا معاشرہ نہایت بھیانک صورت حال پیش کرتا نظر آتاہے۔   11جنوری 2014ء کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے25سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے طیش میں آ کر اپنی بچی کو پل سے نیچے پھینک کر ہلاک کردیا۔ 30 دسمبر2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا میں ہی پولیس نے ایک جوڑے کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس نے اپنی نوزائدہ بیٹی کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اور وہ بھوک و فاقے سے مر گئی جب کہ اس کی عمر صرف 22 دن تھی۔   21دسمبر2014 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلیا میں ایک عورت نے اپنے سات بچوں اور ایک بھتیجی کو مار ڈالا ، ان بچوں کی عمریں 2سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ 5نومبر2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ نیویارک پولیس نے ایک کروڑ پتی عورت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس کے خلاف الزام ہے کہ اس نے فروری 2010میں اپنے 8 سالہ بیمار بیٹے کو دوائی کی بہت زیادہ مقدار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔   30 اکتوبر 2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک شادی شدہ جوڑے کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنے 9سالہ بیمار بچے کو کھانے کو کچھ نہیں دیا اور وہ اس وجہ سے ہلاک ہو گیا ۔  اس نو سالہ بچے کا وزن کم ہو کر صرف 17 پاؤنڈ رہ گیا تھا ۔   پولیس کو یہ بچہ اس حال میں ملا کہ اس کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی باتھ روم میں پڑی تھی ۔    19اکتوبر 2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک سٹی میں ایک 20سالہ شخص نے اپنی 3 سالہ بیٹی کو صرف اس وجہ سے گلا گھونٹ کراور چھری کے وار کر کے مارڈالا کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پاخانہ کر دیا تھا۔   قائرین یہ وہ اندوہ ناک واقعات ہیں جو محض پچھلے چار ماہ کے دوران خبروں میں آئے، اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ہے مغرب کے معاشرے کی تصویر کی ایک جھلک جہاں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے اس حد تک انفرادیت اور ذاتی خوشی کے حصول کو معاشرے پر حاوی کر دیا ہے کہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کو ایک بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔ اور وہ اسے اپنی زندگی کے خوشیوں میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔  اور جہاں تک  پاکستان کے معاشرے میں بچوں کے ساتھ برے سلوک کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات مغرب کے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں ۔  پاکستان میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے اکا دکا واقعات کی اہم وجہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق افکاراور شعور کی کمی اور بچوں کے ساتھ سخت گیر رویے کے درست ہونے کا تصور ہے۔ مشکل مالی حالات ، زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہونے اور نظام کی طرف سے کسی بھی قسم کی سپورٹ اور رہنمائی کے فقدان کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی جاتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہے مسلم معاشرے اسلام کی دولت سے مالامال ہیں ۔  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

((لیس من امت من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا))

''وہ شخص میری امت میں سےنہیں جوہمارےبڑوں کی عزت کونہ جانےاورہمارےچھوٹوں پررحم نہ کرے"۔

 

جہاں تک نظامِ حکومت اور سیاست دانوں کے طرزِ عمل کا تعلق ہے  توعام طور پر  پاکستان کے عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے ریاستی خرچ کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کس طرح عوام کے خون کو نچوڑ کر جمع کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکس کو بے دردی سےپاکستان کے امیر سیاست دانوں پر دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔اور بعض لوگوں میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے عوامی نمائندوں کی  صورتِ حال ایسی نہیں  ۔  لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔  امریکی کانگریس بھی اسی طرح امیروں لوگوں کا ٹولہ ہے جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کی صورتِ حال ہے۔   امریکہ کے آدھے سے زیادہ عوامی نمائندوں کی دولت ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہے اورامریکی  کانگریس کے دوسوممبران ایسے ہیں جو multi millionaireہیں۔جبکہ پچھلے دو الیکشن کے دوران صرف 13 ایسے لوگ امریکی کانگریس کا حصہ بنے جن کا پس منظر ورکر کلاس سے تھا۔   ایک امریکی کانگریس مین کی سالانہ تنخواہ 174000ہے۔  Weekly Standard Magazineکی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ کے سو ممبران نے پچھلے پندرہ سالوں کے دوران 5.25ملین ڈالر بالوں کی کٹائی پر خرچ کیے۔  جبکہ ایک سال کے دوران ان کا ذاتی اور دفتری خرچہ 4005900ڈالر تھا۔  یہ صورتِ حال بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔  جہاں یہ آئیڈیالوجی ایک شخص کو زندگی کا یہ مقصد دیتی ہے کہ وہ مال و دولت کو اکٹھا کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جئے ، وہاںوہ  ایسا حکومتی نظام بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کے ذریعے مادہ پرست افراد اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں ۔     اس آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والا جمہوری نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منتخب اراکین اپنے مفادات کے مطابق قوانین میں ردو بدل کر کے اپنی  اور اپنےساتھیوں  کی جیبیں بھر سکیں۔  جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہا ں وہاں اشرافیہ کے ایک مختصرٹولے نے قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیاہے کہ  جس کے ذریعے وہ  ایسے  اثاثوں کے مالک بن گئے  جن سے بے پناہ دولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر، بھاری صنعتیں اور اسلحہ سازی کی صنعتیں ۔

 

جہاں تک مغرب کی کاروباری ایمانداری کا تعلق ہے ، تو امریکہ سے جنم لینے والا 2008کامالیاتی بحران جس نے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سرمایہ دار کمپنیاں لوگوں کے اعتماد سے کھیلتی ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھتی ہیں اور غلط معلومات فراہم کر کے ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔  2010میں Goldman Sachsکمپنی نے اس چیز کو قبول کیا کہ وہ 550ملین ڈالرجرمانے کے طور پر ادا کر ے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنے انویسٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔    پچھلے سال رائل بینک آف سکاٹ لینڈ نے 150ملین ڈالر ادا کرنا قبول کیا، اس پر الزام تھا کہ 2007 میں اس نے 2.2ارب ڈالر کے mortagage-backed bondکو فروخت کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر ناجائز ذرائع  استعمال کیے ۔ بینک کے خلاف اس چیز کے متعلق بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چلتے ہوئے کاروباروں کو دیوالیے سے دوچار کیا تاکہ ان کے اثاثوں کو کوڑی کے داموں خرید سکے۔   اکتوبر 2013 میں ڈان نے گارڈین کے توسعت سے  یورپ میں گوشت میں ملاوٹ کا سکینڈل رپورٹ کیا۔ایگلو آئرش پروسیسر کمپنی  یورپ کی سب سے بڑی گائے کا گوشت سپلائی کرنے والی کمپنی ہے۔ ہر ہفتے  50ملین یورپین اس کمپنی کا پروسیس کردہ گوشت استعمال کرتے ہیں ۔اس کمپنی کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔  یہ کمپنی ہالینڈکے بزنس مین ٍSeltenسے گوشت خرید رہی تھی جو گائے کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ  کا دھندا کر رہا تھا۔   Seltenکمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک ملازم نے گارڈین کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سپلائی کے دوران پرانا ڈی فراسٹ ہوا بیف بھی مکس کرتے تھے اور بعض اوقات یہ گوشت اتنا پرانا ہوتا تھا کہ اس کی رنگت سبز ہو چکی ہوتی ۔    دسمبر 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک  رپورٹ شائع کی کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی ملٹی نیشل کمپنیوں نے  ٹیکس بچانے کے لیے اپنے قانونی ایڈریس کیمن جزیرہ، لکسمبرگ، برمودہ وغیرہ میں منتقل کر رکھے ہیں جہاں ٹیکس یا تو انتہائی کم ہے یا بالکل  صفر ہے۔  اس کے لیے وہ کسی چھوٹی سے کمپنی کے ساتھ اپنا mergerبناتی ہیں اور پھر اس کمپنی کے لیے ایسے ممالک کا پتہ رجسٹر کرواتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔  ایک اندازے کے مطابق یوں یہ کمپنیاں 100ارب ڈالر ٹیکس کی مد میں چوری کر  رہی ہیں۔

 

جہاں سرمایہ دارانہ آیئڈیالوجی سے جنم لینے والی مادیت پرستی نے ایک عام انسان، حکومتی اشرافیہ و سیاستدانوں کی فطرت کو مسخ کیا ہے وہاں مغرب کا مذہبی طبقہ بھی اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔جنوری 2012میں کیتھولک چرچ کا سکینڈل منظر عام پر آیا جسے Vatileak Scandalکا نام دیا گیا ۔  پوپ بینی ڈکٹ کے بٹلر Paolo Gabrieleنے ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات لیک کیں جن میں وہ خطوط بھی شامل تھے جو پوپ بینی ڈکٹ اور ویٹیکن کے دیگر عہدیداروں کو ویٹیکن کے اندرونی معاملات کے متعلق مختلف لکھے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ویٹیکن طاقت کی کشمکش، سازشوں، دھڑے بندیوں اور مالیاتی کرپشن کی منظر کشی کرتی ہیں۔ان معلومات کو بنیاد بنا کر اٹلی کے صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام : His Holiness: The Secret Papers of Benedict XVIہے۔  جس میں چرچ کی کرپشن کا پرہ چاک کیا گیا ہے ۔  24اکتوبر 2013 کو رائٹرز نے رپورٹ کیاکہ پوپ فرانسس نے جرمنی کے بشپ کو اس کے علاقے کی ذمہ داری سے سے ہٹا دیا ہے کیونکہ اس نے چرچ کے فنڈ میں سے  31ملین یورو محض اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیےتھے۔  جائزے کے مطابق گھر کے باتھ روم میں لگے ہوئے سٹینڈنگ باتھ کی مالیت 15000یورو ہے، جو کہ پاکستانی روپے میں 17لاکھ پچاسی ہزار روپے بنتی ہے۔  جبکہ گھر میں رکھی گئی کانفرنس ٹیبل25000یورو(29لاکھ 75ہزار روپے) کی ہے۔   اس شاہ خرچی کی بنا پر جرمنی کے بشپ کو میڈیا میں "luxury bishop"کا خطاب دیا گیا۔

اور وہ مغرب جو مسلم معاشروں پر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ، تشدد اور عدم برداشت کا الزام لگاتا ہے اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں واویلا مچاتا رہتا ہے، خود اس کے اپنے معاشرے کی صورتِ حال کیا ہے اس کا پول یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی(FRA)کا سروے کھول کر بیان کرتا ہے۔  یہ سروے 2014 میں 28 یورپی ممالک میں کیا گیا، جس میں 42000عورتوں کے انٹرویو لیے گئے جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔  سروے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو15سال کی عمر کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہر بیس میں سے ایک عورت کی عزت مرد کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو اپنے خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی ظلم و تشددکا سامنا کرنا پڑا۔   رپورٹ کے مطابق  صرف 14 فیصد عورتیں ان زیادتیوں کے متعلق پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں   ۔  یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ معاشرہ جو مرد و عورت کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں کی عورت کتنی مظلوم ہے۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی یہ تصور دیتی ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد چھوڑ دینا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔  پس ہر انسان کو عقیدہ، رائے کے اظہار،ملکیت اور ذاتی زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے اور اس پر کوئی قدغن یا روک ٹوک ہونا درست نہیں۔  خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ایسا کرنا تو دقیانوسیت اور پسماندگی ہے۔  لیکن یہ آئیڈیالوجی انسان کو خوشی اور اطمینان کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔  اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے جو مغرب کے صحت کے ادارے اپنے معاشرے میں ڈپریشن Depressionکے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے متعلق فراہم کرتے ہیں۔   امریکہ میں اس وقت ادویات کے استعمال کے لحاظ سے امراض قلب کی دوائیں سرفہرست ہیں۔  اس کےبعددوسرا نمبر ڈپریشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ہے۔  اور ایک اندازے کے مطابق 2020تک ڈپرشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات پہلے نمبر پر آجائیں گی۔

 

قارئین یہ ہے مغرب کے معاشرے کا اصل چہرہ جسے ہم سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔  اور ہمارے سیاست دان ، حکمران اور لبرل طبقہ رٹو طوطے کی طرح دن رات مغرب کے گن  گاتے رہتے ہیں تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ مغرب کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیں بلکہ مغرب کی اس ذلت آمیز غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کریں۔

آج مغرب سمیت پوری دنیا کو اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس سے پھوٹنے والے نظامِ خلافت کی ضرورت ہے جس نے ماضی میں بھی انسانیت کو اعلیٰ اقدار اور تہذیب و اخلاق سے بہرہ ور کیا اور آج بھی اسلام کی آئیڈیالوجی ہی مغرب کی پست اور ناقص تہذیب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

 

ڈاکٹر افتخار

 

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک