بسم الله الرحمن الرحيم
سیاسی فہم کے لازمی اصول اور پالیسی سازی (حصہ اول)
https://www.al-waie.org/archives/article/19807
رسالہ الوعي، شمارہ 466 —
انتالیس واں سال، ذو القعدہ 1446ھ بمطابق مئی 2025ء
تحریر: لقمان حرز اللہ
تمہید
سیاست کا مطلب ہے امور کی دیکھ بھال کرنا ہے، اور اسی لیے ہر انسان سیاسی ہوتا ہے؛ کیونکہ ہر انسان اپنی ذات کے امور یا جن کی وہ کفالت کرتا ہے، ان کے امور کی نگہداشت کرتا ہے۔ لیکن جب لفظ "سیاسی" استعمال کیا جاتا ہے تو ذہن اس حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، کیونکہ وہ انسان جو صرف اپنے ذاتی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے، اس کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے اور اس کی فکر صرف اپنی ضروریات تک محدود رہتی ہے۔ لہذا، لفظ "سیاسی" سن کر ذہن ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو اپنی امت، اپنی ریاست، یا اس سے بھی وسیع دائرے کے امور کی نگرانی کرتے ہیں، کیونکہ وہ سیاستدان ایسے ہوتے ہیں جن کے اثرات ان کی امت، ریاست، یا وسیع تر دائرے تک پھیلے ہوتے ہیں۔
سیاست کو “فنِ ممکن” کہا گیا ہے، اور یہ وصف ایک رخ سے درست اور ایک رخ سے غلط ہے۔ اگر “ممکن” سے مراد "ناممکن"کا الٹ یا "واجب" لیا جائے تو یہ وصف درست ہے، کیونکہ سیاستدان ناممکن کام نہیں کرتے۔ لیکن اگر اس وصف سے مراد یہ ہو کہ سیاستدان حقیقت سے کام لیتا ہے اور ممکنات کو حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے، یعنی وہ محض حقیقت پسند ہے، تو یہ وصف غلط ہے۔ بلکہ ایسے سیاستدان اپنی قوموں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں اگر وہ زمامِ حکومت سنبھالیں؛ کیونکہ ان کی پالیسیاں صرف موجودہ حقیقت سے حاصل ہوتی ہیں، اور ان کی نظریں صرف اس حقیقت تک محدود رہتی ہیں جو موجود ہے۔ اگر موجودہ حقیقت حریفوں نے تشکیل دی ہو تو وہ کبھی اس قید سے باہر نہیں نکل سکیں گے جس میں دشمنوں نے انہیں بند کر رکھا ہے، اور اگر وہ حقیقت خود اُنہی کی تشکیل ہو تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی اس کے اچھے پہلوؤں کو برقرار رکھ سکیں گے، بلکہ واپس بدتر حالت کی طرف جانا شروع ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس، وہ سیاستدان جنہوں نے اپنی قوموں کو ترقی دی، انہوں نے اپنی قوموں کے موجودہ حالات کی حد سے آگے بڑھ کر ایک نئی حقیقت تخلیق کی، جسے انہوں نے اپنا ہدف بنایا، اور ایسی پالیسیاں بنائیں جنہوں نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس سیاستدان کی تصویر کھینچی ہے جو اپنی قوم کے امور کا خیال رکھتا ہے اور بدحال حقیقت میں گرفتار نہیں رہتا؛ وہ وہی ہے جو دعوت کا حامل ہوتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{أَوَ مَن كَانَ مَيۡتٗا فَأَحۡيَيۡنَٰهُ وَجَعَلۡنَا لَهُۥ نُورا يَمۡشِي بِهِۦ فِي ٱلنَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُۥ فِي ٱلظُّلُمَٰتِ لَيۡسَ بِخَارِج مِّنۡهَا}
"کیا وہ جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی بنائی جس کے ذریعے وہ لوگوں میں چلتا ہے، اس کا مثل ہے جو تاریکیوں میں ہے اور اس سے باہر نہیں نکلتا۔" (سورۃ الأنعام، آیت 122)
رسول ﷺ اس کی بہترین مثال ہیں۔ آپ ﷺ ایک ایسی قوم میں بھیجے گئے جو داخلی انتشار میں مبتلا تھی، خون بہاتی، فارسیوں اور رومیوں کے سامنے ذلیل و خوار تھی، لیکن آپ ﷺ نے انھیں اُس ذلت و حقارت کی حالت سے نکال کر ایسی جگہ پر پہنچانے کی دعوت دی جہاں وہ دنیا کے تخت پر جلوہ افروز ہوں۔ اس کا ایک واقعہ وہ ہے جب قریش کے سردار ابو طالب کے پاس آئے اور نبی ﷺ کی شکایت کی۔ ابو طالب نے آپ ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«يا عمّ، أريدُهم على كلمةٍ واحدةٍ تدينُ لهم العربُ وتؤدِّي العجمُ إليهم الجزيةَ»
"اے چچا! میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک کلمے پر متحد ہو جائیں جس کی بدولت عرب ان کے تابع ہوں اور غیر عرب ان کو جزیہ دیں۔" (مسند احمد، ۲۰۰۸)
وہ سیاستدان جو اپنی امت، اپنی ریاست، اور اس سے بھی وسیع امور کی نگہداشت کا خواہاں ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ پالیسیاں ترتیب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو تاکہ وہ نظریاتی فہم سے عملی اثر پذیری کی طرف گامزن ہو سکے۔ پالیسی سازی کے لیے سیاسی فہم، عالمی تعلقات کی سمجھ اور ایک مخصوص نظریاتی زاویہ ہونا لازمی ہے جس کی عینک سے وہ دنیا کو دیکھے اور اسی بنیاد پر اپنی پالیسیاں تشکیل دے۔
نشاۃ ثانیہ کے لیے کوشش کرنے والے افراد کے لیے سیاسی فہم ایسے ناگزیر ہے جیسے انسان کے لیے ہوا ناگزیر ہے۔جو شخص امتِ اسلامیہ کی بیداری اور ترقی کا خواہاں ہے، اسے اپنی ذات کو اس نظر سے دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے۔ درحقیقت وہ چاہتا ہے کہ اپنی امت کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کرے جو ایک اصول و مقصد کی حامل ہو، ایسی ریاست جو پہلے ایک عظیم الشان ملک بنے، پھر دنیا کے تخت پر جلوہ گر ہو، تاکہ وہ اس دنیا کی سپر پاور بن جائے اور پھر اس امت کا اقتدار وہاں تک پہنچ جائے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس زمین پر نظارہ کروایا تھا۔ اور جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو، ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کے حصول کے اسباب پر محنت کرے، اور ان اسباب میں اس کے شرعی طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا شامل ہے جو اس کی ریاست کے قیام کا باعث بنے۔ اسے اپنی ذات اور اپنے گروہ کو اس طرح تیار کرنا ہوگا کہ وہ ریاست جسے وہ قائم کرے، دنیا کے بڑے طاقتور ممالک کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو، پھر انہیں ایسے مٹا دے جیسے ریکارڈ کی ایک صفحہ کو مٹا دیا جائے۔ اور یہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کرنے والے کا سیاسی فہم مضبوط بنیادوں پر قائم نہ ہو، تاکہ وہ حقیقی نتائج پیدا کرے۔ صحیح سیاسی فہم کے بغیر پالیسی سازی محض وہم اور خیالی چیز بن جاتی ہے، جو اسے اپنے گھر کی حد سے باہر نکل کر دنیا کی قیادت کرنے سے قاصر رکھتی ہے۔
ایک فرد کا نشاۃ ثانیہ کی کوششوں سے آگے بڑھ کر، دنیا کی قیادت اور دنیا پر اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنے تک پہنچنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے متعلق پالیسیاں بہترین انداز میں ترتیب دی جائیں، اور یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب سیاسی فہم بہترین ہو، اہداف کا انتخاب عمدہ ہو، ایسے بہترین اعمال کا انتخاب کیا جائے جو ان اہداف تک پہنچانے والے ہوں، اور اعمال کو، اہداف سے اس طرح جوڑا جائے کہ سبب اور مسبب کا تعلق درست ہو۔ اسی لیے یہ لازم ہو گیا ہے کہ ایسے بنیادی اصول وضع کیے جائیں جو ان تمام لوگوں کے لیے روشن راہیں کھولیں جو اپنے اندر اس میدان میں قدم رکھنے کی صلاحیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہیئے کہ صرف سیاسی فہم کے لیے درکار بنیادی اصولوں کو جاننا ہی اس میدان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، کیونکہ مسلسل مشاہدہ اور عملدرآمد کرنا اس عمارت کا ایک ستون ہے جو مہارت اور قابلیت کو جنم دیتا ہے۔ تعلیم ایک لمحے میں حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے تربیت، صبر، عزم اور قوت ارادہ درکار ہوتی ہے۔ اور جب علم کسی ضرورت کے تحت حاصل کیا جا رہا ہو تو وہ ذہن میں زیادہ پختہ اور دل میں زیادہ مستحکم ہوتا ہے، اور یہ ضرورت اس سیکھنے والے کو ایک فعال اور مؤثر عمل کرنے والا بناتی ہے۔ اس کے برعکس، بغیر کسی مقصد یا ضرورت کے حاصل کی گئی تعلیم ویسی ہوتی ہے جیسے کوئی ریشم بُنتا ہے اور پھر اسے برباد کر دیتا ہے، یا کوئی فصل بوتا ہے مگر اس کی نگہداشت نہیں کرتا، جس کی وجہ سے فصل پیلی ہو جاتی ہے اور آفات اس کو تباہ کر دیتی ہیں۔
یہ مضامین سیاسی فہم و سیاسی تجزیے کی حقیقت، سیاسی شعور کی حقیقت، پالیسی سازی کی حقیقت، اور ان سے متعلق ضروری سیاسی معلومات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مضامین کا مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ صرف انہیں پڑھ لینے سے وہ سیاستدان نہیں بن جائے گا، بلکہ وہ اس وقت سیاستدان بنے گا جب وہ ان مضامین سے فائدہ حاصل کرے، اور پھر مستقل مزاجی سے مطالعہ، فہم، شعور اور اثراندازی کے میدان میں مشغول ہو جائے۔
میں اپنی یہ کوشش، امتِ اسلام کے سامنے پیش کرتا ہوں، اس بہترین امت کے لیے جو تمام لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، اور خصوصاً ان داعیانِ حق کے لیے جو سنجیدگی کے ساتھ نشاۃ ثانیہ کے لیے کوشاں ہیں، اور ان میں بالخصوص ان نوخیز نوجوانوں کے لیے جو صحیح سیاسی فہم کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔
میں ہر اُس شخص سے جو ان مضامین کو پڑھے، یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ انہیں محض اس لیے اختیار کرے کہ ایک سیاسی تجزیہ نگار بن جائے؛ کیونکہ اس سے اس کی زندگی میں کوئی حقیقی اثر پیدا نہیں ہوگا، اور لوگ بھی محض تجسس کے طور پر ہی اس سے رجوع کریں گے۔ بلکہ میں ہر قاری سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ ان مضامین کو امت میں فکری سطح بلند کرنے کا ذریعہ بنائے، اور انہیں رہنمائی کا ایک وسیلہ سمجھے، جس کے ذریعے وہ سیاسی حالات کو درست طور پر سمجھ سکے، ان پر اسلامی عقیدے کی بنیاد سے نگاہ ڈالے، اور لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اسی روشنی میں کرے۔ اور اللہ ہی ہے جو راہِ راست کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔
سیاسی تجزیہ
سیاسی تجزیہ اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کے تین عناصر موجود نہ ہوں: سیاسی معلومات، مسلسل سیاسی خبروں سے باخبر رہنا، اور سیاسی خبروں کا حسنِ انتخاب۔ حزب التحریر نے اس موضوع کی تفصیل ایک نشریہ میں 27 مارچ1974 کو بعنوان: "سیاست اور بین الاقوامی سیاست" کے تحت بیان کی۔ اس میں ذکر کیا گیا کہ سیاسی معلومات "تاریخی معلومات ہوتی ہیں، بالخصوص تاریخ کی حقائق پر مبنی معلومات؛ نیز ان واقعات، رویّوں، اور افراد سے متعلق معلومات جو سیاسی زاویے سے تعلق رکھتے ہوں؛ اور ایسی معلومات جو سیاسی تعلقات سے متعلق ہوں، چاہے وہ افراد کے درمیان ہوں، یا ریاستوں کے مابین، یا افکار کے درمیان۔ یہی معلومات دراصل سیاسی فکر کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، چاہے وہ کوئی خبر ہو، یا عمل، یا کوئی اصول، خواہ وہ عقیدہ ہو یا حکم۔ ان معلومات کے بغیر انسان سیاسی فکر کو سمجھ ہی نہیں سکتا، چاہے وہ کتنا ہی ذہین اور عبقری کیوں نہ ہو؛ کیونکہ یہ معاملہ عقل کا نہیں بلکہ فہم کا ہے۔
جہاں تک حالیہ سیاسی خبروں سے باخبر رہنے کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی معلومات ہی ہیں، اور یہ ایسے واقعات سے متعلق خبریں ہیں جو رونما ہو رہے ہیں، اور یہی خبریں فہم اور تحقیق کا میدان ہوتی ہیں؛ اس لیے ان سے آگاہی لازمی ہے۔ چونکہ زندگی کے واقعات یقینی طور پر بدلتے رہتے ہیں، نیا رنگ اختیار کرتے ہیں، مختلف ہوتے ہیں، اور بعض اوقات متضاد بھی، اس لیے ان کا مسلسل پیچھا ضروری ہے تاکہ انسان ان سے باخبر رہے۔ یعنی یوں سمجھیں کہ جیسے وہ انسان ریلوے اسٹیشن پر کھڑا ہے جہاں سے ٹرین واقعی گزر رہی ہو، نہ کہ کسی ایسے اسٹیشن پر جہاں سے ٹرین اب نہیں گزرتی، بلکہ ایک گھنٹہ پہلے گزری تھی اور اب اپنا راستہ بدل چکی ہے۔ لہٰذا مسلسل اور مربوط انداز میں خبروں کا تعاقب کرنا ضروری ہے تاکہ کوئی خبر چھوٹ نہ جائے، چاہے وہ اہم ہو یا غیر اہم۔ بلکہ ضروری ہے کہ وہ ایک دانۂ گندم کی خاطر بھوسے کے ڈھیر میں کھوج کرے، حالانکہ ممکن ہے کہ وہ دانہ اسے نہ ملے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اہم خبر کب آئے گی اور کب نہیں آئے گی۔ اسی لیے ضروری ہے کہ وہ تمام خبروں کا مسلسل تعاقب کرتا رہے، چاہے وہ اس کے لیے اہم ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ یہ سب خبریں ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں جو آپس میں جُڑی ہوئی ہیں، اور اگر ایک کڑی ضائع ہو جائے تو پوری زنجیر بکھر جاتی ہے، اور معاملے کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، بلکہ ممکن ہے کہ وہ معاملے کو غلط سمجھے، اور موجودہ صورت حال کو کسی ایسی خبر یا فکر سے جوڑ بیٹھے جو ختم ہو چکی ہو اور اب موجود نہ ہو۔ اسی لیے خبروں کا مسلسل پیچھا ضروری ہے تاکہ سیاسیات کو سمجھا جا سکے۔
جہاں تک خبروں کے انتخاب کا تعلق ہے، تو وہ محض سننے سے نہیں بلکہ اُن کو اختیار کرنے سے ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان صرف اُسی خبر کو اختیار کرتا ہے جو واقعی اہم ہو۔ اگر وہ سنے کہ فرانس کا وزیراعظم لندن گیا ہے، تو وہ یہ خبر سنتا بھی ہے اور اسے اختیار بھی کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ سنے کہ جرمنی کا مشیرِ اعلیٰ برلن گیا ہے، یا واشنگٹن گیا ہے، یا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی ہے، تو وہ ان خبروں کو صرف سنتا ہے، اختیار نہیں کرتا۔ کیونکہ ضروری ہے کہ وہ ان خبروں میں فرق کرے جنہیں اختیار کرنا ہے اور جنہیں صرف سننا ہے۔ کیونکہ اختیار صرف اُن خبروں کو کیا جاتا ہے جن کے اختیار کرنے میں فائدہ ہو، نہ کہ ان خبروں کا جو محض معلومات فراہم کرتی ہوں۔ یہی وہ پیچھا ہے جو اختیار کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ محض سُننے کے لیے۔
خبریں معتبر اخبارات اور باوقار چینلز سے لی جاتی ہیں، اس بنیاد پر کہ یہ ادارے اپنی ساکھ اور اعتبار کو عوام کے سامنے—بالخصوص سیاسی حلقوں میں—قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنی خبریں حاصل کرتے ہیں یا مضامین لکھتے ہیں، تو وہ اُن افراد سے رابطے میں رہتے ہیں جو ان واقعات کے مرکز میں ہوتے ہیں اور براہِ راست ان میں شامل ہوتے ہیں، اور معلومات انہی کے ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود خبروں کی سچائی کو بلا چون و چرا تسلیم کرنا درست نہیں، کیونکہ جو سیاستدان واقعات کے مرکزی کردار ہوتے ہیں، وہ اکثر اپنے مقاصد کے حق میں گمراہ کن خبریں پھیلاتے ہیں، یا اپنے اہداف کو چھپانے کے لیے، یا اپنے دشمنوں کو موقع سے محروم رکھنے کے لیے دانستہ طور پر جھوٹ بولتے ہیں۔ لہٰذا خبروں کا تعاقب کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ اقوال و افعال، اور وہ مواقع جن میں یہ اقوال کہے گئے ہوں، ان سب کا تعاقب کرے؛ کہنے والے اور عمل کرنے والے کو پہچانے، اور جو مفاہیم اس کے پاس موجود ہیں ان سے ربط قائم کرے، تاکہ خبر کی حقیقت ذہن میں ثبت ہو جائے، چاہے وہ صحیح ہو یا گمراہ کن۔
خبریں خود سیاستدانوں کی زبان سے بھی لی جاتی ہیں—چاہے وہ سربراہانِ مملکت ہوں، وزرائے خارجہ ہوں، اپنے ممالک کے ترجمان ہوں، یا قومی سلامتی کے شعبے میں کام کرنے والے ہوں… خبروں کے تعاقب کرنے والے کو چاہیے کہ ان افراد کی حقیقت پر بھی نظر رکھے، یا اُن افراد پر جو اپنی حکومتوں کی جانب سے سیاسی، عسکری، یا انٹیلیجنس سے متعلقہ فرائض سرانجام دے رہے ہوں۔ اان کی سوانح عمری سے آگاہی ضروری ہے، تاکہ وہ تصویر کے مکمل خدوخال سے کسی عنصر کو کھو نہ دے۔
اگرچہ سیاسی تجزیہ بذاتِ خود ایک اہم چیز ہے، لیکن یہ بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ ایک وسیلہ ہے کسی بڑے مقصد کے لیے۔ اسی لیے جو لوگ احیائے امت یا ریاست کے امور میں مصروف ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی تجزیے کو اپنے کام میں استعمال کریں اور اسے اپنا مزاج بنائیں، کیونکہ یہ ان کے کام کے لیے بے حد مفید ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنی امت کی بیداری کے لیے کام کر رہا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو اس تبدیلی کا قائد سمجھے جو عالمی سطح پر آئے گی، اور اپنی امت کو اس امت کے طور پر دیکھے جس کی حکومت اس زمین کے اس حصے تک پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے سمیٹی تھی، اور اپنی ریاست کو ایسی ریاست سمجھت جو دنیا میں سب سے اولین ریاست بنے گی، اور پھر واحد سپر پاور ریاست بن جائے گی۔
... جاری ہے
Latest from
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لوازم ( ۳ )
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-2)
- اگر "جمہوریت" کا خاتمہ خلافت کے قیام پر منتج نہ ہو ...
- پاکستان حقیقی معنوں میں اُس وقت آزاد ہوگا جب یہاں خلافتِ راشدہ کا نظام قائم ہوگا!
- افغانستان- پاکستانی سیاست کی چکی اور علاقائی ایجنڈے کے سندان کے بیچ