الخميس، 25 ذو القعدة 1446| 2025/05/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

وزیر اعظم کا خطاب امریکی راج کو جاری رکھنے کا اعلان تھا نواز شریف کے خطاب سے ثابت ہو گیا کہ اُسے اقتدار کی کرسی سے اُتر کر خلافت کی واپسی کے لیے راستہ چھوڑ دینا چاہیے


19اگست 2013 کو وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں دو ماہ سے زائد عرصے تک قوم سے خطاب نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ " کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ہم دہشت گردی ، لوڈ شیڈنگ اور دوسرے مسائل کے خاتمے کے منصوبے بنانے کے لیے سر جوڑ کر نہ بیٹھے ہوں"۔ لیکن درحقیقت جولوگ سر جوڑ کر بیٹھے تھے وہ نواز شریف کے امریکی آقا، پاکستان میں امریکی سفیر، امریکی سیکریٹری خارجہ اور دوسرے سیاسی و فوجی اہلکار تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے سب سے پہلے سر جوڑ کر نواز شریف کو پانچ سالہ عرصہ اقتدار کے لیے لائحہ عمل بنا کر دیا اور پھر اُسے قوم سے خطاب کرنے کی اجازت دی۔
اِن سر جوڑے امریکیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری کی جائے جبکہ اس شعبے کی نجکاری بذات خودمہنگی بجلی اور اور اس کی قلت کی بنیادی وجہ ہے۔ نجی کمپنیاں مسلسل بجلی مہنگی کرنے کا مطالبہ کرتیں ہیں تا کہ اپنے نفع کو بڑھا سکیں اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنی پیداوار کم کردیتی ہیں یہاں تک کہ بجلی کی پیداوار 10000میگاواٹ یومیہ رہ جاتی ہے جبکہ یومیہ پیداواری استعداد 20000میگاواٹ سے بھی زائد ہے۔ اور جب بجلی مہنگی کردی جاتی ہے تو وہ پوری پیداواری استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن اس سے عوام کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں پاکستان میں توانائی کے بحران کی اس بنیادی وجہ کو بیان ہی نہیں کیا کیونکہ اس کو اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے اور اُس کے لب محض امریکی احکامات کا اعلان کرنے کے لیے ہی آزاد ہیں۔
اِن سر جوڑے امریکیوں نے ہی یہ فیصلہ بھی کیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو نظر انداز کرے اور اس کی بجائے دنیا کے سب سے بڑے صلیبی دہشت گرد امریکہ کی قبائلی علاقے کے مسلمانوں کے خلاف نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں اس کی شکست کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ اسی امریکی حکم کے تحت پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک قائم کیا گیا تھا جو مساجد اور بازاروں میں ہونے والے بم دھماکوں کی نگرانی کرتا ہے تا کہ ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں کاروائی کرنے کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان میں امریکی راج کے ترجمان جناب نواز شریف نے 40000ہزار پاکستانیوں کے قتل کا ذکر کیا تو اُس نے اِس قتل عام کے ذمہ داران امریکی انٹیلی جنس، نجی امریکی فوجی تنظیموں، امریکی اڈوں، قونصلیٹس اور سفارت خانوں کے متعلق ایک لفظ بھی بولنا گوارہ نہ کیا۔
جہاں تک وزیر اعظم کا کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دینے کا تعلق ہے تو اُس نے اس بات کی تصدیق کردی کہ وہ خطے میں امریکی بالادستی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے اس شہہ رگ کو کچل دینے کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے اُس نے بھارت کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے کشمیر کی آزادی کو ایک شرط کے طور پر پیش نہیں کیا تا کہ بھارت کو امریکی کیمپ میں لاسکے اور امریکہ بھارت کو چین اور امت مسلمہ کے خلاف استعمال کرسکے۔
پاکستان پر بڑھتے ہوئےاستعماری اداروں کے قرضوں کے متعلق نواز شریف نے کہا کہ ان میں اضافہ پچھلے دور حکومت میں ہوا ہے لیکن جانتے بوجھتے یہ نہیں بتا یا کہ اس کی اصل وجہ سود ہے۔ درحقیقت یہ سود ہی تھا جس نے اس سے پچھلے دو دور حکومت کے دوران بھی قرضوں میں اضافہ کیا اور اس دور حکومت میں بھی اسی وجہ سے قرضوں میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تمھارے پاس کچھ کہنے کو نہیں تو بہتر ہے کہ خاموش رہا جائےکیونکہ پھر جو کچھ تم کہو گے اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یقیناً نواز شریف کا قوم سے خطاب پاکستان میں امریکی راج کو قائم رکھنے کا اعلان ہے جیسا کہ اس سے قبل کیانی و زرداری اور مشرف و عزیز حکومت کرتی رہی ہیں۔قوم کے سامنے اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ وہ امریکی راج کا نگہبان ہے ، قوم کے لیے جو واحد خدمت وہ کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کی کرسی سے اتر جائے اور خلافت کے واپسی کے لیے راستہ چھوڑ دے۔
اے افواج پاکستان کے مخلص افسران! کب تک ان جیسے بےوقوف حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی قوم کو تکلیف میں مبتلا رہنے کے اجازت دیتے رہیں گے جبکہ آپ نے اپنی قوم کے دفاع کی قسم کھائی ہے؟ کب تک تم امریکی ٹاؤٹوں کو مسلم دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی قسمت سے کھیلنے کا موقع فراہم کرتے رہو گے؟ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جو مشہور فقہہ اور رہنما شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں خلافت کی قیام کی شدید جدوجہد کررہی ہے تا کہ امت کو ایک بار پھر خوشحالی اور امن کے دور میں لے جایا جائے۔ حزب التحریر کے ہاتھ تم مضبوطی سے تھام لو اور اپنے اُن بھائیوں، انصار کو یاد کرو جنھوں نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺکو مدد فراہم کی تھی۔ انصار کا یہ عمل اس قدر عظیم تھا کہ جب ان میں سے سعد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ رونے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مت رو اور انھیں بتایا کہ ليرقأ (لينقطع) دمعك، ويذهب حزنك، فإن ابنك أول من ضحك الله له واهتز له العرش " تمھارے آنسو تھم جائیں اور تمھارا غم کم ہو جائے اگر تم یہ جان لو کہ تمھارا بیٹا وہ پہلا شخص کہ جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی مسکرایا اور اس کا عرش ہل گیا ہے"(الطبرانی)

Read more...

سوال کا جواب: کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کردیا؟


سوال:

مصر میں جو کچھ رونما ہوا اس کوبغاوت کہنے میں اب بھی امریکہ کو تردد ہےبلکہ وہ اس روڈ میپ کی پشت پناہی کر رہا ہے جس کا اعلان عبوری حکومت کر چکی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان نے یہ کہہ کر اس کی وضاحت کی ہے کہ :''اگلے مرحلے کے لیے عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ کا اعلان حوصلہ افزا امر ہے''جیسا کہ الجزیرہ نیٹ نے 11/07/2013کو نقل کیا۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان''جین ساکی'' نے 12/07/2013 کو یہ وضاحت کی کہ معزول صدر مرسی کی حکومت''جمہوری نہیں تھی''جیساکہ مصری اخبار (الیوم السابع المصریہ)میں آیا۔اسی طرح وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے 11/07/2013 کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاجس کو الجزیرہ نیٹ نے نقل کیا کہ ''ہم اس کی نگرانی کر رہے ہیں کہ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں اور وہ موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹ رہے ہیں'' جس میں 03/07/2013 کو مصر کی مسلح افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع عبد الفتاح السیسی کی جانب سے محمد مرسی کو معزول کرنے اور آئنی عدالت کے سربراہ عدلی منصور کو عبوری صدر مقرر کرنے کی طرف اشارہ تھا۔
آخر کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کیا حالانکہ پہلے دن سے ان کو امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی؟جو کچھ ہوا اس کو امریکہ نے بغاوت قرار کیوں نہیں دیا اورآج کے دن تک بدستور اس کی نگرانی کر رہاہے ۔اس سب سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟

جواب :
اس کے جواب کے لیے مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کرنے کی ضرورت ہے:
1 ۔ گزشتہ سال جس وقت صدارتی انتخابات کا اجراء کیا گیا اس کے دو مرحلے تھے پہلہ مر حلہ 23/24 مئی 2012 کا تھا جس میں مرسی کامیابی حاصل نہیں کر سکے بلکہ ووٹ کئی امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوگئےجبکہ دوسرا مرحلہ 16/17 جون 2012 کو اختتام پذیر ہوا جس میں احمد شفیق کے48.27% (12ملین ووٹ )کے مقابلے میں 51.73% (13ملین ووٹ) سے مرسی کو کامیاب قرار دیا گیا،جس کا یہ مطلب ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً آدھوں نے مرسی کی صدارت کو قبول نہیں کیا بلکہ سابقہ حکومت، جس کے خلاف انہوں نے بغاوت کی تھے، کے ایک فرد کو ہی ترجیح دی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی گئی جو پسِ پردہ ہونے والے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔اس کے بعد احمد شفیق کے مقابلے میں مرسی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔یہ تب ہوا جب مرسی نے امریکیوں کو یقین دہا نی کرائی کہ وہ ان تمام معاہدوں کی پاسداری کرے گا جو سابقہ حکومت نے کیے ہیں خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ اوریہ معاملہ امریکہ کے لیے بہت اہم تھا جو کہ انتخابات سے قبل اور بعد کی امریکی بیانات سے واضح ہے۔ امریکی سفیر نے 30/11/2012 کو کویتی اخبار الرای سے بات کرتے ہوئے کہا کہ''امریکہ ،مصر اور اسرئیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا پابند ہے اور وہ اس کو خطے میں امن اوراستحکام کے لیے اہم سمجھتا ہے اورسب سے پہلے یہ مصر اور اسرائیل کی عوام کی خوشحالی کے لیے ہے۔ ہم اس معاہدے کو پورے خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے بنیاد سمجھتے ہیں۔ لہذا اس بات سے ہمیں خوشی ہوئی کہ مصر کی حکومت نے حامی بھری ہے کہ وہ مصر کے تمام بین الاقوامی معاہدات کا احترام کرے گا۔'' اس نے مزید کہا کہ : '' ہم سیناء میں امن وامان کی صورت حال اور دوسرے اہم مشترکہ مسائل کے حوالے سے مصر اور اسرئیل کی براہ راست بات چیت کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اورہم اس پر زور دے رہے ہیں کہ سیناء میں امن امان سب سے اہم اور ہر چیز پر مقدم ہے۔'' یہ تمام بیانات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دشمن کے خلاف جہاد کی بات کرنے والی مسلح تحریک کے خلاف مصری حکومت کی جانب سے کئی مہینوں تک کی یلغار کے پیچھے امریکہ اور یہودی ریاست تھی۔
2۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے مرسی کی حمایت کی تھی اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتا رہا۔ اس نے سب پہلے امریکی مفادات اور یہودیوں کی حفاظت کی خاطر غزہ میں یہودی وجود اور حماس کی حکومت کے مابین جنگ بندی کروائی۔ یہ اس درجے کی عملی جنگ بندی تھی کہ جس میں حماس نے اپنے بعض عناصر کو اپنے اور یہود ی وجود کے درمیان اس لیے کھڑا کیا کہ وہ یہودی وجود کے خلاف کسی کاروائی کو یا اس پر کسی قسم کی فائرنگ کو روکیں!غزہ کے حوالے سے مرسی کے اس اقدام کی امریکہ نے زبردست تعریف کی۔
اسی طرح آئینی فیصلے کے معاملے میں بھی مرسی کو استثنی دینے کے حوالے سے اس کی حمایت کی گئی۔ اس دن امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نو لینڈ نے اس طرح صدر مرسی کا دفاع کیا کہ ''صدرمرسی نے عدلیہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تبادلہ خیال کیاہے ۔میرے خیال میں اب تک ہمیں علم نہیں کہ اس تبادلہ خیال کے کیا نتائج نکلیں گے لیکن صورتحال ایسی با لکل نہیں کہ (صدر مرسی کا موقف یہ ہوکہ ) جومیں کہوں وہی ہے ورنہ کچھ بھی نہیں'' (الشرق الاوسط نیوزایجنسی 27/11/2012 )۔
نولینڈنے احتجاج کرنے والوں کے اس دعوے کو مسترد کیا جومرسی کو ڈکٹیٹر یا مصر کا نیا فرعون کہتے تھےاورمرسی کا اور اس کے فیصلوں کا دفاع کیا۔ ملکی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے معاملے میں بھی اس کی حمایت کی چنانچہ اس نے فوجی قیادت خاص کر وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ حسین طنطاوی،چیف آف سٹاف سامی عنان کو ہٹادیا،اس سے متعلق ایک ائینی فیصلہ صادر کیاجس میں اس کے خلاف کوئی بڑی مخالفت بھی نہیں کی گئی۔
اس کے بعد آئین کے موضوع پر بھی مرسی کی حمایت کی۔امریکی ترجمان نولینڈ نے کہا:"محترمہ کلنٹن نے اپنے قاہرہ کے دورے اور مصر کے صدر مرسی سے ملاقات کے دوران ایسے آئین کے اجراء کی اہمیت پر بات چیت کی جو مصر کے تمام باشندوں کے تمام حقوق کی حفاظت کا ضامن ہو''۔(الشرق الاوسط 27/11/2012 )۔مرسی کی حکومت اور اس کی اپوزیشن پرامریکی سیاسی اثرو رسوخ بالکل واضح ہے۔
یوں امریکی آشیر باد سے دستور کا اجراء ہو گیاجو کہ سابقہ حکومت کے 1971 کے آئین کا'' نظر ثانی شدہ "نسخہ ہے جس کے لیے عوامی ریفرنڈم کرایا گیا جس میں%9.32نے حق رائے دہی کو استعمال کیا جو کہ ووٹ کا حق رکھنے والے کل لوگوں کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے جبکہ دو تہائی نے اس ریفرنڈم کا بائی کاٹ کیا۔ ان ایک تہائی رائے دہندگان کی%8.63 نے اس کی حمایت کی !لہذا لوگوں کی اکثریت اس دستور،صدر اور اس کے فیصلوں سے راضی نہیں تھیں۔
3۔ امریکہ نے صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور صدر،اس کے فیصلوں اور دستور کے حوالے سے لوگوں کو قائل کرنے کی تگ ودو کی تاکہ اس حکومت کو مستحکم کر سکے جس کو انقلاب کے بعد وہ اپنی مٹھی میں رکھنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ استحکام حاصل نہ ہو سکا جو مرسی اور اخوان سے نیشل پارٹی کی تحلیل کے بعد بطور سب سے بڑی منظم پارٹی کے امریکہ توقع رکھتا تھا۔ وہ یہ توقع کرتے تھے کہ اسی طرح صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کام کریں گے جس طرح نیشنل پارٹی نے 30 سال تک معزول صدر کے ساتھ کیا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مصر امریکی نفوذ کے استحکام کا مرکز بن جائے۔ یہاں مطلوبہ استحکام مصرکی خاطر نہیں ہے بلکہ امریکہ خطے میں اپنے اثر ونفوذ اور منصوبوں کے لیے مستحکم پلیٹ فارم چاہتا تھا۔ تا ہم صورت حال غیرمستحکم ہی رہی۔
حالات کے بگڑنے میں صدرکی جانب سے فیصلے کرنے کے حوالے سےموجود ہچکچاہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ ایک فیصلہ کرتا اور پھر دباو میں آکر اس سے رجوع کرتا۔ اسی طرح اتحادیوں سے مشورہ کیے بغیر تن تنہا فیصلہ کرتا ان کو قائل کرنے کی بھی کوشش نہ کرتا۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنے یا رائے عامہ کو جاننے کی بھی زحمت گوارہ نہ کرتا۔ یوں صدر کے اس ایک سالہ دور کے دوران افراتفری اور اس کے خلاف انقلاب بر پا کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
اس کے بعد 28/06/2013 کو اس کے تفصیلی خطاب کے بعد معاملات اور پیچیدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر مرسی کی صورت حال سنگین ہوگئی اوراس نے اعتراف بھی کرلیا کہ اس نےغلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے ان غلطیوں کا تعین نہیں کیا لیکن وہ 22/11/2012 کے اپنے اس دستوری اعلان کی طرف اشارہ کررہے تھے جس نے لوگوں کو اس کے خلاف بڑھکایا اور لوگ اس جانب راغب ہوئے کہ وہ اس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ 02/07/2013 کو اپنے آخری خطاب میں محمد مرسی نے غلطیوں کے ارتکاب کی اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان سے کوتاہی ہوئی ہے اور وہ ان کا تدارک کرنے کے لیے بھی تیار ہیں،جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی بھی درمیانی حل کو قبول کریں گے،یہ فوج کی طرف سے اس کو 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دینے کی دھمکی کے بعد تھا،جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی جانب سے اور فوج کی پشت پناہ یعنی امریکہ کی جانب سے مرسی کو کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تمام فیصلوں میں اس کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی لیکن جس وقت ان اقدامات کے نتائج خلاف توقع نکلے تو امریکہ اس کی حمایت سے دست بردار ہوگیا اور اس کے سقوط کا تماشا دیکھنے لگا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگاجیسا کہ وہ اپنے ہر اس ایجنٹ کے ساتھ کرتا ہے جو عبرت حاصل نہیں کرتا!
4۔ یوں ہم نے امریکہ کی جانب سے اس سے دستبرداری اور اس کے فیصلوں سے لاتعلقی کو دیکھا، امریکی ٹی وی چینل ''CNN" نے 02/07/2013 کو اعلی امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے یہ خبر دی کہ''مصر میں امریکی سفیر ''این پیٹرسن اوروائٹ ہاوس کے دوسرے عہدہ داروں نے کہا ہے کہ مصر کے لوگ اپنے احتجاج میں جو مطالبات پیش کر رہے ہیں وہ بڑی حد تک ان اصلاحات سے مطابقت رکھتی ہیں جن کا مطالبہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی کئی ہفتوں سے کر رہے ہیں۔" اس کی تائید 02/07/2013 کو رائٹرز میں شائع ہونے والے وائٹ ہاوس کے اس بیان سے بھی ہو تا ہے کہ :''صدر اوباما نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ جن سے یہ واضح ہو کہ وہ مظاہرین کے مطالبات کو پورا کر رہا ہے۔" اوبامہ نے اس پر بھی زور دیا کہ ''موجودہ بحران کا حل صرف سیاسی عمل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے"جس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ نے مرسی کے سر سے دستِ شفقت اٹھا دیا اور وہ اب نئے سیاسی عمل کا متلاشی تھا۔ اس بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ مصر کے منتخب صدر کی حمایت کرتا ہے بلکہ ان سے مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو صدرکو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے!مصر میں مرسی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد اوبا مہ نے وائٹ ہاوس کے اپنے بڑے مشیروں کے ساتھ مصر میں رونما ہونے والے صورتحال کے حوالے سے میٹنگ کا اعلان کر دیا جس کے بعد اس نے کہا:''مصر کی مسلح افواج کو چاہیے کہ انتہائی ذمہ داری سے جس قدر جلد ممکن ہو سکے اقتدار کو سول حکومت کے حوالے کرے"(رائٹرز 03/07/2013 )۔ اوبامہ نے اس انقلاب کی کوئی مذمت نہیں کی بلکہ اس کو فوجی انقلاب تک قرار نہیں دیا۔ اس نے برطرفی کے بعد مرسی کی بحالی کا بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا،نہ ہی مرسی کے وزیر اعظم کو اس کے منصب سے ہٹانے اور ایک سال قید کی مخالفت کی!بلکہ اقتدار سول حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا یعنی اقتداربرطرف حکومت کو نہیں بلکہ کسی نئی حکومت کومنتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس انقلاب کو اور مرسی اور اس کی حکومت کو برطرف کرنے کے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل تھی بلکہ امریکی انتظامیہ نے یہ کہہ کر اس پر تبصرہ کیا کہ:''مرسی نے عوام کی آواز پر کان نہیں دھرا نہ ہی اس کا جواب دیا"(مذکورہ بالا حوالہ)مصر کی عسکری قیادت نے بھی بالکل یہی بات کی کہ''صدر مرسی نے عوامی مطالبات کوپورا نہیں کیا۔" یہ سب جانتےہیں کہ مصر کی فوجی قیادت امریکہ کی جیب میں ہوتی ہے اورامریکہ کی بیشتر امداد جو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے فوج ہی کو ملتی ہے۔
5۔ مرسی اورالاخوان یہ سمجھ نہ سکے،بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مرسی امریکہ کی پالیسیوں پر گامزن ہو کر امریکی حمایت کے بارے میں دھوکہ کھا گئے،اس کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہوئے اور ان معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے جو مصر کی جمہوری حکومت نے کیے تھے خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ۔پھرامریکہ نے فوج کی پرانی قیادت کو بھی ہٹادیا اور نئی قیادت لاکر ان کو مرسی کا ہمنوا بنادیاجس سے مرسی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ امریکہ کبھی اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکہ نام نہاد معتدل اسلام پسندوں کو یا حالات سے سمجھوتہ کرنے والوں کو اقتدار میں لانے اور ان پر دستِ شفقت رکھنے کی پالیسی پر کاربندہے جیسا کہ ترکی میں ہوا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ امریکہ اپنے کسی ایجنٹ سے استعمال کرنے کے بعد یا ناکام ہونے پر اور ملک میں مستحکم حکومت قائم کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں دستبردار ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا ایجنٹ لاتا ہے،جیسا کہ مرسی کے پیش رو حسنی مبارک کے ساتھ ہوا جو امریکہ کا انتہا درجے کا وفادار تھا اور اسی خوش فہمی میں اپنے بیٹے کو اپناجانشین بنا رہا تھا۔
لیکن جب اس کے خلاف ایک عوامی تحریک برپا ہوگئی اور امریکہ نے دیکھا لیا کہ وہ اس پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا اور یہ مصر میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے استحکام نہیں لا سکتا تو اس کو ایک طرف کر کے اس تحریک کی لہروں پر سوار ہوکر مرسی کو لے آیا۔
مرسی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ امریکہ نے دیکھا کہ وہ امریکی مفادات کی حفاظت کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اس کے اثرو نفوذ کو دوام بخشنے کی خاطر مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکتا تو اس کو بھی ایک طرف پھینک دیا۔
یہ کوئی نیا معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک عرصے سے اس پر کام ہو رہا تھا۔''مصر کی عوامی تحریک" کی ویب سائٹ، جو کہ ایک لبرل سائٹ ہے، نے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصے پہلے 22/04/2012 کواس عنوان سے خبردی تھی کہ "عسکری مداخلت کے بارے میں امریکی شرط یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب نہیں نظر آنی چاہیے! " اس سائٹ نے کہا تھا کہ ''ایک شخص ،جس کے نام کو ہم صیغہ راز میں رکھ رہے ہیں، گزشتہ دنوں امریکہ کا دورہ کر کےواپس آیاہے۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے امریکی انتظامیہ کے چوٹی کے اہلکاروں،پینٹاگون اور قومی سلامتی کے عہدہ داروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا جس میں اخوانی حکومت کے حوالے سے امریکی موقف کے بارے میں بات چیت ہوئی۔" سائٹ نے یہ بھی کہا کہ''جان کیری، جو ان ملاقاتوں میں تھا، نے عوام کی طرف سے سڑکوں پر نکلتے وقت واقعات پر قابو پانے اور مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے کے سلسلے میں مصری فوج کے اہم کر دار کے بارے میں بات کی۔ پھر کیری نے مزید کہا:''مجھے الاخوان کی کمزوری اور بات چیت میں ان کی ناکامی دیکھ کر صدمہ ہوا،مجھے یقین ہے کہ وقت آنے پر فوج اپنا کردار ادا کرے گی۔ مذکورہ شخص نے مزید کہا کہ :بات چیت میں اخوانی حکومت کے متبادل کے موضوع پر بات ہوئی اور اس پر بھی کہ عبوری دور میں انتظامی ذمہ داری فوج کی ہو گی،سائٹ نے پینٹاگون کے ایک اعلی عہدہ دار جو کہ American Brookings Institution))کا بھی رکن ہے اور اس ملاقات میں موجود تھاکا قول نقل کیا ہے کہ :''وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مرسی اقتدار سے الگ ہونے کا قائل بھی ہو جائے، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے تو بھی بہر حال اس کے حامی اس بات کو قبو ل نہیں کریں گے۔ یہا ں ایک بار پھر مصر کے لوگوں کو کردار ادا کرنا ہو گا کہ وہ بڑی تعدا میں متحرک ہو کر مرسی کی برطرفی کا مطالبہ اور فوج کی حمایت کریں۔" یہ بات 22/04/ 2013 کو یعنی انقلاب کے رونما ہونے سے دو ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پہلے افشاں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ہی نے اس انقلاب کی اس دن سے ہی منصوبہ بندی کی تھی۔ اسی نے چاہا کہ معاملات اس نہج کو پہنج جائیں۔ جب 03/07/2013 کو مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس کو انقلاب کہنے سے باز رہا،بلکہ انتہائی مبہم قسم کے بیانات دیتا رہا جیسے''ہم صورت حال کو دیکھ رہے ہیں"، "صورتحال پر مسلسل ہماری نظر ہے"، ''مرسی جمہوری نہیں تھا"، "عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ مقرر کرناحوصلہ افزا امرہے" جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے۔
6۔ معزول صدر کے حامی احتجاج کے لیےسڑکوں پر آگئے ہیں،اگرانھوں نے اپنے احتجاج کو جاری رکھا ،اس کو آگے بڑھایا اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اس بات کی ضمانت ہو گی کہ وہ عسکری ادارے اور امریکہ کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یوں امریکہ الاخوان تحریک کے ساتھ سودابازی پر مجبور ہوگا،خاص کر جبکہ ان کے ہاتھ فائدہ مند پتے موجود ہیں جو یہ ہیں کہ مرسی عوم کا منتخب صدر تھا،آئینی عدالت ،عسکری ادارے ،بین الاقوامی اداروں،امریکہ اور تمام ممالک کے لیے قابل قبول تھا،ان کے معیار کے لحاظ سے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا کہ اس کو برطرف کیا جائے۔ وہ ایسے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچے تھے جن کی شفافیت کا اعتراف کیا گیا تھا پھر فوجی طاقت کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ اس سے ان کے موقف کو تقویت ملے گی اور ان کو جواز ملے گا جس سے وہ دوسرے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔
جن لوگون نے فوجی انقلاب کی حمایت کی اور صدر کو برطرف کیا تو ان کا موقف اس لحاظ سے کمزور ہے کہ وہ فوجی حکومت کو بھی مسترد کرتے ہیں اور انتخابی عمل پر اصرار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ عسکری طریقے سے تبدیلی کی بھی حمایت کرتے ہیں! یوں الاخوان انقلاب کو ناکام بنا کر دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں یا نئی صورت میں کوئی بڑا حصہ دار بن سکتے ہیں،خصوصاً جب وہ لوگوں کے جذبات کوبڑھکانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر معزول صدر کے حامی مذاکرات اور پیچھے ہٹنے پر راضی ہوئے تو زبردست نقصان اٹھائیں گے جس کی وجہ سے ان کو ندامت کا سامنا ہو گا اور پھر ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،یوں ان کی جدوجہد سیاست کے دشت و صحرا اور اس کے بارے میں بیداری نہ ہونے کی وجہ سے رائیگاں جائے گی!
7۔ ہم ایک زمینی حقیقت کے بیان کے ساتھ اس جواب کو ختم کرتے ہیں اور وہ یہ کہ جو بھی اللہ کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو خوش کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے ہی حوالے کرے گا،وہ مجبور ہو گا اور لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق بھی خراب ہو گا۔ اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ محسوس بھی ہو تا ہے۔ مرسی اور الاخوان نے بھی امریکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی،اس کے منصوبوں کی حمایت کی اور کیمپ ڈیوڈ کے اس معاہدے کی پاسداری کی جو مسئلہ فلسطین اور سیناء کو کمزور کرتا ہے جوفلسطین کو غصب کرنے والی یہودی وجود کا اقرار اور اعتراف کر تا ہے۔ مرسی اپنے کئی نعروں سے بھی دستبردار ہوا اور جمہوری نظام حکومت اور سکیولر عوامی جمہوری حکومت پر راضی ہوا،جب صدر بنایا گیا اسی کے لیے حلف اٹھا یا،اسلام اور اسلام کی حکمرانی کو پس پشت ڈال دیا،یہ سب کچھ اس نےامریکہ کو راضی کر نے کے لیےکیا تاکہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھا رہےلیکن آخر میں اپنا نقصان کر بیٹھاسوائے اس کے کہ اگر توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرما یا کہ ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) (الترمذی)، "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا"۔
8۔ بالکل آخر میں یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے مرسی کو دوبار نصیحت کی۔ دونوں بار ہم نے پمفلٹ شائع کیا پہلی بار 26/06/ 2012 کو جبکہ دوسری بار 13/08/ 2012 کو۔ پہلے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا:
۔۔۔۔''پھر خالص نصیحت کے ذریعے ہم مصر کے نئے صدر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:اللہ سے ڈرو اور ایسی عوامی جمہوری ریاست کی دہائی دینے سے باز آو جو فکر اور منہج کے لحاظ سے خواہشات پر مبنی ہو۔ حق کی طرف رجوع افضل ہے،یہ اس لیے کہ کہیں تم مکمل دنیاوی نقصان نہ کر بیٹھو کیونکہ کافی نقصان تم پہلے ہی کر چکے ہو جب فوجی کونسل تمہارے اختیارات کم کر کے تمہارے پر کاٹ چکی ہے۔ اور کہیں تم امریکہ اور مغرب کو راضی کرنے کی خاطر عوامی جمہوری ریاست کا راگ الآپ کراور خلافت کے قیام اور اللہ کی شریعت کے نفاذ سے پہلو تہی کر کے امریکہ اور مغرب کےکو مالک کوناراض کر کےآخرت تباہ کر بیٹھو۔ یقیناً تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پڑھی ہوگی ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا" (الترمذی) ابو نعیم نے الحلیہ میں اس کو عائشۃرضی اللہ عنھا سے روایت کیاہے۔
یہ نصیحت صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے ہے اس کے بدلے ہم تم سے کسی جزاء یا شکریے کے طلبگار نہیں،یہ ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ کہیں کفار اور ان کے ایجنٹ اور تمام اسلام دشمن قہقہے لگا کر نہ ہنسیں کہ سول جمہوری ریاست کے ان کے مشن کے علمبردار خود مسلمان بن گئے، اخوان المسلمون بن گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون"۔
دوسرے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا کہ" ہم اپنے بیان کومکمل کرتے ہوئےصدر محمد مرسی کو کی گئی اس نصیحت کو دہراتے ہیں اگرچہ اس نے ہماری پہلی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ ہم کسی مسلمان کو نصیحت کرنے سے کبھی مایوس نہیں ہوتے ،خصوصاً جب وہ حکمران ہو،اس لیے ہم پہلی نصیحت کے بعد ایک بار پھر نصیحت کرتے ہیں:اگر چہ پرانے اور نئی سیاسی میڈیم میں امریکہ کے ہاتھ پہچے ہوئے ہیں،لیکن ان بازوں کو کاٹ ڈالنا ممکن اور آسان ہے،ایک دفعہ غلطی کر کے اگلی غلطی سے پہلے اس کا تدارک کرنا غلطی کو باربار دہرانے سے بہتر ہے،امریکہ کے دست وبازو کے ساتھ محبت اور قربت کا کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ ان کو مڑنا اور کاٹ کر پھینک دینا زیادہ بہتر ہے،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا!زمین پر اللہ کا تیر کش(مصر) ہر قسم کی قوت اور طاقت سے مالامال ہے،اس کی تاریخ اس کی شاہد ہے،جو بھی حقیقی معنوں میں اللہ کے ساتھ ہوا وہی غالب ہے،قرآن حکیم اس کے بارے میں گویا ہے،خود صدر نے بھی اپنے آخری خطاب میں اس کو دہرایا ﴿والله غالبٌ على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون﴾ "اللہ ہی فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔جی ہاں اللہ نے سچ فرمایا ہے،﴿ومن أصدق من الله حديثا) "اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے"۔
اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ ہم نے پہنچایا تو گواہ رہ۔

Read more...

لوگوں نے کشمیر سے دستبردار ہونے اور مشرک ریاست کو انعام میں دینے کے لیے نہیں بلکہ افواج کے ذریعے جہاد کرتے ہوئے اِسے آزاد کرانےکااختیار( مینڈیٹ) دیا ہے


ڈیلی ٹیلیگراف کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے 23 اگست 2013 کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کی دعوت دی۔ یہ کمزور اور بزدلانہ ردعمل بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہونےوالے مسلمانوں، افسران اور سپاہیوں کے مقدس خون کی توہین ہے جبکہ بھارتی افواج مسلسل سرحدوں پرفائرنگ کررہی ہیں۔ جہاں تک جنرل کیانی کا تعلق ہے تو اس نے قبائلی علاقوں میں امریکی صلیبی جنگ پر مسلمانوں کی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جبکہ بھارتی جنرلز پاکستان کو دھمکیاں دیے چلے جارہےہیں۔
بزدل بھارت کی جارحیت کے جواب میں یہ کمزور اورغدارانہ ردعمل اس سرزمین کے قابل اور بہادر بیٹوں کی توہین ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ بھارت ایک قابض طاقت ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کا دشمن ہے اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے۔ لیکن یہ ایجنٹ حکمران ان باتوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچے گا کیونکہ وہ صرف واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے مفادات کی پروا کرتے ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال ہونے کی صورت میں کشمیر تحفے میں دینا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی افواج کشمیر کو غاصب بھارت سے آزاد کروانے کے لیے نہیں بلکہ اُن عسکریت پسندوں سے لڑیں جو اُس سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! ان حکمرانوں کو اکھاڑنے کے لیے فوراً حرکت میں آؤں اور خلیفہ راشد کو بیعت دو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمھاری قیادت کرے گا۔ امریکی منصوبوں اوران ایجنٹ حکمرانوں کو تباہ کردو جو تم میں موجود ایمان اور طاقت کے باوجود تمھیں بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتے ہیں اور تمھاری تزلیل کرتے ہیں۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ کبھی تمھارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔

((فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ))
"پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اُتر آؤ جبکہ تم ہی بلند و غالب رہو گے اور اللہ تمھارے ساتھ ہے"(محمد:35)

Read more...

سوال کا جواب: مصر میں صلح صفائی کیسے ہوسکتی ہے؟

 

سوال: کئی مہینوں سے مصر کے شاہراہوں اور میدانوں میں تشدد، قتل، گرفتاری، تخریب کاری اور تباہی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ معمول کی زندگی معطل ہے اور لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ اس ماحول میں کئی ایک صلح صفائی کرنے کے لیے سامنے آچکے ہیں جن میں امریکہ، یورپ حتٰی کہ روس نے بھی مصر کے ساتھ رابطے کیے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ چین بھی مداخلت کرے! اسی طرح بعض مقامی ثالث بھی درمیان میں آگئے ہیں جن میں جماعتی اور غیر جماعتی افراد شامل ہیں اور انھوں نے بھی ثالثی اور اصلاحات کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ حزب التحریر نے اس معاملے میں فریقین کے درمیان ثالثی یا صلح صفائی یا اصلاحات کی کوشش نہیں کی جبکہ جو کوئی بھی حزب التحریر کو جانتا ہے اس پر اعتماد اور اس کی عزت کرتا ہے۔ حزب التحریر یقیناً رسول اللہﷺ کے اس قول سے آگاہ ہوگی کہ ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟)) "کیا میں تم کو درجے کے لحاظ سے روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل عمل نہ بتادو؟" انھوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ فرمایا: ((إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ)) "لوگوں کے درمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ تو کیا حزب کی جانب سے ثالثی اور صلح صفائی کی خاطرمداخلت نہ کرنے کا کوئی سبب ہے؟ اللہ آپ کوئی بہترین جزا دے۔

جواب: پہلا: سب سے پہلے حزب پر اعتماد کرنے اور اس کے بارے میں حسن ظن پر آپ کا شکریہ ۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کی رہنمائی کرے اللہ ہی دعائیں سننے اور قبول فرمانے والا ہے۔
جی ہاں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہماری نظروں سے اوجھل نہیں جس کو ابو داؤد نے ام الدردا سے ابو الدرداکے حوالے سے روایت کی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ » "کیا میں تمہیں درجے میں روزہ، نماز اورصدقہ سے بھی افضل چیز کے بارے میں نہ بتادوں" انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول، فرمایا: "لوگوں کےدرمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ لیکن صلح اور اصلاح اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے مطابق ہو نی چاہیے۔ کسی حلال کو حرام کرتے ہوئے اور کسی حرام کو حلال کرتے ہوئے کوئی صلح صفائی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل احادیث میں اسی کی وصیت فرمائی ہے:
ابوداؤد نے اپنی سنن میں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ )) "دو مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے" احمد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ((إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حلالا)) "مگر وہ صلح جوکسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے" اور سلیمان بن داؤدنے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ((الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ)) "مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں"۔ اور ترمذی نے اپنے سنن میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی سے اور انہوں نے اپنے باپ پھر دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا)) "مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے، مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں مگر وہ شرط جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے" اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اسی طرح ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے ان الفاظ سے ہی روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا)) " مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر ایسی صلح نہیں جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے"۔
دوسرا: ہم نے فریقین کے معاملے پر غور کیا تو جو کچھ ہم نے دیکھا اس سے ہمیں سخت تعجب ہوا:
ہم نے دیکھ لیا کہ دونوں اللہ کی شریعت کے مطابق حکمرانی کرنے کے بارے میں نہیں لڑ رہے ہیں، کہ ایک فریق اس کے مطابق حکومت کر تا ہو اور دوسرا فریق اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا ہو، بلکہ ان میں سے کسی نے بھی پہلے یا بعد میں اس کے مطابق حکومت نہیں کی !
ہم نے دیکھ لیا کہ وہ ایسے دستور کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں جو احکام شرعیہ کے مطابق ہو، بلکہ ایک ایسے خود ساختہ دستور کے لیے دست وگریبان ہیں جو سابقہ حکومت میں بھی باطل تھا اور موجودہ حکومت میں بھی باطل تر ہے؟
اسی طرح دونوں کے درمیان یہودی وجود اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں جس پر سابقہ حکومت بھی کاربند تھی اور موجودہ حکومت بھی کاربند ہے؟ نہ ہی دونوں کے درمیان یہود کو گیس سپلائی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی اختلاف رائے ہے بلکہ یہ کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری وساری ہے؟
دونوں ہی نہر سویز سے گزرنے والے دشمن ممالک کے بحری جہازوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں وہ کل بھی گزرتے تھے اور آج بھی گزرتے ہیں؟
دونوں فریق اس بات پر نہیں لڑ رہے ہیں کہ پیٹرول گیس یا معدانیات جیسی اشیاء عوامی ملکیت کی چیزیں ہیں جو کہ مسلمانوں کا حق ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی دولت ان پر خرچ کی جانی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ پہلے بھی اور آج بھی ان سے کنانہ (مصر)کی بڑی مچھلیوں کی جیبیں ہی بھرتی ہیں؟
پھر دونوں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ بحال ہیں اور دونوں نے کل بھی اور آج بھی امریکہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہو ا ہے؟
تیسرا: ہم جانتے ہیں کہ روئے زمین پر اللہ کے تیرکش ، مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں پاسکیں گے جب تک ایک فریق فوج کو دشمن کے آنگن کو میدان کارزار بنانے کی بجائے مصر کو ہی میدان جنگ بنانے کے لیے اس کو تھپکی دیتا رہے گا۔ ۔ ۔ جبکہ دوسرا فریق خلافت کے عادلانہ نظام کا داعی بننے کی بجائےباطل اور خود ساختہ نظام کو بحال کرنے کے لیےمصر کی شاہراہوں کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا نے کے لیے لوگوں کو اکساتا رہے گا۔ ۔ ۔
مصر کے باشندوں کو دونوں فریقین سے کوئی خیر امن اور سلامتی نصیب نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ہی اس سیکولر جمہوریت اور عوامی ریاست کے داعی ہیں جو اسلام کو ایک طرف کردیتی ہیں۔ وہ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں اللہ نہیں بلکہ انسان قانون سازی کرتا ہے، جس میں حاکمیت اعلی رب کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔
اسی طرح دونوں فریقوں سے کسی خیر، امن اور سلامتی کی توقع نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنا خود ساختہ دستور رکھتے ہیں جس کے بارے میں اللہ نے کوئی برہان نازل نہیں فرمائی۔ دونوں ہی اللہ رب العالمین کے اس دستور کو پس پشت ڈالتے ہیں جس کو اللہ نے امت کی فلاح اور بھلائی کے لیے نازل فرما یا ہے ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ "کیا یہ نہیں جانتے کہ کس نے پیدا کیا، وہ ہی تو تدبیر والا اور جاننے والا ہے"۔
مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود اور سابقہ اورموجودہ حکومتوں کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ موجود ہو اور جب تک کہ اس کو ختم کر کے ردی کی ٹوری میں نہیں پھینک دیا جاتا۔
یہ اس وقت تک کسی قسم کی بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود کو گیس کی سپلائی جاری رہے گی کیونکہ جس کو غصب کیا گیا ہے اس کے خون سے غصب کرنے والے کو جینے کا سامان مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ !
وہ اس وقت تک خیر کو ترستے رہیں گے جب تک عوامی ملکیت حقداروں ، جو کہ مصر کےباشندے ہیں، کو ملنے کی بجائےباطل طریقے سے حکمرانوں کے جیبوں میں جاتی رہے گی۔ ۔ ۔
وہ اس وقت تک کسی خیر سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے جب تک امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم ہیں اور جب تک امریکی رسی واشنگٹن سے قاہرہ تک بچھی ہوئی ہے اور اس کو کاٹا نہیں جاتا۔ ۔ ۔
آخر میں یہ کہ اہل مصر اس وقت تک بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کی تیر کش مصر میں خلافت کے ستونوں میں سے ایک ستون بن کر اپنی پہلی صورت پر نہ آجائیں:جب رومیوں سے اس کو فتح کیا گیا۔ ۔ ۔ پھر اس نے فلسطین اور اس کے آس پاس سے صلیبیوں کو ماربھگا یا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کا سفر اللہ کے اذن سے فلسطین کو آزاد کر کے اور یہودی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ہی مکمل ہو گا۔ ۔ ۔ ۔
چوتھا: ہم نے فریقین پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ دونوں مشرق اور مغرب سے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ادھر اُدھر کے ثالثوں کے ذریعے اندر اور باہر حل تلاش کر رہے ہیں لیکن ہدایت کی طرف نہیں آتے، اس لیے یہ حل تلاش کرنے کے اہل ہی نہیں۔ جو حل وہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں کوئی خیر نہیں۔
جہاں تک بیرونی ثالثوں کا تعلق ہے ان کو مصر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیا کوئی عقلمند شخص امریکہ سےیہ توقع کر سکتا ہے کہ اس کے لائے ہوئے حل میں کوئی خیر ہو۔ وہی سابقہ ، اس سے پہلی اور موجودہ حکومت کا پشت بان ہے۔ سابقہ ، اس سے پہلے یا موجود ہ حکومت کی جانب سے قتل و غارت کے پیچھے امریکہ ہی ہے۔ مقتولین کی تعداد یا تباہی کی مقدار کی امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ اس کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ مصر پر اس کی بالادستی قائم دائم رہے۔ ۔ ۔ اس کا ماضی بلکہ عراق اور افغانستان میں اس کا حال اس کا شاہد ہے، جس کا یہ حال ہو وہ مصر اور اہل مصر کے لیے کیا صحیح حل لائے گا؟ کیا او بامہ یا اس کا فرستادہ کیری مصر اور اہل مصر کا خیر خواہ ہے؟ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ۔ ۔
کیا کوئی باشعور بصیرت اور بصارت والا شخص یورپ سے ایسے حل کی توقع کر سکتا ہے جس میں خیر ہو؟ برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں نے 1342 ھ بمطابق 1924ء میں خلافت کا خاتمہ کیا ۔ یہی خلافت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا بدترین دشمن ہے، یہی بلفور کے منحوس معاہدے کے پیچھے ہیں۔ یہ امریکہ، فرانس اور روس ہی فلسطین کو غصب کرنے والے اور اس کے باشندوں کو جلاوطن کرنے والے یہو د کے پشت پناہ ہیں۔ انہوں نے ہی اسراء اور معراج کی سرزمین اور اسلام کی سرحد فلسطین میں اس یہودی وجود کو تخلیق کیا۔ ۔ ۔ جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو وہ یہودی وجود کے ابتدائی پشت بانوں میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی انتہائی سیاہ تاریخ کا حامل ہے جس نے پہلے الجزائر اور اب مالی میں مسلمانو ں کا خون بہایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ رہی بات روس کی جس کی تمام حرکات وسکنات سوویت یونین کے زوال کے بعد خطے میں امریکہ کے اشارے ہی پر ہوتی ہیں، شام کے سرکش کی حمایت اس پر مستزاد ہے۔ اسی طرح قفقاز کے مسلمانوں خاص کر چیچنیا میں اس کی قتل و غارت گری ، قازان میں مساجد کو منہدم کرنا، تاتارستان میں آئمہ کی گرفتاریاں اور بعض کو قتل کرنا اور اسلام کے داعیوں کی گرفتاریاں سب اس کے جرائم ہیں۔ ۔ ۔ کیا اس سے کسی خیر کی توقع ہے؟یہی حال چین کا ہے جس نے مشرقی تر کستان پرقبضہ کر رکھا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے، اگر وہ بھی مداخلت کرے یا ثالث بن جائے توکیا اس سے خیر کی توقع ہے؟
ان سارے بیرونی ثالثوں کے ساتھ صرف زہر قاتل ہی ہو گا۔ ان کے لیے اہل کنانہ کے خون کی کوئی قیمت نہیں بلکہ وہ خون چوستے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ان سب کا سرغنہ امریکہ ہے جو کنانہ (مصر)کو خطے میں اپنا مضبوط ٹھکانہ سمجھتا ہے۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی زندہ اور عقلمند انسان جھاڑیوں میں انگور کی توقع نہیں کرتا! کیا یورپ کا آشتون یا امریکہ کا کیری یا کسی بھی اجنبی ملک سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے؟ ﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح یہ جب بھی تم پر غالب آتے ہیں تو تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی قرابت کا لحاظ۔ اپنی زبانوں سے تو تمہیں خوش کرتے ہیں جبکہ ان کے دل یہ نہیں چاہتے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں" (التوبہ:8)۔
رہی بات اندرونی ثالثوں کی تو وہ بھی کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں، یہ بھی وہی حل دے رہے ہیں جو فریقین پیش کر رہے ہیں، جس کی رو سے جمہوری نظام ، سیکولر عوامی حکومت اور اس جمہوریت کی حفاظت جس کی رو سے انسانوں کے خالق کی جگہ خود انسان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور حاکمیت اعلی عوام کے رب کی بجائے خود عوام کے پاس ہے، جس میں شخصی آزادیاں ہیں، جس میں دین، ملکیت اور رائے کی آزادی ہے ، وہ سب کچھ جو اس افراتفری اور تباہی کے ذمہ دار ہیں۔۔۔! یہ ثالث یہی کر رہے ہیں، کبھی ایک فریق سے کچھ چیزوں سے دستبردار ہو نے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی دوسرے سے کچھ اور چیزوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہیں جبکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اس مصیبت اور بدبختی کے اصل سبب اس نظام کو برقرار رکھا جائے! تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان ثالثوں میں سے بعض مسلمان ہیں جو اللہ کی کتاب میں ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ "اور نماز قائم کرو" پڑھتے ہیں تو نماز ادا کرتے ہیں اور نماز سے دستبردار نہیں ہوتے، جبکہ اسی کتاب اللہ میں ایک اور آیت ﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ﴾ "اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو" پڑھتے ہیں تو اس سے دستبردار ہو جاتے ہیں، یہ لوگ حدود اللہ کو نافذ کر نے کی بات کرتے ہوئے "شرمندگی" محسوس کرتے ہیں، فریقین سے نظام خلافت کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ کانپتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکہ، یورپ، روس اور چین ناراض نہ ہو! بے شک یہ بڑی ہی عجیب بات ہے!
پانچواں: یوں موجودہ اندرونی یا بیرونی ثالثین کنانہ اور اہل کنانہ کے مسائل کوپائیداراور پر امن طور پر حل کر نے کی اہلیت ہر گز نہیں رکھتے ہیں ۔ حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ سب لوگ اپنے دل ، دماغ اور تمام تر توانائی سے اس نظام خلافت کے ذریعے جس کو اللہ رب العالمین نے فرض قرار دیا ہے اللہ کی شریعت کو نافذ کر نے کی طرف متوجہ ہوں، جس کے واضح اورصحیح دلائل کتاب اللہ ، سنت رسو ل ﷺ اور اجماع صحابہ رضوان اللہ علیھم میں موجود ہیں:
جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ط ۔۔۔ وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْك﴾ "ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کے بارے ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو ۔۔۔ اور اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو اور ہوشیار رہو کہ کہیں یہ تمہیں اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں فتنے میں مبتلا نہ کر دیں" (المائدہ:48-49)۔
اس کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنے کا خطاب امت کے لیے بھی خطاب ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی ایسے حکمران ہونے چاہیے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کریں ۔ اس خطاب میں امر بھی جزم کا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ خطاب کا موضوع فرض ہے۔ یہ جزم کا قرینہ ہے جیسا کہ اصول میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد جو حکمران اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کر تا ہے اس کو خلیفہ کہا جاتا ہے اور اس نظام حکمرانی کو خلافت کا نظام کہا جاتا ہے۔
جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو نافع سے روایت ہے کہ: عبد اللہ بن عمر نے مجھے بتایا کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : «من خلع يداً من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية»"جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو جاہلیت کی موت مرا" اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ہر مسلمان پر فرض قرار دیا کہ اس کی گردن میں بیعت ہو اور جو اس کے بغیر مرا اس کو جاہلیت کی موت قرار دیا جو کہ اس گناہ کے عظیم تر ہو نے کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بیعت خلیفہ کے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔ مسلم نے الاعرج سے اور اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «إنما الإمام جُنة يُقاتَل من ورائه ويُتقى به» "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے" اور مسلم نے ابو حازم سے روایت کی ہے کہ: میں پچاس سال تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھتا رہا اور میں نے ان کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر، قالوا فما تأمرنا؟ قال: فُوا ببيعة الأول فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم» "بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو ایک اور اس کی جگہ آجاتا ، چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور کثرت سے خلفاء ہوں گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا: ایک کے بعد ایک کی بیعت کی وفا کرو، ان کو ان کا حق دو کیونکہ اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا" ان احادیث میں خلیفہ کو ڈھال قرار دیا گیا ہے، یعنی بچاؤ ، اس میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی سیاست کریں گے وہ خلفاء ہونے چاہیے ، یعنی ان کو وجود میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رہی بات اجماع صحابہ کی تو صحابہ رضوان اللہ علیھم نے رسول اللہ ﷺ کے رحلت فرما جانےکے بعد ان کا خلیفہ مقرر کرنے پر اجماع کیا ۔ ان کے اس اجماع کی تاکید رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی تدفین میں تاخیر اور خلیفہ کے تقرر میں مشغولیت سے ہوتی ہے، حالانکہ وفات کے بعد میت کی تدفین فرض ہے۔ جن صحابہ پر رسول اللہﷺ کی تجہیز و تدفین فرض تھی ان میں سے بیشتر نے رسول اللہ ﷺ کی تدفین پر خلیفہ کے تقرر کو ترجیح دی اور باقی اس پر خاموش رہے اور تدفین کی تاخیر میں شریک رہے قدرت کے باوجود کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ، اور قدرت کے باوجود انہوں نے خلیفہ کے تقرر سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تدفین بھی نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن پہلے پہر کو انتقال فرماگئے اور منگل کی رات پھر منگل کے دن بھی نہیں دفنائے گئے۔ جس دن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بعیت کی گئی اس بدھ کی رات کو آدھی رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کی تدفین کی گئی، یعنی تدفین میں دوراتوں کی تاخیر کی گئی۔ اس دوران رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے پہلے ہی ابوبکر کی بیعت کی گئی، یوں یہ خلیفہ کے تقرر کو میت کی تدفین پر ترجیح دینے پر اجماع ہے، جو خلیفہ کے تقرر کے فریضہ کے عظیم ترین ہو نے کی دلیل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے حکمران کی غیر موجود گی میں جو مسلمانوں پر اسلام کے ذریعے حکومت کرے جو کہ "خلیفہ"ہے، مسلمانوں پر اس کو وجود میں لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نا فرض ہے۔ وہی اللہ رب العالمین کی طرف سے فرض کیے گئے حدود کو نافذ کرے گا جو کہ ایک بڑا فریضہ ہے اور جس میں امت کی بھلائی اور کامیابی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنے سنن میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا» "زمین پر ایک حد کو نافذ کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی صبح کے وقت کی بارش سے بہتر ہے"۔
یہ ہے مصر اور تمام مسلم علاقوں کے مسائل کا حل جس سے وہ خیر سے بھر جائیں گے اور یہ خیر چاردنگ عالم میں پھیل جائے گا۔
چھٹا: ہم واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور خون خرابہ اور تباہی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ المناک بات تو یہ ہے کہ تمام فریق ہر جگہ حل تلاش کررہے ہیں اس اسلام کے علاوہ جو ان کا عقیدہ ہے اور جس کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں!
چونکہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا کہ تمام فریق خلافت کے نظام کو قبول کریں جبکہ تمام فریق خلافت کے نظام اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں تردد ہوا کہ ہم فریقین کے درمیان صلح صفائی کے لیے خلافت کانظام ان کے سامنے پیش کریں۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں ڈرہے کہ ہماری یہ پکار صدا بصحرا ثابت ہو گی اس لیے اس سے باز رہنے اور اس پر نظر رکھنے کو ہی ترجیح دی شاید اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوئی بہتری لائے۔
اسی چیز نے ہمیں مداخلت سے روکا ، ہماری طرف سے کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود فریقین کی قیادتیں خلافت اور اہل خلافت کی طرف رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خلافت کا تو ذکر کرتے ہوئے بھی اس خوف سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ کہیں مغرب بقول ان کے مشتعل نہ ہو۔ جن کا یہ حال ہو ہم کیسے ان کے درمیان ثالث بننے کے لیے مداخلت کریں؟
ہم ان کے درمیان صلح کر انے کے لیے بھرپور کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ دونوں نظام خلافت پر اکٹھا ہو جائیں۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فریقین اللہ کی شریعت کی حکمرانی چاہتے ہیں خلافت کے اعلان اور اس کے جھنڈے کو بلند کرنےکے لیے تیار ہیں جو کہ العقاب ہے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا جھنڈا ہے تب ہم ان کے درمیان صلح کرا نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور تب ہی ہم فریقین کو ایک ہی نظام کے سائے میں یکجا کرنے کے قابل ہوں گے جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم معاملات کو پھر درست طریقے سے سنبھالنے کے اہل ہیں ، خلافت کے قیام اس کے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں جس سے روئے زمین پر اللہ کا تیر کش مصر ایک بار پھر اپنے رب کی مدد سے طاقتور اور اپنے دین کی وجہ سے باوقار ہو گا، اللہ کے دشمنوں کی کمر توڑدے گا، اسلام ، مسلمانوں اور ان کے اہل ذمہ کے ہر بد خواہ کولرزادے گا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔ جو بھی حزب التحریر، اس کے ماضی اور حال کو جانتا ہے وہ اس کی گواہی دے گا، اس کے بعد اللہ ہی مدد گار ہے۔ ۔ ۔
صلح اور اصلاح اس طرح ہوتی ہے ، اس منہج پر ہم گامزن ہیں، ممکن ہے فریقین اس مصیبت اور سختی کا سامنا کرنے کے بعد صحیح حل جو کہ خلافت کا نظام ہے کی طرف آئیں گےجو اس رب العالمین کا نظام ہے جو اپنے بندوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کو سب سے بہتر جانتا اور اور سب سے اچھا فیصلہ کرتا ہے۔ ممکن ہے فریقین کی اس پر موافقت اس امت کی شاندار تاریخ کو دہرانے کا سبب بن جائے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾ "تم ہی بہترین امت ہوجو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیے گئے ہو ، تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو اور تم اللہ پر (صحیح معنوں میں) ایمان رکھتے ہو" (آل عمران:110)۔ یوں خلافت ایک بار پھر لوٹ آئے گی، اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشے گی، کفر اور اہل کفر کو ذلیل کر دے گی، دنیا کے ہر گوشے میں خیر کا چرچا ہو گا، یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ہمارے بارے میں کہے کہ "یہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں" یا کوئی کہے کہ ان کو "ان کے دین نے مغرور کردیا ہے"یا کوئی شخص یہ کہے کہ "یہ لوگ اس دنیا میں ہی نہیں رہتے جس پر امریکہ اور مغرب کا راج ہے"کوئی چوتھا شخص ممکن ہے یہ کہے کہ "خلافت تھی ختم ہو گئی مگر پھر کبھی نہیں آئے گی"۔ ۔ ۔
لیکن ہم عین اسی وقت میں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:: ﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرمالیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے اور یقینا ان کے لیے ان کےاس دین کو (اقتدار کے ذریعے)مضبوط کردے گا جس کو ان کےلیے پسند فرما چکا ہے، پھر یقینا ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا جس کے بعد وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں بنا ئیں گے اس کے بعد بھی کوئی ناشکری کرے تو وہی لوگ ہی فاسق ہیں" (النور:55)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس کو احمد ابو داؤد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا تو اس کو اٹھا لے گا، اس کے بعد نبوت ہی کے طرز پر خلافت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا ، پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد خاندانی حکومت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد جابرانہ حکومت ہو گی اور اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہو گی"۔
کوئی بھی عقلمند صاحب بصارت اور بصیرت شخص سمجھے گا کہ ان کا یہ کہنا غلط اور باطل ہے۔ عقل والوں کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں جبکہ اللہ سبحانہ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان حق ہے
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُون) "حق کے بعد گمراہی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے پھر یہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں" (یونس:32)۔
ہم صورت حال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور ممکن حد تک فریقین سے رابطہ کر رہے ہیں ممکن ہے اللہ اس کے بعد کوئی بہتری لائے ﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ﴾ "بے شک اللہ متقیوں اور احسان کرنے والوں کےساتھ ہے" (النحل:128) ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ "اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین میں ستائے گئے لوگوں پر احسان کریں اور ان کو دنیا کا امام اور وارث بنائیں" (القصاص:5)
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے" (یوسف:21)

Read more...

سوال و جواب: چین کی حالیہ اقتصادی اصلاحات

سوال:

چین کے صدر شی جین پنگ نے بروز بدھ 13/11/2013 کو کہا کہ "چین اقتصادی مسائل کو حل کر نے کے لیے اصلاحات میں آگے بڑھتا رہے گا لیکن ان اصلاحات کے لیے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان کو راتوں رات حاصل نہیں کیا جاسکتا "چینی ٹی وی نے شی سے ان کا یہ قول نقل کیا کہ "اصلاحات ہی چین کے موجودہ مسائل کا حل ہیں۔۔۔"، یہ بیانات چینی قیادت کی جانب سے ہفتہ 09/11/2013 کو منعقد کیے جانے والے اجلاس جو کہ چار دن جاری رہا کے اختتام پر سامنے آئے، یہ اجلاس 6 نومبر 2013 کو چینی کمیونسٹ پارٹی جو کہ چین میں حکمران پارٹی ہےکے ایک مرکز میں ہو نے والے سات دھماکوں کے بعد اور چین کے دار الحکومت بیجنگ کے دل تیانا مین کے شارع عام میں ایک چوراہے پر ایک گاڑی کے راہ گیروں کو کچلنے کے بعد اس میں آگ بھڑکنے کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد پیش آیا، سوال یہ ہے کہ:ہم سنتے آرہے ہیں کہ چین کی معیشت بلندیوں کو چھو رہی ہے پھر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے چینی قیادت کے اجلاس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان دھماکوں اور اقتصادی امور کو زیر بحث لانے کے لیےچینی عہدہ داروں کے اجلاس کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب:
1 ۔ جی ہاں ان کے درمیان تعلق ہے اگر چہ چین نے حسب عادت یہ کہنے میں جلد بازی کی کہ :"حکومت نے ان لوگوں کومورد الزام ٹھہرایا جن کو وہ اسلامی شدت پسندوں کہتی ہے "۔ یہ بیان معیشت کی اس بگڑتی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے چینی عوام کو لینے کے دینے پڑرہے ہیں، خاص طور پر مضافات اور وسطی علاقوں میں لوگوں کو بھوک اور افلاس کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے معاشی مسائل کی طرف ریاست کی توجہ مبذول کروانے کے لیے پر تشدد احتجاج پر اتر آئے ہیں۔
2 ۔ یہ واقعات اس سیاسی تحریک کا حصہ ہیں جو اندر ہی اندر چل رہی ہے اور جو اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ چین کو داخلی طور پر گہرے مسائل کا سامنا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ چین 2005ء میں 87000 معاشرتی بے چینی کے واقعات کا سامنا کر چکا ہے جن میں عوامی نارضگی، مظاہرے اورداخلی تنازعات شامل ہیں، جبکہ سال 2010ء میں چین میں 180000 احتجاجات، مظاہرے اور معاشرتی بے چینی کے واقعات رونما ہوئے، یعنی بے چینی بڑھ رہی ہے۔۔۔
3 ۔ چین میں آزاد تجارتی علاقے Free Economic Zones جو کہ چین میں تیز ترین پیداوار کے بنیادی عنصرتھے سب کے سب چین کے مشرقی ساحل پر قائم کیے گئے، جہاں جو بھی پیداوار ہوتی ہے اس کوبحری جہازوں میں لاد کر دنیا کوبر آمد کیا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ساحلی علاقے عالمی معیشت سے مربوط ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے چین میں انتہائی تیز پیداوار دیکھنے میں آئی، اسی پیداوار کی بدولت نو دولتیوں کا ایک نیاطبقہ تیار ہوا، جس کی قیمت چین کے دوسرے تمام لوگوں کو ادا کرنی پڑی، چین کا بیشتر حصہ اب بھی بڑی حد تک زرعی ہے، جس کا انفراسٹرکچر پسماندہ قسم کا ہے اور ان علاقوں میں لوگ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں، دولت کی تقسیم کےایک عالمی جائزےکے مطابق جس کا اہتمام Boston Consulting Group نے2008ء میں کیا تھا چین کے باشندوں کا 0.2٪ چین کی 70٪ دولت پر قابض ہیں، دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ جسمانی تشدد، قید وبند، ظالمانہ لیبر قوانین اور غیر معقول اجرتیں اور چینی حکومت کی اپنے شہریوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی کی بدولت صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔
4 ۔ چینی اقتصادی ماڈل جو کم اجرتوں اور بے تحاشا بر آمدات پر بھروسہ کرتا ہے اب ناکام ہو گیا ہے، 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے اس کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیاہے، بہت سے ماہرین کی رائے میں چین کی معیشت دباؤ کا شکار ہے، نوبل انعام پانے والے ماہر معاشیات Paul Krugman نے کہا کہ "اب اشارے واضح ہیں: چین بڑی تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے، ہم کچھ عارضی مسائل کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ بات انتہائی بنیادی ہے، ملک میں تجارتی عمل کا مکمل طریقہ کار اور وہ اقتصادی نظام جس نے تین دہائیوں تک تیز پیداوار حاصل کرنے میں مدد دی اب اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ چینی ماڈل دیوار چین سے ٹکرانے والا ہے، اب صرف یہ سوال باقی ہے کہ یہ بربادی کس قدر تباہ کن ہو سکتی ہے" (دیوار چین سے ٹکرانا Paul Krugman نیو یارک ٹائمز 18 جولائی 2013)، Stratfor نے کہا: "چینی معیشت میں حالیہ بڑی تبدیلیاں جن کی توقع Stratfor کئی سال سے کر رہا تھا اور اس پر تبصرےبھی کیا کرتا تھا اب زیادہ ترمیڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں کئی لوگ پوچھتے تھے کہ ہمارےخیال میں چین کب تک معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، ہم جواب میں کہتے تھے کہ کچھ عرصے سے چین بحران کی زد میں آچکا ہے، لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جس کا چین سے باہر زیادہ چرچا نہیں، خصوصاًہمارے ہاں امریکہ میں، یہ بھی ممکن ہے کہ اعتراف کرنے سے پہلے ہی بحران پیدا ہو کیونکہ بحران کا اعتراف اس کے خطرناک موڑپر جاکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہو تا ہے جب بہت سے دوسرےلوگ بحران کے ردعمل کے طور پر اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کردیتے ہیں، ہم جو سوال پوچھتے تھے وہ یہ تھا کہ آخر کب چینی معاشی بحران ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھارے گا، جس سے دنیا کی صورتحال تبدیل ہو جائے گی" (The End of the Chinese Miracle Stratfor 23 July 2013)
5 ۔ چین نے گزشتہ دس سالوں کے دوران اقتصادی ترقی میں اس سرمایہ دارانہ منہج پر چلنا شروع کردیا جو یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں کا دارومدار تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے پیداوار کو بڑھانے پر ہے، اگر پیداوار زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت مضبوط اور ترقی یافتہ ہے خواہ دولت سب کی سب چندہاتھوں میں ہی کیوں نہ ہو اور باقی لوگ تنگدستی کا شکار ہوں۔۔۔یعنی توجہ پیداوار کی زیادتی پر ہے اس کی منصفانہ تقسیم پر نہیں، اگر چین نے اشتراکیت اور سرما یہ داریت کے ملغوبے پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو سویت یونین کے ساتھ ہو ا جب اس نے اشتراکیت اور سرمایہ داریت کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی تو اس کی حالت اس کوّے کی طرح ہو گئی جوہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گیا ! چین میں بھی ایسا ہو نے کا خطرہ ہے۔۔۔ہاں اگر چین خطرے کو بھانپ کر اس کا علاج ڈھونڈ لے تو الگ بات ہے۔
6 ۔ چین اس بحران سے اس صورت میں ہی نجات حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اس ملے جلے معاشی ماڈل اوربے تحاشہ بر آمدات پر توجہ مرکوزکرنے کی بجائے پہلےمقامی طلب پر توجہ دے اور اپنی عوام کی ضروریات پوری کرے، ورنہ1.3 بلین میں سے 948 ملین لوگ اسی طرح 5 ڈالر سے بھی کم یومیہ آمدن پرزندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے اور دولت بدستور ایک چھوٹے سے ٹولے کے پاس ہی رہے گی جو مزدوروں کا استحصال کرتارہے گا، یوں آبادی کی اکثریت کی ضروریات کو پوری کرنا ناممکن ہو گا، کچھ لوگ ہی پیداوار پر کنٹرول رکھیں گے اور اس کو بر آمد کرتے رہیں گے اور اکثریت کی غربت میں اضافہ ان کو احتجاج اور انتشار پر اکسائے گی۔۔۔ Zhou Xiaozheng جو کہ چین کی رنمین یونیورسٹی میں قانون اور معاشرتی علوم کے پروفیسر ہیں چین کی حقیقی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ مت بھولےپ کہ چین کی موجودہ کامیابی اس بات کی مرہون منت ہے کہ 300 ملین افراد کی جانب سے ایک بلین سستے مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے، عدالتی نظام غیر منصفانہ ہے، دولت کی بے ڈھنگ تقسیم نے چیلنجز کو اور بڑا کر دیا ہے"۔
7 ۔ چین کو چاہیے کہ وہ مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر احتجاج اور اضطراب کو "اسلامی شدت پسندی" کے کھاتے میں نہ ڈالے، بلکہ اپنی ملی جلی معیشت کے بحران کی وجوہات کو جاننے پر توجہ دے جو صرف پیداوار کو زیادہ کرنے اور بر آمدات کو بڑھانے پر قائم ہے اور جس کے نتیجے میں پیداوار تو زیادہ ہوتی ہے لیکن بری تقسیم اور بری ہو جاتی ہےاور غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں احتجاج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔ہم چین کو انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے اس اقتصادی پالیسی "اشتراکی سرمایہ داریت" کو جاری رکھا تو وہ بھی سوویت یونین والے انجام سے دوچار ہو گا اور یوں وہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔۔۔
ہم چین سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ اسلام نافذ کرو تو خوشحال ہو جاؤ گے۔۔۔یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس کو نافذ کرنے کے لیے پہلے اسلامی عقیدے کو اپنانا پڑے گا جو کہ ابھی ان کے پاس نہیں ہے ۔۔۔لیکن ہم ان سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم کےبجائے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے صرف پیداوار کو بڑھانے کی تگ ودو مت کرو، ورنہ معاشی بد حالی اور فکری خستہ حالی کے سبب احتجاج میں اضافے کا خطرہ ہے نہ کہ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کی وجہ سے جیسا کہ مغرب واویلا کر تا رہتا ہے۔۔۔اسلامی انتہا پسندی کی بات کر نا سیاسی الزامات کا ایک باب ہے، یہ اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے کہ خود چین نے آتش و آہن کے ذریعے مشرقی ترکستان (سنکیانگ) پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، لیکن ان تمام دھوکے بازیوں، مکروفریب اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں سے مسلمان کبھی یہ نہیں بھولیں گے کہ چین نے ترکستان پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، بلکہ یہ اللہ کے اذن سے جلد یابہ دیر امت مسلمہ سے ہم آغوش ہو گا، ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِين﴾ " کچھ عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Read more...

امریکی سیکریٹری دفاع چَک ہیگل کا دورہ پاکستان کافر حربی (دشمن) ریاست سے دوستانہ تعلقات رکھنا ممنوع ہے

آج امریکی سیکریٹری دفاع چَک ہیگل پاکستان کے ایک روزہ دورے پر اسلام آباد آیا ہے۔ اس دورے میں اس کی پاکستان کے وزیر اعظم، آرمی چیف، جوائنٹ چیفس آف سٹاف، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ افواج پاکستان کی قیادت میں تبدیلی کے بعد کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔
حزب التحریر امریکی سیکریٹری دفاع کے دورہ پاکستان کی پرزور مذمت کرتی ہے اور انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کرتی ہے کہ دشمن کے سیکریٹری دفاع سے ملاقات کر کے سیاسی و فوجی قیادت اسلامی شریعت سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے جس کے تحت ایک ایسی کافر ریاست سے کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھے جاسکتے جو مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے، ان کی پاک دامن ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کی عفت و عصمت کو پامال کررہی ہے، قرآن کی بے حرمتی کرتی ہے اور ان کی زمینوں پر قابض ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ "جو تمھارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو تم بھی اس پر حملہ کرو جیسا کہ انھوں نے تم پر حملہ کیا " (البقرۃ:194)۔
امریکہ جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے تَر بتر ہیں، جس نے سلالہ حملے میں ہمارے فوجی جوانوں کو بے دردی سے قتل کیا، جس نے ایبٹ آباد پر حملہ کیا، جو ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کر کے مسلمانوں کو قتل اور ہماری آزادی وخودمختاری کی دھجّیاں اُڑا رہا ہے، جو ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں فوجی و شہری مقامات کو نشانہ بنا کر فتنے کی جنگ کو جاری و ساری رکھنا چاہتا ہے، اس دشمن ملک کے سیکریٹری دفاع کے ساتھ ملاقاتیں کر کے سیاسی وفوجی قیادت اپنے اس عہد سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے جس کے تحت اس سرزمین کے لوگوں کی جان و مال اور اس سرزمین کی حفاظت کرنا ان پر فرض ہے۔
حزب التحریر امت اور افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت کے اس عمل کی پُر زور مذمت کریں اور اللہ کے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں سے دوستی اور تعلقات رکھنے کے خلاف اللہ کے واضح حکم کی خلاف ورزی پر ان کا سخت محاسبہ بھی کریں۔
انشاء اللہ ، امت اور افواج پاکستان کے مخلص افسران اور جوانوں کی مدد سے خلافت کے قیام کے بعد، خلیفہ امریکہ اور اس جیسے دشمن کافر ممالک سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر دے گا۔ خلافت امریکی سفارت خانے، قونصل خانوں، اڈوں اور امریکی انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر کو بند اور امریکی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی اور افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ قوت کو استعمال کر کے خطے کو امریکی نجاست سے پاک کردے گی جو اس خطے میں بدامنی، عدم استحکام، معاشی استحصال اور خون خرابے کی بنیادی وجہ ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ

Read more...

امریکی راج کے خاتمے کے لیے حزب التحریر ولایہ پاکستان کے ملک بھر میں مظاہرے امریکی راج ختم کرو ، ایمبیسی اڈے بند کرو

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں خطے سے امریکی راج کے خاتمے کے مطالبے کے حق میں مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "دھماکے، بدامنی، عدم استحکام۔۔۔وجہ ہے امریکہ اور غدار حکمران۔۔۔۔واحد حل خلافت کا قیام"، "امریکی راج ختم کرو، ایمبیسی اڈے بند کرو"۔ مظاہرین نے ملک میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرو نفوذ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ ملک میں جاری فتنے کی اس جنگ سے نکلا جائے جسے امریکہ نے بھڑکایا ہے اور ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب آپ امریکی سفارت خانہ، قونصل خانوں، اڈوں اور ان کے انٹیلی جنس دفاتر کو بند اور امریکی سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کریں۔
مظاہرین نے افواج پاکستان کے افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کریں کہ وہ اس سرزمین اور اس کے باشندوں کی حفاظت کریں گے ۔ انھوں نے مخلص افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس سرزمین پر امریکی راج کو مسلط کرنے والے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں کیونکہ خلافت کا قیام ایک انتہائی اہم اسلامی فریضہ ہے اور صرف خلافت کا قیام ہی ملک پر نافذ کفریہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی اثرو نفوذ کا خاتمہ کرے گا۔
مظاہرے میں شریک لوگوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام تک اپنی پرامن سیاسی و فکری جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف کا سامنا صبر و استقامت کے ساتھ کریں گے۔

Read more...

تفسیر سورہ البقرہ آیات 97 تا 100

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
مَن كَانَ عَدُوًّا لّلَّهِ وَمَلـئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَـلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ
وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ إِلاَّ الْفَـسِقُونَ
أَوَكُلَّمَا عَـهَدُواْ عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ

"کہہ دیجئے(اے محمدﷺ) کہ جو جبریل سے دشمنی رکھے جس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ کے قلب پر نازل کیا جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور مؤمنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تو جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اورجبریل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو اللہ بھی ایسے کافروں سے دشمنی رکھتا ہے۔بے شک ہم نے بہت ہی واضح نشانیاں تمہاری طرف بھیجی ہیں،جن کو فاسقوں کے علاوہ کوئی نہیں جھٹلاتا۔ کیا یہ بات نہیں کہ جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا ان میں سے ایک فریق نے عہد شکنی کی بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں "۔
ان آیات میں اللہ تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ :
1۔ یہود نے اس فرشتے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا جو آپ ﷺ کے پاس آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جبریل علیہ السلام۔ یہودیوں نے کہا کہ: یہ تو ہمارا دشمن ہے یہ تو انبیاء کے پاس کتاب لے کر نہیں آتا بلکہ یہ عذاب لے کر آتا ہے، اگر تمہارے پاس آنے والا میکائیل ہوتا تو ہم تم پر ایمان لاتے۔ اس پر اللہ نے یہ آیتیں نازل کیں جن میں اپنے رسول ﷺ سے فرمایا کہ جو شخص جبریل کا دشمن ہے اس سے کہو کہ جبریل ہی نے یہ قرآن میرے دل میں اتار دیا ہے ۔ یہ قرآن پہلے نازل کی گئی تمام کتابوں (توراۃ اور انجیل)کی تصدیق کرتا ہے اور یہی مؤمنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔لہٰذا تمھارا یہ کہنا غلط ہے کہ جبریل عذاب لے کر آتے ہیں۔
قرآن کو ھُدَی (ہدایت) اس لیے کہا گیا کہ مؤمن اس سے ہدایت لیتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے اور اس کو قائد بنا کر اس کے اوامر اور نواہی کے مطابق چلتا ہے۔ 'ہادی' ہر چیز کے آگے کے حصے کو کہتے ہیں جس کے پیچھے باقی چلتے ہیں اسی لیے گھوڑوں میں سے آگے والوں کو 'ہوادی' کہا جاتا ہے۔
قرآن کو بُشرَی (خوشخبری) کہا گیا ہے کیونکہ یہ مؤمنوں کو اس جنت کی خوشخبری دیتا ہے جو قیامت کے دن ان کے واسطے تیار کی گئی ہے۔
بَینَ یَدَیہِ سے مراد اس کے سامنے یا آگے اور اس کا مطلب اس سے پہلے نازل کی گئی کتابیں ہیں۔
فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ یہ شرط کا جواب ہے کہ جو بھی اس کا دشمن ہو ۔۔۔اس سے کہہ دو کہ اسی نے اس قرآن کو اتارا ہے۔۔۔
2 ۔ اس کے بعد اللہ نے یہودیوں کو یہ بتا دیا کہ میکائیل اور جبریل دونوں فرشتے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی سے بھی دشمنی رکھی تو اس نے تمام فرشتوں سے دشمنی مول لی۔ جو اللہ ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں سے دشمنی مول لے تو اللہ بھی کافروں کو دشمن قرار دیتا ہے۔ اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کا دشمن ہے تو وہ کافروں میں سے ہے، فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ "یقیناً اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے "۔
اللہ نے ملائکہ کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر کیا جو عام کے ذکر کے بعد خاص کے ذکر کی اقسام میں سے ہے۔
3 ۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنے رسول ﷺ پر ایسی واضح اور قطعی آیات نازل فرمائیں جو اس کی سچائی کی روشن دلیل ہیں جن کو سوائے اس شخص کے کوئی نہیں جھٹلا سکتا جو اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرے ،اس کے شرع کو نظر انداز کرے اور اس کی حدود کو پامال کرے۔
4 ۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی یہودیوں کی عہد شکنی کی عادت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی عہد کرتے ہیں اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اس میں اوکُلمَا کا لفظ استعمال کیا جو ظرف ہے اور شرط اور اس کے جواب کو دہرانے کا فائدہ دیتا ہے،یعنی جب بھی وہ کوئی وعدہ کرتے ہیں لامحالہ بدعہدی کرتے ہیں۔
نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ کامطلب یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ضرور عہد شکنی کرتا ہے۔
بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ "بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عہد توڑنے والا فریق ہی اکثریت ہے اقلیت نہیں جیسا کہ لفظ فریق سے گمان ہو سکتا ہے۔

Read more...

وضاحتی خط حزب التحریر اور رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کو بدنام کرنے کی کوشش

جیو انتظامیہ کے نام،
اسلام علیکم،
18دسمبر 2013کو آپ کے چینل پر کامران خان کی جانب سے حزب التحریر پر ایک انتہائی خوفناک الزام لگایا گیا کہ حزب التحریر نے اپنے ترجمان کے ذریعے افواج پاکستان پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ برائے مہربانی اس بات کو جان لیں کہ اسی دن دوسرے تمام ٹی وی چینلز نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا کہ اس مجرمانہ حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم نے قبول کی ہے اور دوسرے دن کے اخبارات نے بھی اسی غیر معروف تنظیم کی اس حملے کی ذمہ داری کو قبول کرنے کی خبر کو شائع کیا۔
یہ خوفناک الزام کئی حوالوں سے بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔
1۔ یہ الزام آپ کے چینل کی ساکھ کے لیے بدنامی کا باعث ہےجو مسلمانوں کے لیے حالت حاضرہ سے آگاہی کا ایک معتبر ذریعہ ہے۔ معاشرہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کا مقصد خلافت کے قیام کے ذریعےاسلامی طرز زندگی کا احیاء ہے۔ بلکہ یہ بات اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ایک دوسرے چینل نے بھی اسی قسم کا الزام نشر کیا تھا لیکن چند ہی منٹوں میں اس الزام کو واپس بھی لے لیا کیونکہ اس قسم کے جھوٹےالزام کو دہرانے سے اس کو نشر کرنے والے ہی کی بدنامی ہونی تھی۔ آپ کی جانب سے اس الزام کو نشر ہوئے پورے چار دن گزر چکے ہیں لیکن آپ کے ادارے نے اپنی ساکھ پر لگے اس کالے دھبے کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ یقین رکھیں اس قسم کے جھوٹے الزام حزب التحریر کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ، الحمد اللہ ، لیکن آپ کی ساکھ اس سے ضرور خراب ہوئی ہے۔
2۔ یہ گھٹیا الزام آپ کی اس ذمہ داری پر بھی ایک حملہ ہے جس کے تحت آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ عوام کو ملک کو درپیش حقیقی خطرے سے آگاہ کریں جو دراصل ملک میں امریکہ کی وسیع پیمانے پر موجودگی ہے۔ امریکہ نے ہمارے ملک کے خلاف صرف ایک حملہ ہی نہیں کیا بلکہ بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی ایک پوری مہم شروع کررکھی ہے تا کہ فتنے کی آگ کو بھڑکایا جائے اور اس کو بنیاد بنا کر ہماری افواج کو کم شدت کی تنازعات میں ملوث رکھا جائے جس نے ہمارے ملک کو انسانی خون میں نہلا دیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکہ اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے ویسے ہی خونی اور شیطانی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے جیسا کہ وہ دنیا کے دوسرے حصوں ، وسطی امریکہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیاء تک میں، کئی دہائیوں سےکررہا ہے ۔ کیا آپ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آپ اپنی نشریات میں لوگوں کو اس اصل اور انتہائی خوفناک خطرے سے آگاہ کریں بجائے اس کے کہ آپ کے چینل سے حزب التحریر کے خلاف اس قسم کے سفیدجھوٹ نشر کیے جائیں؟
3۔ یہ الزام رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر بھی ایک بہتان ہے جس کو حزب التحریر نے اپنے قیام کے سال 1953 سے ، چالیس سے زائد ممالک میں اختیار کررکھا ہے اور حزب اس طریقہ کار کا کُھل کر اور واضح اظہار کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار میں جابر حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا، اس مقدس دین کے فہم سے آگاہی کے لیے عوام الناس کی تربیت کرنا اور طاقت کے حامل لوگوں (افواج)سے قوت (نصرۃ) طلب کرنا شامل ہے۔ حزب التحریر کا رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار پر چلنا اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکومت کے چمچوں نے ہمیشہ حزب التحریر کی جانب سے افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ یہ انتباہ حکومتی چمچوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب حزب التحریر ولایہ پاکستان نے جنرل راحیل شریف کے نام ایک کھلا خط جاری کیا جس میں انھیں ان کی اس شرعی ذمہ داری سے آگاہ کیا ہے۔ تو کیا لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے اور کیا راحیل -نواز حکومت کا ایسا کوئی بھی ڈرامہ لوگوں کو اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کردے گا کہ حزب التحریر اسی فوج کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے جس سے اسلام نے نصرۃ طلب کرنے کو لازمی قرار دیا ہے؟ اور قیامت کے دن رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار کو اس طرح بدنام کر کے ہم اللہ کے سامنے کس منہ سے کھڑے ہو سکیں گے؟
لہٰذا حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کریں تا کہ جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں اور آپ کو آپ کی ساکھ واپس مل جائے۔ ہم یہ چاہیں گے کہ آپ ہمارے بیان کو اپنے ٹی وی چینل پر نشر اور اخبارات میں شائع کریں اور اللہ سبحانہ و تعالٰی سے عظیم اجر حاصل کریں ۔ یقیناً آپ کا ایسا کرنا مستقبل قریب میں ہماری جانب سے اپنے حق کے دفاع کے لیے کسی بھی فوری قانونی چارہ جوئی کی ضرورت کو ہی ختم کردے گا۔
والسلام
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان مںب حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک