الخميس، 25 ذو القعدة 1446| 2025/05/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مذاکرات کے ذریعے امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے

پریس بریفنگ

پاکستان کے میڈیا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے اس مسئلہ پر مندرجہ ذیل پریس بریفینگ جاری کی ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما کی ہلاکت کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟ آخر امریکہ کیوں "معتدل" طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟
میڈیا آفس ان سوالات کے جوابات کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کو پیش کررہا ہے:
1۔ جہاں تک طالبان سے عمومی طور پر مذاکرات کی بات ہے تو امریکہ افغانستان سے اپنے محدود انخلاء کے منصوبے کی آڑ میں افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو مذاکرات کے ذریعے ایک قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ اسی منصوبے کا حصہ اسلام آباد میں دنیا کے دوسرے بڑے امریکی سفارت خانے کی تعمیر، افغانستان میں نو(9) امریکی اڈوں کا حصول اور ایک لاکھ سے زائد نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کو افغانستان اور پاکستان میں تعینات کرنا بھی شامل ہے۔ افغانستان میں موجود طالبان ، جن کی بڑی تعداد پشتون ہے، اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں ۔ ان کی حمائت کے بغیر کوئی بھی معاہدہ بے معنی ہوگا کیونکہ افغانستان کی تاریخ میں پشتون ہی سب سے اہم اور بااثرگروہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کا تعلق ہے ، امریکہ کو اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے ان کی حمائت بھی درکار ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کے افغانستان کے پشتونوں سے گہرے اور مضبوط روابط ہیں ۔ پاک و افغان سرحد ڈیورنڈ لائن، جوکہ برطانوی استعمارنے قائم کی تھی، کے دونوں جانب رہنے والےپشتونوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والوں کے لیے فراہم ہونے والی معاونت کو ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افواج پاکستان قبائلی علاقوں میں مصروف رہیں اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کا خاتمہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی ساکھ کو جس قدر ممکن ہو پشتونوں کی نظر میں خراب کردے۔ یقیناً امریکہ یہ امید کرتا ہے کہ اگر وہ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کمزور اور اس کی ساکھ کو خراب کردے تواس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ عام پشتون حکومت اور "معتدل" طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمائت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افغانستان اورپاکستان کےقبائلی علاقوںمیں لڑنے والے طالبان کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں جن میں آسانی سے اپنے ایجنٹ داخل کیے جاسکتے ہیں اور ان گروہوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ان گروہوں کو "معتدل" اور "سخت گیر" طالبان کے نام دیتا ہے۔
2۔ یقیناً امریکہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہے کہ مسلمان اس کی مستقل موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ طالبان، علماء دیوبند، پشتونوں، عمومی طور پر مسلمانوں اور خصوصاً افواج میں بھی پایا جاتا ہے۔ پہلے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ کیانی و زرداری حکومت اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی حمائت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ نظر آتا ہے کہ اس صورتحال نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اس نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لائے جسے اس نے اپنے ایجنٹ مشرف کے ذریعے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کی مزاحمت کرنے والےاسلامی دائیں بازو کی جماعتوں اور قوم پرستوں کے سخت موقف میں نرمی لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔نواز شریف اور اس کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی معاشرے کے قدامت پسند طبقے میں جڑیں موجود ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے، امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ "ڈرون حملوں کے خاتمے" اور "انخلاء کے لیے امن مذاکرات" کو اہم مسائل کے طور پر اجاگر کرے۔ امریکہ مخالف موقف اپنانے سے،امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ نواز شریف امریکہ سے اپنے اتحاد کو چھپا سکتا ہے اور امریکہ کے مفادات کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کیے بغیر حاصل کرسکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ ماضی میں مسلم دنیا میں دوسرے ایجنٹ بھی یہ کام اسی طرح کرچکے ہیں کہ انھوں نے خوب امریکہ مخالف نعرے بازی کی جبکہ ہر ممکن طریقے سے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام بھی کرتے رہے۔
3۔ یہ امریکی منصوبے کا حصہ ہے کہ اس کے ایجنٹ اس کے خلاف بیان بازی کریں تا کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو سکے ،لہٰذا امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اس بات کو عام کریں کہ امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے۔ تو اس طرح ایسا نظر آئے گا کہ جیسے امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے اور امریکی مخالفت میں مسلمان ان مذاکرات کی حمائت کرنا شروع کردیں گے ۔ یہ ایک "ڈبل گیم" ہے جس کے تحت مسلمان یہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے کہ ایسا کر کے وہ امریکی منصوبے کو ناکام کررہے ہیں کیونکہ بظاہر امریکہ تو ان مذاکرات کی مخالفت کررہاہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا ہے کہ مذاکرات امریکہ کے خلاف کامیابی کی نشانی ہےجبکہ امریکہ کو ان مذاکرات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک طویل اور مہنگی جنگ کے بعدجو کچھ ممکن ہے اپنے لیےحاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان میں امریکی ایجنٹ اس امریکی "ڈبل گیم" کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب نواز شریف تازہ ترین ہدایت لے کر امریکہ سے واپس آیاتو امریکہ نے پاکستان میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو قتل کردیا۔ ایجنٹوں نے بہت شور مچایا کہ مذاکرات کا عمل خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔ یکم نومبر 2013 کو انگریزی اخبار ڈان نے خبر شائع کی کہ "ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ان کا نشانہ ملک میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژکرنا ہے۔ کل(ہفتےکے دن) ایک وفد طالبان سے بات چیت کے لیے روانہ ہونے والا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ بیان اس وقت دیا جبکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی تھی کہ مارے جانے والا عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ ہے"۔ پھر 2 نومبر 2013 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "جمعہ کو ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان سربراہ کی ہلاکت کو خطے کے امن پر امریکی حملہ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتے کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی"۔ اور 2 نومبر 2013 کو ہی ڈان اخبار نے یہ خبر شائع بھی شائع کی کہ "وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت محسود کی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے منصوبے کوآگے لے جانا چاہتی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ اس بار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون نے امن مذاکرات پر حملہ کیا ہے لیکن ہم امن مذاکرات کے عمل کو ختم نہیں ہونے دیں گے"۔ جہاں تک افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ایکپریس ٹربیون نے AFPکے حوالے سے 4نومبر 2013 کو یہ خبر شائع کی کہ "افغان صدر حامد کرزئی نے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی غلط وقت پر امریکہ کے ہاتھوں قتل کیے جانے پر نکتہ چینی کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ واقعہ علاقائی امن کی کوششوں کو ناکام کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ کرزئی نے افغانستان کے دورے پر آئے امریکی کانگریس کے وفد سے کہا کہ ڈرون حملہ صحیح وقت پر نہیں کیا گیا لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا"۔
4۔ یہ اسی "ڈبل گیم" کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایجنٹ ڈرون حملے کی مذمت کرنے کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی اصرار کررہے ہیں۔ 3نومبر2013کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جس ڈرون حملے میں محسود مارا گیا اور اس سے ایک روز قبل ہونے والے ڈرون حملے پر احتجاج کرنے کے لیے اس نے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کوطلب کیا۔ وزارت سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ڈرون حملے کے باوجود حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا قطعی ارادہ رکھتی ہے"۔ اور 3نومبر2013 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ "جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے ہفتے کو حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کے قتل کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ مولانا نے کہا کہ حکیم اللہ کی موت نے ملک میں ایک جذباتی فضاء قائم کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربراہ کے قتل کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کچھ دنوں کے لیے تاخیر کا شکار ہوجائےگا لیکن امن اور مفاہمت کے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہ دی جائے"۔

5۔ امریکہ ایک طرف بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ مذاکرات کا مخالف ہے جبکہ درحقیقت سرحد کے دونوں جانب "معتدل" طالبان کے ساتھ بات چیت اس کی اس وقت شدید ضرورت ہے تا کہ وہ خطے میں اپنے موجودگی کو جاری رکھ سکے اور یہ مفاد امریکہ اپنے بزدل فوجیوں اور دم توڑتی معیشت کے بل بوتے پر میدانِ جنگ میں حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب امریکہ مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ "سخت گیر" طالبان صرف امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس کوشش کا مقصد مزاحمت کی ساکھ کو مسلمانوں کی نظر میں خراب کرنا اور مذاکرات کے لیے فضاء پیدا کرنا ہے اور یہ کہ امریکی قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کی رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے پاکستان میں قتل و غارت گری اور بم دھماکوں کی مہم چلائی جبکہ اس کے ایجنٹ ہر بم دھماکے اور قتل کے بعد یہ چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ "دیکھو، بہرحال اب یہ جنگ ہماری بھی ہے"۔ دنیا بھر میں اس قسم کی مجرمانہ اور تباہ کن مہم چلانے کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔یہ حملے False flag attacksکہلاتے ہیں جس میں خود ہی حملہ کیا جاتا ہے اور اس کا الزام اپنے مخالف پر ڈال دیا جاتا ہے تا کہ اپنی فوجوں کو اپنے مخالفین کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ ایسے حملے کروانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے براہ راست یا مزاحمتی گروہوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرکےاور پاکستانی ایجنسیوں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے حملے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں، افواج اور لوگوں کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اور امریکی قونصل خانے حملے اور تباہی سے محفوظ رہیں۔ لہٰذا اِن پُر تشدد واقعات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ایک نیا تصور پیش کیا ہے کہ افواج پاکستان کا قبائلی علاقوں میں رہنے کا مقصدپاکستان کو اندرونی خطرے سے محفوظ رکھنا ہے۔اس نئے تصور کواس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ان پشتون مسلمانوں کے خلاف کیے جاتے ہیں جو سرحد عبور کر کے افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے اپنی جنگ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یکم دسمبر 2009 کواوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد اُنکی جنگ نہیں ...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے ... تو یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کے تین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کےلوگ جتنا زیادہ ان کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔
یہ خوفناک اور بہیمانہ تشدد جاری رہے گا تا کہ امریکی ایجنٹ افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں رکھنے کا جواز پیش کرسکیں۔ یقیناً امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کے عوام امریکی جنگ، امریکہ کی موجودگی اور اس کے انخلاء کے منصوبے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی مخالف ہے۔ تو امریکہ اپنی یہ کوشش جاری رکھے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی موجودگی کے لیے ایک جواز مہیا ہوسکے اورپاکستان کے عوام کو کسی حد تک مطمئن کیا جاسکے۔لہٰذا اس کے منصوبے کے ایک حصے کے تحت امریکہ افغانستان کےمسلمانوں سے جنگ کررہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی انخلاء اور افغان آرمی کو معاملات سپرد کرنے کی بات بھی کررہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ پاکستان کی افواج، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف رہیں۔ اس طرح امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کو انخلاء کے پردے میں برقرار رکھ سکے گا۔
6۔ لہٰذا امریکہ ، پاکستان اور افغانستان دونوں ہی جگہ حقیقی امن کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ خطے میں فوجی آپریشنز میں اس کی شمولیت کم سے کم ہو کیونکہ اس کی افواج کی ساکھ اور معیشت اگرچہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی مگر انتہائی خستہ حال ضرور ہوچکی ہے۔لیکن وہ اپنے سٹریٹیجک مفادات کے حصول کے لیے خطے میں اپنی افواج کی ایک اچھی تعداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اب تک کی تمام تر کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔ امریکہ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول اور اپنی موجودگی کو برقرارکے لیےایک معاہدہ چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ 2014 کے بعد بھی اپنی افواج کی موجودگی کے جواز کے لیے وہ طالبان کے خطرے کو پیش کرتا رہے گا۔ درحقیقت امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سٹریٹیجک معاہدے کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکی افواج کو افغانستان میں رہنے کی اجازت دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ آزادانہ دہشت گردی خلاف فوجی آپریشنزکرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر باراک اوبامہ جہاں انخلاء کی بات کرتا ہے وہی انتہاپسندوں کے خطرے کی بھی بات کرتا ہے۔ 23 مارچ 2013 کو اوبامہ نے کہا "افغانستان میں ہم سکیورٹی کی ذمہ داری افغانیوں کے حوالے کردیں گے۔ ہماری افواج گھر واپس آجائیں گی۔ ہمارے جنگی مشن ختم ہوجائیں گے۔ اور ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر ان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت کریں گے اور اس دہشت گردی کے خلاف ایک فورس قائم کریں گے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ القائدہ کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کرسکے۔ افغانستان سے باہر دہشت گردی کے خلاف ہم عالمی جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہماری کوششیں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ ہم امریکہ کے خلاف کام کرنے والے مخصوص انتہاپسند گرہوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کریں۔ کئی معاملات میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا"۔ دہشت گردی کے خطرے کو پیش کرکے امریکہ نے اپنی موجودگی کا مستقل جواز فراہم کردیا ہے جبکہ وہ خود اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
7۔ خلاصہ:امریکہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کے بعد ہی وہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنزاور افغان آرمی کی تربیت کی آڑ میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ یہ جانتا ہے کہ افغانستان میں کوئی امن معاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان کے سرحدی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے پشتون علاقے کو اس پر راضی نہ کرلے۔ باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم علاقوں میں امریکی موجودگی کے خطرات کو سمجھیں، چاہے یہ موجودگی سفارتی شکل میں ہو یا فوجوں کی موجودگی کی شکل میں یا امریکی نجی سکیورٹی اداروں اور امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی کی شکل میں ہو۔ یہی وہ امریکی موجودگی ہے جو بم دھماکوں کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جو بات چیت کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے رخ کا تعین کرتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جس نے مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی مصیبت پیدا کی ہوئی ہے۔ اسلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس موجودگی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ مقصد نہ تو کوئی گروہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی بات چیت کے ذریعے امریکی موجودگی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صرف اور صرف ریاست اپنی افواج کو متحرک کر کے ہی امریکی موجودگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے قیام سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی بین لاقوامی معاملے کو حل نہیں کرسکا۔ اور اس کی معیشت میں شدید کمزوری اوراس کی بزدل افواج نے اب تو اس کی یہ صلاحیت مزید کم کردی ہے۔ غدار مسلم حکمران اب بھی اس کے خوف اور دبدبے کی وجہ سے ایسے ہی اطاعت کررہے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بھی جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے رہے جیسے کہ وہ اب بھی زندہ ہوں۔ اور اِنہی غداروں کی وجہ سے ہمارے علاقوں میں امریکی اثرو نفوذ اب تک باقی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن اور اس کے غلط ہونے کی وجہ سے امریکہ کی ناکامی یقینی ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکہ عَلم بردار ہے اور اسے پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی ناکامی اس کے پالیسی سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھی یقینی ہے۔ لیکن صحیح اور حقیقی رہنما جو اس دنیا کے معاملات کو انصاف اور حق کی بنا پر چلائیں گے جیسا کہ خلفائے راشدین تھے ،تو ایسا صرف جلد ہی قائم ہونے والی خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہوگا اور حزب التحریر کے شباب وہ رہنما ہوں گے۔ یہی شباب وہ ہوں گے جو امریکہ اور مغرب کو سیکھائیں گے کہ کس طرح دنیا کے معاملات کو خلافت کے زیر سایہ چلایا جاتا ہے۔ اور وہ اس خود ساختہ بین الاقوامی براداری کو اپنے اشاروں پر نچائیں گے اور وہ دن جلد ہی آنے والا ہے۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
"یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں " (ابراھیم:46)

Read more...

آخرکار اتحاد نے فورڈکے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہونے کا اعلان کردیا اگرچہ اس سےپہلے بھی وہ گٹھنےٹیکے ہوئے تھے!

الجربا کے اتحاد(coalition) نےہفتہ اتوار اور پیر 11،10،9 نومبر کوامریکی سفیر فورڈ کی سرپرستی میں استنبول میں اپنے اجلاس کا آغاز کیا، جس میں الجربا نے جنیوا-1 کی طرز پر جنیوا-2 میں جانے کا عندیہ دے دیا اور اس فیصلے کو جاری کروانے والا فورڈ ہی تھا۔یوں الجر با اور اس کے حمایتی جو آج تک جنیوا-2 میں جانے سے پہلے بشار کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے یا کم از کم اس کو برطرف کرنے کی ضمانت کا مطالبہ کررہے تھے،اپنے اس مطالبے سے بھی دستبردارہوگئے۔یوں ان دونوں مطالبات کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور کھوکھلے الفاظ میں یہ کہا گیا کہ بشار کا کوئی کردار نہیں ہو گا لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ ایسا کب سے ہو گا!اس اجلاس پر امریکہ مکمل طور پر غالب اور حاوی رہا اس حد تک کہ الجربا ،اس دباؤ کی وجہ سے ،اتحاد میں شامل عسکری نمائندے کے اعتراض کو بھی برداشت نہیں کر سکا اوراس نے بشار کے شبيحہ (اجرتی قاتل)اور دوسرے سرکشوں کے طریقے پر چلتے ہوئے اس کو تھپڑ ماردیاحالانکہ ابھی تو الجربا نے حکمرانی یا اس کا کچھ حصہ بھی نہیں دیکھا!اس کے بعد اتحاد کے بعض لوگوں نے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل شام کی داخلی قوتوں سے مشاور ت کرنے کا مطالبہ کیا تو فورڈ نے اس کو مسترد کردیا اور ان کو مشترکہ فیصلہ کرنے کا پابند بنایا،تاکہ اندرونی مشاورت فیصلے کے بعد ہو سکے،یعنی فیصلہ پہلے کیا جائے اور مشورہ بعد میں لیا جائے،تاکہ اندرونی قوتوں کا فیصلے میں کوئی عمل دخل نہ ہو کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ اندرونی قوتوں کی اکثریت آزاد اور باوقار ہے وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے سامنے سر جھکا کر رسوا نہیں ہوں گے۔
یوں محرم الحرام کی آٹھویں رات ، گیارہ نومبر کو جنیوا-2 میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا۔پھر اس شرمناک فیصلے کو بےنقاب ہونے سے بچانے کے لیے یہ کہا گیا کہ یہ فیصلہ مشروط ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک یہ ملاقات بشار اور الجربا کے وفود کے درمیان ہےتو ان شرائط کی کوئی اہمیت نہیں!یہ تاثر دینے کے لیے کہ انہوں نے جنیوا-2 سے قبل کوئی فیصلہ کر لیا ہے ، انہوں نے کل پیر کی شام 11نومبر 2013 کو اُس عبوری حکومت کا اعلان کر دیا جس کا سربراہ احمد طعمہ ہو گا ۔ لاحول ولا قوۃ ۔ یہ حکومت سراسر برائے نام ہو گی کیونکہ داخلی قوتیں اس کو مسترد کردیں گیاور یہ حکومت شام کی سرزمین پر اپنے قدم بھی نہیں جما سکے گی۔یوں یہ حکومت "وقت کو ضائع کرنے والا کھیل ہے"تا کہ جنیوا-2 میں امریکہ اپنا حل اِن پر مسلط کرسکے !
امریکہ نے اس فیصلے کی تائید میں بڑی پھرتی دکھائی اور کیری نے یہ کہتے ہوئے اس کی وضاحت کی کہ "کل شامی اپوزیشن نے ووٹنگ کے ذریعے جنیوا-2 میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا،یقینا یہ ایک بڑا قدم ہے"۔ اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی ان اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کو سراہا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا"اتحاد (coalition)نے بشار کے کردار کے حوالے سے کوئی شرط نہیں لگائی"۔اس ترجمان کے تبصرے کا معنی صاف ظاہر ہے!کئی اور ممالک نے بھی اس فیصلے کی تائید میں جلد بازی دکھائی۔
اے اہل شام، بشار اور اس کے غنڈوں اورالجربا کے اتحاداور اس کی جماعت کے سامنےڈٹ کر ثابت قدم رہنے والو:
یہ ہوٹلوں میں سر چھپا کر پھرنے والے امریکہ،یورپ،قطر،سعودیہ اور ترکی وغیرہ کےمال ودولت پر داد عیش دینے والے، یہ سب کے سب تمھارے دشمن ہیں۔ان سے ہو شیار رہو۔ان کی منزل وہ نہیں جس خیر کے لیے تم جدو جہدکر رہے ہو بلکہ وہ اس کی مخالف سمت میں جارہے ہیں۔سرکش کے سامنے تمہارا ڈٹ جانا اور تمہاری قابل دید قربانیاں،اسلام کےمسکن شام میں حق کے غلبے،اسلام کی حکمرانی اورامریکی بالادستی کے خاتمے کے لیے اور اسے ماضی کا قصہ بنا دینے کے لئے ہیں۔جبکہ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو موجودہ حکومت کی ہی ایک دوسری شکل ہو ،یعنی موجودہ ایجنٹ کی جگہ دوسرا ایجنٹ ۔ ان کی نظر میں بہائے جانے والے اس پاکیزہ خون،اور دی جانے والی ان قربانیوں،اور پامال کی جانے والی ان عزّتوں اور برپاکی جانے والی اس تباہی کی کوئی قیمت نہیں جس نے انسان اور درختوں کے ساتھ پتھروں کو بھی نہیں چھوڑا۔جی ہاں یہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے،وہ اپنے آقاؤں کے غلام کے طور پر عیّاشی کی زندگی گزار رہے ہیں،سرنگوں اور ذلیل ہو کر ،اگرچہ سانس تو لیتے ہیں ،کھاتے پیتے بھی ہیں لیکن یہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں،﴿لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾"ان کے دل ودماغ تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے دیکھتے نہیں،ان کے کان تو ہیں لیکن یہ ان کے ذریعے سنتے نہیں،یہ تو جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں"۔
یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ یہ اتحاد بصیرت سے محروم ہے لیکن اب یہ بصیرت کے ساتھ بصارت بھی کھو چکا ہے! یہ کیسے اپنے کرتوتوں پر، اللہ کے سامنے نہیں تو کم ازکم اللہ کے بندوں کے سامنے ہی سہی، شرم سار نہیں ہوتے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جنیواکانفرنس میں امریکہ اور اس کے مددگاروں کے دباؤ میں ہونے والے فیصلے میں اِن کی کوئی رائے یا کردار ہو جبکہ استنبول میں فورڈ کے سامنے سرنگوں ہونے کے نتیجے میں پہلے ہی ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے ؟
ہر صاحب بصارت وبصیرت شخص یہ سمجھتا ہے کہ جنیوا-2 میں اس اتحاد کے جانے کا مقصد بشار کو محفوظ راستہ دینا ہے اورساتھ ہی بشار کےمتبادل امریکی ایجنٹ کے لیے راہ ہموارکرنا ہے۔اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ الجربا کے اتحاد کو اپنے تمام عناصر کے باوجودشام کے اندر کوئی حمایت اور تائید حاصل نہیں ، یہ خارج از امکان نہیں کہ نئی حکومت کی حفاظت کے لئے سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے بین الاقوامی مداخلت کی بات کی جائےتاکہ بشار کے "خروج " کا کوئی مناسب طریقہ نکالا جائے!یہی جنیوا کانفرنس کا مقصد اور اس کی غایت ہےاوریہ ایک خیانت ہے جسکا ہر وہ شخص مرتکب ہوگا جو جنیوا کانفرنس میں قدم رکھے گا۔
اے اہل شام، اے صبر کرنے اور کروانے والو،سرکش کے سامنے سینہ سپر لوگو:
یہ خائن کوئی بھی فیصلہ کرلیں یہ کچھ نافذ نہیں کر سکتےجب تک تم حق پر ثابت قدم ہو۔یہ تو اس قدر بزدل ہیں کہ شام کی جہاد اور رباط کی سرزمین میں تم سے ملاقات کے لئے بھی نہیں آسکتے۔ان کوہرگز شام میں کسی قسم کی مداخلت کا موقع نہ دوورنہ تمہاری قربانیاں رائیگاں جائیں گی،تمہارا خون ضائع ہو جائے گا،بلکہ تمہارے رب کے سامنے تمہاری شکایت کرے گا۔ہم شام کے جواں مردوں کو پکارتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کرنے والوں کے سامنے کسی قسم کی نرمی اختیار نہ کریں اور نہ اپنے پائے استقلال میں کوئی لغزش آنے دیں ،﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ﴾."بے شک اللہ ایمان والوں کی مدد کرتا ہے اور اللہ کسی ناشکر ےخائن کو پسند نہیں کرتا"۔
کامیابی اب کچھ دیر صبرکرنےکی دوری پر ہے ۔امریکہ، اس کا بشار اور اس کا ااتحاد جان کنی کی حالت میں ہیں۔وہ ایسا حل تلاش کر رہے ہیں جو تمہاری ثابت قدمی اور شجاعت سےان کو بچائے۔جس حق پر کاربند ہو اس پر ثابت قدم رہو،اللہ کے حکم خلافت راشدہ کے قیام کو اپنی موت و حیات کا مسئلہ بناؤ ،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اخلاص کا ثبوت دو،اللہ کی مدد کرنے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے خلوص کے ساتھ سردھڑ کی بازی لگادواور تب اللہ القویّ العزیزتمہیں اپنی نصر اور فتح سے نوازے گا﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾"اللہ اس کی مدد ضرور کر تا ہے جو اللہ کی مدد کرتا ہے بے شک اللہ ہی طاقتور اور غالب ہے"۔

Read more...

جمہوریت:  عوام کےلئے موت ہے

پریس ریلیز

عوام کو عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کے خونخوار پنجوں سے چھڑانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوج کے مخلص افسران موجودہ حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ان مخلص اور بیدار سیاستدانوں کو منتقل کریں جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کریں گے
اپوزیشن اتحاد کی جانب سے انتخابات کے دوران غیر جانبدار عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں گزشتہ چار دنوں کے دوران سیاسی تشدد اور پولیس کی جانب سےگولی چلانے سے 20 سے 25 افراد قتل کردیے گئے ۔اس طرح 2013 میں سیاسی تشدد اور پولیس گردی کے ذریعے قتل کیے گئے افراد کی تعداد تقریبا 2800 ہوگئی ہے۔صرف یہی لوگ جمہوریت کے ہاتھوں مارے نہیں گئے بلکہ جمہوریت نے تو اپنے نفاذ کے پہلے ہی دن سے مختلف طریقوں سے بے شمار لوگوں کو قتل کیاہے۔رانا پلازہ میں اپنے پیاروں کو کھونے والوں کی چیخ وپکار کی آوازیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔جمہوریت کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام افراد کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ترتیب دی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ جمہوریت کے متعلق بیان کی گئی مندرجہ ذیل تمام باتیں بھی درست ہیں:
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرپشن اور لوٹ مار
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی آبادی کا غربت کی دلدل میں زندگی گزارنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواتین کو استحصال کا نشانہ بنانا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کی صورت کو بگاڑنا اورنبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استعمار کا غلبہ
وغیرہ وغیر۔۔۔۔۔
یہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے عوامی لیگ، نیشنل پارٹی اور جمہوریت کی پالیسیوں کا انعام ہے۔پھر نام نہاد آزاد اور شفاف انتخابات کی ضمانت کا یہ واویلا کس لیے؟! کیا اس بات کی کوئی اہمیت ہے کہ حسینہ یا خالدہ مذاکرات کرتی ہیں یا نہیں؟! یہ دونوں بے اختیار اور مجبور ہیں۔ یہ دونوں اپنے آقا ؤں ، امریکہ اور ہندوستان کے ایجنٹ ہیں۔ حسینہ اور خالدہ کے درمیان کو ئی بات چیت ہو بھی جاتی ہے یا تمام پارٹیاں انتخابات میں حصہ بھی لے لیتی ہیں، نتائج پھر بھی وہی ہوں گے۔لوگوں کی زندگیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔حقیقی تبدیلی صرف موجودہ نظامِ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے ہی آئے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوج کے مخلص افسران کو اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑاہونا پڑے گا۔ لوگ تبدیلی کے لیے چیخ وپکار کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں تبدیلی لانے کی طاقت نہیں ہے۔ تبدیلی لانے کی طاقت مخلص افسران کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ انھیں کے پاس وہ طاقت ہے جس کے ذریعے حکومت کو اٹھا کر پھینکا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکومت کا خاتمہ کریں نہ کہ کوئی فوجی حکومت قائم کردیں، بلکہ ریاست خلافت کے قیام کے لیےاقتدار کو مخلص اور بیدار سیاست دانوں کے سپرد کریں۔
لہٰذا حزب التحریر تمام مخلص اور بیدارلوگوں کو دعوت دیتی ہے کہ:
1۔ عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کی حکو مت کو مسترد کردیں۔ ان کے جرائم پر خاموش نہ رہیں تاکہ یہ(عدم خاموشی) ان کے خلاف شہادت بن جائے۔ اور ووٹ کے ذریعے انھیں دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کے درمیان دوبارہ مذاکرات اور انتخابات کا انتظار نہ کریں۔
2 ۔ اس نظام سے چھٹکارہ پانے اور ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں۔
3 ۔ فوج میں موجود اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں میں سے مخلص افسران سے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو منتقل کرنے کا مطالبہ کریں۔
فوج کے مخلص افسران کو ہماری یہ دعوت ہے کہ :
1 ۔ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ جتنا باقی مسلمانوں پر ریاست خلافت کا قیام فرض ہے اتنا ہی تم پر بھی ہے بلکہ تم پر ریاست خلافت کے قیام کا فرض دوسرے تمام مسلمانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اقتدار کی کنجی تمھارے ہاتھوں میں ہے۔
2 ۔ اپنے اس حلف کی پاسداری کرو جو تم نے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ تمہاری قسم اس حکومت کی چوکیداری کے لیے تو نہیں تھی جو اپنی عوام کو ظلم وستم کا نشانہ بنا کر دشمن کی خدمت کر رہی ہے۔
3 ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور دوسری خلافت راشدہ قائم کرکے انصار جیسے بن جاؤ۔ انصار کی مدد سے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی اور وہ ریاست 1324 ھ/1924ء تک قائم رہی ۔اگر تم دوسری اسلامی ریاست کے انصار بن گئے تو اللہ تمہیں بھی ان شاء اللہ پہلے انصار کی طرح اجر عطا فرمائیں گے۔اس لیے تم فوراَ َ شیخ حسینہ کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے حوالے کرو۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے"( الانفال:24)

Read more...

خلافت کے قیام کیلئے جدوجہد

 

انڈونیشیا میں حزب التحریر کے شباب، لوگوں کو بطور مسلمان بہتر انداز میں شریعت کی بنیاد پراسلامی خلافت کے سائے تلےزندگی گزارنے کےلئے اپنے فرائض سمجھنے میں مدد دینے کیلئے، مختلف اسالیب استعمال کرتے ہیں۔
حزب التحریر / انڈونیشیا نے 05 نومبر 2013 کو مغربی جاوا کے ضلع بینڈنگ (Bandung) سے سائیلورں کے کارواں نکالے۔اس سرگرمی کے ذریعے، انہوں کے معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر افراد کو دعوت دی کہ وہ اسلامی ریاست یعنی خلافتِ سلامیہ کا دوبارہ قیام کرتے ہوئےجاہلیت اور سیکولر نظام کو اسلامی نظام سے بدلنے کےلئے، محرم کے مہینے کو پرزور تحریک کے طور پر استعمال کریں۔ کارواں نے بینڈنگ (Bandung) شہرگرد 15 میل تک کا فاصلہ طے کیا۔
دریں اثناء مشرقی کلیمنٹن (Kalimantan) کے شہر سمارندا (Samarinda) کےشباب نے اسلامی جھنڈوں، لواء اور رایا، کا مظاہرہ کرتے ہوئے موٹر سائیکلوں کا کارواں نکالا۔
ان سرگرمیوں کا مثبت ردِ عمل سامنے آیاجس نے لوگوں کوحزب التحریر اور اس کی کوششوں کو جاننے کا بھرپُور موقع دیا۔ ان سرگرمیوں نے حزب التحریرکو بھی موقع فراہم کیا کہ وہ لوگوں کے قریب آئیں اور دعوت کیلئے ایک سازگار ماحول مہیا ہو۔ دعاء گو ہیں کہ اللہ جلد اس امت کو خلافت کے قیام میں مدد دے۔

انڈونیشیا میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

مزید تصاویر کیلئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

سوال و جواب: ریاست کےقیام کے کام میں جہاد


سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کی اپنی جدو جہد میں مدنی دور پر نہیں بلکہ صرف مکی دور پر اعتمادکرتی ہے اور قتال کی کاروائیوں 'جہاد' کو خلافت کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں خلاف شرع قرار دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ :خلافت کے قیام کی دلائل کو مدنی دور سے کیوں اخذ نہیں کیا جاسکتا جہاں جہاد فرض ہوچکا تھا اور جاری تھا؟
کیا اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب ہے؟اللہ آپ کو جزاء خیر دے۔

 

جواب: اس سوال میں کئی امور ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت ہے:
1۔ دلائل خواہ کتاب اللہ سے ہوں یا سنت رسول اللہ ﷺ سے،ان پر مکمل طور سے عمل کرنا ضروری ہے،مکی آیات و احادیث اور مدنی آیات و حدیث منورہ میں کوئی فرق نہیں۔
2۔ مطلوبہ دلائل وہ ہیں جو اس مسئلہ سے متعلق ہو ں نہ کہ وہ جس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو:
ا۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ جاننا چاہوںکہ وضو کس طرح کروں تو وضو کے دلائل تلاش کروں گا،خواہ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ منورہ میں۔پھران سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کروں گا۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں کر سکتا کہ وضو کے طریقہ کار کا حکم معلوم کرنے کے لیے روزے کے احکامات کی چھان بین کروں۔
ب ۔ اور مثال کے طوراگر میں حج کے احکامات جاننا چاہتا ہوں تو حج کے دلائل تلاش کروں گا ،خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔اور پھران سے اصول فقہ کے مطابق حکم کو مستنبط کیا جائے گا۔لیکن حج کے طریقہ کار اور اس کی ادائیگی کے احکامکا حکم معلوم کرنے کے لیے نماز کے دلائل کونہیں دیکھوں گا۔
ج ۔ اور مثال کے طور پر جب میں جہاد کے احکامات کو سمجھنا چاہوں:کہ یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ ہے ،یہ دفاعی ہے یا اقدامی ،فتح کی صورت میں مال غنیمت اور اسلام کوپھلاجنے کے حوالے سے کیا احکامات ہیں،کیافتح بزور طاقت ہوتی ہے یا صلح کے ذریعے وغیرہ وغیرہ میں جہاد کی دلائل کی چھان بین کروں گا خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں، اورانہی سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔لیکن میں جہاد کا حکم اور اس کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے زکوۃ کی دلائل کی چھان بین نہیں کروں گا۔
د ۔ ہر مسئلہ کے متعلق حکم شرعی جاننے کا یہی طریقہ کار ہے،اس سے متعلق دلائل کی چھان بین ہوگی چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئےہوں یا مدینہ میں،اور پھر ان دلائل سے اس مئلےں کے بارے میں حکمِ شرعی مسلمہ شرعی اصول کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔
3 ۔ اب ہم اسلامی ریاست کے قیام کے مسئلے کی طرف آتے ہیں،اس کے دلائل کو تلاش کرتے ہیں خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں اور ان سے مسلمہ اصول کے مطابق حکمِ شرعی کا استنباط کرتے ہیں۔
اسلامی ریاست کے قیام کی دلائل ہمیں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت میں بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔رسول اللہ ﷺ نے ابتداء میں غیر اعلانیہ طور پر اسلام کی طرف دعوت دی جس کے نتیجے میں مؤمنوں کی ایک صابر جماعت تیار ہوگئی۔۔۔پھر مکہ میں اور مختلف موقعوں پر اس دعوت کا کھلا اظہار کیا۔۔۔اس کے بعد اہل قوت اور اہل طاقت سے نصرت طلب کی اور اللہ نے انصار سے آپ ﷺ کو نوازا،آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے اوراسلامی ریاست قائم کی۔
ریاست کے قیام کے یہ دلائل ہیں،اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل نہیں۔رسول اللہ ﷺنے اپنی سیرت طیبہ میں اس کو ہمارے لیے تشفی بخش انداز سے بیان کیا اورہم پر اسی سیرت کی پابندی لازمی ہے۔بات جہاد کے فرض ہونے سے پہلےمکی دور یا جہاد کے فرض ہونے کے بعد مدنی دور کی نہیں ہےبلکہ بات ریاست کے قیام کے دلائل کو سمجھنے کی ہے۔یہ دلائل ہجرت کر کے مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکی دور میں ملتے ہیں۔
ریاست کا قیام اور جہاد دو الگ فرائض ہیں۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ریاست کے قیام کے دلائل اسی موضوع سے لیے جائیں گے اور جہاد کے دلائل اس کے اپنے موضوع سے اخذ کیے جائیں گے۔یہ دونوں الگ چیز یں ہیں اور یہ ایک دوسرے پر موقوف بھی نہیں ہیں۔اسی وجہ سے ریاست خلافت کی عدم موجود گی میں جہاد معطل نہیں ہو تا۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے،«وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ»"جہاد اللہ کی طرف سے مجھے مبعوث کرنے کے وقت سے اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری اُمتی دجال سے لڑے گا۔ کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا انصاف اس کو باطل قرار نہیں دے سکتا"اس کو البیہقی نے السنن الکبری انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاد،خواہ خلافت موجود ہو یا نہ ہو، احکام شرعیہ کے مطابق جاری رہےگا۔
اسی طرح حکمرانوں کی جانب سے جہاد کو معطل کرنے کےباوجود خلافت کے قیام کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کا خلیفہ کی بیعت کے بغیر رہنا حرام ہے۔۔۔۔مسلم نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»"جس نے اطاعت سے ہاتھ کھنچا لیا وہ اللہ سے قیامت کےدن اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی،جو اس حال میں مرا کہ اس کی گر دن پر خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
اس بناپر جہاد بھی جاری رہے گا اور خلافت کے قیام کی جدوجہد بھی اس کے قیام تک جاری رہے گا۔یہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف نہیں۔یہ دونوں دوالگ الگ مسئلے ہیں۔ہر ایک مسئلے کے بارے میں اس کی اپنے شرعی دلائل کے مطابق بحث ہو گی اور اس کے ساتھ خاص حکم ِ شرعی مسلمہ اصول کے مطابق ہی اخذ کیا جائے گا۔
4 ۔یہی وجہ ہے کہ حزب،رسول اللہ ﷺ کے اس طریقے کی پابند ہے جس پر مکہ میں کاربند رہتے ہوئے مدینہ میں ریاست قائم کردی گئی۔ریاست کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں قتال سے اجتناب کیا،اس میں مکی یا مدنی دور کی بات ہی نہیںبلکہ ریاست کے قیام کی دلائل رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال ہیں جو مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکہ میں انجام دیئے۔مسئلہ ریاست کے قیام کے طریقے کا ہے۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے اس بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ریاست کے قیام کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
اگر مسئلہ ریاستی اعمال اور اس کے اداروں کا ہو تا تو اس کو ان دلائل سے اخذ کرتے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان اداروں کو قائم کر کے دِکھایا کیونکہ ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔
5 ۔ خلاصہ:
ا ۔ کسی بھی مسئلہ کے احکامات اسی مسئلے کے بارے میں وارد شدہ دلائل سے اخذ کیے جائیں گے جو اس کے بارے میں ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔روزے کے احکامات روزے کے دلائل سے اخذ کیے جائیں گے،نماز کے احکامات نماز کے دلائل سے لیے جائیں گے،جہاد کے احکامات جہاد کے دلائل سے ہی لیے جائیں گے اورریاست قائم کرنے کے احکامات بھی ریاست قائم کرنے کے دلائل سے ہی اخذ کیے جائیں گے۔۔۔ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔
ب ۔ ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کو جو آپﷺ نےریاست کے قیام کے لیے مکہ میں اختیار کیا تھا،اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل موجود نہیں۔۔۔۔اگر ریاست کے قیام کی کوئی دلیل مدینہ میں وارد ہوتی تو اس سے استدلال بھی لازمی تھا۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اسلامی ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے لیے مدد اور توفیق کے طلب گار ہیں تاکہ اسلام اور مسلمان ایک بار پھر معزز،اور کفر اور کفار ذلیل ہوں،چاردنگ عالم میں خیر کا چرچا ہو اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

Read more...

خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کے حصول کی مہم افواج پاکستان لازماً خلافت کا قیام عمل میں لائیں اور اللہ کےعلاوہ کسی سے نہ ڈریں

حزب التحریر ولایہ پاکستان ،ملک بھر کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کی مہم چلارہی ہے۔جس طرح رسول اللہﷺ نے انصارکی نصرۃ (مدد)سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی،ویسے ہی حزب کے بہادر شباب نبوت کے اس طریقہ کار کے مطابق افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بھائیوں اور بیٹوں سے مطالبہ کریں کہ وہ کفریہ جمہوریت کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے مدد فراہم کریں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں : وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور تم ایسے وبال سے بچوکہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے" (الانفال:25)۔ ہمارا ایمان ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی ظالم کے ظلم سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ ہمیں اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے اگر ہم نے ظالم کے کھڑے کیے ہوئے فتنے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی بدحالی اوراقوام عالم کے سامنے تذلیل کی دلدل میں ڈوب جانے پر خاموشی اختیار کی۔اب بہت ہوچکا کہ آپ کے درمیان مشرف اور کیانی جیسے لوگوں کو مزید برداشت کیا جائے!بہت ہوچکی ان کی اطاعت جو زرداری اور نواز شریف جیسے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں! ان غداروں کی غداری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور ان کے امریکی آقاؤں کو ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کی حزب التحریر کی جدوجہد کا ساتھ دو۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی مصیبت تم پر نہیں آسکتی، اللہ کی راہ میں آگے بڑھو۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنْ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلاَ يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا "پوچھئے!اگر اللہ تعالٰی تمھیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمھیں بچا سکے؟اپنے لیے سوائے اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مددگار" (الاحزاب:17)۔

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

جمہوریت ہٹاؤ، خلافت لاؤ حزب التحریر نے شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے

حزب التحریر نے ولایہ پاکستان میں شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پرتحریر تھا: " مصر کا فرعون مسلمانوں کی لاشوں پر امریکی راج کی حفاظت کر رہا ہے" ، " شام میں مسلمانوں کاقتل عا م ‏خلافت کےقیا م کو نہیں روک سکتا" اور " امریکی راج کی محافظ 'جمہوریت' ختم کرو، امت کی ڈھال' خلافت' کو قائم کرو"۔ یہ مظاہرے اس وقت کیے گئے ہیں جب پاکستان کے مسلمان واضع طور پر مصر میں اس کی افواج کے کردار اوراسلام کے لیے شام کے مسلمانوں کی استقامت کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امت امریکی تکبر اور جبر کے خلاف غصے سے بھری بیٹھی ہے ، حزب التحریر افواج پاکستان کے افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کفریہ جمہوریت اور امریکی راج کا خاتمہ کریں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کی حاکمیت کو بحال کریں۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کا یہ عمل ہی مصر، شام، پاکستان اور پوری مسلم دنیا میں صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں تبدیل کر دے گا۔ صرف اسی صورت میں تمام مسلمان ایک خلیفہ راشد کی قیادت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ایک عظیم قوت کی شکل اختیار کرلیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرٌ وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ "امام (خلیفہ) ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر تم لڑتے ہو اور اپنا تحفظ کرتے ہو۔ تو اگر وہ تقوی اور انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر وہ اس سے ہٹ کر حکمرانی کرتا ہے تو یہ اس کے خلاف ہی جائے گا"(بخاری)۔

 

یہاں کلک کریں

Read more...

امریکہ کا تازہ ترین ڈبل گیم کا منصوبہ امریکہ امن مذاکرات کے ذریعے خطے میں اپنی موجودگی کو برقراررکھنا چاہتا ہے

عین اسی دن جب امریکہ حکومت پاکستان کے طالبان کے ساتھ 'امن' مذاکرات سے باخبر رہنے اور ان پر قریب سے نگاہ رکھنے کی بات کرتا ہے ، امریکہ پاکستان کی حدود میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک رہنما حکیم اللہ کو قتل کردیتا ہے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ امریکہ مذاکرات کے عمل کو تباہ اور ناکام کردینا چاہتا ہے ، ایک سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت امریکہ بم دھماکوں اور قتل غارت کے اس مہم کے ذریعے 'امن' مذاکرات کے لیے حمائت پیدا کررہا ہے۔ امریکہ اور اس کے ایجنٹ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ امت اور ان کی افواج میں امریکہ دشمن جذبات انتہا پر ہیں، لہٰذا وہ ان جذبات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جب سے امریکہ اس خطے میں داخل ہوا ہے، وہ اور اس کے ایجنٹ 'ڈبل گیم' کا ڈرامہ رچا کر امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنارہے ہیں۔ مشرف اور شوکت عزیز کا 'ڈبل گیم' یہ تھا کہ وہ اس امریکی خطرے کا اظہار کرتے تھے کہ امریکہ ہمارے علاقے میں اپنی فوجو ں کوداخل کردے گالہٰذا ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں خود فوجی آپریشن کرنا چاہیے۔ زرداری اور کیانی حکومت کا 'ڈبل گیم' یہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی اور بھارتی اثرو رسوخ کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشنز کو مزید علاقوں تک پھیلا دیا جائے۔ درحقیقت امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستان کی افواج اُس کی جنگ لڑیں کیونکہ اُس کے اپنے بزدل فوجی توانتہائی غیر معیاری اسلحے سے لیس مجاہدین کے خوف سے خودکشیاں کرتے ہیں۔ اور نوازشریف اور کیانی کا 'ڈبل گیم' یہ ہے کہ 'امن' مذاکرات کے ذریعے خطے میں امریکہ کے مستقل قیام کے مقصد کو حاصل کیا جائے جس کے تحت افغانستان میں نو (9) امریکی اڈوں کا قیام، اسلام آباد میں قلع نما سفارت خانے کی تعمیر اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ کے لگ بھگ نجی امریکی سکیورٹی کے افراد کے قیام کو ممکن بنایا جائے جو 'ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک' کی صورت میں ملک بھر میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی مہم کو جاری رکھ سکیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ((لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ)) "مؤمن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسہ نہیں جاتا"۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار آپ کے ساتھ اپنے امریکی آقاؤں کے لیے 'ڈبل گیم' کھیل رہے ہیں، جو کہ آپ کے کھلے دشمن ہیں۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ خلافت کے قیام کےلیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جس کی قیادت مشہور فقیہ اور رہنما شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کررہیں ہیں۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی آپ کا حرکت میں آنا دین کے احکامات کے تحت ہوگا ، آپ پاکستان اور خطے سے صلیبی قبضے کے خاتمے کے لیے حرکت میں آئیں گے اور اس کی فوج ، انٹیلی جنس، ٖفوجی اڈوں، قونصل خانوں اور سفارت خانے کا خاتمہ کردیں گے۔

Read more...

سوال وجواب: ازدواجی زندگی کے اختلافات


سوال: ہم کتاب و سنت میں خوشگوار، مطمئن اور مامون ازدواجی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن ہمارے اس دور، جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، ازدواجی بندھن میں جڑے جوڑوں میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں ، حتٰی کہ دعوت میں شریک لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ اختلافات کبھی میاں بیوی کے مابین اپنے رہائشی گھر کے انتخاب پر، یا دلہا دلہن کے والدین کے ساتھ تعلق پر، یا انکے رشتہ داروں سے ملاقات پراور بالخصوص شوہر کے رشتہ داروں سے ملاقات پر، جنہیں (حدیث میں) موت گردانا گیا ہے، نظرآتے ہیں۔ دونوں کے والدین اس پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ اس کے بیٹے یا اسکی بیٹی کا حق ہے یا یہ اور یہ داماد یا بہو کی ذمہ داری ہے ، اور دونوں اپنی رائے پر، اس خیال سے کہ وہ شریعت کی رُو سے حق بجانب ہیں ، سختی سے ڈٹے رہتے ہیں ، اور اپنی پوزیشن سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹنے یا ترمیم پر تیار نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں آپ کیا نصیحت کریں گے خصوصاً ان لوگوں کو جو دعوت کی سرگرمیوں میں شامل ہیں؟ مزید یہ کہ اس آیت مبارکہ کا کیا معنی ہے؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کر اور خود بھی اس پر قائم رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، ہم تجھے روزی دیتے ہیں اور پرہیزگاری کا انجام اچھا ہے۔"
(سورہ طہ۔ 20:132)
جزاک اللہ خیراً

 

جواب: ہمیں آپ کے اس سوال سے حیرانی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جو اس خالص اور پاک دعوت کو لے کر چل رہے ہوں، اپنی ذاتی زندگیوں میں ہی ناکام ہو سکتے ہیں؟ آخر کیسے ان کی زندگیاں احترام اور محبت کے بجائے نفرت اور بغض سے بھر سکتی ہیں...؟
درحقیقت شادی شدہ زندگی بے جان چیزوں کی مانند 1+1=2کی مساوات نہیں، یہ تو رحمت اور شفقت، سکون اور اطمینان سے عبارت ہوتی ہیں۔ اس عائیلی زندگی کو ایسی بے جان اور جامدمساوات سمجھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زندگیوں کو رحمت، قربت اورگرمجوشی سے بھرنے سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا؛
وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، بے شک جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔" (سورہ روم:21)
ایسے لوگوں کو کافی زیادہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، اور انھیں اس پر غور کرنا چاہئے جو کچھ انھوں نے سیکھا ہے۔ مزید برآں ایسے لوگوں کو سزا بھی ملنی چاہئے! بہر کیف ، سوالات کے جوابات درج زیل ہیں؛
1)ازدواجی زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات:
شادی شدہ لوگوں سے متعلق رسول اللہ کی حدیث پاک ہے،
«خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي» أخرجه الترمذي وابن ماجة.
''تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں سے سلوک میں سب سے بہتر ہوں۔'' ترمذی، ابن ماجہ
بیویوں کیلئے: ابوہریرہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں،
«لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا»
''اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو ان کے شوہروں کے آگے سجدے کا حکم دیتا۔''
( یہ حدیت ترمذی میں روایت ہے ، اسی طرح کے الفاظ میں ابن ماجہ میں ہیں۔ یہ حدیث سعید بن مسیب اور عائشہ سے بھی روایت ہے)
میں ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ شادی شدہ جوڑوں کیلئے یہ ایک لازمی امر ہیں کہ وہ سمجھیں کہ خانگی زندگی 1+1=2کی طرح کی بے جان اورجامد مساوات نہیں، بلکہ یہ تعلق تو خوشیوں اور اطمینان کا باعث ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے؛
لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً
"تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔" (سورہ روم:21)
بیوی کو اپنے شوہر کا وفادار ہونا چاہئے اور ان کواپنے شوہرکے دل کو خوشیوں سے بھر دینا چاہئے خواہ یہ سب کچھ ان کے اپنے آرام اور سکون کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی عقلمند عورت اپنے شوہر سے یہ نہیں کہے گی کہ میں آپکی وفادار ہوں لیکن مجھے آپکے والدین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اسلئے ہے کہ ہر عقلمند عورت کو پتا ہو گا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے والدین سے اچھا برتاؤ کرے گی اور ان کا خیال رکھے گی تو اس کا یہ برتاؤ اسکے شوہر کیلئے خوشیوں کا باعث بن جائے گا جو کہ اس کیلئے فرض ہے...رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
«مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ» أخرجه ابن ماجه عن أبي أمامة
''مومن کیلئے تقوی کے بعد اچھی بیوی سے بڑھ کر کسی بھی چیز میں خیر نہیں کہ جب وہ اسے کسی چیزکا حکم دے تو وہ اسے پورا کرے، اور جب وہ اس پر نگاہ ڈالے تو اس کا دل خوشی سے بھر جائے، اگر وہ شخص اس کے لیے قسم کھائے ، تو وہ اس کو سچ کر دکھائے، اور جب اس کا شوہر دور ہو تو بیوی اسے اچھی نصیحت کرے اور اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔'' (یہ حدیث ابن ماجہ میں ابو امامہ اور اسی طرح کی حدیث ابو داؤد میں ابن عباس نے روایت کی ہے۔)
اسی طرح شوہر کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی سے احسن برتاؤ کرے اور اس کی زندگی کو آرام دہ بنائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
''اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو گو کہ تم انھیں ناپسند کرو، بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سے بھلائی کر دے۔''
(النساء: 19)
شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی اچھی زندگی کے حقوق پورے کرے اور اسی طرح وہ اپنے والدین کے حقوق کو بھی پورا کرے جو کہ اس پر فرض ہیں، لیکن بیوی کے حقوق میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
''اور تمہارا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ احسن سلوک کرنا۔'' ( الاسرا ء:23)
اور فرمایا؛
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا
'' اور ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہے۔''
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں ؛
«سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مِيقَاتِهَا قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» أخرجه البخاري.
میں نے رسول اللہ سے پوچھا؛ ''اے اللہ کے نبیﷺ، سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟'' آپ ﷺنے جواب دیا؛ ''نماز کو اپنے اولین اوقات میں ادا کرنا''۔ میں نے پوچھا ؛ ''اور اے اللہ کے رسول! اس کے بعد؟'' آپﷺ نے جواب دیا ، ''والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ۔'' میں نے مزید پوچھا، ''اور اس کے بعد؟'' آپ ﷺ نے فرمایا؛ ''اللہ کی راہ میں جہاد میں شرکت۔'' (بخاری)
کوئی عقلمند شوہر بیوی کو اپنے والدین اوررشتہ داروں سے اچھے تعلق سے منع نہیں کرے گی، نہ ہی وہ اسے ان سے اچھے برتاؤ اور تعلقات بڑھانے سے روکے گا ، جسکی بدولت دونوں میں ازدواجی قرابت داری پیدا ہو گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت میں سسرالی رشتہ داریوں کو خونی رشتہ داریوں سے مماثلت دی۔ فرمان ہے؛
أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا...
''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ، اگر چاہتا تو اسے ٹھہراتا ہوا ہی کر دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا طلوع آفتاب کے بعد سایہ گھٹتا رہتا ہے اور کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے اور پھر زوال کے بعد سایہ بڑھتے بڑھتے غروب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ بھی نہ ہوتا..."
یہاں تک کہ اللہ فرماتا ہے؛
وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا * وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
''اور وہی ہے جس نے دو سمندر ایسے ملا رکھے ہیں ، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری اور کڑوا، اور دونوں کے درمیاں ایک مستحکم آڑ بنا دی ہے۔اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ہے، اور پھر اسے نسب سے رشتہ والا بنا دیا اور سسرالی رشتوں والا بنا دیا۔ اور بلاشبہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔ '' (الفرقان: 53-54)
سسرالی رشتوں اور نسبی رشتوں سے نسبت دینے سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں رشتے قابل احترام اور قابل توجہ ہیں اور دونوں رشتوں سے رب کی عظمت اورطاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔
یہ نکات اکیلے ایک عقلمند شوہر اور ایک عقلمند بیوی کیلئے کافی ہیں
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
''بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو '' (سورہ ق: 37)
اور وہ لوگ جو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کیلئے مزید تفصیل بھی کافی نہیں ہو گی۔

2)جہاں تک دیگر سوالات کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ مرکزی سوالات نہیں تاہم متعلقہ ضرور ہیں۔
ا) جہاں تک سسرالی رشتہ داروں کا انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہونے کا تعلق ہے یہاں تک کہ ان کو موت سے تشبیہ دینے کی بات ہے ، جیسا کہ بخاری میں عقبہ بن عامر سے روایت حدیث میں ہے؛
«إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ»
'' اللہ کے نبی ﷺنے کہا ؛ ''عورتوں سے میل ملاپ سے خبردار رہو۔'' انصار میں سے ایک شخص نے کہا ؛ ''الْحَمْو (شوہر کے بھائی اور بھتیجے وغیرہ) کے بارے میں کیا حکم ہے؟'' رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا؛ '' 'الْحَمْ' تو موت ہے۔''
یہ معاملہ ایسی صورتحال سے متعلق ہے جہاں عورت کا شوہر یا کوئی محرم موجود نہ ہو ، اور وہ اپنے ایسے سسرالی رشتہ داروں کے مابین اکیلی(خلوت میں) ہوجو اس کے محرم نہیں۔ 'الْحَمْو'، شوہر کے وہ رشتہ دار ہیں جو بیوی کیلئے محرم نہیں جیسے کہ شوہر کے بھائی یا کزن ... جہاں تک سسر کا تعلق ہے ، اگرچہ لغوی طور پر وہ بھی 'الْحَمْو' میں شامل ہے لیکن وہ اس حدیث کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ وہ عورت کیلئے محرم ہے۔ 'الْحَمْو' کے عورت سے خلوت میں ملنے کو موت سے تشبہہ دی گئی ہے جو کہ معاملے کی حرمت کی سنجیدگی اور شدت کو ظاہر کرتاہے۔
پس ایسی صورتحال میں جہاں شوہر یا عورت کا محرم رشتہ دار موجود ہو ، تو اس صورتحال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور شرع نے اس کی اسی طرح اجازت دی ہے جیسے نسبی رشتہ داروں سے ملنا یا کھانے کے موقع پر اکٹھے ہونا، جو چیز منع ہے وہ خلوت میں ملنا ہے۔ اسی حدیث کی تشریح میں ابن حجر فتح الباری میں رقمطراز ہے؛
''ابنِ وھب نے اس حدیث کی تشریح میں مزید یہ بات بیان کی جسے مسلم نے روایت کیا ہے : میں نے لیث ابن سعیدکو کہتے سنا : 'الْحَمْو' کا مطلب ہے شوہر کا بھائی یا اس طرح شوہر کے رشتہ داروں میں سے دوسرے لوگ جیسے کہ کزن وغیرہ۔ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ترمذی لکھتے ہیں ؛ "یہ کہا گیا ہے کہ یہ شوہر کے بھائی سے متعلق ہے ... وہ مزید کہتے ہیں : یہ حدیث جیسا کہ روایت ہے بیان کر رہی ہے کہ ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہونا چاہئے ، اور جب وہ خلوت میں ہو تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔"
اسی طرح ایک حدیث ان عورتوں کے متعلق بھی ہے جن کے شوہر موجود نہ ہو۔ ترمذی اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
«لَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ»
''ان عورتوں سے ملنے مت جاؤجن کے خاوند گھروں سے دور ہو ں کہ شیطان تم میں ایسے موجود ہے جیسے کہ خون جسم میں دوڑتا ہے۔''
پس 'الْحَمْو' کا معاملہ اور ان کا عورت سے خلوت میں ملنے کے معاملے کا تعلق اس جگہ تک ہے جب اس عورت کا شوہر یا دوسرے محرم رشتہ دار موجود نہ ہو۔ شوہر کے گھر سے دور ہونے یا موجود نہ ہونے کے وقت عورت سے ملنے سے ممانعت دراصل خلوت میں ملاقات سے منع کرنے کا معاملہ ہے۔ جہاں تک شوہر یا دوسرے محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں ملنے کا تعلق ہے تو شرع نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ پس بیوی کے اپنے شوہر کے خاندان سے اور شوہر کے اپنی بیوی کے خاندان سے تعلق کو شرع کے مطابق مضبوط بنانے کی مکمل اجازت ہے۔
ب ) بیوی کا گھر وہی ہے جہاں اس کا شوہر رہتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سکونت اختیار کرے جب تک کہ وہ گھراسے نفیس زندگی فراہم کرے اوروہ شوہر کی استطاعت کے لحاظ سے ہو۔ اسے شوہر کو حکم دینے کا حق نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو بتائے کہ اسے کہاں رہنا ہے ، بلکہ وہ رہائش سے متعلق اچھے انداز سے شوہر سے گفتگو و شنیدکرے۔ تاہم اس معاملے میں شوہر کی رائے حتمی ہوتی ہے اور بیوی کو وہیں رہنا چاہئے جہاں اس کا شوہر اس کو ٹھہرائے۔ قرآنِ پاک میں ہے؛
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ
''ان کو (مطلقہ عورت کو) وہاں بساؤ جہاں تم رہتے ہو، حسب توفیق۔'' ( الطلاق :06)
یہ آیت ایک مطلقہ عورت کے عدت کی مدت کے دوران رہنے کی جگہ کے بارے میں ہے کہ یہ اس کے سابقہ شوہر کا فرض ہے کہ وہ عدت کی مدت میں اس کو رہنے کی جگہ مہیا کرے۔ پس بیوی کے معاملے میں یہ بدرجۂ اُولیٰ ہے۔ 'سَكَنْتُمْ' کا مطلب ہے جہاں تم رہتے ہو، اور 'مِنْ وُجْدِكُمْ' کا مطلب ہے حسبِ توفیق۔ پس جب تک عورت کو ایک مناسب اور محفوظ گھر شریعت کے مطابق مہیا کیا گیا ہو ، جس کی اس کا شوہر استطاعت رکھتا ہوں، تواس کا اپنی مرضی کے گھر کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر خلع یا طلاق طلب کرناشرعی احکامات کے خلاف ہے۔۔۔
پ) شوہر کو اجازت نہیں کہ وہ بیوی کو اپنے والدین سے تعلق رکھنے سے روکے:
یہ اسلئے ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو شرع نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنے نسبی رشتہ داروں سے تعلق کو قائم رکھیں۔ یہ حکم نہ صرف مرد کیلئے ہے بلکہ یہ عورت کیلئے بھی ہے کیونکہ خطاب عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
«لا يدخل الجنة قاطع رحم»
''قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔''
'قطع رحمی کرنے والا' عمومی حکم ہے ممنوعیت کے لحاظ سے، اور 'جنت نہیں جائے گا' بھی عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہے۔ جس طرح شوہر کیلئے اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنا فرض ہے ، اسی طرح عورت کیلئے اپنے والدین سے تعلق رکھنا فرض ہے۔ پس اگر شوہر، بیوی کو اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنے سے منع کرے گا تو وہ گناہ گار ہو گا۔ اگر ایسا معاملہ ہمارے نوٹس میں آیا تو ہم اس پرمناسب انتظامی سزا دیں گے۔
نتیجہ: یہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے والدین کے ساتھ بیوی کے تعلقات قائم رکھنے کو آسان بنائے، بغیر اس امر کے کہ بیوی اپنے شوہر اوراسکے گھر کے حقوق میں کوئی کوتاہی کرے۔ ایک دانا شوہر اور بیوی، جو متقی اور مخلص ہوں ، کیلئے یہ معاملہ آسان ہے۔ انہی جوڑوں کے صلہ رحمی کے معاملے مشکل بنتے ہیں جو اس دعوت کی جنس سے نہ ہوں ، جو کہ اللہ کے ساتھ اخلاص اور رسول اللہ اکے ساتھ صدق کا تقاضا کرتی ہے۔
ت) جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔" (طہ: 20-132)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اور تمھارا گھرانہ اللہ کی عبادت کرو، نماز پڑھو ، اوزندگی اور رزق کے معاملے کو سر پر سوار نہ کرو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمھیں رزق دیتے ہیں اور ہم تمھیں یہ نہیں کہتے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے رازق بنو۔ تمہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مطیع ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو بھی یہ حکم دینا چاہئے ، اور یاد رکھو کہ اچھا انجام تو متقیوں کیلئے ہے۔
موطا امام مالک میں زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، ''عمر بن الخطاب رات کو عبادت میں اس قدر مصروف رہا کرتے جتنا کہ الل ان کیلئے چاہتے تھے، اور وہ رات کے آخری حصے میں اپنے گھر والوں کو اٹھاتے اور کہتے 'نماز، نماز' اور یہ آیت تلاوت کرتے ؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
''اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں ، اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔'' (طہ: 20-132)
اللہ سبحانہ و تعالی نے لفظ 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' کالفظ استعمال کیا جس کا مفہوم 'جما رہ، ڈٹ جاؤ' کا ہے۔ یہاں 'وَاصْبِرْ عَلَيْهَا' کی بجائے 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' استعمال کیا گیا ہے جس میں زیادہ سختی ہے ، جس کا مفہوم 'صبر کرتا رہ'ہے۔ یہ زیادہ شدت اور کوشش کی جانب اشارہ ہے۔ کیونکہ ایک انسان کو اپنے آپ اور گھر والوں کو حق پر لانے، آگ سے بچانے اور عمل کی جانب لانے میں انتہائی کوشش، صبر اور صعوبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ نیکو کاروں کی حفاظت کرتاہے۔
یہاں پر اس آیت کی یاد دہانی بھی اہم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُون
''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، اس پر فرشتے سخت دل اور قوی ہیکل مقرر ہیں ، وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے ، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔'' ( التحریم:06)
بچاؤ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو آگ سے، کا مطلب ہے: اپنے بیوی اور بچوں کو اس آگ سے دور کرو، اللہ سے دعا کر کے، اور انھیں معروف کا حکم دے کر اور منکر کی نہی کر کے، اس دین کے احکامات سیکھ کر اور اپنے خاندان کو سکھانے کے ذریعے ، ان کی احسن تربیت کر کے اوراحکامِ شرع کے مطابق انھیں سزا دے کر ، اور اپنے گھر والوں کو نماز، روزے، زکواة ، حج اور دیگر تمام شرعی احکاما ت کا حکم د ے کر۔۔۔
میں دوبارہ اسے دہراتا ہوں جہاں سے ابتدا کی تھی، مجھے اس امر سے شدید دکھ ہے کہ شباب شوہر اور بیویاں اپنے ازدواجی تعلقات میں اس قدر مسائل میں ہیں ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت نے ابھی تک ان میں جڑیں نہیں پکڑی ہیں اور انھوں نے اس کے اخلاق واطوار نہیں اپنائے۔ اور انھوں نے اس کو ایسے سرانجام نہیں دیا جیسا کہ اس کا حق ہے، نہ انھوں نے اس کو مضبوط کیا۔ مجھے خو ف ہے کہ قدم قائم ہونے کے بعد متزلزل نہ ہوجائیں۔

 

Read more...

سوال وجواب:  وصیت اور کرنسی سے متعلق سوالات

سوال 1: کیا انگریزی قانون کے مطابق ایک مسلمان وکیل کیلئے غیر مسلم وصی کی وصیت لکھنا جائز ہے، جس میں وصی نے اپنے ترکے کا کچھ حصہ یاپورا ترکہ کسی ایسے ادارے کے نام چھوڑا ہو جو یا تو نامعلوم ہو یا شرعاً ممنوع ہو جیسا کہ ایسے ادارے جہاں کتوں کی نگہداشت کی جاتی ہے یا ایسے ادارے جس کا تعلق لہو لعب سے ہو؟

سوال 2: ہم نے اپنی بہت سی مطبوعات اور کتب میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حقیقی زر ( کرنسی) صرف سونا اور چاندی کو متصور کیا جائے گا، چاہے یہ اپنی حقیقی شکل میں ہو یا اس کی قیمت کے برابر نقدی ہو۔ شیخ عبد القدیم زلوم کی کتاب میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کوئی بھی مملکت یا تو سونا اور چاندی، یا کوئی اور موزوں دھات کو بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے جب تک کہ سونے کو مرکزی کرنسی کی حیثیت حاصل ہو۔ لہٰذا، کیا کوئی حکومت سونا چاندی کے ساتھ ساتھ کوئی اور قیمتی دھات مثلا َ َ پلاٹینم یا قیمتی پتھر جیسے ہیرے اور اس جیسی دوسری چیزیں بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے؟

 

جواب(سوال 1): اگر معاملہ ایک کافر وصی اور مسلمان وکیل کے مابین ہو۔ یہ اجرت کا معاملہ ہے جس میں کافر وصی نے وصیت لکھنے کی غرض سے ایک مسلمان وکیل کو اجرت پر ''جیسا وہ کہے، لکھے گا'' کے اصول پر رکھا ہو۔ سو یہ تو محض اجرت کے عوض وصیت لکھنے کا ایک معاہدہ ہے، جس کی رو سے مسلمان وکیل وہی وصیت تحریر کرتا ہے جیسا کہ کافر اسے بتاتا ہے، پھر وکیل اپنی اجرت وصول کرتا ہے اور معاملہ وہیں ختم ہو جاتاہے ۔
جہاں تک وصیت کا تعلق ہے تو۔۔۔ اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تو ایسی صورت میں وصیت لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں اسلامی عقیدہ کے منافی کوئی بات نہ ہو، کیونکہ اسلامی عقیدہ کے خلاف کچھ لکھنا اس کو بولنے کے مترادف ہے اور ایسا جائز نہیں۔
تاہم قابل ترجیح امر یہ ہے کہ ایسی وصیت کو تحریر نہ کیا جائے جس میں اسلامی احکامات کے خلاف مواد موجود ہو۔ یہ اسلئے کہ کافر کی وصیت میں اسلامی احکامات سے متصادم شقوں سے متفق ہونا ظاہر نہ ہو۔
تاہم اگر یہ معاملہ صاحب وصی اوروکیل کے مابین وکالہ(نمائندگی) کا ہو جس میں وکیل، صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔وہ متعلقہ افراد سے رابطہ کرتا ہے۔۔ان کو وصیت سے آگاہ کرتاہے۔۔اور صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔اس صورت میں یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں ایک مسلمان وکیل شریعت،جس پر وہ ایمان لاتاہے،کے برخلاف ایک وصیت کو نافذ کرتاہے ۔

 

جواب (سوال 2): اسلام میں زر(کرنسی) کا تصور سونے اور چاندی کا ہے یا دوسرے ذرائع جیسے کہ کاغذی نوٹ بشرطیکہ بیت المال میں اس مالیت کے موافق سونا اور چاندی موجود ہو۔ ہلکی(کم قیمت) دھاتوں جیسے تانبے وغیرہ کو سستی اشیاء کی خریداری کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر سونے اور چاندی کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائے تو ان سے بنے ہوئے سکے اس قدر قلیل الوزن ہونگے جنکو عام حالات میں استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ سونے اور چاندی کی مقدار قلیل اور کم قیمت دھاتوں کی مقدار کثیر کی آمیزش سے ایسے مناسب سکے بنائے جا سکتے ہیں جو آئندہ کم قیمت اشیاء کی خریداری میں استعمال کئے جا سکتے ہو۔ یہ معاملہ کتاب ''فی الاموال'' میں مذکور ہے؛
...حکومت چاندی کے سکوں سے کم مالیت کے سکے بھی بنا سکتی ہیں تاکہ سستی اشیا کی خریداری کو آسان بنایا جا سکے۔ چونکہ چاندی کے سکے خالص چاندی سے بنے ہوتے ہیں تاہم چونکہ ان میں بہت معمولی مقدار میں چاندی ہوتی ہے اسلئے ان سے معاملہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسلئے کم قیمت دھاتوں کو ان میں شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم ان سکوں میں چاندی کا تناسب وزن کے حساب سے واضح ہونا چاہئے تاکہ اس معاملے میں کوئی شکوک و شبہات نہ رہیں۔
مسلمانوں کے ہاں سونے اور چاندی پر مبنی دو دھاتی اصول واضح رہا ہے ۔ مصر میں اتابکہ اور عباسیوں کے آخری دور میں مسلمانوں نے سونے ور چاندی کے ساتھ ساتھ تانبے (پیتل) کو بطور کرنسی استعمال کیا جس سے وہ کم قیمت اشیا خریدتے تھے کیونکہ تانبے کی قدر (نسبتاً) کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سونے اور چاندی کا متبادل ہے بلکہ یہ اپنی قدر کے طور پر موجود رہی۔ پس اس کو سستی اشیا کی خریداری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح سونے اور چاندی کے علاوہ اور دھاتوں کے سکے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جو عموماً سستے دھاتوں کے بنے ہوئے ہوں، لیکن ان کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لئے استعمال نہ کیا جائے گا، کیونکہ یہاں معاملہ سستی چیزوں کی خریداری کا ہے جس کیلئے ایک مناسب اور عملی طریقہ کار کی کرنسی کی ضرورت ہے۔ اگر سستی اشیا کی خریداری کیلئے سونے اور چاندی کے سکوں کو استعمال کیا جائے تو ایسے سکوں کا وزن اور مقدار بہت قلیل ہو گی، اسلئے کم قیمت دھاتوں کو استعمال میں لایا جائے گا تاکہ ان سکوں کا ایک مناسب وزن ہو جو کہ استعمال میں آسان ہو۔ یہ امر قیمتی دھات سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک سونے چاندی کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کا بطور شرعی کرنسی کے استعمال کا تعلق ہے جیسا کہ پلاٹینم اور ہیرا ہے ۔۔۔ تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ شریعت میں موجود دلائل صرف سونے اور چاندی کو بطور کرنسی کے متعین کرنے کے بارے میں واضح اور معلوم ہیں۔ اسی طرح شرعاًیہ بھی جائز نہیں کہ سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی دھاتوں کو بیت ا المال میں بطور 'ریزرو' (reserve) استعمال کیا جائے۔ دوسری کوئی بھی دھات محض ایک شے ہے نہ کہ کرنسی۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک