الخميس، 25 ذو القعدة 1446| 2025/05/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب: شخصیہ کے عربی شمارے، جلد نمبر3صفحہ 129 پر موجود ایک اصطلاح 'کلی مُشکِّک' کی وضاحت

 

سوال: شخصیہ کے عربی شمارے ، جلد نمبر3صفحہ 129نیچے سےسطرنمبر2پیراگراف کے آخرمیں آیاہے :
"۔۔۔ اوراگرکلی معنی (Whole) اپنے افراد کے اندرمختلف اندازمیں پایاجاتا ہو، تواس کوکلی مُشکِّک (causing of doubt) کہتے ہیں، مثلاً الوجود(موجود ہونا ) اورالابيض(سفید) کالفظ، چاہے یہ اختلاف وجوب (obligation) اورامکان (ability) کااختلاف ہویابے نیازی اورمحتاجی کے اعتبارسے، یا کمی اورزیادتی کے اعتبارسے ہو، پہلی قسم کی مثال ، جیسے وجود، کیونکہ یہ باری تعالیٰ کیلئے واجب(obligation) ہے ،جبکہ اس کے علاوہ میں ممکن (possible) ہے، دوسری قسم کی مثال بھی وجود ہے، کیونکہ یہ اجسام پربھی بولاجاتاہے ،جنہیں کسی محل (location) کی ضرورت نہیں ہوتی اوروجود اعراض پر بھی بولاجاتاہے،یہ اعراض (causes) کسی نہ کسی محل (location) کے محتاج ہوتے ہیں، تیسری قمر کی مثال روشنی ہوسکتی ہے، چنانچہ سورج کی روشنی کسی چراغ کی روشنی سےبدرجہاں زائد ہوتی ہے۔ اس قسم کی کلی کومشکک کہاگیاہے، کیونکہ جوکوئی اس کودیکھتاہے، وہ اس کی وجہ سےشک میں پڑجاتاہے کہ آیایہ وہ کلی ہے جسے متواطی (جس کے تمام افراد میں کوئی فرق نہ ہو، جیسے انسان) کہتے ہیں، آیا یہ مشترک ہے، ( کیونکہ ایک طرف تواس میں حقیقت ایک ہوتی ہے اور دوسری طرف یہی حقیقت، اپنے افراد کے اندرمختلف انداز میں رونماہوتی ہے )۔
تو شیخ نے "وجود اورسفید" کاذکرکیاہے پھروجود کی مثال بیان کی، اورپھر اس کومکرر ذکرکیا، "سفید " کی مثال نہیں بیان کی ...... پھراستغناء اورمحتاجی کاذکراس طرح کیا کہ میرے اوپرخلط ملط ہوگیا۔۔۔۔تواس عبارت کوواضح طورپرکس طرح سمجھ سکیں گے۔؟جزاک اللہ خیراً

 

جواب: یہ عبارت مختصر ہے، اس میں تفصیل نہیں، جیسے اصول کی کتابوں میں یہی طریقہ اپنایاجاتاہے۔ یقیناً اس عبارت میں سفید کی مثال نہیں بتائی گئی، کیونکہ "روشنی " کی مثال "سفید" پربھی آتی ہے ۔ اسی طرح بے نیازی اورمحتاجی کی مثال دیتے ہوئےوجود کالفظ دوبارہ ذکرکیاگیاہے ،یہاں "وجود" دراصل "موجود "کے معنی میں ہے،اس میں زیادہ باریکی ہے ،لیکن اس عبارت کومزید واضح کرنے کیلئے میں اس کومزید تفصیل اورتوضیح کے ساتھ ذکرکروں گا جومندرجہ ذیل ہے :
اگرکلی کامعنی اپنے افراد میں مختلف اندازمیں پایاجائے تواس کومشکک(causing of doubt) کہتے ہیں، جیسے وجود اورسفید کالفظ، اب یہ اختلاف چاہے واجب ہونے یاممکن ہونے میں ہوجیسے وجود کالفظ، جوباری سبحانہ میں واجب ہے اوراس کے علاوہ میں ممکن ہے ۔ یایہ اختلاف بے نیازی اورمحتاجی کاہو، جیسے "موجود" کالفظ، جواجسام پربھی بولاجاتاہے، باوجود یہ کہ اجسام کومحل کی ضرورت نہیں ہوتی اوریہ اعراض پربھی بولاجاتاہے، جوکسی نہ کسی محل کے محتاج ہوتے ہیں ،مثال کے طورپر "مشک اورآدمی" جوکہ جسم ہیں ان کوبھی (آپ ) موجود کہہ سکتے ہیں اور"مشک کی خوشبواورآدمی کی بیماری " جوکہ اعراض ہیں اورمحل کے محتاج ہیں ،ان کوبھی موجود کہہ سکتے ہیں، یہ مشک کی خوشبو مشک کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اسی طرح آدمی کی بیماری آدمی کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ مشک موجود ہے اورساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشک کی خوشبوموجود ہے، آدمی موجود ہے اورآدمی کی بیماری موجود ہے، اس کے باوجود کہ وجود کامعنی بے نیازی اور محتاجی کے اعتبارسے ان میں مختلف ہے، (یعنی آدمی کاوجود کسی دوسرے وجود کامحتاج نہیں ،جس کے ذریعے وہ پایاجائے،مگر اس کی بیماری اس کے جسم کے وجود کی محتاج ہے)۔
یایہ اختلاف شدت اورعدم شدت کاہو، یعنی کمی اورنقصان کا، اس کی مثال، "سفید" کالفظ ہے، یہ برف اورہاتھی کے دانت دونوں پربولاجاتاہے، لیکن سفیدی برف میں زیادہ اورہاتھی کے دانت میں کم ہوتی ہے، یا "روشنی " کالفظ، اگرچہ سورج اورچراغ کی روشنی کے درمیان تفاوت ہے، لیکن دونوں کوروشنی کہاجاتاہے۔
تو "وجود، موجود، سفید اورروشنی " کے الفاظ کلی مشکک ہیں اوراس کومشکک اس لئے کہاجاتاہے،کیونکہ اس کودیکھنے والااس شک میں پڑجاتاہے کہ آیایہ متواطی ہے ،کیونکہ حقیتھ توایک ہے، یایہ مشترک ہے کیونکہ کمی بیشی ، وجوب اورامکان اوراستغناء ومحتاجی کااختلاف بھی ہے ۔
آپ کی معلومات کیلئے کہ مشکک اسم فاعل کاصیغہ بھی ہوسکتاہے ،کہ پہلی کاف مشدد ہواوراس کے نیچے زیر ہواوریہ بھی جائز ہے کہ کاف مشدد ہواوراس کے اوپرزبرہو،یعنی اسم مفعول کاصیغہ ہو،یہ دونوں صحیح ہیں، اسم فاعل کامعنی ہوگا شک میں ڈالنے والا اوراس میں شک بھی کیاجاتاہے تویہ مفعول بھی ہوا، لہٰذااسم فاعل اوراسم مفعول ، دونوں ٹھیک ہے۔
امید ہے کہ کلی مشکک کامعنی واضح ہواہوگا۔ اوراگرمناسب معلوم ہواتوکتاب کی اس عبارت کومزید تفصیل اورتوضیح کے ساتھ ترتیب دیں گے۔انشاء اللہ

Read more...

يُخَادِعُونَ ٱللهَ وَٱلَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورایمان والوں کو دھوکہ دیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں مگرسمجھتے نہیں" (البقرۃ:9)  

کچھ عرصے سے امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کی بات کررہا ہے۔ یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر اوبامہ نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "ہماری افواج گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے بارہ سال تک یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کیے بغیر افغانستان سے نکل جائے جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں اس کی افواج کا شیطانی روپ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور اس کی معیشت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ایک وقت پرایسا لگنے لگا کہ اس کی معیشت بالکل ہی ڈوب جائے گی۔ اس وقت امریکہ خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد پر انحصار کررہا ہےبالکل ویسے ہی کہ جس طرح امریکہ پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں فوجیں داخل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن امریکہ کوئی ٹھوس وجہ بیان کر کے اس جنگ کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل کرنے سے قاصرہے، بلکہ کوئی ٹھوس اور سچی وجہ تو کیا وہ کوئی جھوٹا جواز پیش کرکے ہمیں قائل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے پاکستان میں بم دھماکوں اور قتل وغارت گری برپا کرنے کا حربہ استعمال کیاکہ کسی طرح پاکستان کے مسلمان اس جنگ کو اپنی جنگ مان لیں، ایسے دھماکے اورقتل و غارت گری کہ جس سے نہ توہمارے فوجی محفوظ ہیں اور نہ ہی عام شہری، ہمارے بازار ہوں یا عبادت گاہیں ، یہاں تک کہ عورتیں ، بچے، بوڑھے، مسلمان ، غیر مسلم، کوئی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ پس جب یہ بم دھماکے اور قتل و غارت گری ہوتی ہے تو امریکہ کے ایجنٹ فوراًیہ پکارنے لگتے ہیں "دیکھو، یہ ہماری ہی جنگ ہے"۔ یہ ہے وہ شیطانی دھوکہ اور سازش کہ جس کی عمارت لوگوں کی لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے اورمسلمانوں کے خون سے اس عمارت کی بنیادوں کو پختہ کیا گیا ہے!

یہ بات عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں ہے کہ امریکہ ہمیشہ ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یکم دسمبر 2009 کو اوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد اُن کی جنگ نہیں...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے...تو یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کےتین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنا زیادہ اِن کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔

عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات بھی ہےکہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں،افواج اور لوگوں کو تونشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اورامریکی قونصل خانےحملے اور تباہی سےمحفوظ رہیں ۔ حقیقت پر غور کرنے والےاس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ملک میں امریکہ کے داخل ہونے سے قبل ہم کبھی بھی اس قدر تباہی و بربادی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی بھی مخلص اور سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس قسم کی دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جو کہ واضح اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : ((وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ ٱللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً))"اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جانتے بوجھتے قتل کرڈالے ، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہےاوراس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان غیر مسلم ذمیوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو مسلمانوں کے تحفظ کے تحت ہوں ، اور فرمایا ہے کہ ((أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ ٱللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا)) "جس کسی نے ایسے شخص (اہلِ معاہد) کو قتل کر ڈالا کہ جس کے پاس اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی جانب سے تحفظ کا وعدہ موجود ہو تو اُس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا ہوا وعدہ توڑڈالا ۔ پس ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سالوں کے سفر کی دُوری سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے"۔(ترمذی)

درحقیقت، پاکستان میں امریکی موجودگی کا ایک اہم مقصد پاکستان بھر میں بم دھماکے اور قتل کروانا ہے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود مشرف اور کیانی، اورزرداری و نواز شریف جیسے چند مُٹھی بھر غداروں کی مدد سے امریکہ نے پہلے پاکستان کےدروازےاپنے لیے کھلوائے اور پھر انھیں مسلسل کھلا رکھاگیا تا کہ امریکی فوجی، بلیک واٹر جیسی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے کارندے اور انٹیلی جنس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک پاکستان میں داخل ہوسکے اور اپنے قدم جما سکے۔ اس قسم کے امریکی نیٹ ورک لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق بعید تک افراتفری پھیلانے کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ بم دھماکے اور شخصیات کوقتل کروانا اُن کی روز مرہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایجنٹوں کو تیار کر کے مقامی گروہوں میں داخل کرتے ہیں تا کہ آپ کی نگاہوں میں اُس مزاحمت کی قدرو قیمت کو ختم کردیا جائے جو افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف جاری ہے۔ یہ دھوکہ دہی امریکی جنگ کا طرہ امتیاز ہے اور ایسے حملے False flag attacks کے نام سے جانے جاتے ہیں، یعنی خود کاروائی کر کے اس کا الزام دشمن پر ڈال دینا تاکہ اپنی جنگ کےحق میں عوامی حمایت حاصل کی جائے۔

اورامریکہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ اس قسم کی گٹھیا اور شیطانی دہشت گردی کی کاروائیاں روک دے ۔ امریکہ 2014 ءکے بعد بھی پاکستان اور افغانستان میں اپنی افواج، انٹیلی جنس اور کرائے کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ امریکہ اپنی موجودگی کو مزید بڑھا رہا ہے اور اسی لیے وہ اسلام آباد میں ایک قلعہ نما سفارت خانہ تعمیر کررہا ہے، جو دنیا میں امریکہ کا دوسرا بڑاسفارت خانہ ہے۔ دوسری طرف وہ اٖفغانستان میں اپنے لیے 9 اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ بیس ہزار نجی سیکورٹی اہلکاروں کی تعینا تی اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا امریکہ پاکستان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا کیونکہ اس امرکے باوجود کہ ہماری قیادت میں اس کے لیے کام کرنے والے غدار موجود ہیں،پھر بھی وہ ہم پر اور ہماری افواج اور انٹیلی جنس اداروں پربھروسہ نہیں کرتاہے۔ امریکہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ ہم سب میں اسلامی جذبات مضبوطی سے پیوست ہیں اور ہمارے اندرامریکہ کےظلم وجبرکے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ کافر استعماری طاقتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ پوری امت خلافت کے قیام کے لیے کھڑی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ شام ، پاکستان اور دیگر اسلامی علاقوں کی یہ صورتِ حال کفار کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ بم دھماکے دوہرا کام کرتے ہیں ،ایک تو امریکہ ان بم دھماکوں کے ذریعے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کے لیے ہماری حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ان بم دھماکوں کو ایک دباؤ کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ ہم اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور وہ امن مذاکرات کے ذریعے مسلم دنیا کی سب سے طاقتور ریاست پاکستان، کی دہلیز پر اپنی موجودگی میں اضافہ کر سکے۔

اے پاکستان کے مسلمانو! ہم اس وقت تک امن کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہماری قیادت میں موجود غداراپنے آقاؤں کی ہدایت پر ہمیں دھوکہ دینے کے لیے اس صورتحال کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس کی بنیاد ی وجہ کی طرف انگلی نہیں اٹھاتے، اور یہ بنیادی وجہ ہمارے درمیان امریکہ کی موجودگی ہے۔ آپ جان لیں کہ امریکہ کبھی بھی خود بخودہمارے خطے سے نہیں نکلے گا کیونکہ وہ ہماری سرزمین اور ہمارے وسائل کو اپنا سمجھتا ہے کہ انہیں جیسے چاہے لوُ ٹتا رہے۔ امریکہ کولازماً قوت و طاقت کے ذریعے ہی نکالنا ہو گا۔ جب تک امریکہ کو ہم پر دسترس حاصل رہے گی خواہ وہ ایک فوجی اڈےیاقونصل خانےیاانٹیلی جنس دفتر کی صورت میں ہی ہو، وہ ہمارے درمیان شر اور فساد پھیلاتا رہے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ...إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)) "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو...اگر وہ کہیں تم پر قابو پالیں تو وہ تمھارے (کھلے)دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور خواہش کرنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ" (الممتحنہ:1-2)۔

اے افواجِ پاکستان کے افسران! آپ نے اس اسلامی سرزمین اور اس میں رہنے والوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ۔ جو صورتحال اب تک بن چکی ہے اور بنتی نظرآرہی ہے وہ اب آپ کی گردن پرہے۔ اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا اور بچاؤ عین ممکن ہے۔ پس امریکہ کی جنگ کو اس کے منہ پر دے مارو، اس کے دھوکے اور سازشوں کو ناکام بنا دو، اورپاکستان کی سرزمین کو امریکہ کی نجاست سے پاک کردو۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لیے نصرت دیں،جو ایک قابل فقیہ اورمدبر سیاست دان عطا بن خلیل ابورَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے ۔ اُسی صورت میں آپ کا حرکت میں آنا آپ کے دین کی خواہش کے مطابق ہو گا،اور آپ پاکستان اور اس خطے سے صلیبیوں کی موجودگی کے خاتمے کے لیےحرکت میں آسکیں گےاور ان کے فوجی اڈوں ، انٹیلی جنس دفاتر، قونصل خانوں اور سفارت خانوں کا خاتمہ ہو سکےگا۔ تب ہم سے نفرت کرنے والے یہ دشمن یہ جان لیں گے کہ وہ اس امت کی حقیقت کے متعلق اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈالے ہوئے تھے ۔ حزب التحریر نے خلافت کے قیام کا عَلم بلند کررکھا ہے اور اس کی یہ دعوت آپ کے ہر گوشے میں پہنچ چکی ہے ۔ تو کیا آپ جواب دیں گے؟! ((إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ))"اس میں ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو سمجھنے والاقلب رکھتا ہو اور وہ متوجہ ہو کر کان لگائے" (ق:37)

 

Read more...

نوا زشریف کا دورہ امریکہ دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کے ہزاروں شہداء کے خون سے غداری ہے

نواز شریف کا دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور ملک بھر میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی نگرانی میں ہونے والےبم دھماکوں میں شہید ہونے والے ہزاروںشہریوں اور فوجیوں کے خون سے غداری ہے۔ امریکہ پچھلے نو سالوں سے ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑا رہا ہے جس میں ہزاروں شہری اذیت ناک موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ایٹمی قوت کے سربراہ نے کسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اورپاکستان میں امریکی راج کو مزید مضبوط کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا ۔ اگر وینزویلا جیسا کمزور، امریکہ کا پڑوسی ملک، محض اپنے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے الزام پر ایک سے زائد بار امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکا ہے اور امریکہ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت، جن کی نمائندگی نواز شریف اور کیانی کررہے ہیں کیوں امریکہ سے تعلقات منقطع نہیں کرسکتے؟
کیانواز شریف کادورہ امریکہ ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے کے لیے اوبامہ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ کچھ اور مقصد رکھتا تھا؟ چودہ سال قبل جب امریکیوں نے یہ دیکھا کہ نواز شریف اب ان کے کام کا نہیں رہا تو اسےتنہا چھوڑ دیا تھا۔ اور بھر جب پاکستان میں امریکی راج کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس اعلیٰ درجے کے غداروں کی قلت ہو گئی تو نواز شریف کو تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر واپس لے آیا! لیکن غیرت سے نہ آشنا نواز شریف خطے میں جاری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اپنی اب تک کی کارگزاری سے اوبامہ کو آگاہ کرنے اور 2014 تک محدود انخلاء کے ڈرامے کے ذریعے خطے میں امریکہ کی مستقل موجودگی کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے مزید ہدایات وصول کرنے، واشنگٹن، اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گیا ۔ اس بات کا ثبوت کہ یہ دورہ خطے میں جاری امریکی جنگ میں پاکستان کے کردارکو جاری و ساری رکھنے کے لیے تھا، خود اوبامہ نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ کہہ کر دیا کہ "میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان سلامتی کے امور پر ہونے والے تعاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہوں "۔
پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی گھوڑے ہیں۔ ہر آنے والا آمر و جمہوری حکمران ہمیں سیاسی و معاشی لحاظ سے مزید امریکی غلامی میں مبتلا کردیتا ہے اور پھرامریکہ کے ہاتھوں سانحہ ایبٹ آباد اور سلالہ جیسے ذلت آمیز واقعات کا سامنا کرنے کے باوجود قوم سے یہ کہتا ہے کہ امریکہ سے تعلقات ناگزیر ہیں۔صرف خلافت ہی پاکستان کو امریکہ کی سیاسی و معاشی غلامی سے اسلام کے مکمل نفاذ کے ذریعے نکالے گی، امریکی سفارت کاروں، فوجیوں اور نجی سیکورٹی اہلکاروں کو ملک بدر، امریکہ سفارت خانے اور قونصل خانے بنداور ملک سے امریکی راج کا خاتمہ کرے گی۔ لہٰذا افواج میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں اورحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

ہر قسم کی امریکی امداد زہر قاتل ہے اور اس کا خاتمہ کرنا اس کو جاری رکھنے سے ہزار مرتبہ آسان ہے

امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ساکی( Psaki) نے 10اکتوبر 2013ءکو کہا کہ اگر مصر نے جمہوری منتخب حکومت کے قیام کی طرف قابل ذکر پیش رفت نہ کی تو واشنگٹن مصر کی فوجی اور اقتصادی امداد منجمد کردے گا۔ 10 اکتوبر 2013ءکی پریس کانفرنس کے دوران امریکی عہدیداروں نے بھی اس موضوع کے حوالے سے کچھ کہا، جسے اخبارلاس اینجلس ٹائمز( Los Angeles Times) نے یوں بیان کیا کہ "خطے میں امریکی سیکوریٹی مفادات کالب لباب یہ ہے ،جس میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ بھی شامل ہے، کہ امدادکی معطلی یا کمی کے باوجود اس کے مفادات کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہونا چاہیے"۔
تاہم ان امریکی بیانات کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بالآخر مصر کو دی جانے والی اپنی زہریلی امداد کا خاتمہ کررہا ہے۔ بلکہ ان بیانات کا مقصد نئی حکومت کو دھمکانہ ہے کہ وہ امریکی مطالبات کے مطابق عمل کرے تا کہ کوئی بھی عمل امریکہ کی مرضی کے خلاف نہ ہونے پائے۔ جب سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی استعماری طاقت کے روپ میں داخل ہوا ہےوہ اقوام کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے ، ان کو اپنے کنٹرول میں لانے اور اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیےامداد کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔ 2اکتوبر1950ءکو استنبول میں عرب ممالک میں موجود امریکی سفارت کاروں کا ایک اجلاس ہوا تھا،جس کی سربراہی امریکی دفتر خارجہ کا نمائندہ جارج میگی کر رہا تھا،اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ "ملک کے عوام کی مدد کو خطے میں داخل ہونے کے لیے ایک اسلوب کے طور پر اختیار کیا جائے"۔ یہ استعماری کفار کا پرانا طریقہ کار ہے کہ وہ اپنے زہر کو ایسے خوبصورت نام دیتےہیں کہ خطے کے عوام اس کو میٹھا شربت سمجھ کر پی لیں۔
یہ زہریلی امداد جسےوہ "باہمی تعاون" کہتے ہیں ،امریکی پالیسی کا اہم ستون ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ مختلف علاقوں میں مکمل طور پر داخل ہوسکے اور اپنے ایجنٹ پیدا کرسکے اور اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کی دولت کو لوٹ سکے اوروہاں بسنے والے لوگوںکا خون چوس سکے۔ امریکہ نے امداد کے اس طریقہ کار کو انڈونیشیا کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ جب سوکارنو نے 1950 کی دہائی میں امریکی امداد لینے سے انکار کیا تو امریکہ مختلف حیلے بہانوں سے اسے اُس وقت تک ڈراتا دھمکاتا رہا جب تک اُس نے اِس امریکی امداد کو قبول نہیں کرلیا۔ اور اس کے بعد امریکی اثرورسوخ انڈونیشیا میں سرایت کر گیا اور آج تک انڈونیشیا امریکی شکنجے سے نکل نہیں سکا۔
لہٰذا ، جسے امریکہ انسانیت کے لیے امداد کہتا ہے وہ اس کی معاشی لغت کے مطابق ایک استعماری منصوبہ ہے جسے وہ اپنے دوستوں کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد یورپ کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے" مارشل منصوبے" کے ذریعے امریکی کمپنیاں کئی یورپی معیشتوں میں گھس گئیں۔ اوردس سال بعد صورتِ حال یہ ہوگئی کہ یورپی معیشت کسی حد تک امریکی کمپنیوں کی ہی ملکیت بن کر رہ گئی۔ اگرچہ گزشتہ سالوں کے دوران اس حقیقت میں کسی قدر کمی آئی ہے لیکن یورپی معیشت پر امریکی کمپنیوں کا اثرو رسوخ آج بھی باقی ہے۔
ایسی کسی بھی قسم کی امداد شیطانی ہے کیونکہ حقیقت یہ بتاتی ہے کہ کافر استعماری ریاستیں خصوصاً امریکہ صرف اور صرف اپنی بالادستی اور اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے امداد فراہم کرتی ہیں،جس کے ذریعے وہ اپنے مفادات اور یہودی ریاست کے مفادات کے حصول کو یقینی بناتی ہیں۔ چنانچہ وہ مجرمامہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کہ جو امریکہ کی سرپرستی میں یہودی ریاست کے ساتھ کیا گیا تھا ، اسی میں مصر کے لیے یہ امداد بھی طے کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی ریاست کے عہدیدار بھی مصر کو فراہم کی جانے والی امریکی امداد میں کٹوتی کے اعلان پر فکر مند ہو گئے ہیں کیونکہ یہودی ریاست"مصر کے لیے امریکی امداد کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا ایک اہم ستون سمجھتی ہے"۔ یہ امریکی امداد سرا سر نقصان دہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ہے ((لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)) "نہ نقصان اٹھانا ہےاور نہ نقصان پہنچانا ہے"( الحاکم نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کوروایت کیاہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی امام مسلم کی شرائط پر پورا اترتے ہیں،اگرچہ مسلم اس کو روایت نہیں کر سکے۔
ایسی امداد کو قبول کرنا اسلام کی رُو سے ایک عظیم جرم ہے کیونکہ اس کے ذریعے کافر استعماری طاقتوں کو یہ موقع فراہم ہوتا ہے کہ وہ معیشت اور سیاست پر اثر انداز ہو کر مسلم علاقوں میں داخل ہوسکیں۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے : وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا"اللہ نے کفار کو ایمان والوں پر کوئی راہ(اختیار) نہیں دیا"(النساء:141)۔
یہ تو اس امداد کاایک پہلو تھا۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ مصر کی سالانہ پیداوار(جی۔ڈی۔پی) کے مقابلے میں اس امداد کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ امریکہ کی سالانہ 1.5ارب ڈالر کی امداد مصر کی کُل سالانہ قومی پیداوار کے0.3فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اور یہ بتانے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں کہ اس امداد کی اُس دولت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں جو مصر اپنے تیل ، گیس اورمعدنیات کے ذخائراور نہر سوئز میں سے گزرنے والی ٹریفک سے حاصل کر سکتا ہے۔ نہر سوئز سے گزرنے والے بحری جہازوں پر عائد ٹیکس میں معمولی سا اضافہ ہی اس امداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ رقم مہیا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودی ریاست کو فراہم کی جانے والی گیس کی فراہمی کو بند کر کے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ گیس یہودی ریاست کو انتہائی معمولی قیمت پر فراہم کی جارہی ہے۔ اس گیس کو عالمی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق فروخت کرنے پر اس امداد سے کئی گنا زیادہ رقم حاصل ہوجائے گی۔ اور مسلمان ویسے بھی یہودی ریاست کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، جس نے اسراء ومعراج کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ شرعاًیہ بات ہرگز جائز نہیں کہ یہودی وجود کے ساتھ کسی بھی حوالے سے پر امن تعلقات کو قائم کیا جائے ،خواہ یہ سیاسی تعلقات ہوں یا معاشی۔
جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جنھیں خوب پھیلایا گیا ہے کہ اگر مصر اس امداد سے محروم ہو گیا تو وہ معاشی بحران اور غربت کا شکار ہو جائے گا، تو یہ ایک کمزور اور بودی بات ہے۔ مسلم ممالک کی غربت ایک مصنوعی غربت ہے جس کی وجہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں اورامت کے امور کے متعلق فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ امت کی دولت اور اثاثوں کو بدعنوانی کی نظر کردیتے ہیں، جو ملک اور اس کے عوام کے لیے شدید معاشی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ بجائے یہ کہ عوامی اثاثوں کو امت پر خرچ کیا جائے ، جو کہ امت کا حق ہے، ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی دولت بڑے بڑے مگرمچھوں کے بینک اکاؤنٹوں میں خاموشی سے اور کھلے عام منتقل ہو جاتی ہے،خواہ یہ اکاونٹ اندرونِ ملک ہوں یا بیرونِ ملک۔ پھر امریکی زہریلی امداد کے ذریعے ملک کو عالمی بینک اور آئی.ایم.ایف کے شکنجوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ہے مسلم ممالک میں غربت کی اصل وجہ جبکہ اللہ نےااس امت کو اتنے وسائل عطا کر رکھے ہیں کہ جو اس کی ضرورت سے بھی زیادہ ہیں، بشرطیکہ ان وسائل کو ویسے ہی استعمال کیا جائے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔
اے مصر کے مسلمانو! آپ پر لازم ہے کہ آپ اس امداد کو مسترد کردیں بجائےیہ کہ امریکہ اس کی معطلی کی دھمکی آپ کو دے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ اس زہریلی امداد کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ امداد کو مسترد کردینا امریکہ اور یہودی ریاست کے لیے ایک تباہ کن جواب ہوگا ۔ یہ وہ کام ہے جس میں ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس کے لیے ہمیں انتہائی شدید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ اُن کے زہر کو اُن کے ہی منہ پر دے مارو ، نہ کہ ہمارا موقف وہ ہوکہ جو مصر کی وزارت خارجہ کے ترجمان بدر عبدالعاطي نے کہا کہ "(امریکہ کا) یہ فیصلہ اپنے وقت اور مواد کے حوالے سے نامناسب ہے"۔ اوراس نے مزید کہا کہ "مصر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کو جاری رکھنا چاہتا ہے"۔
یہ "جنرل سیسی بغاوت" کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس امداد کو اپنے آقاؤں کے منہ پر دے مارے اور امریکی زہر کو خود اس کے گلے میں انڈھیل دے تا کہ وہ یہ جان لیں کہ مصر کی سرزمین کے لوگ طاقت اور عزت کے لیے صرف اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بغاوت ایسا کرنے سے کوسوں دور ہے بلکہ یہ تو اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، تا کہ لوگ صرف وہی دیکھیں اور سنیں جو یہ دکھانا اور سنانا چاہتے ہیں، جیسا کہ اس سے قبل فرعون نے کہا تھا : قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى" فرعون نے کہا میں تو تمھیں وہی بتارہا ہوں جو میں خود دیکھ رہا ہوں "(غافر:29)۔ ایک ایسی جان کا قتل جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، قاتل کو اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں برباد کردے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ(حج) کے دن لوگوں سے کہا تھاکہ ((إِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا))" تمھارا خون، تمھاری دولت، تمھاری عزت ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی حرمت والی ہے جیسا کہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ شہر"(بخاری)۔ جس کسی نے بھی کسی جان کو ناحق قتل کیا ، اُس نے اِس دین اور امت کے خلاف جرم کیا اور اس کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ "وہ وقت قریب ہے جب یہ مجرم اپنی مکاریو ں کی پاداش میں الله کے ہاں ذلت اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے" (الانعام :124)۔ یہ تو وہ کچھ ہے جو پہلے گزرے ہوئے ظالموں کے ساتھ ہو گا،اور عقل مند وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ پیش آئے حالات سے سبق لے۔
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْأَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَشَهِيدٌ
"اس میں ہر اس کے لیے عبرت ہے جس کے پاس سمجھنے والا قلب ہواوروہ متوجہ ہو کر کان لگائے"(ق:37)

Read more...

قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مرجاؤ" (آل عمران:119) کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" جاری کر دی گئی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عالمی سطح پر پاکستان میں خلافت کی سب سے مضبوط اور ممتاز آواز نوید بٹ کی رہائی کے لیے حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو رشتہ کی قیادت میں چلائی جانے والی مہم کو ایک کتابی صورت میں جاری کر دیا ہے۔ نوید بٹ 11 مئی 2012 سے جنرل کیانی کے غنڈوں کی قید میں ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے وفود اور مظاہروں کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ لاپتہ ضرور ہیں لیکن انھیں کبھی بھی بھلایا نہیں گیا ہے۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کو اس با ت کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اس عالمی مہم نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اپنے ہی غصے کی آگ میں جلنے پر مجبورکر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ایجنٹوں کو متحرک کر کے میڈیا کے ذریعے دھمکی آمیز رپورٹز جاری کرائیں جس میں نوید بٹ کی زندگی کو درپیش خطرے کا ذکر کیا گیا۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان غداروں اور ان کے آقاوں کو قرآن کے الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتی ہے کہ: قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ" (آل عمران:119)

حزب التحریر انھیں یقین دلاتی ہے کہ ان کا جبر صرف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ سچ کی قوت سے محروم ہیں، ان کا ظلم مظلوموں کی دعا کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے، خلافت کے قیام کے عمل کو تیز تر کرتا ہے کہ مسلمان کبھی بھی ظالم کے جبر سے ڈر کر بھاگتے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ان کو غضب ناک کر دیتی ہے۔ حزب التحریر جنرل کیانی اور دیگر عہد شکنوں کو نوید بٹ پر اب تک کیے جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انھیں سختی سے خبردار کرتی ہے کہ اگر نوید بٹ کو مزید کوئی نقصان پہنچایا گیا چاہے اس کے سر کا ایک بال توڑنا ہی کیوں نہ ہو، تو ان کا یہ عمل خلیفہ راشد کے ہاتھوں ان کی سزا کو شدید تر کر دے گا۔ اور آخرت کی سزا تو اس سے بھی زیادہ شدید تر ہو گی۔ تو کیا وہ کوئی سبق لیں گے!

اس کے علاوہ جیسا کہ حکومت امت کی انصاف کی پکار کے سامنے گرتی جا رہی ہے، حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کے عظیم بیٹے نوید بٹ کی رہائی کے لیے جاری سیاسی مہم میں مزید تیزی لائے گی۔ لہذا حزب امت کو پکارتی ہے خصوصاً ان بیٹوں اور بیٹیوں کو جو میڈیا، قانون کے شعبے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے منسلک ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں جب تک نوید بٹ کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" اس ویب لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے:

http://pk.tl/1coW

نوٹ: اس مہم سے متعلق دیگر کتابچے مندرجہ ذیل ویب لنکس سے حاصل کیے جاسکتے ہیں:

نوید بٹ کی امریکی راج کے خلاف جدوجہد "کلمہ حق":

http://pk.tl/1bnL

نوید بٹ کی کتاب "جمہوریت مسائل کی جڑ ہے":

http://pk.tl/1coX

Read more...

عالمِ جلیل ،امیر حزب التحریر،عطا بن خلیل کا رمضان کے موقع پر پیغام

ان مخلص بھائیوں کی طرف جو اسلام کی دعوت کے علمبردار ہیں ...
اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف...
السلام علیکم
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)''اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھا گیا تھا، تا کہ تم تقوی اختیار کرو‘‘(البقرة:183)۔ اور اللہ بزرگ و برتر نے فرمایا کہ ( فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ)''تم میں سے جو شخص ا س (رمضان کے)مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے‘‘(البقرة:185)۔ اوربخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :((صومو ا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلا ثین یوماً )) ''اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے رکھناختم کرو۔ اوراگرآسمان ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو‘‘ (بخاری)۔ اور مسلم نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ((صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملوا العدد)) '' اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرواور اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کر لو‘‘۔''
اس سال منگل کی رات کو ماہِ رمضان المبارک کے چاند کو دیکھنے اور تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی لہٰذا منگل کا دن انشأ اللہ شعبان کے مہینے کا ہی تسلسل ہے اور بدھ رمضان المبارک کا پہلا دن ہے۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کے روزے اور راتوں کا قیام قبول فرمائے اور اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ((من صام رمضان ایمانا واحتسباً، غفر لہ ما تقدم من ذنبہً))''جس کسی نے ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادیں گے‘‘۔ اور ابو ہریرہ ایک اور روایت میں رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ((من قام رمضان ایماناً واحتسباً، غفر لہ ما تقدم من ذنبہ))''جس کسی نے ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے راتوں کو قیام کیا تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادیں گے‘‘۔
محترم بھائیو ،سن دو ہجری سے اللہ سبحانہ و تعالی نے رمضان کے مہینے میں روزے رکھنافرض کیا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ)''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ، جو لوگو ں کے لیے ہدایت ہے اوراس میں حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔‘‘(البقرة:185)
یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کو زبردست فتوحات اور کامیابیوں کے ذریعے عزت بخشی۔ 17رمضان المبارک کو بدر کے میدان میںمشرکین مکہ کو شکستِ فاش ہوئی ۔ دیگرکئی اہم جنگیں بھی اسی مہینے میں لڑیں گئیں ۔ مکہ سن 8ہجری میں رمضان کی 20تاریخ کوفتح ہوا۔ بویب کی جنگ میں اللہ نے مسلمانوں کو مثنہ کی قیادت میں 31ہجری میںفتح یاب کیا اور یہ رمضان کی 14تاریخ تھی۔ یہ جنگ موجودہ کوفہ کے قریب لڑی گئی جو کہ ُاس وقت سلطنتِ فارس کا حصہ تھا۔ عموریا کی جنگ معتصم کی قیادت میں 17رمضان213ہجری میں لڑی گئی۔ اور مسلمانوں نے تاتاریوں کوعین جالوت کی جنگ میں 25رمضان658ہجری میں شکست دی ۔ اس طرح اللہ نے رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کوکئی کامیابیاں عطا فرمائیں۔
روزوں کا ذکر قرآن کے ساتھ کیا گیا کہ جس میں باطل کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتا.....اور روزوں کا تعلق زبردست فتوحات اور کامیابیوںکے ساتھ بھی ہے......اور روزوں کاذکر جہاد کے ساتھ کیا گیا ہے......اور روزوں کا ذکر اللہ کے قوانین کے نفاذ کے ساتھ کیا گیاہے.......اور جو شخص بھی غور کرتاہے وہ یہ جان جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کے قوانین کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ،چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا جہاد سے ، معاملات سے ہو یا اخلاقیات سے، جرائم سے ہو یا سزاؤں سے۔ یہ تمام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں اور جو کوئی قرآن کی آیات پر غور و فکر کرتا ہے وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ بات قرآن کی آیات سے واضح ہے۔ اسی طرح روزوں سے متعلق آیات اور جو کچھ ان سے پہلے اور بعد میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے یہ واضح ہے کہ:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزے کے متعلق آیات سورة بقرة میںنازل کیں جن کی ابتدأ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:( لَّیْْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ)''ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً اچھا شخص وہ ہے جو اللہ تعالی پر ،قیامت کے دن پر ،فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو...‘‘۔(البقرة:177) یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ (اُولَئِکَ لَہُمْ نَصِیْب مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ)''یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘(البقرة:202)
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان آیات(یعنی البقرة:177-202) میں تقوی ، ایمانیات، روزوں، دعاؤں کے متعلق احکامات بیان کیے گئے ہیں، اوران آیات میں حکمرانوں اور حرام مال کے متعلق احکامات بھی ہیں اور اللہ کی راہ میں لڑائی یعنی جہاد اور حج کے متعلق احکامات بھی۔ اللہ کے تمام قوانین کو ایک ساتھ ہی قبول کیا جاتا ہے اور کوئی ایک قانون کسی دوسرے قانون سے یا کوئی ایک فرض کسی دوسرے فرض سے مختلف نہیں ، کیونکہ ان تمام احکامات کو نازل کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی ذات ہے کہ جس نے معاملات، سزاؤں،سیاست،جہاد ، اخلاقیات ،کھانے پینے اور لباس غرض یہ کہ ہر چیز کے متعلق قوانین نازل کیے ہیں۔ اور ان تمام قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل لازم ہے۔ عبادت کرنے کی فرضیت با لکل ویسے ہی ہے جیسا کہ معاملات کی، سزاوں پر عمل درآمد کی فرضیت بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ خلیفہ کو بیعت دینے کی اور جہاد اور دیگر احکام کی ۔ اس بات کی بالکل اجازت نہیں کہ ہم ان احکامات میں تفریق کریں کیونکہ اسلام ایک کُل ہے جس کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتااور اسلام کی دعوت بھی ایک ہی ہے کہ اسلام کو ریاست، انسانی زندگی اور معاشرے میں ایک کُل کے طور پر نافذ کیا جائے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اللہ کی آیات میں فرق کرتا ہے اور دین و دنیا کی جدائی کی دعوت دیتا ہے یا دین اور سیاست کی جدائی کی بات کرتا ہے ،وہ ایک بڑا گناہ اور جرم کرتا ہے ،جو اُس کے لیے اس دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب کا باعث بنے گا۔
اور پھر اللہ نے سورة بقرہ کی روزوں سے متعلق آیات کے درمیان دعا کا ذکر کیا اور فرمایا (وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ)''جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ،میں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،قبول کرتا ہوں، تو لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ،یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘(البقرة:186)
یہاں اللہ سبحانہ و تعالی نے پہلے روزے رکھنے کا حکم دیا ،پھر دعا کا حکم دیا اور اس کے بعد پھر روزوں کا تذکرہ کیا، تا کہ دعا کی اہمیت کو واضح کر دیاجائے۔ لہٰذ ا ہمیں چاہئے کہ ہم رمضان میں اپنی دعاؤں میں اضافہ کریں کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ثلاثة لا ترد دعوتھم الامام العادل و الصائم حتی یفطر و دعوة المظلوم تحمل علی الغمام، و تفتح لھا ابواب السماوات، ویقول الرب عز و جل : و عزتی لانصرنک و لو بعد حین)) '' تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: افطار کے وقت روزہ دار کی دعا، عادل حکمران اور مظلوم کی دعا۔ اللہ ان کی دعاؤں کو بادلوں سے اوپر اٹھا تا ہے اور ان دعائوں کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ فرماتاہے ،مجھے میری شان کی قسم!میںضرورتمھاری مدد کروں گا اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہی ہو‘‘۔ (امام احمد بن حنبل نے ابوہریرہ سے روایت کیا)۔ روزے سے متعلق آیات کے درمیان دعا کو ذکر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی اس ماہ میں دعاؤں کو بڑھانے کی تاکید فرمارہے ہیں اور ان آیات میں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ سنتا ہے کیونکہ وہ قریب ہے اور اپنے بندوں کے سوال کا جواب دیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے روزوں کی حفاظت کرنی ہے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سے راضی ہوجائیں اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ ہمیں خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے سنجیدہ اور شدید جدوجہد کرنی ہے،کہ جس کے قیام کے بغیر اسلامی طرزِ زندگی کا دوبارا آغاز نہیں ہو سکتا، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے 'العقاب' یعنی کلمہ طیبہ والے جھنڈے کے سائے تلے اللہ کے قوانین کو نفاذکیا جائے اور ہمیں نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہو بلکہ ہم اس دن بھی سرخروہو سکیں کہ جس دن اللہ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس بابرکت مہینے میں ہمارے روزوں کو قبول فرمائے جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اور جب اگلا رمضان آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے والی خلافتِ راشدہ موجود ہو ،جو ہمیں عزت بخشے گی اور اس امت کو باقی تما م امتوں سے ممتاز اور برتر بنا دے گی، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کے متعلق بیان کیا ہے:(کُنْتُمْ خَیْْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ) ''تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے واسطے پیدا کیے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(آل عمران:110)۔
اور اس خلافت کا حکمران خلیفہ ایسا ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((انَّمَاالاِمَامُ جُنَّة یُقَاتَلُ مِن وَّرَائہِ وَیُتَّقٰی بِہ)) ''بے شک خلیفہ ایک ڈھال کی مانند ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتاہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہو تاہے ‘‘(مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کیا)۔ وہ خلیفہ شام کی سرزمین سے جابروں کو اکھاڑ پھینکے گا اوراس کے مسلمانوں ، بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو ظالموں سے نجات دلائے گا.......اور ہم اس خلیفہ کی حفاظت میں اسلام کی سرزمین سے جابروں کا خاتمہ کریں گے اور اسلام کے قوانین کو نافذ کریں گے۔ تا کہ مصر اور باقی مسلم دنیا میں اللہ کے قوانین کے عدم نفاذ کی وجہ سے جو بد امنی اور فساد برپاہے ،اس کا خاتمہ ہو....اور پھر وہ خلیفہ فلسطین کی آزادی اور یہودی ریاست کی غلاظت کے خاتمے میں ہماری قیادت کرے گا اوراسرأ و معراج کی سرزمین کی عزت و عظمت کو اسلام اور اس کی افواج کے ذریعے بحال کرے گا........اور ہم اس کے پیچھے رہ کر کشمیر اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کے لیے استعماری کفار سے جہاد کریں گے یہاں تک کہ اسلامی سرزمین کا ایک انچ بھی اسلام کے سائے سے محروم نہیں رہے گا۔
( وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ)
''اس روز مسلمان اللہ کی مدد و نصرت سے شادمان ہوں گے۔ وہ جسے چاہتا ہے فتح عطا کرتا ہے ۔ وہی غالب ہے اور بڑا مہربان ہے‘‘(الروم:4-5)
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو رَشتہ، امیر حزب التحریر

Read more...

شام میں مسلمانوں کی مدد کرنا صرف طالبان کی نہیں بلکہ افواج پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے

روزنامہ ڈان نے 15جولائی2013کو یہ رپورٹ کیا کہ ''پاکستانی طالبان نے شام میں کیمپ قائم کر لیے ہیں اور سیکڑوں جنگجو صدر بشار الاسد کے خلاف باغیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے بھیجے ہیں''۔ یہ بھی کہا گیا کہ ''پاکستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے کہا ہے کہ پاکستان بھر میں صوبائی انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جنگجو ملک سے شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ لیکن تین پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے جو افغانستان سے منسلک قبائیلی علاقوں میں تعینات ہیں اور عسکریت پسندوں نے یہ کہا ہے کہ عسکریت پسند شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں جن میں القائدہ، پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی کے اراکین شامل ہیں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں کہ﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾''اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے'' (الانفال:72)اور شام کے لوگوں نے امت مسلمہ، اس کی افواج اور ان کے حکمرانوں کو ہزاروں بار پکارا کہ ان کی مدد کی جائے یہاں تک کہ وہ ان سے مایوس ہوگئے لیکن اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہذا انھوں نے اپنے مقدس انقلاب میں شام کے جابر کے خلاف یہ نعرہ اختیار کیا کہ ''اے اللہ ہمارا تیرے سوا کوئی نہیں ہے''۔ اسلام امت مسلمہ سے ،جس میں پاکستان کے مسلمان بھی شامل ہیں، شام کے مسلمانوں کی حقیقی مددکے لیے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان اپنی افواج کو شام بھیجے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے۔ وہ اپنے جنگی جہاز،ٹینک اور کمانڈوز بھیجے جو بشار کے قلعے کو مسمار کردیں اوراس کے غنڈوں، اور منافق ریاستوں میں سے جو کوئی بھی بشار کی مدد کررہے ہیں ان کو بھی برباد کردیں۔ پاکستان کے مسلمان اسلامی نقطہ نگاہ سے محض چند مجاہدین یا زکوة کی رقم یا کھانے کی اشیأ بھیج کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک وزارت خارجہ کی اس تردید کا تعلق ہے کہ طالبان کی چند عناصر شام میں اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے گئے ہیں تو یہ تردید اس بات کی تصدیق ہے کہ کیانی و شریف حکومت بشار کے ظلم و جبر کی حمائت کررہے ہیں۔ یہ حکومت اس بات کو جرم سمجھتی ہے جو چند مسلمان ایک دوسرے کی مدد کر تے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔ یہ تردید اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ یہ حکومت مغرب کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے جس نے مسلمانوں کی زمینوں کو تقسیم کیا اور پھران غداروں کو حکمران بنا کر ان مصنوعی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔یہ صورتحال اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارے حکمران اس عظیم امت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ﴾''یہ تمھاری امت، ایک امت ہے اور میں تمھارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو''(الانبیأ:92)۔
کیانی و شریف حکومت نے شامی انقلاب کے خلاف وہی شرمناک موقف اختیار کررکھا ہے جو کافر مغربی ممالک نے اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ بشار کی حکومت کی خفیہ اور کھلی حمائت کرتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم برے وہ ہیں جو شام کے مظلوم لوگوں کو بشار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے انگلی تک نہیں ہلا تے بلکہ خاموشی سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی کررہے ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان کی حکومت بشار الاسد کی حکومت کی طرح امریکہ کی حمائتی ہے۔ لہذا وہ طالبان جنگجوجو شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے گئے ہیں اس بات سے خبردار رہیں کہ ان میں اس ایجنٹ حکومت کے کارندے شامل نہ ہوجائیںتا کہ شام کے انقلاب کو کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے اور بشار اور کیانی و شریف حکومت کے اصل آقا امریکہ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکے۔
افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! کیا تم نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں موجود حکومت نے افواج پاکستان کو دنیا بھر میں امریکی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے تا کہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور صرف صلیبیوں کے مفادات ہی کی تکمیل ہو؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ امریکہ نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے کے لیے ہماری افواج کو استعمال کیا تا کہ خطے میں امریکی راج کو قائم کیا جاسکے؟ اور انھوں نے استعمال کیا تھااور اب بھی افغانستان میں امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور ان تمام مزاحمتی قوتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں جو خطے میں امریکی راج کی مخالف ہیں؟ تم امریکی حمائتی کہلائے جانے کو کیسے قبول کرسکتے ہو اور اس بات کو بھی کیسے قبول کرسکتے ہو کہ ایک طرف بزدل امریکیوں کو بچانے 1993میں صومالیہ جیسے دور دراز کے ملک پہنچ جاؤں اور شام کے مسلمانوں سے منہ موڑ لو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ((إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ)) ''اگر شام کے لوگوں میں بگاڑ آ گیا تو پھر تم میںکوئی خیر باقی نہیں رہے گی''(احمد)۔
شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اکھاڑ پھینکو اور اختیار حزب التحريرکے سپرد کردو، اس کے امیر ، مشہور فقیہ،عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قرآن و سنت کے نفاذپر بیعت کرو اور وہ تمھارے خلیفہ کے طور پر شام کے مسلمانوں کو جابر کے ظلم سے نجات کے لیے فوج کشی کریں اور افغانستان اور عراق کو امریکی قبضے سے نجات دلاتے ہوئے شام کی جانب بڑھیں۔ اللہ کی قسم تم اس قابل ہو اور تم اللہ کی مدد سے ایسا کرسکتے ہو اور آج کے بعد اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی سے اجتناب کرنے کے لیے تم میںسے کسی کے پاس اب کوئی حیلہ یا جواز نہیں ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے''(یوسف: 21)

Read more...

تفسیر  سورہ البقرہ آیات  83 تا 86

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ (83)
﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ﴾ (84)
﴿ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ (85)
﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ (86)
" اور(وہ زمانہ یاد کرو)جب ہم نے (توریت میں)بنی اسرائیل سے وعدہ لیاکہ اللہ کے سوا( کسی اورکی) عبادت مت کرنا اورماں باپ کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنااور قرابت داروں کی بھی اوریتیموںکی بھی اورغریب محتاجوں کی بھی اور جب عام لوگوں سے (کوئی)بات (کہناہوتو) اچھی طرح(خوش خلقی سے) کہنااورنماز کی پابندی کرنااورزکوٰة اداکرتے رہنا،لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھرگئے ،اورتمہاری تومعمول کی عادت ہے، اقرارکرکے ہٹ جانا ۔ اور(وہ زمانہ یاد کرو)جب ہم نے تم سے یہ وعدہ(بھی) لیا کہ (خانہ جنگی کرکے) باہم خونریزی مت کرنااورایک دوسرے کوجلاوطن مت کرنا،پھر( ہمارے اس اقرارلینے پر)تم نے اقراربھی کرلیا،اوراقراربھی (ضمناً نہیں بلکہ) ایساکہ گویاتم (اس پر)شہادت (بھی) دیتے ہو۔ پھراس (اقرارصریح کے بعد) تم (جیسے ہو)یہ(آنکھوں کے سامنے )موجود ہےکہ باہم قتل وقتال بھی کرتے ہواورآپس کے ایک فرقے کوجلاوطن بھی کرتے ہو(اس طورپر) کہ ان اپنوں کے مقابلہ میں (مخالف قوموںکی) طرف داری کرتے ہو،گناہ اورظلم کے کاموںمیں(سوان دونوں حکموں کوتویوں غارت کیا)اور(ایک تیسراحکم جوسہل سمجھااس پرعمل کرنے کوخوب تیاررہتے ہوکہ )اگران لوگوں میں سے کوئی قیدی ہوکرتم تک پہنچ جائے توایسوں کوکچھ خرچ کراکررہاکرادیتے ہولیکن ان کانکالناجوتم پر حرام تھا (اس کاکچھ خیال نہ کرتے)۔ کیاتم کتاب (توریت )کے بعض (احکام )پر ایمان رکھتے ہواوربعض (احکام)پرایمان نہیں رکھتے تواورکیاسزاہونی چاہئے ایسے شخص کی جو ایسی حرکت کرے ماسوائے دنیاوی زندگی میں رسوائی کے اور قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی مارکے اوراللہ تعالیٰ (کچھ) بے خبر نہیں تمہارے اعمال (بد )سے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیاکی زندگی کوآخرت کے بدلے مول لیاہے ان سے نہ توعذاب ہلکے ہوں گے اورنہ ان کی مدد کی جائے گی۔"
عطاءبن خلیل ابوالرَشتہ(امیرحزب التحریر)نے اپنی تفسیر التیسیر فی اصول التفسیرمیں ان آیات شریفہ کی تفسیریوں کی ہے:
-1 ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالی ٰ ہمیں یہ خبردیناچاہتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیاتھاکہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے ،یہاں ﴿لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ﴾ جوکہ نہی کے معنی میں ہے ،یعنی اللہ کےسوا کسی اورکی عبادت مت کرنا، اوریہ کہ اپنے والدین کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنا ،یتیموں ،مسکینوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنا ، اوریہ کہ لوگوں کے ساتھ بات چیت میں خوش اخلاقی کامظاہرہ کں ۔ ان آیات میں حُسنًاآیاہے ،اس کودونوں طرح پڑھاجاسکتاہےحُسناًاور حَسَناًاور یہ دونوں متواتر قراءت ہے۔
اوریہ عہد لیاتھاکہ نماز قائم کریں اورزکوٰة دیاکریں،لیکن انہوں اس عہد کی پاسداری نہیں کی،بلکہ اس سے پھر گئے اورسب نے اس کوٹکرادیا،سوائے چند لوگوں کے جو ایمان لائے تھےاوراسلام قبول کیاتھا،یہ عہدوپیما ن تمام یہود سے لیاتھا،خواہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے یہودی ہوں ،یعنی جس دوران یہ معاہدہ کیا جارہا تھا،یاان کے بعد کے یہود ہوں ،اسی طرح یہ عہد ان یہودیوںکوبھی شامل ہے ،جورسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے ،توجوعہد ان کے اسلاف سے لیاگیاوہی ان کے خلف اورجانشینوں پربھی صادق ہوگااورجن یہود سے براہ راست یہ عہد لیاگیا،ان کی طرف سے عہدشکنی ان یہودیوں پربھی لاگوہوتی ہے، جورسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے ،کیونکہ یہ لوگ بھی کلام الٰہی میں تحریف کے مرتکب تھے اوراپنی کتابوں میں مذکوررسول ﷺ کے اوصاف میں باوجود اس کے کہ انہیں اس بارے میں حق کاعلم تھا،تبدیلی کرتے تھے۔
﴿وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ یعنی تم ایسی قوم ہوجن کی عادت ہی اقرار کرکے ہٹ جانا اورمعاہدوں کی خلاف ورزی کرناہے ۔
-2 پھراللہ تعالیٰ ہمیں خبردیتے ہیں کہ اللہ نے ان سے میثاق (مضبوط وعدہ)لیاتھاکہ ایک دوسرے کوقتل نہیں کروگے اورایک دوسرے کوجلاوطن بھی نہیں کروگے ، جیساکہ اس آیت میں ہے کہ ﴿لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ﴾ یعنی دوسرے فریق کاخون بہانااوردوسرے فریق کے آدمیوں کوان کے گھروں سے نکال دینا۔ تو اللہ نے ان کے ایک ہی ملت(مذہب) سے ہونے کوایک ہی خون اورایک ہی جان سے تعبیر کیا۔
-3 ان آیات کے منطوق سے یہ واضح ہوتاہے کہ جس چیز پران سے عہد لیاگیاتھاوہ ایک دوسر ے کے قتل اور جلاوطن کرنے کوچھوڑناتھا ﴿لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ﴾ کایہی معنی ہے، اور آیات کے مفہوم سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ بھی عہد لیاتھاکہ ایک دوسرے کے خلاف دوسرے لوگوں کی پشت پناہی نہ کروگے اور قیدیوں کورہائی دلانے کے واسطے مالی معاوضہ دو گے ،یہی آیت کے اس حصے کا مفہوم ہے:﴿تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ ۔
﴿وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُم کاعطف وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ﴾ پر ہے،اوراس کے حکم کابیان بھی ہے ،لغت میں جب ایک فصیح عربی (جواہل لغت میں سے ہو)معطوف کواس کے معطوف علیہ یاصفت کواس کے موصوف سے الگ کرکے لائے،یاگفتگومیں جملوں کوآگے پیچھے لائے،وغیرہ،تواس کی گفتگومیں وہی کچھ مقصود ہوتا ہے جوکلام کی ترتیب کے خلاف ہو تاکہ وہ نمایاں ہو۔
یہاں بھی معطوف علیہ (یعنی جس کے بارے میں حکم کیاگیاہے: ﴿وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ﴾ہے اور معطوف(یعنی حکم) ﴿وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ ہے،ان کے درمیان﴿ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ﴾ کولاکرجدائی کی ہے ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں کوئی ایسی چیزہے جسے اخراج(جلاوطنی)کے موضوع اوراس کے حکم کے حوالے سے ظاہرکرنامقصود ہے۔
ان آیات میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ جس چیز کااظہار ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کی اس بات پرسرزنش کی جائے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کرکے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں ،نہ یہ کہ ان کوامن کی حالت میں نکالتے ہیں،اس سے ان کی ملامت اور سرزنش میں اور اضافہ کیا گیاہے ۔ تواگرآیت یوں ہوتی وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ تو اخراج کی کیفیت کاپتہ نہ چلتا،کیونکہ ممکن ہے ،ان کوعام ذرائع سے نکال دیتے ہوں گے ،جوامن یاایک معاہدہ اورخرید وفروخت کی صورت میں بھی ہوسکتاہے،لیکن﴿تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ ﴾ کو درمیان میں لاکریہ بتایا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ لڑ کرہی ان کونکال دیتے تھے ،پھر اس کے بعد اس کاحکم آیا،تاکہ ان کی ملامت اس طرح کی جائے کہ ا ن کااپنے بھائیوںکونکالنالڑکرہوتاتھا،جوان کے ساتھ کسی بھی ذریعے سے مفاہمت کرکے ان کوراضی خوشی نکالنے کے مقابلے میں بہت سخت ہوتا تھا،اس لئے ان دونوں کے درمیان ےہ جملہ لایا گیا: ﴿وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ اور وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ جوآپس میں ناقابل انفصال ہے،جدائی کرنے کامقصد ان کی سرزنش اور ملامت کااظہار ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کوجنگ کے ذریعے نکالتے ہیں نہ کہ پرامن طریقے سے ۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے پہلے تین معاہدوںکوتوڑا(قتل نہ کرنا،ترک وطن کرانے کاعمل چھوڑنااورپشت پناہی یعنی اپنے بھائیوں کے خلاف تعاون نہ کرنا)ان معاہدوں سے منہ پھیرلئے ،ماسوائے چوتھے معاہدے کے کہ اس پرقائم رہے( یعنی قیدیوں کی رہائی کیلئے معاوضہ دینا)۔اس طرح انہوں نے بعض پرتوایمان لایااوربعض سے کفرکیا،اس لئے کہاگیا ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ﴾ کیاتم کتاب(توراة) کے کچھ حصے پر توایمان لاتے ہواور بعض سے کفر کرتے ہو،تویہ استفہام انکاری ہے،جبکہ ان کی بداعمالیوں پر ان کی سرزنش بھی کی گئی ۔
-4 اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیا ن کرتے ہوئے آیت کوختم کیاہے کہ ایسے کردارکے حامل لوگوں کاانجام کیاہوتاہے ﴿خِزْيٌ﴾ ،ذلت وخواری اور دنیامیں بے عزتی ہوتی ہے اورآخرت میں شدید ترین عذاب ، اوریہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے گھناؤنے اعمال سے بے خبر نہیں،،بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کوگنتاہے اور ان کومحفوظ کرتاہے ،بالآخر ان کوان اعمال کی وہ سزادے گاجس کے وہ حقدار ہیں ،دنیامیں رسوائی اور ذلت اور آخرت میں شدید عذاب ﴿وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾
-5 یہ آیت مدینہ کے یہودیوں کی حالت کوبیان کرتی ہے، ان کے پاس اسلام کے آنے کے وقت، بنوقینقاع کا یہودی قبیلہ ، خزرج کا حلیف تھا اوربنونضیراوربنوقریظہ یہ دونوں یہودی قبیلے اوس کے حلیف تھے ،یہودی، اوس وخزرج کے درمیان جنگ بھڑکاتے اوران میں سے ہرفریق اپنے حلیفوں کی مددومعاونت کرتا،اس لئے ہرایک اپنے حلیف کاساتھ دیکر آپس میں لڑتا ،پھرجنگ کے نتیجے میں ایک دوسرے کوگھروں سے نکال دیتا لیکن یہودی آخرمیں اپنے قیدیوں کوچھڑوانے کیلئے ایک ہوجاتے ،چاہے بنوقینقاع والے ہوں یابنی نضیراوربنی قریظہ میں سے ہوں ،اس لئے فرمایا ﴿وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ﴾ اوراگرتمہارے حلفاءکے پاس دوسرے فریق کے یہودی قیدی آجائیں توتم ان کافدیہ دیتے ہواوران کی گردن چھڑاتے ہو،یہاں ﴿وَإِنْ يَأْتُوكُمْ﴾ کامعنی ہے کہ جب یہ یہودی تمہارے حلفاءکے پاس قیدی بن جاتے ہیں توگویاوہ تمہارے پاس قیدی بن کرآئے۔
تو جب ان سے کہاجاتاتھاکہ تم آپس میں کیوں کرایک دوسرے کوقتل کرتے ہوجبکہ اوس وخزرج کے ہاتھوں میں جانے والے تمہارے قیدیوں کے فدیہ کیلئے تم مل کرخرچ کرتے ہو،تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے یہ کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جومیثاق لیاگیاتھا ،اس کی روسے قیدیوں کوفدیہ کے ذریعے چھڑواناتوہم پر فرض ہے،اوراس بات کوچھپاتے تھے کہ میثاق توقتل چھوڑنے اورملک بدرکرنے نیزایک دوسرے کے خلاف پشت پناہی نہ کرنے کابھی لیاگیاتھا،تووہ اوس وخزرج کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے کیلئے یہ سب کچھ کرتے ،اوردنیوی مفاد کیلئے جومیثاق ان سے لیاگیاتھااس کی خلاف ورزی کرتے تھے،تاکہ مدینہ میں ان کی شان باقی رہے اوروہ اوس وخزرج کے درمیان ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کے نتیجے میں ان کوکمزورکرناچاہتے تھے ۔
-6 اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت کے اندران کی یہ حالت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی آخرت کواپنے کھوٹے اورفانی دنیوی مصالح کے بدلے بیچ دی ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان کوایسے شدید عذاب کی دھمکی دی جس میں کوئی کمی نہیں کی جائیگی ،اورجس کوکسی طوربھی ان سے ہٹایانہیں جاسکے گا ﴿وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ کایہی معنی ہے۔

Read more...

سوال وجواب : شام کے انقلاب اورحزب التحریر کے حوالے سے

(حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی جانب سے فیس بک پر ان کے صفحے کو وزٹ کرنے والوں کی طرف سے پوچھے گئےسوالات کے جوابات کا سلسلہ)

مامون شحادہ ۔ صحافی،رائٹر اور سیاسی تجزیہ نگار کی طرف سے علامہ عطابن خلیل ابو الرشتہ سے سوال

 

سوال:
سلام کے بعدمیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے حزب التحریر شام کے انقلاب میں شامل ہو گئی جبکہ باقی جگہوں پر ایسا نہیں کیاگیا؟

جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے بھائی ہمارا کام ،ہراس جگہ جہاں بھی ہمیں کام کرنے کا موقع ملے، ایک ہی ہے اور تبدیل نہیں ہوتا۔
ہمارا یہ کا م ہر وقت اور ہر جگہ رسول اللہ ﷺکے اس طریقے پر کاربند رہتے ہوئے جو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بعثت کے سے لے کر مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام تک اختیار کیاخلافت راشدہ کے قیام کے عمل کے ذریعے اسلامی زندگی کا دوبار احیا ہے،

ہم لوگوں کو حق کی دعوت دینے کے لیے ان سے روابط رکھتے ہیں،ان کو یہ بتاتے ہیں کہ خلافت ایک عظیم فرض ہے جس کے قیام کے لئے کام کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے ہم امت کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور امت کے ساتھ اور اس کے ذریعے اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش کر تے ہیں،اسی طرح ہم خلافت کے قیام کی خاطر نصرہ طلب کرنے کے لیے اہل قوت سے رابطہ کرتے ہیں اور ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ خود ساختہ سکیولر نظام کو ختم کیے بغیر صرف چہروں کو تبدیل کر کے اپنی محنت کو ضائع نہ کریں۔
بلکہ اپنی جد وجہد،اپنی طاقت اور اپنی قربانیوں کو انسان کے بنائے ہوئے اس نظام کو حکمرانوں اور قوانین سمیت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے صرف کریں۔
ہم ان کے لئے ایسی وضاحت کرتے ہیں جس طرح یہ اسلام میں ہے،جو ہماری بات سنتا ہے ہم درست سمت میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں اورجو ہماری بات نہیں سنتا ہم اس کو مجبور نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔
یہ ہم انقلابات سے پہلےبھی کر رہے تھے اور ان کے دوران بھی کر رہے ہیں اور ان کے بعد بھی کرتے ر ہیں گے۔ تاہم ان انقلابات نے لوگوں کے لیے سکیورٹی اداروں کے خوف سے آزاد ہو کر کلمہ حق کو سننے کے وسیع مواقع فراہم کر دئے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا بلکہ لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف سے اس حق کو سننے سے کتراتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں کا ہماری طرف متوجہ ہونا قابل دید ہے۔ہمارے اور ان کے درمیان ایک زبردست اور متحرک رابطہ ہے۔یوں لوگوں کے سامنے موجود خوف کی دیوار گرنے کے نتیجے میں اس دعوت کی وسعت کا ملاحظہ کیاجا سکتا ہے جس کے ہم علمبردار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی امت کے اندر ہماری تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس میں اضافے کو محسوس کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہم کام نہیں کر رہے تھے بلکہ انقلابات سے پہلے لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے ہماری طرف متوجہ ہونے سے خوفزدہ تھے کیونکہ سیکیورٹی ادارے ہر وقت ہمارا اور جو ہم سے رابطہ کرتا اس کا پیچھا کرتے تھے جو ہمارے کام میں رخنہ اندازی کا سبب بنتا تھا اور لوگوں کے ہمارے قریب آنے کی کوشش کے سامنے رکاوٹ بنتاتھا۔
یاد رہے کہ ہمارے کام کے زور پکڑنے کا ملاحظہ صرف ان علاقوں میں ہی نہیں کیا گیا جہاں انقلابات رونما ہوئے بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے،بلکہ بعض دفعہ یہ انقلابات والے علاقوں سے بڑھ کر ہے۔شاید آپ نے پاکستان میں ہماری سرگرمیوں کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جہاں ہمارے کام کا زورعیاں ہے اور شام کےمساوی یا اس جیسا ہی ہے ،حالانکہ موجودہ وقت میں پاکستان میں کوئی انقلاب برپا نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا کام انقلابات سے پہلے بھی جاری تھا لیکن انقلابات کے دوران اس کا زیادہ مشاہدہ کیا گیا،خصوصاً شام میں،کیونکہ ظلم اور سرکشی کے خلاف لوگوں کے بپھرنے سے خوف کی دیوار منہدم ہو گئی۔
بس یہ نئی بات ہے ورنہ ہم انقلابات سے قبل،اس کے دوران اور اس کے بعد ہمیشہ یہ کام کرتے رہے ہیں۔
تاہم، اگر ''شام کے انقلاب میں شریک ہونے‘‘سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ہمارا کوئی عسکری ونگ بن گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا کوئی عسکری ونگ نہ پہلے کھبی تھا نہ اب ہے۔ہم ایک ایسی سیاسی جماعت ہیں جس کی آیئڈیالوجی اسلام ہے،جو دعوت کے مرحلے میں کسی قسم کے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ بلکہ ہم صرف اہل قوت سے نصرہ طلب کرتے ہیں تا کہ اسلامی ریاست کو قائم کیا جاسکے۔ جیسا کہ عقبہ کی دوسری بیعت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا۔ ان شاء اللہ یہ اللہ کے اذن سے قریب ہے،
إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۳)
''بے شک اللہ اپنا امر پورا کرنے والا ہے ،اللہ ہی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے‘‘۔
آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ
جواب کے لیے فیس بک پر حزب التحریر کے امیر کے صفحے کو ملاحظہ کیجئے

Read more...

شام میں فوجی مداخلت کا اشارہ، جس کا چرچا ہے،ہر لحاظ سےشر انگیز ہے، یہ اسلام کی حکمرانی کو قائم ہونے سے روکنے اور اپنے ایجنٹ بشار کا کردار ختم ہونے پراس کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے ہے

شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں فوجی مداخلت کی خبریں گردش میں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے لیے انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کا پردہ استعمال کر رہے ہیں جبکہ وہ خود اس سے بے بہرہ ہیں۔ امریکہ،برطانیہ ، فرانس ،روس اور تمام کافراستعماری ممالک اپنے تنگ وتاریک عقوبت خانوں میں تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں،بگرام،گونتاناموبے اورابوغریب کےعقوبت خانے اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ پوری دنیا کی رسوائے زمانہ جاسوسی اس کے علاوہ ہے! یہی ممالک ایٹمی،بائیولوجیکل ،وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال اور وحشیانہ قتل و غارت میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مشہور ہیں۔ اس کے شواہد ہیروشیما،ناگا ساکی اور عراق،افغانستان،وسط ایشیا،مالی اور چیچنیا میں برپا کیے جا نے والے شرمناک قتلِ عام کی شکل میں موجود ہیں۔
پھر انہی ممالک خاص طور پر امریکہ ہی نے بشارالاسد کو بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کوقتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا گرین سگنل دیا۔ اگر یہ گرین سگنل نہ ہوتا توشام کا سرکش حکمران کبھی بھی الغوطہ میں اس کے استعمال کی جرات نہ کرتا۔ بشار حکومت الغوطہ سے قبل بھی شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرچکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی، جیسا کہ آج ہی حکومت کی جانب سے بعض علاقوں میں زہریلی گیس استعمال کرنے کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علم اورمرضی سے ہو رہاہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی مداخلت کے لیے انسانی اور اخلاقی اقدار کا جو پردہ استعمال کر رہے ہیں وہ محض سفید جھوٹ اور انتہا درجے کا دوغلاپن ہے ۔ یہ وہ من گھڑت اور خودساختہ حجت بازی ہے جس کی حقیقت ہردیکھنے والےاور قلبِ سلیم رکھنے والے شخص کو معلوم ہے۔
رہی بات اس امریکی فوجی مداخلت کی حقیقت کی جو شرانگیز استعماری قوتوں کی قیادت کر رہا ہے، تویہ بشار کی ایجنٹ حکومت کی جگہ ایک اور ایجنٹ حکومت کا بندوبست کرنے کے لیے ہے ،یعنی عسکری مداخلت کے ذریعے دباؤ ڈال کراپنے منصوبے کے لیے حالات کو سازگار بنایاجائے۔ کیونکہ بشار تواپنا کردار ادا کرچکا،اور وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قومی کونسل اور اتحاد میں اپنے کارندوں کو شام کے اندر اس قابل نہ بنا سکا کہ لوگ انہیں بشارحکومت کے متبادل کے طور پر قبول کر لیں۔ چنانچہ شرکے اس بلاک نے خوف محسوس کیا کہ اہل شام جواسلام کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں کہیں کفار اور منافقین کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ نہ دیں۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےمخصوص مقامات پر فوجی مداخلت کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کا ارادہ کیا،تاکہ اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کوشروع کیا جائے،اور یوں ایک ایسی متبادل ایجنٹ حکومت ترتیب دی جائے جو بشار حکومت سے سوائے اس چیز کے کسی طرح مختلف نہ ہو کہ اس کا منہ کم کالا ہو!
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
اس عسکری مداخلت اور کفارکے ہلاکت خیز منصوبوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کر نا فرض ہے۔ یہ سرکش تمہارے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔ تم اپنے ملک میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہونے کے قریب ہو،جس سے تم اپنے دین،اپنی جان،اپنی عزت وآبرو اور اپنے اموال کو محفوظ کر سکو گے۔ ایک ایسی ہدایت یافتہ اور عادل حکومت جو ہر حقدار کو اس کا حق پہنچائے،ایسی خلافتِ راشدہ جو شام کو اس کا نور اور اس کا کردار لوٹادے،کیونکہ یہ اسلام کا مسکن ہے اور عنقریب ان شا ء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ صبر کرو ،صبر کی تلقین کرو اورظلم اور ظالموں کے مقابلے میں سرجوڑ کر یکجان ہو جاؤ۔ یاد رکھو کہ اپنے ملک کو بچا نا تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جتنی بڑی قربانی بھی تمہیں دینی پڑی ،یہ قربانی دنیا اور آخرت میں تمہارے حق میں اس چیز سے ہزار مرتبہ بہتر ہےکہ استعماری کفارتمہیں بچانے کے بہانے تمہارے ملک میں مداخلت کریں۔ یہ بچاؤ نہیں بلکہ ہر لحاظ سے موت اور تباہی ہے﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح اگر تم پر غالب آتے ہیں تو نہ قرابت کا پاس رکھتے ہیں نہ رشتہ داری کا لحاظ اپنی زبان سے تو تمہیں راضی کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں ان میں اکثر فاسق ہیں"۔
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
بے شک اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافر استعماری ممالک سے مدد طلب کرنا عظیم گناہ اور شرہی شر ہے۔ یہ اللہ،اس کے رسولﷺ اور مومنین کے ساتھ خیانت ہے،ایسا کر کے تم اللہ قوی اور العزیز کے غضب کو دعوت دو گے،اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا﴾"اے ایمان والو !مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست مت بناؤ ،کیا تم اپنے ہی خلاف کھلی دلیل اللہ کو دینا چاہتے ہو"۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا«لَا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِ»" مشرک کی آگ سے روشنی مت لو"اسے احمد نے انس سے روایت کیا ہے، جبکہ بیہقی کی روایت میں یوں ہے((لا تستضیئوا بنار المشرکین))"مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو"۔ اسی طرح بخاری نے بھی اپنی تاریخ الکبیر میں اس حدیث کوانہی الفاظ سے نقل کیا ہے۔ یعنی مشرکین کی آگ کو اپنے لیے روشنی مت بناؤ،یہاں آگ کا لفظ جنگ کی طرف اشارے کے طور پر ہے۔ اس حدیث میں کنایہ کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ میں مشرکین کوساتھی نہ بناؤ اور ان سے رائے بھی نہ لو۔ اس حدیث سے کفار سے مدد طلب کرنے کی ممانعت کا پتہ چلتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((فانا لا نستعین بمشرک))"ہم کسی مشرک سے مدد نہیں مانگتے"اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ کفار سےعسکری مداخلت کا مطالبہ کرنا حتی کہ ان سے اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ لینا عظیم گناہ اور حرام ہے، ایسا کرنا صحیح اور جائز نہیں۔
یقینا یہ نہایت ہی اندوہناک بات ہے کہ استعماری کفار شام میں فوجی مداخلت کا الٹی میٹم اور دھمکی دینے کی جسارت کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے حکمران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو چل رہا ہے اس سے اس طرح بے پرواہ ہیں گویا یہ ان سے مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ دور ہے۔گویا یہ حکمران گونگے اور بہرے ہیں اور اہلِ شام کی فریاد سُن ہی نہیں رہے۔ وہ اللہ کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے کہ﴿ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾"اور اگر وہ تم سے دین کی بنیاد پر مدد مانگیں تو تم پران کی مدد کرنا لازم ہے"۔ اگر ان کے اند ر ذرہ برابر بھی حیا ہوتی تو یہ اہل شام کی مدداور شام کے سرکش حکمران سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے بیرکوں میں پڑی مسلمان فوجوں کو متحرک کردیتے،کیونکہ اہلِ شام پڑوسی مسلمان ممالک میں موجوداپنے بھائیوں کی مدد سے ،اللہ کے اذن سے ، سرکش بشارکو اپنے انجام تک پہنچانے اور اس کی جگہ اسلام کے مسکن شام میں اسلامی حکومت قائم کرنے پر قادر ہیں۔ بجائے یہ کہ استعماری کافر ایک ایسی نئی حکومت قائم کرنے کے لیے، جو پرانی حکومت سے چہروں کی تبدیلی کے سوا مختلف نہ ہو،شام میں مداخلت کریں،اوریوں شام ایک بار پھر طاغوت کے پنجوں کی نذر ہوجائے، جبکہ شام میں اسلام کی حکمرانی کا سورج دوبارہ طلوع ہونے کے قریب پہنچ چکاتھا۔
استعماری کفار جس ملک میں بھی آئے انہوں نے اسے برباد کر کے رکھ دیا،اس کی بنیادیں ہی تباہ کرکے رکھ دیں اور اس کے چپے چپے کو ویران کردیا۔ جس ملک میں یہ داخل ہوئے ان کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں اور ان کے جرائم اور کرتوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شام میں ان کفار کی عسکری مداخلت بہت بڑا زلزلہ اور شر ہو گا،اے مسلمانو، اس سے چوکنے ہو جاؤ۔ خبردار یہ گمان کر کے کہ کفارہمیں بچالیں گے، ان سے مدد مانگنے میں جلدی مت کرو ،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا!
﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
"تودیکھے گا ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مرض ہے کہ اس بارے میں جلدی کریں گے اور کہیں گے ہمیں خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آئے گی۔ ممکن ہے اللہ فتح نصیب کرے گا یا اپنی طرف سے کوئی بھلائی کا معاملہ کرے گا، تب یہ لوگ اس پرشرمندہ ہوں گے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے "
﴿ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾"بے شک یہ عبادت گزار قوم کے لیے اعلان ہے"

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک