بسم الله الرحمن الرحيم
بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کی حد کا تعین امریکہ کی پالیسی
اور چین کے حوالے سے اس کی حکمتِ عملی کی حد سے ہوتا ہے
(ترجمہ)
پاکستان میں برسرِاقتدار فوجی نظام کو عموماً امریکہ کا تابع سمجھا جاتا ہے۔ اس کے عسکری قائدین بارہا امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں، اُس دو طرفہ شراکت کے نام پر جسے وہ طویل المدتی تعلق میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی فوجی نظام، اسلام کے خلاف جنگ اور یوریشیا پر غلبے کے لیے امریکہ کی پالیسی اور اس کی جامع حکمتِ عملی کا ایک آلہ ہے، جس کا مقصد اپنے اسٹریٹیجک حریف چین کو کمزور اور محدود کرنا ہے۔
اسی طرح، بھارت میں مودی کی حکومت بھی اسلام کو نشانہ بنانے اور چین کو گھیرنے و محدود کرنے کے لیے امریکی پالیسی میں مکمل طور پر شریک ہے۔ مودی کی قیادت میں بھارت امریکہ کی اسٹریٹیجک اور جیو-اسٹریٹیجک منصوبہ بندی میں ایک مرکزی ستون بن چکا ہے۔
چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں امریکہ کے تابع ہیں، اور چونکہ ان کے درمیان جیو-اسٹریٹیجک تنازع چین کی مغربی سرحدوں پر واقع اہم یوریشیائی خطے میں ہے، اس لیے ان دونوں کے درمیان حالیہ تنازع کو امریکہ کی پالیسی کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ اس تنازع کی نوعیت — چاہے وہ اسٹریٹیجک ہو یا جیو-اسٹریٹیجک — امریکہ کی یوریشیا میں اپنائی گئی پالیسی کی متعین کردہ حدود سے باہر نہیں جا سکتی۔
امریکہ چین کو اپنے مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور یوریشیا میں اپنی بالادستی کے لیے سب سے زیادہ خطرناک چیلنج سمجھتا ہے۔ چین کے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے جو عملی حکمت عملی امریکہ نے اپنائی ہے، اس میں ایشیا پیسفک کے ممالک کو استعمال کر کے چین کے گرد دشمنانہ آگ کا حصار قائم کرنا شامل ہے، اور اس مقصد کے لیے برصغیر، بالخصوص بھارت، کو ایک کلیدی کردار سونپا گیا ہے۔ اس حکمتِ عملی کا اصل ہدف چین کو محدود کرنا ہے، جو کہ اسے گھیرنے اور بالآخر کمزور کرنے کی تمہید کے طور پر اپنائی گئی ہے۔
اس مقصد کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ بھارت کی طاقت میں اضافہ کیا جائے، اس کے حریف پاکستان کو کمزور کیا جائے، مقبوضہ کشمیر کو غیر مؤثر بنا کر پاکستان اور بھارت کے تنازع کے تناظر سے نکال دیا جائے، اور یوں بھارت کو اس خطے میں ایک جیو-اسٹریٹیجک قوت کے طور پر مسلط کیا جائے تاکہ وہ چین کا سامنا کر سکے۔ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا حصہ قرار دینے کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی امریکہ کی حکمتِ عملی کے سامنے مکمل تابعداری کھل کر سامنے آ گئی تھی۔
امریکی اسٹریٹیجک پالیسی میں بھارت کو ہمیشہ مغربی استعمار کی اسٹریٹیجک میراث کا حصہ سمجھا گیا ہے۔ ماضی میں یہ برطانوی حکمتِ عملی کا حصہ تھا، اور آج اُسے امریکی اسٹریٹیجک منصوبوں کے لیے یوریشیا میں استعمال کرنے کے لیے امریکہ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
اکتوبر 2002 میں امریکی وزارتِ دفاع کے سیکریٹری کے دفتر، "نیٹ اسیسمنٹ آفس" سے جاری ہونے والی رپورٹ "Indo U.S. Military Relationship: Expectations, and Perceptions" میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ: "امریکی فوجی حکام اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ وہ بالآخر بھارتی فوجی اڈوں اور دفاعی ڈھانچے تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ بھارت کا ایشیا کے قلب میں اسٹریٹیجک محلِ وقوع، اور مشرقِ وسطیٰ کو مشرقِ بعید سے ملانے والی مصروف سمندری تجارتی راہداریوں (SLOCs) کے کنارے واقع ہونا، اُسے امریکی افواج کے لیے خاص طور پر پرکشش بناتا ہے"۔
ستمبر 2005 میں امریکی آرمی وار کالج کے لیے ایک مقالے میں، جس کا عنوان تھا: "Natural Allies? Regional Security in Asia and Prospects for Indo-American Strategic Cooperation"، اسٹیفن جے. بلینک (Stephen J. Blank) — جو امریکن فارن پالیسی کونسل سے وابستہ ہیں — نے لکھا: "ہمیں بھارت کی عملی اور ٹھوس حمایت کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اسٹریٹیجک مفادات اور مقاصد عالمی نوعیت کے ہیں... ڈیاگو گارشیا (ہندوستانی بحر) سے لے کر اوکیناوا اور گوام (بحرالکاہل) تک پھیلے ہوئے ہزاروں میل طویل قوس (arc) میں امریکی افواج کی موجودگی خطرناک حد تک کمزور ہے"۔
یوں امریکہ نے بھارت کی عسکری تیاری اور جنگی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا شروع کیا تاکہ اُسے اپنی سلامتی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا جا سکے، اور بالآخر چین کے خلاف نئی سرد جنگ میں پیشِ پیش رکھا جا سکے۔ بھارت کو امریکی حکمتِ عملی میں ضم کرنے کا عمل 2004 میں شروع ہوا، جو مودی کی حکومت اور ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں تیزی سے آگے بڑھا۔ 2016 میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ ایک لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم پر دستخط کیے، جس کے تحت دونوں ممالک مخصوص مقاصد کے لیے ایک دوسرے کی فوجی سہولیات استعمال کر سکتے ہیں۔ 2020 میں ایک مشابہ معاہدے پر دستخط کیے گئے تاکہ پہلے معاہدے کو مزید مستحکم کیا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ فوجی خفیہ مواصلات کے تبادلے اور بھارتی اسلحہ کو امریکی اسلحہ منڈی کی طرف موڑنے کے معاہدے بھی کیے گئے۔
آج، مودی کے حالیہ دورۂ امریکہ (13 فروری 2025) اور صدر ٹرمپ سے ملاقات — جنہوں نے مودی کو "عظیم دوست" قرار دیا — اور اس دوران طے پانے والے اسٹریٹیجک معاہدوں کے بعد، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کو مزید عسکری طور پر مضبوط بنانے اور اس کی اسٹریٹیجک صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ اُسے چین کے خلاف امریکی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا جا سکے۔ مودی کو امریکہ کے لیے اس مقصد کے حصول کا ایک کلیدی موقع سمجھا جا رہا ہے۔ اس دورے سے قبل بھارتی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ مودی اور ٹرمپ ایشیا پیسیفک خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے کواڈ (Quad) — یعنی امریکہ، بھارت، جاپان، اور آسٹریلیا پر مشتمل سکیورٹی اتحاد — کو مضبوط بنانے پر گفتگو کریں گے۔ اس کے بعد 21 جنوری 2025 کو واشنگٹن میں کواڈ اجلاس منعقد ہوا، جس میں انڈو پیسفک خطے میں سکیورٹی بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا — جو اس بات کا اشارہ ہے کہ چین کا مقابلہ کرنا امریکہ کی اسٹریٹیجک ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، ٹرمپ نے اعلان کیا، "وزیراعظم اور میں نے توانائی کے حوالے سے ایک اہم معاہدے پر بھی اتفاق کیا ہے جو امریکہ کو بھارت کا ایک اہم تیل اور گیس فراہم کنندہ بنانے میں مدد دے گا۔ امید ہے کہ امریکہ بھارت کا نمبر ایک سپلائر بن جائے گا۔" مودی نے کہا، "بھارت کی توانائی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہم تیل اور گیس کی تجارت پر خصوصی توجہ مرکوز کریں گے، جب کہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ جوہری توانائی کے شعبے میں، ہم نے چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز کے حوالے سے تعاون بڑھانے پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔"
مودی نے رضامندی کا اظہار کیا کہ بھارت اور امریکہ اسٹریٹجک معدنیات کے لیے مضبوط سپلائی چین قائم کرنے اور باہمی تجارت کے حجم کو کئی گنا بڑھانے پر توجہ دیں گے۔ ٹرمپ نے بھی اعلان کیا کہ واشنگٹن بھارت کو ایف-35 فائٹر جیٹ طیارے فروخت کرے گا، جس سے بھارت ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو ایسے جدید طیارے رکھتے ہیں۔ ٹرمپ نے زور دیا، "اس سال سے ہم بھارت کو فوجی سامان کی فروخت کئی ارب ڈالرز سے بڑھا رہے ہیں۔ ہم بھارت کو ایف-35 سٹیلتھ فائٹر فراہم کرنے کے لیے بھی راستہ ہموار کر رہے ہیں"۔
ایک حالیہ معاہدے کے تحت جنرل الیکٹرک کو ہندوستان ایروناٹکس کے ساتھ شراکت داری کی اجازت دی گئی ہے تاکہ بھارت میں جیٹ انجن تیار کیے جائیں، اور امریکہ میں بنے ہوئے مسلح ڈرونز بھارت کو فروخت کیے جائیں۔ ایک مشترکہ بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان 21ویں صدی کے لیے ایک نئے دس سالہ دفاعی فریم ورک پر دستخط کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
یہ تمام معاہدے امریکہ کے لیے ایک بڑی اسٹریٹیجک پیش رفت کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اسے بھارت کے حساس اور اہم شعبوں — جیسے توانائی، جوہری معاملات، قیمتی معدنیات، فضائیہ، اور سکیورٹی — پر کنٹرول اور غلبہ حاصل کرنے کا موقع دیتے ہیں، اور بھارت کو چین کے خلاف امریکہ کی سرد جنگ میں ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
یہ حالیہ پاک-بھارت عسکری جھڑپ کو یوریشیا میں امریکی پالیسی کے وسیع تر تناظر اور اس کی اسٹریٹیجک حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیتی ہے—یعنی یہ واقعہ اس حکمتِ عملی کا معاون عنصر ہے، نہ کہ اس میں خلل ڈالنے والا۔ امریکہ کی اسٹریٹیجی میں بھارت ایک مرکزی فریق ہے، اور اسی نے پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کا آغاز کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے ابتدا ہی سے اس واقعے کو محدود رکھنے اور جلد سمیٹنے کی کوشش کی۔ 7 مئی 2025 کو بھارتی وزارتِ دفاع نے بیان دیا: "تھوڑی دیر قبل بھارتی مسلح افواج نے ’آپریشن سندور‘ شروع کیا، جس کے تحت پاکستان اور پاکستان کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں اُن دہشت گرد ڈھانچوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں سے بھارت پر حملوں کی منصوبہ بندی اور ہدایات دی جاتی تھیں۔ مجموعی طور پر نو (9) مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ہماری کارروائیاں مرکوز، محتاط حکمت عملی اور غیر اشتعالی نوعیت کی تھیں۔ جن میں کسی پاکستانی فوجی تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا"۔
قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ بھارتی فضائیہ کو اس محدود نوعیت کے عسکری واقعے میں جو نقصان اٹھانا پڑا، وہ تباہ کن ہے، حالانکہ یہ واقعہ کسی مکمل جنگ کی سطح تک نہیں پہنچا۔ سی این این نے تبصرہ کیا: "بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع نے بھارتی فضائیہ کی محدود صلاحیتوں کو بے نقاب کر دیا ہے"۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق بھارت کے جو پانچ طیارے مار گرائے گئے، اُن میں سے تین فرانسیسی ساختہ ڈسالٹ رافائل (Dassault Rafale) طیارے تھے، جو بھارتی فضائیہ کے سب سے جدید جنگی طیاروں میں شمار ہوتے ہیں اور حال ہی میں فرانس سے خریدے گئے تھے۔ بھارت کے بیڑے میں کل 36 رافائل طیارے شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک روسی ساختہ میگ-29، ایک روسی ساختہ سخوئی-30، اور ایک یہودی وجود کے تیار کردہ آئی اے آئی ہی رون (Machatz-1) ڈرون کو بھی مار گرایا گیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت تقریباً 60 فیصد دفاعی ساز و سامان کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے۔
یہ حالیہ واقعے کو ایک بڑی پالیسی کا حصہ بناتا ہے، نہ کہ محض ایک سکیورٹی واقعے پر ردِ عمل۔ مودی کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران کیے گئے معاہدے بھارت کی معیشت، فوج اور اسٹریٹیجک ڈھانچے میں امریکی مداخلت کی سب سے بڑی مثال بن گئے ہیں۔ بھارت میں جاری سیاسی کشمکش کے ماحول میں ایسے معاہدوں کی منظوری مودی حکومت اور امریکی اثر و رسوخ کے لیے ایک ممکنہ سیاسی دھچکا ثابت ہو سکتی تھی۔ چنانچہ یہ عسکری واقعہ ان معاہدوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔ بھارتی فضائیہ کی پسپائی نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں کے لیے ایک جواز فراہم کر دیا، اور ساتھ ہی امریکی فضائی طاقت کی ضرورت کو بھی ابھارا، خاص طور پر فرانسیسی اور روسی اسلحے کی ناکامی کے بعد۔ اسی بنیاد پر دیگر دفاعی شعبوں میں بھی معاہدوں کے دائرے کو وسعت دینے کا جواز پیدا ہوا، کیونکہ امریکہ ٹیکنالوجی میں سبقت رکھتا ہے۔ روس-یوکرین جنگ اور روس پر لگائی گئی پابندیاں مودی کو مزید یہ جواز فراہم کرتی ہیں کہ وہ دفاع اور توانائی کے شعبے میں روسی مارکیٹ کو خیرباد کہہ دیں، روسی سپلائی چینز کو توڑیں اور ماسکو کو کمزور کریں—جو کہ براہِ راست امریکی حکمتِ عملی کی خدمت ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع مودی کی طرف سے امریکی پالیسی اور چین کے خلاف اس کی اسٹریٹجی کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کو چھپانے کا ایک پردہ معلوم ہوتا ہے—جس کے ذریعے بھارت اور اس کے تمام اسٹریٹجک شعبوں کو امریکہ سے باندھ دیا گیا ہے۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ ایک گائے پوجنے والا ہندو ایسا کرے، لیکن اس سے کہیں زیادہ شرمناک اور رسوائی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران مسلمانوں کے عظیم دین اسلام اور ان کی امت کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شریک ہیں، اور مسلمانوں کے خون اور وسائل کی قیمت پر امریکہ کے ظالمانہ غلبے کی خدمت کر رہے ہیں۔
اے دنیا بھر کے مسلمانو! تمہارے تمام حکمران استعماری ایجنٹ ہیں جو تمہارے اسلام کو مٹانے، تمہاری وحدت کو توڑنے، دشمن کے لیے استعماری علاقے چلانے، اور تمہارے مقدسات و مقاصد سے غداری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تمہارے تمام حکمران تمہارے دشمن ہیں۔ کیا کوئی صاحبِ عقل انسان یہ قبول کر سکتا ہے کہ اس کا دشمن اس پر حکمرانی کرے؟ اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ ٱللَّهُ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
"یہی تو دشمن ہیں، پس ان سے بچو۔ اللہ ان کو ہلاک کرے، کہاں پھرائے جا رہے ہیں!" (المنافقون 63:4)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
منجانب: مناجی محمد