الجمعة، 30 محرّم 1447| 2025/07/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان کو امریکی-بھارتی بالادستی سے نکلنے کے لیے اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا

 

تحریر: عبدالمجید بھٹی

 

جب سے امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی عمل میں آئی ہے، پاکستان بھارت کے ساتھ مختلف سکیورٹی امور پر بامعنی مذاکرات شروع کرنےکا خواہاں رہا ہے۔ ان معاملات میں مسئلہ کشمیر کا مستقبل، لائن آف کنٹرول (LoC) پر کشیدگی کا خاتمہ، اور سب سے اہم بھارت کی جانب سے معطل کئے گئے سندھ طاس معاہدے (Indus Water Treaty) کی  بحالی شامل ہے۔ یہ آبی معاہدہ تین اہم دریاؤں یعنی دریائے سندھ، چناب اور راوی کے ذریعے پاکستان کی ضرورت کا تقریباً 80 فیصد پانی مہیا کرتا ہے۔ [1]

 

تاہم بھارت نے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی کوششوں کو بارہا مسترد کیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ٹائمز آف انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "نہیں، [سندھ طاس معاہدہ] کبھی بحال نہیں کیا جائے گا۔ ہم ایک نہر تعمیر کر کے وہ پانی راجستھان لے جائیں گے جو پاکستان کو جا رہا تھا۔ پاکستان کو اُس پانی سے محروم کر دیں گے جس پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا" [2]

 

امیت شاہ کا یہ سخت اور دھمکی آمیز لہجہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تعلقات ایک خطرناک موڑ اختیار کر چکے ہیں۔

 

گرچہ قلیل المدتی منظر نامے میں، بھارت اپنی ان دھمکیوں پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ پاکستان کا پانی بند کر دے گا۔ فی الحال، بھارت کے پاس ایسا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے جس کے ذریعے وہ ان دریاؤں کے پانی کو مکمل طور پر روک سکے جو پاکستان کے زرعی نظام کو سیراب کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے راجستھان کی طرف پانی کو موڑنے کے لئے جس نہر کی تعمیر کا ذکر کیا جا رہا ہے، اس کی تکمیل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

 

 

تاہم اس کے باوجود، بھارت پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اگر وہ تین دریاؤں (سندھ، چناب، راوی) سے پاکستان میں داخل ہونے والے پانی کے بہاؤ سے متعلق حساس معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دے۔ ماضی میں بھارت یہ معلومات فراہم کرنے کا پابند رہا ہے، اور پاکستان ان معلومات کی مدد سے فصلوں کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لئے بروقت اقدامات کرتا رہا ہے۔

 

بھارت کی جانب سے مذاکرات کی بحالی میں مسلسل ہٹ دھرمی نہ صرف پاکستان کے ساتھ طے پانے والی جنگ بندی کی شرائط کے بارے میں پیچیدہ سوالات کھڑے کر رہی ہے، بلکہ اس سے پاکستان کی قومی سلامتی کونسل (NSC) کا یہ بیان بھی نمایاں ہوتا ہے جس میں بھارت کے سندھ طاس معاہدہ (WTI) معطل کرنے کو "جنگی اقدام" قرار دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کونسل (NSC) کے بیان میں واضح کیا گیا تھا کہ ایسے کسی بھی اقدام کا "پاکستان اپنی پوری طاقت کے ذریعے جواب دے گا"۔ [3]

 

حالیہ دنوں میں مختصر جنگ کے دوران یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی تھی کہ پاکستان نے بھارت پر فضائی بالادستی حاصل کر لی تھی، اور نئی دہلی کو جنگ بندی کے لئے مجبور ہونا پڑا کیونکہ پاکستان نے بھارتی فضائیہ کو بھرپور انداز میں ناکارہ کر دیا تھا۔ اس فیصلہ کن برتری کے موقع پر پاکستان کے پاس بھارتی مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر اپنے ساتھ ملانے یا سری نگر جیسے اہم علاقوں پر قبضہ کرنے کا سنہری موقع تھا۔ لیکن پاکستان نے دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے اپنے عسکری مفادات کو نظر انداز کیا، اپنے مفید محاذ اور مورچوں سے پسپائی اختیار کی اور جنگ بندی کی شرائط مان لیں جو محض بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی تک محدود تھیں۔ [4] لیکن وہ مذاکرات کبھی حقیقت نہ بن سکے، اور بھارت نے امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی کوششیں بھی مسترد کر دیں۔ نریندر مودی نے ٹرمپ سے صاف کہا: "بھارت کبھی بھی کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔" [5] نتیجتاً، پاکستان اور امریکہ دونوں کو خالی ہاتھ واپس جانا پڑا۔

 

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (WTI) کی عارضی معطلی، کنٹرول لائن (LoC) پر افواج کی تعداد میں اضافہ، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظالمانہ قبضے، اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے استحکام جیسے پاکستان کے بنیادی سلامتی مسائل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل عاصم منیر نے خود کو فیلڈ مارشل کے لقب سے نواز دیا، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل پیس پرائز (Peace Prize)کے لئے نامزد کر دیا۔ [6]

 

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان کی قیادت نے بھارت کے خلاف جنگی میدان میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو اسٹریٹجک سیاسی فتوحات میں تبدیل کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا ہو۔ 1999ء میں کارگل کی بلندیوں پر قبضہ کر کے پاکستان نے بھارت کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اُس وقت پاکستان کے پاس مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا ایک سنہری موقع موجود تھا۔ مگر امریکی مداخلت کے دباؤ میں آ کر پاکستان نے پسپائی اختیار کی، اور جنگی کامیابی کو کسی دیرپا سیاسی فائدے میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔

 

ان ناکامیوں کی دو بنیادی وجوہات ہیں:

 

اولاً، جنگ کا مقصد محض دفاع نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اصل ہدف واضح سیاسی مقاصد کا حصول ہوتا ہے اور یہ صرف ایک جارحانہ نظریہ (offensive doctrine) کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ نظریہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ محض دفاعی جہاد کافی نہیں، بلکہ اُسے ایک جارحانہ جہاد میں تبدیل کیا جانا چاہیے، جس کے ساتھ ساتھ مضبوط سیاسی و سفارتی اقدامات کا جامع لائحہ عمل بھی اختیار کیا جائے۔ اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو سندھ طاس معاہدہ (WTI) کا بنیادی اسٹریٹجک مقصد یعنی پاکستان کے لئے تین اہم دریاؤں (سندھ، چناب، راوی) تک بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنانا، صرف جارحانہ اقدامات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے اقدامات کا ہدف فیصلہ کن اور طویل المدتی اسٹریٹجک نتائج حاصل کرنا ہونا چاہیے، جن میں سرِفہرست کشمیر کا انضمام شامل ہے۔

 

دوم : پاکستان کی قیادت اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو ہمیشہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں محدود رکھتی ہے، اور ہر موقع پر امریکہ کی منظوری کی منتظر رہتی ہے، چاہے وہ سفارتی قدم ہو یا عسکری کارروائی۔ یہ روش درحقیقت ایک سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے عراق، لیبیا اور ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں عالمی قوانین کی اندھی پیروی نے ان ممالک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اگر پاکستان کی قیادت اسی راہ پر چلتی رہی، تو ملک کا انجام بھی کچھ مختلف نہ ہوگا۔

 

 

اسی تناظر میں، پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ جرأت کے ساتھ سوچے اور ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے خود کو اس ذہنی جمود سے باہر نکالے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی طبقے کو اپنا طرزِ فکر تبدیل کرنا ہوگا، تاکہ وہ امریکہ سے آزادانہ فیصلے کر سکیں، اور بین الاقوامی قانون کی حدود کو ملیا میٹ کرتے ہوئے اپنے قومی مفاد میں آزادانہ حکمت عملی اختیار کر سکیں۔

 

مثال کے طور پر، امریکہ کے حالیہ اسٹریٹجک دھچکے جن میں عراق اور افغانستان سے انخلاء، یوکرین میں ناکامی، اور یمن کے حوثیوں کے مقابلے میں مشکلات شامل ہیں، جن میں پاکستانی پالیسی سازوں کے لئے واضح پیغام ہیں کہ اب دنیا پر امریکی بالادستی کمزور پڑ رہی ہے۔ مزید یہ کہ، گزشتہ تقریباً چالیس برسوں کے دوران، امریکہ نے بارہا پاکستان کی مدد حاصل کی: سب سے پہلے، سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے، پھر، کشمیر کی تحریک اور پاکستان کے ایٹمی تجربات کو ایک ذریعہ بنا کر بھارت کو آہستہ آہستہ امریکہ کے مدار میں کھینچ لانے کے لیے، اور بالآخر، بھارت میں امریکہ نواز جماعت بی جے پی (BJP) کو اقتدار میں لانے کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اگر پاکستان نے امریکہ کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر متزلزل تعاون نہ کیا ہوتا، تو واشنگٹن مشرقِ وسطیٰ کے لئے اپنے نئے منصوبے کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔

 

امریکہ کا پاکستان کی طاقت پر انحصار کرنا ہی خود اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اب امریکہ خود کو دنیا میں امن و استحکام کے لئے ناگزیر نہیں سمجھتا، بلکہ وہ اپنی بگڑتی ہوئی عالمی حیثیت کو سہارا دینے کے لئے پاکستان کو ایک کلیدی عنصر سمجھتا ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا، تو بھارت آج سے کئی دہائیاں پہلے مقبوضہ کشمیر کھو چکا ہوتا۔

 

لہٰذا، اگر اب بھی پاکستان کی سیاسی قیادت ملک کی حقیقی طاقت کو پہچاننے اور ایک خودمختار راستہ اختیار کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو پاکستان وجودی بحران ( (existential crisis کا شکار ہو جائے گا، ایک ایسا بحران جو خود اس کی اپنی قیادت کی غفلت اور امریکی مداخلت کے أگے سر تسلیم خم کرنے کا نتیجہ ہوگا۔

 

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9617-pakistan-must-realize-its-power-to-free-itself-from-american-and-indian-hegemony

 

Reference:

 

[1, 2] Businesslike, (June 2025). India will never restore Indus water treaty with Pakistan: Amit Shah. Businessline. Available at: https://www.thehindubusinessline.com/news/national/india-will-never-restore-indus-water-treaty-with-pakistan-amit-shah/article69720610.ece

 

[3] Dawn, (April 25, 2025). Assault on rivers will be ‘act of war’. Dawn. Available at: https://www.dawn.com/news/1906354

 

[4] FirstPost, (May 2025). Did Trump broker a ceasefire deal between India and Pakistan? Firstpost. Available at: https://www.firstpost.com/explainers/india-pakistan-ceasefire-deal-us-president-donald-trump-13887378.html

 

[5] MSN, (June 2025). Modi tells Trump: India will never accept third-party mediation on Kashmir. MSN. Available at: https://www.msn.com/en-gb/news/world/modi-tells-trump-india-will-never-accept-third-party-mediation-on-kashmir/ar-AA1GXvfT?ocid=BingNewsSerp

 

[6] Aljazeera, (May 2025). Pakistan promotes army chief Asim Munir to field marshal: Why it matters. Aljazeera. Available at: https://www.aljazeera.com/news/2025/5/21/pakistan-promotes-army-chief-asim-munir-to-field-marshal-why-it-matters

 

 

Last modified onجمعرات, 24 جولائی 2025 03:23

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک