بسم الله الرحمن الرحيم
اخبار "الرایہ" کے متفرق مضامین – شمارہ 579
(ترجمہ)
سرِ ورق کی تحریر
اے امتِ مسلمہ کے علماء! آپ انبیاء (علیہم السلام) کے وارث اور اللہ کے بندوں پر رسولوں (علیہم السلام) کے امانت دار ہیں۔ لہٰذا، اپنی اس وراثت کی گراں قدر ذمہ داری سنبھالیں اور اس امانت کے حقدار بنیں تاکہ امتِ مسلمہ کو عالمی قیادت کے منصب پر دوبارہ فائز کرنے کے لیے اس کی رہنمائی فرما سکیں۔ امت کی قیادت کا علم بلند کریں تاکہ وہ اپنی حکمرانی (سلطان) ان غاصبوں سے واگزار کرالے جنہوں نے اسے چھین رکھا ہے، اور ان قوم پرستانہ حدود کو جڑ سے اکھاڑ دیں جو مغرب نے اس کی سرزمین کے قلب میں کھینچی ہیں۔ ان تمام خطوں کو دوبارہ ایک ریاست کی صورت میں متحد کر دیں جیسا کہ وہ ماضی میں تھے۔ پھر آپ اور یہ امت ایک ایسے خلیفہ کی بیعتِ اطاعت کریں جو آپ کے مابین اللہ کا حکم نافذ کرے، تاکہ خلقِ خدا اسلام کو ایک عملی حقیقت کے طور پر نافذ ہوتا دیکھے اور اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہو۔ تب آپ کتنے سعادت مند ہوں گے کہ یہ تمام نیکیاں آپ کے نامہ اعمال کی زینت بنیں گی اور انہی کے ساتھ آپ اپنے رب، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔
===
ڈیٹن اتھارٹی کی جانب سے حزب التحریر کے خلاف جارحیت کا تسلسل
سرزمینِ فلسطین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، یہودیوں کی آلہ کار فلسطینی اتھارٹی (PA) نے منگل، 9 دسمبر 2025 کو بیت لحم یونیورسٹی سے نکلتے وقت طالب علم سیف ابو الہویٰ کو گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی میں پہلے غدار کارندوں اور پھر فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز کو بروئے کار لایا گیا، جو کہ فلسطینی عوام کے خلاف اتھارٹی کی غنڈہ گردی اور ہراساں کرنے کے ہتھکنڈوں کا واضح ثبوت ہے۔ انہیں نہ تو دین کی کوئی پروا ہے، نہ قانون کا پاس، اور نہ ہی اس جامعہ کے تقدس کا لحاظ جہاں سے سیف نکلا تھا۔ اسے جمعرات کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے، کسی بھی جرم کی عدم موجودگی کے باوجود، اس کی حراست میں پندرہ دن کی توسیع کر دی۔ اس کا واحد قصور ایک شرعی حکم کی وضاحت کرنا تھا کہ مسلمانوں کے لیے کرسمس کی تقریبات میں شرکت کرنا جائز نہیں!
پریس ریلیز میں استفسار کیا گیا: آخر اس نوجوان نے کون سا ایسا سنگین جرم کیا ہے جس پر فلسطینی اتھارٹی نے اتنا شور برپا کر رکھا ہے؟ کیا سیف نے فلسطین کا سودا کیا جیسا کہ پی ایل او (PLO) نے کیا؟ کیا سیف نے یہودیوں کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن کی اور ان کی خاطر فلسطینی عوام کا خون بہایا جیسا کہ فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز نے کیا؟ کیا سیف نے یہودیوں کو زمینیں فروخت کیں جیسا کہ فلسطینی اتھارٹی کے بدعنوان اہلکاروں نے کیا؟ کیا سیف نے شہداء اور اسیروں کے خاندانوں کے وظائف روک دیے یا مزاحمت کاروں کی تذلیل کی جیسا کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے کیا؟ کیا سیف نے خواتین کی تنظیموں کو ہمارے دین اور اقدار پر یلغار کرنے اور اسلامی احکامات پر تنقید کی راہ ہموار کی؟ کیا سیف نے مغرب و مشرق کی خوشنودی کی خاطر عبوری آئین کی تیاری میں فیمنسٹ خواتین کو شامل کیا؟ آخر گرفتار کسے ہونا چاہیے اور انصاف کے کٹہرے میں کسے لایا جانا چاہیے؟
پریس ریلیز میں مزید کہا گیا: کاش فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سیکورٹی اداروں نے اس وقت ایسی ہی غیرت و حمیت دکھائی ہوتی جب یہودی شب و روز مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کر رہے تھے۔ایسی بے حرمتی جس پر فلسطینی اتھارٹی نے یہودیوں کے ساتھ اپنا تعاون (کوارڈینیشن) تک منقطع نہیں کیا۔ کاش فلسطینی اتھارٹی نے اس وقت ایسی تڑپ دکھائی ہوتی جب مسجدِ ابراہیمی کو سیناگوگ (یہودی عبادت گاہ) میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ کاش فلسطینی اتھارٹی نے اس وقت ایسی جرات دکھائی ہوتی جب غزہ کے مکینوں پر شب و روز یہودی مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ کاش فلسطینی اتھارٹی نے اس وقت ردعمل دیا ہوتا جب مغربی کنارے کے پناہ گزین کیمپوں کو تہس نہس کیا جا رہا تھا اور لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا تھا۔ کاش یہ فورسز اس وقت متحرک ہوتیں جب آباد کار دیہاتوں اور شہروں پر یلغار کر رہے تھے: لوگوں کو شہید کر رہے تھے، درختوں کو جڑ سے اکھاڑ رہے تھے، مویشیوں کو ذبح کر رہے تھے اور زمینوں کو نذرِ آتش کر رہے تھے۔ ان تمام لرزہ خیز واقعات پر ایسی خاموشی طاری رہی جیسے قبرستان کا سناٹا ہو، سوائے ان بے اثر مذمتوں یا مزاحمت کی پکاروں کے جن سے یہ فلسطینی اتھارٹی خود مکمل غافل ہے۔ آپ فلسطین کے عوام اور اس کے نوجوانوں کے لیے تو "شیر" بنے ہوئے ہیں کہ ان پر ناحق حملے کرتے ہیں، لیکن فلسطین کے عوام، اس کی خواتین اور بچوں کی حفاظت کے معاملے میں آپ کیسے "بھیڑ" میں بدل جاتے ہیں؟!
پریس ریلیز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اگرچہ جامعہ بیت لحم کے سامنے سے سیف کا اغوا ایک ایسا جرم ہے جس کی براہِ راست ذمہ دار فلسطینی اتھارٹی اور اس کے کارندے ہیں، لیکن جامعہ بھی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا ایک طالب علم اس کی دہلیز سے اغوا کیا گیا ہے۔ جامعہ کا فرض ہے کہ وہ اس کا دفاع کرے اور اس اتھارٹی کے سامنے سینہ سپر ہو جو فلسطینی عوام اور جامعات کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ جامعہ کی خاموشی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ یہ طلباء کے خلاف جارحیت کے حوصلوں کو مہمیز دیتی ہے۔
پریس ریلیز کے اختتام پر کہا گیا: وہ اتھارٹی جس کے پاس اب یہودیوں کو پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا، جو اس کی عزت کو پامال کر رہے ہیں، اور جو ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق اور مغرب و یہودیت کی غلامی میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے، اس کے لیے، اس کی سیکورٹی فورسز اور اس کے حواریوں کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ وہ فلسطین کے عوام اور داعیانِ حق سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں۔ کیونکہ جن کا تعلق اللہ کی مضبوط رسی سے ہے، وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے جن کے رشتے کافروں کی خوشنودی سے بندھے ہوئے ہیں اور جو عنقریب ٹوٹنے والے ہیں۔ اس دنیا میں امت ان کا سخت محاسبہ کرے گی اور پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹائے جائیں گے جہاں وہ دردناک عذاب کا سامنا کریں گے۔
===
سوڈانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں حزب التحریر کے پانچ ارکان کی گرفتاری
سوڈانی سیکورٹی فورسز نے الشواک شہر میں حزب التحریر کے پانچ ارکان کو حراست میں لے لیا: عثمان الامین کنڈہ، حسن الامین کنڈہ، محمد ثمین آدم، احمد بابکر اور الامین عبداللہ۔ یہ گرفتاریاں الشواک کی قدیم مسجد کے سامنے حزب التحریر/ولایہ سوڈان کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک احتجاجی مظاہرے کے بعد عمل میں آئیں۔ حزب التحریر کے رکن شیخ عثمان الامین کنڈہ نے شرکاء سے خطاب کیا، جن میں علاقے کی معزز شخصیات اور عام شہری شامل تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے دارفور کو علیحدہ کر کے سوڈان کو تقسیم کرنے کے امریکی منصوبے کے خطرناک اثرات کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ امت اور ریاست کی وحدت، بقا کا مسئلہ ہے جو شرعی طور پر فرض ہے۔ کئی اہم شخصیات نے بھی اظہارِ خیال کیا اور تقسیم کے اس مذموم منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے حزب کی حمایت کا اعادہ کیا۔
حزب التحریر/ولایہ سوڈان کے سرکاری ترجمان استاد ابراہیم عثمان (ابو خلیل) نے کہا: "سیکورٹی اداروں کا یہ رویہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ حکومت ڈارفور کو الگ کر کے سوڈان کو تقسیم کرنے کے امریکی ایجنڈے پر کاربند ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے جنوبی سوڈان کو علیحدہ کیا تھا۔ وگرنہ ملک کی وحدت کی حفاظت اور اسے پارہ پارہ ہونے سے بچانے کی پکار بلند کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا کیا جواز ہے؟" انہوں نے مزید کہا: "ہم حزب التحریر/ولایہ سوڈان کی جانب سے حکام اور ان کے سیکورٹی اداروں کو مطلع کرتے ہیں کہ گرفتاریاں اور قدغنیں ہمیں کلمہِ حق کی ادائیگی اور اس پر عمل پیرا ہونے سے نہیں روک سکتیں، چاہے اس کی قیمت ہماری جان اور لہو ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن ہم ان سے کہتے ہیں: امت کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، دعوتِ حق کی راہ میں رکاوٹ بننے کے حوالے سے اللہ کا خوف کرو، اور جان لو کہ تم اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔"
===
کویتی عدالت نے حزب التحریر سے وابستگی پر ایک نوجوان کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی
(الرای ڈیلی، کویت، بدھ، 26 جمادی الثانی 1447ھ، 17/12/2025ء) "کریمنل کورٹ، زیرِ صدارت جج ڈاکٹر خالد الامیرہ، نے ایک شہری کو ایک 'دہشت گرد' گروہ، حزب التحریر، میں شمولیت، اس کی مالی معاونت اور حمایت کے جرم میں پانچ سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی۔ پراسیکیوشن نے ملزم پر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ممنوعہ تنظیم میں شامل ہونے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینے کا الزام عائد کیا جس کا مقصد غیر قانونی ذرائع سے سیاسی نظاموں کا تختہ الٹنا تھا۔ خاص طور پر، اس نے ممنوعہ تنظیم حزب التحریر میں شمولیت اختیار کی، جس کا مطمحِ نظر خلافتِ راشدہ کا قیام ہے، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'X' پر اس گروہ کے نظریات کی تشہیر کے ذریعے دوسروں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی۔"
اخبار الرایہ:
کیا نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء کی جدوجہد ظالم حکمرانوں کی نگاہ میں دہشت گردی قرار پائی ہے؟! کیا امتِ مسلمہ کو اقوامِ عالم میں اس کا جائز مقام دلانے اور دوبارہ وہی "بہترین امت" بنانے کی کوشش جسے بنی نوع انسان کے لیے نکالا گیا ہے، جابر ریاستوں کی نظر میں دہشت گردی بن گئی ہے؟! اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿کُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾
"تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" [سورہ آل عمران: 110]۔
کیا ان حکومتوں اور ان کے کارندوں کے لیے یہ زیادہ قرینِ قیاس بلکہ فرض نہیں تھا کہ وہ ان مردانِ حق کی تکریم کرتے جو اپنی زندگیاں وقف کر کے انتھک محنت کر رہے ہیں اور اپنی جان و مال کی قربانی دے رہے ہیں تاکہ اپنی امت کو استعماری مغرب کی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلائیں اور اللہ کی کتاب اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی بنیاد پر اس کی حقیقی بیداری (نشاۃ ثانیہ) کا سامان کریں؟!
===
حزب التحریر/ولایہ سوڈان کے وفد کی ود مدنی شہر میں سلسلہ سمانیہ کے شیخ سے ملاقات
حزب التحریر/ولایہ سوڈان کے ایک وفد نے گزشتہ روز ہفتہ 13/12/2025 کو ریاست الجزیرہ میں سلسلہ سمانیہ کے شیخ سے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت حزب التحریر کے رکن استاد مہدی مہاجر کر رہے تھے، جن کے ہمراہ رکن حزب التحریر استاد عبدالعزیز ابراہیم اور انجینئر ولید کامل تھے۔ وفد نے دورے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حزب التحریر/ولایہ سوڈان کی اس مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد دارفور کو علیحدہ کرنے کے امریکی منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔
شیخ الفاتح عبدالرحمٰن شطوط نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ حزب کے مشن سے بخوبی واقف ہیں اور حزب التحریر وہ واحد جماعت ہے جو واضح اور دوٹوک حل پیش کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ ڈارفور کی علیحدگی روکنے کے لیے حزب کے ہر اقدام میں ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، اور ان کی مساجد کے دروازے حزب کے نوجوانوں کے لیے ہمہ وقت کھلے ہیں۔ ملاقات کے اختتام پر وفد نے شیخ الفاتح کا پرجوش استقبال اور شاندار ضیافت پر شکریہ ادا کیا۔
===
حزب التحریر/ولایہ لبنان کی رکن پارلیمنٹ ابراہیم منیمنہ سے ملاقات
حزب التحریر/ولایہ لبنان کے ایک وفد نے، جس میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد جابر اور کمیٹی کے رکن انجینئر صالح سلام شامل تھے، منگل 16 دسمبر 2025 کو بیروت کے رکن پارلیمنٹ ابراہیم منیمنہ سے ملاقات کی۔ وفد نے ابتداءً حزب کا تعارف کرایا، اس کے نظریات اور دیگر جماعتوں سے اس کے امتیازی فرق کو واضح کیا، اور اس کے اصولوں سمیت ہر قسم کی فرقہ واریت، قوم پرستی اور قبائلیت کے رد پر زور دیا۔
وفد نے لبنان کے مسائل کے اساسی حل کے لیے حزب کا وژن پیش کیا، جو کہ لبنان کی اصل حیثیت یعنی "ارضِ شام" کے حصے کے طور پر واپسی میں مضمر ہے۔ وفد نے ان غیر قانونی، غیر شرعی اور غیر مؤثر حلوں کو یکسر مسترد کر دیا جو بحران کو حل کرنے کی بجائے اسے مزید طول دینے اور گہرا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ وفد نے خطے کے سلگتے ہوئے مسائل اور لبنانی حکمرانوں کی ان مسلسل کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا جو یہودی وجود کو باقاعدہ تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ معاشی تعلقات کی استواری کی جانب گامزن ہیں۔
وفد نے اس ضرورت پر زور دیا کہ تمام مخلص اراکینِ پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کو، کم از کم اپنے موقف اور بیانات کی حد تک، علانیہ طور پر اس منصوبے کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں فریقین نے مستقبل میں دوبارہ ملنے اور موجودہ صورتحال پر مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
===
شاہی اردنی فضائیہ کے اہلکارو! تم اس وقت کہاں کھڑے ہو جب یہودی تمہارے بھائیوں کے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں؟!
اردنی ٹیلی ویژن نے ہفتہ 20 دسمبر کو خبر دی کہ شاہی اردنی فضائیہ نے گزشتہ شب شام میں داعش کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں میں شرکت کی۔
اردنی ٹیلی ویژن کے مطابق: "اردن کی یہ شرکت انسدادِ دہشت گردی کی جنگ کے فریم ورک کے تحت ہے تاکہ انتہا پسند تنظیموں کو ان علاقوں کو شام کے ہمسایوں اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے لانچنگ پیڈز کے طور پر استعمال کرنے سے روکا جا سکے، خاص طور پر جب داعش نے شام میں اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ مجتمع کر لیا ہے۔" (الجزیرہ نیٹ، ہفتہ، 29 جمادی الثانی 1447ھ، 20/12/2025ء)۔
اخبار الرایہ: وہ سوال جو اس خبر کے سننے اور پڑھنے والے کے ذہن میں شدت سے ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ: کیا وہ صہیونی جنہوں نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا، وہاں کے مکینوں کو شہید کیا، انہیں ان کی زمین اور وطن سے بے دخل کیا اور اس پر اپنا غیر قانونی وجود قائم کیا، دہشت گرد نہیں ہیں؟! وہ صہیونی جنہوں نے غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور وہاں کے لوگوں کی نسل کشی کی جس کے نتیجے میں تقریباً دو لاکھ لوگ شہید اور زخمی ہوئے، اور جو نام نہاد جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود وہاں قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں،کیا وہ دہشت گرد نہیں ہیں؟! وہ یہودی جو مغربی کنارے کے شہروں اور دیہاتوں میں دندناتے پھر رہے ہیں، قتل و غارت، گرفتاریاں اور گھروں کی مسماری کر رہے ہیں، کیا وہ دہشت گرد نہیں ہیں؟! ان سب کے مقابلے میں شاہی اردنی فضائیہ کہاں ہے؟ اس نے ان غاصبوں پر حملہ کیوں نہیں کیا، اور ان مظلوموں کی نصرت کے لیے کیوں نہیں آئی جن کی فریادیں کرتے کرتے آوازیں بیٹھ چکی ہیں اور جن کے دل شکستہ ہو چکے ہیں؟ یا اس کا اور اس کے بادشاہ کا کردار محض اتنا ہے کہ صہیونیوں کی ایماء پر ان کی طرف چند نوالے پھینک دیں؟!
اور کیا یہ امریکہ، جس کے ساتھ مل کر اردن داعش پر حملوں میں شریکِ کار ہے، کفر اور جرائم کا سرغنہ نہیں ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہے، صہیونی وجود کو مال اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے، اور اسے سیاسی، معاشی اور میڈیا کی مدد دے رہا ہے تاکہ غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام، ایران اور یمن میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جا سکے؟! تو اے اردنی فوج اور فضائیہ، تمہیں کیا ہوا ہے، تم معاملات کا فیصلہ کس طرح کرتے ہو؟!
﴿وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
"اور انہیں وہاں سے نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔" [سورہ البقرہ: 191]
اے تمام مسلم ممالک کی افواج: ہر صاحبِ بصیرت جانتا ہے کہ غزہ اور اس کے عوام کی مدد کا واحد راستہ یہ ہے کہ آپ اس سرزمینِ مبارک سے یہودیوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے حرکت میں آئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
"اور انہیں وہاں سے نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے" [سورہ البقرہ: 191]۔
لیکن آپ کے غدار حکمران، استعمار کے کارندے اور آپ کی فوجی قیادتیں درپردہ غاصب یہودی وجود کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہیں، جسے "ابراہیمی معاہدوں" اور اسی طرح کے دیگر ناموں کا عنوان دیا گیا ہے جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔
یہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ صریح غداری ہے، قبلہِ اول اور تیسری مقدس ترین مسجد کا سودا ہے، اور اس اسلامی سرزمین سے دستبرداری ہے جو کہ پوری امت کی ملکیت ہے۔ یہ آپ کا شرعی فریضہ ہے کہ کسی بھی سیاسی لیڈر یا فوجی کمانڈر کو اسلامی فلسطین کی ایک انچ زمین بھی صہیونیوں یا کسی دوسرے کافر کے حوالے کرنے سے روکیں، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ یہ حقیقت بھی آشکار ہو چکی ہے کہ "دو ریاستی حل" نہ صرف ایک دھوکہ ہے بلکہ اسلامی شریعت کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عملاً صرف ایک ہی یہودی ریاست ہوگی، جبکہ نام نہاد فلسطینی ریاست ایک میونسپلٹی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گی جو محض 10 فیصد زمین پر محیط ہوگی۔ یہاں تک کہ صہیونی رہنما اس سے بھی انکاری ہیں اور اسے ریاست نہیں بلکہ ایک وسیع جیل تصور کرتے ہیں جس کی پہرے داری صہیونی فوجی کریں گے۔
===
امت کی دولت ایک مجرم ٹولے کے ذریعے، اس کی خواہشات اور اس کے آقاؤں کے مفادات کی نذر کی جا رہی ہے
خلیجی ریاستوں کی استعماری مغرب سے غلامانہ وابستگی نے ان کی معاشی پالیسیوں کو مغرب کے اشاروں کا پابند بنا دیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ امت کی ضروریات یا امنگوں کی عکاس ہوں۔ اس طرح وہ بے پناہ دولت جو بھاری صنعتوں کے قیام، زراعت کی جدیدیت اور امت کی نشاۃ ثانیہ (ترقی) کے لیے صرف ہو سکتی تھی، بین الاقوامی شطرنج میں محض خوشامد اور توازن برقرار رکھنے کے آلے میں تبدیل کر دی گئی ہے، جہاں مسلمانوں کا کردار محض ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس دولت کو "بیت المال" کے بجائے "نجی ملکیت" کی ذہنیت سے چلایا جا رہا ہے جبکہ یہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ ایک مجرم گروہ اسے اپنی عیاشیوں اور مغربی ممالک (اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں) کو نوازنے پر لٹا رہا ہے، جنہیں وہ پھر اسی اسلحے اور طیاروں کی خریداری کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ ہماری زمینوں پر بمباری کریں اور ہمارے معصوم بچوں کو قتل کریں! لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ امتِ مسلمہ دوبارہ بیدار ہو اور اسے یہ ادراک ہو کہ اس کی دولت کسی عارضی حکمران کی جاگیر نہیں ہے، اور نہ ہی چوروں کے اس گروہ کی ہے جو عیش و طرب کے بلند و بالا ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کے مصائب سے بے خبر ہیں۔
تیل، گیس، سونا اور دیگر تمام قدرتی وسائل مغرب کو تحفے میں دینے کے لیے نہیں ہیں، اور نہ ہی یہ وہ اثاثے ہیں جنہیں حکمرانوں کے محلات اور ذاتی فائدوں میں ضائع کیا جائے۔ اس کے برعکس، یہ پوری امت کا حق ہے، ایک ایسی امانت جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکمرانوں سے قبل امت کو عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا اس امت کے افراد پر یہ شرعی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوت کو پہچانیں، اپنے حکمرانوں کے خوف کے بت توڑ دیں اور سمجھ لیں کہ بیداری غیر ملکی خیرات یا مغربی وعدوں سے نہیں آتی۔ بلکہ یہ اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور اپنے چھینے ہوئے حقوق واپس لیتے ہیں۔ جو امت اپنی دولت ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے وہ اپنا مستقبل کھو بیٹھتی ہے، جبکہ جو امت اپنے وسائل پر تصرف حاصل کر لیتی ہے وہ اقوامِ عالم میں اپنا وقار اور مقام دوبارہ پا لیتی ہے۔ یہ صرف اسلامی ریاست کی واپسی سے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا حزب التحریر کے شانہ بشانہ نبوت کے طریقے پر خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے تندہی سے کام کریں، تاکہ آپ کو اس دنیا اور آخرت میں حقیقی عزت و وقار میسر آ سکے۔
===
اب وقت آگیا ہے کہ امتِ مسلمہ سیکولرزم کے حصار سے باہر نکل کر سوچے
اب وقت آگیا ہے کہ امتِ مسلمہ سیکولرزم کے خول سے باہر نکل کر سوچے، استعماری مغرب کی غلامی کو "خیرباد" کہے، مغرب اور اس کے ایجنٹوں کی طرف سے ہم پر مسلط کردہ قیود کو مسترد کرے، اور معاشرے کے پست ترین طبقے کے درآمد شدہ فیصلوں کو ٹھکرا دے۔ اب وقت ہے کہ امت دنیا میں اپنا فطری اور قائدانہ کردار دوبارہ سنبھالے، پوری دنیا پر اپنی سیادت کا لوہا منوائے، اور اپنی سوئی ہوئی بیداری کو جگائے تاکہ وہ اپنی قیادت باہر سے درآمد کرنے کے بجائے اپنے اندر سے پیدا کرے۔
ایک زندہ امت، مغرب کے بٹھائے ہوئے ان غدار حکمرانوں کے فیصلوں کے آگے سرِ تسلیم خم نہیں کر سکتی جو مغربی مفادات کے چوکیدار بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے اب وقت ہے کہ ہماری امت اپنی چھینی ہوئی عظمت اور اپنی قیادت کی رفعت کو دوبارہ حاصل کرے، جو مانگی نہیں بلکہ چھینی جاتی ہے۔ ہمیں ان اسلاف کا وقار بحال کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ہماری تاریخ رقم کی، اور مغربی غلامی کی ان زنجیروں کو توڑنا ہے جو ہم پر ناحق اور جبراً مسلط کی گئی ہیں۔
عظمت محض کوئی نعرہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے جس کی تجدید کا وقت آگیا ہے، اور قیادت محض لفظی لفاظی کا نام نہیں بلکہ ایک عمل ہے جو قوموں کی تقدیر بدلتا ہے۔ یہ ہراول دستہ، حزب التحریر، جس کے فرزند اپنے رہنماؤں سے جھوٹ نہیں بولتے، اپنی اس سلب شدہ عظمت کی بحالی کے لیے وقف ہے۔ تو آئیے نجات کی اس کشتی میں سوار ہو جائیں جس کے ذریعے آپ نبوت کے طریقے پر اپنی خلافتِ راشدہ قائم کر کے اپنی رفتہ عزت بحال کریں گے، تاکہ ہم کسی انسان کے غلام نہ رہیں۔