الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے

14اگست 2021

 

طالبان افغانستان کے آدھے سے زیادہ صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو گئے ہیں

ایسوسیئٹڈ پریس (Associated Press)کی رپورٹ کے مطابق، جمعہ کو بجلی کی سرعت سے حملہ کرتے ہوئے مجاہدین نے افغانستان کے جنوبی قلب میں مزید چار صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا اور آدھے سے زیادہ صوبائی دارالحکومت اور ملک کا دو تہائی حصہ ان کے کنٹرول میں آگئے جس میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے درمیان مغرب میں ہرات اور جنوب میں قندہار شامل ہیں جو کہ ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر ہیں۔امریکہ کی کٹھ پتلی کابل حکومت اب مرکز اور مشرق میں صرف گنتی کے چندصوبے اورشمال میں مزارِ شریف کے شہرپر اپنا تسلط رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کابل شہر ابھی تک براہ راست نشانے پر نہیں مگر دارالحکومت سے صرف 80 کلومیٹر دورکابل حکومت کی فورسزلڑ رہی ہیں اور امریکی فوج کے اندازے کے مطابق کابل خود بھی ایک مہینے کے اندر دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے جو کہ مجاہدین کو پورے ملک کو اپنے اختیار میں لینے کے قابل بنا سکتا ہے۔

 

مجاہدین کو غیر معروف دکھانے کی مغربی میڈیا کی کوشش کے باوجود، ملک میں اتنی سرعت سے آگے بڑھنا ، میدان پروسیع حمایت کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ مغربی کلچر اور نظام صرف چند بڑے شہروں میں ہی پھل پھول سکا، زیادہ تر ملک کا حصہ اسلامی حکومت کے خاتمے کے بہت بعد تک بھی شرعی طریقوں کے مطابق ہی چلتا رہا۔ یہ ان کے لیے معمول کی بات ہے کہ وہ اپنے تنازعات میں اسلامی علماء سے رہنمائی اختیار کریں بجائے کہ اپنے آپ کو حکومتی ججز کے آگے پیش کریں جو مغربی قانون نافذ کرتے ہیں۔مزید برآں یہ صرف افغانستان ہی نہیں جس کو مغربی افواج اپنے قبضے میں رکھنے میں ناکام ہوئیں بلکہ وہ عراق پر بھی اپنا قبضہ نہ رکھ سکیں جس پرانہوں نے افغانستان کے فوراً بعد حملہ کیاتھا۔ اس وجہ سے امریکہ کو بیسویں صدی کا وہ سبق دھرانا پڑاجو یورپی سامراجی طاقتوں نے سیکھا تھا اور انہیں مسلم علاقوں سے اپنی افواج کو بلآ خر نکالنا پڑا تھا۔

 

مسلمانوں میں صرف ویژن اور خود اعتمادی کا فقدان ہے۔مسلمانوں کے مابین مغربی تعلیم یافتہ طبقے نےمغرب کی طاقت کو غیر معقول طور پرحقیقت سے زیادہ جبکہ مسلم امت اور اسلامی شریعت کی طاقت کو اصل سے کم سمجھ رکھا ہے۔مسلمانوں کے حکمران طبقے کو یہ باور کروایا گیا ہے کہ دنیا میں ترقی کے لیے مغرب کی تقلیدکی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے وہ ان پر انحصار کرتے ہیں، ان سے تمام معاملات میں مدد اور رہنمائی طلب کرتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کے معاملات میں مغرب کو مداخلت کی دعوت سیاسی خود کشی سے کم نہیں۔ اس وقت بھی طالبان کی قیادت کو افغانستان میں امریکہ کی جانب سے مسلط کردہ تصفیہ  کو قبول کرنے میں بہت زیادہ بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے جس کا مطلب موجودہ کابل حکومت اور اس میں موجود اہم لوگوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ کسی قسم کا شراکتِ اقتدار ہے۔ امریکی دفترِ خارجہ کے مطابق اس ہفتے امریکی ایلچی زلمی خلیل زاد کے قطر کے دورے کا مقصد، "طالبان کو فوجی کارروائیوں سے روکنے  اور سیاسی حل کے لیے مذاکرات پر مجبور کرنا ہے"۔ اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دھمکی دی، "یہ وقت حملے کو روکنے کا ہے۔ یہ وقت سنجیدہ مذاکرات شروع کرنے کا ہے۔  یہ وقت ایک لمبی خانہ جنگی کو شروع ہونے  اور افغانستان کو تنہائی میں جانے سے روکنے کا ہے"۔طالبان قیادت کوغیر ملکیوں کو قبول کرنے پر مجبور کرکے، امریکہ یہ امید کرتا ہےکہ وہ افغان معاملات پر اپنا اثرورسوخ برقرار رکھ سکے گا تاکہ امریکہ سب کچھ نہ ہار جائے۔ لیکن اگرمغرب طالبان کو جنگ میں نہیں ہرا سکا تو پھر امن کے لیے اس کی شرائط کو کیوں تسلیم کریں؟

 

اللہ کے اذن سے، مسلم امت جلد حقیقی آگہی حاصل کرنے والی ہے اور اٹھ کر اجنبی کافر طاقتوں کے اثرورسوخ کو زائل کرنے والی ہے اور جلد اسلامی خلافت راشدہ کو قائم کرنے والی ہے جو کہ نبوت ﷺکے نقشِ قدم پر قائم ہوگی۔ یہ خلافت تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی، مسلم علاقوں کو یکجا کرے گی، اسلامی شریعت کو نفاذ اور اسلامی طرزِ زندگی کو بحال کرے گی اور اسلام کی روشنی کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔

 

تیونس، لبنان

لیبیا میں ایک بڑی فتح کے بعد اور تیونس میں فرانس اور برطانیہ کے مابین بڑھتے ہوئی کشیدگی  کا فائدہ اٹھا کر امریکہ تیونس میں اپنی مداخلت کو گہرا کرنے کا رستہ اختیار کر رہا ہے۔جولائی کے اختتام پر، تیونس کے صدر قیس سعید نے فوجی طاقتوں کی پشت پناہی سے  وزیرِ اعظم کو برخاست اور پارلیمان کو معطل کردیا تھا۔ بطور ایک سابقہ فرانسیسی کالونی کے، تیونس کی فوج کا فرانس سے گہرا رابطہ ہے جبکہ تیونس کے بہت سے سیاستدان حبیب بورغبہ اور زین العابدین بن علی کے دہائیوں پر محیط دورِ حکومت کی وجہ سےبرطانیہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ امریکہ قیس سعید کی حمایت کا اعلان کرکےخود کو فرانس-برطانیہ کے اس سول-فوجی تنازعہ میں داخل کروا رہا ہے۔جمعہ کو امریکہ کے نائب قومی سلامتی کے مشیر جانتھن فنر نے قیس سعید سے ملاقات کی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ایک پیغام پہنچایا جس میں " اپنی ذاتی حمایت اور بائیڈن-ہیرس انتظامیہ کی تیونس کے لوگوں کی حمایت اور تیونس میں پارلیمانی جمہوریت کی طرف تیزی سے واپسی کا مطالبہ کیا"۔مسلم علاقے خارجی طاقتوں کے درمیان مقابلے اور استحصال کا میدان بنے رہیں گے جب تک مسلم امت خلافت قائم کرکےاپنے معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتی، جو اپنے آغاز سے ہی، بوجہ ایک بڑے رقبے، توانا آبادی، طاقتور وسائل اور اہمیت کی حامل جغرافیائی پوزیشن اور اعلیٰ اسلامی آئیڈیالوجی کے، بڑی طاقتوں کی صفوں میں شامل ہوجائے گی ۔

 

ایک شدید اقتصادی بحران کی وجہ سے جو کہ کہیں پر کسی بھی ملک میں نہیں آیا، لبنان کے مرکزی بینک نےتیل پر سے سبسڈی ختم کرکے مصیبتوں پر مصیبت لا کھڑی کر دی ہے، جو کہ ایک ایسا قدم ہے جو سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی سوچ کے عین مطابق ہے۔تیل کی قیمتوں میں کسی تبدیلی کاوسیع تر اثر لامحالہ طور پر پورے ملک پر پڑے گا۔ اسلامی شریعت تیل کو ایک عوامی ملکیت قرار دیتی ہےجس کے لوگ مجموعی طور پر مالک ہوتے ہیں اور جو کہ ان  کی نمائندہ حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ریاستِ خلافت مارکیٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں کا تعین کر سکتی ہے مگراس صورت میں منافع سرمایہ دار کاروباری اشرافیہ کا  نہیں بلکہ مسلم امت کا ہوتا۔ لبنان کے لوگ پوری امت کے اندر سب سے زیادہ پیداواری اور کاروباری سوچ کے حامل لوگ ہیں، اس مصیبت کے پڑنے سے پہلے، لبنان پورے مشرقِ وسطیٰ کی کاروباری سرگرمی کے انجن کی حیثیت رکھتا تھا۔ لبنان کا المیہ اس کا استحصالانہ اقتصادی نظام اور کرپٹ سیاسی نظام ہے جن کو مغرب نے مسلط کر رکھا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت نہیں چل سکتی، اگر مغرب ترقی یافتہ لگتا ہے تو یہ ان کی مقامی معیشتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ پوری دنیا کے وسائل اور دولت کی لوٹ کھسوٹ ہے۔ یہ اسلام کے برخلاف ہےجس نے نہ صرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچایابلکہ اپنی آزادانہ اور فراخدلانہ بین الاقوامی تجارت کی پالیسیوں کے ذریعے پوری دنیا کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ مسلمان لوگ انتہائی ذہین، قابل اورمحنتی ہیں اور ان کو ایک مضبوط مرکزی خاندانی نظام نےسنبھال رکھا ہےجو کہ افراد کواپنی پوری استعداد کے مطابق کام کرنے کے قابل بناتا ہے، صرف جو چیز کم ہے وہ ایک درست حکومتی نظام ہے جو ان کی توانائیوں کو مغربی اشرافیہ کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ ان کے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے۔ اللہ کے اذن سے، دوبارہ قائم ہونے والی خلافت تیزی سے اپنی زراعت، تجارت، صنعت اور کاروبار کواسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کے ذریعےآگے بڑھائے گی اور ایک دفعہ پھر اسلامی سرزمین کوپوری دنیا کی خوشحالی کا مرکز بنائے گی جیسا کہ پہلے بھی اس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کو فائدہ پہنچایا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌ وَاَحۡسِنۡ كَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌ وَلَا تَبۡغِ الۡـفَسَادَ فِىۡ الۡاَرۡضِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ

اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا۔ (القصص- 77)

 

Last modified onاتوار, 22 اگست 2021 17:42

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک