السبت، 23 جمادى الثانية 1447| 2025/12/13
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ سوئم)

تین حصوں پر مشتمل اس مضمون کے آخری حصے میں عابد مصطفٰی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا پچھلی ایک دہائی میں دنیا میں امریکہ کے وقار میں کمی آئی ہے یا نہیں۔ خصوصاً انہوں نے دنیا کے مسائل کے حل کرنے کے حوالے سے امریکہ کی سیاسی صلاحیت پر بحث کی ہے۔

پچھلے مضمون میں قوموں کے زوال کے اسباب کا تعین کیا گیا تھا اور ان اسباب میں سب سے اہم سوچ کی تین اقسام: سیاسی، فکری اور قانونی اور دنیا میں دوسری قوموں کے مقابلے میں کسی ایک قوم پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، پر بحث کی گئی تھی۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ سب سے اہم سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے اور اس کے دوسری کسی بھی قسم کی سوچ پر سب سے زیادہ گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ لہٰذا، مضمون کو مختصر رکھنے کے لئے ہم صرف سیاسی سوچ کے حوالے سے امریکہ کے زوال کے متعلق بات کریں گے۔ امریکہ کے زوال پر ہر قسم کی سوچ کے حوالے سے بحث کرنا اس مضمون کی حدود سے باہر ہے۔
امریکہ کے سیاسی زوال پر بحث کرتے ہوئے اس کے اندرونی اور بیرونی معاملات کو سامنے رکھاجانا چاہیے لیکن کیونکہ اس مضمون کو ایک مخصوص حد میں رکھنا ہے اس لئے میں صرف امریکہ کے بیرونی معاملات پر توجہ مرکوز کروں گا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ ایک نظریاتی ریاست میں اندرونی اور بیرونی معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر اندرونی معاملات پر سیاسی سوچ میں زوال رونما ہوگا تو اس قوم کی بیرونی معاملات میں کارکردگی متاثر ہو گی اور بیرونی معاملات میں شدید سیاسی غلطیاں اندرونی معاملات کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی حکومت کے 2008 میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کو روکنے میں ناکامی نے اس کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے معاملات کو متاثر کیا۔ جبکہ دوسری جانب عراق و افغانستان کی جنگوں کے نتائج نے امریکہ کو بیرونی دنیا کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کردیا اور اس بنا پر امریکہ میں اس پر بہت بات کی گئی کہ بیرونی دنیا میں امریکہ کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
28 مئی 2014 کو امریکی صدر اوبامہ نے امریکہ کی ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو بین الاقوامی میدان میں درپیش مسائل پر ایک اہم بیان دیا۔ اس نے کہا کہ "امریکہ کو لازمی ہمیشہ دنیا کے امور پر رہنمائی فراہم کرنی ہے۔ اگر ہم نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔ یہ فوج جس میں آپ نے شمولیت اختیار کی ہے، اس عالمی قیادت کی کمر ہے اور رہے گی۔ لیکن ہر معاملے میں صرف فوجی حل یا اس کا اہم کردار ہماری قیادت کا لازمی حصہ نہیں ہوسکتا۔ محض اس وجہ سے کہ ہمارے پاس بہترین ہتھوڑا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسئلے کا حل کیل ہے"۔ یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ نے پیچیدہ سیاسی مسائل کے حل کے لئے فوجی قوت پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں امریکہ کے سیاسی اثرو رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سیاسی اثرو رسوخ ضروری ہے، محض اس لئے نہیں کہ سیاسی حل پیش کیے جاسکیں بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نافذ بھی کیا جاسکے۔ اوبامہ کا اپنی تقریر میں فوجی قوت کو "اہم حصہ" قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کئی سالوں بعد پہلی دفعہ بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے امریکہ کو اپنے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے بین الاقوامی امور میں سیاسی حل پیش کرنے کے لئے سیاسی اثرو رسوخ کا ہونا کسی ملک کی سیاسی سوچ کے عروج و زوال کو جاننے سے متعلق ایک حقیقی پیمانہ ہے۔
امریکہ کے سیاسی اثرورسوخ سے مراد یہ ہے کہ امریکہ دوسری اقوام کے رویے کو اس طرح سےبدل سکے کہ وہ امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے سیاسی حل کو قبول اور نافذ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس بات کا عملی مظاہرہ یہ ہوگا کہ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر امریکہ کے پاس یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنے قابو میں رکھ سکے یعنی اس کے حکمران، حکومت، سیاسی میدان، ریاستی ادارے (جیسا کہ عدلیہ، بیوروکریسی وغیرہ) اور فوج۔ اور اس صلاحیت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگ امریکہ کی جانب سے دیے گئے سیاسی حل کی مخالفت نہ کریں یا نہ کرسکیں۔
کسی ملک پر جس قدر زیادہ سیاسی اثرو رسوخ ہوگا تو اسی قدر کم فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسی طرح اس بات کا الٹ بھی بالکل صحیح ہے یعنی جس قدر سیاسی اثرورسوخ کم ہو گا اسی قدر فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں پر فوجی قوت سے مراد سیاسی حل کو قبول کرنے یا نافذ کرنے کے حوالے سے رکاوٹوں کو عملی طور پر ہٹانا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے کہ کس طرح امریکہ کا بین الاقوامی سطح پر سیاسی اثرورسوخ کم ہوا ہے درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
ہم سب کو یاد ہے کہ کس طرح بش جونیئر ابراہم لنکن پر "مشن مکمل ہوا" کے بینر تلے تکبر کے ساتھ کھڑے ہو کر عراق کی فتح کی تقریر کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ "اس جنگ میں ہم نے آزادی اور دنیا کے امن کے لئے لڑائی کی۔ ہماری قوم اور ہمارے اتحادی اس مقصد کے حصول پر فخر کرتے ہیں.....عراق کی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی فاتح رہے"۔ اس فتح مندی کی تقریر میں اس گوریلہ جنگ کی حقیقت کو چھپایا گیا تھا جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ امریکہ نے جلد ہی یہ جان لیا تھا کہ وہ عراق کی دلدل میں پھنس گیا ہے اور وہ اس دلدل سے نکلنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کررہا ہے۔ یہ دلدل اس قدر مشکل تھی کہ جنگ کے اغراض و مقاصد: عراق میں جمہوریت کو پروان چڑھانا، تیل کی قیمتوں کو انتہائی کم کرنا اور فوجی اڈوں کا قیام تا کہ ہمسائیہ ممالک میں حکومتیں تبدیل کی جاسکیں، جلد بھلا دیے گئے۔ اس کی جگہ امریکہ ایک گوریلہ جنگ میں پھنس گیا اورعراق کے بنیادی مسائل، تحفظ کی فراہمی اور ایک کام کرنے والی حکومت کے قیام کو حل کرنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔
اور پھر جب معاملات کسی حد تک قابو میں آئے اور امریکہ اس قابل ہوا کہ اپنی مرضی کا آدمی چُن سکے جو عراق کی کمزور حکومت، کمزور اداروں اور کمزور فوج کو چلا سکے تو امریکہ عراق سے نکل گیا اور پیچھے عدم استحکام اور بدامنی کا آفریت چھوڑ گیا۔ باوجود اس کے کہ عراق کے تمام ریاستی ادارے امریکہ کے کنٹرول میں تھے، امریکہ کے پاس عراق کے سب سے بڑے مسئلے یعنی عدم استحکام کے حل کے لئے سیاسی اثرورسوخ انتہائی کم تھا۔ عراق اس بات کی بڑی واضح مثال ہے کہ جہاں امریکہ نے بھرپور فوجی قوت استعمال کی لیکن وہ سیاسی طور پر ناکام رہا۔ آج عراق کے صورتحال بد سے بدتر ہو چکی ہے اور ملک کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ ایک بار پھر امریکہ عراق کو ٹکڑے کرنے کے لئے خفیہ فوجی ذرائع استعمال کررہا ہے اور اس بات کی امید کررہا ہے کہ اس طرح وہ عراق کے مختلف حصوں میں استحکام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اسی طرح افغانستان میں امریکہ کی کارکردگی عراق سے بھی زیادہ خراب ہے۔ فوجی لحاظ سے امریکہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن سیاسی محاذ پر امریکہ کی ناکامی، فوجی ناکامی سے بھی بڑھ کر ہے۔ 2001 میں ہونے والی بون کانفرنس کے وقت سے ہی امریکہ افغانستان میں ایک ایسی کامیاب حکومت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی عملداری کابل تک ہی محدود نہ ہو۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے عبداللہ اور غنی کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کے لئے جو معاہدہ کرایا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ہی ایک مثال ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ پہلے بھی امریکہ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی اور انخلاء کو کئی بار مؤخر کرنا پڑا۔ اور بالآخر مئی 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس کانفرنس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں تمام اتحادیوں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان میں شروع کی جانے والی اس مہم جوئی کو اب ختم کیا جائے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا کہ "دس سال کی جنگ کے بعد اور جبکہ عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہے، مغرب کی اقوام ایک ایسی جگہ پر اپنی توانائیاں نہ تو پیسے کی صورت میں خرچ کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی جانوں کی صورت میں جہاں صدیوں سے غیر ملکی کوششوں کی مزاحمت کی گئی ہے"۔
امریکہ کی سیاسی ناکامی صرف مشرق وسطٰی اور یوریشیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ افریقہ میں امریکہ کی سیاسی اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش بھی بری طرح سے ناکام رہی ہے۔ جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان نے امریکی نگرانی میں ہونے والے استصواب رائے میں بڑی تعداد میں سوڈان سے علیحدگی کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔ نیا ملک امریکہ نے سوڈان میں سے نکال کر بنایا تاکہ جنوب میں موجود تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرسکے اور چین کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے۔ دو سال بعد اس نئے ملک میں مکمل خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جنوبی سوڈان کے اس انجام نے اس نئے ملک سے متعلق امریکہ کی جانب سے دِکھائی جانی والی امید پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نیویار ک ٹائمز نے اس حوالے سے لکھا کہ "جنوبی سوڈان کئی حوالوں سے امریکہ کی تخلیق ہے۔ اس کے کمزور اداروں کو امریکہ نے اربوں ڈالر دے کر کھڑا کیا ہے۔ لیکن ایک زبردست اور خوفناک تنازعہ نے اوبامہ انتظامیہ کو افریقہ میں ہونے والی اس امریکی کامیابی کو بچانے کی کوششیں کرنے پر مجبور کردیا ہے"۔ ناکامی کے اس سلسلے میں جنوبی سوڈان واحد مثال نہیں ہے بلکہ افریقہ میں کئی اور ممالک بھی امریکہ کی سیاسی ناکامی کی کہانی بیان کرتے ہیں جہاں امریکہ حکومت، شہری اداروں اور اور فوج کو کنٹرول تو کرتا ہے لیکن اس کے باوجود تحفظ اور اچھی حکمرانی کے حوالے سے پائیدار سیاسی حل دینے سے قاصر ہے۔
امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات میں بہت ہی بُرا موڑ آیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب مشرقی یورپ میں امریکہ طاقت کا سرچشمہ تھا اور اس کا سیاسی اثرورسوخ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ روس عمومی طور پر پیچھے ہوتا تھا خصوصاً کلنٹن کے دور میں جب نیٹو اور یورپی یونین تیزی سے پھیل رہی تھی۔ لیکن پچھلے چھ سالوں میں امریکہ کے لئے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کے خطوں کی جارجیا سے علیحدگی اور ان پر روس کے قبضے سے لے کر کریمیا کی روس میں شمولیت تک، روس نے مسلسل امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے اور امریکی اثرورسوخ کو ناصرف قفقاز بلکہ وسط ایشیا کے ممالک جیسے ازبکستان اور کرغستان سے باہر دھکیل دیا ہے۔ امریکہ کے سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ "ہم روس کو اپنا ساتھی بنانا چاہتے تھے لیکن پوٹن کی قیادت میں اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس نے جو چیلنج کیا ہے وہ کریمیا یا یوکرین تک محدود نہیں ہے۔ اس کے اقدامات نے سرد جنگ کے بعد کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا ہے اور اس سے بڑھ کر آزاد ریاستوں کو اس بات کا حق ہونا کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں تعلقات قائم کریں یا کاروبار کریں "۔ 1990 کی ابتداء سے امریکہ نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا ءکو اپنے سیاسی اثرورسوخ سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پوٹن نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اور اب امریکہ کو پہلے سے بھی زیادہ طاقتور روس کا سامنا ہے جو امریکہ کے لئے ایسی مشکلات پیدا کررہا ہے جو پہلے نہیں تھیں۔ لہٰذا یہ امریکی پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔
اس کے علاوہ ایشیا پیسفک میں امریکہ کے مدمقابل چین ہے۔ یہاں بھی ایک ابھرتی ہوئی طاقت چین کو ایک علاقائی طاقت تک محدود کرنے کی امریکی پالیسی ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ کئی برسوں سے ایشیا پیسفک میں امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ چین کے ہمسائیہ ممالک کی مدد سے ایک زبردست سکیورٹی حصار قائم کرنے کی کوشش کرے جس کا مقصد چین کو اس کی اپنی سرحدوں کے اندر ہی محدود کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نے اس سکیورٹی حصار کو کئی بار مختلف زمینی تنازعات اور جارحانہ فوجی نقل و حرکت کے ذریعے توڑا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کو اپنی دفاعی قوت کو بڑھانا پڑا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین کی یہ نقل و حرکت اتفاقی نہیں لگتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ "تمام ایشیا میں چین امریکی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کو کمزور کیا جائے جو امریکہ سے قریب ہیں اور جن کی وجہ سے اس خطے میں امریکہ کو دوسری جنگ عظیم سے بالادستی حاصل ہے"۔
چین کی اس نئی خود اعتمادی کو روکنے کے لئے اوبامہ انتظامیہ کو "یو۔ایس پیوٹ ٹو ایشیا" کے نام سے ایک پالیسی کا اجرا کرنا پڑا جس کے تحت امریکہ اپنی بحری قوت کے ساٹھ فیصد حصے کو یورپ سے ہٹا کر ایشیا پیسفک منتقل کردے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ ایشیا پیسفک میں موجود ممالک کے ساتھ پرانے دفاعی معاہدوں کی تجدید اور ان کی وسعت کو توسیع دے رہا ہے جیسا کہ جاپان کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اپنے آئین کو تبدیل کرے تاکہ ٹوکیو زیادہ بڑا کردار ادا کرسکے۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود امریکی اتحادی مطمئن نہیں ہیں اور واشنگٹن کے طویل مدتی کردار کے حوالے سے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ رائیٹرز لکھتا ہےکہ "ایشیائی اتحادیوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر وہ چین کی جارحیت کا شکار ہوئے تو ان ممالک کے دفاع کے حوالے سے معاہدوں کے باوجود امریکہ نقصانات کو محدود کرنے کی غرض سے چین کے ساتھ اپنے انتہائی اہم تعلقات کو بچانے کی کوشش کرے گا کیونکہ چین دوسری بڑی عالمی معیشت ہے"۔
یہ چند مثالیں ہیں جہاں پچھلی ایک دہائی کے دوران امریکہ کی سیاسی قوت میں نمایاں کمزوری واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسرے براعظموں میں موجود ممالک سے متعلق امریکی سیاسی قوت میں کمی کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا یہاں چند مثالوں کو پیش کرنا ضروری ہے۔
1۔ بیرونی دنیا میں امریکی سیاسی اثرورسوخ میں کمی سب سے پہلے بش جونیئر کے دور میں واقع ہوئی جب امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ کسی بھی پیمانے کے لحاظ سے یہ ایک بہت ہی برا سیاسی فیصلہ تھا جس نے امریکی خارجہ پالیسی کے لئے کئی مشکلات پیدا کردیں۔ اگر عراق صدر بش کی سٹریٹیجک غلطی تھی تو شام کے مسئلے کے حل میں ناکامی اوبامہ کی سٹریٹیجک غلطی ہے اگرچہ ابھی یہ غلطی عراق کی غلطی کے درجہ کی نہیں لیکن کبھی بھی ہوسکتی ہے۔
2۔ امریکہ کی سیاسی قوت میں کمی اس وقت واقع ہورہی ہے جب امریکہ کی فوجی قوت اپنی بلندیوں پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اپنی فوجی قوت کو سیاسی فائدے میں تبدیل نہیں کرسکا۔ امریکہ ممالک کو تباہ وبرباد کرنے میں تو ماہر ہے لیکن ان قوموں کو کھڑا کرنے میں انتہائی ناکام بھی ہے۔ قوموں کو کھڑا کرنے کے لئے ایک زبردست سیاسی فکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے معاملات کو منظم کرنا ہوتا ہے لیکن ان کو تباہ کرنے کے لئے محض ان کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق جتانا ہوتا ہے۔
3۔ جہاں جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ کم ہورہا ہے وہاں یا تو امریکہ کو کسی اہم قوت کی جانب سے سیاسی چیلنج درپیش ہے جیسا کہ یوکرین، یا پھر مقامی لوگوں کی جانب سے چیلنج کا سامنا ہے جن میں سیاسی بیداری پیدا ہوگئی ہے جن کی قیادت سیاسی تحریکیں کررہی ہیں۔ زیادہ تر مسلم ممالک اس دوسری قسم کے چیلنج کے زمرے میں آتے ہیں۔
4۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ 1980 اور 1990 کے مقابلے میں 2003 سے اب تک امریکہ نے خارجہ پالیسی کے معاملے میں کوئی ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ جو چند ایک سیاسی کامیابیاں حاصل بھی کیں تو وہ جلد ہی ناکامیوں میں تبدیل ہوگئیں اور کچھ تو اس کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہی بن گئیں۔
5۔ یہ مسلم دنیا ہے جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ تیزی سے گر رہا ہے جبکہ کئی ممالک میں اہم ترین اداروں پر وہ اب بھی زبردست اثرورسوخ رکھتا ہے جیسا کہ پاکستان، شام اور مصر وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کی آبادی صرف امریکہ مخالف نہیں ہے بلکہ اس نے مغربی ثقافت اور نظریے سے بھی تعلق توڑ لیا ہے۔ یہ صورتحال بغیر فوجی قوت کے استعمال کے سیاسی معاملات کو حل کرنے کی امریکی صلاحیت کو شدید متاثر کرتی نظر آتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اس تین اقساط پر مشتمل مضمون میں پیش کیے جانے والے تصوارت سے قاری مستفید ہوں گے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے کو سمجھنے میں کامیاب ہوں گے۔

Read more...

قابض بر طانیہ کوبرصغیر میں استحکا م فراہم کرنے میں سر سید احمد خان کا کر دار

 

عرفان پاشا
عمومی طور پر پاکستان میں چھپنے والی نصابی اور غیر نصابی کتب میں برصغیر پاک و ہند، تشکیل پاکستان اور 1857ء کی جنگ آزادی کے متعلق جومعلو ما ت امت کے نوجوانوں کو دی جا تی ہیں وہ غلط اور بد دیا نتی پر مبنی ہیں۔ واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا تا ہے۔ تاریخ میں جن شخصیات کو ہمارے لیے ہیرو بنا کر پیش کیا جا تا ہے ان میں سے بہت سے براہِ راست انگریز کے ایجنٹ رہے ہیں جیسا کہ آج افغانستان میں امریکی قبضے کے تحت کرزئی اور اس کے حواریوں کی حقیقت ہے یا پھر عراق میں امریکہ کی قائم کردہ حکومت کا معاملہ ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے برصغیر کی صورتِ حال اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ انگریز نے اپنی عملداری میں اپنے وفادار لوگوں کی ایک کھیپ تیار کی، جو انگریز سے مر عوب ہو کر ان کے طر ف دار رہے اور اسلام کو توڑ مروڑ کر برطانیہ کے قبضے کو جواز فراہم کرتے رہے۔ اور انگریزوں کی حکومت مضبو ط کر نے کے لیے ان کے دست و بازو بنے رہے۔
انگریز جب بر صغیر میں آیا تو اس نے یہا ں اپنے قدم جما نے کے لیے مختلف ریاستو ں کے نو ابوں، راجو ں اور مہا راجوں کو خرید ناشروع کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے طاقت کے ایوانوں میں موجود لوگوں کو خریدینے کے لیے 90,000 پاؤنڈ سٹرلنگ سالانہ سیاسی رشوت کے طور پر خرچ کیے۔ برصغیرمیں کل ریاستوں کی تعداد 635 تھی۔ بیشتر راجے مہا راجے انگریز کے ساتھ مل گئے۔ ان کے ذریعے انگریز نے جا گیرداری نظام قائم کیا۔ جن راجوں نے انکا رکیا ان کے درباریو ں کو خرید ااور ان کے ذریعے سازشیں کر کے انھیں کمزور کیا اور فوج کے ذریعے ان کو فتح کیا گیا بقیہ ملک جہا ں مغلوں کی براہ راست عمل داری تھی وہاں بھی یہی طریقہ اپنا یا گیا۔ ریاستوں میں انگریز سرکا ر سے وفاداری اور مسلمانو ں سے غداری کے مر تکب درباریوں کے نام کچھ بھی ہو ں مگر وہ میرجعفراور میر صادق کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ملکی سطح پر جن لوگوں نے کھل کر انگریز سے وفاداری اور مسلمانوں سے غداری کی، ان میں سرسید احمد خان سر فہرست ہیں۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ آج ایسی شخصیات کو ہمارے نصابِ تعلیم میں ہیرو اور مسلمانوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ جہا ں انگر یز کو بر صغیر پر غالب رہنے اور مسلمانو ں پرکا میا ب حکومت کر نے کے گُر بتا تے رہے وہا ں مسلمانو ں کو اس با ت پرآمادہ کر تے رہے کے انگریز کے وفادار رہیں۔ انگر یز کو ایسے لوگ در کار تھے جو لو گوں میں عمومی طور پر عزت دار اور مقبول ہوں اور لو گ ان پر عتماد کرتے ہو ں۔
بر طانیہ بخوبی واقف تھا کہ جب تک وہ یہا ں کے عوام کو تقسیم نہیں کرے گا اس وقت تک وہ تادیر قابض نہیں رہ سکے گا۔ اور یہا ں کی دولت جس کو لو ٹنے کے ارادے سے وہ یہاں آیا تھا اس کے لو ٹنے میں کا میا ب نہیں ہو سکے گا۔ ہندو برصغیر میں اسلام کی حکمرانی کے تحت ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ساتھ امن و تحفظ کی زندگی بسر کر تے رہے تھے۔ انگریزوں نے سب سے پہلے ان کو تقسیم کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے ہندؤں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں مسلمانوں سے دور کیا اور ایسی فضاء پیدا کردی کہ ہندو مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرنے لگیں۔ ان اسالیب میں سے ایک ہندوستان میں فورٹ ولیم کالج کا قیام تھا جسے انگریزحکومت نے برطانیہ سے آنے والے نوجوان انگریز افسروں کو ٹریننگ دینے کے لئے قائم کیا تھا۔ ان افسران کو اردو سکھانے کا انتظام بھی اسی کالج میں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے بانی گور نر جنرل ولزلی نے اس کے قیام کی اصل تاریخ جو کہ 10 جولائی 1800ء ہے، کوتبدیل کر کے 4 مئی 1800ء کر دیا۔ یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کہ یہ ریا ست میسور کے نواب حیدر سلطان اور ٹیپو سلطان پر انگریزکی فتح کی سالگر ہ کا دن تھا۔ اس کا لج میں ہند و اور مسلم ادیب بھرتی کیے گئے۔ یورپی اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کی کتابوں کا اردو ترجمہ کر ایا گیا۔ یہ دور مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کے عروج کا دور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں لکھی گئی نثر مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ انگریز نے اس دور کے نثرنگاروں کو نو ازا جو اردو نثر کے ذریعے انگریزوں کے مقاصد پورا کر تے تھے۔ مولوی نذیر احمد نے اردو کا پہلا ناول ''مرأة العروس'' لکھا جس میں ملکہ و کٹوریہ کی خو ب تعریفیں تھیں۔ انگریز نے اس ناول کے لکھنے پر مو لو ی صاحب کو سونے کی ایک گھڑی اور ایک خطیر رقم انعام میں دی۔
فورٹ ولیم کالج ہی وہ جگہ ہے جہا ں سے انگریز نے اردو ہندی تنازع کا آغاز کیا۔ انگر یز ہند ؤں کو باور کرانے میں کامیا ب رہے کہ مسلمان اُنکے کبھی خیر خواہ نہیں رہے اوراب یہ زبان کے ذریعے تمہیں مغلو ب کر رہے ہیں۔ حالا نکہ ہندوستان میں اس سے قبل جو زبا ن بولی جار ہی تھی اُسکا نام ہندی یا ہندوستانی زبان تھا۔ یہ وہی زبا ن ہے جو اس سے پہلے لشکری، ہندوی، ریختہ اور اردوئے معلی کہلائی جاتی تھی۔ نام بدلتے رہے مگر اس زبان کا رسم الخط ہمیشہ عربی رسم الخط ہی رہا۔ ہند ؤں نے انگریزوں کے اکسانے پر اس زبان کو ہندی اور اردو دو مختلف زبا نوں میں بانٹ دیا اور ہندی کو دیونا گری رسم الخط میں لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔ فورٹ ولیم کالج نے اس تنازعہ کا نہ صرف آغاز کیا بلکہ اس کو خوب ہوا بھی دی۔ اس جھگڑے پر خود سر سید نے لکھا پڑھی شروع کر دی۔ نواب محسن الملک نے خوب گرم جوش تقریر یں کیں، اس وجہ سے ہندو مسلم تفریق کو تقویت ملی اور یہ تفریق اس وقت انگر یزوں کی سیاسی ضرورت تھی۔ اس تنازع میں ہند ومسلم فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں مر نے والے مسلمانو ں کو بہت سراہا گیا۔ زبان کے نام پر مرنے والوں کو شہید کہا گیا۔ مسلمانوں کی جو توانائیاں انگریز قبضے کے خلاف بھرپور مزاحمت پر صرف ہونی چاہئے تھیں ان کا محور محض اردو زبان کا دفاع بن گیا۔
یہی مسلم رہنما مسلمانوں کوایک طر ف تو سیا ست سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن جب انگریز نے دیکھا کہ عوام میں انگریز کی نفر ت ختم نہیں ہو رہی اور بار بار بغاوتیں اٹھ رہی ہیں تو 1885ء میں ایک انگریز سر اے اوہیوم کے گھر پر کانگریس کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تاکہ عوام اسی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنی بھڑاس نکال لیں لیکن اس کے تمام لیڈرز حکو مت کے قبضے میں رہیں۔ پھر اسی جما عت کے ذریعے ہندو مسلم تقسیم کا ایک اور موقع انگریزوں کے ہاتھ آگیا۔ کانگریس کے تمام بڑے عہدے ہندؤں کو دئیے گئے اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ یہ جماعت صرف ہندوؤں کی ہے۔ خود سر سید نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کی تلقین کی۔ یوں بالآخر 1906ءمیں مسلمانوں نے اپنی ایک الگ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے بنائی جو مسلمانوں اور ہندؤں کی سیاسی تقسیم کی علامت تھی۔
مذہبی تعلیم اور عام دنیاوی تعلیم علیحدہ علیحدہ کرنے کا آغاز بھی ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل جو مدارس قائم تھے ان میں یہ دونوں نصاب ساتھ ساتھ پڑھا ئے جاتے تھے۔ بلکہ اگر اس دور کا نصاب اٹھا کر دیکھیں تو دنیاوی تعلیم کے کورسز دینی تعلیم سے کہیں زیادہ تھے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ عربی، فارسی، فلسفہ و منطق، طب، فلکیا ت، حساب و الجبرا وہندسہ، جیو میٹری اور شاعری کے ساتھ ساتھ صرف و نحوکی تعلیم دی جا تی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانو ں کی آمد سے قبل کسی ایسے مدرسے کا وجود نہیں ملتا جس میں یہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہوں۔ انہی مدارس سے پڑھے ہوئے لو گ امور مملکت چلاتے تھے۔ اعلیٰ سر کاری عہدوں پر فائز ہو تے تھے، مؤر خ اور ادیب بنتے تھے، انجینئر اور طبیب بنتے تھے، حکیم اور استاد کا درجہ حاصل کرتے تھے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ خالصتاً دینی تعلیم کا مدرسہ سب سے پہلے انگریزوں نے کلکتہ میں قائم کیا اور دنیاوی تعلیم کے لئے اس کے مقابلے الگ کالج بنایا۔ دنیاوی مدرسے سے پڑھنے والوں کو سرکاری عہدے ملنے شروع ہوئے اور دینی مدرسے والے مسجد کی چار دیواری تک محدود ہو گئے۔
یو ں دین اور دنیا کے نام پر مسلمان تقسیم ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسالک اور مذہبی گروہوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کر دیا گیا۔ کچھ نا سمجھ علماء نے ایک دوسرے کے مسلک کے خلاف کتابیں لکھیں جن کو انگریز نے ان چھاپہ خانوں سے چھپوایا جو فورٹ ولیم کالج کے زمانے میں برصغیر میں لگائے گئے تھے۔ علماء نے مسلکی بنیادوں پر مناظرے اور مباحث شروع کئے۔ اسلام میں اختلاف رائے کو کفر کے فتوؤں کی بنیاد بنایا۔ انگریزوں نے ہی مر زا غلام احمد قادیانی جیسے ملعون کا فتنہ کھڑا کیا۔ یوں مسلمان غیر اہم مسائلNon-issuesمیں الجھتے گئے اور اصل بات اور راستے سے دور ہوتے گئے، یعنی انگریز کو برصغیر سے نکال کر اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنا۔
سر سید نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز سے وفاداری کا بہترین ثبوت دیا اور بجنور میں بیس پورپین اور یوریشن لوگوں کو مسلمانوں سے بچایا۔ سرسید باقاعدہ اسلحہ لگا کر پوری پوری رات ان کے گھر کے باہر پہرہ دیتے۔ یاد رہے کہ بجنور میں سر سید دلیری اور جاں بازی کے ساتھ جن لوگوں کی حفاظت کرتے رہے وہ عام انگریز نہیں تھے بلکہ وہاں کے حکمران تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آج کوئی شخص افغانستان میں قابض امریکی فوج کے عہدیداروں کے دفاع اور تحفظ کا کام سر انجام دے۔ اگر سر سید ان مسلمانوں کی جان بچاتے جو انگریزوں کی گولیو ں کا نشانہ بن رہے تھے تو یقیناً وہ مسلمانوں کے ہیرو کہلانے کے حق دار ہوتے۔ بہر حال اس کمال وفاداری کے بدلے میں انگریز نے جنگ کے بعد سر سید کو ایک ہزار روپے کی خلعت عطا کی اور دوسو روپے ماہوار کی پولیٹیکل پینشن دو نسلوں تک مقرر کی!
سر سید نے 1857ء میں علی گڑ ھ میں ایم۔ اے۔او سکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ چونکہ وہ تعلیم اور سائنس میں پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے آج اس ذلت اور رسوائی کی حالت کو پہنچے ہیں۔ چنا نچہ ان کو پہلے سائنس کے میدان میں خود کو منوانا ہوگا۔ علی گڑھ میں سائنس اور انگریزی پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔ دو سال کے بعد یہ سکول حکومت کی اجازت سے 1877ء میں کالج کا درجہ اختیار کرگیا۔ اور اس کا افتتاح بھی 18جنوری 1877ء میں قابض انگریز حاکم لارڈ لٹن سے کرایا گیا تھا۔ علی گڑھ ادارے کو قائم کرنے کے لئے نہ صرف سرکار کی طرف سے خطیر رقم چندے کے طور پردی گئی بلکہ وہاں پڑھانے کے لئے انگریز اساتذہ کی خدمات بھی لی جاتی رہیں۔ سائنٹیفک سوسائٹی کے تحت یورپ میں چھپنے والے مضا مین کو اردو ترجمہ کراکے چھپوایا جاتا جس میں ایسا مواد ہوتا جو اسلام کے افکار اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر ضرب لگاتا تھا۔ کتابوں کے ترجمے اردو میں کرائے جاتے۔ انگریز یہ چاہتا تھا کہ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ اردو کے ذریعے انگریزی افکار اور تصورات تک رسائی حا صل کریں اور انگریز کی ترقی سے مرعوب ہوں۔ انگریز کے نزدیک انگریزی سے زیادہ ضروری انگریزیت اور اپنی مغربی ثقافت اور طرز حیات کا پرچار تھا جو وہ اردو اور انگریزی دونوں کے ذریعے کر رہا تھا۔
انگر یز بخوبی واقف تھا کہ جب تک مسلمان اپنی فکر اور عقیدے اور اسلا می طر زحیات اور قرآن سے کٹ نہیں جاتے اس وقت تک یہ دل سے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ چنا نچہ اب اسلا م کی ایسی تشریح کی ضرورت تھی کہ جو انگریز کے مفاد میں ہو۔ سرسید نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور انگریزی راج سے وفاداری کی خا طر اسلام اور قرآن و سنت کو بھی تختہء مشق بنانے سے گریز نہیں کیا۔ انھو ں نے اسلام کو عقل اور سائنس کے اصولوں پر پرکھنا شروع کر دیا۔ سر سید کے بقول قرآن خالق کا قول ہے اور یہ کائنا ت اس کا فعل ہے۔ چنا نچہ خالق کو یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ ان کے نزدیک کائنات اور اس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں جن کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے یہ ایک اٹل حقیقت ہیں۔ انہو ں نے اس وقت کے سائنسی اصولوں کو بنیاد مانا (جو کہ خود انسان نے اپنی محدود عقل سے اخذکیے تھے) اورا س کے مطابق قرآن کی تفسیر شروع کر دی۔ قرآن کی جو بات اس وقت کی سائنسی ترقی اور عقلی سطح کی بنیاد پر درست ٹھہرتی اس کو مان لیتے ورنہ وہ ان آیات کی من مانی تفسیر کر کے قرآن کو ان سائنسی آرا کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کی عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ کائنات کے جن اصولوں کو وہ بنیاد مان کر قرآن پرکھ رہے ہیں یا اس کی تفسیر کر رہے ہیں وہ انسانی عقل نے سائنس کی بنیاد پر اخذ کئے ہیں اور سائنس کے نظریات اور قوانین نئی نئی تحقیقات کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:۔
سر سیدکے نزدیک فرشتے کسی خاص مخلوق کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی قوتیں ہیں جو اس کائنات کا نظام چلانے کے لئے ہیں۔ اسی طرح جنات چونکہ کسی سائنسی تجربہ گاہ میں ثابت نہیں ہوتے اس لئے وہ بھی مخلوق نہیں ہیں۔ ان کے نز دیک جنت اور جہنم کا جو تصور مسلمانو ں میں پایا جاتا ہے وہ غلط ہے بلکہ اسی دنیا میں سکون اور نعمتوں سے معمور زندگی جنت جبکہ مصیبتوں اور تکالیف سے بھر پور زندگی جہنم ہے۔ انبیاء اور رسل کے معجزات کا سر سید نے اپنی کتاب ''تفسیر القرآن '' اور ''خطبات احمدیہ'' میں ببانگ دُہل انکار کیا ہے۔ وہ معجزات سے متعلق آیات کی تفسیر نہایت بھونڈے انداز میں کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے بقول حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا مار کر پتھر سے بارہ چشمے جاری کرنے کا معجزہ مفسرین کی قرآن فہمی میں کجی اور غلط تفسیر کرنے کا نتیجہ ہے۔ اپنی کتاب تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں کہ قرآن میں فقلنا اضرب بعصاک الحجر کا مطلب سمجھنے میں علماء اسلام اور علمائے لغت سے سخت غلطی ہوئی ہے۔ اس آیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ''پس ہم نے کہا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو''۔ فرماتے ہیں کہ اضرب کا مطلب ہے ''چلو '' بعصاک کا مطلب ہے ''چھڑی کے ذریعے سے'' اور الحجر کا مطلب ہے ''پہاڑ''۔ یوں ترجمہ یہ بنا کر ''اپنی چھڑی کے ذریعے پہاڑ پر چلو '' گویا کہ اس میں معجزے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اپنے عصا کے سہارے پہاڑ پر چلے اور ایک جگہ پر انھوں نے بارہ چشمے دیکھ لیے۔ اپنے مطلو بہ معنیٰ اخذ کرنے کے لئے سر سید نے عربی قواعد ہی بدل ڈالے۔ عربی میں اگر اضرب ہو تو اس کا مطلب ''چلو '' ہو گا لیکن اگر صلہ ب ہو یعنی فعل کے بعد ب ہو تو اس کا مطلب ''اس سے مارو'' ہو گا۔ چنا نچہ اضرب بعصاک کا ترجمہ ''اپنی چھڑی سے مارو'' ہو گا نہ کہ ''اپنی چھڑی سے چلو''۔ دوسرے سے یہ کہ الحجر کا مطلب ''پتھر '' ہوتا ہے اور سرسید نے اس کا مطلب ''پہاڑ '' کیسے لے لیا اس کی وضاحت وہ خود بھی نہ کر سکے۔ اس طرح انہوں نے واقعہ معراج کا بھی انکار کیا۔ چونکہ سر سید حدیث کو معتبر نہیں مانتے تھے اس لئے اپنے مؤقف کو ثابت کر نے کے لئے صرف اور صرف قرآن کا سہارا لیتے تھے۔ سر سید اجتہاد کو اصلاح مذہب کا متبادل ومترادف گردانتے تھے۔ اجتہاد سے ان کی مراد دینی اصطلا ح نہیں بلکہ الحاد تھا۔ یعنی مغرب کے راستے میں دین کا جو حکم رکاوٹ بنے اس کی تاویل کر کے بدل دیا جائے یا اسے دین سے خارج کر دیا جائے۔ چونکہ فرشتوں کے وجو د کے منکر تھے اس لئے قرآن کورسول اللہﷺ کا کلام مانتے تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی مسلمانو ں نے جذبہ جہاد اور کافر انگریز سے نفرت کی بناء پر لڑی، جیسا کہ آج افغانستان کے مسلمان قابض امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن سر سید نے اس جنگ کو ''غدر'' اور ''بغاوت'' کا نا م دیا۔ گویا یہ آزادی کی جنگ نہیں بلکہ حکومت سے غداری اور بغاوت تھی۔ اپنے رسالے ''اسباب بغاوت ہند'' کے نام سے ہی انھوں نے ظا ہر کیا کہ یہ ایک بغاوت تھی جس کے اس خطے کے مسلمان مر تکب ہوئے۔ اس رسالے میں انھوں نے انگریزوں کو یہ بتایا کہ مسلمان پوری طرح آپ کے خیر خواہ ہیں مگر اس بغاوت کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ملک کی سیا سی کونسلو ں میں مسلمانوں کو نمائندگی نہیں دی اس لئے وہ آپ سے بدظن ہو گئے ہیں۔ گویا سر سید نے انگریزوں کو مسلمانوں پر کامیاب حکومت کرنے کا طریقہ بتایا۔ بعد میں انگریز نے سر سید کو سیاسی کونسل ممبر بھی بنا دیا۔
سر سید نے ''لا ئل محمڈ نز آف انڈیا'' کے نام سے ایک کتاب لکھنے کاارادہ کیا۔ اس کے تین شمارے جو1860ء سے 1861ء کے دوران چھپےجو سر سید کی انگریزوں سے وفاداری کا کھلا ثبوت ہیں۔ اس رسالے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''جن مسلمانوں نے سرکار کی نمک حرامی اور بد خواہی کی، میں ان کا طرفدار نہیں ہوں، میں ان سے بہت ناراض ہو ں اور ان کو حد سے زیادہ بُرا جانتا ہو ں کیو نکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانو ں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہئے تھا جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھا ئی ہیں، نبیوں پر ایما ن لا ئے ہیں، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کی تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایما ن ہیں۔ پس اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا وہیں مسلمانوں کا بھی خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری کے، جو کسی حال میں رعیت کو جائز نہ تھی اوراپنے مذہب کے بھی بر خلاف کیا۔ اس لئے بلا شبہ وہ اس لائق ہیں کہ زیادہ ان سے ناراض ہو ا جا ئے''۔
سر سید انگریز حکو مت کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع ہا تھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے معافی نامے کا ایک اشتہار جاری کیا جس میں مسلمانو ں کے قتلِ عام پر معذرت کی گئی تھی۔ سر سید نے مراد آباد کے مسلمانوں کو اس کی اطلاع دی اور کہا کہ ملکہ معظمہ کی اس عنایت و مہربانی کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ چنانچہ ایک مشہور درگاہ شاہ بلاقی اس کے کام کے لئے تجویز کی گئی۔ 28جو لا ئی1859ء کو 15 ہزار لوگوں کو جمع کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہو جائیں اس مقصد کے لئے وہاں کھانے کا اہتما م کیا گیا۔ نماز عصر کے بعد سر سید نے اجتماعی دعا کی جس کے متن کا کچھ حصہ ذیل میں ہے۔ فر ماتے ہیں ''الہٰی تیرا ایک بہت بڑا احسان اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اپنے بندوں کو منصف اور عادل حاکموں کے سپر د کرے۔ سو برس تک تو نے اپنے ان بندوں کو جن کو تو نے خطہ ہندوستان میں جگہ دی ہے اس طرح عادل اور منصف حاکموں کے ہاتھ میں ڈالا۔ پچھلے کم بخت برسوں میں جب بسبب نہ ہونے ان حاکموں کے، ہماری شامت اعمال ہمارے پیش آئی، اب تُونے اس کاعوض کیا اور پھر وہی عادل اور منصف حاکم ہم پر مسلط کیے۔ تیر ے اس احسان کا ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں تو اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول کر۔ آمین۔ اہلِ ہند جو اس اتفاقیہ آفت میں گرفتار ہو گئے تھے ان پر رحم کرنا تُو نے ہی ہمارے حکام کے دل میں ڈالا، تیرے ہی القا سے کوئین وکٹوریہ دام ظلھا نے پُر رحم اشتہار معافی جاری کیا۔ ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں اور اپنی جان سے ملکہ کو دعا دیتے ہیں، الہٰی تو ہماری اس دعا کو قبول کر آمین ! الہٰی ہماری ملکہ وکٹوریہ ہو اورجہاں ہو''۔ قارئین اس دعا کے ایک ایک لفظ سے مکاری، غداری، فریب اور دھوکا دہی جو سر سید مسلمانوں سے کر رہے تھے، ٹپک رہی ہے۔ اور ہر ہر لفظ انگریز کی وفاداری کی قسم کھا رہا ہے۔ اور ستم ظریقی یہ ہے کہ ایسی شخصیت کو آج ہمارے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ امر اب مسلمانو ں پر واضح ہو چکا ہے کہ ان کے زوال کا سبب ان کی اسلام کے فہم میں کمزوری اور اسلام کا غلط نفاذ تھا۔ لیکن سر سید نے مسلمانوں کو زوال سے نکلنے کے لیے غلط حل تجویز کیا۔ ان کی دانست میں کامل دینِ اسلام سے پھوٹنے والے نظام ہائے حیات کو اختیار کیے بغیر، سائنس، ایجادات اور زندگی کے متعلق افکار میں محض مغرب کی تقلیدکرکے ہی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں اور یہ انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے تحت بھی ممکن ہے۔ اسلام کو بطور آئیڈیالوجی اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج ہم سائنس اور ٹیکنالو جی میں بھی مغر ب سے پیچھے ہیں۔ چنانچہ اگر ہمیں ایک ترقی یافتہ امت بننا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسلا می عقیدہ کو نظام ہائے حیات کے لیے بنیاد کے طور پر اختیار کرنا ہو گا۔ نہ کہ ہم اندھادھند مغرب کی تقلید میں سائنس اور ٹیکنالو جی کے پیچھے بھا گنے لگ جا ئیں۔ اگر سائنس اور ٹیکنا لو جی میں کسی قوم کی نقالی کر لینا ہی کسی قوم کو ترقی یافتہ اور مہذب بناتا ہے اور اگر قرآن اور اسلا م نے تجربیت، سائنسی ترقی کو اقوام کے عروج اور ترقی کی اساس بنا یا ہے، جیسا کہ سر سید گمان کرتے تھے، تو پھر خود رسول اکرمﷺ نے سائنسی تجربیت اور عقلیت کے ذریعے انقلا ب برپاکیوں نہ کیا؟ خلافت راشدہ ان ایجادات اور دریافتوں سے خالی رہ کر بھی اسلام کا زریں دور کیسے کہلایا؟ اگر سائنس روشن فکری اور تہذیب کی اساس ہے تو انبیاء کم از کم سائنس دان تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام جو عقیدہ اور فکر مسلمانو ں کو دیتا ہے، سائنسی ترقی اور ٹیکنا لو جی کا حصول اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جس اسلامی معاشر ے کی بنیاد مدینہ کی ریاست میں رکھی تھی وہ معاشرہ بہت جلد ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن گیا۔ آنے والے زمانے میں اس کے پاس جنگی سازوسامان، بحری بیٹرے، توپ، علوم وفنون کے ذخائر جیسے کہ طب، فلسفہ، سائنس جس میں کیمیا، ریاضی، الجبرا، ہندسہ، ہئیت، حیاتیات، سرجری، میڈیسن اور وہ سب کچھ جو مغرب نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہ تھاموجو د تھا۔ لیکن یہ سب اسلامی عقیدے سے پھوٹنے والی فکرکا نتیجہ تھا جس پر اسلامی معاشرہ قائم تھا نہ کہ از خود یہ سب ترقی کی بنیاد تھا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کا سبب فکر کی تبدیلی ہے اور ترقی اس کا نتیجہ ہے اور نتائج کبھی اسباب نہیں ہوا کرتے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فر مایا: ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ''بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی اس وقت تک حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اس کو نہ بدلیں جو ان کے نفوس میں ہے'' (الرعد:11)۔
اور جہاں تک مسلمانوں کی حقیقت کا تعلق ہے تو ایسا نہیں تھا کہ اس وقت مسلمان علوم و فنون سے عاری اور جاہل، ان پڑھ، نکمے اور بد تہذیب تھے، جیسا کہ کچھ لوگوں میں یہ تاثر آج بھی پایا جاتا ہے۔ ہمیں آج تک یہ پڑھایا گیا کہ ہمارے مسلم حکمران سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں کرتے تھے جبکہ انگریز کی آمد سے قبل برصغیر کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ خوش حالی کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص عبدالغفور کے اثاثے ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ تھے۔ بنگال کی جگت ہت سیٹھ فیملی کے پاس بینک آف انگلینڈ سے زیادہ سر مایہ تھا۔ 1775ء میں جنگ پلا سی کی لوٹ مار سے جو سرمایہ حاصل ہوا وہ پورے یورپ کے جی۔ ڈی۔ پی سے زیادہ تھا۔ کیپٹن الیگزینڈر ہمیلٹن کے مطابق صر ف دلی شہر میں دس ہزار سکول و کا لج مو جو د تھے اور پورے شہر میں ستر ہسپتال تھے۔ بنگال میں اسی ہزار سکول اورکالج تھے جن میں سے کسی میں بھی چار سو سے کم طالبعلم نہ تھے۔ کیپٹن الیگز ینڈر اپنی کتاب 'A Case For India' میں لکھتا ہے کہ مغلو ں کے زمانے میں ایک لا کھ پچیس ہزار اداروں میں طب کا علم پڑھا یا جاتا تھا۔ ابن بطوطہ کا سفر نامہ دیکھیں تووہ لکھتا ہے کہ بمبئی کے قریب ایک جگہ ہواز ہے جہاں دو اسکول مردوں اور تیرہ سکول عورتوں کے تھے اور پورے علاقے میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا خواہ وہ مر د ہو یا عورت جسے قرآن حفظ نہ ہو اور وہ اس کا ترجمہ نہ جا نتا ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی سٹیل انڈسٹری برصغیر میں تھی اور یہ برتری 1880ء تک بر قرار رہی۔ یہی حال جہا ز رانی کے شعبے کا تھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ جہاز یہاں بنتے تھے۔ بر صغیر کی درآمدات کبھی بھی برآمدات سے زیادہ نہ تھیں۔ ٹھٹھہ کے علا قے میں چار سو اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔ لارڈ میکا لے کی 1835 ء کی تقریر کا وہ فقرہ جو اس نے برطانوی پالیمنٹ میں کی تھی اس با ت کی تصدیق کے لیے کافی تھا کہ یہ خوشحالی صرف چند لوگوں تک محدود نہ تھی بلکہ عوام عمو می طور پر خوشحال تھے۔ لارڈ میکا لے کہتا ہے کہ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا لیکن مجھے کسی طرف کوئی فقیر نظر آیا نہ چور دکھا ئی دیا۔ 1911ء کی مردم شماری جس کی رپورٹ مقبرہ انار کلی میں پڑی ہے جو انگریزوں نے کرائی تھی، اس کے مطابق یہا ں کی شرح خواندگی 90 فیصدسے زیادہ تھی اور 1941ء میں کر وائی جانے والی مر دم شماری میں شرح خواندگی 10 فیصد سے بھی کم ہو چکی تھی۔ آج اگر امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر، وائٹ ہا ؤس، کھلی کھلی سڑکیں، سو سو منزلہ عمارتیں بنائے تو یہ معاشی اور سائنسی ترقی ہے اور اگر ہمارے حکمرانوں نے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالا مار باغ بنائے تو یہ عیش و عشرت قرار پایا۔ جبکہ یہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے والے انجئنیر انہی مدرسوں کے فارغ التحصیل تھے جہا ں دنیا جہان کے علوم و فنو ن پڑ ھا ئے جا تے تھے۔ اور یہ عمارات ریاست کی خوشحالی اور دولت کی فراوانی کی واضح دلیل ہیں۔ لیکن سر سید کہ جس کی آنکھوں پر انگریزوں کی مرعوبیت کی پٹی بندھی ہوئی تھی، کی نظر سے یہ تمام حقائق اوجھل تھے۔ اگرچہ سر سید کا دور آج کی نسبت مسلمانوں کے اس شاندار ماضی کے بہت نزدیک تھا۔
یہ ہیں وہ لوگ جورہنمائی کے نام پر اس امت کے ساتھ رہزنی کر تے رہے۔ جو اخلاص کا دعویٰ مسلمانو ں سے کر تے رہے مگر وفاداری کا دم کفار سے بھرتے رہے۔ آج معاشرے کے ایک طبقے میں کفار سے مرعوبیت اور اپنی روشن تاریخ سے عدم آگاہی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے نصابِ تعلیم کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر غلامانہ ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے اور ایسی شخصیات کو ہمارے لیے ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے جو بذاتِ خود غلامانہ ذہنیت کے حامل تھے۔ خلافت کے قیام کے بعد تاریخ میں موجود اس ملاوٹ اور علمی خیانت کو بھی صاف کیا جائیگا۔ خیانت اور دھوکے بازی کی جو گرد ان غداروں نے اڑائی تھی جو ہماری تاریخ کے چہرے پر جم چکی ہے، خلافت کے کھرے نصابِ تعلیم سے یہ سب دھل جائے گی اور مسلمانوں کی درست تاریخ نکھر کر اس امت کے سامنے آجا ئیگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دید ہ بینا عطا فرمائے جس سے ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح دیکھ سکیں۔ آمین۔

Read more...

بھارت میں دو نو عمر لڑکیوں کے سفاکانہ قتل اور اجتماعی زیادتی کا واقعہ، عورتوں کے تحفظ میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ہے

30 مئی 2014، بروز جمعہ کئی خبر رساں اداروں، بشمول رائٹرز، گارڈین اور سی این این نے بھارت میں عصمت دری کے دو خوفناک واقعات پر بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصے کے بارے میں خبر شائع کی۔ جبکہ نئی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ وہ جنسی حملوں کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی کرائسز سیل قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔جمعرات کے روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ شمالی صوبے اتر پردیش کے ایک گاؤں میں نچلی ذات کی دو نو عمر لڑکیوں کی لاشیں اجتماعی زیادتی کے بعد ایک درخت سے لٹکی پائی گئیں تھیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان دونوں کزنوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ظاہر کرتی ہے کہ متعدد آئینی تحفظات اورخصوصی قوانین کے باوجود نچلی ذات کی خواتین کو کئی طرح کے امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق نئے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے اتر پردیش حکومت کو اس حملے کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خواتین کی عزت و حرمت اور زندگیوں کا تحفظ آج بھارت کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت کو عصمت دری کے گڑھ کا لقب بھی دیا جاچکا ہے۔ 14 جنوری 2014 کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک نیوز رپورٹ کے مطابق 1971 سے لے کر اب تک زیادتی کے واقعات میں دس گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس نے قتل اور اغوا جیسے دیگر سنگین جرائم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کے مطابق 1971 میں زیادتی کے2487 واقعات ہوئے جبکہ 2012 میں ایسے واقعات کی تعداد 24923 تھی، جس سے دس گنا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
اگرچہ خواتین اور نچلی ذات کے ساتھ امتیازی سلوک کی تاریخ ہزاروں سال پرانے ہندو مذہب اور ثقافت سے وابستہ ہے، جو جان بوجھ کر خواتین کو عمومی طور پر اور نچلی ذات کی خواتین کو خصوصی طور پر نا پسندیدہ، غیر ضروری، کم حیثیت اور سستی اشیاء کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب مغرب سے درآمد شدہ سرمایہ دارانہ اور لبرل نظریات نے اس مسئلے کو دوگنا کردیا ہے، جہاں خواتین کو ایک بار پھر اشیائے صرف کی فروخت کے لیے محض ایک چیز بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور ان کی نسوانیت کو بیچ کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔بھارت میں ایک ہزار سال تک اسلامی دورِحکومت میں تو اسلامی قوانین کے نفاذ اور اسلام کے انصاف پر مبنی عدالتی نظام کے باعث اس مسئلے پر تقریباً قابو پالیا گیا تھا۔لیکن اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں خواتین کی عزت و حرمت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔جس کی ایک مثال ہمسایہ ملک پاکستان ہے جہاں گزشتہ مہینے ہی شمالی علاقے مانسہرہ میں ایک لڑکی کو چلتی گاڑی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گاڑی سے باہر پھینک دیا گیا، جس کی جان خوش قسمتی سے بچ گئی۔
بھارتی اور پاکستانی حکومتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خواہ وہ کتنے ہی قوانین منظور کر لیں، کتنے ہی بحرانی مراکز (crisis centres) قائم کر لیں اور چاہے کتنے ہی اہلکاروں کو معطل کر لیں؛ خواتین کی زندگی اور عزت کے تحفظ کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہو سکتا جب تک یہ بوسیدہ اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی اس نظریے پر ہے کہ سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اور ذریعہ استعمال کیا جائے، جس میں اشتہارات، فلموں اور ڈراموں کی شکل میں خواتین کی نسوانیت کی فروخت بھی شامل ہے۔ یہ کھربوں ڈالر پر مبنی بالی وڈ صنعت خواتین کو ایسی نیم برہنہ، سستی اور سطحی اشیاء کے طور پر پیش کرتی ہے جو مرد کے ہاتھوں استحصال کے لیے آسانی سے دستیاب ہوں۔ نیز یہ حکومتیں اس عمل کو آزادئ اظہار اور شخصی آزادی کا جزو سمجھتی ہیں، جسے اس ناقص سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تحفظ حاصل ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے حتمی انسانی آزادی کا یہ تصور ہی مردوں اور خواتین دونوں کے مصائب کا سبب ہے۔ آزادی کا یہ تصور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی غیر اخلاقی خواہشات کو بلا حدود و قیود اور اور روک ٹوک پورا کریں اور تباہ حال عدالتی اور پولیس نظام کے باعث انہیں کسی سزا کا بھی خوف نہ ہو۔ چنانچہ ایک طرف تو عوام کو خواتین کی غلط اور غیر حقیقی تصویر دکھائی جاتی ہے، تو دوسری طرف جلد شادیوں کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہیں جس سے غیر قانونی اور ناجائز تعلقات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ بھی نہ صرف خواتین اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو فروغ دیتے ہیں بلکہ خواتین کی غلط تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کبھی بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے، خواہ یہ حکومتیں کتنے ہی ایسے قوانین بنا لیں اور انہیں نافذ کرنے کی کوشش کر لیں۔
صرف درست قوانین اور صحیح قانونی نظام، جو تیزی سے کام کرے، وہی مجرموں کو قرار واقعی سزا دے سکتا ہے؛ایسی سزا جو اس گھناؤنے جرم کا خیال تک ذہن میں لانے والوں کے لیے باعثِ عبرت ہو۔ لہٰذا خواتین کے ساتھ اس غیر انسانی سلوک کی اصل وجہ قوانینِ الہٰی کے نظام کی غیر موجودگی ہے جو خالق نے خود ہمیں عطا کیا ہے۔ اور جو عوام کا منتخب کردہ خلیفہ اسلامی ریاست خلافت کے تحت نافذ کرتا ہے کیونکہ عوام اسے اس شرط پر بیعت دیتے ہیں کہ وہ ان پر اسلام نافذ کرے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا خالق اپنی تخلیق کو جانتا ہے۔ اور انسانی ذہن محدود ہونے کے باعث ایک خاص حد سے آگے نہیں دیکھ پاتا۔ جب تک یہ دیمک زدہ اور کھوکھلا سرمایہ دارانہ نظام اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک منصفانہ اور مبنی بر عدل اسلامی حکومتی نظام، خلافت کو نہیں لایا جاتا، خواتین کی زندگیوں اور انکے وقار کا تحفظ ممکن نہیں۔ کیونکہ ریاست خلافت میں معاشرتی، عدالتی اور حکومتی نظام خواتین کی حفاظت کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؛ اور ان کے ہمراہ تعلیمی اور میڈیا پالیسیاں معاشرے میں ایک درست اخلاقی ڈھانچے کے ضامن ہوتے ہیں، جیسا کہ خلافت کے 1300 سالہ دورِ حکومت میں دیکھا گیا۔پس عورت محفوظ و مامون اورمحترم ہوتی ہے، اس کا خیال رکھا جاتا ہے اور وہ مردوں کے ہمراہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے، جبکہ اسے اس کام کے دوران نہ تو تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اورنہ ہی اسے ہراساں کیے جانے یا حملے کا خوف ہوتا ہے۔ اسے ایک جنسی علامت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ وہ بحیثیت انسان قابلِ قدر ہوتی ہے، تاکہ وہ ماں، بیوی اور بیٹی کے طور پر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی کے بعدکسی بھی شعبے میں اپنی خدمات انجام دے سکے۔نیز ایک منصفانہ عدالتی نظام اور کرپشن سے پاک پولیس، جو اپنے ہر عمل کے لیے خلیفہ کو براہِ راست جوابدہ ہوتی ہے، بھی خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ خلافت فوراًقائم کی جائے۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةَ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْوَلِيدَ يَضْرِبُهَا وَقَالَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حَدِيثِهِ تَشْكُوهُ قَالَ قُولِي لَهُ قَدْ أَجَارَنِي قَالَ عَلِيٌّ فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ فَقَالَتْ مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا فَأَخَذَ هُدْبَةً مِنْ ثَوْبِهِ فَدَفَعَهَا إِلَيْهَا وَقَالَ قُولِي لَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَارَنِي فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ فَقَالَتْ مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْوَلِيدَ أَثِمَ بِي مَرَّتَيْن (1257 مسند أحمد بن حنبل مسند العشرة المبشرين بالجنة مسند الخلفاء الراشدين)
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الولید بن عقبہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور شکایت کی: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بے شک ولید نے مجھے مارا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "اسے کہو، انہوں(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری حفاظت کی"۔ وہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد دوبارہ آگئی اور کہنے لگی: "اس نے مجھے مزید مار پیٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا!" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص کا ایک حصہ پھاڑا اور فرمایا: "اسے کہو؛ بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تحفظ دیا"۔ وہ پھر تھوڑے عرصے کے بعد واپس آگئی اور کہنے لگی: "اس نے مجھے مزید مار پیٹ کے سوا کچھ نہیں دیا!" اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ بلند کیے اور فرمایا: "اے اللہ! ولید سے آپ نمٹیں! کیونکہ اس نے دو بار میری نافرمانی کی ہے"۔


حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
ام مصعب
ممبر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

خبر اور تبصرہ نواز شریف نے ایران کا دورہ شام کے مسئلے پر امریکی منصوبے کو کامیاب بنانےکے لیے کیا

خبر: نواز شریف سولہ سال بعد 11 مئی 2014 کو ایران کے دو روزہ دورے پر گئے۔ پچھلے سال وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ ان کا ایران کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ایران خطے میں امن اور سلامتی کے لیے مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے مشترک روایات اور تاریخ کی بنا پر پاکستان ایران تعلقات کو منفرد قرار دیا۔ ایران اور پاکستان نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آپس کے تعاون کو بڑھانے کے لیے آٹھ معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔
تبصرہ: یہ دورہ اس نازک وقت پر کیا گیا ہے جب امریکہ اپنے تمام ایجنٹ حکمرانوں سے شام میں جاری مقدس انقلاب کو روکنے کے لیے مدد و حمائت کا طلبگار ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات پچھلے کئی سالوں سے کمزور چلے آرہے تھے جب سے ایران پر اس کے ایٹمی پروگرام کی بنا پر سخت سے سخت پابندیاں لگنی شروع ہوئیں۔ جب ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام کی بنا پر کئی سالوں تک بدی کے طاقت کا محور قرار دیا گیا تو اس دوران امریکہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کو کمزور رکھنے کی اجازت دی۔
حالیہ عرصے میں ایران کے ایٹمی مسئلے پر پیدا شدہ تعطل کو دور کرنے کے لیے امریکہ نے تیزی سے اقدامات اٹھائے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے لیے اس اچانک تبدیلی اور بین الاقوامی برادی میں اس کی فوری واپسی کی وجہ پچھلے تین سالوں سے شام میں جاری انقلاب بنا ۔ اس انقلاب کا عمومی مزاج اسلامی ہے اور یہ صحیح اسلامی تصورات پر کھڑا ہے ، یہی وجہ ہے کہ شام کے مسلمان اپنے افکار اور احساسات کا اظہار یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ "امت نئی خلافت کا قیام چاہتی ہے"۔
اب تک امریکہ شام کے مسلمانوں کو خطے میں موجود اپنے روایتی ایجنٹوں اور ان کے روایتی نعروں یعنی معتدل اسلام اور جمہوریت کے ذریعے دھوکہ نہیں دے سکا جیسا کہ وہ عرب میں پھوٹنے والی تبدیلی کی لہر کے دوران دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہا۔ بشار کو بچانے کے لیے امریکہ کو ایران کی مدد کی اس وقت تک ضرورت ہے جب تک وہ اس کا کوئی متبادل تلاش نہیں کرلیتا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے شاہِ ایران کے بعد سے ایران کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات کی نسبت اب امریکہ کو ایران کے ساتھ براہ راست اور زیادہ کھلے تعلقات کی ضرورت تھی۔ تعلقات میں یہ تبدیلی نہایت اہم اور اس قدر واضح تھی کہ ایران کے ساتھ ایٹمی مسئلہ پر ہونے والے معاہدے پر دستخطوں کے بعد اوبامہ نے یہ اعلان کیا کہ "میرے کرسی صدارت پر بیٹھے کے بعد سے اب تک کے اقدامات میں آج ہم نے جو پہلا قدم اٹھایا ہے وہ نہایت اہم اور قابل ذکر پیش رفت ہے۔۔۔۔آج کا اعلان محض پہلا قدم ہے۔ اس کے ذریعے اہم مقصد حاصل ہوا ہے" (ورلڈ نیوز(این۔بی۔سی) آن لائن 23نومبر 2013)۔
یہ بات کوئی باعث حیرت نہیں کہ ایک بار پھر راحیل-نواز حکومت خطے میں امریکی مفادات کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی چلا رہی ہے۔ مشرف-عزیز اور کیانی-زرداری کی حکومتوں کی طرح راحیل-نواز حکومت بھی امریکی مفادات کےحصول کو یقینی بنانے میں فخر محسوس کرتی ہے چاہے اس کے لیے خارجہ پالیسی کے میدان میں مسلمانوں اور اسلام کے مفادات کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ جب امریکہ نے ایران کو بدی کا محور قرار دیا تھا تو ہمارے حکمرانوں نے ایران کے ساتھ تعلقات کو کمزور رکھا۔ لیکن جب شام میں خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے اوبامہ کو ایران کے ضرورت پڑی تو راحیل-نواز حکومت نے امریکہ کی خدمت بجا لاتے ہوئے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک بار پھر مضبوط کرنا شروع کردیا۔ ایک بار پھر حکومت مسلمانوں کے خلاف جارحیت اورگناہ کے عمل میں شرکت پر راضی ہے اور دنیا اور آخرت میں اس کے نتائج سےمکمل لاپرواہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (المائدہ: 2)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

خبر اور تبصرہ خطے سے متعلق راحیل-نواز حکومت کا نقطہ نظر بہت محدود ہے

خبر: بروز جمعرات، 11 اپریل 2014 کو وزیر اعظم نواز شریف نے باؤ فورم برائے ایشیاء کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ طریقہ کار کی ضرورت ہے اور "کامیابی کے لئے اضافی ربط" کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین، یوریشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے جس کی بنا پر پاکستان تین معاشی راہ داریوں چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطٰی کے پاس واقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "شاہراہ ریشم سے ہمارا تعلق ان تین حوالوں سے ہے"۔
تبصرہ: جناب نواز شریف اس وقت دنیا کے ہر کونے تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی قوم کو یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ پاکستان کو دنیا کے سامنے کاروبار کے حوالے سے بہترین ملک کے طور پر متعارف کرانے اور بیرونی سرمایہ کار کو ملک میں لانے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ ایک بار پھر پاکستان کی معیشت کو بلندی کی جانب گامزن کرسکیں۔ باؤ فورم برائے ایشیاء کی سالانہ کانفرنس میں شرکت اور خطاب بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔ راحیل۔نواز حکومت اس بات کا دعویٰ کررہی ہے کہ وہ عالمگیریت کے تصور کے حوالے سے پاکستان کو ایک علاقائی اور بین الاقوامی تجارتی مرکز کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یہی وہ جواز ہے جس کو حکومت ، بھارت کو "پسندیدہ ملک" کا درجہ دینے اور افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے پردے میں افغانستان میں امن مذاکرات کی حمائت کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ان دو کاموں سے وسطی ایشیا سے لے کر بھارت تک کا خطہ ایک دوسرے کے قریب آجائے گا اور اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے عوام اس سے زبردست فائدہ اٹھائیں گے۔
خطے سے متعلق یہ محدود نقطہ نظر ، جہاں خارجہ تعلقات میں صرف معاشی فوائد کو سامنے رکھا جائے ، غلط اور خطرناک ہے۔ اکثر معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں میں ایک یا دو بڑے ممالک زیادہ فوائد سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی فوائد میں اضافے کے لیے کم ترقی یافتہ ہمسایہ ممالک کی مارکیٹوں کو اپنے مال سے بھر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی صنعت تباہ ہوجاتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو ان معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں کا حصہ بننے کی صورت میں جو حصہ ملتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے۔ چاہے یورپی یونین ہو یا نیفٹا (NAFTA) یا کوئی بھی دوسری ایسی تنظیم ، ہمیشہ بڑے ممالک کو چھوٹے ممالک کی قیمت پر بڑا حصہ ہی ملتا ہے۔ نیفٹا کے تحت میکسیکو امریکی گوشت کے لیے ایک زبردست مارکیٹ ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں امریکی گوشت کی صنعت کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو ا۔ امریکی ایوان تجارت کے مطابق نیفٹا کے نتیجے میں کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ امریکی تجارت میں اضافہ ہوا۔ 1993 میں ان ممالک کے ساتھ امریکی تجارت 337بلین ڈالر تھی جو 2011 تک بڑھ کر 1200بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اعلٰی صنعتی بنیاد کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک مختلف اقسام کی اشیاء کو بہت بڑی تعداد میں پیدا کرتے ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک کے پاس ایسی اعلیٰ صنعتیں نہیں ہوتیں ، لہٰذا وہ صرف چند ہی اشیاء پیدا کرپاتے ہیں۔ اس لیے ترقی پزیر ممالک ان نام نہاد معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
پچھلے ساٹھ سالوں سے صنعتی ترقی کی منزل کو پانے سے پاکستان کو روکا گیا ہے اوراس نام نہاد علاقائی معاشی تعاون کے منفی نتائج کا ہم پہلے ہی سے سامنا کررہے ہیں۔ ہماری مارکیٹیں سستی چینی اشیاء سے بھری پڑی ہیں اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مقامی صنعتیں ان سے مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ اور اب بڑے بڑے بھارتی پیداواری ادارے بھی چین کی طرح اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔ ہمارے مقامی پیداواری ادارے آخر کار اپنے کاروبار کو بند کر کے اشیاء کی درآمد شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں وہیں بیرونی ممالک پر ہمارا انحصار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کی معاشی انحصاری بیرونی ممالک کو ہمارے قومی معاملات پر اثر انداز ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
راحیل۔نواز حکومت صرف وہی کچھ دیکھنا چاہتی ہے جو مغربی دارلحکومتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ہیڈکواٹروں میں بیٹھے ان کے آقا انہیں دِکھانا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی اصل صلاحیت کو دیکھنے سے قاصر ہیں اگر پاکستان دوسری خلافت راشدہ کے آغاز کی سرزمین بن جائے۔ اگر پاکستان ریاست خلافت بن جائے تو اسلام کے معاشی نظام کا نفاذ زبردست معاشی خوشحالی کا باعث بنے گا کیونکہ اس نظام کی توجہ دولت کی تقسیم پر ہوتی ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت چند ہاتھوں میں مقید ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب وسطی ایشیا سے بھارت، مشرقی افریقہ سے جزیرۃ العرب اور انڈونیشیا سے ملیشیا تک کے مسلم علاقے ایک ریاست خلافت کا حصہ بن جائیں گے تو مسلمانوں کو دوسری اقوام کی مارکیٹوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ ان کی اپنی مارکیٹ ہی اتنی وسیع ہو گی کہ ان کی اشیاء بڑی آسانی سے مقامی مارکیٹوں میں استعمال ہوجائیں گی۔ جبکہ دوسری جانب کرہِ ارض پر موجود ہر قوم ہم سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گی تا کہ ہم انہیں اپنی مارکیٹوں تک رسائی دیں اور وہ اپنا مال بیچ کر اپنی قسمت بنا سکیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم خود کو استعماری کفار کے ہاتھوں بنائی گئی سرحدوں میں قید رکھیں، ہمیں ان مصنوعی سرحدوں کو ختم کردینا چاہیے اور 1.6 ارب مسلمانوں کو ایک واحد زبردست امت میں بدل دینا چاہیے جو دنیا کی صفِ اول کی امت اور ان کی ریاست صفِ اول کی ریاست ہوگی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

کیا امریکی انحطاط یقینی ہے یا خیالی؟ (حصہ دوئم)

(تین قسطوں پر مشتمل اس مضمون کے دوسرےحصے میں عابد مصطفٰی مختصراً ان افکار کا جائزہ لیں گے جنہیں مفکرین عظیم طاقتوں ، خصوصاً امریکہ کے انحطاط کو ثابت یا پیشگوئی کرنے کیلئےاستعمال کرتے ہیں۔ پھر عابد مصطفٰی آگے چل کر کہانی کے انداز میں نہضہ (نشاۃ ثانیہ)کے فہم اور بڑی طاقتوں کے انحطاط کو بیان کرتے ہیں)۔

امریکہ کے انحطاط کے موضوع نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ سپر پاور کا انحطاط کیسا ہوتا ہے؟ کیا امریکی انحطاط صرف معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدان تک محدود ہے یا یہ امریکی معاشرے اور تمدن کے ہر جزو کا احاطہ کرتا ہے؟ امریکی انحطاط کی رفتار کیا ہے؟ کیا امریکی انحطاط اتنا شدید ہے کہ یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ اگر امریکہ تباہ ہونے کے قریب ہے تو یہ تباہی وقتی ہوگی یا مستقل؟ اس طرح کے سوالات نے پچھلے اور موجودہ تاریخ دانوں کے اذہان کو گھیرے رکھا ہے۔
سپرپاور کے زوال کے بارے میں کچھ مصنفین نے دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ پول کینیڈی اپنی کتاب "عظیم طاقتوں کا عروج اور زوال" میں لکھتے ہیں: "بڑی طاقتوں کا عروج اور زوال ان کی صنعتوں کے شرح نمو(بڑھنے کی رفتار)اور ریاستی اخراجات کی جی ڈی پی کے مقابل قیمت ہے"۔ کینیڈی کہتا ہے: "اگر ریاست تضویراتی طور پر خود کو حد سے زیادہ بڑھا دے گی تو اسے یہ خطرہ اٹھانا ہوگا کہ بیرونی پھیلاؤ سے حاصل ہونے والے فائدے مجموعی خرچوں سے تجاوز کر سکتے ہیں"۔ جارڈ ڈائمنڈ جو کہ مزید جدید مصنف ہے اپنی کتاب ، کولیپس: معاشرے کس طرح کامیابی یا ناکامی کا انتخاب کرتے ہیں" میں لکھتا ہے کہ معاشروں نے خود کو اپنے آپ ہی تباہ کیا کیونکہ انہوں نے قدرتی ماحول کی تحقیر کی۔
امریکی انحطاط کے مخصوص موضوع پر جورج پیکر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکی انحطاط امیر اور غریب کے درمیان معاشی فرق کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتا ہے: "تفریق معاشرے کو طبقاتی نظام میں جکڑ دیتی ہے، لوگوں کو ان کے پیدائشی حالات میں قید کر دیتی ہے جو کہ امریکی خواب کی سوچ کی نفی ہے۔ تفریق شہریوں کے درمیان بھروسے کو کھرچ دیتی ہے اور ایسا تاثر دیتی ہے کہ جیسے کھیل میں دھاندلی ہو چکی ہو۔ تفریق وسیع اجتماعی مسائل کیلئے ٹھوس حل پیدا کرنے کی صلاحیت کو مجروح کر دیتی ہے کیونکہ وہ مسائل پھر اجتماعی نہیں لگتے۔ تفریق جمہوریت کو کمزور کر دیتی ہے"۔ نیال فرگوسن اس بات کا قائل ہے کہ دنیا میں امریکی بالادستی میں کمی آہستہ اور مستقل نہیں ہوگی۔ وہ کہتا ہے کہ "سلطنتیں ایک پیچیدہ اور ڈھل جانے والے نظام کے طور پر برتاؤ کرتی ہیں، وہ کچھ انجانی مدت تک ظاہری توازن میں کام کرتی ہیں اور پھر ایک دم سے تباہ ہو جاتی ہیں"۔
گو کہ یہ تصورات انحطاط کے عوامل پر نظر ڈالتے ہیں، یہ عظیم طاقتوں کی تنزلی کا ڈھانچہ کھینچنے میں مددگار نہیں ۔جس چیزکی ضرورت ہے وہ ایک ایسا ماڈل ہے جو نہ صرف انحطاط کو واضح کرے بلکہ عظیم طاقتوں کے زوال کو بھی رقم کر سکے۔ اس تناظر میں، اسلام ایک ایسا نمونہ دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال کا اندازہ لگائے۔
انحطاط کو نشاۃ ثانیہ کو سمجھے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس کو واضح کریں کہ نشاۃ ثانیہ سے ہمارا کیا مطلب ہے۔ اوکسفورڈ آن لائن ڈکشنری کے مطابق نشاۃ ثانیہ کا مطلب "کسی چیز یا شخص کے حالات، قوت یا قسمت میں بہتری ہے"۔ عیسائیت میں نشاۃ ثانیہ کا مطلب "جب پرہیزگاروں کی ایک اکائی خالق کے پیغام کا جواب دے" ہے۔لیکن نشاۃ ثانیہ کو اس زاویے سے دیکھنے کیلئے لسانی اور عیسائی تعریفیں نامکمل اور ناکافی ہیں۔
اسلام کے نقطہ نظر سے نشاۃ ثانیہ کی ایک مخصوص تعریف ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے " روحانی بنیاد پر فکری بلندی"۔ اس تعریف کی دو شرطیں ہیں اس سے پہلے کہ قوم کے نشاۃ ثانیہ کو مکمل اور درست تصور کیا جائے۔ ایک یہ کہ نشاۃ ثانیہ کی اساس آئیڈیولوجی یا مبداء(نظریہ حیات) پر ہو یعنی یہ انسان، حیات اور کائنات کے متعلق جامع فکر رکھتی ہو اور ان کے آپس میں تعلق کے بارے میں یعنی ما قبل اور ما بعد سے متعلق۔ یہ جامع فکر افکار اور نظاموں کے مجموعے کو جنم دیتی ہے جو زندگی کے ہر میدان کا احاطہ کرتے ہیں لیکن یہ جامع مبداء افکار اور نظاموں کے ساتھ صرف کتابوں اور الفاظوں میں موجود رہے گا جب تک ان کو زندہ کرنے کے لئے طریقہ موجود نہ ہو یعنی افکار اور نظاموں کو حیات بخشنے کے لئے۔ یہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے جب طریقہ بھی جامع مبداء کی طرح ہو یعنی یہ طریقہ جامع مبداء سےہی پھوٹنا چاہئے۔ مثال کے طور پر شریعت کو جمہوریت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ فکری آئیڈیولوجی یعنی مبداء اور طریقہ سے عاری کوئی بھی چیز نشاۃِ ثانیہ کو ایک مخصوص علاقے میں محدود کردے گی مثلاً سنگاپور کو معروف مواصلات کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، جنوبی کوریاڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سر فہرست ہے اور جب طویل فاصلے تک بھاگنے والوں کو پیدا کرنے کی بات کی جائے تو کینیا کو بہترین گردانا جاتا ہے۔ ان باتوں کے باوجود ان تینوں ملکوں کو مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کا نشاۃِ ثانیہ محدود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے آئیڈیالوجی یعنی مبداء کو اختیار کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرا، نشاۃِ ثانیہ کے لئے روحانی پہلے کا ہونا ضروری ہے یعنی اس کو لازمی خالق کے وجود کا ادراک کرنا چاہئے۔ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ نشاۃِ ثانیہ روحانی لحاظ سے درست ہے۔
اس وقت دنیا میں موجود تین آئیڈیالوجیز یعنی اسلام، مغربی سرمایہ داریت (لبرل، جمہوریت) اور کمیونزم میں صرف اسلام ہی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بیان کی گئیں شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ممالک جہاں مغربی سرمایہ داریت اور کمیونزم نافذ ہے نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر نہیں، بلکہ ان ممالک نے اپنی آئیڈیالوجی کی مدد سے نشاۃ ثانیہ کو حاصل کیا ہے، لیکن دونوں نشاۃِ ثانیہ باطل ہیں کیونکہ دونوں آئیڈیالوجیز روحانی پہلو کی انکاری ہیں۔ مغربی سرمایہ داریت خالق اور روز مرہ معاملات کے ساتھ اس کے تعلق کی انکاری ہے جبکہ کمیونزم خالق کے تصور کا سرے سے انکاری ہے۔
آج دنیا میں واحد درست آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اسلام شرط عائد کرتا ہے کہ انسان، حیات اور کائنات سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لئے درست دین دے کر مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا جو مسلمان پوری دنیا میں اسلامی طرز حیات کو زندہ کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں انہیں اسلامی آئیڈیالوجی کو فکر اور طریقہ دونوں کے طور پر پورے دل سے قبول کرنا ہوگا۔ صرف اس ہی صورت میں امت مسلمہ کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن کرنے کا سفر کامیاب ہوگا۔
جو بات ہم نے کی اس کی بنیاد پر نشاۃِ ثانیہ کے تین مرحلے ہیں: فکری، سیاسی اور قانونی۔ فکری مرحلے میں فکری سوچ جامع آئیڈیا کو بناتی ہے جس کو پھر ان تصورات کے لئے بنیاد کے طور پر لیا جاتا ہے جو بنی نوع انسان کے مسائل کا حل ایک خاص نقطہ نظر سے دیں اور ان کے نفاذ کا طریقہ کار بھی فراہم کریں۔ اس مرحلے کے درمیان نئے تصورات معاشرے کے پرانے تصورات سے ٹکراتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تصورات کی افادیت اور برتری کو معاشرے میں موجود فاسد افکار سے ممتاز کر دیا جائے۔ اس کے بعد سوچ کا سیاسی مرحلہ آتا ہے جہاں سیاسی سوچ کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نئے تصورات کو معاشرے پر غالب کیا جائے اور موجودہ سیاسی اتھارٹی کے ساتھ تصادم کیا جائے تاکہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے میں اس کی عدم قابلیت کو آشکار کیا جائے۔ اس مرحلے میں معاشرے کی موجودہ سیاسی قیادت ہٹا دی جاتی ہے اور نئی قیادت ظاہر ہوتی ہے جو نئی فکر کے نفاذ کی سرپرستی کرتی ہے۔ آخر ی یعنی تیسرے مرحلے میں جب نئے آئیڈیا کے پاس سیاسی اتھارٹی اور قوت آجاتی ہے، تب قانونی سوچ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے کیونکہ بیشمار مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور قانونی سوچ انہیں حل کرتی ہے۔
جب قوم نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لیتی ہے تو اسے برقرار رکھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ اس کا حصول اس طرح ہوتا ہے کہ سیاسی سوچ معاشرے میں موجود دوسری تمام سوچوں پر نگرانی کرے جیسا کہ فکری، قانونی، لسانی، سائنسی وغیرہ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قوم کے لئے نشاۃِ ثانیہ کے تین مرحل ہیں فکری، سیاسی اور قانونی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سوچ کے یہ مراحل باہم جدا ہیں اور بیان کردہ مراحل میں ساتھ نہیں چلتے بلکہ سوچ کے سیاسی مرحلے میں سیاسی سوچ کے ساتھ فکری اور قانونی سوچ بھی قدم بہ قدم چلتی ہے لیکن سیاسی سوچ زیادہ نمایاں رہتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ توجہ معاشرے پرایک نئے آئیڈیا کو قائم کرنے کے لئے ہے جو اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سیاسی جدوجہد نہ کی جائے جس کی وجہ سے سیاسی سوچ نمایاں رہے گی۔ یہی بات باقی مراحل پر بھی ثابت ہوتی ہے۔
اس ماڈل پہرپہنچنے کے بعد اب قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ اس ماڈل کی روشنی میں تین مثالیں توجہ طلب ہیں:
آپﷺ کی زندگی، جو کہ مکی اور مدنی زندگی پر محیط ہے، سوچ کے تین مختلف مراحل میں بانٹی جا سکتی ہے۔ ابتداء میں مکی دعوت جس میں فکری انداز غالب رہا اور آپﷺ کی جدوجہد میں فکری سوچ حاوی رہی۔
اس کے بعد شدید سیاسی جدوجہد کا دور ہے جو قریش کے قائدین کےخلاف تھا اور اس مرحلے پر سیاسی سوچ غالب رہی ۔
جیسے ہی آپﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تب قانونی سوچ غالب ہوگئی کیونکہ زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں احکامات نازل ہوئے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ پاپایئت کے خلاف یورپ کی فکری بیداری سے پیدا ہوا۔ اس کے بعد اصلاح کے دور نے شدید سیاسی عمل کی ابتداء کی یہاں تک کہ چرچ کی طاقت کو ریاست کی طاقت سے جدا کر دیا گیا اور سیکولرازم نے جنم لیا۔ اس کے بعد روشن خیالی کا دور ہے جو کہ فکری اور قانونی سوچوں پر مشتمل ہے اس ہی دوران جدید یورپین قانون کی دو بنیادی روایات نے جنم لیا۔ منظم قانونی نظام جس کا استعمال براعظم یورپ کے عظیم حصے پر ہوا اور انگریزی روایات جو کہ سابقہ مقدموں پر بنا ئے گئے قوانین پر مشتمل ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں کارل مارکس نے کمیونزم کے بنیادی اصول مرتب کیے اور ایک نئی فکر کا ظہور ہوا۔ اس کی شروعات قلیل مدت کی سیاسی حرکت سے ہوئی جوروس میں اکتوبر 1917ء کے بولشویک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بولشویک کو ایک منجمد ریاست ملی جسے بیشمار مسائل درپیش تھے اور ان کے حل کے لئے قانونی سوچ کی ضرورت تھی۔ تینوں صورتوں میں جیسے ہی قوم نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے سیاسی سوچ نہ صرف لوگوں کے معاملات کو چلاتی ہے بلکہ دوسری سوچوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کی فکری اور قانونی فہم کی سطح کو برقرار رکھنا ریاست کے سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔
نشاۃِ ثانیہ اورانحطاط کے پیش کردہ ڈھانچے کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں گردشی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے دنوں کے بعد انحطاط کے جھٹکے بھی آتے ہیں۔ مثلاً جب صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو سو سالوں تک یہ واضح تھا کہ خلافت انحطاط میں ہے لیکن اس کے بعد نہضہ(نشاۃ ثانیہ) کا ایک مختصر دور آیا جب صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو نکال باہر کیا یہاں تک کہ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کردیا۔
خلافت دوبارہ کھڑی ہوگئی جب مملوکوں نے تاتاریوں کے جنگجو جتھوں کو شکست دی اور خلافت کو اس کی حقیقی شان پر لوٹادیا لیکن ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا کہ قوموں کے انحطاط کے ادوار کے بعد مکمل نشاۃِ ثانیہ کا دور آجائے یعنی سوچ کے تمام پہلوؤں میں نہضہ یعنی فکری، سیاسی اور قانونی۔ یہی دلیل انحطاط پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچوں پر مکمل انحطاط نہیں آتا جب قومیں ایک مقرر عرصے تک نشاۃِ ثانیہ میں وقت گزار لیتی ہیں۔
یہ سب کچھ بیان کر دینے کے بعد بہرحال یہ ممکن ہے کہ قوم کی مجموعی زندگی اور اس کی تنقیدی ہئیت یعنی ریاست کی بنیاد پر مکمل نشاۃِ ثانیہ یا انحطاط کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اموی خلافت کا عروج عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ہوا۔ اموی خلافت کے بعد عباسی خلافت آئی جس نے خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے فرزند کی حکمرانی میں بلندی حاصل کی۔ عباسی خلافت کے بعد عثمانی خلافت کا دور آیا۔ عثمانی ریاست کی بلندی کا دور سولویں صدی میں سلیمان القانونی کے دور میں آیا اس کے بعد عثمانی ریاست تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھی یہاں تک کہ تباہ ہوگئی۔ ان شدید جھٹکوں کے باوجود امت محفوظ رہی اور آج یہ سوچ کے تمام مرحلوں میں بلندی کی طرف گامزن ہے سوائے اس کے تنفیذی حق یعنی خلافت کی کمی باقی ہے۔
اگر انحطاط اور نشاۃِ ثانیہ کے اندازے کے لئے وسیع دور پر نظر رکھی جائے تو اس قوم کے مقام کی بہتر تصویر ابھرتی ہے۔ لہٰذا خلافت کے بارے میں ہماری اس مثال سے یہ صاف واضح ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچ خلاف راشدہ کے دور میں بلند ترین سطح پر تھیں اور عثمانی خلافت کے آخری ادوار میں پست ترین۔
آئیے ایک مثال لیتے ہیں قرونِ وسط کے دوران جب برطانیہ جنگجو ٹولوں کا یاک مجموعہ تھا جو ہر وقت بیرونی حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہوتاتھا۔ لیکن سولویں صدی کی ابتداء پر برطانیہ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں ابھرا اورانیسویں صدی کے اواخر میں ملکہ وکٹوریا کے دور میں دنیا کی صف اول کی ریاست بن گیا۔ اس برطانوی سلطنت کا سنہری دور قلیل مدت کے لئے تھا اور برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد عالمی صف اول کی ریاست ہونے کا مرتبہ کھو دیا جب اس کی سلطنت حیران کن انداز میں سکڑ گئی۔ آج برطانیہ تنزلی کی طرف گامزن ایک بڑی طاقت ہے اور باوجود اس کے کہ اس کی قیادت برطانوی سلطنت کو دوبارہ بلند کرنے کے پرعزم منصوبے رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ سوچ کی تمام جہتوں میں تنزلی کو پلٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مختصر بیان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وکٹورین دور کے وقت برطانیہ کی فکری، سیاسی اور قانونی سوچ اپنے عروج پر تھی اور آج یہ سب کی سب انحطاط کی جانب رواں ہیں۔
گو کہ خلافت کے مختلف ادوار اور مختلف اقوام کے ادوار جن پر انحطاط کے ڈھانچے کو لاگو کر کے دیکھا جائے اور ان پر سوچ کے مختلف مرحلوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اس تحریر کے دائرے سے باہر ہیں، پھر بھی یہ ضروری ہے کہ سیاسی سوچ میں کمزوری اور اس سے قوموں پر واقع ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالی جائے۔
مثلاً: خلاف 1300 سالوں تک موجود رہی، یہاں تک کہ1924ء میں اس کا خاتمہ ہوا لیکن سیاسی سوچ میں کمزوری چاہے تنفیذی سطح پر ہو یا امت کی سطح پر، کئی صدیوں پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ایک معاملہ جس میں طاقت کے زور پر حاصل کی گئی بیعت کے طریقے کا غلط نفاذ تھا یعنی خلیفہ کی تقرری کا قانونی عقد، معاویہ اول کے دور میں بیعت کے طریقے کا غلط استعمال کیا گیا۔ جب معاویہ نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت دینے پر مجبور کیا، جبکہ وہ خود زندہ تھے۔ لہٰذا ان تین سیاسی فیصلوں نے صدیوں تک مسلم امت کو متاثر کیا، یہاں تک کہ1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ حکمرانی سے متعلق کچھ اسلامی مفاہیم شدید کمزور ہو چکے تھے اور درست قانونی فیصلوں کی جگہ غلط فہم نے لے لی تھی۔ دیگر غلط سیاسی فیصلوں میں اس بات کی اجازت دینا کہ اسلام اور بیرونی فلسفوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے، عربی زبان کی اہمیت سے بے رغبتی، اجتہاد کے دروازوں کا بند ہونا اور جہاد کو ترک کرنا ۔ اس طرح سے سیاسی فیصلوں نے خلافت کو انحطاط کے راستے پر گامزن کیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی آئیڈیالوجی کو کمزور کیا اور قانونی نصوص سے درست استنباط کو آلودہ کر دیا۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں جہاں ایک بڑی طاقت بیرونی پالیسی کے حوالے سے غلط سیاسی فیصلہ لیتی ہے، جو عالمی سطح پر اس کے مقام کو اور اس کی اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی صلاحیت کو شدید مجروح کر دیتا ہے ۔ بہت سارے لوگوں کے لئے برطانیہ کا زوال ہندوستان کی آزادی سے شروع ہوااوراس کے بعد مشہور زمانہ سوئیز بحران نے برطانیہ کے دنیا کے صف اول کی ریاست کے مقام سے گرنے کو شدید تر کیا۔ دونوں واقعات نے نہ صرف برطانیہ کی بیرونی معاملات پر محدود صلاحیت کو واضح کیا بلکہ یہ تاثر بھی چھوڑا کہ برطانیہ ایک گرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اگرچہ یہ اور اس جیسے دیگر واقعات جس میں برطانیہ کو عالمی سطح پر استعمار مخالف لہر کی وجہ سے اپنی فتح کردہ زمینوں سے دستبردار ہونا پڑا دراصل برطانیہ کی اس خواہش کی بنا پر تھے کہ امریکہ جنگ عظیم دوئم میں شریک ہوجائے۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اوراس کے مشیروں نے امریکی قوت اور اس کی دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کی جستجو کو بے وقعت سمجھا۔ آنے والے دنوں میں برطانیہ کو یہ سیاسی فیصلہ بہت مہنگا پڑا اور اس نے اپنی کافی کالونیاں امریکہ کے ہاتھوں کھو دیں۔ برطانوی ثقافت کو دیگر ممالک میں فروغ دینے کی اہلیت امریکی ثقافت نے روک دی اور اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی برطانوی صلاحیت امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر سے شدید طور پر تھم گئی۔ مزید یہ کہ عالمی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، یو این ا وغیرہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو کہ امریکی کنٹرول میں کام کرتے تھے۔
ہم آخری مثال میں اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین نے کس طرح اپنی آئیڈیالوجی پر سمجھوتہ کیا جب اس کا بیرونی ریاستوں سے سامنا ہوا۔ مثلاً 1961ء میں سوویت یونین نے دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ سے بقائے باہمی کی کوشش کی جو کہ اس کی کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے سراسر خلاف تھا۔خریوشیو اور کینیڈی کے درمیان معاہدے نے فکری نقطہ نظر کے مطابق سوویت یونین کے انہدام کو تیز تر کر دیا کیونکہ کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام سے کسی بھی قسم کی باہمی بقاء کو رد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کی سوچ سے اس کو جگہ دینے کی طرف اس قدم نے بہت سارے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ کمیونزم ریاستوں کے خارجی تعلقات کی تنظیم کے لئے غیر عملی ہے۔
ان تمام سابقہ مثالوں میں نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن قوم بری طرح متاثر ہوئی ہے جب ریاست نے غلط سیاسی فیصلے کیے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اندازہ کرنے کے لئے سیاسی سوچ کے کردار پر نظر رکھی جائے۔
تیسری تحریر میں عابد مصطفٰی اس بات کی جانچ پڑتال کریں گے کہ کیا دنیا میں امریکہ کا مقام واقعی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے یا یہ ایک معمولی ناکامی ہے جس کے بعد امریکہ پوری طرح اپنی ساکھ کو بحال کر لے گا؟

Read more...

بین الاقوامی قانون مغرب کا استحصالی آلہ کار ہے

معیز مبین
کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم میں وہاں کے باشندوں کی اکثریت نے روسی فیڈریشن کے ساتھ الحاق کی خواہش کا اظہار کیا۔اس ریفرنڈم کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے وائٹ ہاوس کے ترجمان نے کہا کہ ریفرنڈم پر ووٹ "روسی فوجی مداخلت کی وجہ سے تشدد اور دھمکیوں کے خطرات" تلے منعقد کیا گیا۔ اسی طرح کے تاثرات کا اظہار برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی طرف سے بھی کیا گیا جب اس نے کہا: "جس بھی بنیاد پر جس طرح یہ ریفرنڈم کروایا گیا ہے اس کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا"۔ یہ مغرب کی منافقانہ پالیسی ہے کہ وہ مقبوضہ کریمیا کے ریفرنڈم کے نتائج کو مسترد کر رہا ہے جبکہ اگلے ہی ماہ مقبوضہ افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی حمایت بلکہ ان کو افغانستان کی ترقی کی علامت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ کریمیا اور افغانستان دونوں مقبوضہ علاقے ہیں۔ دونوں میں انتخابات ان کے مقبوضہ علاقے ہونے کی حیثیت سے ہو رہے ہیں۔ لیکن کیونکہ مغرب کے مفادات دونوں علاقوں میں مختلف ہیں اس لیے وہ افغانستان میں اپنے قبضے کے تحت ہونے والے صدارتی انتخابات کی حمایت کر رہا ہے اور کریمیا میں روسی فیڈریشن کے تحت ہونے والے انتخابات کی مخالفت کر رہا ہے۔ 1990 میں عراق کی کویت کو اپنے ساتھ طاقت کے زور پر الحاق کرنے کی کوشش پر جس پیمانے اور جس سختی سے مغرب نے ردعمل کا اظہار کیا اس کے مقابلے میں روس کا کریمیا کو زبردستی اپنے ساتھ الحاق کرنے پر مغرب کے ردعمل میں کمزوری کو نوٹ کرنا اہم ہے۔ عراق کے معاملے میں مغر ب نے عالمی سطح پر مختلف ممالک کے ایک وسیع اتحاد کو تشکیل دیا اور افواج کو متحرک کیا۔ روس کے معاملے میں مغرب نے اقتصادی پابندیوں کو استعمال کیا اور وہ معاشی اقدام کے ذریعے روس کی معیشت کو نقصان پہچانے کی پالیسی پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مغرب کا روس اور عراق کی طرف لائحہ عمل میں فرق اور اس کی وجوہات واضح ہیں۔ مغرب اس بات سے آگا ہ ہے کہ وہ روسی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا جبکہ وہ پر اعتما د تھا کہ عراق کے ہمسایہ ممالک کے مغرب نواز حکمرانوں کی مدد سے وہ عراق کے خلاف فوجیں تعینات کر سکتا ہے۔ یوکرائن کا بحران بین لاقوامی تعلقات اور ریاستوں کے درمیان بین لاقوامی جدوجہد میں ایک اچھا سبق ہے۔ سب سے اہم سبق جو اس بحران سے ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسا بین لاقوامی قانون جو ریاستوں کے رویوں کو کنٹرول کرے، کا حقیقتاً کوئی وجود نہیں۔ یہ سوچ کہ ممالک کے درمیان ان کے تعلقات کو منظم کرنے کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہے ایک غلط سوچ ہے۔ یہ اس لیے غلط ہے کیونکہ ایسے قانون کی موجودگی کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اس قانون کو زبردستی نافذ کرے جب اس کو توڑا جائے۔ یہ اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ کہ دنیا کےممالک ایک عالمی اتھارٹی کے وجود کو تسلیم کریں جو عالمی قانون کو تمام ممالک پر نافذ کرے ۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو ریاست کی خودمختاری کے خلاف ہے کیونکہ ریاست کو اپنے اوپر ایک اتھارٹی کو تسلیم کر نا پڑے گا۔ کوئی بھی ریاست جو اپنی خودمختاری کی حفاظت کرتی ہے ایسی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرسکتی۔ عراق فوجی طور پر اتنا طاقتور نہیں تھا کہ وہ امریکہ کے حملے کا مقا بلہ کرتا جب اس نے عالمی قانون کو نافذ کرنے کا بہانہ کر کے عراق پر چڑھائی کر دی۔ روس فوجی طور پر اتنا مضبوط تھا کہ وہ امریکہ کی فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے اور نام نہاد عالمی قانون کا انکار کرسکے۔جیسا کہ مغرب کی افغانستان اور کریمیا میں انتخابی مشقوں کی مختلف تشریحات سے واضح ہے کہ بین الاقوامی قانون درحقیقت بڑی طاقتوں کے مفادات کے حق میں عالمی رائے اور رویے تشکیل دینے کا آلہ کار ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہےکہ مختلف ممالک کی ثقافت، اقدار اور مفادات میں فرق کی وجہ سےدنیا کے ممالک کے درمیان بین لاقوامی قانون کی تشریح کے لیے ایک عالمی ادارے کے قیام پر اتفاق کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ کریمیا اور افغانستان کی مثالیں اس با ت کا ثبوت ہیں کہ مسلم دنیا اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے عالمی قانون اور عالمی اداروں پر انحصار نہیں کرسکتی۔ عالمی قانون جس کو ہم آج جانتے ہیں ایک مغربی آلہ ہے جس کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے عدم توازن کو استعمال کرتے ہوئے مغرب نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر ایک موثر کردار نہیں ادا کرنا چاہیے بلکہ اصل میں یہ بحث ہونی چاہیے کہ مسلمان کس طرح اور کن اداروں کے ذریعے بین لاقوامی تعلقات اور بین لاقوامی سیاست پراثر انداز ہوں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ماضی میں یہ خلافت ہی تھی جس کے ذریعے امت نے عالمی سطح پر ایک مضبوط اور موثر کردار ادا کیا۔ خلافت کا ادارہ مسلمانو ں کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری طاقت کو یکجا کر کے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے عالمی رائے اور رویوں کو تشکیل دینے کے لیے ماضی میں ایک اہم کردار ادا کر چکا ہے اور آج بھی مسلمان صرف خلافت کے ذریعے ہی عالمی سطح پر پھر سے ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

Read more...

خبر اور تبصرہ پاکستان صرف خلافت کے زیر سایہ ہی بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارا پاسکتا ہے

 

خبر: 13 مارچ 2014 کو ، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ، سرتاج عزیز نے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مودی کے وزیر اعظم بن جانے سے بھارت کے ساتھ تعلقات میں موجود کھچاؤ کو ختم کرنے کے حوالے سے ان کی کوششوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی۔ جناب واجپائی کا تعلق بی۔جے۔پی سے تھا"۔
تبصرہ: وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی نواز شریف نے بہت واضح اشارے دے دیے تھے کہ وہ ایسے تمام اقدامات کریں گے جس کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جاسکے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اس کی حکومت نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے اور اسے تجارت کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے عمل کو تیز کردیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی حکومت نے بھارت سے 500 سے 1000 میگاواٹ بجلی کی درآمد کے لئے بھی بات چیت کا آغاز کر دیا جبکہ بھارت بذات خود بجلی کے بحران کا شکار ہے۔
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی بھارت کا رویہ پاکستان کے ساتھ جارحانہ رہا ہے اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ سرد جنگ کے اختتام تک پاکستان نے بھی اس کی جارحیت کا دفاع ، معیشت اور دوسرے میدانوں میں منہ توڑ جواب دیا۔ سرد جنگ کے دوران اس خطے میں سوویت روس کے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان امریکہ کا اہم ترین اتحادی تھاجبکہ بھارت سب سے زیادہ سوویت اسلحہ حاصل کرنے والا ملک تھا اور اس نے نام نہاد غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کررکھی تھی جو کہ اس کی اصل پوزیشن کو چھپانے کے لئے ایک آڑ تھی کیونکہ درحقیقت کانگریس پارٹی کی وجہ سے برطانیہ سے اس کے مضبوط تعلقات تھے اور بھارت بین الاقوامی امور میں برطانوی موقف کے مطابق پوزیشن اختیار کرتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور کشمیر کو بھارت کے خلاف ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا تا کہ بھارت کو برطانوی اثرو نفوذ سے نکال کر اپنے زیر اثر لے آئے۔ لیکن سرد جنگ اور سوویت روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنی ڈنڈے والی حکمت عملی تبدیلی کی اور اس کی جگہ بھارت کو مختلف مراعات کے ذریعے اپنے زیر زثر لانے کی کوشش کرنے لگا۔ بل کلنٹن کے دورِ حکومت کے دوران امریکہ نے کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرلیا اور اسے متنازعہ علاقہ اور بین الاقوامی مسئلے کی جگہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ قرار دے دیا اور اس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد کے نفاذ کی جگہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دینے لگا۔
تو جیسے ہی امریکہ نے بھارت کے حوالے سے اپنی خفیہ جارحیت کی حکمت عملی تبدیل کی اور کھل کر اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کام کرنے لگا، تو پاکستان میں موجود اس کے ایجنٹوں نے بھی پاکستان کی بھارت کے خلاف مزاحمت کی پالیسی کو تبدیل کرلیا اور اس کی جگہ وہ بھارت کو امریکی اثرو رسوخ کے زیر اثر لانے لئے ایک چارے کا کردار ادا کرنے لگا۔ 2004 سے قائم کانگریس کی حکومت کی وجہ سے امریکہ اپنی اس حکمت عملی پر زیادہ تیزی سے کام نہیں کرسکا جس قدر کہ وہ چاہتا تھا۔ لیکن اب چونکہ اس سال اپریل میں بھارت میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ بی۔جے۔پی، گجرات کے قصائی، مودی کی قیادت میں حکومت بنالے گی، تو امریکہ کو اس بات کی امید ہے کہ وہ بھارت کو اپنے زیر اثر لے آئے گا کیونکہ بی۔جے۔پی امریکی حمائت یافتہ جماعت ہے۔ اور بالآخر امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ ایسے علاقائی بلاک کو بھارت کی قیادت میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس کے ذریعے وہ چین کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرسکے گا اور ایشیا پیسیفک میں اس کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے گا۔
لہٰذا سرتاج عزیز کا یہ بیان حیران کن نہیں کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی بلکہ یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار بڑی بے تابی سے بی۔جے۔پی کی جیت کا انتظار کررہے ہیں تا کہ وہ امریکی مفاد کی خاطر بھارت کو امریکہ کی گود میں ڈالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انھوں نے پہلے ہی اس حوالے سے بہت کام کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے لئے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھے جانے کی پالیسی تبدیل کی جائے۔ اب سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اس بات کو ثابت کرنے پر پوری قوت صَرف کررہے ہیں کہ اس خطے میں معاشی ترقی کے لئے پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے خصوصاً مسئلہ کشمیر کو، اور انھیں مضبوط معاشی تعلقات قائم کرنے چاہیے۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 67 سال سے امریکی مفادات کے مطابق عمل کرنے کے باوجود پاکستان کی معیشت نہ تو مضبوط ہوسکی اور نہ ہی خود انحصاری کی منزل کو پاسکی۔ اس کے برعکس امریکہ نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کی معیشت کا استحصال کیا اور یہ عمل اب پہلے سے بھی زیادہ تیز تر ہوچکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی معیشت کو بھارت کے ساتھ جوڑنے سے بھی کوئی خوشحالی کی لہر نہیں آئے گی بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھارت کی خواہشات کے تابع ہوجائے گی۔ لہٰذا پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، 180 ملین آبادی کی مارکیٹ جو امریکہ بھارت کو پیش کررہا ہے تا کہ اسے اپنے اثرو رسوخ کے تابع لاسکے۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارادلا سکتی ہے۔ اسلام کی بنیاد پر ایک آزاد خارجہ پالیسی کے نتیجے میں یہ مسلم علاقے ایک بار پھر خلافت کے زیر سایہ پوری قوت سے اٹھیں گے کیونکہ یہ پالیسی دشمن کے ساتھ دشمن جیسا ہی سلوک کرتی ہے اور اسلام کی بالادستی کو قائم کرتی ہے۔ جہاں تک کشمیر اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کا تعلق ہے تواسلام ہم پر یہ لازم کرتا ہے کہ اسلامی سرزمینوں کو دشمن سے واپس حاصل کیا جائے چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے یا طویل عرصے تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

آزادی رائے، لبرل دنیا کے لئے بالادستی کا ایک ہتھیارہے

 

تحریر: عثمان بدر (آسٹریلیا میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے نمائندے)
میں نے حال ہی میں ایک بحث میں حصہ لیا، جس کا عنوان تھا ''خدا اور اس کے پیغمبروں کو توہین سے تحفظ دینا چاہیے''۔ لیکن میں نے یہ اعتراض اٹھا یا کہ یہ سوال لبرل ازم کی سوچ پر مبنی ہے اور اس فہم کے تحت ہے کہ آزادی رائے ایک نقطہ آغاز ہے اور اس پر جو بحث باقی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حدود کیا ہیں۔
میں اس مقدمے کو پوری طرح سے رد کرتا ہوں۔ آزادی رائے کا تصور لبرل تصور کے تحت آتا ہے نہ کہ یہ کوئی غیر جانبدار عالم گیر سوچ ہے۔تو لبرل لوگوں سے میں ایک سیدھی بات کرتا ہوں، بہت ہوگیا خود کو خوش کرنا، آپ ایک صحیح مؤقف کی نمائندگی نہیں کرتے۔
کروڑوں لوگ دنیا میں لبرل نہیں ہیں۔ اس تصور کو ایک عالم گیر تصور کے طور پر پیش کرنا چھوڑ دو۔ اس دکھاوے کو چھوڑ کر ایک صاف اور منصفانہ بحث کی طرف آؤ۔دوسروں کی عزت کرنا انسانی شرافت کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ یہ ہے بنیادی نقطہ نہ کہ آزادی رائے۔
دوسروں کی توہین کرنا ایسے ہی ہے جیسے دوسروں کے احساسات کی پروا نہ کرنا، گستاخی کرنا اور حقارت کا برتاؤ کرنا۔ اس روئیے کو صحیح ثابت کرنے کا بوجھ ان لوگوں پر ہے جو ایسے برتاؤ کی اجازت چاہتے ہیں کہ سیاہ کاری اور انتہا درجے کی بد اخلاقی جائز ہونی چاہیے۔
کیا مکمل آزادی رائے کا کوئی وجود ہے؟
آزادی رائے کا تصور اپنے نظریے کے لحاظ سے ناقص ہے اور اپنے نفاذ کے لحاظ سے اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کا نفاذ ناممکن ہے اور تاریخ میں کبھی بھی کہیں بھی یہ نافذ نہیں ہوا یہاں تک کہ آج کے لبرل معاشروں میں بھی نافذ نہیں ہوسکا۔
مثال کے طور پر جب حال ہی ایک فلم جس میں رسول کی توہین کی گئی تھی تو اس عمل کے دفاع میں وائٹ ہاؤس نے کہا "اس ملک میں آزادی رائے کو ہم ختم نہیں کرسکتے اور نہ کبھی ختم کریں گے ''۔ پھر سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ '' ہمارے ملک میں آزادی رائے کی روایت ایک تاریخی رسم ہے۔ہم شہریوں کو رائے کا اظہار کرنے سے نہیں روکتے اس کے باوجود کہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں''۔ ان جذبات کا اظہار یورپ اور آسٹریلیا کے رہنماؤں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ بیانات بالکل درست نہیں ہیں۔ آزادی رائے بغیر کسی روک ٹوک کے قطعی طور پر وجود نہیں رکھتی ۔ توہین کرنے کی کوئی مکمل آزادی نہیں ہے۔مغربی لبرل یورپ میں ہم توہین کے خلاف قوانین ، بغاوت انگیز تقریر کے قوانین، پیشہ ور معیاراور سیاسی اور نامور لوگوں کے بارے میں اور ان کے بیانات کے حوالے سے صحافتی معیار دیکھتے ہیں۔ جرمنی میں ہولوکاسٹ کا انکار ممنوع ہے۔ برطانیہ میں پبلک آرڈر ایکٹ میں دھمکی، گالی اور توہین آمیز الفاظ ایک جرم ہے۔آسٹریلیا میں کامن ویلتھ کریمنل کوڈ کے مطابق اگر کوئی شخص ڈاک یا اس جیسی کسی بھی سہولت کو اس طرح سے استعمال کرتا ہے کہ کوئی بھی مناسب شخص اسے توہین سمجھے تو یہ عمل جرم تصور کیا جائے گا۔
جہاں تک عملی مثالوں کی بات ہے تو اس عمل میں ہمیں کئی لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جن کو زبان درازی کی وجہ سے سزا دی گئی۔ برطانیہ میں اظہر احمد کو 2012 میں اس لئے مجرم قرار دیا گیا کیونکہ اس نے اس نےصریحاً توہین آمیز پیغامات بھیجے تھے۔ اظہر احمد نے فیس بک پر افغانستان میں قتل ہونے والے ایک برطانوی سپاہی کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ " سب سپاہوں کو مرنا چاہیے اور جہنم میں جانا چاہیے"۔ ڈسٹرکٹ جج جین گوڈون جب اسے سزا دینے کے نتیجے پر پہنچا تو اس نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا کہ اصل امتحان یہ تھا کہ جو کچھ لکھا گیا کیا وہ ہمارے معاشرے کی قابل برداشت حد سے باہر ہے۔ آسٹریلیا میں ایک مسلمان آدمی کی جانب سے مارے گئے سپاہیوں کے خاندانوں کو بھیجے گئے خطوط کو توہین آمیز اور غلط خیال کیا گیا اور اسے اوپر بیان کیےگئے کریمنل کوڈ قانون کے مطابق مجرم قرار دیا گیا ۔ یہ ان بہت ساری مثالوں میں سے صرف دو مثالیں ہیں۔
آزادی رائے ایک سیاسی ہتھیار
آزادی رائے کا اصول جس کے بارے میں نے بحث کی، اسے مخصوص معاملات میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں کی مقدس شخصیات کی توہین کی جاتی ہےتو ہمیں آزادی رائے کے متعلق سمجھایا جاتا ہے اور یہ بتا یا جاتا ہے کہ یہ معاملہ آزادی رائے کا ہے۔ لیکن جب مسلمان اور دوسرے توہین کریں تو انھیں قانون کی طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ آزادی رائے کب، کہاں اور کیسے لاگو ہوتی ہے؟ اصل سوال پھر آزادی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس بارے میں ہے کہ طاقت کس حد تک جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ طاقت کےمتعلق ہے جسے ہر جگہ استعمال کرنے اور نافذ کرنے کے لئے آزادی کے نعرے کو استعمال کیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ لبرل یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان سارے قوانین اور واقعات سے اتفاق نہیں کرتے اور سب کے لئے مکمل اور قطعی آزادی رائے کے قائل ہیں لیکن کیا یہ مؤقف معاشرے کے لیے ممد ہو گا؟ کیا ہم ایسی زبان کو قبول کریں گے جب سفیدفام سیاہ فام کے لیے "n word'' استعمال کریں؟ یا کوئی ایک آدمی ایک پرہجوم تھیٹر میں یہ چلائے کہ ''آگ!'' یا کوئی شاگر اپنے استاد کی یا کوئی اولاد اپنے والدین کی بے عزتی کرے؟ ہر شخص اپنے بچوں کو دوسروں کی عزت کرنا سکھاتا ہے نہ کہ بے عزتی کرنا۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ توہین محض توہین، نفرت اور تلخی کو جنم دیتی ہے۔ کیا اس قسم کا معاشرہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں؟
کچھ لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں بھی آزادی رائے کو ایک انتہائی بنیادی قدر کے طور پر رکھا گیا تا کہ کچھ مخصوص معاملات کو انجام دیا جاسکے جیسا کہ نت نئے خیالات پیش ہوں، سچائی کو جاننے کے لئے اور حکومتوں کا احتساب کرنے کے لئے۔ کیا ان عالی ظرف مقاصد میں سے کسی ایک کے لئے بھی - کہ جن کو اسلام بھی برقرار رکھتا ہے - بے عزت کرنے یا توہین کرنے کی آزادی کی ضرورت ہے؟ اور کیا توہین کرنا ، حقیقت میں، انہی مقاصد کے حصول کو شکست نہیں دیتا؟ دوسروں کے عقیدے کی توہین کرنا انہیں اپنے مؤقف کے حوالے سےسوچنے سمجھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔ بلکہ یہ انہیں مورچہ بند ہونے، دفاعی طرز عمل اختیار کرنے اور بدلے کے لئے تیار رہنے والا بنا دیتا ہے - یہی انسانی فطرت ہے۔
سیکولر لبرل ازم
لیکن ہمیں سچ بولنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے کی توہین کرنے کی آزادی پر بحث اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ سیکولر لبرل ازم مشرق و مغرب ، ہر جگہ بالادست ہے اور یہ بالادستی اس کی اقدار کی مضبوطی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی افواج کی مضبوطی کی وجہ سے ہے۔ مسلم دنیا نے سیکولر لبرل ازم کا مقابلہ کیا اور کر رہی ہے۔ لیکن عیسائیت اور یہودیت، جو سیکولرازم کی طاقت کے سامنے شکست کھا گئی، کے برعکس اسلام نے شکست تسلیم نہیں کی۔ اسلامی سر زمینوں کو تقسیم کردیا گیا، انہیں اپنی نو آبادی (colony) بنایا گیا، ان پر قبضہ کیا گیا اور ان کا استحصال کیا گیا۔ اسلامی ریاست، خلافت کو اگرچہ ختم کردیا گیا لیکن اسلامی فکرباقی رہی۔ یہ توہین اسی لیے کی جاتی ہےکہ اس مزاحمت کو توڑدیا جائے تاکہ سیکولر لبرل ازم کو نافذ کردیا جائے اور ہمیشہ کے لئے اپنی فتح کو مستحکم کردیا جائے۔
مغرب بشمول آسٹریلیا نے مصر کے وحشی آمر حسنی مبارک کی حمائت کی۔کیا مغرب ایسے بلند اخلاقی مقام پر کھڑا ہے کہ وہ دوسروں کو تشدد یا اقدار کے حوالے سےنصیحت کرے؟ یہ "آزاد دنیا'' باقی ساری دنیا پر اپنی فوجی، سیاسی، اور علمی تشدد کی بنیاد پر غالب ہونا چاہتی ہے۔ مشتشرقین یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان متشدد، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے اور اپنے معاملات کو خود سنبھالنے سے قاصر ہیں لہٰذا انھوں نے حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ جیسے آمروں کی حمائت کی، جنگوں کے ذریعے پورے کے پورے ملکوں کو تباہ کیا اور اس مقصد کے لئے بغیر انسانی پائلٹ کے اڑنے والے ڈرون طیاروں کی مدد سے یمن اور پاکستان میں بلا تفریق لوگوں کو قتل کیا۔ یہ ہے وہ وسیع اشتعال انگیز سیاق وسباق ہے جس پر مسلمانوں کا توہین کے خلاف ردِ عمل آتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام جہاں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
جب بات آتی ہے تنقید کی جو توہین سے بالکل فرق چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ اسے سامنے لے آؤ۔ کوئی بھی ایسا قدم یا کوشش جو ایک اہم بحث کا گلہ گھونٹ دے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ کسی بھی سوچ یا عقیدے پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ یہ حلال ہے۔ لیکن لوگوں کی یا ان کے عقیدے کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ تنقید کرو اسلام پر جتنا چا ہو۔ ایک مہذب طریقے سے اسلام کے متعلق لکھو کہ کیوں یہ حق نہیں ہے یا کیوں پیغمبر، پیغمبر نہیں ہیں۔ اس قسم کی کتابیں مغرب میں بھری پڑی ہیں اور کبھی بھی ان کتابوں کے نتیجے میں فسادات نہیں ہوتے لیکن مذاق اڑانا ، توہین کرنا ، غصہ دلانا یہ تنقید سے الگ ایک بات ہے اور ناقابل قبول ہے۔
ہر کوئی ایسی حدود رکھتا ہے جو وہ کبھی پار نہیں کرتا۔ دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت چند معاملات، کہ جنہیں وہ عزیز رکھتی ہے، کے حوالے سےحساس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرآسٹریلیا کی تہذیب میں حضرت عیسی علیہ اسلام پر تنقید کرنا کوئی برائی نہ ہو لیکن ANZAC پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ جدیدیت نے تقدیس کا تصور توختم نہیں کیا ، فقط اس نے اسے مذہب سے دنیا پر منتقل کرلیا ہے۔
سوچنے سمجھنے والے اور اپنی عزت کرنے والے لوگوں کے لیے دوسری تہذیبوں اور ان کے حامل افراد سے رابطہ کرنے کے لئے توہین کا طریقہ کار نا قابل قبول ہے۔ یہ خود ساختہ دانشوروں کا طریقہ کار ہے جن کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں اور نا ہی ان کا مقصد دوسروں کو سمجھنا ہے بلکہ ان کا مقصد صرف اپنے عدم تحفظ کی دوسروں کے سامنےتشہیر کرنا ہوتا ہے۔ توہین معاشرے کو کچھ نہیں دیتی سوائے نفرت کے۔
اس لئے تمام عقائد، مقدس شخصیّات اور کتابوں کو، بشمول اس کے کہ جو دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں موجود لوگوں کے لئے انتہائی مقدس ہے یعنی اللہ اور اس کے رسو لوں علیہم السلام کو، توہین سے تحفظ دینا چاہیے۔ ہماری موجودہ صورتحال میں یہ ایسے ہونا چاہیے کہ اقدار کو بلند ثابت کیا جائے نہ کہ قوانین کے نفاذ کی قوت کے ذریعے معاشرے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ آپ اخلاق کو پابند نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ عزت کریں۔ یہ سب انسانی حالت کو بلند کرنے سے ہوگا، انسانی تہذیب کی ان مقدس اور بنیادی ترین اقدار کے احیاء سے ہو گا جنہیں سیکولر لبرل ازم نے ختم کردیا ہے۔

Read more...

رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا  - التحریم: 11

 

تحریر: مصعب بن عمیر،پاکستان

صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی ہیں جو انسان میں جنت کے حصول کی خواہش کو جگا سکتے ہیں اور اُسے اِس قابل کر سکتے ہیں کہ اس کی نگاہیں اس دنیاکی زندگی کی لذتوں اور آسائشوں سے آگے کی اُس دنیا کو دیکھ سکیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور جس کی لذتیں اور آسائشیں بھی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ایسی مثال دیتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس کا دل اُسے پانے کی خواہش سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کی تمنا میں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں ، وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لّلَّذِينَ امَنُواْ امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ وَنَجّنِى مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجّنِى مِنَ الْقَوْمِ الظَّـلِمِينَ "اور اللہ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے" (التحریم:11)۔
سبحانہ اللہ کس قدر طاقتور مثال ہے فرعون کی بیوی، حضرت آسیہ بنت مزاحم کی! ان کی شادی اس گھر میں ہوئی تھی جہاں اس قدردولت کی فراوانی اور زبردست طاقت تھی کہ شاید ہی کوئی ایسی دولت اور طاقت حاصل کرسکے اگر وہ اپنی پوری زندگی بھی اس کے حصول میں خرچ کردے۔ وہ ایک پیار اور خیال رکھنے والی ماں تھیں اور اپنی اولاد سے بہت محبت کرتی تھیں لیکن انھیں اپنی اولاد کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔ لیکن اپنے ایمان کی خاطر انھوں نے اپنی نگاہیں اس جانب مرکوز کردیں جو اس بات کی زیادہ حقدار تھی یعنی کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جنت۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ، "زمین پر بسنے والے لوگوں میں فرعون سب سے زیادہ جابر اور ایمان کی دولت سے محروم تھا۔ اللہ کی قسم! اس کی بیوی اس کے کفر سے متاثر نہیں ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے اپنے رب کی طابعدار ی کی تھی"۔ یہ اللہ کی اس جنت کی جانب نظریں مرکوز کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایک نازک اور کمزور عورت نے لوہے جیسے مضبوط ارادے کا مظاہرہ کیا۔ یہ ارادہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں گزرے کئی جابر اسے توڑ نہ سکے! ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ سیلمان نے کہا کہ "فرعون کی بیوی پر سورج کی تپش میں تشدد کیا گیا اور جب فرعون اپنے تشدد کے سلسلے کو روکتا تو فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایا کردیتے۔ انھیں جنت میں ان کا گھر دِکھایا گیا"۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ القاسم بن ابی بازح نے کہا کہ "فرعون کی بیوی کہا کرتی تھی، 'کون باقی رہا'۔ جب انھیں بتایا جاتا موسٰی اور ہارون تو وہ فرماتیں،'میں موسٰی اور ہارون کے رب پر ایمان رکھتی ہوں' "۔
یہی اُس جنت کے حصول کی شدید خواہش تھی جس نے انھیں جابر اور اس کے جبر کے سامنے ثابت قدم رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالٰی ان سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھیں اُس موت سے محفوظ رکھا جو جابر انھیں دینا چاہتا تھا کہ اس کے مارنے سے قبل ہی ان کی روح اللہ سبحانہ و تعالٰی کے پاس پہنچ گئی۔ فرعون نے اپنے ساتھی ان کی پاس بھیجے اور ان سے کہا کہ سب سے بڑا پتھر تلاش کرنا اور اگر وہ اپنے ایمان پر اصرار کرے تو وہ پتھر اُس کے سر پر مار دینا ، ورنہ وہ میری بیوی ہے۔ جب فرعون کے ساتھی بی بی آسیہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور جنت میں موجود اپنے گھر کو دیکھا۔ انھوں نے اپنے ایمان پر اصرار کیا اور پھر اللہ کے حکم سے ان کی روح قبض کرلی گئی۔ آخر میں وہ پتھر ان کے بے جان جسم پر پھینکا گیا۔ یہ مثال ہر اس مرد اور عورت کے لئے ہے جو اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کی رضا کے لئے حق پر اور جابر کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس مقدس روح کے متعلق فرمایا، أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْن "جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں"۔
موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک انتہائی طاقتور مثال ہے جو انھیں اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آج کے دور کے جابروں، بشار، کریموف اور ان جیسوں کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں جو مسلمانوں پر کفر نافذ کرتے ہیں۔ ہمیں کسی صورت اس عمل سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے کوئی جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا ہمیں جان سے مارنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی تکالیف کا جنت کی ہمیشہ ہمیشہ کی راحت سے کیا مقابلہ ہے؟ إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَـبُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ "یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی نیک کیے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں" (ھود: 23)۔ ہمیں کسی صورت جبر کو ختم کرنے کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے زندانوں میں چلے جانے کی وجہ سے یا جابروں کے غنڈوں سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے گھر ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں سے ہی کیوں نہ جدا ہوجائیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ہاں جب ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین سے جدا ہوتے ہیں تو دل غم سے بوجھل ہوجاتا ہے لیکن ایسی کوئی بھی جدائی بہت مختصر ہوتی ہے اگر اس کا تقابلہ ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کی زندگی سے کیا جائے جہاں ہمیں پھر اپنے پیاروں سے ملا دیا جائے گا اور پھر کوئی کبھی بھی جدا نہ کرسکے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ "ہمیشہ رہنے کے باغات، جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ، دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ لہٰذا اللہ انھیں ان کے پیاروں کے ساتھ اکٹھا کرے گا جو ان کے باپوں ، خاندان اور اولادوں میں سے ہونگے اور نیکو کار بھی ہونگے اور اس بات کے حقدار ہونگے کی وہ جنت میں داخل ہوں تا کہ انھیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ جدائی کے بعد کیا ہی خوشیوں والا ملاپ ہوگا! ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَجُكُمْ تُحْبَرُونَ - يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَـفٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَبٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ - وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ - لَكُمْ فِيهَا فَـكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ "تم اور تمھاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ۔ ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی وہ جنت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔ یہاں تمھارے لئے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے " (الزخرف: 70-73)۔ وہ لوگ جنہیں ان کے پیاروں سے جدا کردیا گیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ صبر کریں اور اپنی اس صورتحال پر افسوس نہ کریں اور نہ ہی غمگین ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی جنت میں ان لوگوں کے درجات کو بھی بلند فرمائیں گے جن کے درجات بلند نہیں ہوں گے اور انہیں بلند درجوں والوں تک بلند کریں گے اور ایسا کرنے سے بلند درجوں والوں کے درجات کم نہ ہوں گے اور یہ اللہ کی خاص مہربانی ہو گی۔ عبدل اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ "ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ: اے اللہ کے پیغمبرﷺ! اس آدمی کے متعلق آپﷺ کیا فرماتے ہیں جو لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجات کو نہیں پہنچ پاتا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی ان کے ساتھ ہو گا جن سے وہ پیار کرتا ہے" (بخاری: 5703)۔ ال بزر نے حسن اسناد کے ساتھ عبدل اللہ بن عمر سے روایت کی کہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ ، الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ "جو شخص بھی اللہ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور کہتا ہے: میں نے تم سے اللہ کے واسطے محبت کی، اور پھر انہیں جنت میں داخل کردیا گیا، اور ان میں ایک کا درجہ دوسرے سے بلند تھا لیکن دوسرے کو پہلے والے کے ساتھ ملا دیا جائے گا" (ال بزر: 2439)۔
تو ہمیں جابروں کے سامنے ثابت قدم رہنا ہے ، مسلمانوں کو مصائب سے بچانا ہے اور بلند درجات کوحاصل کرنا ہے کہ یہی جنت کا راستہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ؟ "کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کون سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا؟ أوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِي هؤُلَاءِ وَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً قَالَ : فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَاب "اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونےوا لے غریب مہاجرین ہوں گے (جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی) جن کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہو گی اور بیشتر مشکلات سے بچاؤ ہوگا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ خود اپنی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ اپنے فرشتوں میں سے جن کو چاہے گا کہے گا کہ ان کے پاس جاؤ ان کا استقبال کرو اور انہیں سلام کہو۔ فرشتے کہیں گے کہ ہم آپ کی جنت میں رہنے والے ہیں اور آپ کی تخلیقات میں سے سب سے بہترین ہیں، تو کیا آپ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جائیں، ان کا استقبال کریں اور انہیں سلام کہیں۔ اللہ فرمائیں گے، یہ میرے بندے ہیں جنہوں نے میری عبادت کی اور کسی شخص یا چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا۔ ان کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہوئی اور مشکلات کا منہ موڑ دیا گیا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا تھا"۔
جابروں کو ہٹانے اور جنت کے حصول کی راہ میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے ہم نے کسی صورت نہ تو گھبرانا ہے اور نہ ہی اس پر افسوس کا اظہار کرنا ہے۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ َالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ "کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے آگلے لوگوں پر آئے تھے، انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان لانے والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ: 214)۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ "کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں" (آل عمران: 143)۔ ہمیں اس زمین پر اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ جدوجہد ایسی شاندار ہونی چاہیے کہ جابر خوفزدہ ہوجائیں، ان کا اقتدار لڑکھڑائے اور گر جائے اور ان کا جبر ہمارے ایمان کی مضبوطی اور سختی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے!

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک