الخميس، 07 ذو القعدة 1445| 2024/05/16
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جمہوریت نے اپنا وقت پورا کرلیا ہے، اب خلافت کا وقت ہے، جو اسلام کا نظامِ حکومت ہے

 

مغرب میں بھی جمہوریت  لوگوں کے امور سے غفلت برتتی  ہے

          جہاں جمہوریت  ہوتی ہے وہاں عوام کی اکثریت لازماً اشرافیہ کے ایک مختصرگروہ کے ہاتھوں استحصال کاشکار ہوجاتی ہے۔یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ و ہی لوگ امیر ترین ہیں جنھیں سیاست دانوں کی مدد و حمایت کے ذریعے بلا واسطہ یا بل واسطہ طور پر سیاسی قوت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔  جمہوریت کا مقصد کبھی بھی عوام کو انصاف فراہم کرنا نہیں رہا بلکہ اس کاڈول اس لیے ڈالا گیا تاکہ طاقت کوچند لوگوںمیں ہی محدود رکھا جائے  نتیجتاً دولت بھی چند ہاتھوں میں محدودرہے۔ میڈیسن نے، جو کہ امریکی آئین کابانی تھا ، جمہوریت کی اس خاصیت کا یوں اظہار کیاکہ ''جاگیرداروں کا حکومت میں حصہ ہونا چاہیے تا کہ اِن انتہائی اہم مفادات کا تحفظ کیا جائے اور دوسری طاقت کو کنٹرول اور توازن میں رکھا جائے۔ اور ان کو اس طرح اس نظام کا حصہ ہونا چاہئے کہ وہ دولت مند اقلیت کو اکثریت سے بچاسکیں''۔ مشہور ڈیموکریٹ رابرٹ سی بیرڈRobert C Byrdنے اپنے جمہوری ملک کی حقیقت کے متعلق یہ کہا کہ ''دولت مندوں کا انتظام و انصرام ،دولت مندوں کے ذریعے ،دولت مندوں کے لیے ۔۔۔۔آج میں اپنے ملک کے لیے روتا ہوں''۔جدید جمہوریتوں میں جاگیرداروں کی جگہ کارپوریٹ سرمایہ داروں،صنعت کاروں، بڑی بڑی جائیدادوں کے مالکوں اور سیاسی خاندانوں نے سنبھال لی ہے۔

 

جمہوریت اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتی ہے

          جمہوریت میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاسی خاندان اس لیے دولت مند ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ  معاشرے میں موجود دولت کے بے پناہ وسائل کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔خصوصاً ان کا نشانہ ریاستی ادارے اور عوامی اثاثہ جات، جیسےہتھیار سازی کے بڑے بڑے ادارے، بینک اور توانائی کی صنعت، وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور فرانس میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے خاندان حکمرانی میں ہوتے ہیں۔  دولت انتہاء درجے مرتکز ہو چکی ہے یہاں تک کہ 90فیصد دولت محض 5فیصد لوگوں میں محدود ہے۔  بھارت میں جمہوریت ستر  سال سے بھی زائد عرصے سے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انتہائی دولت مند براہمن اشرافیہ ہے جبکہ دوسری طرف عوام ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پر مجبورہیں۔

 

پاکستان میں جمہوریت اشرافیہ اور استعماردونوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے

 پاکستان میں بھی سیاست دان جمہوریت میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تا کہ اپنی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کرسکیں۔ تو یہ کہاوت حقیقتاً جمہوریت کے لیے موزوں ہے کہ ''طاقت کرپٹ  کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کردیتی ہے''۔ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت ہی وہ وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال  ہونے کے باوجود ملک  کے لوگ غریب ہیں جبکہ سیاسی اور فوجی اشرافیہ انتہائی دولت مند ہیں۔ گزشتہ سات   دہائیوں میں چھوٹی سی اشرافیہ قانون سازی کے ذریعے عوامی اور ریاستی اثاثہ جات کی مالک بن گئی ہے۔    جمہوریت کے ذریعے یہ لوگ  ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کے کاروباری مفادات کو فائدہ حاصل ہوا ور وہ اپنے اثاثوں کو ٹیکسوں سے بھی محفوظ کرلیں۔   اپنے اثاثوں اور دولت کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اس اشرافیہ کو جمہوریت نے یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں اور سرپرستوں کے مفادات کو بھی پورا کریں اور معاشرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں۔  تو  جمہوریت کا شکریہ !  جس کے ذریعے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدّاروں نے اپنی اپنی مدت کے دوران بہت بڑی تعداد میں دولت جمع کی ، اپنے مغربی آقاوں کی خاطر پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیلا اور خارجہ تعلقات میں پاکستان کو ذلت آمیز مقام پر لا کھڑا کیا۔

 

 

جمہوریت کو مزید وقت دینے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے

یہ ایک بیوقوفانہ بات ہو گی کہ جمہوریت کوکام کرنے کے لیے وقت دیا جائے کیونکہ درحقیقت وہ اپنا کام پہلے سے ہی کررہی ہے جو کہ اشرافیہ کے چھوٹے سے گروہ کا تحفظ کرنا،جبکہ عوام کا استحصال کرناہے۔  موجودہ نظام سے تبدیلی کی امید لگانا ایک خوش فہمی ہے چاہے ایک درجن مزید انتخابات ہی کیوں نہ کرا دیے جائیں۔ اورعوام کی دولت پر دونوں ہاتھوں سے ڈاکے ڈالنے کے بعد  جب یہ جمہوری اشرافیہ انتخابات کے دنوں میں چند دنوں کے لیے عوام کو اپنا چہرہ دکھاتی ہے توچند ایک سڑکوں اور اسکولوں کی تعمیر کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے ، تاکہ ہم ڈاکے کے ایک اور موقع کے لیے انہیں دوبارا منتخب کر لیں۔ تویقیناً مغربی اقوام پورے جوش و خروش سے پاکستان میں جمہوریت کی حمائت کریں گی اور اس کی بقأ کے لیے دل کھول کر اپنا مال بھی لگائیں گی کیونکہ جمہوریت نے مغرب کے لیے بغیر کسی تعطل کے کرپٹ غداروں کی سپلائی کو جاری و ساری رکھا جنھوں نے استعماری مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جبکہ جمہوریت نے مسلمانوں کو بدحال اور محروم رکھا اور اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کسی بھی کوشش کو روکے رکھا۔ اگر کوئی مسلمان اس جمہوری نظام میں ووٹ ڈالتا بھی ہے تو وہ ''بُروں میں سے سب سے کم برے''کو ووٹ ڈالتا ہےاور ایک بڑے چور کے مقابلے میں چھوٹے چور کا انتخاب کرتا ہے۔

 

خلافت نے صدیوں تک مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ضرورت کو پورا کیا

مسلم امت کی خواہش ایک اسلامی نظام ہے۔ عیسائی ریاستوں کے برخلاف ،اسلامی ریاست نے لوگوں پر ظلم نہیں کیا تھا اور نہ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ کئی صدیوں تک خلافت مذہب،مسلک یا جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیے بغیر،انسانیت کے لیے ایک روشن مینار تھی چاہے اس کا تعلق صنعت سے ہو یا پھرزراعت،طب اور دیگرسائنسی علوم سے  یا پھر انسانوں کو حقوق کی فراہمی سے۔ یہ دنیا بھر کے مہاجرین کے لیے جائے پناہ تھی جیسا کہ پندرھویں صدی عیسوی میں اسپین کے عیسائیوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر آنے والے یہودیوں نے خلافت میں پناہ حاصل کی۔ لہٰذا عیسائی لوگوں کے مقابلے میں جنھوں نے کرپٹ مذہبی حکمرانی کی جگہ کرپٹ جمہوریت کو قبول کرلیا،مسلمانوں کو اس حل کو قبول کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اور جیسا کہ حالیہ سالوں کی صورتحال سے یہ واضح ہے کہ اب امت اسلام کا نفاذاورخلافت کا قیام چاہتی ہے۔

 

خلافت رنگ،نسل،مذہب اور جنس  سے قطع نظرتمام لوگوں کے حقوق کا بلاامتیازتحفظ کرتی ہے

اسلام اس بنیاد ہی کو ختم کردیتا ہے جو لوگوں کے امور سے غفلت کا باعث بنتی ہے جو کہ جمہوریت ہے۔مسلمان کلمہ ''لا الہ الا اللہ''  پر ایمان رکھتے ہیں جس کا مطلب ہے صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی اس بات کا تعین کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ جبکہ جمہوریت کی بنیادآمریت ہی کی طرح اس کلمہ پر ہوتی ہے کہ'' لا الہ الا انسان'' ،جس کے مطلب ہے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے انسانوں کے۔اس بات کے باوجود کہ انسانی ذہن کے پاس محدود علم ہے ، وہ فیصلے کرنے میں غلطی کرتا ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ ذاتی مفاد سے مکمل طور پربےغرض ہوجائے ، جمہوریت میں انسانی ذہن کو ہی صحیح اور غلط کے تعین کے لیے پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ پس جمہوریت نےانسانوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ قانون سازی کر کےدوسرے انسانوں پر ظلم کو جائز بنا لیں۔

         جمہوریت انسانوں کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ چاہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کریں یا اس کی نافرمانی کریں۔ اس کے برخلاف خلافت میں مسلمان اسلام کے اوامر و نواہی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِينًا)

''اللہ اور اس کا رسول جب کوئی فیصلہ کریں تو کسی مؤمن مرد یا عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ ''(الاحزاب،33:36)۔

 

جبکہ جمہوریت میں اسمبلیوں میں موجود مرد و خواتین حضرات خودمختار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق قوانین کو اختیار کریں یا بنائیں۔ خلافت میں مسلمان صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس کے احکامات کے مطابق عمل کرتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

( وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ)

''اور یہ کہ ( آپ ﷺ ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات )کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی کبھی نہ کریں۔  او ر ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات)کے بارے میں آپ ﷺکو فتنے میں نہ ڈال دیں''(المائدہ،5:49)۔

 

جمہوریت کا خاتمہ کر کے خلافت اپنے تمام شہریوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے گی ۔ حزب التحریر نے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ1میں اس کا اعلان کیا ہے کہ ''اسلامی عقیدہ ہی ریاست کی بنیاد ہے،یعنی ریاست کی ساخت، اس کے ڈھانچے، اس کا محاسبہ یا کوئی بھی ایسی چیز جو ریاست سے متعلق ہو، وہ اسلامی عقیدے ہی کی بنیادپر استوار ہوگی۔  دستور اور شرعی قوانین کی بنیاد بھی یہی عقیدہ ہے۔ دستور اورقوانین سے متعلق صرف اس چیز کو قبول کیا جائے گا، جواسلامی عقیدے سے اخذ کردہ ہو''۔

 

جمہوریت کے خاتمے کے بعد ہی اختیارات کے دائرہ کارکا تعین حقیقت کا روپ اختیار کرے گا

جمہوریت کے خاتمے کے بعد ہی اختیارات کے دائرہ کار کا تعین حقیقت کا روپ اختیار کرے گی کیونکہ جمہوریت میں اختیارات کی تقسیم کا مقصد صرف اشرافیہ کے ہاتھوں کمزور لوگوں پر ظلم و جبر کرنے کے حق کو محفوظ بنانا ہے۔جہاں تک خلافت میں اختیارات کے دائرہ کارکا تعلق ہے تو اس کے تمام قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اور اسلام احتساب کی لازمی ذمہ داری امت مسلمہ پر ڈالتا ہے۔ امت ہی اسلامی ریاست کے احتساب اور اس کے تحفظ کی پہلی اور آخری ذمہ دار ہے۔ امت خلیفہ کی حمائت ،مدد اور معاونت کرتی ہے لیکن اگر وہ اسلام سے ہٹتا ہے تو امت کو اس کا لازمی احتساب کرنا ہے اور اگر وہ اسلام کو مکمل طور پر چھوڑ دیتا ہے تو اس سے لڑا جائے گا اور اسے اس کے منصب سے ہٹایا جائے گا۔ عبادہ بن صامت  کی بیعت والی حدیث میں ہے:  وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنْ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ    "اور یہ کہ ہم اہل امر سے تنازعہ نہ کریں  مگر کوئی ایسا واضح کفر ظاہر ہو جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے حجت ہو۔"(بخاري)۔

 

 

مظالم کی عدالت: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

" اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس  تنازعے میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو"(النساء 4:59)۔    

 

حزب التحریرنے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 24میں اعلان کیا ہے کہ''خلیفہ ہی اختیار اور شریعت کے نفاذ میں امت کا نمائندہ ہوتا ہے ''۔اسلام میں مظالم کی عدالت کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خلیفہ یا  والی (گورنر) کی جانب سے حکمرانی سے متعلق کسی بھی ذمہ داری میں ناکامی یا کوتاہی کی تفتیش کرتی ہے۔ یہ عدالت حکمرانوں کے کسی بھی ظلم کے خلاف بغیر کسی درخواست یا مقدمہ کے خود سے ان کے خلاف تفتیش کا آغاز کرسکتی ہے۔ حزب التحریر نے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ41میں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ'' صرف محکمتہ المظالم ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا خلیفہ کی حالت کی تبدیلی ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اس منصب پر فائز رہنے کے قابل نہیں رہا اورصرف محکمۂ المظالم کے پاس خلیفہ کو تنبیہ کرنے یا اس کو برطرف کرنے کا اختیار ہے۔'' اور دستور کی دفعہ87میں کہا گیا ہے کہ ''قاضی مظالم وہ قاضی ہوتاہے جس کاتقرر ریاست کے زیر سایہ زندگی گزارنے والے ہر شخص پرہونے والے ریاستی ظلم کا تدارک کرنے کے لیے ہوتاہے۔ خواہ وہ شخص ریاست کی رعایامیں سے ہویا نہ ہو۔ یہ ظلم خواہ ریاست کے سربراہ کی طرف سے ہویا اس کے علاوہ کسی اور حاکم یا سرکاری ملازم کی طرف سے۔''۔  اس کے علاوہ خلیفہ کو اس بات کاحق حاصل نہیں کہ وہ احتساب کے عمل میں مداخلت کرسکے خصوصاً اگر وہ احتساب خوداس کے خلاف کیا جارہا ہو ،یعنی اسلام نے خلیفہ کو اس بات کا اختیار نہیں دیا کہ اگر قاضی مظالم خلیفہ کے خلاف شکایت سن رہا ہے یا اس کی تفتیش کررہا ہے تو وہ اس کو اس کے عہدے سے سبکدوش کرسکے ،جیسا کہ دفعہ88میں لکھا ہے کہ ''قاضی مظالم کی تقرری خلیفہ یا قاضی القضاء کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کا محاسبہ،اس کو تنبیہ یا اس کی بر طرفی خلیفہ کی طرف سے ہوتی ہے یا پھر قاضی القضاء کی جا نب سے بشرطیکہ خلیفہ کی طرف سے اس کو اس کا اختیار دیا گیا ہو۔مگر اس کی برطرفی اس وقت درست نہیں ہو تی جس وقت وہ خلیفہ یا معاون تفویض یا پھرقاضی القضاء کی طرف سے کی گئی کسی زیادتی کے بارے میں چھان بین کر رہا ہو۔اس صورت میں اس کو برطرف کر نے کا اختیار محکمۂ المظالم کے پاس ہو گا''۔

 

مجلسِ اُمت: شریعت نے مسلمانوں کے امور  کی دیکھ بھال کے لیے نمائندوں کے انتخاب کی اجازت دی ہے۔  رسول اللہﷺ نے بیعتِ عقبہ ثانی کے موقع پر انصار سے فرمایا :((أَخْرِجُوا إلَيّ مِنْكُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا، لِيَكُونُوا عَلَى قَوْمِهِمْ بِمَا فِيهِمْ)) ''اپنے میں سے بارہ سردار منتخب کرو جواپنے لوگوں کے امور میں ان کے نمائندہ ہوں'' (ابنِ ہشام نے کعب بن مالک ؓسے روایت کیا)۔مجلس امت کے منتخب اراکین بھی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ خلیفہ مختلف معاملات پر ،جن میں والی ( گورنر) اور معاونین کا تقرر بھی شامل ہے، مجلسِ امت سے مشورہ کرتا ہے۔ جیسا کہ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 105میں اعلان کیا گیا ہے کہ ''وہ اشخاص(افراد)جو رائے میں مسلمانوں کی نمائندگی کر تے ہیں اور خلیفہ ان کی طرف رجوع کرتا ہے ان کو مجلسِ امّت کہا جا تا ہے.وہ اشخاص جو اہل ولایہ(صوبے کے لوگوں) کی نمائندگی کر تے ہیں ان کو مجالسِ ولایات کہا جا تا ہے۔غیر مسلموں کے لیے حکمرانوں کے ظلم یا احکامِ شریعت کی غلط تنفیذکی شکا یت کی غرض سے مجلسِ امّت میں شامل ہونا جائز ہے''۔  اس طرح دفعہ111میں مجلس امت کی مخصوص ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں کہ ''مجلسِ امت کو تمام معاملات میں ریاست کے محاسبہ کا حق حاصل ہے۔ خواہ ان کا تعلق خارجہ امور سے ہو یا یہ داخلی امورسے یا یہ مالیات ، فوج یا دیگر امور سے متعلق ہوں''۔اس کے علاوہ '' مجلسِ امت والیوں اور معاونین اور عمال کے بارے میں ناپسندیدگی (عدمِ اعتماد)کا اظہار کرسکتی ہے اوراس معاملے میں مجلس کی رائے پرعمل کرنا خلیفہ کے لیے ضرور ی ہوگااورخلیفہ انہیں فوراً برطرف کردے گا''۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا بھی حکومتی معاملات پر نظر رکھنے میں معاونت فراہم کرے گا۔

 

 

اسلام کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتیں: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

((وَلْتَكُنْ منكُمْ أمّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ويَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَأُولئكَ هُمُ المُفْلِحُون))

"اور تم میں کم ازکم ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔"(آل عمران،3:104)۔

 

اسلام کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتیں ایک اور ذریعہ ہوں گی جو خلیفہ کا احتساب اور اس کی رہنمائی کررہی ہوں گی۔  ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 21میں کہا گیا ہے کہ ''حکا م کے احتسا ب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیا سی پا رٹیا ں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حا صل ہے بشر طیکہ ان پا رٹیوں کی بنیا د اسلا می عقیدہ ہواور جن احکا مات کی یہ پا رٹیا ں تبنی کر تی ہوں وہ اسلا می احکا ما ت ہوں ۔ کو ئی پا رٹی بنا نے کے لیے کسی اجا زت کی ضرو رت نہیں ، ہا ں ہر وہ پا رٹی ممنو ع ہو گی جس کی اساس اسلا م نہ ہو''۔

 

بسم الله الرحمن الرحيم

جمہوریت نے اپنا وقت پورا کرلیا ہے، اب خلافت کا وقت ہے، جو اسلام کا نظامِ حکومت ہے

مغرب میں بھی جمہوریت  لوگوں کے امور سے غفلت برتتی ہے

         جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں عوام کی اکثریت لازماً اشرافیہ کے ایک مختصرگروہ کے ہاتھوں استحصال کاشکار ہوجاتی ہے۔یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ و ہی لوگ امیر ترین ہیں جنھیں سیاست دانوں کی مدد و حمایت کے ذریعے بلا واسطہ یا بل واسطہ طور پر سیاسی قوت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔  جمہوریت کا مقصد کبھی بھی عوام کو انصاف فراہم کرنا نہیں رہا بلکہ اس کاڈول اس لیے ڈالا گیا تاکہ طاقت کوچند لوگوںمیں ہی محدود رکھا جائے نتیجتاً دولت بھی چند ہاتھوں میں محدودرہے۔ میڈیسن نے، جو کہ امریکی آئین کابانی تھا ، جمہوریت کی اس خاصیت کا یوں اظہار کیاکہ ''جاگیرداروں کا حکومت میں حصہ ہونا چاہیے تا کہ اِن انتہائی اہم مفادات کا تحفظ کیا جائے اور دوسری طاقت کو کنٹرول اور توازن میں رکھا جائے۔ اور ان کو اس طرح اس نظام کا حصہ ہونا چاہئے کہ وہ دولت مند اقلیت کو اکثریت سے بچاسکیں''۔ مشہور ڈیموکریٹ رابرٹ سی بیرڈRobert C Byrdنے اپنے جمہوری ملک کی حقیقت کے متعلق یہ کہا کہ ''دولت مندوں کا انتظام و انصرام ،دولت مندوں کے ذریعے ،دولت مندوں کے لیے ۔۔۔۔آج میں اپنے ملک کے لیے روتا ہوں''۔جدید جمہوریتوں میں جاگیرداروں کی جگہ کارپوریٹ سرمایہ داروں،صنعت کاروں، بڑی بڑی جائیدادوں کے مالکوں اور سیاسی خاندانوں نے سنبھال لی ہے۔

جمہوریت اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتی ہے

         جمہوریت میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاسی خاندان اس لیے دولت مند ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ  معاشرے میں موجود دولت کے بے پناہ وسائل کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔خصوصاً ان کا نشانہ ریاستی ادارے اور عوامی اثاثہ جات، جیسےہتھیار سازی کے بڑے بڑے ادارے، بینک اور توانائی کی صنعت، وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور فرانس میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے خاندان حکمرانی میں ہوتے ہیں۔  دولت انتہاء درجے مرتکز ہو چکی ہے یہاں تک کہ 90فیصد دولت محض 5فیصد لوگوں میں محدود ہے۔ بھارت میں جمہوریت ستر سال سے بھی زائد عرصے سے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انتہائی دولت مند براہمن اشرافیہ ہے جبکہ دوسری طرف عوام ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پر مجبورہیں۔

پاکستان میں جمہوریت اشرافیہ اور استعماردونوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے

پاکستان میں بھی سیاست دان جمہوریت میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تا کہ اپنی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کرسکیں۔ تو یہ کہاوت حقیقتاً جمہوریت کے لیے موزوں ہے کہ ''طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کردیتی ہے''۔ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت ہی وہ وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کے لوگ غریب ہیں جبکہ سیاسی اور فوجی اشرافیہ انتہائی دولت مند ہیں۔ گزشتہ سات   دہائیوں میں چھوٹی سی اشرافیہ قانون سازی کے ذریعے عوامی اور ریاستی اثاثہ جات کی مالک بن گئی ہے۔  جمہوریت کے ذریعے یہ لوگ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کے کاروباری مفادات کو فائدہ حاصل ہوا ور وہ اپنے اثاثوں کو ٹیکسوں سے بھی محفوظ کرلیں۔   اپنے اثاثوں اور دولت کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اس اشرافیہ کو جمہوریت نے یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں اور سرپرستوں کے مفادات کو بھی پورا کریں اور معاشرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں۔ تو جمہوریت کا شکریہ ! جس کے ذریعے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدّاروں نے اپنی اپنی مدت کے دوران بہت بڑی تعداد میں دولت جمع کی ، اپنے مغربی آقاوں کی خاطر پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیلا اور خارجہ تعلقات میں پاکستان کو ذلت آمیز مقام پر لا کھڑا کیا۔

جمہوریت کو مزید وقت دینے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے

یہ ایک بیوقوفانہ بات ہو گی کہ جمہوریت کوکام کرنے کے لیے وقت دیا جائے کیونکہ درحقیقت وہ اپنا کام پہلے سے ہی کررہی ہے جو کہ اشرافیہ کے چھوٹے سے گروہ کا تحفظ کرنا،جبکہ عوام کا استحصال کرناہے۔ موجودہ نظام سے تبدیلی کی امید لگانا ایک خوش فہمی ہے چاہے ایک درجن مزید انتخابات ہی کیوں نہ کرا دیے جائیں۔ اورعوام کی دولت پر دونوں ہاتھوں سے ڈاکے ڈالنے کے بعد جب یہ جمہوری اشرافیہ انتخابات کے دنوں میں چند دنوں کے لیے عوام کو اپنا چہرہ دکھاتی ہے توچند ایک سڑکوں اور اسکولوں کی تعمیر کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتی ہے ، تاکہ ہم ڈاکے کے ایک اور موقع کے لیے انہیں دوبارا منتخب کر لیں۔ تویقیناً مغربی اقوام پورے جوش و خروش سے پاکستان میں جمہوریت کی حمائت کریں گی اور اس کی بقأ کے لیے دل کھول کر اپنا مال بھی لگائیں گی کیونکہ جمہوریت نے مغرب کے لیے بغیر کسی تعطل کے کرپٹ غداروں کی سپلائی کو جاری و ساری رکھا جنھوں نے استعماری مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جبکہ جمہوریت نے مسلمانوں کو بدحال اور محروم رکھا اور اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کسی بھی کوشش کو روکے رکھا۔ اگر کوئی مسلمان اس جمہوری نظام میں ووٹ ڈالتا بھی ہے تو وہ ''بُروں میں سے سب سے کم برے''کو ووٹ ڈالتا ہےاور ایک بڑے چور کے مقابلے میں چھوٹے چور کا انتخاب کرتا ہے۔

خلافت نے صدیوں تک مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ضرورت کو پورا کیا

مسلم امت کی خواہش ایک اسلامی نظام ہے۔ عیسائی ریاستوں کے برخلاف ،اسلامی ریاست نے لوگوں پر ظلم نہیں کیا تھا اور نہ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ کئی صدیوں تک خلافت مذہب،مسلک یا جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیے بغیر،انسانیت کے لیے ایک روشن مینار تھی چاہے اس کا تعلق صنعت سے ہو یا پھرزراعت،طب اور دیگرسائنسی علوم سے  یا پھر انسانوں کو حقوق کی فراہمی سے۔ یہ دنیا بھر کے مہاجرین کے لیے جائے پناہ تھی جیسا کہ پندرھویں صدی عیسوی میں اسپین کے عیسائیوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر آنے والے یہودیوں نے خلافت میں پناہ حاصل کی۔ لہٰذا عیسائی لوگوں کے مقابلے میں جنھوں نے کرپٹ مذہبی حکمرانی کی جگہ کرپٹ جمہوریت کو قبول کرلیا،مسلمانوں کو اس حل کو قبول کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اور جیسا کہ حالیہ سالوں کی صورتحال سے یہ واضح ہے کہ اب امت اسلام کا نفاذاورخلافت کا قیام چاہتی ہے۔

خلافت رنگ،نسل،مذہب اور جنس سے قطع نظرتمام لوگوں کے حقوق کا بلاامتیازتحفظ کرتی ہے

اسلام اس بنیاد ہی کو ختم کردیتا ہے جو لوگوں کے امور سے غفلت کا باعث بنتی ہے جو کہ جمہوریت ہے۔مسلمان کلمہ ''لا الہ الا اللہ''  پر ایمان رکھتے ہیں جس کا مطلب ہے صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی اس بات کا تعین کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ جبکہ جمہوریت کی بنیادآمریت ہی کی طرح اس کلمہ پر ہوتی ہے کہ'' لا الہ الا انسان'' ،جس کے مطلب ہے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے انسانوں کے۔اس بات کے باوجود کہ انسانی ذہن کے پاس محدود علم ہے ، وہ فیصلے کرنے میں غلطی کرتا ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ ذاتی مفاد سے مکمل طور پربےغرض ہوجائے ، جمہوریت میں انسانی ذہن کو ہی صحیح اور غلط کے تعین کے لیے پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ پس جمہوریت نےانسانوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ قانون سازی کر کےدوسرے انسانوں پر ظلم کو جائز بنا لیں۔

         جمہوریت انسانوں کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ چاہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کریں یا اس کی نافرمانی کریں۔ اس کے برخلاف خلافت میں مسلمان اسلام کے اوامر و نواہی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِينًا)''اللہ اور اس کا رسول جب کوئی فیصلہ کریں تو کسی مؤمن مرد یا عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ ''(الاحزاب،33:36)۔جبکہ جمہوریت میں اسمبلیوں میں موجود مرد و خواتین حضرات خودمختار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق قوانین کو اختیار کریں یا بنائیں۔ خلافت میں مسلمان صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس کے احکامات کے مطابق عمل کرتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،( وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ)''اور یہ کہ ( آپ ﷺ ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات )کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی کبھی نہ کریں۔  او ر ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات)کے بارے میں آپ ﷺکو فتنے میں نہ ڈال دیں''(المائدہ،5:49)۔

جمہوریت کا خاتمہ کر کے خلافت اپنے تمام شہریوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے گی ۔ حزب التحریر نے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ1میں اس کا اعلان کیا ہے کہ ''اسلامی عقیدہ ہی ریاست کی بنیاد ہے،یعنی ریاست کی ساخت، اس کے ڈھانچے، اس کا محاسبہ یا کوئی بھی ایسی چیز جو ریاست سے متعلق ہو، وہ اسلامی عقیدے ہی کی بنیادپر استوار ہوگی۔  دستور اور شرعی قوانین کی بنیاد بھی یہی عقیدہ ہے۔ دستور اورقوانین سے متعلق صرف اس چیز کو قبول کیا جائے گا، جواسلامی عقیدے سے اخذ کردہ ہو''۔ 

جمہوریت کے خاتمے کے بعد ہی اختیارات کے دائرہ کارکا تعین حقیقت کا روپ اختیار کرے گا

جمہوریت کے خاتمے کے بعد ہی اختیارات کے دائرہ کار کا تعین حقیقت کا روپ اختیار کرے گی کیونکہ جمہوریت میں اختیارات کی تقسیم کا مقصد صرف اشرافیہ کے ہاتھوں کمزور لوگوں پر ظلم و جبر کرنے کے حق کو محفوظ بنانا ہے۔جہاں تک خلافت میں اختیارات کے دائرہ کارکا تعلق ہے تو اس کے تمام قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اور اسلام احتساب کی لازمی ذمہ داری امت مسلمہ پر ڈالتا ہے۔ امت ہی اسلامی ریاست کے احتساب اور اس کے تحفظ کی پہلی اور آخری ذمہ دار ہے۔ امت خلیفہ کی حمائت ،مدد اور معاونت کرتی ہے لیکن اگر وہ اسلام سے ہٹتا ہے تو امت کو اس کا لازمی احتساب کرنا ہے اور اگر وہ اسلام کو مکمل طور پر چھوڑ دیتا ہے تو اس سے لڑا جائے گا اور اسے اس کے منصب سے ہٹایا جائے گا۔ عبادہ بن صامت  کی بیعت والی حدیث میں ہے:  وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنْ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ   "اور یہ کہ ہم اہل امر سے تنازعہ نہ کریں  مگر کوئی ایسا واضح کفر ظاہر ہو جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے حجت ہو۔"(بخاري)۔

مظالم کی عدالت: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ " اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس  تنازعے میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو"(النساء 4:59)۔   حزب التحریرنے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 24میں اعلان کیا ہے کہ''خلیفہ ہی اختیار اور شریعت کے نفاذ میں امت کا نمائندہ ہوتا ہے ''۔اسلام میں مظالم کی عدالت کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خلیفہ یا والی (گورنر) کی جانب سے حکمرانی سے متعلق کسی بھی ذمہ داری میں ناکامی یا کوتاہی کی تفتیش کرتی ہے۔ یہ عدالت حکمرانوں کے کسی بھی ظلم کے خلاف بغیر کسی درخواست یا مقدمہ کے خود سے ان کے خلاف تفتیش کا آغاز کرسکتی ہے۔ حزب التحریر نے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ41میں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ'' صرف محکمتہ المظالم ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا خلیفہ کی حالت کی تبدیلی ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اس منصب پر فائز رہنے کے قابل نہیں رہا اورصرف محکمۂ المظالم کے پاس خلیفہ کو تنبیہ کرنے یا اس کو برطرف کرنے کا اختیار ہے۔'' اور دستور کی دفعہ87میں کہا گیا ہے کہ ''قاضی مظالم وہ قاضی ہوتاہے جس کاتقرر ریاست کے زیر سایہ زندگی گزارنے والے ہر شخص پرہونے والے ریاستی ظلم کا تدارک کرنے کے لیے ہوتاہے۔ خواہ وہ شخص ریاست کی رعایامیں سے ہویا نہ ہو۔ یہ ظلم خواہ ریاست کے سربراہ کی طرف سے ہویا اس کے علاوہ کسی اور حاکم یا سرکاری ملازم کی طرف سے۔''۔ اس کے علاوہ خلیفہ کو اس بات کاحق حاصل نہیں کہ وہ احتساب کے عمل میں مداخلت کرسکے خصوصاً اگر وہ احتساب خوداس کے خلاف کیا جارہا ہو ،یعنی اسلام نے خلیفہ کو اس بات کا اختیار نہیں دیا کہ اگر قاضی مظالم خلیفہ کے خلاف شکایت سن رہا ہے یا اس کی تفتیش کررہا ہے تو وہ اس کو اس کے عہدے سے سبکدوش کرسکے ،جیسا کہ دفعہ88میں لکھا ہے کہ ''قاضی مظالم کی تقرری خلیفہ یا قاضی القضاء کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کا محاسبہ،اس کو تنبیہ یا اس کی بر طرفی خلیفہ کی طرف سے ہوتی ہے یا پھر قاضی القضاء کی جا نب سے بشرطیکہ خلیفہ کی طرف سے اس کو اس کا اختیار دیا گیا ہو۔مگر اس کی برطرفی اس وقت درست نہیں ہو تی جس وقت وہ خلیفہ یا معاون تفویض یا پھرقاضی القضاء کی طرف سے کی گئی کسی زیادتی کے بارے میں چھان بین کر رہا ہو۔اس صورت میں اس کو برطرف کر نے کا اختیار محکمۂ المظالم کے پاس ہو گا''۔

مجلسِ اُمت: شریعت نے مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے نمائندوں کے انتخاب کی اجازت دی ہے۔  رسول اللہﷺ نے بیعتِ عقبہ ثانی کے موقع پر انصار سے فرمایا :((أَخْرِجُوا إلَيّ مِنْكُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا، لِيَكُونُوا عَلَى قَوْمِهِمْ بِمَا فِيهِمْ)) ''اپنے میں سے بارہ سردار منتخب کرو جواپنے لوگوں کے امور میں ان کے نمائندہ ہوں'' (ابنِ ہشام نے کعب بن مالک ؓسے روایت کیا)۔مجلس امت کے منتخب اراکین بھی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ خلیفہ مختلف معاملات پر ،جن میں والی ( گورنر) اور معاونین کا تقرر بھی شامل ہے، مجلسِ امت سے مشورہ کرتا ہے۔ جیسا کہ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 105میں اعلان کیا گیا ہے کہ ''وہ اشخاص(افراد)جو رائے میں مسلمانوں کی نمائندگی کر تے ہیں اور خلیفہ ان کی طرف رجوع کرتا ہے ان کو مجلسِ امّت کہا جا تا ہے.وہ اشخاص جو اہل ولایہ(صوبے کے لوگوں) کی نمائندگی کر تے ہیں ان کو مجالسِ ولایات کہا جا تا ہے۔غیر مسلموں کے لیے حکمرانوں کے ظلم یا احکامِ شریعت کی غلط تنفیذکی شکا یت کی غرض سے مجلسِ امّت میں شامل ہونا جائز ہے''۔ اس طرح دفعہ111میں مجلس امت کی مخصوص ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں کہ ''مجلسِ امت کو تمام معاملات میں ریاست کے محاسبہ کا حق حاصل ہے۔ خواہ ان کا تعلق خارجہ امور سے ہو یا یہ داخلی امورسے یا یہ مالیات ، فوج یا دیگر امور سے متعلق ہوں''۔اس کے علاوہ '' مجلسِ امت والیوں اور معاونین اور عمال کے بارے میں ناپسندیدگی (عدمِ اعتماد)کا اظہار کرسکتی ہے اوراس معاملے میں مجلس کی رائے پرعمل کرنا خلیفہ کے لیے ضرور ی ہوگااورخلیفہ انہیں فوراً برطرف کردے گا''۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا بھی حکومتی معاملات پر نظر رکھنے میں معاونت فراہم کرے گا۔

اسلام کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتیں: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:  ((وَلْتَكُنْ منكُمْ أمّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ويَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَأُولئكَ هُمُ المُفْلِحُون)) "اور تم میں کم ازکم ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔"(آل عمران،3:104)۔ اسلام کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتیں ایک اور ذریعہ ہوں گی جو خلیفہ کا احتساب اور اس کی رہنمائی کررہی ہوں گی۔ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 21میں کہا گیا ہے کہ ''حکا م کے احتسا ب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیا سی پا رٹیا ں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حا صل ہے بشر طیکہ ان پا رٹیوں کی بنیا د اسلا می عقیدہ ہواور جن احکا مات کی یہ پا رٹیا ں تبنی کر تی ہوں وہ اسلا می احکا ما ت ہوں ۔ کو ئی پا رٹی بنا نے کے لیے کسی اجا زت کی ضرو رت نہیں ، ہا ں ہر وہ پا رٹی ممنو ع ہو گی جس کی اساس اسلا م نہ ہو''۔

29شعبان 1443 ہجری                                                          حزب التّحریر

1 اپریل 2022ء                                                                           ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ :29 من شـعبان 1443هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 01 اپریل 2022م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک